میرکےکلام میں کلمہ تمناو افسوس (اے کاش)اور حسرت “کے علامتی استعمال کا جائزہ

اعجاز احمد،ریسرچ اسکالر سکالر،علامہ   اقبال  اوپن یونی ورسٹی ،اسلام آباد

استاد شعبہ اردو،پنجاب کالج،کیمپس ۸،لاہور

Ejaz Ahmad

PhD Scholar, AIOU, Islamabad.

Department of Urdu, Punjab College, Campus 8, Lahore

A review of Symbolical use of the words Hasrat (حسرت ) and aay kash(اے کاش) in the poetry of Mir.

Abstract:

Mir taqi Mir ((۱۷۲۳ء۔ ۱۸۱۰ءis, no doubt, a legend of Urdu Ghazal which has traces of broken civilization, declined social structure, sadness and separation in his poetry. Poetry is the expression of personality as well as the era in which poet lives. When we take stock of Mir’s poetry, we find pathos and grief, failure and despair. Whatever he uttered something from the heart, it would be saturated in despair and failure. We feel empathy for Mir in the mirror of past .Mir’s age was the age of sorrow. Mir’s voice is full of melancholy, anxiety and loss. Mir’s shows his true self in his Ghazal,s .Heart broken in love and life because he never received what he deserved. This article is a review on his symbolic use of the words “Hasrat’’ (حسرت ) and “ aay kash”(اے کاش) which are full of sadness and melancholy.

شاعرانہ اظہارکے لیےمختلف پیرائے اور اندازاختیار کیے جاتے ہیں ۔ اس اظہار میں علامتی انداز اختیار کرنااورایک ہی خیال یا موضوع کومختلف پیرایوں میں مختلف تاثرات وموضوعات کے ساتھ ادا کرناشاعرانہ فکر کو نئی جہات سے روشناس کرتا ہے۔ شاعری میں الفاظ کا علامتی استعمال اسا لیب کے نئے نئے انداز سامنے لاتا ہےجس سے بعض شاعرانہ صفات و اظہار کےموضوعات نئی معنوی صفات کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ سیاق و سباق کی تبدیلی سے معنوی صفت اور موضوع بیان کا تاثر بھی بدل جاتا ہےاور علامت زندگی کے لامحدود بہاؤ میں ڈوب کر ہمیں معنی اور مفاہیم کے نت نئے اسالیب سےروشناس کراتی ہے۔ بقول ڈاکٹر سرور احمد)پ،۱۹۶۱ء):

”علامت ایک ایسا اشارہ ہے جو اپنے خواص کے ذریعےان خیالات کو قاری اور سامع تک لے جاتا ہےجو اس علامت کے پردے میں شاعر نے بیان کیے ہیں ۔ ۔ ۔ گویا علامت گاگر میں ساگر ہے۔ یعنی اندروں خیالات کی پردہ پوش بھی ہےاور پردہ دری بھی کرتی ہے۔ علامت کا یہی عمل اس کی بقا کا ضامن بھی ہے۔ “(۱)

علامت کے اندر کئی اظہار پنپ رہے ہوتے ہیں اور ہمارا تصور ہر رخ کی طرف ہماری رہنماءی کرتا ہے۔ ڈاکٹر انیس اشفاق(۱۹۵۰ء) علامت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

“علامت سے مراد وہ بیان ہےجس کے ذریعے جو کہاجائے اس سے کچھ زیادہ اور کچھ الگ معنی مراد لیے جائیں ۔ علامت ہمارے ذہن کومعانی کی کئی جہتوں کی طرف منتقل کرتی ہےاور اس کی خوبی یہی ہےکہ ان میں سے ہر جہت کے لیے موزوں قرار پائے۔ “(۲)

“علامت استعاروں کے مجموعے کے ذریعےمنفرد اور ذاتی محسوسات کی ترسیل کے لیے خیالات کا ایک پیچیدہ تلازمہ ہے”(۳)

ادب میں علامت کا استعمال یا علامتی طرز اظہار کی روایت بہت پرانی ہے۔ ویدوں سے کالی داس تک علامتوں کا نظام ملتا ہے۔ اسی طرح اردو غزل جو فارسی کے رموز وعلائم کی پروردہ ہے ،میں بھی متصوفانہ افکار اور داخلی وخارجی واردات کے اظہار کے لیے علامات وضع کی گئی ہیں ۔ اٹھارھویں صدی سے قبل اور بعد میں ہندوستان میں معاشی اورمعاشرتی انتشارنے زندگی کی زبوں حالی میں اضافہ کیا۔ تخریبی قوتیں اپنے پورے جاہ وجلال کے ساتھ اس کی تخریب کا سبب بنیں اور شاعری میں علامتوں کے استعمال نے اظہار کے نئے اسالیب فراہم کیےجواس دور کے شعرا کی شاعری میں نظر آتے ہیں ۔ یہ علامتیں اس خصوصیت کی حامل رہی ہیں کہ ان کے پس پردہ معانی اور مفاہیم کا ایک وسیع جہاں آباد ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا(۱۹۲۲ء۔ ۲۰۱۰ء) نےعلامتوں میں چھپی رمزیت اور مخفیت کو یوں واضح کیا ہے:

“علامت شے کو اس کے مخفی تصور سے منسلک کرتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ جب شے علامت کا روپ اختیار کرتی ہےتو قاری کے ذہن کواپنے مخفی تصور کی طرف موڑ دیتی ہے جب شاعر کسی شے یا لفظ کوعلامت کے طور پر استعمال کرتا ہےتو اپنی ٹخلیقی صلاحیت کی مدداس شے اور اس کے مخفی معنی میں ایک ربط دریافت کرتا ہے۔ شاعر کا جمالیاتی حظ اس کی اسی جست کے باعث ہے۔ “(۴)

یہ شعوراور لاشعور کی داخلی کشمکش ہے جوانسانی نفسیات کے پیچیدہ نظام میں موجودہے اور کسی مظہر کی طرح اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ یہ متضاد شخصی رویے کا اظہاریہ بھی ہے۔ ہر دور کے علامتی تقاضے مختلف ہیں اور شاعروادیب اپنے دور کے ماحول کو سامنے رکھ کر ان علامتوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ شاعری میں کچھ علامات عام اور ہر دور کی ضروریات پورا کرتی ہیں ۔ میر کا عہد ایک مکمل تہذیب کی تباہی اورایک نئی تہذیب کی بالادستی کا اعلان ہے۔ میر اپنے عہد کے انسان کی ٹوٹ پھوٹ اپنے اندر دیکھتا ہے۔ میر کی شاعری میں حسرت ویاس کا تصور دراصل ان کی اپنی نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ ہے جس پر اس دور کی بربادی کا مکمل اثر ہے۔ چنانچہ اس دعوٰی میں مکمل صداقت ہے کہ :

اٹھارھویں صدی تاج محل والی تہذیب کے زوال کی صدی ہے۵؎۔ مرکزی طاقت کے کمزورہوتے ہی تمام علاقوں نے خودمختاری کا اعلان کر دیا۔ معاشرتی اور سیاسی صورتحا ل کے کمزور ہوتے ہی لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا۔ زندگی پر اعتبار ختم ہوا۔ غم و الم ،یاسیت ،خود غرضی اورفسطایت ماحول کا حصہ بن گئے۔ منتشر معاشرے اور بے لگا م جنگجو جتھوں نے زندگی اجیرن کردی۔ یہ دورانحطاط ادب میں نئی آوازوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ آوازیں (میرتقی میر(۱۷۲۳ء۔ ۱۸۱۰ء)،مرزا محمد رفیع سودا(۱۷۱۳ء۔ ۱۷۸۱ء)ا،خواجہ میر درد(۱۷۲۰ء۔ ۱۷۸۵ء))اس عصر کی اس طرح ترجمانی کرتی ہیں کہ باقی آوازیں ان میں جذب ہو جاتی ہیں ۔ چناں چہ یاسیت ،فنا،دنیا کی بے ثباتی اور تصوف کےموضوعات اور ان سے متعلقہ علامات اردو شاعری کا جزو اول ٹھہرے،جس میں مٹتی ہوئی تہذیب کا اجتماعی کرب موجودہے۔

