سالانہ مجلہ’’ترسیل‘‘تعارف وتجزیہ
تعارف:’’ترسیل‘‘ فاصلاتی نظام تعلیم کشمیر یونیورسٹی کا ترجمان مجلہ ہے۔اگرچہ ۱۹۸۴ء میں شعبہ اردو قائم ہوچکا تھا لیکن اس مجلہ کا پہلا شمارہ ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا ہے ۔اس کی اِدارت شعبہ اردو کے پروفیسر صاحبان خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں ۔پہلے دور میں پروفیسر شفیقہ پروین اور پروفیسر سجان کور نے اس مجلے کو پروان چڑھانے میں اپنا خونِ جگر صرف کیا اور اب ڈاکٹر الطاف انجم اور ڈاکٹر عرفان عالم اس کو عالمی سطح کاایک معیاری اور مستند مجلہ بنانے میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔پروفیسر شفیقہ پروین نے ہی اس کو شروع کیا تھا اور وہ اس کی بنیاد گزار بھی ہے۔مجلہ کے اب تک تیرہ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔ابتدائی شمارے تین حصّوں میں منقسم ہوتے تھے اور یوں تحقیقی وتنقیدی مقالات کے ساتھ شاعری اور خطوط کا حصّہ میں شامل ہوتا تھا۔لیکن جب ادارت کی ذمہ داری نئے ہاتھوں میں لگی تو انہوں نے اس طرز کو رسمی اور غیر ضروری سمجھ کر مجلہ کو صرف اور صرف تحقیقی وتنقیدی مقالات کے لئے مختص کرلیا۔مقالہ نگاروں میں ہندوپاک کے چوٹی کے قلمکاروں کے ساتھ ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے مشاہیر ادب بھی شامل ہوتے ہیں۔
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا کثیر اللسانی،کثیر آبادی،کثیر ناخواندہ،کثیرالمفلوک حال و محتاج لوگوں کا مسکن ہے۔یہاں دنیا کی ۱۷ فیصدی آبادی رہتی ہے جس میں ۳۴ فیصدی آبادی ناخواندہ ہے۔یہاں ایک طرف ۱۲۵ کروڑ لوگوں کے لئے غذا کی فراہمی کو یقینی بنانا ایک بڑا مسئلہ ہے اور دوسری طرف ان ۳۴ فیصدی ناخواندہ لوگوں کے لئے یکساںو معیاری تعلیم کے مواقع فراہم کرنا ایک بڑا چلینج ہے۔ان ناخواندہ افراد میں اکثریت غریبوں،پس ماندہ،لاچارہ،احساس کمتری کے شکار لوگوں،ظلم اور خوف سے دو چار لوگوں کی ہے۔ان تمام باتوں کے پیش نظر حکومتِ ہند نے اوپن لرننگ(Open Learning) اور فاصلاتی نظامِ تعلیم(Distance Education) کے ذریعے ان لوگوں کو اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔اس نظامِ تعلیم سے کوئی بھی شخص گھر بیٹھے یا پھر دفتر جانے کے باوجود بھی آرام سے اور کم لاگت پر اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔اس نظام تعلیم کی شاہکار مثال اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی نئی دہلی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد ہے۔جہاں لاکھوں کی تعداد میں نہ صرف ہندوستانی بلکہ بیرونی ممالک کے طلباء بھی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔
ہندوستان میں فاصلاتی نظام تعلیم کا مستقبل بہت روشن نظر آتا ہے۔یہاںدو قومی سطح کی اور ۱۳ ریاستی سطح کی اوپن اور فاصلاتی نظام تعلیم کی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں۔۱۵۰ سے زائد یونیورسٹیوں میں فاصلاتی نظام ِتعلیم کے مراکز قائم کئے گئے ہیں۱؎۔اس نظام ِ تعلیم کا آغاز دہلی یونیورسٹی نے ۱۹۶۲ء میں شروع کیا تھا اور بعد میں حیدر آباد اوپن یونیورسٹی نے اس نظامِ تعلیم کو باقاعدہ اور منظم طریقے سے شروع کیا ۔ اس یونیورسٹی نے اس نظامِ تعلیم کو نہ صرف اپنا نصب العین بنایا تھا بلکہ سب سے پہلے یہ نعرہ ’’ تعلیم آپ کے دورازے پر‘‘عام کیا تھا ۲؎۔آج ملک میں اس نظامِ تعلیم کے مختلف ذرائع سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی مجموعی تعداد ۲۰ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔جن میں۱۵ لاکھ طلبا صرف اگنو (IGNOU)سے تعلیم حاصل کرنے والے ہیں۳؎۔فاصلاتی نظامِ تعلیم ایک بہتر متبادل نظام ِتعلیم کا موقع فراہم کرتا ہے۔یہ بالکل عوام دوست،غریب دوست،کفایتی،سماج کے ہر طبقے کے لئے مناسب اور سہل و آسان ہونے کی وجہ سے روز بہ روز مقبولیت حاصل کررہا ہے۔
