ماحول کی آلودگی اور اس کا تحفظ: وقت حاضرکے ناگزیرمسا ئل
سونورجک
آفتاب عالم
عصر حاضر میں ماحول ایک اہم سنجیدہ اور پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے چونکہ انسان تیز رفتار ترقی اور اس میں آنے والے انقلاب نے انسانی ضروریات میں بے تحاشہ اضافہ کرتے جا رہے ۔ زندگی میں عیش و آرام حاصل کرنے میں اس نے اپنے ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔ انسان قدرتی وسائل کی قلت کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ جنگلات کا کٹائو بڑھتی ہوئی آلودگی کے سبب قحط سالی ،سیلاب ،زلزلے،سونامی، زمین کا کھسکنا، بادل کا پھٹنا وغیرہ حادثات سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اس سے پوری دنیا میں حیاتیات اور ماحول کا توازن بگڑتا جارہا ہے۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے، مٹی اپنی ذرخیزیت کھوتی جا رہی ہے،ہوایں لطیف سے کثیف ہوتی جا رہی ہیں ، دریا اور سمندر آلودہ ہوتے جا رہے ہیں ، نباتات و حیوانات سب غیر پائیدار ہوتے جا رہے ہیں ۔
ان تمام خطرات سے نمٹنے کے لیے سماج اور طالب علموں میں ماحولیاتی بیداری کے لیے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کا احساس بے حد ضروری ہے۔ ماحول کی خرابی اکثر اپنے اطراف کی فطری اشیاء کی تخریب کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ آج انہی فطری ذرائع کی حفاظت کے متعلق ہر طرف شور برپا ہے۔ اس طرح کی بیداری اور سوچ و فکر کو صرف ماحولیاتی تعلیم کے ذریعے ہی فروغ دیا جا سکتا ہے۔ لہذامذکورہ بالاحقائق کی روشنی میں محقق نے یہ محسوس کیا کہ اس تناظر میں تحقیق کی اہمیت کا حامل ہے۔
دنیا کے تقریبا ًتمام ممالک ماحولیاتی مسائل سے نبرد آزما ہیں ۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کو ہر دو قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔ معاشی اور ماحولیاتی ۔ ماحولیاتی مسئلہ کی تین اہم پہلو ہیں ۔
i ماحولیاتی آلو دگی
ii ماحولیاتی آلودگی کا انحطاط کا فقدان
iii ذرائع کا فقدان
ہوائی آلودگی ساری دنیا کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ فضا میں CO2 کا اضافہ جو کہ رکازی ایندھن کے جلنے سے کوئلہ ،پٹرول کے چلنے سے اور کارخانوں اور گاڑیوں سے خا رج شدہ دھویں کی وجہ سے ہے ۔ گرین ہاؤس اثر کا باعث بنی ہوئی ہے۔ دوسرا خطرا کلوروفلورو کاربن کافضاء میں اضافہ‘‘ دو جہازوں اور اسپرے کے ذریعے سے ہوا ہے۔ فضا کی اوزون پرت کے انحطاط کا باعث بنا ہے۔ اور یہ وہ مسائل ہیں ہے جو کسی ملک کی سرحد تک محدود نہیں ۔ دور حاضر کا انسان ایکWorld of Crisis میں جی رہا ہے۔ ماحولیاتی مسائل ہر فرد کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں مرد و خواتین ہوں یا نوجوان ہوں ہر ایک کا یہ فرض بن گیا ہے کہ وہ ماحول کی حفاظت کرے۔ نہ صرف فرد بلکہ سماج ،معاشرہ ،ریاست اور ملک سبھی حتیٰ کے ساری دنیا اس کے لیے کام کرے ۔ ماحولیاتی مسائل سے آگاہی اور ان کا حل کرنے کی کوشش اور دراصل انقلاب تلاشہ ہے۔ ہندوستان میں سبز انقلاب صنعتی انقلاب کے بعد لیکن یہ بات خارج از بحث ہے کہ ابتدائی دور انقلابوں کے نتیجہ میں تیسرے انقلاب کی ضرورت محسوس کی گئی ہے ۔