اس دور کے سماجی حالات کی تصویر بہت دل شکن ہے۔ لوگوں کے دل ودماغ میں شعوری اور لاشعوری طور پرتباہ کن سیاسی انقلاب کے اثرات جاگزیں تھےجوہندوستانی عوام خصوصااہل دہلی محسوس کرتے تھے۔ اس حوالے سےتمام شعرا نے اپنے احساسات،تاثرات اور مشاہدات کے اظہار کے لیے منفرد علامتوں کا استعمال کیا ہے۔ اس تناظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسانی نفسیات کا تجزیہ کیا جائے تو ممکن نہیں اس سے اس شکست وریخت کا تصور نکالا جا سکے۔ مولوی عبدلحق(۱۸۷۰ء۔ ۱۹۶۱ء) لکھتے ہیں :

“سب سے اول نادرشاہ کا حملہ ہوا،حملہ کیا تھا خدا کا قہرتھا۔ نادر کی بے پناہ تلواراوراس کے سپاہیوں کی ہوس ناک غارت گری نے دہلی کو لوچ کھسوٹ کے ویران و بربادکردیا تھا۔ ابھی یہ کچھ سنبھلنے ہی پائی تھی کہ چند سال بعد احمد شاہ درانی کی چڑھائی،پھرمرہٹوں ،جاٹوں ،روہیلوں نے وہ اودھم مچائی کہ رہی سہی بات بھی جاتی رہی۔ “(۶)

میر تقی میر ان تمام حالات و واقعات کے شاہد ہیں ۔ تباہی اور بربادی کے تمام منا ظر دیکھنےوالاان کے اثرات سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔ میر کی شخصیت تو پہلے ہی حساسیت کا شکار تھی ۔ وہ اس ظلم جبر کوکس طرح اپنی نفسیات سے نکال سکتے تھے۔ افغان فوجیوں کے ہاتھوں دلی کے شہریوں  پر جو گزری اس کے بارے میں میر تقی میر لکھتے ہیں :

“شہر کو آگ لگا دی۔ گھروں کو جلانا اور لوٹنا شروع کر دیا۔ صبح کو، جو صبح ِقیامت تھی، ساری فوج اور روہیلوں نے مل کر پورے شہر کو تاخت و تاراج کر دیا اور قتل و غارت گری مچا دی۔  گھروں کے دروازے توڑ دئیے، لوگوں کی مشکیں باندھیں ۔ کئی ایک کو نذر آتش کر دیا اور کتنوں کے سر قلم کر دیے ۔ ایک عالم کو خون میں  لت پت کر دیا۔ تین دن اور تین رات تک وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے۔ نہ کھانے کو چھوڑا نہ پہننے کو، چھتوں میں شگاف ڈال دیے اور دیواریں مسمار کر دیں ۔ لوگوں کے کلیجے بھون دیے اور دل جلا ڈالے۔ ۔ ۔ ۔ شہر کے اکابرین کی عزت خاک میں ملا دی۔ ۔ ۔ ۔ امیر امراء مفلس و نادار بن گئے، رذیل و شریف سب ننگے دھڑنگے ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ بہتوں کی عورتیں اور بچے گرفتار کر لیے گئے۔ ۔ ۔ ۔ قتل عام اور غارت گری کا بازار گرم تھا۔ ۔ ۔ ۔ نیا شہر خاک کا ڈھیر ہو کر رہ گیا “(۷)

ایک فرد کی نفسیاتی کیفیات،اس کے شعور اور لاشعورکی تہوں  میں موجودگردش حالات کی تصاویراور ان کے محرکات تک رسائی ممکن نہیں ۔ لیکن جس ماحول سے وہ گزرتا ہے،اس کے اثرات اس کی شخصیت میں نظر آتے ہیں ۔ دہلی میں رہنے والے اسی شکست وریخت کا شکار ہوئے۔ میر کی شخصیت بھی ان حالات کا شکار ہوئی ۔ یہ دور انحطاط مجبوری اور لاچاری کامرقع ہے جس کا شکار دہلی کا ہر رہنے والاہوا۔ “ذکر میر”میں لکھتے ہیں :

“شہر کی تباہی پر ان کے یہ اثرات ہیں ۔ ایک روز سیر کرتے کرتے میں نئے شہر کے کھنڈرات کی طرف جا نکلا۔ ہر ہر قدم پر آنسو ٹپک پڑے اور درس ِعبرت ملنے لگا۔  جیسے جیسے آگے بڑھا، حیرانی اور بھی بڑھ گئی۔ مکانوں کی شناخت تک نہ ہو سکی۔ گھر تھے نہ عمارتوں کے آثار تھے اور نہ باشندوں کا پتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹوٹے پھوٹے مکان، شکستہ دیواریں ، خانقاہیں صوفیوں سے خالی تھیں اور میخانوں میں مئے خوار نہ تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کہوں کہ وہ بازار کہاں گئے؟ وہ طفلان ِتہہ بازار کیا ہوئے؟ کس سے پوچھوں کہ وہ حسن کیا ہوا؟ وہ یارانِ زاد رخسار کدھر گئے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محل برباد ہوئے، گلی کوچوں کا پتہ نہ رہا، انسان ناپید تھے اور ہر طرف وحشت چھائی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناگاہ اس محلے میں پہنچا جہاں خود رہا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبیعت بڑی مکدر ہو گئی۔ لہذا میں نے عہد کیا کہ پھر نہ آؤں گا اور زندگی بھر شہر کا قصد نہ کروں گا”(۸)

انسان جب اپنی آنکھوں کے سامنے ٹوٹ پھوٹ اور تباہی کے مناظردیکھتا ہے ،وہ اس کی نفسیات کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اہل دہلی ان مصائب کا ہدف تھے اور میر کی شاعری میں موجود”حسرت “ان کی بے بسی کا نوحہ ہے۔ اس ٹوٹ پھوٹ کے حوالے سے پروفیسر محمد حسن(وفات۔ ۲۴اپریل،۲۰۱۰ء) لکھتے ہیں :

“اس معاشرے کے ٹوٹنے بکھرنے کی آواز واضح طور پر پہلی بارشمالی ہند میں نظیراکبر آبادی کے یہاں ابھرتی ہے۔ شہرآشوب اسی کا اظہارہے۔ آگرے سے دہلی تک اقتصادی زندگی اوراس سے پیدا شدہ معاشرےکا بحران عام تھا۔ ۔ دہلی میں آگے چل کر یہ ٹوٹ پھوٹ زیادہ شدیدہو گئی اور میر کے ہاں واضح طور پر معاشرےسے ٹوٹنے کا ماتم سنائی دینے لگا۔

نکلی ہیں اب کے کلیاں اس رنگ سے چمن میں      سر جوڑ جوڑ جیسے مل بیٹھتے ہوں احباب(۹)

نادر شاہ درانی(۱۶۸۸ء۔ ۱۷۴۷ء) کے ہاتھوں لٹنے اور غارت گری کے بعدابدالیوں ،جاٹوں ،مراٹھوں اور سکھوں نے رہا سہاسکون بھی غارت کر دیا۔ میر کی شاعری اسی پُرآشوب لمحات کا نوحہ ہے۔ پروفیسر نعیم احمد(۱۹۶۱ء)لکھتے ہیں :

“دلی کا لٹنا اجڑنا شعری علامتیں بن گئی ہیں ۔ میر ان حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئےہمیں اپنی نفسی وارداتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ یہ ان کے آرٹ کا ایک کمال ہےکہ وہ دوسرے کے مشاہدے اور اپنے جذبے کو شیر و شکر کر دیتے ہیں ۔