کشمیر یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ ہی یہاںمختلف مضامین کے لئے شعبہ جات، تحقیقی مراکزاور خود مختار مراکز قائم کیے گئے۔لیکن ۱۹۷۶ء میں وائس چانسلر جناب آر۔ ایس۔ چستی (۷۷۔۱۹۷۳) کے دور میں(Institute Of Correspondence)کے نام سے ایک خود مختار ادارہ قائم کیا گیا ۔ دس سال بعد یعنی۱۹۸۶ء میںاس اِدارے کو وائس چانسلر پروفیسر شاہ منظور عالم(۱۹۸۴ ۔۱۹۸۷) کے دور میں زیادہ فعال ،کارگر اور مستتحکم ومنّظم بنا نے اور اس کا دائرہ بڑھانے کی غرض سے اسکو (Distance Education)کا نام دیا گیا۔فاصلاتی نظامِ تعلیم کے اغراض و مقاصد میں ان لوگوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرنا شامل ہیں، جو معاشی،سیاسی،جغرافیائی،جسمانی،تہذیبی اور دیگر وجوہات کی بنا پر اپنی تعلیم منقطع کرچکے ہیں۔جو لوگ غریبی کی وجہ سے سال بھر یونیورسٹی کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ہیں اورکشمیر کے کاشتکاری لوگ جو دن بھر کھیتوں اور باغات میں محنت و مشقت کر کے روزی روٹی کماتے ہیں۔ ان کے لیے یہ ادارہ فعال ثابت ہورہا ہے۔پروفیسر شفیقہ پروین نے فاصلاتی نظامِ تعلیم کے مقصد و منشور کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
’’ڈسٹنس ایجوکیشن ظاہر ہے ایک ایسا نظامِ تعلیم ہے جس میں عمر،سکونت یا پیشے کی کوئی قید نہیں ۔یہ طرزِ تعلیم خاص طور پر ایسے لوگوں کے لئے کارگر ثابت ہوا ہے جو بعض معاشی،معاشرتی،اقتصادی یا شخصی وجوہ کی بنا پر تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے ہوں۔ڈسٹنس ایجوکیشن ریاست کے ہر ڈسٹرک میں مکمل و منظم تعلیمی مراکز کا قیام عمل میں لانے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔‘‘ ۴؎
اس ادارے کے قیام کے آٹھ سال بعد۱۹۸۴ء میں جامعہ کشمیر کے اربابِ اقتدار نے فاصلاتی نظامت تعلیم میں شعبہ اردو قائم کیا ۔ آج یہ شعبہ کشمیر یونیورسٹی کا سب سے بڑا ،فعال اور سرگرم ادارہ بن چکا ہے۔یہاں بیک وقت سات سو طلبا ایم اے اردو میں داخلہ لیتے ہیں۔ شعبہ اردو فاصلاتی نظامِ تعلیم کا سب سے بڑا مقصد ایم اے اردو کے طلباء کے لئے خود اکتسابی مواد تیار کرنا اور ان کیلئے معیاری تعلیم کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔اس ضمن میں ۱۹۸۴ء میں شروع ہونے والے پہلے ایم اے پروگرام میں صرف چالیس طلبا کا داخلہ ہوا تھا۔پھر سال بہ سال اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور آج یہ تعداد سات سو تک پہنچ گئی ہے۔ فاصلاتی نظامِ تعلیم اردو زبان و ادب کے فروغ میں ابتدا سے ہی پیش پیش رہا ہے۔ شعبہ اردو کے قیام کے ٹھیک سترہ سال بعد یہا ں سے ایک سالانہ تحقیقی وتنقیدی مجلہ’’ ترسیل‘‘ جاری کیا گیا۔ یہ ایک معیاری ادبی رسالہ ہے جس میں ریاستی اور بیرون ریاستوں کے قلم کاروں کی تخلیقا ت شائع ہوتی ہیں۔یہ سالانہ مجلہ بین الاقوامی سطح کا جریدہ ہے اور اس میں مقالہ شائع ہونا کسی کرشمے سے کم نہیں ہے ۔حالانکہ یہ یو جی سی کی طرف سے تیار کردہ ۵۲رسائل وجرائد کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔پروفیسر ریاض پنجابی(سابق وائس چانسلر کشمیر یونیورسٹی) نے فاصلاتی نظام تعلیم کی ترویج میں ’’ترسیل‘‘ کی اہمیت و افادیت کے بارے میں لکھا ہے:
’’اردو کوایک منظم میڈیا کی حیثیت سے استعما ل کرنے کی کافی گنجائش فاصلاتی نظام ِتعلیم میں موجود ہے۔میں مطمئن ہوں کہ اس طرزِ تعلیم کی وساطت سے ہزاروں طلباء و طالبات اردو تعلیم سے مستفید ہوتے ہیں اور ’’ترسیل‘‘ کی باقاعدہ اشاعت اور مقبولیت بھی اس بات کی غمازی ہے کہ نظامت فاصلاتی تعلیم اردو کی بقاء اور اس کے فروغ کیلئے مختلف سطحوں پر کام کررہا ہے۔۔۔۔’’ترسیل‘‘ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے،جس کی وساطت سے اردو زبان کی بقاء اور فاصلاتی نظام ِتعلیم کی اہمیت و افادیت پر تفصیل سے بحث وتمحیص کے موقع دستیاب ہیں۔‘‘ ۵؎
