عصر حاضر میں ڈاکٹر ذاکر حسین کے تعلیمی و فلسفیانہ افکار کی معنویت

عصر حاضر میں ڈاکٹر ذاکر حسین کے تعلیمی و فلسفیانہ افکار کی معنویت

 A Study of educational and philophical thought of Dr Zakir Hussain and its relevance in the present scenario

مختار احمد

ریسرچ اسکالر، شعبہ تعلیم، ایچ این بی یونی ورسٹی، گڑھوال، اتراکھنڈ

 Mukhtar Ahmed

Ph.D Research Scholar

Department of Education

  1. N. B. Garhwal University
  2. R. T. Campus Badshahithaul

Tehri Garhwal, Uttrakhan

تعارف

Introduction

تعلیم:۔ اسلام میں تعلیم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسلام کا یہ تقا ضا ہے کہ وہ سراپا علم ہے ۔ تعلیم ساری دُنیامیں ایک عظیم انقلاب ثابت ہوا۔ اسلامی نقطہ نظر سے انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز علم کی روشنی سے کیا۔ حضرت آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے جس چیز سے سرفراز فرمایا وہ علم اشاء تھا ۔ اس علم ہی کی بدولت انسان باقی تمام مخلوق سے ممتاز ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی تہذیب کے صحت مند ارنقاء اور نسونماکے لئے علم ازحد لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اُسے اولین ضرورت قرار دیا۔ یونان اور چین نے علم میں بہت ترقی کی۔ لیکن وہ تمام انسانوں کی تعلیم کے قائل نہ تھے۔ وہ اہل علم کے ایک طبقے پر یقین رکھتے تھے۔ اس میں فلا سفر افلاطون نے بڑا اونچا خواب دیکھا تھا افلاطون اور اہل نظر کے مخصوص طبقے ہی کو اسی امتیاز سے نوازا گیا لیکن اسلام وہ واحد دین ہے جس نے تمام انسانوں پر تعلیم کوفرض قرار دیا اور اُسی فرض کی انجام دہی کو معاشرت کی ایک ذمہ داری قرار دیا ۔

تعلیم صرف تدریس کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ایک قوم خود آگاہی حاصل کرتی ہے۔ اس عمل سے افراد کے احساس او ر شعور کو نکھار ملتا ہے۔ تعلیم نئی نسل کو زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتی ہے اور اس میں زندگی کے مقام اور فرائض کا احساس پیدا کرتی ہے۔ تعلیم ہی سے ایک قوم اپنے ثقافتی اور دینی ورثے کو آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے۔ اور ان میں زندگی کے اُن مقاصد سے لگاوٗ پیدا کرتی ہے۔ جنہیں اس نے اختیار کیا ہے۔ تعلیم ذہنی اور جسمانی تربیت ہے۔ اور اس کا مقصد اُنچے درجے کے ایسے تہذیب یافتہ افراد پیدا کرنا ہے۔ جو اچھے انسانوں او ر کسی ریاست کے ذمہ دار شہریوں کی حثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں۔ تعلیم وہ مسلسل عمل ہے جس کی بدولت کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا دارومدار اُسی تعلیم پر ہوتا ہے۔ تعلیم کے ذریعے سے ہی ہر دور اور ہر مہذب اور قوم کی ترقی ممکن ہو ہے۔ ایک ماہر تعلیم کے مطابق کچھ لفظ سیکھ کر بول لینا تعلیم نہیں ہے بلکہ جب تک نہ اس کی تہہ میں جاکر پرکھا جائے۔

قدیم و جدید مفکرین کی طرف سے پیش کی گئی تعلیم محلولہ بارا تعریفوں کا آکر بغور جائزہ لیا جائے تو ہر تعریف انسانی زندگی کے صرف ی ایک پہلو پر زور دیتی نظر آتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کسی کے سوجنے کا انداز مختلف ہے۔

 مفکرین کے ذہنوں میں جو نظریات ہیں اُنہی کو مدِنظر رکھتے ہویٗ ہر ایک نے تعلیم کا مفہوم الگ الگ انداز میں بیان کیا ہے۔

ایک بات جو ان تمام طریقوں سے اخذ کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت ایک پختہ ذہن ، نا پختہ ذہنوں پر اثر انداز ہوتا ہے یا ـ ـتعلیم اس شعوری کو شش کا نام ہے۔جس کی مدد سے خام طبع افراد میں مطلوبہ تبدیلی پیدا کی جاتی ہے۔ جدید تعلیم میں معیاری اور جامع تعریف جان ڈیوی کی نظر آتی ہے ۔ یعنی تعلیم بحثت ایک عمل ہے۔ ایک تجربہ ہے۔ البتہ اس تجربے اور عام تجربے

ہے کہ عام تجربہ غیر ارادی اور اچانک بھی ہوسکتا ہے۔ جبکہ تعلیم ایسا تجربہ ہے جو منظم صورت میں دہریا۔

الف:۔ قدیم مفکرین کی آراء:۔ ؎ٰ

(۱) قدیم مفکرین میں سب سے پہلا نام سقراط کا ہے اس کی رایے تعلیم سچائی کی تلاش میں مدد دینے کا نام ہے۔

(۲) افلاطون:۔ ’’ تعلیم مناسب عادت کے ذریے نیکی کی تربیت کا نام ہے‘‘

(۳)ارسطو:۔ ’’ ارسطو کی رائے میں تعلیم بچے کی یاداشت، عادات اور خیالات کے ساتھ ساتھ اس کی عقلی اور اخلاقی نشونما کا عمل ہے‘‘

ب۔جدید ماہرین تعلیم :۔

(۱) پستا لوزی :۔ــ’’کے مطابق تعلیم انفرادی و سماجی اصلاح کا ذریعہ ہے‘‘

(۲)بو رڈ کے مطابق تعلیم:۔ ’’بالیدگی کا عمل ہے یعنی تعلیم سے انسان کی قوتوں اور صلاحیتو ں میں وسعت پیدا ہوتی ہے‘‘

(۳)روسو کے نزدیک تعلیم :۔’’فطری ماحول میں فرد کی انفرادیت کی نشونما کا منبع ہے‘‘

(۴) جاں ڈیوی:۔’’ جان ڈیوی نے تعلیم کی تعریف یہ کی ہے۔ تعلیم فرد کی ان تمام صلاحیتوں کا فروغ ہے۔ جن کے ذریعہ اپنے ماحول پر کنٹرول کرنے کی اہلیت حاصل کرتا ہے‘‘

مسلم مفکرین تعلیم کے نزدیک تعلیم                   مسلم مفکرین تعلیم کے نذدیک تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے نسان کی شخصیت کی ہمہ پہلو تربیت اور اُسکے کردار کی تربیت اور تشکیل کی جاتی ہے۔

(۱)ماہر تعلیم اما م غزالی کے نذدیک :۔’’انسانی معاشرے بے بالغ ارکان کی وہ جدوجہد ہے۔ جو آنے والی نسلوں کی نشونما اور تشکیل زندگی کے نصب ا لعین کے مطابق ہو ۔ امام غزالی نے اسلامی نظریہ حیات کے تحت تعلیم کا مفہوم واضح کیا ہے۔ ان کا افادی نظریہ حیات فرد اور معاشرے دونوں پر مشتمل ہے۔ تعلیم کا مقصد تشکیل و تکمیل اخلاق ہے۔ تاکہ انسان نیکی اور برائی میں تمیز اور بُرائی سے اجتناب کرسکے ‘‘

(۲) علامہؔ اقبال کے نزدیک :۔’’تعلیم ایک ایسا عمل ہے۔ جو دین کی روشنی میں انسانوں کی طبعی قوتوں کو نشو نما دے۔ اقبال مسلمانوں کو خودی کی تعلیم دیتے ہیں‘‘

(۳) ابن خلدون کہتے ہیں :۔’’ تعلیم کا اولین مقصد غورو فکر کے ذریعے انسانوں کو حقائق سے روشناس کراتا ہے۔ انسانوں نے اپنی ضروریات زندگی کے حصول کی خاطر اپنی قوت کو کام میں لاکر معاشرتی زندگی کی بنیاد ڈالی ۔ در حقیقت غوروفکر ہی وہ خوبی ہے۔جو انسان اور حیوان میں تفریق کرتی ہے۔ اُسکی بدولت انسان ترقی کی منازل طے کر پایا ہے‘‘