کیا کہوں ،کچھ بھی اس سے چھوٹا ہے   ملک دل ان نے صاف لوٹا ہے

“صاف لوٹا ہے” میں واقعہ اورتاثیر کا جہاں آباد ہے۔ ابدالیوں اور مراٹھوں کی ستم انگیزیوں کا یہ عالم تھاکہ وہ لوگوں کے تن کے کپڑے بھی اتروا لیتے تھے۔ میر کہتے ہیں : جو تم پران غارت گروں کے ہاتھوں گذری ہے ،وہی کچھ میرے محبوب نے مجھ سے کیا ہے۔ ” (۱۰)

چناں چہ تسلیم و رضااور تصوف کے مختلف نکات اردو شاعری کا حصہ بن گئے۔ میر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے غم و الم کواپنی شاعری میں یوں شامل کیاکہ یہ انسانی زندگی اور اس کے جذبوں کا مجموعی احساس بن گیا۔ میر کوسوز عشق ورثے میں ملا۔ یہ عشق کی کون سی طرز ہے،کون سی ادا ہے ۔ اس کے اندر کون سی برق پوشیدہ ہے جو دل کو بے کلی ،اداسی ،اور آشفتہ حالی کا مرکز بنا دیتی ہے۔ میر کی نفسیات میں موجود تڑپ نا آسودہ حالات کا سبب تھی یا والد کی نصیحت مرکز عمل تھی۔ اس حوالے سے میر کے والد میر کو کس انداز میں عشق کرنے کی تلقین کرتے ہیں :

۔ ۔ ۔ ۔ عشق است کہ دریں کارخانہ متصرف است ۔ اگر عشق نمی بودنظم کل صورت نمی بست۔ بے عشق زندگانی وبال است۔ (۱۱)

پروفیسر محمد حسن لکھتےہیں :

“قلبی وابستگی صوفیا کے فلسفہ حیات میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اسے عشق قرار دیااور ہوس سے ممتاز اور الگ جذبہ بتایا۔ ہوس جسمانی اور مادی ضروریات کو پیش نظر رکھتی ہےلیکن عشق محبوب سے اس درجہ لگاؤ قائم کر لیتا ہےکہ اپنی ساری خواہشات حتیّٰ کہ اپنی شخصیت کو بھی محبوب کے تابع کر دیتا ہے۔ یہ گویا تہذیب نفس کی پہلی منزل اورغم اس کا حاصل ہے،جو غم کا جس درجہ خوگر ہوتا ہے اور ذاتی آرزو پرستی اور نفس کشی پر جتنا قادر ہوتا ہےاتنا ہی اسے عروج وادراک کی منزل سے آگہی ملتی ہے۔ “(۱۲)

شیخ ظہورالدین حاتم(۱۶۹۹ء۔ ۱۷۹۱ء) نے اس تصور کی وضاحت یوں کی ہے:

        ؏اے خر د والومبارک ہو تمھیں فرزانگی         ہم ہوں اور وحشت ہواور صحرا ہواور دیوانگی

        یہ آسیبی ہیولے جو علامتی انداز اختیار کرکے لفظوں میں ڈھل گئےہیں اور کسی پیکر محسوس کی موجودگی کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں ،یہ دراصل شاعر کی یادداشتوں ،محسوسات اور نفسیات کا حصہ ہیں ،جوعلامتی پیکر میں اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں ۔ بقول جیلانی کامران:

“علامت ایسی ہونی چاہیےکہ قاری بھی شاعر کے محسوسات اور یادداشتوں میں شریک ہو سکے۔ لیکن  اگرقاری ان یاد داشتوں اورمحسوسات سے لاتعلق رہتا ہےتو اس صورت میں قاری کے لیے علامت کا ہونا یا نہ ہونابرابر ہے”(۱۳)

اٹھارھویں صدی کا المناک المیہ یہ ہے کہ گفتار عمل پر اور خود غرضی اجتماعی احساس پر غالب ہے۔ اہل ہند خصوصاَمسلمان حکمران دنیاوی لہو ولعب کاشکار ہو چکے ہیں اور وہ انگریزوں کی سیاسی بالادستی کے سامنے مغلوب ہو چکے ہیں ۔ ان کی تلواریں نیام میں زنگ آلود ہیں ،خودغرضی غالب آچکی ہے۔ شعر وشاعری کے ہنگامے عروج پر ہیں ۔ اس شاعرانہ معرکہ آرائی میں تصور عشق کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں ۔ عربی شاعری کا عاشق محبت ووقار کی علامت،فارسی میں معشوق کی گلی کا کتا ہےاور اسی قسم کا عاشق ہمیں اردو شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ میر کہتے ہیں :

؏مت سگ یار سے دعوائے مساوات کرو        اس کنے بیٹھنے پاؤ تو مباہات کرو

مصحفی کہتے ہیں :

؏ایک دو گالیاں اس شوخ کی کھا رہتے ہیں              اپنا جو روز مقرر ہے وہ پا رہتے ہیں

اردو شاعری کی نفسیات میں تصوف و سلوک اور عشق و محبت کے مضامین اسی روایت کا تسلسل نظر آتے ہیں ۔ عزت و آبرو بھی داؤ پر لگی ہے اور اذیت ،مصیبت،ملامت اور بلائیں بھی عاشق کا پیچھا کر رہی ہیں ۔ پروفیسر محمد حسن کے بقول:

“تصوف سے ارود شاعری نےعشق کا سبق سیکھا جو محض ہوس نہیں تھابلکہ ایثار اور خودفراموشی کا درس اولین تھا”۔ (۱۴)

میر کے عہد کی تہذیب پرتصوف کا رنگ غالب تھا۔ یہ ہندوستان کے مجموعی ماحول کا بھی اثر تھاجہاں مختلف مذاہب میں فلسفیانہ اور راہبانہ انداز موجود تھااور اسی ماحول میں مسلمان صوفیا کی مساعی بھی رنگ دکھا رہی تھی۔ اس کے نفسیاتی اور معاشرتی اثرات میرکی زندگی اور شاعری دونوں میں نظر آتے ہیں ۔ میر کی شاعری میں موجود عشق کا جذبہ انہی خیالات کی عملی شکل ہے۔ ماضی کی روایت جو ولی سے پہلے اور بعد میں نظر آتی ہے،عشق اور عاشقی کاجذبہ نجی داستانوں میں بھی،مثنویوں میں بھی،پورے معاشرے کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔ گویا فکری ،سماجی اور نفسیاتی سطح پرہمارا کلاسیکی ادب تصوف کے زیر اثر تھاجس میں عشق کومرکزی حیثیت حاصل تھی۔ جمیل جالبی لکھتے ہیں :

“میر نے عشق کی کیفیت کو تجربے کی بھٹی میں پکا کر تخلیقی توانائی اور ذہنی سچائی کے ساتھ شعروں میں ڈھال دیا ہے۔ “(۱۵)

میرکے عشق کی نفسیاتی کیفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

“غمگین آواز عاشق کی فطری آواز ہے۔ آتش فراق اور آرزوئے وصل میں جلتا ہوا عاشق اسی آواز میں ،جو میر کی آواز ہے،اپنی کیفیات کا اظہار کر سکتا ہے،محبوب کی ہر ادا ،ہر بات پر میر کی نظر ہے۔ “(۱۶)

دہلوی دبستان کے شعراگردش دوراں کا شکار ہوئےتو ان کے لہجے اور نفسیات میں فراریت،ہجر نصیبی،زندگی کی ناپائیداری،قلبی واردات اور تصوف کے عناصرجاگزیں ہوئے۔ ماحول ،معاشرے اور تہذیب کی ٹوٹ پھوٹ نے حساس دلوں کو محروم تمنا اور حسرت زدہ کردیا۔ اپنے گلی کوچوں کو ویران ،لٹاپٹا اور اجڑادیکھ کر انسانی بےرحمی اور بے حسی کا شدید احساس پیدا کیا،جس نے آزردگی،دکھ،وحشت اور تنہائی کو نفسیات کا حصہ بنادیا۔ یہ ایساماحول تھا جہاں انسان ہر وقت اپنی بقا کا خیال لیے پریشاں حالی کا شکار تھے۔ چناں چہ ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی ان علامتوں کو روحانی،معاشرتی ،سماجی،تہذیبی،سیاسی اور نفسیاتی ماحول کی پروردہ قرار دیتے ہیں :