فاصلاتی نظام تعلیم بیک وقت اردو زبان وادب کے فروغ کیلئے مختلف ومتنوع کام انجام دے رہا ہے۔جن میں سات سو طلبا وطالبات کیلئے سالانہ چالیس کلاسز کا انتظام کرنا،ہر طالب علم کیلئے سہیل اور آسان،معیاری اور مستند مواد تیار کرنا،مختلف مسائل کو حل کرنے کی غرض سے سمیناروں،کانفرنسوں،ورک شاپوں اور توسیعی خطبات کا انعقاد کرنا شامل ہے۔لیکن شعبہ اردو فاصلاتی نظام تعلیم کا ترجمان تحقیقی وتنقیدی مجلہ’’ترسیل‘‘کی علمی وادبی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس میں یونیورسٹی کے قلم کاروں کے ساتھ ریسرچ اسکالروں اور بیرون ریاستوں اور ممالک کے مشاہیر ادب کے تحقیقی وتنقیدی مقالات بھی شائع ہوتے ہیں۔اپنے مدعا ومقصد کے عین مطابق اس میں زیادہ طرح فاصلاتی نظام تعلیم سے متعلق مضامین کو جگہ دی جاتی ہے لیکن دیگر موضوعات پر بھی اہم اور معیاری مقالات شائع ہوتے ہیں۔یہ مجلہ ۲۰۰۱ء میں پہلی بار ڈاکٹر شفیقہ پروین کی ادارت میں جاری ہوا تھا۔ اس کے اب تک تیرہ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔گویاشعبہ اردو کے قیام کے ٹھیک سترہ سال بعد مجلہ ’’ترسیل‘‘ کی شروعات ہوئی ہے۔’’ترسیل‘‘ کے لغوی معنی’’ارسال،ابلاغ،بھیجنا،رسد،رسل،روانگی‘‘ وغیرہ کے ہیں۔زیر نظر مضمون میں ’’ترسیل‘‘ کے ان تیرہ شماروں میں شامل مضامین اور شاعری کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہیں، تاکہ ریسرچ اسکالر اس مجلہ کی اہمیت وافادیت سے واقف ہوجائے۔اس میں شامل مضامین کے عنوان اور مقالہ نگار کا نام درج کرنے سے نئے ریسرچ اسکالروں تک کم سے کم یہ معلومات پہنچ جائے کہ اس میں کون کون سے مضامین شامل ہوچکے ہیں اور ان کے تحقیقی مقالے میں کون سا مضمون معاون مدد گار بن سکتا ہے۔
چونکہ اشاریہ سازی کا مقصدبھی یہی ہوتا ہے کہ مختلف رسائل وجرائد اور کتابوں میں شامل مضامین اور دیگر معلومات تک طلبا،ریسرچ اسکالروں اور اساتذہ کی رسائی ہو۔ہندوستان اور کشمیر کے مقابلے میں پاکستان جس کو اردو کا آخری مسکن بھی کہا جاتا ہے ،وہان اشاریہ سازی کا اچھا خاصا کام ہوچکا ہے اور مزید لوگ اس میدان میں کام کررہے ہیں۔لیکن اردو زبان کے آبائی علاقے یعنی ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں سندی اور غیری سندی تحقیق کے طور پر کچھ اہم رسائل اور شخصیات کے اشاریہ تیار ہوچکے ہیں۔ان میں اشاریہ اقبال،اشاریہ غالب،اشاریہ سرسید،اشاریہ مکاتیب اقبال،اشاریہ آجکل،اشاریہ روح ادب،اشاریہ معارف،برہان کا اشاریہ،اشاریہ ایوان اردو،اشاریہ دلگداز،اشاریہ نیا دور،اشاریہ تہذیب الاخلاق،اشاریہ معاصر،اشاریہ جامعہ،اشاریہ تحریک،اشاریہ شاہراہ ،اشاریہ اقبال ریویووغیرہ شامل ہیں۔دبستان کشمیر میں تحقیق وتنقید کے زمروں میں تاحال اس میدان میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے اور نا ہی اس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔البتہ ماہنامہ شیرازہ اور ہمارا ادب کلچرل اکادمی کے اشاریہ کئے جاچکے ہیں۔تحقیق میدان میں اشاریہ سازی بھی ایک اہم کام ہے اور دیگر تحقیقی کام براہ راست اس سے جڈے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ڈاکٹر سید عبداللہ نے اشاریہ سازی کی اہمیت کے بارے میں لکھا ہے کہ’اشاریہ سازی کا کام آٹے میں نمک کے برابر ہے اور جو کچھ کام اس سلسلے میں ہوا ہے وہ صرف کتابوں کا ہوا ہے،رسائل کا اشاریہ سازی ہنوز تشنہ ہے‘۔(اشاریہ ماہنامہ ’صحیفہ‘ لاہور،ص:۳۳)زیرِ مضمون بھی اشاریہ کی ذیل میں شامل ہوسکتا ہے اور اس میں ’’ترسیل‘‘ کے تمام شماروں میں شامل مقالات اور مقالہ نگاروں کا ذکر کیا گیا ہے۔حالانکہ اس میں مضامین کو موضوعات کے لحاظ سے یا حروف تہجی کے اعتبار کے مختلف زمروں میں تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔کشمیر سے شائع ہونے والے دیگر اہم رسائل وجرائد مثلاً بازیافت،اقبالیات،تسلسل،تعمیر،لفظ لفظ،پرتاپ،پمپوش،گل لالہ،شیرازہ،ہمارا ادب وغیرہ کا بھی اشاریہ تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