ہندوستان میں ابتداء میں مسئلہ کے حل کے لیے حکومت کی مدد لی گئی۔ چونکہ ہندوستان کی آبادی میں گزشتہ کئی دہوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس کے لیے ہندوستان میں ماحولیاتی مسائل کا تعلق آبادی کے اضافے کے ساتھ جڑ گیا ہے۔ جسکی وجہ سے حکومت ہند کو چند سخت فیصلے لینے پڑے تھے لیکن چونکہ خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا تھا اس لئے حکومت نے اس مسئلہ کے حل کے لیے فلسفیانہ انداز فکر اختیار کیا کہ تعلیم کے ذریعہ افراد کی ذہنی تربیت ممکن ہے۔ تب مختلف مضامین کے ساتھ ماحولیات کے اسباق کوجوڑاگیا جہاں اسکی گنجائش نکل سکتی تھی۔ لیکن بعد میں یہ فیصلہ ہوا کہ اسے ایک مکمل علیحدہ مضمون کے طور پر مدارس میں پڑھایا جائے۔
ماحولیات ایک عالمی اصطلاح ہے اس میں انسانی زندگی کے تمام پہلو شامل ے جو کہ انسانوں کے ساتھ دوسرے جانداروں کے لیے بھی ضروری ہے ماحولیات Ecology دراصل محولEnvironmentکے مجموعی نظام کا نام ہے۔ جس میں کائناتی نشونما طور پر فروغ پاتی ہے۔ لفظ Ecology کی ابتدا دو یونانی الفاظ “Oikas” اور “Logos” سے ہوئی جس سے مراد رہائشی اور مطالعہ ہے۔
آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق ’’ماحولیات حیاتیات کی وہ شاخ ہے جو اقسام اور ان کے ماحول کے درمیان باہمی تعلق کا مطالعہ کرتی ہے‘‘ اس کے علاوہ انگلش ڈکشنری نے ہی ماحولیات کو مجموعی طور پر تمام عوامی تعلقات کا مطالعہ بھی قرار دیا ہے۔
مختلف مفکرین نے ماحولیات کی مختلف تعریفیں کی ہیں
Krebs کے مطابق ماحولیات اجسام کی تقسیم و کثرت کو متعین کرنے والے باہمی تعلقات کا مطالعہ ہے۔
HerrاورOsolکے مطابق جمہوریہ سے مراد وہ خارجی حالات ہیں جو کسی نظام حیات یا اس کے حصوں کی سرگرمیوں اور ان پر ہونے والے اثرات کا احاطہ کرتے ہیں ۔
چند سائنسدانوں میں جن میں Odum بھی شامل ہے’’ ماحولیات کو ماحولیاتی نظام کی ساکھ اور کارکردگی کا مطالعہ قرار دیا ہے‘‘۔
عام الفاظ میں ماحولیات سے مراد زندہ اجسام کے رہن سہن کے اعداد کا مطالعہ ہیں یعنی ماحول کئی چیزوں سے مل کر بنتا ہے۔ جس میں روشنی و حرارت، مٹی ،پانی شامل ہیں ۔ ارضی عوامل ہیں جیسے ہیں پیر پودے ،حیوانات اور نے جاندار وغیرہ بھی ماحول کے ضروری عناصر ہیں اس طرح ماحول مختلف اقسام کے حیاتی اور غیر حیاتی عوامل کے آپسی اشتراک اور ان کے درمیان قائم تال میل سے بنے حالات کا نام ہے سائنسدانوں کے خیال میں تمام عوامل دو بڑے درجوں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں ۔
ٓٓٓٓآلودگی (Pollution) :
آلودگی(Pollution) کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ “Polluere” سے ماخوذ ہے جس کے معنی”Soilor Defile” گندگی یا آلودہ کے ہیں ۔ اس طرح آلودگی کے معنی ’’گندگی ‘‘نجاست یا آلائش ہے۔
