شہپررسول کی شاعری
معروف شاعر ونقاد ڈاکٹر شہپر رسول کی غزل ونظم پر کچھ گفتگو کرنے سے پہلے میں ان سے اپنی تین مختصر ملاقاتوں کے حوالے سے صرف اتنا کہنا چاہوںگا کہ اپنی اس پچہتر سالہ عمر کے عرصے میں جن لوگوں سے ملاہوں ان میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جن سے پہلی بار مل کر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ گویا ان سے میری برسوں کی شناسائی ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ نفسیاتی سطح پر یہ کیا اعجاز ہے بہت سے لوگ برسوں میرے ساتھ رہے مگر میرا ان سے کوئی خاص تعلق خاطر قائم نہیں ہوسکا وہ رہے یا چلے گئے میں نے کوئی کسک محسوس نہیں کی۔ کچھ ایسے بھی تھے جو بہت کم ملے لیکن ان کی دید کا لمحۂ اولین ومختصر ہمیشہ میری زندگی کا سرمایہ بنا رہا ، اسی کے ساتھ میری زندگی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ میں اپنی اس عمر بے مروت میں اہل علم ، دانشوروں ، ادیبوں ، شاعروں اوراچھے لوگوں سے بہت کم ملا ہوں اپنے پسندیدہ اصحاب کی ہم جلیسی وہم نشینی میرے مقدر میں نہیں ہے جو لوگ مجھے پسند آئے یا جن کے ساتھ میں نے وقت گزارنا چاہا وہ مجھ سے بہت دور رہے لیکن ذہن میں ہمیشہ آفتابوں کی طرح جگمگاتے رہے اورآج بھی روشن ہیں میں۔ اپنی تحریروں میں ا یسی روش اختیار نہیں کرتا ایسی محبت ظاہر نہیں کرتا کہ وہ مصنوعی معلوم ہو مجھے یہ سب پسند نہیں۔ کسی کو بے جا تعریفوں سے خوش کرنا میرا شیوہ نہیں ہے شاید یہی وجہ ہے کہ زوال عمر کے ان لمحوں میں بھی بالکل تنہا ہوں نہ کوئی دوست ، نہ رفیق، نہ ہمدم، نہ غمگسار، بہر حال یہ میرے ذاتی معاملات ہیںضروری نہیں کہ دوسروں کو بھی اس سے دلچسپی ہو۔
جناب شہپر رسول سے میری تین ملاقاتیں رہیں پہلی ملاقات علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کی جانب سے منعقد ہونے والے ۱۴؍ اگست کے مشاعرے میں ، دوسری دہلی اردو اکادمی کے ایک سمینار میں جوغالباًنظیراکبرآبادی سے متعلق تھا تیسری بار پھر علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ ا ردو کے ۱۴؍ اگست کے مشاعرے میں ۔ پہلی ہی ملاقات میں وہ مجھے بہت اچھے لگے۔ ان کی شیریں گفتاری میں بھی ایک شوخی تھی ایک ملیح سنجیدگی وبے تکلفی اس کے بعد سے ہمیشہ میں نے انہیں اپنے سے بہت قریب محسوس کیا اورتنہائی کی گھنی ظلمت میں اکثر ان کے تابناک خدوخال جھلک اٹھتے ہیں ۔ یہ بھی واضح کردوں کہ ۱۹۸۰ کے آس پاس ان کی شاعری میرے مطالعے میں آئی وہ بھی رسائل وجرائد کے توسط سے اوراسی طرح ان کی نثر بھی میں نے پڑھی باقاعدہ کوئی شعری یا نثری کتاب میرے مطالعے میں کبھی نہیں رہی میں ڈاکٹر عادل حیات کا ممنون ومشکور ہوں کہ انہوںنے جناب شہپر رسول کا کلام مجھے بھیجا اس خواہش کے ساتھ کہ میں اس پرکچھ اظہار خیال کروں چنانچہ اس بھیجے ہوئے کلام کے علاوہ میں نے رسائل وجرائد سے بھی ان کا کلام نکالا اورلکھنا شروع کیا لیکن میری گفتگو غزل تک ہی محدود نہ رہے گی۔