’’ترسیل‘‘ عصرِ حاضر کے چند نمائندہ رسائل وجرائد میں شمار ہوتا ہے۔اس مجلہ کے ابتدائی شماروں میں ایک بات مشترکہ نظر آتی ہے کہ ہرشمارے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے حصّے میں تحقیقی وتنقیدی مقالات،دوسرے حصّے میں شعر وسخن اورتیسرے حصّے میں مستقل قارئین کے خطوط شامل ہوتے ہیں۔خطوط میں شکایات،تجاویز،شُکرگُزاری اور دیگر اہم باتیں شامل ہوتی ہیں۔ جامعہ کشمیرکا وئس چانسلر اس کا سرپرست ہوتا ہے اور فاصلاتی نظامِ تعلیم کا ڈائریکٹر اس کا مدیر اعلیٰ ہوتا ہے۔شعبہ ادو کی تاریخ کو دوحصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،ابتداء سے۲۰۰۹ء تک نہ صرف شعبہ اردو بلکہ مجلہ’’ ترسیل‘‘ کا مکمل کام کاج ڈاکٹر شفیقہ پروین اور ڈاکٹر سجان کور بالی سنبھال رہی تھیں اور ۲۰۰۹ء سے تاحال شعبہ اردو کے ساتھ ساتھ تحقیقی وتنقیدی مجلہ’’ترسیل‘‘ ڈاکٹر عرفان عالم اور ڈاکٹر الطاف انجم سنبھال رہے ہیں۔شعبہ اردو کے پروفیسر صاحبان ہی مجلہ’’ترسیل‘‘ کے مدیراں بھی ہوتے ہیں۔اس تحقیقی وتنقیدی مجلہ کے محاکمہ سے ادب کے طالب علموں کو نہ صرف معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ ملے گا بلکہ تحقیق کے حوالے سے بھی معیاری اور مستند مواد ملنے کی اُمید ہے۔اکیسویں صدی میں رسائل وجرائد کی اگرچہ بہتات ہوچکی ہے اور مواد کے لحاظ سے بھی سرکہ نگاری(کاپی پیسٹ) ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔لیکن کچھ رسائل وجرائد اپنے معیار کے لحاظ سے آج بھی خاص پہنچان رکھتے ہیں جن میں’’اردودنیا،فکروتحقیق،سب رس،آج کل،معارف،شیرازہ،بازیافت،
ایوان اردو،ترسیل وغیرہ شامل ہیں۔درجہ ذیل میں ’’ترسیل‘‘ کے طبع شدہ چند ابتدائی شماروں کا ایک مختصر سا محاکمہ پیش کرتے ہیں۔
(۱)ترسیل ،شمارہ۱، ۲۰۰۱ء:
ادبی رسالہ’’ ترسیل‘‘ کا پہلا شمارہ ۲۰۰۱ء میں ڈاکٹر شفیقہ پروین اور پروفیسر ابرار حسین خان کی نگرانی میںشائع ہواہے ۔اس شمارے میں اردو زبان وادب کے ادیبوں اور محققوں کے سولہ(16) تحقیقی و تنقیدی مضامین اور وادی کشمیر کے سرکردہ شعراء کی چھ غزلیں شائع ہوئی ہیں۔جن مقالہ نگاروں کے مقالات پہلے شمارے میں شائع ہوئے ہیں ان میں’’پروفیسر ظہور الدین احمد کا’’ متن،غیر متن ،فن پارہ‘‘،پروفیسر قدوس جاوید کا’’ فلسفہ،معنی اور بینی المتونیت‘‘،پروفیسر علی رفاد فتحی کا’’ اسلوبیات‘‘،پروفیسر ضیا الدین کا’’ غالبؔ کی شاعری میں نرگسیت‘‘،پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کا’’ انیسویں صدی میں اردو تحقیق کی صورتحال‘‘،پروفیسر شفیقہ پروینؔ کا’’ادب میں ادبیت کی اہمیت‘‘،پروفیسرمحبوبہ وانی کا’’فیض احمد فیضؔ:ایک مطالعہ‘‘،پروفیسرخلیل انجم کا’’ اس کا اندازِ سُخن سب سے جدا ہے‘‘،پروفیسرتسکینہ فاضل کا’’ فراقؔ گورکھپوری اقبالؔ کے ہمعصر کی حیثیت سے‘‘،پروفیسر نصرت چودھری کا’’ ناول میں حقیقت نگاری‘‘،ڈاکٹر فریدہ کول کا’’ حامدی کاشمیری بطور میرؔ شناس‘‘،پروفیسر سید فضل اللہ کا’’شعر وسخن اور ترسیل‘‘، پروفیسرسُجان کور بالی کا’’ غالبؔ:ایک مطالعہ‘‘،ڈاکٹر محمد یوسف گنائی کا’’ عبدالاحد آزادکا سیاسی شعور‘‘،تہمینہ اختر کا’’حالیؔ کی شاعرانہ اہمیت‘‘ اورعطا اللہ نورآبادی کا’’ اقبال‘‘شامل ہیں۔ان تحقیقی وتنقیدی مضامین پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کا مضمون’’ انیسویں صدی میں اردو تحقیق کی صورتحال‘‘ ایک اہم مضمون ہے ۔اس میں آفتاب صاحب نے اردو کے حوالے سے تحقیق کے اہم مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے۔پروفیسر محبوبہ وانی کا مضمون فیضؔ احمد کے بارے میں بھی ایک قابل ِذکر مضمون ہے اوران کا خاص میدان فیض احمد فیضؔ ہی ہے اور انہوں نے اپنے تمام ترمشاہدات وتجربات کو اس مضمون میں صرف کیا ہے۔سجان کور اورتسکینہ فاضل نے اپنے پسندیدہ میدان پر معلوماتی مضامین قلم بند کیے ہیں اور دونوں نے انہی موضوعات پر ڈاکٹریٹ کیا ہوا ہے۔شعروسخن کے باب میں پروفیسر خلیل انجمؔ،اشرف ساحلؔ،پروفیسرشفیقہ پروینؔ،ڈاکٹر فرید پربتیؔ،اشرف عادلؔ،ساغرؔ سمیع اللہ کی غزلیات شامل ہیں۶؎۔یہ تمام غزل گو شعراء ریاست میں نئی نسل کے شعراء ہیں اور شعری تجربات سے بخوبی واقف ہیں۔شفیقہ پروینؔکی غزل پر اگر نظر ڈالیں تو مطلع سے مقطع تک درد وغم،جدائی اوراکیلے پن کا احساس ملتا ہے۔غزل کا مطلع کچھ یوں ہے ؎
وہ اپنے تھے تو یہ کل کائنات اپنی تھی
بچھڑ گئے تو اسی میں نجات اپنی تھی