سائنسدانوں کے نزدیک ہوا، پانی اور مٹی میں ناپسندیدہ تبدیلی جس سے اس کے فزیکل، کیمیکل اور بائیولوجیکل کردار میں ایسی تبدیلی آئی جو جانداروں کے لیے نقصان دہ ہوں انسانوں کے لیے اسے آلودگی کہتے ہیں ۔ Odumنے آلودگی کی تعریف اس طرح کی ہے’’ ہوا ،پانی اور مٹی کی طبعی،کیمیاوی اور حیاتیاتی اوصاف میں ایسی غیر ضروری تبدیلی کو جو انسانی زندگی صنعتی ،ترقی اور طرز رہائش اور تمدنی سرمائے کو نقصان کی حد تک متاثر کرتی ہوں آلودگی ہے۔
آلودگی پیدا کرنے والے اشیاء
(1) ڈپوزیٹیڈ میٹر (Deposited Matter)دھواں ، گرد وغیرہ۔
(2) گیسز(Gases)آکسائڈس آف نائٹروجن، سلفر ڈائی آکسائڈ، کاربن مونو آکسائڈ اور ہیلوجنس
(3) ایسیڈس ڈراپ لیٹس (Acid Droplets)سلفیورک ایسڈ، ناٹئرک ایسڈ وغیرہ وغیرہ۔
(4) فلورائڈس (Fluorides)
(5) میٹلس (Metals)مرکری، لیڈ، آئرن، زنک، ٹنگسٹن ، کرومیم وغیرہ وغیرہ۔
(6) ایگرو کیمکلس (Agrochemicals)بایوسائڈس اور فرٹیلایزرس وغیرہ۔
(7) کمپلیکس آرگنک سبسٹانس (Complex Orgainc Substances)بنزین ایتھراسٹک ، ایسڈ نیزپائرنس وغیرہ۔
(8) فوٹو کمیکل آکسی ڈینٹس (Photo Chemical Oxidents)اسموک، اوزون، Pan،نائٹروجن آکسائڈ، الڈی بائیڈس، ایتھی لین وغیرہ۔
(9) سولڈویسٹس (Solid Wastes)
(10) ریڈیوایکٹوواسٹس (Radio Active Wastes)
(11) شورشرابہ(Noise)
آلودگی کے اقسام :
(1) فضائی آلودگی :
صاف ہوا میں مندرجہ زیل مقدار میں گیس ملی ہوتی ہیں ۔
نائٹروجن 78.84فیصد آکسیجن 20.9676فیصد
آرگن0.934فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ0.314فیصد
میتھین 0.0002فیصد ہائڈروجن 0.0005فیصد اور دیگر گیس تھوڑی بہت۔
ہوا میں آلودگی کی وضہ خاص طور سے انڈستری (Industaries)،ترمل پاور اسٹیشن ، آٹو موبائل اور گھیلو ایندھن ہیں ۔
فضائی آلودگی سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ بے موسم برسات ہوتی ہے اور کطرناک سیلاب بھی آتے ہیں ۔ کاربن مونو آکسائڈ کی مقدار اگر زیادہ ہو جائے تو صحت کے لئے بہت نقصاندہ ہے۔ اس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور سر میں درد وغیرہ ہونے لگتا ہے۔ فیکٹریوں کی وجہ سے تیزابی بارش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
(2) پانی کی آلودگی (Water Pollution):
پانی کے بغیر زندگی کا تصور نا ممکن ہے، پانی زندگی ہے اور ہر جاندار کی اہم ضرورت ہے۔ ضروریات زندگی کے لئے وہی پانی استعمال ہوتا ہے جو آلودگی سے پاک صاف ہو۔ پاک صاف پانی کا کوئی رنگ، بویا مزہ نہیں ہوتا یہ ٹھوس سیال اور گیس تینوں شکلیں اختیار کر سکتا ہے۔ پانی ہائڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے۔ یہ آفاقی محلول (Universal Solvent)ہے۔ جب پانی میں ضررر ساں چیزیں حل ہو جاتی ہیں تو وہ آلودہ ہو جاتا ہے۔
پانی کی آلودگی سے مراد پسندیدہ اشیاء کی بڑی مقدار جیسے ٹھوس کے ذرات، حل شدہ نمکیات، صنعتی نا کارہ اشیاء، گرد و غبار اور حیاتیاتی اشیاء کا پانی میں پایا جانا ہے۔ یعنی پانی کی طبعی ، کیمائی یا حیاتیاتی خواص میں وہ تبدیلی جس کا استعمال نقصاندہ ہو آبی آلودگی کہلاتا ہے۔ آبی آلودگی کی اہم وجوہات میں پیٹرول اور اس سے متعلقہ اشیاء ، یعنی تیل کے چشمے، صنعتی اور ان سے پیدا ہونے والا فضلہ ،بجلی کے پلانٹ ، زیر زیر زمین معدنیات، انسانی فضلہ سے جانے والی نالیاں ، زراعت میں استعمال ہونے والی کیڑامار دوائیں ، صابن و ڈٹرجنٹ اور انسانوں کا استعمال شدہ پانی ہیں ۔