اسلام میں حصول علم ایک دینی فریضہ ہے۔ اسلامی نقط نگاہ سے تعلیم کا مقصد طلباء کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا ٗ عملی اور اخلاقی لحاظ سے بندیج اس لائق بنانا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن جائیں ۔ اسلام کے مطابق تعلیم ایک طرف انسان کے مادی تقاضوں کو آسودگی کا وسیلہ بنتی ہے۔ دوسری طرف انسان کی غیر مادی اقدار کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ یعنی تعلیم سے ایسا تصور برتاہے جو فرد کو دنیاوی ترقی سے ہمکنار کرتا ہے اور ذاتِ خداوندی سے بھی ٗ اسلام دین فطری ہے لہذٰا اسلامی تعلیم بھی انسانی فطرت سے میل کھاتی ہے۔

 مختصر یہ کہ تعلیم ٗ فکرو خیال کی بلندیوں اورذہن و دل کی بالیدگی کا عمل ہے۔ یہ حیات کاملہ کے ہر گوشے میں یعنی مذہبی اقدارٗ ثقافتی معاشرہ کی تہذیب حیات کی تکمیل اور انسان کے کردارکی تکمیل اور انسان کے کردار کی تعمیر کرتی ہے۔ یہ کبھی بھٹکی ہوئی قوم کہ اس کی منزل تک پہنچانے میں خضرراہ کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اسی علم سے انسان ظلمت سے نورکی طرف آتا ہے۔ اس میں تدابیر اور سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اپنی ذات سے آگاہی ملتی ہے۔ اور وہ شعور ابھرتا ہے۔ جس سے عرفان خداوندی نصیب ہوتا ہے۔

علم وہ نور ہے جس سے ذات اور کائنات دونوں روشن ہوتے ہیں یہی وہ عظیم نعمت ہے جسکے سامنے فرشتے بھی سر جھکاتے ہیں۔

فلسفے کی مختلف شاخیں

Different Branches of Philosphy

یوں تو فلسفہ اتنا وسیع ہے کہ کچھ فلسفیوں نے اس کو تمام علوم کی ماں قرار رہا ہے ۔ لیکن موٹے طور پر ہم اس میں مندرجہ ذیل تین قسم کے مسائل کا حل جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

۱۔مابعد الطبعیات (Metaphysics) :۔

فلسفہ کی یہ شاخ، خالق ، مخلوق، کائنات کی اتبداء اور اختتام ، روح، دُنیا ، آخرت ، مہات، موت، وغیرہ کے بارے میں اب تک جو معلومات حاصل ہوچکی ہیں اس پر بحث کرتی ہے۔

۲۔نظریہ معلومات (Epistemology) :۔

بنیادی طور پر فلسفے کی یہ شاخ اس سوال کے اردگر کھوتی ہے کہ ہم کیسے جانیں یاہم کیسے علم حاصل کریں۔ ہر شاخ دماغ، علم حاصل کرنے کے ذرئع ، سچ جھوٹ، شبہات دور

 کرنے کے طریقے وغیرہ کے بارے میں کھوج کرتی ہے۔

۳۔علم الا قدار (Axiology) :۔

فلسفے کی یہ شاخ یہ بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ انسان کی زندگی کا آخری مقصد کیا ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین اور مابعد الطبیات

ڈاکٹر ذاکر حسین کا خدا کے متعلق یہ نظر یہ ہے۔ کہ خدا کہلا ہے۔ تنہا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اُسی نے پوری کائنات کی تخلیق کی اور انسانوں کو پیدا کیا۔ وہ دلوں کے حالات اور رازوںسے واقف ہے۔ اس کے جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ بے نظر ہے۔ وہ زندہ جاوید نہ ہے اُسے نیند آتی ہے اور نہ ہی اونگھ اللہ اپنے افعال میں حکیم اور اپنے احکام میں عادل ہے۔

انسان کی تخلیق اللہ تعا لیٰ نے کی ہے۔ انسانوں کا اصل وجود اُن کا رواحانی وجود ہے۔ وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اپنے اعمال سے انسان اپنی زندگی اور آخرت حاصل کرتا ہے۔ ذاکر صاحب کا یہ ماننا تھا کہ ہمیں پہلے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ چیزوں پر غور کرنا چاہیے پھر خود بخود انسان کے اندر احساس کاجذ بہ پیدا ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی چیز کی اس کو پرواہ ہے۔ ذاکر صاحب اسلامی لحاظ سے بڑے ماہر تھے ۔ اور مابعد الطعیات پر یقین رکھتے تھے۔

ذاکر حسین اور علمیات

ذاکر حسین کے مطابق تعلیم دراصل کسی سماج کی اس کی جانی بوجھی ، سوچی سمجھی کوشش ہے۔ وہ اس لئے کرتی ہے کہ اس کا وجود باقی رہ سکے اور اس کے افراد میں یہ قابلیت پیدا ہو کہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ سماجی زندگی میں بھی مناسب اور ضروری تبدیلی لا سکے۔ ذاکر حسین تعلیم کو ایک ایسی تربیت مانتے ہیں جس سے انسان کے ذہن ، جسم اور روح کی تربیت ہو۔ ذاکر حسین اخلاقی شخصیت کی تعمیر پر شدت کا زور دیتے ہیں کہ ہر تعلیم و تربیت کا یہی منشا ہے وہ جانتے ہیں کہ اصل اور سچا علم وہ ہے جو حق کی بات کرے۔ اُن کا ماننا ہے کہ تعلیم کے ذریعہ انسان کا وجود باقی رہتا ہے۔ ذاکر حسین کے مطابق تعلیم کچھ الفاظ سیکھ کر بول لینا ہی تعلیم نہیں ہے۔ بلکہ تعلیم اُسے کہتے ہیں جو دماغی قوتوں کی زیادہ سے زیادہ نشو نما کرے۔ تعلیم ایسی ہو جیسے ایک طرف تو انسان اپنی روح کی نشونما کرے اور اپنے مقصد کو سمجھے اور دوسری طرف تعلیم کے ذریعہ وہ خدمت خلق کا کام سر انجام دے سکے۔

ذاکر حسین اور علم الا قدار

ذاکر حسین کی زندگی میں اقدار کی کافی اہمیت ہے اُن کے نزدیک خلوص، محبت ، ہمدردی، ہمیت، اخوت، صبر، شکر، راستبازی، مساوات یہ سب ایسی قدریں ہیں جن سے روح کی پاکیز گی اور سچی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ ذاکر حسین نے سماجی قدروں پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ فرد سماج اور ریاست میں صحیح رابط وضبط اور ایک صالح نظام زندگی حماعتی اقدار سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں وہ اقدار ہیں ایثار و قربانی، قانون کی اطاعت حب الوطنی رواداری۔ اتفاق اتحاد ، ملنساری، ہر دل عزیز وغیرہ۔

 ذاکر صاحب نے اقدار عالیہ کو اپنے تعلیمی نظام کا تاج سمجھا ہے ان اقدار کو کچھ اہم حصوں میں تحریر کیا ہے۔۴؎

۱۔جمالیاتی فطری اقدار

۲۔تہذیبی وتمدنی اقدار

۳۔سماجی واقتصادی

۴۔جما عتی وانفرادی اقدار

۵۔جسمانی و دماغی اقدار

ڈاکٹر ذاکر حسین کی سوانح حیات اور کارنامے

ڈاکٹر ذاکر حسین کی پیدائش ایک فریدی پٹھان خاندان میں ۸ فرور ی ۱۸۹۷؁ء کو حیدرآباد میں ہوئی۔ اُن کے والد فدا حسین ۲۰ برس کی عمر میں یو پی کے قائم گنج سے حیدرآباد چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کا بچپن حیدر آباد میں گزرا زمانے کے رواج کے مطابق ذاکر صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ اور کچھ دنوں کے بعد اُن کا داخلہ حیدرآباد کے سلطان بازار گورنمٹ ہائی اسکول میں کردیا گیا۔ نو سال کے تھے تو اُن کے والد کا اس دُنیا سے انتقال ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب کو اسلامیہ۔ ہائی اسکول اٹاوہ میں داخل کردیا گیا۔ جہاں سے اُنھوں نے اپنی ذہانت اور نیکی کے ذریعے بہت جلدی اپنے ساتھیوں اور اساتذہ میں اپنا مقام پیدا کر لیا ۔ اس کے بعد اُنہوں نے ۱۹۱۸؁ء میں بی اے ہونر (B.A. Honour) کے لئے علی گڑھ کے ایم۔ اے ۔ او (M.A.O) کالج مین داخلہ لیا۔ جب علی گڑھ پہنچے تو وہاں بھی اپنی خوش اخلاقی اورذہانت کی وجہ سے ساتھیوں اور اساتذہ کو بہت جلدی اپنا گرویدہ بنا لیا۔