زیرِ نظر شمارہ نثر اور نظم دونوں چیزوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔اس شمارے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر شفیقہ پروین ؔنے ’’ڈسٹنس ایجوکیشن:ایک مطالعہ ‘‘کے نام سے اس ادارے کاتعارف پیش کیا ہے۔جس میں فاصلاتی نظامتِ تعلیم کے تمام کورسز (Courses)کا ذکر کیا ہے اور تدریسی،غیر تدریسی اور معاون عملہ کا بھی تعارف پیش کیا ہے۔ڈاکٹر شفیقہ پروینؔ نے ہی ’’تصویر‘‘ کے نام سے ادارے کی سال بھر کی کارکردگی،پروگراموں اوردیگرکام کاج کا بھی ذکر کیا ہے۔گویا مجلہ’’ترسیل‘‘ کے پہلے شمارے نے ہی ادبی حلقوں میں اپنے مواد،معیار اور ترتیب سے دھوم مچادی ۔
(۲)ترسیل،شمارہ ۲،۲۰۰۲ء:
تحقیقی وتنقیدی مجلہ ’’ترسیل‘‘ کادوسرا شمارہ ۲۰۰۲ء میںڈاکٹر شفیقہ پروینؔ کی ادارت میں شائع ہوا ہے۔یہ شمارہ بھی تین حصّوںپر مشتمل ہے۔ پہلے حصّے میں’’ گوشہ سرورؔ‘‘ کے نام سے آل احمد سرورؔ کی شخصیت،تنقید نگاری،ادبی خدمات اورشاعری کے متعلق نو تحقیقی وتنقیدی مقالات شامل ہیں۔آل احمد سرورؔ کے بارے میں دوسرے ہی شمارے میں گوشے شائع کرنا ، اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سرورؔ صاحب نے کشمیر میں اردو زبان وادب کو اور خصوصاً اقبالیاتی ادب کس حد تک پروان چڑھایا ہے۔وہ ۱۹۷۷ء سے۱۹۸۹ء تک اقبال انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔گوشہ سرورؔ میں جن قلمکاروں کے مضامین شامل ہوئے ہیں ان میں’’پروفیسرحامدی کاشمیری کا’’سردوؔ صاحب کی شخصیت۔چند تاثرات‘‘،پروفیسرمناظر عاشق ہرگانوی کا’’آل احمد سرورؔاور’’تنقید کیا ہے‘‘،عبداللہ خاور کا’’پروفیسر آل احمد سرورؔ۔چند تاثرات‘‘،پروفیسرشفیقہ پروینؔ کا’’آل احمد سرورؔ بحیثیت شاعر‘‘،پروفیسرمنصور احمد منصور کا’’آل احمد سرورؔ کی اقبال شناسی: دانشور اقبال کی روشنی میں‘‘،پروفیسرتسکینہ فاضل کا’’عالم میں لاکھ سہی تو مگر کہاں‘‘،پروفیسرسُجان کور بالی کا’’آل احمد سرورؔ میری نظر میں‘‘،پروفیسرحمید نسیم رفیع آبادی کا’’آل احمد سرورؔ چند یادیں۔چند باتیں‘‘،پروفیسر شکیل شفائی کا’’آل احمد سرورؔ بحیثیت نقاد‘‘ شاملہیں۔ان مضامین میں زیادہ ترمضامین آل احمد سرورؔ صاحب سے محبت وشفقت اور اقبال انسٹی ٹیوٹ میں ان کے قیام کے سلسلے میں اپنی یادوں اور ملاقاتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔جن سے آل احمد سرورؔ کی زندگی کے بارے کچھ باتیں اور عادتیں منظر عام پر آئی ہے۔شکیل شفائی نے سرورؔ صاحب کا بحیثیت نقاد ایک منفرد مضمو ن لکھا ہے،جس میں ایک طرف سرورؔ صاحب کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور دوسری طرف سرورؔ صاحب کا تقابلی مطالعہ دیگر معاصرین کے ساتھ کیا گیا ہے ،جن میں خصوصی طور پر کلیم الدین احمد شامل ہیں۔گوشہ سرورؔ میںپروفیسرمناظر عاشق ہرگانوی اورپروفیسرمنصور احمد منصورکے مضامین بھی لائق صد احترام ہیں ۔ان مشاہیر نے سرورؔ صاحب کی تصانیف’’تنقید کیا ہے؟‘‘ اور’’آل احمد سرورؔ کی اقبال شناسی:دانشور اقبال کی روشنی میں‘‘کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔آل احمد سرورؔ پر تحقیقی وتنقیدی کام کرنے والوں کیلئے یہ شمارہ کسی سونے کی کان سے کم ثابت نہیں ہوگا۔
زیر نظر شمارہ کے دوسرے حصّہ میں سات تحقیقی وتنقیدی مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین میں’’پروفیسرظہور الدین احمد کا’’مقالات کی اقسام وحدود‘‘،پروفیسرقدوس جاوید کا’’اردو کی نئی شعری جمالیات‘‘،پروفیسرقیوم صادق کا’’دکنی زبان کے ارتقاء میں صوفیائے کرام کا حصّہ‘‘،سیفی سرونجی کا’’اردو کی نئی بستیاں‘‘،فراز حامدی کا’’کالی داس گپتا رضاؔ کی گیت نگاری‘‘،پروفیسرخلیل انجم کا’’ڈاکٹر حامدی کاشمیری۔اردو کی ایک مثالی شخصیت‘‘ اور پروفیسر فرید پربتی کا’’مظہر جانِ جاناں‘‘ شامل ہیں ۔ان منفرد ومنتخب مضامین میں اگرچہ تمام مضامین اپنے مواد کے لحاظ سے قابل مطالعہ ہیں لیکن پروفیسرظہور الدین احمد کا مضمون’’مقالات کی اقسام وحدود‘‘ اس بنا پر خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں ظہور صاحب نے تحقیقی مقالات کو مختلف اقسام وحدود میں تقسیم کیا ہے حالانکہ پروفیسر گیان چند جین نے اس ضمن میں کافی اچھی تقسیم بندی کی ہے لیکن ڈاکٹر ظہور الدین احمد بھی اسی یونیورسٹی کے صدر شعبہ و پروفیسر رہے ہیں، جس کے اولین صدر شعبہ اردوپرفیسر گیان چند جین رہے ہیں۔