“دہلی دبستان شاعری میں مصنوعی اعتبار سے روحانیت یعنی قلبی واردات،تصوف،علوخیال،ہجر نصیبی،انفرادیت کا احساس اور لسانی حوالے سے وضاحت،سادگی،سلاست اور آہ کی اصطلاحوں سے واضح ہوتا ہے۔ چناں چہ دہلوی شعرا نےجو علامتیں استعمال کی ہیں ان میں بھی یہی طرز احساس دکھائی دیتا ہے۔ “(۱۷)

ان عناصر کی موجودگی میں اگرمیر کی شاعری کا جائزہ لیا جائےتو واضح طور پر محسوس ہوتا ہےکہ ان کی شاعری اپنے جلو میں انتشار و زوال اور درد وکرب لیے ہوئے ہے۔ دہلی کی تباہی، نفسیاتی اور معاشی تباہی کے ساتھ ساتھ دل کی بھی تباہی تھی۔ دہلی کی تباہی،والد کی وفات،گھر سے بے گھرہونا،عشق اور رسوائی اور دہلی سے لکھنو کی طرف ہجرت،یہ تمام واقعات اپنی ہنگامہ خیزی اور جنوں خیزی کے اثرات لیےمیر کی نفسیاتی شکست وریخت میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ۔ میر کی شاعری صرف ذاتی غم ہےیا اجتماعی،یہ غم عشق حاصل ہے یا لاحاصل،بہرحال میر نے انقلاب زمانہ کے ہرپہلو میں تمنا وافسوس اورحسرت و یاس سے گندھا ہوا عشق تلاش کیا۔ بقول امجد ساجد:

“انہوں نے کمال ہنر سے دلی کے اجڑنے کو دل کے اجڑنے سے مماثل کر دیا”(۱۸)

میر کا دلی سے عشق ان کے اس شعر میں یوں بیان ہوا ہے:

دلی کے نہ تھے کوچے ،اوراق مصور تھے             جو شکل نظر آئی،تصویر نظر آئی

        میر کا یہ عشق ہمیں کلمہ حسرت کی تصویر بنا جا بہ جا نظر آتا ہے،جو اسلوب کے نت نئے انداز اختیار کرتا ہے۔ میر کی قنوطیت دراصل منتشر ماحول اور داخلی کرب کا ردعمل ہے۔ ہمیں زندگی میں رنگینی اور لذت بھی نظر آتی ہےلیکن حسرت کے اظہار کی شدت میں یہ انبساط اور لذت دب جاتی ہے۔ “انہیں حسرت ہے تو یہ ہےکہ بقول عرفی نو آسمانوں کی اس وسعت میں ایک ذرے کے لیےجی کھول کر رقص کرنے کی گنجائش نہ نکل سکی،ان کے ہاں درد عکس نشاط اور آرزوئےانبساط ہے۔ وہ دنیا کو لذت وکیف سے خالی نہیں پاتے،ہاں اس کیف کو ناپائدار اور اس دنیا کو بے بنیاد پاتے ہیں اوراس کی بے ثباتی کا داغ دل پر لیتے ہیں ۱۹؎۔

انسانی فطرت کے متنوع رنگ ہیں اور ہر رنگ دوسرے سے جدا۔ انسانی ذہن کی تبدیلیوں ،اس کے جبلی اور نفسیاتی اظہارمیں موجود بوقلمونی کا تجزیہ اکثر اوقات مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ سید عابد علی عابد لکھتےہیں :

“انسان بھی ایک عجب عالم طلسمات ہے۔ فکر کے رنگ گونا گوں ،بات کے ڈھنگ بوقلموں ،کبھی دل پر بنی ہوئی ،کبھی دل پر ٹھنی ہوئی،خود ہی جال بچھاتا ہے اور خود ہی شکار ہو جاتا ہے۔ اڑان کی رو میں ہو تو آسمان پاؤں کے نیچے،نشیب کی طرف مائل ہو تو زمین بھی آسمان۔ “(۲۰)

اس منظر نامے میں میر کی شخصیت اور شاعری کی تہہ میں موجود نفسیات کے مختلف پہلو اور متنوع علامات کے سلسلےہمارے سامنے آتے ہیں جن کا مرکز اور محورحزن وملال،حسرت ویاس اور عشق ہے۔ یہ عشق کہیں تمنا اور افسوس کا رنگ لیے ہے اور کہیں حسرت وخواہش کا امتزاج لیےرواں دواں ہے۔ عشق کے ان دائروں کا ربط حسرت ہےجوایک جگہ اکٹھے ہوکرایک دائمی شکل اختیار کر گیا ہے۔ میر کی غم پسندی اور سوز و گدازحالات کا جبراور صوفیانہ تربیت کا اثر ہو سکتا ہے گرچہ وہ صوفی نہ تھے۔ چاند میں نظر آنے والی محبوبہ حواس پہ چھائی اور شعر گوئی کے قالب میں ڈھلی تو جہاں کوئی تصویری نقش نظر آیا،وہ لفظی پیکر میں زندہ ہو گیا۔ جمیل جالبی لکھتے ہیں :

“مغربی دنیا کے شاعروں میں میر ورجل،دانتے،چوسر،شیکسپئراور گوئٹے کے کمالات شاعری تک نہیں پہنچے اور وہ اس لیے کہ میر اور مغرب کی روایت شاعری کے مزاج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مغرب کی شاعری زیادہ تر خارجی ہے اور غزل داخلی شاعری ہے۔ مغرب میں داخلی شاعری کے ممتاز نمائندے،رومانویت کے آغاز کے ساتھ انیسویں صدی میں ابھرنا شروع ہوئے۔ جس میں ورڈز  ورتھ،کولرج،بائرن،شیلی،کیٹس،انگریزی کے،ہیوگو اور بودلیئرفرانسیسی کے،ہولڈیرن اور ہائنےجرمنی کے ممتاز شعرا ہیں ۔ ان شٰعرا کی طرح میر کی فطرت بھی رومانی ہے۔ میر کے ہاں بودلئر کا غم ہے،ہائنے کا راگ اور سادگی ہےاور زور کلام میں وہ شیلے کی طرح نظر آتے ہیں ۔ ہم پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ میر اور شیلی نے ایک ہی بات کہی ہےلیکن شیلی کے غم میں غم بغاوت (Melancholy Of Revolt)ہےاور میر کا غم کیٹس(John Keats)کی طرح صبرو تسلیم و رضا کی غم گیتی (Melancholy of Submission)کا حامل ہے۔ میر اسے ایک حقیقت مان کرصبرو رضا کا ثبوت دیتے ہیں اور بودلیئر کی آفاقیت سے ہم کنارکر دیتے ہیں ۔ میر کے کلام کی پختگی،زور اور فن ان شعرا سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ وہ ان عظیم رومانی شعرا کے ہم رتبہ ہیں ۔ جدید شاعری کا جو عالمی رنگ ہےاس میں بھی میر عالمی شاعروں میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔ “(۲۱)

میر کے چھ عدد دیوان،رباعیات اورعشق کے رنگ میں رنگی مثنویات کے متنوع رنگ حسرت ویاس اورلاحاصل تمناؤں کے روپ میں سامنے آتے ہیں ۔ میرکے کلام میں لفظ “حسرت”نواسی(۷۹) غزلوں میں استعمال ہوا ہے اورلفظ”اے کاش”کا استعمال بتیس غزلوں میں ہواہے۔ میر کے کلمہ تمنا اور حسرت میں جا بجا تضاد ملتا ہے۔ کہیں محبوب کی تکلیف گوارا نہیں اور کہیں خاک نشین ہو کرمحبوب تک رسائی کے ذرائع ڈھونڈتے نظر آتے ہیں ۔ جمیل جالبی میرکےذہنی رویوں کی نفسیاتی گرہ کشائی کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں :

“اسی ذہنی رجحان کے نفسیاتی مطالعہ کے لیے ان کے عشق کا واقعہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جیسے ہربرٹ ریڈ نے ورڈز ورتھ کی شاعری کا نفسیاتی مخرج اس کی اس خجالت اور ملامت نفس(Remorse)کو قرار دیا ہےجو اسے اپنی فرانسیسی محبوبہ کو چھوڑ دینے پر محسوس ہوئی تھی۔ اسی طرح میر کی شاعری کا مخرج بھی میر کا عشق اور اس سے پیدا ہونے والا جنون ہے جو نوجوانی میں ان پر سوار ہوااور جس کا ذکر ان کی مثنوی”خواب و خیال”میں انہوں نے خود کیا ہے”(۲۲)

میر کے کلام سے منتخب “کلمہ حسرت “کی بوقلمونی کا انداز ملاحظہ کیجیے۔ اس میں ہمیں زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری،حسرت محبوب،حسرت دیدار کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں ۔ یہ دل داغدار کی وہ حسرتیں ہیں جو ایک حساس دل کے لیے سوہان روح ہیں ۔ ان کا کوئی حل نہیں ۔ خوشی اور غم کے تمام موسم اس میں یکساں ہیں جس میں حسرت کے پھول اپنی بہار دکھلا رہے ہیں ۔

دیوان اول:

ٹک دیکھ آنکھ کھول کےاس دم کی حسرتیں              جس دم یہ سوجھے گی کہ عالم بھی خواب تھا

داغ فراق وحسرت وصل آرزوئے شوق           میں ساتھ زیر خاک بھی ہنگامہ لے گیا

ناکامی صد حسرت خوش لگتی نہیں ورنہ                 اب جی سے گذر جانا کچھ کام نہیں رکھتا

اس کی شیریں لبی کی حسرت  میں                       شہد  پانی  ہو  شان  سے  نکلا

رشک کی جاگہ ہے مرگ اس کشتہ حسرت کی میؔر             نعش کے ہمراہ جس کی گور تک قاتل گیا

ستم میں غم میں سر انجام اس کا کیا کہیے                        ہزاروں حسرتیں  تھیں تس پہ جی کو مار رہا

یہ حسرت ہےمروں اس میں لیے لبریز پیمانا             مہکتا ہو نپٹ جو پھول سی دارو سے میخانا

حسرت اس کی جگہ تھی     خوابیدہ                       میرؔ کا کھول کر کفن دیکھا

بعد مرگ کی حسرت اپنی تمام لاچارگی اور بے بسی سمیت ہمارے سامنے آتی ہے۔ ایک جان ہے ہزار زخم ہیں ۔ کبھی دل کو سمجھاتے ہیں ،کبھی بے چین آنکھوں کو،جو محبوب کے دیدار کو تڑپ رہی ہیں ۔ کبھی خود کوفنا کرکے نرگس کے روپ میں حسرت دیدارکے طالب ہیں ۔ گویا حسرتوں اور تمناؤں کی دنیا نے ان کے احساسات کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے۔

تو نہ تھا مردن دشوار میں عاشق کہ آہ                    حسرتیں کتنی گرہ تھیں اک جان کے بیچ

حسرت ہے اس کےدیکھنے کی دل میں بے قیاس               اغلب کہ میری آنکھیں رہیں باز میرے بعد

نخچیر گہ میں تجھ سے جو نیم کشتہ چھوٹا                       حسرت نے اس کو آخر مارا  لٹا لٹا  کر

نکلے ہے میری خاک سے نرگس                  یعنی اب تک ہے حسرت دیدار

کیوں تو نے آخر آخر اس وقت منھ دکھایا                 دی جان میر نے جو حسرت سے اک نگہ کر

دل بھی پر داغ چمن ہے پر اسے کیا کیجیے                      جی سے جاتی ہی نہیں حسرت دیدار ہنوز

آنکھوں میں آن رہا جی جو نکلتا ہی نہیں                  دل میں میرے ہےگرہ حسرت دیدار ہنوز

کیوں نہ دیکھوں چمن کو حسرت سے                     آشیاں تھا مرا بھی یاں  پرسال

آنکھیں جو کھل رہی ہیں مرنے کے بعد میری            حسرت یہ تھی کہ اس کو میں اک نگاہ دیکھوں

نہ کھول اے یار میرا گور میں منھ                     کہ حسرت ہے مری جاگہ کفن میں

حسرتیں اس کی سرپٹکتی ہیں                                  مرگ فرہاد کیا کیا تو نے

ہوۓ تھے جیسےمرجاتے پراب تو سخت حسرت ہے   کیا دشوار نادانی سے ہم نے کارآساں کو

خاک حسرت زدگان پرتو گذربے وسواس             ان ستم کشتوں سے اب عرض تمناکیا ہو

آنکھوں میں اشک حسرت اور لب پہ شیون آیا            اے حرف شوق تو بھی آیا  زبان تلک تو

یک چشم اس طرف بھی تو کافر کہ تو ہی ہے           دین نگاہ حسرت وایمان آرزو

اس مجہلے کو سیر کروں کب تلک کہ ہے                       دست ہزار حسرت ودامان آرزو

جو بن ترے دیکھے موا  دوزخ میں ہے یعنی            رہتی ہے اسے حسرت دیدار ہمیشہ

مر گئے پر بھی کھلی رہ گئی اپنی آنکھیں                        کون اس طرح موا حسرت دیدارکے ساتھ

کروں کیا حسرت گل کو وگرنہ                                 دل پر داغ بھی اپنا چمن ہے

یہ وہ کارواں گاہ دلکش ہے میرؔ                            پھر یاں سے حسرت ہی ہمراہ ہے

اب جو اک حسرت جوانی ہے                                  عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے

تجھ سے دوچار ہونے کی حسرت کے مبتلا                      جب جی ہوۓ وبال تو ناچار مر گئے

رونا آتا ہے دم  بدم شاید                                 کسو حسرت کی دل سے رخصت ہے

رنج و محنت سے باز کیونکے رہوں                          وقت جاتا رہے تو حسرت ہے

جاتے ہیں کیسی کیسی لیے دل میں حسرتیں                  ٹک دیکھنے کو جاں بلبوں کے بھی آئیے

داغ فراق و حسرت وصل  آرزوۓ دید                    کیا کیا لیے گئے ترے عاشق جہان سے

حسرت لطف عزیزان چمن جی میں رہی                  سر پہ دیکھا نہ گل وسرو کا سایہ ہم نے

جہاں کی مسلخ تمام حسرت نہیں ہے تس پرنگہ کی فرصت    نظر پڑے گی بسان بسمل کبھو جو مژگاں کو وا کرو گے

چلے آتے تھے جو آنا ََ فانا ََدیکھ حسرت کو                  وے آنسو بھی لگے آنکھیں چرانےکیا زمانہ ہے

        دیوان اول میں موجود لفظ “حسرت” کے حامل تمام اشعار میں ہر لحظہ نا آسودگی نظر آتی ہے۔ گویاآشفتہ حالی اور اداسی ان کی نفسیات میں رچ بس چکی ہے۔

دیوان دوم:

میر کے کلمہ حسرت میں  شکت و ریخت کا جہاں آباد ہے۔ اس میں نا آسودہ خواہشات،حسرت وصل،حسرت دیدار،بے بسی اور لاچارگی کے وہ تمام عناصر موجود ہیں جو انسان کے لیے دنیا کو حسرت ویاس کا منبع بنا دیتے ہیں ۔ خاک سے حسرت زدہ پھول کا نکلنا،شبنم کا سحر کے وقت حسرت سے رونا،گرد اٹھتی دیکھ کروحشیان دشت کی حسرت،گویا حسرتوں کا دریا اپنی طغیانیوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ دیوان دوم کے اشعار کا جائزہ بھی ان کی زندگی میں موجود حسرت کا اظہار ہے۔ ذہنی شکستگی اور دل کی شکست وریخت ان کے اشعار میں آنے والے الفاظ واضح تصویری پیکر اختیار کرتی ہے۔ زندگی کے کینوس پر حسرت ویاس سے بنائی گئی یہ تصویرغم والم کے تمام رنگ اس تصویر میں ابھارتی محسوس ہوتی ہے۔ حسرت دیدار ،کفن کے بیچ حسرت،اور اس طرح کے بے شمار مرکبات حسرت کے لامتناہی سایوں کی تعبیر لیے ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ یہ لفظ بھی عشق اوراے کاش کی مانند ان کےاعصاب پرغالب ہے:

جاتا وہی سنا ہمہ حسرت جہان سے                        ہوتا ہے جس کسو سے بہت پیار عشق کا

اس لب جان بخش کی حسرت نے مارا جان سے                 آب حیوان یمن طالع سے مرے سم ہو گیا

بجا ہے عمر سے اب ایک حسرت                 گیا  وہ شور سر کا  زور  پا  کا

جیسے حسرت لیے جاتا ہے جہاں سے کوئی                     آہ یوں کوچہ دلبر سے سفر ہم نے کیا

کہ وہ شکستہ پا ہمہ حسرت نہ کیو نکے جائیے          جو ایک دن نہ تیری گلی میں چلا پھرا

کس مرتبہ تھی حسرت دیدار مرے ساتھ           جو پھول مری خاک سے نکلا نگراں تھا

نہ ہوتا میں حسرت میں محتاج گریہ                       جو کچھ آنسوؤں کو پس انداز کرتا

کیا جانے دل میں چاؤ تھے کیا کیا دم وصال             مہجور اس کا تھا ہمہ حسرت کفن کے بیچ

نظر میرؔ نے کیسی حسرت سے کی                       بہت روۓ ہم اس کی رخصت کے بعد

رکھا جس کو آنکھوں میں اک عمر اب                    اسے دیکھ رہتے ہیں حسرت سے ہم

لگ کر گلے نہ سوۓ،اس منھ پہ منھ نہ رکھا             جی سے گئے ہم آخر ان حسرتوں کے مارے

یک نظر دیکھنے کی حسرت میں                          آنکھیں تو پانی ہو بہیں پیارے

ہاۓ کس حسرت سے شبنم نے سحر رو کر کہا          خوش رہو اے ساکنان باغ اب تو ہم چلے

گرد جب اٹھتی ہے اک حسرت سے رہ جاتے ہیں دیکھ وحشیان دشت کی آنکھ اس شکار افگن پہ ہے

دیوان سوم:

کیا کہیں حسرت لیے جیسے جہاں سے کوئی جائے             یار کے کوچے سے اپنا اس طرح جانا  ہوا

حسرت سے دیکھتے ہیں پرواز ہم صفیراں                       شائستہ بھی ہمارے ایسے ہی تھے کبھوپر

دل جگر خوں ہو کے رخصت ہو گئے                    حسرت آلودہ ہے کیا اشک وداع

اس بحر حسن پاس نہ خنجر نہ آب تھا                     میں جان دی ہے حسرت بوس و کنار میں

جب کبھو ایدھر سے نکلے ہے تو اک حسرت کے ساتھ دیکھے ہے خورشید اس کے سایہ دیوار کو

دیوان چہارم:

بعد مرگ آنکھیں کھلی رہنے سے یہ جانا گیا             دیکھنے کی اس کے میرے جی میں تھی بہت حسرت

مرغ اسیر کہتے تھے کس حسرتوں سے ہائے           ہم بھی کبھی سنیں گے گلوں کے وہاں کی بات

اب تو وہ حسرت سے آہ و نالہ کرنا بھی گیا                      کوئی دم ہونٹوں تک آ جاتا ہےگاہے سرد سرد

عقیق لب اس کے کبھو دیکھے تھے میں                  بھرا ہے دہن آب حسرت سے اب تک

ان گیسووں کے حلقے ہیں چشم شوق عاشق              وے آنکھیں دیکھتی ہیں حسرت سے اس کو روکو

حسرت وصل اندوہ جدائی خواہش کاوش ذوق وشوق    یوں تو چلا ہوں اکیلا لیکن ساتھ چلا ہے کیا کیا کچھ

حسرت سے دیکھ رہیو اے نامہ بھر منھ اس کا          بس اور کچھ نہ کہیو ہرگز مری زبانی

آج ہمیں بیتابی سی ہےصبر کی دل سے رخصت تھی           چاروں اور نگہ کرنے میں عالم عالم حسرت تھی

دیوان پنجم:

یہ خواہش حسر ت ناتمام نہیں ہوتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میر کے دل ودماغ میں شکست خوردگی کا احساس شدت سے موجود ہے ،جو ہر پل ان کے احساس کو کچوکے لگاتا ہے اوروہ اس احساس کے ہاتھوں نیم بسمل ہیں ۔ یہ زمانے کی شکستہ روش ہے ،اس دور کے حالات ہیں جن میں انسانی جانیں  ارزاں اور دنیا کی بے ثباتی پر نوحہ کناں ہیں ۔ چنانچہ یہ بے بسی ان کے ہر شعر میں نمایاں ہے:

جیسے کوئی جہاں سے جاوے رخصت اس حسرت سے ہوئے اس کوچے سے نکل کر ہم نے روبہ قضا ہر گام کیا

داغ سرو سینے کے میرے حسرت آگیں چشم ہوئے              دیکھیں کیا کیا عشق ستم کش ہم لوگوں کو دکھاوے اب

حسرت نے ملنے کی آیا   میرؔ تمھارا خون پیا                    تیغ وتبر اس ترک بچے ظالم کی نہیں ہے اب

کیا شیریں ہےحرف وحکایت حسرت ہم کو آتی ہے              ہائے زبان اپنی بھی ہووے یک دم اس کے دہن کے بیچ

اس کارواں سرائے کے ہیں لوگ رفتنی                   حسرت سے ان کا کرتے ہیں نظارہ درد مند

حسرت سے حسن گل کی چپکا ہوا ہوں ورنہ             طیران باغ میں  ہوں میں خوش زباں زباں ذد

دل میں حسرت گرہ ہے رخصت کی                       چلتے ان نے نہ کچھ کہا افسوس

کیا دلکش ہے بزم جہاں کی جاتے یاں سے جسے دیکھو        وہ غم دیدہ رنج کشیدہ آہ سراپا حسرت ہے

میر قیس و کوہکن ناچار گذرے جان سے                 وہ جہاں حسرت لیے ہمراہ بیچارے گئے

دیوان ششم:

انگڑاتے خوبرو یاں حسرت سے پیش و پس ہیں                 اینڈا پھرے ہے ہر سوجب اس پری کا سایہ

جی خواب مرگ لے گئی حسرت ہی میں ندان            اک شب نہ سوئے ہم کسوگل پیرہن کے ساتھ

جیتے جاگتے اب تک تو ہیں لیکن جیسے مردہ ہیں              یعنی بے دم سست بہت ہیں حسرت سے بے خوابی

اب نہ حسرت رہے گی مرنے تک                 موسم گل میں ہم اسیر ہوئے

رباعی:

دل خوں ہے جگر داغ ہے رخسار ہے زرد               حسرت سے گلے لگنے کی چھاتی میں ہے درد

تنہائی و بیکسی و صحرا گردی                            آنکھوں میں تمام آب منھ پر سب گرد

مختلف دواوین سے لیے گئے لفظ “حسرت” کے حامل اشعارمیں لاچارگی اور مایوسی کی کیفیت اپنی پوری شدت سے عیاں ہے۔ “حسرت”مختلف روپ اختیار کر کے میر کی شاعری میں برقی رو کی طرح دوڑ رہی ہے۔ یہ حسرت نا تمام ہے۔ اس کا ہر پہلو لامحدود ہے۔ اس کو بیان کرنے کے لیےمیر نے مختلف پیرایہ اظہار اور کینڈوں کا استعمال کیا ہے۔ لیکن اندرونی احساس کی تشنگی پتھر کی طرح کم نہیں ہوتی۔ لفظ “حسرت” شدید تڑپ،کرب اورجنوں کی صورت ہمار ےسامنے آتا ہےجس میں میر کا دل خوں ،جگر داغ دار اوررخسار زرد نظر آتے ہیں ۔