’’علی گڑھ کے قدیم طلباء کی صفوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اپنے بھائی کی حالت بہتر کرنے کے لئے کچھ کرنے کوتیار ہوں اور یہ کمی اس بنا پر بھی ہے کہ علی گڑھ اتنا مذہبی نہیں جتنا اُسے ہونا چاہیے دوسروں کی حالت سدھارنے کے لئے کچھ کرنے کے جذبے اور جوش کا اگر کوئی معقول سبب پیش کیا جاسکتا ہے تو وہ کسی شخص کا مذہبی میلانِ طبع ہوسکتا ہیــ‘‘۔

اس سے ظاہر ہے کہ ڈاکٹر ذاکر صاحب ایک ایسے واحد شخص تھے جو دوسروں کے درد دکُھ کی باتوں سے واقف تھے۔ اُس نے اپنے ساتھیوں کو یہی تلقین کی کہ لوگوں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ ڈاکٹر ذاکر ایک سیکولر تھے۔ لیکن مذہبی اقدار سے والہانہ محبت اور عقیدت تھی۔ وہ عالمگیر انسانی ہمدردی اور محبت کے بڑے قائل تھے۔ کیونکہ ابتداء ہی سے اُن کے اندر مذہبی جذبہ بھرا ہو ا تھا۔ جس کا اثر اُن کی زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے۔

   اپنی فکر کی کاوشوں کو چھوڑ گیا ہے۔ اپنی جمالیاتی نظر کو اپنے مشاہروں کو اپنے مفید منصوبوں کو اپنے دل کے ارمانوں کو، اپنی پسند اور نا پسند کو اپنی روح کی ترقیوں کو اپنی بہتابیوں کو صفحہ ء قرطاس پر بند کر کے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رکھا گیا۔ یہ سب ذہنی تخلیقیں ذہنی تو انائیوں کا خزانہ ہو تی ہیں۔ ان ہی ذہنی توانائیوں سے دوسرے ذہنوں کی غذ کا کام لیا جاسکتا ہے۔

دستکاری:۔

ایک اور اہم مقصد جس پر ذاکر صاحب نے زور دیا ہے۔ وہ ہے تعلیم میں کام کی اہمیت ذاکر صاحب کا ماننا ہے کہ اگر کام کو ہمارے مدرسوں میں مرکزی جگہ دی جائے تو ہمارے کئی مسائل حل ہو جائیں۔ بچوں میں گونہ حوشی کی لہر نظر آئیگی تعلیم و تربیت کا کام صرف کلاس روم کے اندر ہی محدود ذہن رہ جائے گا۔ بلکہ حقیقی زندگی کے ساتھ منسلک ہو جائے گا۔ ذاکر صاحب کے مطابق بچوں کو صرف مدرسوں کی تعلیم تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ اُن کو ساتھ ساتھ میں دستکاری اور دوسرے کاموں میں بھی حصہ لینا ضروری ہے ۔

ڈاکٹر ذاکر صاحب نے تعلیم کے مقاصد کے بارے میں جو تحریر کیا ہے وہ حسب ذیل ہے۔۵؎

۱۔تعلیم برائے قومی یکجہتی

۲۔سیرت سازی

۳۔ذہنی تربیت

۴۔دستکاری

۵۔اخلاقی تربیت

۶۔تلاش حق

۷۔ پیشہ وار نہ تعلیم

۸۔سماجی تریبت

۹۔تعلیم برائے اقدار

۱۰۔تعلیم برائے شخصیت

تلاش حق:۔

ذاکر صاحب کے نزدیک تعلیم کا سب سے اہم مقصد تلاش حق ہے۔ سارے علوم تلاش حق کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ حق ذات الہیٰ کی صفات بھی ہے۔ سارے مذاہب حق ہی کی پرستش کرتے ہیں۔ حق وجود کی وہ جھلک ہے جس میںذرہ برا بر بالیدگی نہ ہو۔ یہاں حقیقت کے پر دے فاش ہوتے ہیں اور اصلیت عیاں ہو تی ہے۔

ذاکر صاحب اس بات پر ہمیشہ زور دیتے تھے کہ بچوں کو ابتداء ہی سے مذہبی تعلیم دینی چاہیے جس سے بچے پڑھ کر خود یہ سمجھ جائیں گے کہ تلاش حق کیا ہے۔ یعنی تلاش حق کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اگر تلاش حق کا راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ کبھی بھی غلط کا م کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس لئے ذاکر صاحب اس بات پر زور دیتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے بچوں کو تلاش حق کی تعلیم دینی چایئے۔ ذاکر صاحب کا ماننا تھا کہ اگر ہمارے سماج اور ملک کو ترقی کرنی ہے تو بچوں کو قوم کا خزانہ بنانا ہے تو اُن کو تلاش حق کی تعلیم دینی لازمی ہے ۔ورنہ ہمارا سارا معاشرہ ایک بے جان بن کر رہ جائے گا۔

اخلاقی تربیت:۔

ڈاکٹر ذاکر صاحب تعلیم میں اخلاقی شخصیت کی تعمیر میں شدت کا زور لگا تے ہیں۔ اخلاقی تربیت ہر مذہب ملک و ملت کا مسلک ہے۔ ہر تہذیب تمدن کا منشاء ہے ہر تعلیم وتربیت کا مقصدہے۔ یعنی ذاکر صاحب کے خیال کے مطابق بچوں کے اندر اخلاقی تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ بچے ہمارے آنے والے وقت میں قوم و ملک کا خزانہ ہوتے ہیں اس لحاظ سے ان کے اند اخلاقی تربیت ہونا لازمی ہے۔ سماج میں اس کا خاص کر بڑا اہم رول ہے۔ اگر ہمارے اندر اخلاقی تربیت کا جذبہ موجود ہے تو تبی ہم جا کر کسی دوسرے کی مدد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر صاحب فرماتے ہیں کہ جب میں نے علی گڑھ کالج میں داخلہ لیا تو میں نے وہاں پر بڑی گہرائی سے غور کیا تو اس وقت میری نظر میں بہت کم طلباء تھے جو ایک دوسرے کی مدد کرنے کو تیار تھے۔ ذاکر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ایک بچے کے اخلاق اور اس کی تربیت اچھے ڈھنگ سے ہوئی ہوگی تو ہو آنے والے وقت میں اپنی اُس عادت اور کردار کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایک بہترین انسان ثابت کر پائے گا جس سے دوسروں پر بھی مثبت اثرات ہوں گے۔

تعلیم برائے قومی یکجہتی:۔

ذاکر صاحب کے مطابق تعلیم ایسی ہونی چایئے جس سے انسان قوم پرستی میں مبتلا نہ ہو جائے۔ اس لئے اُنھوں نے تعلیم برائے قومی یکجہتی کو بڑی اہمیت دی ہے۔ کیونکہ اگر ابتداء ہی سے بچے قوم پرستی کے شکار ہوگئے۔ تو اُن میں آپسی دلچسپی ختم ہو جائے گی۔

 جو ملک و قوم کے لئے خطرے کا باعث بنے گی کیونکہ اس وقت ہمارے سماج کو سب سے زیادہ تنگ دلی اور تاریک خیالی سے خطرہ ہے۔

سیرت سازی:۔

 ذاکر صاحب سیرت سازی اور اقدار کی پاسداری کو ہی تعلیم کا مقصد سمجھتے ہیں اس لئے اُن کا کہنا تھا کہ ہم میں سے ہر ایک کے دل میں سلطانیت اور انسانیت موجود ہے۔ تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ شیطانیت کو ہمارے اندر دبائے ، تعلیم کا سارا راز یہی ہے کہ حیوانیت کو دبائے اور انسانیت کو پروش ہو۔