شہپر رسول کے کلام کے مطالعہ کے دوران مجھے اقبال کی نظم خضرہ راہ کے یہ ابتدائی مصرعے یادآتے رہے ہیں مضمون کی ابتدا یہیںسے کرتا ہوں، یہ مصرعے دیکھئے پھر ان کی غزل پر بات چیت ہوگی میراخیال ہے کہ ان مصرعوں سے ان کی شاعری کا گہرا تعلق ہے:
ساحل دریا پہ تھا اک رات میں محو نظر
گوشۂ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب
شب سکوت افزا ہوا آسودہ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب
دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب
کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
دل میں یہ سنکر بپا ہنگامۂ محشر ہوا
میں شہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا
اقبال نے خضر سے ملاقات کیلئے ایک فضا تیار کی ہے اپنے سیماب آسا مضطرب جذبات کو فطرت کے اس سکوت سے ہم آہنگ کیا ہے جو رات کے عظیم الشان اورپراسرار پیکر کا تخلیق کردہ ہے ۔ اقبال سے خضر کی ملاقات ہوتی ہے وہ شہید جستجو اس سے سخن گستر بھی ہوتے ہیں لیکن شہپر رسول کے یہاں اضطراب تو ہے فطرت کا جمال اس کی پراسرار خاموشی بھی ہے لیکن ان کا خضر خود ان کے وجود میں ہے یہ پیک جہاں پیما خود شاعر کے اندر رنج مسافرت کھینچتا رہتا ہے اقبال کو خضر مل جاتے ہیں ان سے دنیا جہان کے مسائل پرگفتگو ہوتی ہے اقبال سوال کرتے ہیں خضر جواب دیتے ہیں اقبال کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اقبال وخضر کی گفتگو میں خارجی دنیا ہے البتہ شہپر رسول کی گفتگو جس خضر سے ہے وہ ان کی باطنی دنیا کا باشندہ ہے ۔ اقبال کی طرح شہپر رسول کے اندر کا شاعر بہ ظاہر پرسکون ہے مگر اندر سے بہت مضطرب ہے یہ شناوری وغواصی کے فن میں طاق ہے لیکن اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ خود کو متموج اور بلا خیز سمندر کی موجوں کے سپر د کردیتا ہے بقول حافظ شیرازی:
شب تاریک وبیم موج گردا بے چنیں حائل
کجا دا نند حال ماسبکساران ِ ساحل ہا
شہپر رسول کے یہاں طرح طرح کی تصویریں ابھرتی ہیں طرح طرح کے پیکر تراشے جاتے ہیں جن کے خدوخال کا جلال وجمال نشاط محزونی اورملال سے عبارت ہے لیکن ماضی کی وہ تابناک روشنی بھی ہے جواب کشور فنا کے غبار رواں کی گرفت میں نہیں ہے تہذیبیں غروب ہو جاتی ہیں گم گشتہ نقوش بن جاتی ہیں لیکن ہمیشہ بیدل عظیم آبادی کے اس شعر کی تفسیر ہی رہتی ہیں:
خورشید خرامید فروغے بہ نظر ماند
دریابہ کنارِد گر افتاد وگہر ماند
شہپر رسول کے یہاں انا کسی مینار بابل کی طرح سربلند نہیں ہے وہ ان کے وجود کا تحفظ کرتی ہے بے جاغرور کا اظہار نہیں کرتی بلکہ اس کی معراج فتادگی وسرافگندگی ہے جس سے بے پناہ روشنی طلوع ہوتی ہے ان کے یہاںمحزونی میں فیشن گزیدگی نہیں جو ہمارے بعض شعرا فیشن کے طورپر برتتے ہیں ۔ ہمارے یہاں جدید شاعروں نے بھی یہی روش اختیار کی ہے یہ زندگی کے اصلیتوں اورحقیقتوں کی ترجمانی نہیں کرتی زندگی کچھ اور فنی سطح پر اس کا اظہار کچھ او رہی ہوتا ہے طرح طرح کے رنگ چڑھا ئے جاتے ہیں ۔ شہپر رسول کے یہاں یہ سب کچھ نہیں ہے میں مانتا ہوں کہ فن پاروں میں بیشتر شاعر کے ذاتی تجربوں سے متعلق نہیں ہوتے لیکن شاعر اپنے فنی شعور کی گہری روشنی میں تمام ذاتی وغیر ذاتی تجربوں کو پرکھنے کا ہنر جانتا ہے اسے بہت سے نقوش باطل اورازکار رفتہ نظرآتے ہیں اس طرح وہ سچی تصویر پیش کرنے پر قادر ہوتا ہے ۔ شہپر رسول کے یہ اشعار قابل توجہ ہیں:
بہر عنوان آسانی سے باتیں کرتے رہتے ہیں
ہم اپنے گھر کی ویرانی سے باتیں کرتے رہتے ہیں
طیور اشکوں کے پھر آنے لگے ہیں شاخ مژگاں پر
شجر نے پھر نئے برگ وثمر کا خواب دیکھا ہے
ہر تیر اسی کا ہے ہر اک زخم اسی کا
ہر زخم پہ انگشت بدنداں بھی وہی ہے
شور صحرا کا سنا شور سمندر کا سنا
شور کا نام ہی تھا شور کہاں شہر میں تھا
خمار نطق نے اورلفظ کے سبونے دیا
تراسراغ مجھے تیری گفتگو نے دیا
اب موج درد کو مت پوچھو تلوار کی زناہٹ جیسے
شعلے کی جوانی سے لپکی دریا کی روانی میں گزری
اپنے ہونے کی بشات یوں بھی ،دنیا والوں کو دیاچاہتا ہے
خواہ آواز ہو سناٹا ہو واہمہ کوئی قبا چاہتا ہے
یہ اشعار شاعر کی ذات سے یعنی فرد کی ذات سے بھی مکالمہ کرتے ہیں اورعصری حسیت کا اعلامیہ ہے یہ اچھی شاعری کی پہچان ہے جدیدیت یا مابعد جدیدیت نہیں بہر حال یہاں مجھے ان سب چیزوں سے بحث نہیں ہے شاعری ایک پراسرار شے ہے تخلیقیت اس سے بھی زیادہ ، شاعر کے پاس الفاظ ہیں ، اسما ہیں ،افعال ہیں ،ضمائر ہیں وہ انہیں کے توسط سے اپنے تجربوں کو بیان کرتا ہے یہ پراسراریت ایسی غیر فانی ہے کہ اسے کسی بھی ہتھیاریا حربے سے مٹایا نہیں جاسکتا ۔ الفاظ کی تہوں میں معانی کی بجلیاں لپکتی رہتی ہیں اوراس سے زمین شعر شاداب ہوتی ہے یہ شعر تو جہ طلب ہے:
آؤ اب شہر کی راحت سے چرالیں خود کو
اورکسی راہ کے پتھر میں بسالیں خود کو
اس شعر میں ’’چرالیں‘‘ ، ’’راحت سے‘‘ اور ’’بسا لیں‘‘ کا پتھر سے خصوصی رشتہ ہے راحت اورپتھر دونوں اشیا کے زمرے میں ہیں پتھر ایک مادی شے ہے اورجمادات میں سے ہے اورغیر مادی شے کا خود کو مادیت کی طرف لے جانے کا عمل اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ شاعر کچھ دیر کے لئے تمام علامتی دنیا سے کنارہ کش ہونا چاہتا ہے گویا دور جانا چاہتا ہے چنانچہ پتھر میں مسکن اختیار کرکے وہ بھول جانا چاہتا ہے کہ وہ ہنگامہ خیز شہر کا ایک حصہ ہے اسی طرح اشیا اورافعال کے درمیان ایک رشتہ نظرآتا ہے اوراس رشتے کے دھاگے باطنی سطح پر اپنے وجود کا اظہار کرتے ہیں یہ اشعار دیکھئے:
شہر کی جانب جانے والے
کل پھر صحرا کو لوٹیںگے
دھند کیا چھائی ہے فضاؤں پر
آسمانوں سے کیا بکھرتا ہے
دروازہ چنگھاڑ رہا ہے
سائے دم سادھے لیٹے ہیں
ان اشعار میں افعال کی جلوہ گری صرف اشیاء سے ان کے رشتوں کو ہی ظاہر نہیں کرتی بلکہ تخلیقیت کے پراسرار عمل کا جلوہ بھی دکھاتی ہے شاعر نے ان رشتوں کو بخوبی سمجھا ہے اوران نازک دھاگوں کی باطنی تہوں کوایک دوسرے سے جوڑتے وقت بہت احتیاط سے کام لیا ہے ، ان تمام اشعار کو پڑھنے کے بعد جب ہم برسوں بعد کے ان کے غزلیہ اشعار پڑھتے ہیں تو ان میں دوسری شاہراہوں کے مناظر نظر آتے ہیں جہاں کے سنگ میل شاعر کی فکری ارتقا کے غماز ہیں حالانکہ شہپر رسول کا قافلۂ فکر رواں ہے لیکن بہت احتیاط سے یہ خوف بھی ہے کہ دامن گل پر گرد نہ پڑنے پائے یہ منظر کچھ اس طرح ہے :