گویا دونوں کے اقسام بندی میں کچھ مماثلیت ومغائرات کا ہونا لازمی بات ہے۔فراز حامدی کا مضمون’’کالی داس گپتا رضاؔ کی گیت نگاری‘‘ بھی ایک اہم مضمون ہے جس میں رضاؔ کی گیت نگاری کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔تیسرے حصّے میںپروفیسرآل احمد سرورؔ،اجیت سنگھ حسرتؔ،شکیل شفائیؔ،پروفیسرحمید نسیمؔ رفیع آبادی،ساغرؔ سلیم،پروفیسرمناظرؔ عاشق ہرگانوی اورپروفیسر شفیقہ پروینؔ کی عمدہ غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔گویا بیشتر شعراء کا کلام پہلے شمارے میں بھی شائع ہواتھا اور یہاں بھی انہی کو ترجیح دی گئی ہے۔حالانکہ آل احمد سرورؔ کا گوشہ بھی اسی شمارے میں شامل ہے ،لحاظہ ان کی ایک منفرد ولاجواب غزل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔اس شمارے میں چند خطوط کو بھی شامل کیا گیا ہے،جن میںمحمد اسلم،پروفیسرشمس الرحمان فاروقی،سیفی سرونجی،رحمت یوسف زئی اورمولانا عطااللہ نور آبادی نے ’’ترسیل ‘‘کے بارے میں اپنے منفی ومثبت پہلوئوں کو پیش کیا ہے۷؎۔زیر نظر شمارے میں شامل خطوط سے مجلہ ’’ترسیل ‘‘کی ٹیم کو کچھ اہم مشورے ملے ہیں اور کچھ خامیوں کی طرف اشارہ بھی ملا ہے جن کی مدد سے وہ اگلے شماروں میں زیادہ محتاط اور ہوشیار رہیں گے۔
(۳)ترسیل،شمارہ۳،۲۰۰۳ء:
علمی وادبی مجلہ’’ ترسیل‘‘ کا تیسرا شمارہ ۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر سُجان کور بالی کی ادارت اور پروفیسر ابرار حسین کی نگرانی میں ۱۵ تحقیقی وتنقیدی مقالات اور سات غزلیات پر مشتمل ہے۔تحقیقی و تنقیدی مقالات جن اہلِ قلم نے تحریر کیے ہیں ان میں کچھ نام نئے ہیں۔اس شمارے میں’’ پروفیسر محمد حسن کا’’اردو کی شاعری اصناف‘‘،ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی کا’’محمد علی جوہر کی شاعری کا تخلیقی پس منظر‘‘،پروفیسر قدوس جاوید کا’’غزل کا نیا منظر نامہ‘‘،پروفیسر افغان اللہ خان کا’’فراقؔ کی رُباعیات‘‘،پروفیسرابوالکلام قاسمی کا’’کلامِ اقبال کی بازآفرینی اور مولانا علی میاں‘‘،پروفیسرشمیم فاروقی کا’’شبلی۔نصف ملاقات‘‘،پروفیسرشفیقہ پروینؔ کا’’شہرِ مہتاب کی خبر رکھنا‘‘،پروفیسرتوقیر احمد خان کا’’قلق میرٹھی کی غزلوں میں پیکر تراشی‘‘،پروفیسرسُجان کور بالی کا’’غالبؔ کے چند اہم مقالہ نگار‘‘،ڈاکٹراحمد کفیل کا’’حسن نعیم:نئی غزل کاسمت نما شاعر‘‘،ڈاکٹرتہمینہ اختر کا’’مابعد جدید اردو ڈراما‘‘،ڈاکٹرسیدہ رقیہ کا’’انوری‘‘،ڈاکٹر پریمی رومانی کا’’مظہر امام کی نظم نگاری‘‘،ڈاکٹر فریدہ کول کا’’اکتشافی نظریہ نقادوں کی نظر میں‘‘ اورترنم ریاض کا’’ہم عصر شاعرات کے کلام میں تانیثی روئے‘‘شائع ہوئے ہیں۔پروفیسر افغان اللہ خان کا مضمون’’ فراقؔ کی رباعیات‘‘ اس وجہ سے اہم ہے کیونکہ مقالہ نگار نے فراقؔ کی رباعیات کا جائزہ ہیتی اور موضوعاتی لحاظ سے لیا ہے۔انہوں نے فراقؔ کی رباعیات کی جملہ خوبیوں کو قارئین کے سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ڈاکٹر فریدہ کول کا مضمون’’اکتشافی نظریہ نقادوں کی نظر میں‘‘بھی اہمیت کا حامل ہے۔یہ اکتشافی تنقیدکے نظریہ پربیان کیے گئے تمام نظریات وتاثرات کی ایک بازدید ہے۔اس میں آسان طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی گی ہے کہ حامدی کاشمیری کے اس نظریہ کو کن لوگوںنے سراہا ہے اور کن ناقدین نے اس کو مختلف نظریات کا مجمع قرار دیا ہے۔اُن تاثرات کو بھی شامل کیا گیا ہے جنہوں نے سرے سے ہی اس نظریہ کو ماننے سے انکار کیا ہے۔بہرحال دیگر مضامین بھی اپنے اپنے مواد ،موضوع اور تکنیک کے لحاظ سے قابل داد ہیں۔شعر وسخن کے حصے میں پروفیسر شفیقہ پروینؔ،ڈاکٹرقدیرؔ تنویر(ناگپوری)،ڈاکٹر فریدپربتیؔ،ڈاکٹر فریدہؔ کول،ڈاکٹر پریمی رومانیؔ،اشرف عادلؔ اور شکیل شفائیؔ کا کلام شامل کیا گیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
سب اپنے اپنے صدف میں سمٹ گئے پروینؔ
میں اپنا جسم نہیں ہوں تمہارا سایہ ہوں (شفیقہ پروین،ص:۱۴۹)
تمہارا کام ہے چارہ گری ، مسیحائی
تمہاری سخت ضرورت ہے ملک و قوم کو آج (فرید تنویر،ص:۱۵۰)