 ڈاکٹر ذاکر صاحب کے مطابق نظم وضبط

ڈاکٹر ذاکر صاحب نظم و ضبط کے بڑے پابند تھے۔ اُن کاماننا تھا کہ کوئی بھی تعلیمی ادارہ بغیر ایک مخصوص تعلیمی دیشا اور مضبوط ۔ نظم وضبط کے بغیر ایک بے سود سر گرمی ہے۔ اُن کے خیال کے مطابق تعلیم میں بچوں کو اندرونی خود مختاری حاصل ہونی چاہیے اور اُن کو اپنا کام کرنے میں آزادی ہونی چاہیے درسی سرگرمی میں اُستاد کا کردار شخصیت اور علمی بردباری بچے کے لئے راہ عمل ہونی چاہیے ۔ ذمہ داری ، آزادی اور نظام تعلیم میں ساتھ ساتھ رہنے چاہیے اور اُن کے نزدیک اُن تینوں میں بچوں کو مخصوص قسم کی تربیت ہونی چاہیے۔ ذاکر صاحب نظم وضبط کے ساتھ بچوں کو اُن کی آزادی کے حق میں بھی تھے۔

 (مبادیاتِ فلسفہ ) (صفحہ نمبر۱۴۵) سید ظہور احمد گیلانی :۔۵؎؎

ایک اچھے اسکول کی خصوصیات

25 نومبر 1962؁ء کو ڈاکٹر ذاکر صاحب نے ماڈرن اسکول کی ایک تغریب میں تقریر کرتے ہوئے ایک اچھے اسکول کی چند خصوصیات یوں بیان کی ہیں۔۶؎

۱۔ہر ایک بچے کی انفرادی شخصیت کو سمجھنا :۔ تدریس کے کام میں تعلیم اور اسکول کی سب سے پہلی اور اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ بچے کی انفرادی اصلاحیت کو پہنچا سکے۔

۲۔نشونما کے مختلف مراحل سمجھنا:۔دوسری اہم ضرورت یہ ہے کہ اُستاد اور تعلیم داں بچوں کی مختلف مراحلوں میں مخصوص ضروریات کو سمجھ سکے ۔

۳۔ہمہ گہر نشو نما :۔ذاکر صاحب کا ماننا تھا کہ اسکول کو بچوں کی ہمہ گیر نشونما کے لئے کام کرنا چاہیے ۔ دماغ کے ساتھ ساتھ بچے کے دل اور ہاتھ کی تربیت ہونی ضر وری ہے۔ اس کا مطلب اسکول میں اخلاقی ذہنی اور جسمانی نشونما ہونی چاہیے۔

۴۔کار آمد سرگرمیاں:۔اسکول صرف ذہنی ترتیب کا مرکذ نہیں ہے بلکہ  یہاں پر بچے کو وہ سارے ہنرسکھا نے چاہیے۔

۵۔متوازن شخصیت اور سماجی ترقی:۔ ذاکر صاحب ماننا تھا کہ اُستاد اور اسکول کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچہ کو ایک متوازن شخصیت میں تبدیل

 کرے اور اُس سے ایک کار آمد سماجی کار کن بنا سکے۔ بچے کی سماجی زندگی پوری طرح ابھرنا چاہیے۔

  (ہمارے ڈاکٹر ذاکر حسین ) (صفحہ نمبر ۳۱۵) احمد صدیقی:۔ ۶؎

۶۔حُب الوطنی کا جذبہ:۔ ذاکر صاحب کا یہ ماننا تھا کہ بچے کے دل میں ملک کی محبت کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ تاکہ اس کے اندر ہمدردی اور اقدار جیسی خصوصیات پیدا ہوں اور وہ بچہ ملک اور قوم کا زیور بنے۔

ذاکر حسین کی فکر:۔ذاکر حسین سب سے زیادہ جرمن مکب فکر سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے جرمن کے مختلف اکابرین سے تبادلہ خیال کیا کرشنرہٹنر (Kerschens Teener) اس زمانے کے معروف ومشہور ماہر تعلیم سمجھے جاتے تھے۔ تعلیمی میدان میں اُنہوں نے دو انقلابی اصول پیش کئے ایک تو کتابی اسکولوں اور کام کے اسکولوں کی ابتداء اور دوسرا تہذہبی اثاثے کا نقاد ۔       ذاکر صاحب ان اصولوں کو بھی بروے کار چاہیے تھے۔ اور جامعہ ملیہ میں اس عمل کو لانے کی کوشش کی گئی۔

  بنیادی قو می تعلیم کا مقصد لڑکے اور لڑکیوں کے لئے کم از کم سات سال کی مفت تعلیم کا انتظام کرنا تھا۔ لازمی بنا یا گیا تھا۔ ان سات سالوں میں کام کو مرکزی حثیت دی جائے اور تعلیم میں تمدنی اشیاء کا امتراج زیادہ ہو اور دوسرے یہ کہ ذاکر حسین نے تعلیم کے لئے جو بھی کام کرنے کی سوچ کی اس میں وہ کامیاب ہوئے۔ کچھ لوگ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو بند کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ذاکر صاحب نے جرمنی سے تار دیا کہ جامعہ ملیہ کو بند نہ کیا جائے۔ وہ اور اُن کے ساتھی جامعہ ملیہ کے لئے خود کو وقف کرنے کی قسم کھا چکے تھے ۔ اس یقین دہانی اور مہاتما گاندھی کی ہمت افزائی پر جامعہ کو بند کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور ذاکر حاحب جب ہندوستان واپس آئے تو علی گڑھ سے اس کو مہاتما گاندھی جی کی رائے کے مطابق قرول باغ منتقل کر دیا گیا اور ذاکر حسین شیخ الجامعہ بنائے گئے ۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کی خدمات

جامعہ ملیہ اسلامیہ:۔

۱۹۲۰؁ء کے اوائل میں ہندوستان میں جن تحریکوں نے جنم لیا۔ ایک خلافت تحریک اور دوسری تحریک ان دونوں تحریکوں کے زور سے ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک طوفان کھڑا ہوگیا۔ اور ہندوستان میں اس قدر اتحاد کی لہر پیدا ہوئی کہ ایسی مثال تاریخ جنگ آزادی میں پہلے نہیں ملتی۔

ہندوستاں کے مختلف طبقوں کے علاوہ تعلیمی ادارے بھی اس تحریک سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے۔ علی گڑھ کالج جو بر طانی حکومت کے خلیفوں کے خلیفوں کا مرکز کہا جاتا تھا۔ تحریک خلافت کے خامی طلباء نے یونین سے خطاب کرنے کے لیے مہاتما گاندھی ، علی برادران ، مولانا آزاد کو دعوت ملی۔ ذاکر صاحب اور ان کے چند انقلابی ساتھیوں نے علی گڑھ کالج کو خیر آباد کہہ کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰؁ء کو علی گڑھ میں ہی رکھی ۔ جن میں علی برادران حکیم ، اجمل خان اور ذاکر حسین پیش پیش رہے۔ ذاکر صاحب نے برلن یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگر ی حاصل کرنے کے واپس وطن لوٹنے کا ارادہ کر رہے تھے کہ ادھر ملک میں حالات تیزی سے بدلے اور تحریک خلافت سرد پڑنے سے جامعہ بھی بددلی کا شکار ہونے لگی ایسے حالات میں کچھ اراکین جامعہ ملیہ سے بندکرنے کا سوچ رہے تھے۔

۱۹۳۷؁ء میں گاندھی جی نے (Basic) تعلیم کا پورا پروجیکٹ اُن کے سپرد کر دیا ۔ اور بنیادی تعلیم کا یہ پورا کام اُن ہی کی دین دہے۔ اُنھوں نے بنیادی تعلیم کے مقاصد طریقہ تعلیم، کھیل کھود میں تعلیم اور اس کے ساتھ گھر یلوکام بھی سیکھنے کو کیا۔ یہ تمام طریقے ذاکر صاحب نے ملک اور قوم کے سامنے رکھے۔ وہ بچوں کے بہت اچھے ادیب تھے۔ اُنھوں نے بہترین کہانیاں لکھی ہیں جو آج بھی بچوں کو اخلاقی تعلیم دیتی ہیں۔ ۱۹۴۸؁ء کو ذاکر صاحب علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے اور اُس کے بعد راجبہ سبھا کے لئے چُنے گئے۔ پھر بہار کے گورنر رہے۔ ۱۹۶۲؁ء میں نائب صدر کے عہد پر رہے مئی ۱۹۶۷؁ء میں وہ صدر جمہوریہ بن گے۔ ذاکر صاحب ہندوسان کے پہلے مسلم صدر مقرر ہوئے۔ اور ملک کے تیسرے صدر جمہوریہ تھے۔ صدر جمہوریہ رہ کر بہت کام انجام دے ۔