(3) زمینی آلودگی (Land/Soil Pollution):
زمینی آلودگی سے مراد قدرتی نوعیت میں تبدیلی یا اضافہ ہے۔ جس سے صرف زمین کی ظاہری شکل بھدی اور گندی ہو جاتی ہے بلکہ اس سے انسانی ، حیوانی، نباتاتی زندگی اور سطح زمین و زیر زمینی پانی بھی متاثر ہوتا ہے۔
زمینی آلودگی کے ذرائے (Sources of Land Pollution):
زمین مندر جہ ذیل چیزوں سے آلودہ ہو جاتی ہے۔
گندگی ، فضلہ، کچرا، کورا کرکٹ، خصوصاً پلاسٹک اور پولی تھین وغیرہ کے امبار اسی طرح فضلہ کے لئے بنائے جانے والے گڑھے (Sweage Tanks)۔
کیمیائی کار خانوں ، کاغز کے کارخانوں ، کپڑے کے ملوں اور ریفائنری وغیرہ سے نکلنے والا صنعتی فضلہ اور تھر مل پلانٹس سے نکلنے والی راکھ (Fly Ash)وغیرہ فضا اور پانی کے ساتھ زمین کو بھی آلودہ کرتے ہیں ۔
Water Management:
انسانی زندگی کا دارومدار ہمیشہ سے زمین اورآبی ذرائع پرمنحصر رہا ہے ۔ جیسا کہ تاریخ کے اوراق الٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ میں سو بٹا میاں جین،کایا ٹلٹی سکبانگ سبھی تہذیبیں ندیوں کے کنارے سے ہی شروع ہوئں ۔ چاہے وہ سندھ ندی،نیل ندی، گنگا ندی یا کوئی اور رہی ہوں ۔ پہلے ہر گاؤں میں کئی طلاب ہوا کرتے تھے اور شہروں ، قصبوں کے ہر محلے میں بھی لیکن آج یہ ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔ اور اگر ہے بھی تو بہت کم اور چھوٹے۔
اپنشد میں کہا گیا ہے کہ انسان کا وجود پانچ عناصر سے بنا ہے ۔ یہ ہے بھومی، گگن، وایو،اگنی اور نیر یعنی زمین، آسمان، ہوا ،آگ ا ور پانی۔ روز ازل جتنا پانی اس کرہ ارض پر تھا اتنا ہی آج بھی ہے ،صرف پانی کی قسم بدلی ہے یعنی جو پانی پہلے صاف شکل میں زمین کے نیچے تھاوہ اب آلودہ ہو کر اوپر آ گیا ہے۔ نالی سے نالوں میں پھر چھوٹی ندیوں سے بڑی ندیوں میں پھر سمندر میں مل کر کھارا ہو گیا ہے اور زمین کی مٹی بھی کاٹ کر لے جا چکا ہے۔ پانی میں طرح طرح کی گندگیاں ، کار خانوں کا گندہ پانی، زہریلے دوائیں ، کھیتوں میں ڈالنے والی کھاد، کیڑوں و مکوڑوں کو مارنے والی دوائیں ، جوہری اورنیو کلیائی کچرے مل رہے ہیں اور ہمارے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں ۔ ہم نے بہت سے کنویں اور تالات پاٹ دیئے ہیں کہیں کھیتی کر رہے ہیں اور کہیں گھر بنا رہے ہیں ماحولیاتی توازن پر اس کا بھی اثر پڑ رہا ہے
صاف پانی کا وجود انسانی زندگی کی بقا کے لیے نہایت ہی اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔ یہ ہمیشہ باعزت مانا گیا، بعض نے تو اس کی پوجا بھی کی اور یہ صرف اس لیے کہ ہمارے سیارے پر ہمارے پینے کے لئے صرف ایک پرسنٹ ہی پانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں تیسری عالمی جنگ پانی کے مسائل پر ہوگی گی اس کی ابتدائی جھلکیاں یا ہم کو اپنے ملک کے صوبوں اور پڑوسی ممالک کے درمیان صاف نظر آرہی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ پانی کی تقسیم پر ہو رہے ہیں جھگڑوں پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟ کس طرح ہم ماحول کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟ پانی کو سمندر میں جانے سے کیسے روکا جائے تاکہ وہ زمین میں جذب ہوسکے؟ کسی طرح چک ڈیم بنایا جائے۔ زیادہ پانی والے علاقوں کو کم پانی والوں سے کس طرح جوڑیں ، ندیوں کو آپس میں کیسے جوڑیں ،زمین سے کم پانی نکال کر سب کی ضرورت کس طرح پوری کریں ۔ ضرور ت اس بات کی ہے کہ جہاں پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہوں وہاں سے پانی نکالنا کم کریں یا بند کریں ۔ ’’پانی پر قانون بنایا جائے‘،‘ پانی کی صحیح قیمت پر کی جائے، گندا اور زہریلا پانی زمین میں جذب ہونے سے روکا جائے۔
پانی کے تحفظ کے لیے مندرجہ ذیل مشوروں پر عمل کیا جا سکتا ہے:
(i) زمین میں بڑی مقدار میں پانی جذب کرائیں ۔
(ii) کوؤں اور تالاب کوجلا بخشی جائے۔
(iii) بڑی تعداد میں پودے لگائے جائیں ۔
(iv) شہروں میں چھتوں کا پانی ٹیوب ویل کے ذریعہ پہنچانے کی اسکیموں پر عمل درآمد کیا جائے۔ اب بڑے شہروں میں 200 مربع میٹر کے مکانوں میں اس کا انتظام لازمی بھی کر دیا گیا ہے۔
(v) آبی پالیسی جسے حکومت نے 2002 عیسوی میں مرتب کیا ہے اس پر عمل ہو۔
(vi) کارخانوں سے نکلنے والے پانی کو بغیر صاف کئے ندیوں اور نالوں میں نہ جانے دیا جائے۔
(vii) پانی بچانے کے لیے ضروری ہدایتیں لوگوں کو ٹی وی، ریڈیو، اخبار اور ذرائع ترسیل سے دی جائیں ۔
(viii) پانی پر قانون بنے اور اس پر عمل کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سزا کا اہتمام ہو
(ix) اس سلسلے میں مذہبی رہنماؤں سے بھی مدد لی جائے۔ ہر مذہب میں پانی کے ضیاع پر امتناع ہے۔ پانی کو نعمت کہا گیا ہے۔
(x) درسی کتابوں میں اس کے متعلق سبق ہو کہ پانی کتنا ہے، یہ کتنا اہم ہے اور اس کی بربادی سے کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اس بارے میں تمام درجات میں بتلایا جائے۔
دانشوروں کا مشورہ ہے کہ اگر پانی دوڑرہا ہو تو اسے چلاؤ، اگر چل رہاہے تو اسے کھڑا کرو ،اگر کھڑا ہے تو اسے بیٹھا دو، اگربیٹھا ہے تو اسے سلا دو، اگر ان مشوروں پر نصف بھی عمل کیا جائے تب بھی ہم آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہو نگے۔
حیاتی تنوع (Bio-Diversity) :
حیاتی تنوع کیا ہے؟ شاید اسی لیے میں کنونشن برائے بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کے مطابق اس نظریہ کو سمجھنے کے لئے چند رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں ۔ آسان لفظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ حیاتیاتی تنوع زندگی ہے۔ حیاتی تنوع سے مراد انسان، حیوانات، پرندے ،کی مچھلیاں اور درختوں سمیت کا امت کے ہر جاندار کا وجود ہے۔
ماہرین کی رائے میں موسمی تبدیلی عالمی حد ت میں اضافہ کے حیاتیاتی تنوع پر اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن ہمارے ملک میں انسانوں کی طرف سے قدرت کی تخلیقات میں بلاجواز مداخلت بشمول جانوروں اور پرندوں کا غیر قانونی شکار، درختوں کی کٹائی ،آبی وفضائی آلودگی میں اضافہ نہ صرف حیات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بلکہ اس ماحولیاتی تباہی کا بھی سبب بن رہاہے جوہر جاندار کے لیے نقصان دہ ہے۔