(۴)ترسیل،شمارہ ۴، ۲۰۰۴ء:
فاصلاتی نظام تعلیم کے ترجمان مجلہ ’’ترسیل‘‘ کا چوتھا شمارہ بہت کوششوں کے بعد بھی نہیں ملا۔یہ شمارہ ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا ہے اور پہلے تین شماروں کی طرح یہ بھی تین حصّوں پر مشتمل ہوگا۔لیکن کن قلم کاروں کے مضامین اور کن فنکاروں کی شعری تخلیقات کو جگہ ملی تھی، اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ایک طالب علم کی حیثیت سے پی ایچ ڈی مقالے کے دوران بھی فاصلاتی نظام تعلیم کشمیر یونیورسٹی کی لائبریری اور اقبال لائبریری میں تلاش کے باوجود بھی یہ شمارہ نہیں ملا ہے۔اس مضمون کی اشاعت کے بعد اگر کسی صاحب ذوق اور علم نواز دوست کے پاس یہ شمارہ محفوظ ہے تو وہ اس کے بارے میں مطلع کریں۔تاکہ مستقبل میں اس کے بارے میں کچھ لکھا جائے۔
(۵)ترسیل، شمارہ ۵، ۲۰۰۵ء:
’’ترسیل ‘‘کاپانچواں شمارہ ۲۰۰۵ء میںڈاکٹر شفیقہ پروینؔ کی ادارت میں شائع ہوا ہے۔اس میں کل پندرہ(۱۵) تحقیقی و تنقیدی مقالات اور آٹھ غزلیات شامل ہیں۔جن تحقیقی وتنقیدی مقالات کومجلہ میں شامل کیا گیا ہے ان میں’’پروفیسر عبدالحق کا’’ ہر غزل میں ہے نئی سوچ:کا شاعر حکیم منظور کشمیری‘‘،پروفیسر قدوس جاوید کا’’فراقؔ کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب‘‘،پروفیسر مرغوب بانہالی کا’’کشمیر کی انتہائی پُر اسرار اور پُر عظمت آواز:لل عارفہ‘‘، پروفیسرعلی رفاد فتحی کا’’ ترسیل عامہ کی زبان کے لسانی عناصر‘‘،ڈاکٹر توقیر احمد کا’’اقبال کی شاعری پر مسدّس حالیؔ کے اثرات‘‘،ڈاکٹر محبوبہ وانی کا’’کشمیری غزل کا ارتقا ء‘‘،پروفیسر شفیقہ پروینؔ کا’’فاصلاتی تعلیم اور فروغ اردو‘‘،ڈاکٹر عبدالرشید خان کا’’ایک گمنام ادیبہ مہر طلعت‘‘،پروفیسر منصور احمد میر کا’’محمد زمان آزردہؔ کی انشائیہ نگاری‘‘،سید محمد فضل اللہ آئی اے ایس کا’’خطبات اقبال۔اسلامی ابیات کی تشکیلِ جدید‘‘،زبیر احمد بھاگلپوری کا’’ناوک حمزہ پوری بحیثیت نقاد‘‘، پروفیسر سجان کور بالی کا’’فاصلاتی نظام تعلیم کے مسائل اور ان کا تدارک‘‘،رفیق راز کا’’حامدی کاشمیری۔ایک ہمہ جہت شخصیت‘‘،ڈاکٹر عرفان عالم کا’’ادب ،ترسیل اور تکنالوجی‘‘ اورڈاکٹر شبینہ پروین کا’’ آج کی غزل میں موضوعات کا تنوع‘‘شامل ہیں۔اس شمارے میں شفیقہ پروینؔ نے امسال کے نام سے فاصلاتی نظام تعلیم مرکز خصوصاً اردو کی سالانہ کارکردگی اور پروگراموں کا بھی خاکہ پیش کیا ہے۔مختلف موضوعات پر ان پندرہ اہم مقالات میں سب اپنے لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں۔لیکن جدید دورمیں ریسرچ اسکالروں کی ضروریات اور قارئین کی ادبی غذا کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالرشید خان کا مضمون’’ ایک گمنام ادیبہ مہر طلعت‘‘خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔اس میں مقالہ نگار نے صحیح معنوں میں تحقیق کا حق ادا کیا ہے اور اسی طرح پروفیسر منصور احمد میر کا مضمون’’محمد زمان آزردہؔ کی انشائیہ نگاری‘‘ لفظیات،مواد،زبان وبیان اورعصرِحاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔انشائیہ نگاری کی طرف مشکل سے ہی کوئی قلمکار دھیان دے رہاہے اور اس قحط الرجال میںمیں انشائیہ کا لکھنا اور پھر انشائیہ نگاروں کی خدمات کو قارئین تک پہنچانا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔دیگر مضامین یاتو قلمکاروں نے اپنے تحقیقی میدان کو مضبوط کرنے کے خاطر لکھے ہیں یا پھر فاصلاتی نظام تعلیم کی اہمیت وافادیت کو اُجاگر کرنے کی غرض سے لکھے گئے ہیں۔
اسی طرح مقطع میں بھی یہی انداز اور ایسا ہی سوال کیا ہے۔لکھتی ہیں ؎
لائوں زمانہ ساز تبسم ؔ کہاں سے میں
میرے لیے زمانہ ہو پھر ساز گار کیوں
چھ اشعار پر مشتمل اس غزل میں تبسمؔ نے جگہ جگہ سوالات اُٹھائے ہیں اور تمام سوالات شاعرہ کے دل کی آواز کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ترجمان نظر آتے ہیں۔دیگر شعراء کا کلام بھی لائقِ صد احترام ہے۔ سلیم ساغرؔ جن کا اصل میدان رباعی مانا جاتا ہے اور فرید پربتی کے بعد رباعیات کے میدان میں وہی ایک اہم نام ہے۔جن کو رباعی لکھنے کے فن پر پوری قدرت حاصل ہے۔ان کی ایک غزل اس شمارے میں شائع ہوئی ہے۔بلکہ لگاتار پانچویں شمارے میں ان کے کلام کو جگہ دی گئی ہے۔بہرحال غزل کا مطلع کچھ یوں ہے ؎