ذاکر صاحب کی تصانیف:۔

ذاکر صاحب کو قدرت نے تصنیف و تالیف کی بہتر ین صلاحتیں عطا کی تھیں ۔ ان میں چند اہم اور قابل ذکر درج ہیں۔

۱۔مبادی معاشہات:۔ یہ کتاب مسٹر ایڈوں کینسن (پروفسر معاشیات لندن یونیورسٹی) کی کتاب ’’ اہلی منڑی پولیٹکل اکانمی‘‘ کا ترجمہ ہے۔ اس کا سال ۱۹۲۲؁ء ہے۔

۲۔ریاست:۔ یہ کتاب مشہور فلاسفر افلاطون (The Republic) کا ترجمہ ہے۔

۳۔معاشیات :۔ مقصد اور منہاج:۔ یہ دراصل ایک طویل مقالہ ہے جو ہندوستان اکیڈمی ۔ (یو ۔ پی) کی درخواست پر لکھا گیا تھا۔

۴۔تعلیمی خطبات:۔ یہ کتاب ذاکر صاحب کے اُن خطبوں کا مجموعہ ہے۔ جو اُنھوں نے مختلف تقریروں میں بیان کیا ہے۔ جو ال اندیا ریڈیو سے تعلیم و ترتیب پر نشر کئے گئے۔

۵۔معاشیات قومی:۔ تاریخ اشاعت اپریل ۱۹۴۶؁ء ازفریڈرشن لسٹ ذاکر حسین نے اس کتاب کو برا راست جرمن زبان میں ترجمہ کیا۔

 ڈاکٹر ذاکر حسین کے فلسفیانہ خیالات

  فلسفئہ زندگی:۔

زندگی اظہار چاہتی ہے۔ ہر زندگی بقدر طرف اور بہ طریقہ میلان طبع ارتقائی منزل طے کرتی ہے۔ اور پھر ہر زندگی اپنی جبلی سر شت کے مطابق اپنی پنہاں ذہنی صلاحیتوں ، جذبی اسقلالوں، فکری اور عملی رحجانوں کو اپنی ہستی کو کمال کے وجود تک پہنچانے کے لئے ہم آہنگ اور منظم کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ذاکر صاحب کی زندگی ایک مثال سمجھی جاتی ہے۔ کیوں کہ اُن کی زندگی سے ایسا لگتا ہے کہ یکسر جہاد رہی ہے۔        انسان کی زندگی میں مختلف مواقعے آجاتے ہیں۔ جہاں اس کے جوش ویقین زور وہمت ، قوت فیصلہ اور حیرات اخلاقی کا مظاہرہ اور امتحان ہوتارہتا ہے۔ یہ مواقع کبھی ایک دم آجاتے ہیں اور کبھی آہستہ آہستہ اور راستے چننے کھٹن ہیں۔۷؎

ذاکر صاحب کے فلسفیانہ خیالات:۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کا تعلیمی فلسفہ بہت گہرا ہے ۔ اُن کے نزدیک کے نزدیک تعلیم معلومات کے خزانے کو اگھٹا کرنے کو نہیں کہتے ہیں بلکہ اُسے کہتے ہیں جو انسان کے اندر دماغی قوتیں لے کر پیدا ہوا ہو۔ اُن میں ترقی کا جتنا امکان حاصل کرے۔ معلومات کے خزانے کو پانے سے انسان نہیں بنتا بلکہ اُس کے صیحح استعمال کا وہ طریقہ بھی جانے۔

ڈاکٹر صاحب تعلیم میں افلاطون کی اتباع کرتے ہیں ۔ افلاطون کا کہنا تھا کہ علم وہ روشنی ہے۔ جس سے انسانوں کے دل ودماغ روشن ہوتے ہیں ۔ افلاطون کا ایک نکتہ ذاکر حسین کے تعلیمی فلسفے میں پایا جاتا ہے۔ وہ علم کی تحصیل برائے تبدیلی ہی نہیں یہ تبدیلی مضر بھی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ اٹیمی قوت سے فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی ہے۔ ذاکر حسین کا فلسفہ کہ ذہنی زندگی کسی اور ذہنی زندگی سے بیدا ر ہوتی ہے۔ بڑا معنی خیز ہے۔ یہ خیال برائے علم کی بنیا د ہے تہذیب وتمدن کے چراغ اُسی سے روشن ہیں۔ ذاکر حسین کی فلسفیانہ زندگی انسانوں کو بڑی متاثر کرتی ہے۔

(افکار نظرذاکر حسین) (صفحہ نمبر۸۵) حسن فاروقی:۔ ۷؎

ڈاکٹر ذاکر حسین کا تعلیمی فلسفہ

ذاکر صاحب کا تعلیمی فلسفہ بہت گہرا ہے۔ اُن کے خیال میں معلومات کے خزانے کو پانے سے آدمی انسان نہیں بنتا بلکہ اس کے صحیح استعمال کا طریقہ بھی وہ جانے۔ قارون کے پاس بھی بہت بڑا خزانہ تھا بلکہ اُس سے نہ کبھی کسی کو فائدہ ہوا نہ اس کی عزت بنی رہی۔ علم ایک الگ شے ہے اور تعلیم الگ شے ہے۔ علم اگر موتی ہے ۔ تو تعلیم اس موتی کو نگینہ میں جوڑنے کا عمل ہے۔ علم اگر سائنس ہے ۔ تو تعلیم ٹیکنالوجی ہے۔ تعلیم کا کام درس وتدریس سے کچھ مختلف ہے۔ یہاں پر ذہنوں کو مانجھا جاتا ہے۔ تعلیم وتربیت کے ذریعے قدرت یہ چاہتی ہے کہ جس طرح شہد کی مکھی گلاب کے ذریعہ سے خوشبو حاصل کرتی ہے اور بعد میں شہد کی شکل میں روپ دیتی ہے۔ اُن کے مطابق اکیلا آدمی ایک جاندار تو ضرور ہے ۔ مگر پورا انسان نہیں انسان کی امتیازی خصوصات اس کا پختہ ذہن ہے۔ بلکہ ایک مکمل انسان کا تصور سماج کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انسان کی ذہنی زندگی کسی نہ کسی دوسرے انسان کے ذہن کی پیدا وار ہوتی ہے۔ اور چراغ جلتا ہے۔ ذہنی زندگی میں ’’تو‘‘ ’’نہ‘‘ ’’ہو‘‘ ’’میں‘‘ کا وجود بھی نہ ہو اس لئے ذہنی زندگی میں سماج کا وجود لازمی ہے اور سماج کو بھی لازمی ہے کہ

 وہ اپنی تعلیم کا نظام درست کر لے اس سے صاف طور پر عیاں ہو جاتا ہے کہ ذاکر صاحب کا جو تعلیمی فلسفہ ہے اس میں انسان کو ہر اُس کام سے جڑا رہنا چاہیے جس سے ہمارا سماج اور ہمارا تعلیمی نظام میں کسی طرح کی کمی محسوس نہ ہو۔ اُن کا یہ ماننا تھا کہ اگر

ہمارا سماج، معاشرہ اچھا ہوگا توتعلیم حاصل کرنے میں کسی قسم کی کمزوری سر زد نہیں ہوسکتی ہے ۔ اُن کا یہ ماننا تھا کہ ہمارے ذہن وسیع ہونا لازمی ہے۔

ذاکر صاحب کا فلسفہ کہ ذہنی زندگی کسی اور ذہنی زندگی سے بیدار ہوتی ہے۔ بڑا معنے ٰخیز ہے۔ یہ خیال سارے علوم کی بنیاد ہے۔ تہذیب وتمدن کے چراغ اُسی سے روشن ہیں۔ کنفیوشس کی ذہنی زندگی چین کی تہذیب کا باعث بنی ۔ سقراط، بقراط، افلاطون اور ارسطور کا ذہن یونان کی تہذیب پرخاوی رہا۔ گوتم بدھ کی ذہنی زندگی مذہب کے لئے مشعل راہ بنی۔ رسول صلی اللہ علیہ وصلم کی ذہنی زندگی غار حرا کی تجلی سے نکل کر عروج اسلام کا باعث بنی۔ غرض کسی اور کی ذہنی زندگی ہی تعلیم وتربیت کا سرچشمہ ہے اُستا د کا کام صرف یہ ہے کہ شاگردوں کو کسی اور کی زندگی سے روشناس کر دے۔