حیاتی تنوع کو نقصان پہنچانے والے انسان اس بات سے ناآشنا ہے کہ خود ان کی زندگیوں کا دارومدار بھی انہی حیاتیاتی سے جڑا ہے۔
انسان کے لیے آکسیجن نہایت ضروری ہے اور اگر آکسیجن نہیں ہوگی تو انسان بھی زندہ نہیں رہ سکے گا۔ ہم غذا کے طور پر جو کچھ بھی استعمال کرتے ہیں اس کے بنیادی عناصر زمین سے اگائی جاتے ہیں اسی طرح پانی، ہوا ،بادل ،بارش، ندی یا دریا ،سمندر گویا کائنات میں پھیلی یہ تمام اشکال ایک مخصوص عمل سے گزرنے کے بعد ہم تک پہنچتی ہے حیاتیاتی تنوع اسی مخصوص عمل کو برقرار رکھنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔
ماحولیاتی سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ ہماری دنیا میں سے ہر روز 150 سے 200 نباتاتی اور حیواناتی انواع ختم ہورہی ہے ایک بار ایک نوع ختم ہوتی ہے تو ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ جس تیزی سے انواع ختمہورہی ہے معلوم کائناتی تاریخ میں اس کی نظیر صرف ڈائناسورس کے خاتمے کے دور میں ملتی ہے۔ اس سے ہزاروں لاکھوں برسوں سے انواع کو کوئی بڑا خطرہ نہیں تھا۔ اب پھر تیزی سے انواع ضیاع شروع ہوگیا ہے۔
قدرتی اور بشریاتی عمل کی وجہ سے جانوروں اور پودوں کی نایاب اقسام ان کا قدرتی ماحول اور جغرافیائی محل وقوع شدید خطرے میں ہے درحقیقت اس کرہ ارض کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں رکھنے کے لئے ہی جاندار ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اگر یہ ختم ہوگئے تو کرہ ارض کا نظام بھی شدید طور پر متاثر ہوگا۔
اللہ تعلیٰ نے اس دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں بنائی۔
(ربنا ما خلقت ھذا باطلا) آل عمران 19
نباتات اور حیوانات کی ہر نوع کے ذمہ اس دنیا کو چلانے کے لئے کوئی نہ کوئی اہم کام دیا گیا ہے۔ ان انواع کا خاتمہ دراصل انکے ذمہ کئے گئے کاموں کا رک جانا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کے بشمول کائنات کی ہر مخلوق تکلیف کا شکار ہوتی ہے۔ سمندروں میں مجود ننھے منے Plantkonsفضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کے تناسب کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ سمندر کے درجہ حرارت کے بڑھ جانے سے ان کے ضیا ع کو گرین ہائوس گیسوں کے تناسب کو بڑھانے کا ایک اہم سبب مانا جاتا ہے۔ چوہے کھانے والے سانپوں اور مچھروں کے انڈے کھانے والے مینڈکوں کے بغیر انسانوں کی زندگی مشکل ہے۔ یہ نہ ہوں تو طاعون اور ملیریاکی دوائیں (Medicines)آنا فانا انسان کا خاتمہ کر دیں گی۔ بعض انواع کے کاموں کو ہم جانتے ہیں لیکن نباتات اور حیوانات اور خاص طور پر آنے والے جرثوموں کی کروڑوں قسمیں ہماری زندگی کی حفاظت اور بقا کے لئے اللہ کے حکم سے جو خاموش کام کر رہی ہیں ان کا ہمیں پتہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے ان کا ضیاع ہمارے لئے کیسی کیسی قیامیتیں برپا کر سکتا ہے، اس کا اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے ہیں ۔