“کلمہ حسرت “کے ساتھ ساتھ “اے کاش “کا استعمال بھی منفرد انداز رکھتا ہے۔ ایک طرف اس لفظ میں موجود حزن انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتا ہے ،دوسری طرف یہ شاعر کی نفسیاتی کیفیت پر موجود داخلی اور خارجی اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ کہیں خاک نشیں بننے کی خواہش،کہیں محبوب کا قرب،کہیں محبت کا بوجھ برداشت سے باہر ہے۔ میر نے ان علامتوں کو قوس قزح کے رنگوں کی طرح یوں پھیلایا ہےکہ قاری اس شعری طیف کی چکا چوند میں خود کو مسحور و گرفتار محسوس کرتا ہے۔ “اے کاش ” کے استعمال کے مختلف انداز کچھ یوں ہیں :

مخصوص دل ہے کیا مرض عشق  جاں گداز            اے کاش  اس کو اور کچھ آزار کیوں نہ ہو(دیوان اول)

آغشتہ میرے خوں سے  اے کاش جا کے پہنچے        کوئی پر شکستہ ٹک گلستاں تلک تو

اے کاش  خاک ہی ہم رہتے کہ  میرؔ اس میں             ہوتی ہمیں رسائی اس آستاں تلک تو (دیوان اول)

کشتہ ہوں  میں تو  شیریں زبانی  یار کا                   اے کاش وہ زباں ہو میرے دہن کے بیچ(دیوان سوم)

بے خودی ہے جی چلا جاتا ہے ہوں صاحب فراش              بے خبر اے کاش بالیں پر مری آ جائے وہ(دیوان سوم)

نامہ میرے عمل کا بھی اے کاش ساتھ جائے             جب آسماں لپیٹیں گےکاغذ کے تاؤ سے(دیوان سوم)

کہیں محبت کا بوجھ ان کی برداشت سے باہر ہے۔ وہ خاک نشیں رہنا پسند کرتے ہیں ۔ یہ حسرت کہ دل لگانے کی بجائے جان چلی جاتی۔ گویا یہ شدت کرب یہ احساس دلاتی ہے کہ زندگی میں آرزوئے وصل نے کبھی نشاط وصل کا درجہ حاصل نہیں کیا۔ دل کی دل سے کہ کر روتے ہیں  اور دریائے غم کے پار اترنے کا وسیلہ نہیں ملتا۔ میر کی نفسیات میں موجود کرب ان کی شاعری کا نمائندہ رنگ بن کر ہمارے سامنےآتا ہے۔ میر کے لہجے میں موجود یہ کرب ناک حسر ت زندگی کی تنگ دامنی  کا واضح اظہار ہے۔

احوال بہت تنگ ہےاے کاش محبت                        اب دست تلطف کومیرے سر سے اٹھا لے(دیوان اول)

فلک اے کاش ہم کو خاک ہی رکھتا کہ اس میں ہم               غبار راہ ہوتے یا کسو کی خاک پا ہوتے       (دیوان اول)

نہ مہکے بوئے گل  اے کاش یک چند                     ابھی زخم جگر سارے ہیں آلے        (دیوان اول)

جی دینا دل دہی سے بہتر تھا صد مراتب                  اے کاش جان دیتے ہم بھی نہ دل لگاتے(دیوان اول)

نہ آوے سوز جگر منھ پہ شمع ساں اے کاش             بیاں کرنے سے آگے زبان جل جاوے(دیوان اول)

عریاں پھریں کب تک اے کاش کہیں آکر         تہ گرد بیاباں  کی بالائے بدن بیٹھے

اے کاش ہم کو سکر کی حالت رہے مدام                  تا حال کی خرابی سے ہم بے خبر رہیں         (دیوان دوم)

آنکھوں سے ہوئی خانہ خرابی دل اے کاش                   کر لیتے تبھی بند ان دونوں دروں کو

اے کاش قصہ میرا ہر فرد کو سنا دیں                    تا دل کسو سے اپنا کوئی نہ یاں لگاوے

اے کاش اب نہ چھوڑے صیاد قیدیوں کو             جی ہی سے مارتی ہے آزادی بے پری کی        (دیوان چہارم)

مجھ کو بدحال رہنے دیں اے کاش                     بے دوا کچھ بھلا رہا ہوں میں  (دیوان ششم)

میر کی تمناؤں اور حسرتوں میں کہیں احترام عشق ہے اور کہیں کرب کی انتہائی شدت اور برداشت ہے۔ یار کی تمنا،اس کی گلی کے گدا رہنے کی خواہش،محبوب کی راہ میں گور کی تمنا،گویا محبوب سے قرب کے لاتعداد انداز ہیں جو غم دل کی شدت میں اضافہ کا موجب ہیں :

اب تو صد چند ستم کرنے لگےتم اے کاش               عشق اپنا نہ تمھیں میں نے جتایا ہوتا(دیوان دوم)

کوئی فقیریہ   اے کاشکے  دعا کرتا                       کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا

اے کاش مرے سرپر اک بار وہ آجاتا                      ٹھہراؤ سا ہو جاتا یوں جی نہ چلا جاتا(دیواں چہارم)

اس کے سمند ناز کا پامال تو رہوں                            اے کاش مری گور کریں رہگذر کے بیچ(دیوان چہارم)

اے کاش کوئی جا کر کہ آوے یار سے بھی                  یاں کا م جا چکا ہے اب اختیار سے بھی(دیوان چہارم)

اے کاش قیامت میں دیویں اسے عاشق کو                گر حسن عمل کی واں لوگوں کو جزا دیں گے(دیوان چہارم)

چین نہ دے گا خاک کے نیچےہرگز عشق کے ماروں کو        دل تو ساتھ اے کاش نہ گاڑیں ان لوگوں کے مزار کے بیچ (دیوان پنجم)

اے کاش  غور سے وہ دیکھے کبھوٹک آ کر                     سینے کے زخم اب تو غائر ہوئے ہیں سارے(دیوان پنجم)

بیتاب دل نہ دفن ہواے کاش میرے ساتھ           رہنے نہ دے گا لاش کوئی دن مزار میں (دیوان ششم)

اے کاش فصل گل میں گئی ہوتی اپنی جان                    مل جاتی یہ ہوا کچھ دن اس ہوا کے ساتھ(دیوان ششم)

کاہے کو کوئی خراب خواری ہوتا                 کاہے کو ہمیں یہ جان سے بھاری ہوتا

دلخواہ ملاپ ہوتا تو تو ملتے                               اے کاش کہ عشق اختیاری ہوتا        (رباعیات)

کچھ میر تکلف تو نہیں اپنے تئیں                  ان روزوں نہیں پاتےکہیں اپنے تئیں

اب جی تو بہت بتنگ آیا اے کاش                      جاویں ہم چھوڑکر یہیں اپنے تئیں (رباعیات)

میر کی شاعری میں محبوب کےملنے اور نہ ملنے کاتاسف،غم دوراں ،غم جاناں اور حالات کا جبر،زندگی کی بے ثباتی کے تمام رنگ لمحہ بہ لمحہ سامنے آتے ہیں ۔ “اے کاش “کی ردیف کے ساتھ درج ذیل تینوں غزلیں زندگی کی بے ثباتی،موت کا غم،غم دوراں ،عشق میں جان سے گذرنااور کوچہ محبوب کی خواہش،کے عناصر لیے ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ جس میں آرزو اور حسرت کی تڑپ نمایاں ہے:

گل کو ہوتا  صبا قرار  اے کاش                   رہتی اک آدھ دن بہار                    اے کاش

یہ جو دو آنکھیں مندھ گئیں میری          اس پہ وا ہوتیں  ایک بار              اے کاش