غرض یہ کہ ذاکر صاحب کا تعلیمی فلسفہ اخلاقیات کا ایک گلدستہ ہے۔ اس میں ذہنی جسمانی کے وہ پھول مہکتے ہیں جو تفکر و قدیر کے چمن میں چنے گئے

 ہیں۔ ذہن انسانی ہی ہے جو انسان کو خالق کی سب سے بڑی دین ہے۔ اور اُن کی تعلیمی رحجان کی روح ہے۔ اقدار عالیہ ، تمدنی اشیاء اور اخلاقی شخصیت اس روح کا سرمایہ ہے ۔

فرد وسماجی اور ریاست اس روح کی کائنات ہے۔ تلاش حق خدمت ِ خلق اور سیرت کی تعمیر اس روح کا پیغام ہے۔ اس فلسفے کی تشریح اور اُس کے حصول کے لئے ذاکر حسین نے اپنی ساری عمر وقف کردی۔

الغرض یہ کہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی ہر فکر کی معنویت آج بھی مسلم اور سالم ہے۔ ان کے انہیں اعلیٰ افکار کی بنا پر اُنہیں آج بھی بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ذاکر صاحب نے ملک قوم وملت کو تعلیمی میدان میں جو نظریات اور فلسفیانہ خیالات بیان کئے اور اُن پر عمل کرنے کی تلقین کی ہے اُس کو کبھی بھی کوئی ہندوستانی اپنے خیال اور دل سے فراموش نہیں کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کے تعلیمی خیالات

ڈاکٹر ذاکر حسین کے تعلیمی خیالات پوری دنیا کو متاثر کر نے والے تھے۔ ذاکر صاحب ایک قسم کے مذہبی آرمی تھے۔ اس لئے اُن کے اندر تعلیمی جذبہ بہت تھا۔ وہ اپنے مذہب کو اپنا نے کی ازحد تلقین کرتے تھے۔

محمد وصی صدیقی کے مطابق:۔ ۸؎

ڈاکٹر ذاکر حسین کی انسانیت پر ستی اور وسیع تھا۔ اس میں ادنیٰ اور اعلیٰ کا کوئی امتیا ز نہ تھا۔ اور ان کا یہ کردار آخری وقت تک قائم رہا ۔ ملنے والا کوئی بھی ہو ۔ خندہ پشانی سے ملتے ۔ اُنھوں نے تعلیمی کام کو شروع ہی سے اپنا مقصد حیات بنا لیا تھا۔ اور ایک آئیڈیل ایجوکشینسٹ تھے۔ ڈاکٹر ذاکر کے مطابق ترقی و خوشحالی کے لئے اعلیٰ اور معیاری تعلیم لازمی ہے۔ ذاکر صاحب کے تعلیمی خیالات بہت گہرے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ہمیں ایک اچھا سیاست داں ہوں کے نا طے تعلیمی دور کی طرف بھی اپنی توجہ مرکوز رکھنی چایئے۔

(مفکرین تعلیم ) (صفحہ نمبر ۲۷۱) محمد اکرم خان :۔ ۸؎

ڈاکٹر ذاکر حسین کے تعلیمی نظریات:۔

ڈاکٹر ذاکر حسین نے تعلیم سے متعلق بہت سارے نظریات پیش کئے ہیں جن میں کچھ اس طرح سے تحریر کئے جاتے ہیں:۔۹؎

۱۔ڈاکٹر ذاکر حسین نے مادی اقدار ، شخصی اقدار ، سماجی اقدار، ثقافتی اقدار، روخانی اقدار اور اخلاقی وغیرہ جیسی بہت ساری نشاندہی کی ہے۔

۲۔دوسرے یہ کہ ذاکر صاحب کے شخصی اقدار کی تصویر میں محبت ، طاقت ، صفائی میں نظر آتی ہے۔ ان کے نزدیک صحت بھی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اگر صحت اچھی ہوگی تو اس میں طاقت بھی موجود ہوگی۔

۳۔تیسرے یہ کہ انفرادی اقدار کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ذاکر حسین نے سماجی اقدار کی وکالت کی جس کا مطلب یہ ہے کہ سماجی کی طرف احساس ذمہ داری، غریب غرباء کے لئے فکر مندی ہونا ضروری ہے۔

۴۔چوتھے یہ کہ اُنھوں نے ثقاوفتی وارثت کو اقدار کے اپنے نظر ے میں شامل کیا ہے۔ انسانی ذہن اور طریقہ کار کو ذاکر صاحب نے بڑی اہمیت دی ہے۔

۵۔پانچوں یہ کہ ذاکر صاحب روخانی اقدار سے صرف نظر نہیں کرتے تقافت اور مذہب کا گہرا تعلق ہے۔ مذہب اچھی زندگی کے لئے عملی اخلاق اصول پیش کرتا ہے۔

 (اُستاد سے صدرجمہوریہ تک) (صفحہ نمبر ۴۱۰) عبدل رحمان : ۹؎

  ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق تعلیم کا مفہوم

ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق تعلیم دراصل کسی سماج کی جانی بوجھی سوچی سمجھی کوشش کا نام ہے۔ وہ اس لئے کرتی ہے کہ اس کا وجود باقی رہ سکے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین چاہتے تھے کہ تعلیم اس طرح دی جائے جو لوگوں کی ضرورتوں کے مطابق ہو۔ اُن کا کہنا تھا کہ اچھے لوگ ہی ملک کی خدمت کر سکتے ہیں جس سے ملک ایک اچھا بن سکتا ہے۔ اس لئے لوگوں کو تعلیم دینے کی وکالت کرتے تھے کہ فرد اور سماج میں قریبی مراسم پیدا ہوں یا فرد یا سماج کی ضرورتوں کو سمجھے اور اس میں تبدیلی لانے میں اپنا رول ادا کرے۔ وہ تعلیم کو سماج میں تبدیلی کا اہم ذرئعہ مانتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تعلیمی تجربات کو اس طرح سے منظم کرنا چاہیے جس سے زیادہ سے زیادہ سماج استعداد پیدا ہو۔ ذاکر صاحب کے مطابق تعلیم میں بہت سارے راز پوشیدہ ہوتے ہیں جن کو جاننا انسان کے لئے بہت لازمی ہے۔

ڈاکٹر ذاکر صاحب کے مطابق تعلیم

ذاکر صاحب نے تعلیم کی تشکیل جدید اور واضح کے دو بنیادی اصول بیان کئے۔ کار گردگی کا اصول اور سماجی لحاظ سے صاف اور واضح سمت کا تعین ، تعلیمی سرگرمی کی مدد اپنا اظہار کرتا ہے۔ یہ ذہنی سرگرمی مہذب اور با مقصد ہوتی ہے ۱۰؎ ۔ اور ہر مقصد کو اس سے آگے کے مقصد کی راہ رکھائی ہے۔ اُنھوں نے تعلیم کے اخلاقی اور سماجی پہلو پر زیادہ زور دیا ہے۔ اُن کے خیال میں تعلیم کا مقصد ایسے شہری تیار کرنا ہے۔ جو تہذیبی اور ثقافتی سطح پر خالص ہندوستانی ہوں ۔ جن کے دلوں میں وطن کی محبت اور خدمت کا جذبہ ہو جو ہر قسم کے تعصبات سے آزاد ہوں۔ وہ تعلیم کے ذریعہ اُن تمام انسانی اقدار کا تحفظ چاہتے تھے۔ جن پر ایک صالح سماجی زندگی کا دارو مدار رہے۔ گاندھی جی کی بنیادی تعلیم کو یعنی تعلیمی نظرے کو اُنھوں نے ایک باضابطہ ایسکم کی شکل دی تھی۔

 ڈاکٹر ذاکر حسین ایک ایسے واحد شخص ہیں جنہوں نے سیاست کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی بڑا نمایاں کام کیا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر ذاکر حسین قدیم تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم پر بھی بھی بڑا زوردیتے تھے۔

  ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق تعلیم اور روایتی قدریں

ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق آپ حضرات کو اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ تعلیم میں روایتی اقدار کی کیا اہمیت ہے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے ہم ان لفاظ کے معنی کو وضاحت کے ساتھ سمجھ لیں کہ عمل تعلیم کا مرکزی مسلہ ہی ہے۔ کہ انسان کس طرح اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہاں اس مسلے پر تفصیل سے بحث کرنے کا موقع نہیں ۔ مگر میرے خیال میں بلا شبہ ایک بات کہی جا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس قسم کو موثروار کامیاب تو سط یعنی اچھی تعلیم کے لئے ضروری ہے۔