ہدف خود اپنا ہی بننے سے بچ گئے شہپر
اتر گئی ہے انا کی کماں مبارک ہو
یہ تضاد بھی شہپر زندگی نے دیکھا ہے
چال میں انا دیکھی سرجھکا ہوا پایا
ہلاک ہوگیا آکر خود ا پنے لشکر میں
وہ دشمنوں کی صفوں کو توچیر آیاتھا
دماغ و چشم بھی قلب ونظر بھی تھے ہم پر
مگر ثبات تو شہپررگ گلو نے دیا
ہر ذہن کو سودا ہوا ہرآنکھ نے کچھ پڑھ لیا
لیکن سر قرطاس جاں میں نے لکھاکچھ بھی نہیں
وقت نے ہر آہٹ پر خاک ڈال دی شہپر
کردیا ادا آخر جزیۂ انا میں نے
مذکورہ بالا اشعار میں آنے والا ہر لفظ شاعر کی منفرد سوچ کا آئینہ دار ہے شہپر رسول نے اپنے فکری شعری نظام میں جن رنگوں کی آمیزش کی ہے وہ رنگ ان بلند وبالا ایوانوں کے پروردہ ہیں جہاں کے درودیوار پر پھوٹنے والی شفق اپنے حسین رنگوں کے آتشیں جلوؤں کی امانت دار ہے اوراسی کے حوالے سے وہ اپنی معاصر زندگی کو دیکھتے ہیں اس کی تشریح وتعبیر کرتے ہیں اس خوبصورتی کے ساتھ کہ اس میں مکالمہ کا حسن پیدا ہوجاتا ہے لیکن الفاظ کی تہوں میں جو زیریں لہریں ہیں اس میں شاعرکی انا اور اپنے وجود کی پہچان کے رنگوں کا تموج معنی خیز ہے۔ یہ زیریں لہریں مختلف المزاج ، مختلف النوع، مختلف اللون اورکثیرالجہت جذبوں میں غسل کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور ان لہروں کے رنگوں کی چھاپ الفاظ پر نظر آتی ہے جو فکر کو ایک متنوع پیکر عطا کرتے ہیں۔ ان کی گھلاوٹ اورلہلہاہٹ سے آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں اس طرح تخلیقیت نمایاں ہوتی ہے اورفکر کی بے کراں فضا پرمحیط نظر آنے لگتی ہے مجھے یہ کہنے میں کچھ باک نہیں ہے کہ شہپر رسول کے یہاں اپنے جذبوں کے رنگ میں اپنی فکر کا آہنگ ہے انہوں نے شعری دائروں میںکسی سے کچھ مستعار نہیں لیا ہے اس لیے ان کی شاعری کو بڑی حد تک سچائی کے رنگوں کا ایک آمیزۂ خوش جمال کہا جاسکتا ہے۔غزل کا لہجہ، ان کا اسلوب ان کی لفظیات خود میں اس قدر بے پایاں ، بامعنی اورکثیر الجہت ہوتی ہیں کہ شاعر اگر کسی اور صنف سخن میں اپنی فکر کوآزماتا ہے تو غزل کی لفظیات ہی اس کے لئے معانی کا ایک سمندر فراہم کرتی ہے جس سے وہ اپنے عہد سے مکالمہ بھی کرتا ہے اورطرح طرح کی تصویریں بھی بنا تا ہے۔
شہپر رسول نے صرف غزل کی ناظورۂ ناز آفریں کو ہی قابو میں نہیں کیا بلکہ ان کی فتوحات فکر میں نظم بھی ہے اورانہوںنے اپنی فکر کے بہت سے رنگوں کو یکجا کردیا ہے میرے سامنے اس وقت ان کی پندرہ نظمیں ہیں جن کے لئے میں انتہائی بے باکی سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ قدیم نہیں جدید نظمیں ہیں اور ایسی جدید جو جمالیات کے رنگوں کے توسط سے اپنے زمانے سے مکالمہ کرتی ہیں۔ ان نظموں میں ترقی پسندوں کے اس گروپ کا شعلۂ شور آفریں نہیں ہے جس سے خود ان کے یہاں کے ہی ایک گروپ نے اختلاف کیا تھا یہ وہ لہجہ ہے جو اختر الایمان اورخلیل الرحمن اعظمی جیسے اہم جدید نظم نگاروں کے یہاں ہے ظاہر ہے کہ اگر میرا جی ، ن م راشد ، اختر الایمان ، خلیل الرحمن اعظمی کی حیثیت جدید نظم کے بانیوں کی ہے توان کے بعد آنے والی نسلوں نے ان سے اکتساب کیا ہے یہ کوئی بری بات نہیں ہے مذکورہ بالا نابغہ روزگار نظم نگاروں کے بعد ایک بہت بڑی نسل ہے اسی میں شہپر رسول بھی شامل ہیں ان کی نظموں میں بہت دور کہیں ،تیرگی، ایک فسوں، مدافعت ، پیش خیمہ، رمزبہت اہم نظمیں ہیں لیکن یہاں فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے کہ شہپر رسول غزل کے طاقتور شاعر ہیں ان کے یہاں غزل بہت توانا اورمستحکم ہے۔ میں نظموں کو ان کی غزل کے بعد ہی رکھوںگا ایک نظم مدافعت جو مجھے پسند ہے پیش کرتا ہوں:
غبار آئے کہیں سے تو دور اس سے رہیں
مگر جو سر پہ ہی آجائے سنگ نورفتار
مدافعت کا نیا زاویہ کوئی ڈھونڈیں
شرافتوں میں گندھا کرتی تھی گلِ خالص
مگر وہ صبح کی پہلی دھلی دھلی سی ہوا
گلوبیت کے تکدر کی نذر ہوگئی ہے
عجب سی سوچ عجب فکر بین الاقوامی
معاشرت کی نئی قدر ہوگئی ہے
کہ بے حسی کے قصائد کی شہر آشوبی
ہماری بزم تغزل کی صدر ہوگئی ہے
یہ کیسی خاک ہر اک سمت اڑرہی ہے یہاں
کہیں دروغ صداقت کہیں ہے پاور شفٹ
کہیں ہے علم کو خانوں میں بانٹنے کا طلسم
اوراس کی روسے مفادات کی سزاواری
ہمیں تو سیل سے بچنے کا ڈھنگ آجائے
توقعات یہ خوابوں کے زائچوں پر بھی
وہی ملیح کا پہلا سا رنگ آجائے
ہمیں تو سیل سے بچنے کا ڈھنگ آجائے
اس نظم کو اگر موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو بہت سے اسرار فاش ہوتے ہیں اوراس بات کا سراغ بھی ملتا ہے کہ کرۂ ارض پر جو کچھ ہورہاہے اس پر شاعر کی گہری نظر ہے۔ ا مریکی حکمرانوں اوران کے حلیفوں کا غاصبانہ رویہ، جو برابر یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ تاریخ ختم ہوچکی ہے اب دنیا صرف یک قطبی نظام کی تابع ہے۔ مغربی ایشیا میں جو کچھ ہورہاہے یا جنوبی ایشیائی ممالک میں کس طرح انسانی نسل کا استحصال ہورہاہے وہ سب کچھ اس نظم میں موجود ہے ایک سیلاب جس میں بنی نوع انسان کا وجود تنکے سے بھی حقیر ہے۔
شہپر رسول کی شاعری میں خواہ وہ غزل ہو یا نظم عصر رواں کی گہری کروٹیں ہیں۔ انسانوں کی تقدیروں کے تئیں ایک محزونی ہے، ایک اندیشہ ہے لیکن مایوسی نہیں ہے تیرگی ایک افسوں بھی ایک اہم نظم ہے جس میں روشنی کی اس کیفیت کو بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ سیلِ بے نہایت کا روپ اختیار کرتی ہے تو کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ انسانی ایجاد وترقی کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے اورشہپر رسول کی فکر اس کی تشریح وتعبیر میں بے حد ممد ومعاون ہے۔۔
٭٭٭٭
عشرت ظفر
105/654، فہیم آباد کالونی، کانپور، یوپی
Leave a Reply
Be the First to Comment!