کن نے اپنی مصیبتیں  نہ گنیں                          رکھتے میرے بھی غم شمار                اے کاش

جان آخر تو  جانے والی تھی                       اس پہ کی ہوتی میں نثار             اے کاش

اس میں راہ سخن  نکلتی تھی                       شعر ہوتا   ترا شعار                    اے کاش

خاک بھی وہ تو دیوے گابرباد                           نہ بناویں مرا  مزار                     اے کاش

شش جہت اب تو تنگ ہے ہم پر                اس سے ہوتے نہ ہم دوچار         اے کاش

مرتے بھی تو ترے کوچے ہی میں                    ملتی یاں جائے گوردار                 اے کاش

ان لبوں کے گلے سے دل ہے بھرا                چل پڑے بات پیش یار               اے کاش

ے اجل میرؔاب پڑا مرنا                      عشق کرتے نہ اختیار               اے کاش

اس طرح “اے کاش”ردیف کے ساتھ ان کی دوسری غزل بھی عشق کا اظہار لیے اسی اسلوب بیاں کوسامنے لاتی ہے:

 نکلے پردے سے روئے یاراے کاش                     منھ کرے ٹک ادھر بہار            اے کاش

کچھ وسیلہ نہیں جو اس سے ملوں                         شعرہو  یار کا شعار                 اے کاش

کہیں اس بحر حسن سے بحرجائے                     موج ساں میری بھی کنار           اےکاش

برق ساں ہو چکوں تڑپ کر میں                   یوں ہی آوے مجھے قرار            اے کاش

اعتمادی نہیں ہے یاری غیر                        یار سے ہم سے  ہووے پیار                اے کاش

آوے سر رشتہ ء جنوں کچھ ہاتھ                   ہو گریبان   تار  تار                     اے کاش

میرجنگل تمام بس جاوے                            بن پڑے ہم سے روزگار            اے کاش

میر کی اے کاش ردیف کے تیسری غزل میں بھی یہی تاسف اور آزردگی ملتی ہے کہ کاش وہ آتا جس کے لیے آنکھیں فرش راہ ہیں ۔

ادھر آتا بھی وہ سوار اے کاش                     اس کا ہو جاتا دل شکار               اے کاش

زیر دیوار خانہ باغ اس کے                        ہم کو جا ملتی خانہ وار اے                 اے کاش

کب تلک بے قرار رہیے گا                         کچھ تو ملنے کا ہوقرار                        اے کاش

راہ تکتے توپھٹ گئی آنکھیں                               اس کا کرتے نہ انتظار                 اے کاش

اس کی پامالی سرفرازی ہے                                راہ میں ہو مری مزار               اے کاش

پھول گل کچھ نہ تھے کھلی جب چشم                     اور بھی رہتی اک بہار                 اے کاش

اب وہی میر جی کھپانا ہے                          ہم کو ہوتا نہ اس سے پیار          اے کاش

قصہ مختصر،میر کے عشق کی کیفیت کا ہر رنگ جدا ہے۔ کہیں یہ دلآویز حسرت ہےجو شدت کرب کے ساتھ مچلتی ہے۔ کہیں خواہشوں کے انگنت سائے اپنے ساتھ لیے رواں دواں ہے اور کہیں ناتمام تلخی ہےجو غم عشق کے ابدی اظہار کی ترجمان ہے۔ میر کہیں بھی اس باطنی کرب سے آزاد نہیں جو اسے ہر لمحہ متحرک رکھے  ہوئے ہے۔

حوالہ جات اور حواشی

۱۔     سرور احمد،ڈاکٹر۔ اردو اور ہندی شاعری میں علامتوں کا مطالعہ۔ نئی دہلی:معیار پبلی کیشنز۔ ۱۹۹۲ءص۴۸

۲۔     انیس اشفاق،ڈاکٹر۔ اردو غزل میں علامت نگاری۔ اتر پردیش:اردو اکیڈمی۔ ۱۹۹۵ءص۲۳

۳۔     Edmund Wilson. Exel, s castle,London:1936,pp21,22

۴۔     وزیر آغا،ڈاکٹر۔ اردو شاعری کامزاج۔ :مکتبہ عالیہ۔ ۱۹۷۸ءص۴۳

۵۔      جمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو(جلد دوم)۔ لاہور:مجلس ترقی ادب۔ ۲۰۰۵ء،ص۴۶۹

۶۔     عبادت بریلوی،ڈاکٹر(مرتب)۔ مقدمات مولوی عبدالحق۔ لاہور:اردو مرکز۔ ۱۹۶۴ء،ص۱۵۸

۷۔     مولوی عبد الحق(مرتب)۔ ذکر میر ازمیر تقی میر۔ دکن:انجمن اردو پریس۔ ۱۹۲۸ءص ۴۶۔ ۱۴۵

۸۔     ایضاَ،ص۱۵۹۔ ۱۶۱

۹۔     محمد حسن،پروفیسر۔ اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر(عہد میر تک)۔ دہلی:اردو اکادمی۔ ۱۹۸۸ء،ص۲۱

۱۰۔    نعیم احمد،پروفیسر۔ میر کی شہرآشوبیہ شاعری،ایک مطالعہ،مشمولہ میرتقی میر، میرشناسی۔ اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان۔ ۲۰۱۰ء،ص۳۴۴

۱۱۔    مولوی عبدالحق (مرتب)۔ ذکرمیرازمیر تقی میر۔ دکن:انجمن اردو پریس۔ ۱۹۲۸ءص۵

۱۲۔    محمد حسن،پروفیسر۔ اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر(عہد میر تک)۔ دہلی:اردو اکادمی۔ ۱۹۸۸ء،ص۲۱

۱۳۔    جیلانی کامران۔ شاعری میں علامتوں کا مسئلہ۔ مقالہ مشمولہ ادبی دنیا ،لاہور۔ شمارہ ۱۱،۱۹۶۸ء،ص۲۳۳۔

۱۴۔    محمد حسن،پروفیسر۔ اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر(عہد میر تک)۔ دہلی:اردو اکادمی۔ ۱۹۸۸ء،ص۴۸۔

۱۵۔    جمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو(جلد دوم)۔ لاہور:مجلس ترقی ادب۔ ۲۰۰۵ء،ص۵۸۰

۱۶۔    ایضاً۔ ص۵۸۱

۱۷۔    نورالحسن ہاشمی،دہلی کا دبستان شاعری۔ لاہور:بک ٹاک،۱۹۹۱ءص۳۵۔

۱۸۔    ساجد امجد،پروفیسر۔ اردو شاعری پربرصغیر کے تہذیبی اثرات۔ لاہور:الوقارپبلی کیشنز۔ ۲۰۰۳،ص۲۸۷

۱۹۔    جمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو(جلد دوم)۔ لاہور:مجلس ترقی ادب۔ ۲۰۰۵ء،ص۵۸۰

۲۰۔    عابد علی،عابد،سید۔ انتقاد۔ لاہور:ادارہ فروغ اردو۔ ۱۹۵۶ء،ص۱۵۱

۲۱۔     جمیل جالبی۔ تاریخ ادب اردو(جلد دوم)۔ لاہور:مجلس ترقی ادب۔ ۲۰۰۵ء،ص۱۰۶۰

۲۲۔    ایضاً۔ ص۵۲۴

نوٹ:میر تقی میر کی غزلیات میں لفظ “حسرت اور اے کاش “کے تجزیےکے لیے،تمام چھ دواوین کا ٹیکسٹ کلیات میر جلداول مرتبہ ظل عباس عباسی،بتصحیح اور اضافہ احمد محفوظ زیر نگرانی شمس الرحمن فاروقی استعمال کیا ہے۔ اور رباعیات کا ٹیکسٹ کلیات میر جلد دوم، مرتبہ احمد محفوظ زیر نگرانی شمس الرحمن فاروقی سے منقول ہے۔ یہ دونوں جلدیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی انڈیا کی مطبوعہ ہیں ۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.