  روایتی اقدار کے ذریعے سے تعلیم دینے میں جس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو اقدار کے انتخاب میں خاص اہتمام کیا جائے۔ اور دوسرے ایسی موثر تدبیروں سے کام لیا جائے کہ متعلم ان اقدار سے پوری طرح فیض اُٹھا سکے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے مواقع فراہم کئے جائیں جن میں اقدار کا تجربہ کر سکے۔ جو اس کی اپنی دینی اور روحانی واضح نفسی سے خطابقت رکھتی ہیں۔ڈاکٹر ذاکر حسین نے علم اور تعلیم میں روایت اور اقدار پر بڑا زور دیا ہے۔ جس سے انسان کے اندر اچھے اقدار پیدا ہوتے ہیں اور وہ دوسروں کی قدر کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق تعلیم کے مقاصد

ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی ہستی ملک وملت کے لئے قدرت کی عطاکردہ ایک عظیم عنایت تھی۔ اُن کا خیال تھا کہ نسل انسانی پر خالق کی سب سے بڑی عنایت ذہن انسانی ہے اور انسان اسی ذہن کا کرشمہ ہے کہ آج انسان چاند پر قدر رکھ چکا ہے۔ افلاک کی سیر کر رہا ہے۔ سمندروں کی سطح چارٹ رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تعلیم وتربیت کو ذہنیت کا حاصل سمجھا اور اس کے فروغ میں کوشاں رہے۔ تعلیم و تربیت اُن کی زندگی کا اہم مقصد تھا۔ اُنھوں نے تعلیمی مقاصد کے بارے میں کچھ اس طرح سے وکالت کی ہے۔

 اعلیٰ تعلیم کی قدریں ) (صفحہ نمبر۲۰۵) مسعودالحاق:۔ ۱۰؎

ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق تدریسی طریقہ کار

ڈاکٹر ذاکر صاحب نے تدیس میں ایسے طریقہ کار اپنا نے پر زور دیا ہے اُن کے نزدیک جو بچہ مرکوز ہو اور جن بچوں کو سرگرمی سے حصہ لینے کی گنجائش موجود ہو اور ایسے طریقہ کار اپنائے جائیں جن میں کرتے کرتے سیکھنے کی پاس موجودہو اس طرح ان کے نظرے کے مطابق مشاہدہ ، تجربہ اور پروجیکٹ جیسے طریقوں کو تدریس میں اہمیت کا حامل بنایاجائے ۔ ۱۱؎

   تعلیمی نصاب:۔

ذاکر صاحب نے بنیادی تعلیمی اسکیم کی رپورٹ میں ایک منظم اور متوازن نصاب کی سفارش کی ہے۔ اُنہوں نے مادری زبان کے ساتھ ساتھ سماجی علوم۔ معلومات عامہ ، مصوری اور موسبقی جیسے مضامین کو پڑھانے کی سفارش پیش کی۔ نصاب میں دستکاری، زمیندری اور سماج کی ضرورتوں کے مطابق کچھ خاص پیشہ وارانہ تربیتی پروگرام شامل کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔ وہ نصاب میں مستقبل کو مد نظر رکھ کر تیا کرنے کے حق میںتھے۔

تعلیم کا مقصد:۔

 تعلیم کا مقصد بچے کی ہمہ جہت نشو نما ہے۔ یعنی بچے کی جسمانی ، ذہنی، اور اخلاقی تربیت کرنا اس کے اندر اچھے طالب علم، اچھے انسان و شہری اور کام کرنے والے کی خوبیاں پیدا کرنا۔

  ڈاکٹر ذاکر صاحب تعلیمی کام سے ہمیشہ دلچسپی رکھتے تھے وہ لکھنے کے بہت شوقین تھے۔ اُنھوں نے کافی کتابیں بھی تحریر کی ہیں سکھشا ّ (ہندی) افلاطون کی کتاب کا ترجمہ ، معاشیات پر اُن کی بہت سی کتابیں ہیں تعلیمی تجربات، تعلیم افکار، سماجی زندگی ، معا شیات کا طریقہ اور مقصد وغیرہ ذاکر اہم کتابیں ہیں اس کے علاوہ بھی اُنھوں نے بہت کام کیا ہے جو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔

۱۔یہ لوگوں کی دلچسپیوں، صلاحیتوں ، رجحانات اور رویہ کے مطابق ہواور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھے۔

۲۔یہ کسی کام یاد ستکاری کے ذریعہ دیا جائے اور لوگوں کو خود کفیل بنانے میں مددکرے

۳۔یہ کتابی نہ ہو، لوگون کی عملی زندگی سے جڑاہو اور ان میں اقدار پیدا کرے۔

۴۔اس کے ذریعہ لوگوں کو مختلف تجربات اور مشاہدات کرنے کا موقع ملے۔

۵۔اس میں ایسے مشاغل ہوں جن کے ذریعہ طلباء میں ذوق جمال پیدا ہو، خود اظہار کی صلاحیت پیدا ہو اور دوسروں کے کام آنے کا جذبہ پیدا ہو۔

۶۔یہ ایسا ہو کہ طلباء کی توانائی کا استعمال صحیح سمت میں کرے۔

۷۔طلباء کو اپنا خالی وقت صحیح طرح سے گذارنے کے لئے مناسب مشاغل فراہم کرے۔

۸۔یہ طلباء کے اندر بین الاقوامی تفہیم پیدا کرے۔

(تعلیمی خطبات) (صفحہ نمبر ۱۹۰)  سعیدہ خورشید عالم:۔ ۱۱؎

ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق طلباء

ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق ہر طالب علم کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی انفرادی ترقی اور قوم کی مجموعی ترقی کے بارے میں سوچے اور آرام طلبی کے بارے میں زیادہ نہ سوچے ۔ ان کے مطابق سچا طالب علم وہ ہے جو اپنی قوتوں کو وہاں تک بڑھائے جہاں تک ممکن ہو سکے۔ ان کے اندر اتنی عقل ضرور ہونی چاہیے کہ وہ نیک وبد میں تمیز کر سکیں۔اس کو چاہیے کہ محنت و مشقت سے تعلیم حاصل کریں۔ اس کو چاہیے کہ اپنے دل میں غور و فکر کے ذریعہ ان اچھی باتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے جو انسان کے لئے ممکن ہو۔ ان کے مطابق طالب علم کی زندگی کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہم پرستی اور تعصبات کو چھوڑ دے اور اپنے ان بھائیوں میں تعلیم کی اشاعت کرے جو کہ ناخواندہ ہیں۔

اساتذہ:۔ ۱۲؎

ڈاکٹر ذاکر حسین اساتذہ کو بہت ذمے دار اور فرض شناس قسم کا آدمی مانتے تھے۔ وہ اساتذہ کو با کردار، بااخلاق اور با صلاحیت قسم کا انسان مانتے تھے۔ ان کے مطابق اساتذہ کو ایسا ہونا چاہیے جو طلباء میںنیک بدمیںتفریق سکھا سکے۔ اور ان کی حوصلہ افزائی کر کے ان کی شخصیت کی صحیح نشوونما کرسکے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ اساتذہ اپنے طلباء کے اندر زیادہ سے زیادہ خومشاہد اور خود مطالعہ کرنے کی عادت ڈالیں۔ وہ اپنی شخصیت اپنے علم اور اپنے رعب کا استعمال کر کے طلباء کے اندر مطلوبہ تبدیلیاں لائیں۔