حیاتیاتی تنوع کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ قدر زیادہ ممکن ہو سکے شجر کاری کی جائے، فیکٹریوں اور گھروں کی گندگی پانی میں نہ پھینکی جائے ، زہریلے دھوئیں کے اخراج پر کنٹرول کیا جائے۔
قابل بقا ترقی:
1980ئکے دہے سے عالمی سیاست میں قابل بقا ترقی کی اصطلاح مروج ہے۔ یہ ایک معاشی اور تکنیکی تصور ہے جس کا مقصد کراۃ ارض پر انسانی آبادی کی بقا اور حیاتی تنوع (Bio-Diversity)کی بقا ہے۔ جو انسان کی معاشی اور صنعتی و خوشحالی کی سرگرمیوں کی وجہ سے زوال پذیر ہے۔
قابل بقا ترقی کے تصور کو باضابطہ طور پر پہلی بار عالمی کمیشن برائے ماحول و ترقی (Commosion on Environment and Devwlopment,1980)جس کے سربراہ نارے کے وزیر اعظم Dr.Gro Harlem Brundt Landتھے جنہیں سال 2004ء میں دنیا کو قابل بقا ترقی سے روشناس کروانے کے لئے
( Blue Printانعام بھی عطا کیا گیا ہے)نے اپنی رپوڑت ’’ہمارا مشترکہ مستقبل (Our Common Future) میں قابل بقا ترقی کا تصور پیش کیا گیا تھا جس کو Brundt Landرپورٹ بھی کہا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں G.H.Brundt Landنے قابل بقا ترقی کی تعریف اس طرح کی ہے ’’ترقی جو مستقبل کی نسلوں کو ان کی ضرورتوں سے نمٹنے کی صلاحیتوں سے سمجھوتہ کئے بغیر حال کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ ‘‘
چنانچہ اس تعریف کے تین پہلوں ہیں ۔
(i) معاشی ترقی و پالیسیوں کو ماحوالیاتی تناظر سے جوڑنا
(ii) مناسب تناسب میں فرق کا جائزہ لینا
(iii) انصاف کا تقاضہ کا ہے کہانسان آئندہ نسلوں سے متعلق بھی غور و فکر کرے۔
عالمی کمیشن برائے ماحول و ترقی نے قابل بقا ترقی کے دو بنیادی تصورات پیش کئے۔
(i) دنیا کے غریبوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے
(ii) موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کی تکمیل کے لئے وسائل کو دیکھ سمجھ کے استعمال کیا جائے۔
قابل بقا ترقی کے اصول (Priciples of Sustainable Development):
قابل بقا ترقی کے حسب ذیل اصول ہیں ۔
(i) سامجی زندگی کا احترام اور تحفظ کیا جائے۔
(ii) عوام کے معیاری زندگی میں اضافہ کیا جائے،
(iii) زمین کی حیاتیاتی قوت اور متنوع صلاحیتوں کا تحفظ کیا جائے۔
(iv) ناقابل تجدید وسائل کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔
(v) ماحولیات کے تحفظ کے متعلق انفرادی رویوں اور سرگرمیوں میں تبدیلی لائے جائے۔
(vi) اپنے سماج کے اطراف و اکناف کے ماحول کو تحفظ کے قابل بنائیں ۔
(vii) ترقی و تحفظ میں ہم آہنگی کے لئے قومی لائحہ تشکیل دیا جائے۔
(viii) امینی وسائل کا استعمال اپنی ضرورت کے مطابق ہی کیا جائے۔
قابل بقا ترقی کے لوازمات:
.1 موڈرن ٹیکنولوجی کا استعمال .2 دابارہ استعمال پر توجہ
.3 ماحولیاتی شعور کو اجاگر کرنا .4 ضرورت کے مطابق ہی وسائل کا استعمال
تحفظ ماحول(Conservation):