 (اُبھرتے ہوئے ہندوستان میں تعلیم) (صفحہ نمبر۲۷۳) ساجد جمال، عبدل رحمان: ۱۲؎

  موجودہ تعلیمی نظام میں ڈاکٹر ذاکر حسین کے تعلیمی افکار کی معنویت

ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب ہندوستان کے ماہر تعلیم ، فلسفی ، ادیب اور چند مفکرین میں شمار کئے جاتے ہیں ڈاکٹر ذاکر حسین نے تعلیمی میدان میں اپنی خدمات بڑے اچھے طریقے سے انجام دی ہیں جن میں اُنھوں نے تعلیم کی اہمیت ضرورت اور طریقہ تعلیم کے بارے میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے تعلیم کے سلسلے میں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ درجے تک کی تعلیم کے بارے میں بتایا ہے۔ اُنہوں نے اخلاقی، سماجی، ثقافتی، معاشراتی سب میں بتا یا ہے کہ تعلیم محض چند الفاظ سیکھ کر بول لینا نہیں ہے بلکہ اس میں اخلاقیات ، اقدار، ہمدردی، رواہ داری، دیانت داری وغیرہ سب شامل ہونی چاہیے۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو خاص کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت پرزور دیا ہے۔ ذاکر صاحب نے بچے کی نشونما پر بڑا زور دیا ہے۔ وہ نظم و ضبط کے بڑے پابند تھے اُنھوں نے نظم وضبط اپنانے پر بھی زور دیا ہے مگر ساتھ ساتھ بچے کی آزادی کے بھی حق میں تھے۔ ان کے نظریات افلاطون کے خیالات سے ملتے ہیں اُن کے مطابق بچے کو آزادانہ موحول میں اپنی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ اگر مہاتما گاندھی کی تعلیم پر نظر ڈالیں تو اُن میں اور ڈاکٹر ذاکر کی تعلیم میں بہت فرق نظر نہیں آتا ہے۔

  ڈاکٹر ذاکر نے بچوں کو مشورے کرنے پر تلقین کی تھی کہ آپ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ میل جول کر کے کام انجام دیا کرو جس سے آپ کے اندر دوسروں کیلئے ہمدری پیدا ہوجائے گی۔ اُن کے نزدیک بچوں کو ابتدائی تعلیم اُن کی مادی زبان میں دلائی جائے۔ وہ بچوں کو قومی تعلیم دلانے کے حق میں تھے اُن کا ماننا تھا کہ علم انسان کے اندر سے نمودار ہوتا ہے لیکن اگر بچے کی ذہنی سوچ اسطرح کی ہے تو اس کام کو انجام دے سکتا ہے لہذا ذاکر صاحب کے نزدیک ایک اعلیٰ اور صحیح تعلیم یافتہ ہی ہمارے ملک کو سمھبال سکتا ہے۔ اُن کا ماننا تھا کہ ہمارے ملک کے اندر تعلیم کا نظام کسی اعلیٰ تعلیم یا فتہ کے ہاتھ میں ہونا چاہیے ۔ اگر اُن کی سیرت حیات اور اُن کے کارناموں کی طرف رجوع کریں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ اُنھوں نے ملک کی ترتی میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ اُنھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں وائس چانسلر جو خد مات انجام دی ہے وہ قا بل تعریف ہیں۔

 اگر ان تمام باتوں کو مدِنظر رکھا جائے تو دنیانے شاید ہی کوئی ایسا مفکر ، ادیب پیدا کیا ہو جو ذاکر صاحب جیسی سوچ رکھتا ہو۔ اس کے ذاکر صاحب کو حُب وطنی سے بڑا لگاؤ تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ اس دُنیا میں خاص کر ہمارے ملک ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہے جو دوسروں کی ہمدردی اپنے اندر رکھتا ہو۔ذاکر صاحب کی اگر زندگی پر غور سے دیکھا جائے تو ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک مقام بہت بلند رکھا۔ اور ہر ایک کی مدد کی۔

 آج موجودہ دور کی اگر بات کی جائے تو اس دور میں ذاکر صاحب کے بتائے ہوئے راستے پر بہت کم لوگ نظر آتے ہیں کیونکہ آج کل کے دور میں تعلیم صرف تجارت بنتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس میں سماج کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ اور اگر شفقت اور ہمدردی کی بات کی جائے تو بھی آپ کو برائے نام نظر آئے گی ذاکر صاحب کی نظر سے مسلم سماج میں پیدا شدہ خرابیاں اور در انداز شدہ منفی پہلوبھی اوجھل نہیں رہے ہیں۔ اس سے طاہر ہے کہ موجودہ دور میں ذاکر صاحب کی تعلیمی خدمات اور فلسفیانہ اقدار کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کیونکہ اُنھوں نے علم اور تعلیم کو بڑی گہری سے جانا اور پھر تحریر کیا تھا۔ مگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دور کی تعلیم حالت بہتر نہیں ہے۔

ذاکر صاحب کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کر کے یہ بات اظہر حسین ہو جاتیہے کہ وہ تعلیم اور دین کے لئے ایک عظیم مجاہد اور دامی تھے۔

اس لحاظ سے ہمیں یہ کہنے پر کوئی دشوری پیش نہیں آئے گی کہ موجودہ تعلیمی نظام میں ذاکر صاحب کے نظر ے کی اشد ضرورت ہے آج کے دور میں اگر اُن کی بتائی ہوئی تعلمات پر عمل ہوگا تو پھر کوئی پریشانی درپیش نہیں آئے گی۔ کیونکہ اگر موجودہ دور کو باریک بینی کی نگا ہ سے دیکھا جائے تو تعلیم برائے نام ہے اس میں ہمدردی، اخلاق ، محبت کہیں بھی نظر نہیں آئے گا۔ لہذا ذاکر صاحب ایک سیے شخص تھے۔ جنہوں نے تعلیم میں بڑا رول ادا کیا اور تعلیم کو اعلیٰ منزال کی طرف گامزن کرنے میں بڑا قریبی فرض ادا کیا ۔ اُن کی اس قربانی کی مثال زندہ جاوید ہے۔

نتائج

ڈاکٹر ذاکر حسین ۸ فروری ۱۸۹۷؁ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد پیشے سے وکالت کرتے تھے۔ ان کی شروع کی تعلیم اٹاؤہ (یو پی) کے اسلامیہ ہائی سکول میں ہوئی۔یہاں سے ہائی اسکول کرنے کے بعد علی گڑھ میں داخل ہوگئے جو اس وقت انگلواور نیٹل کالج علی گڑھ کہلاتا تھا۔ اور آج مسلم یونیورسٹی کہلاتا ہے۔ جب ایم۔ اے کے طالب ِ علم تھے۔ تب ہی سے مہاتما گاندھی کی عدم تعاون تحریک سے منسلک ہوگئے تھے۔ اُنھوں نے علی گڑھ کا لج کا ئیکاٹ بھی کیا اور پھر جامعہ اسلامیہ کالج قائم کیا۔ سن ۱۹۲۲؁ء میں اُنھوں نے معاشیات میں (P.hd) ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ یہ ڈگری برلن یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ۱۹۲۶؁ء میں وہ ہندوستان میں واپس چلے آئے۔ اور پھر عرصہ گزرنے کے بعد آپ نے جامعہ ملیہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پھر ۱۹۲۶؁ء سے لے کر ۱۹۴۹؁ء تک وہ جامعہ ملیہ میں تعلیمی کارواں کو آگے بڑھاتے رہے۔ اور جامعہ ملیہ میں ۲۲ سال خدمت کی اور اُسے ایک یونیورسٹی کا درجہ دیا۔

موجودہ دور میں اُن کے خیالات کی معنویت

اگر دور حاضر ہ کا تعلیمی جائزہ لیا جائے تو پھر ہمیں ذاکر صاحب کی تعلیمی خدمات اُن کے تعلیمی نظر یات سے کافی حد تک استفادہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ ذاکر صاحب نے تعلیم سے متعلق جو خیالات رکھے تھے اس دور میں وہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں اُنھوں نے کہا تھا کہ بچوں کو تعلیم اس طریقے سے دی جائے جس میں اُن کا سماج اور اخلاق شامل ہو۔ اُنھوں نے تعلیم کو چار چاند لگائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے بچے کی نشونما کا خیال رکھا جائے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ بچوں کو پہلے مذہبی تعلیم دی جائے جس سے اُن کے اندر مذہب اور ملک کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اُن کا کہنا تھا کہ تعلیم وہ ہے جس انسان کے ذہن کے اندر سے نمودار ہوتی ہے۔

لیکن آج کے دور میں نہ تو بچوں کو پہلے مذہبی تعلیم دی جاتی ہے ان کے اندر اخلاق اور اقدار کی کمی نظر آتی ہے۔ اس کی بنا پر ہم کہہ سکتے کہ ذاکر صاحب نے تعلیم سے مطلق جو نظریات پیش کیے تھے اُن کی موجودہ دور میں بڑی

ضرورت اور اہمیت ہے تب جاکر ہمارا سماج ، معاشرہ ، قوم ترقی کی راہ پر کامزن ہو پائے گی۔

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.