ماحولکو بحران سے تحفط کرنے کا مطلب ہے وسائل قدرت کا زیادہ سے زیادہ تحفظ اور کم سے کم استحصال ۔ ماحولیاتی بحران کے دو پہلوہیں : اوّل آفات سمادی اور دوم انسانی بد اعمالیاں ۔ آفات سمادی پرقدرت حاصل کرنا انسان کی قدرت سے باہر ہے۔ ہاں انسان اپنی بداعمالیوں یعنی قدرتی وسائل کے بے تھاشہ استحصال پر قابو حاصل کر کے یا اس کے استعمال میں ہوشیاری اور اس کے متبادل تلاش کرکے قدرتی وسائل کو زیادہ سے زیادہ دنوں تک ساتھ دینے کے لائق بنایا جا سکتا ہے۔ وسائل قدرت کا منصوبہ بند ، مناسب اور دانشمندانہ استعمال ہی اسکا تحفظ ، بالفاظ دیگر ماحول کا تھفظ ہے۔ تحفط کے معنی ہر گزیہ نہیں ہیں کہ قدرتی وسائل کا استعمال بند کر دیا جائے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ قدرتی وسائل کے استعمال اور ان کی پیداواری کے درمیان ایک مناسب توازن برقرار رکھا جائے۔ قدرتی وسائل کو انسان اپنا سرمایہ سمجھ کر خود ک و ترقی دے۔ باالفاظ دیگر قدری وسائل کا کم سے کم غلط مصرف ۔ ان کی کم سے کم بربادی اور ان کا کم سے کم استحصال ۔ مٹی جیسی دولت کی زرخیزی قائم رکھنا ،اسے کٹاؤ اور منتقلی سے بچانا اور جنگل جیسی دولت کے زیادہ سے زیادہ استحصال کی صورت میں اس کے از سر نو قیام کی کوشش کرنا، ان کا تحفظ ہی کہلائگا۔
تحفظ ماحول، یعنی تحفظ وسائل قدرتی لازمی ہے۔ دنیا کی آبادی آج سے دو سال قبل جہاں پون ارب تھی وہاں اب 7ارب پہنچ چکی ہے۔ ہماری ضروریات غزا، لباس، رسل و رسال کے وسائل مختلف اقسام کے آلات، صنعتی کچے مال وغیرہ کئی گناہ بڑھ گئی ہیں اور اس وجہ سے ہم قدرتی وسائل کا تیزی سے غلط اور تباہکن ڈھنگ سے استحصال کرتے چلے آرہے ہیں ۔ مشال کے لئے مٹی کا کٹاؤ ، چٹانوں کا کھسکنا وغیرہ بڑھ گئے ہیں ۔ زمین کے غلط استعمال سے اس کی پیداواری صلاحیت کم ہو گئی ہے۔ کئی خطوں نے معدنیات کا محفوظ خزانہ ختم کر دیا اب بالکل ختم ہو جانے کی حالت میں ہے۔ ہم ہوا اور پانی کو قدرت کا مفت عطیہ سمجھ کر آلودہ کرنے میں لگے ہیں ۔ مختلف اقسام کے نباتا اور حیوانات کا بھی خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ انسان قدرتی توازن کو بگاڑنے میں لگا ہے۔ اگر قدرتی توازن بگڑا تو پوری نسل انسانی ہی خطرے میں پڑ جائیگی۔
لہٰذا انسان کے وجود اور بقا کے لئے قدرتی وسائل اور ماحول کا تحفظ لازمی ہے۔
حوالہ جات
احمد امیر ٹی (۱۹۹۷) ماحولیات، اسپین پرنٹر، بنگلور۔
اعظم شاہ خان (۱۹۹۸) سایٔنس اور زندگی، جے ، اے، اوفیشیٹ پریس۔
بھٹ کے، این (۲۰۰۸) Pollution, Environment and Health Emerging Issues راوت پبلیکشن ، جے پور۔
عبدالقیوم (۲۰۰۶) ماحولیاتی سایٔنس ،نصاب پبلیشر، حیدراباد۔
غوپسے این، سی، اور شرما سی، بی Polution of Ganga River آشیش پبلیکشن ، نٔی دہلی۔
کمبوج این، ایس ( ۱۹۹۹) Central of Noise Pollution, دیپ اینڈ دیپ پبلیکشن ، نٔی دہلی۔
ہیمانشو وسیسٹ اے (۲۰۰۲) Sollution Environmental Education Problems and جے پور کتاب اینکلیو۔
Sonu Rajak Aftab Alam
Assistant Professor Assistant Professor
College of Teacher Education, Darbhanga College of Teacher Education, Darbhanga
Maulana Azad National Urdu University Maulana Azad National Urdu University sonu.06541@gmail.com aftabalameflu@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!