تیری وجہ سے زندگی میں نُزولِ رنگ ونور
تیرے خیال ِعطربیز سے ہے فروغ پُر شعور
اگر پوری غزل کا جائزہ پیش کیا جائے تو لفظیات،تکنیک،موضوع اورجمالیات کے لحاظ سے منفرد غزل ہے۔اس میں’’ نُزولِ رنگ ونور،خیال ِعطربیز،نگاہِ سُرمگین،بامِ نور،مُنتائے دلکشی،جان بلب سلیم،طریقِ بے رُخی،چشم ودل‘‘ وغیرہ تراکیب اور نادر الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔اسی شمارہ میں پروفیسر شکیل الرحمان کا ایک خط بھی شائع کیا گیا ہے جس میںانہوں نے ’’ترسیل ‘‘ کا چوتھا شمارہ ملنے پر ان الفاظ میں ادارے کا شکریہ ادا کیا ہے:
’’ترسیل ‘ کا چوتھا شمارہ موصول ہوا۔اس کے ساتھ کشمیر کی مٹی کی وہ خوشبو ملی جو میرے وجود کو اب تک معطر کئے ہوئے ہیں۔بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں،کئی یادیں ایسی ہیں جو عمر بھر کے لئے نعمت ہیں۔کشمیر یونیورسٹی میری زندگی کے تجربوں کا پہلا مرکز ہے۔میرے تجربوں کو جڑیں اسی یونیورسٹی کی سوندھی مٹی کے اندر پھیلی ہوئی ہیں۔اس یونیورسٹی نے مجھے جو علم کی روشنی عطا کی۔اس کو ہر جگہ لئے پھرا ہوں۔‘‘۱۰؎
سالانہ ادبی مجلہ’’ ترسیل ‘‘میں ابھی بے قاعدگی کے لحاظ سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔پروف کی بات کریں تو دور دودو شماروں پر شمارہ دس لکھا ہوا ملتا ہے۔اس سے بڑی پروف کی غلطی کیا ہوسکتی ہے۔پہلے دس شماروں میں شاعری اور خطوط کے حصّے بھی ملتے ہیںلیکن پچھلے تین شماروں میں شاعری اور خطوط کے حصّے کو حذف کیا گیا ہے۔ دو مایوس کن باتیں یہ نظر آتی ہے کہ ہر شمارے کی قیمت ۱۵۰ روپے رکھی گئی ہے اور تمام شمارے خود فاصلاتی نظام تعلیم کی لائبریری میں بھی دستیاب نہیں ہے۔اب ایک قابل قبول قدم اٹھایا گیا ہے کہ ترسیل کے شماروں کو پی ڈی ایف(PDF) شکل میں یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر دستیاب رکھا گیا ہے۔اگر اس کو تاریخی قدم مانا جاسکتا ہے تو پرانے شماروں کو بھی پی ڈی ایف(PDF) کی شکل میں اَپ لوڈ کرنا چاہیے۔’’ترسیل‘‘ کی ٹیم کو ایک مشورہ یہ بھی دینا چاہو گا کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ کشمیر کے ریسرچ اسکالر غیرادبی اور غیر معیاری رسائل میں اپنے مقالات کچھ پیسے دے کر شائع کرتے ہیں لیکن خود ’’ترسیل،بازیافت اور اقبالیات‘‘ نے کتنے ریسرچ اسکالروں کے مقالات کو جگہ دے کر ان کو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔سال بھر صرف ایک بار یہ جرائد شائع ہوتے ہیں اور مشکل سے بیس مضامین کو جگہ ملتی ہے۔اگر ترسیل کے ذمہ دار مدیران یہ قدم اُٹھائیں کہ ترسیل کو ششماہی یا سہ ماہی میں تبدیل کریں ،تو بڑی بات ہوگئی۔اس سے بیک وقت دو فائدے ہوں ۔ایک طرف فاصلاتی نظام تعلیم کی طرف سے منعقد کیے جانے والے سمیناروں ،کانفرنسوں اور توسیعی خطبات میں پڑھنے جانے والے مقالات کو کتابی شکل ملتی اور قارئین کوبھی پڑھنے کیلئے اچھے اچھے مقالات ملیںگے۔دوسرا نئے لکھنے والوں کو بھی موقع ملے گا۔اگر ریسرچ اسکالروں سے زر تعاون کے طور پر پانچ سو یا ایک ہزار فیس بھی لی جائے تو اس میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے۔ترسیل کے شمارے نہ صرف تمام کالجوں تک پہنچانے چاہیے بلکہ شعبہ اردو ،فاصلاتی نظام تعلیم اور اقبال انسٹی ٹیوٹ کے خواہش مند طلباء اور ریسرچ اسکالروں تک بھی ان کی رسائی ہونی چائیے۔گویا’’ ترسیل‘‘ کی ترسیل کو مزید تقویت اور استحکامت کی ضرورت ہے۔
ہر مجلہ میں جہاں معیار واعتبار کا دھیان رکھنا ضروری ہے وہاں باقاعدگی اورپاکیزگی کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے،جہاں تمام مستقل قارئین کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں نئے قارئین کی دلچسپی کا بھی احترام کرنا چاہیے،جہاں پرانے قلم کاروں کو موقع دیا جاتا ہے وہاں نئے قلم کاروں کو بھی پلیٹ فارم مہیا کیا جانا چاہیے،جہاں مرد حضرات کی خواہشات وجذبات کو مد نظر رکھا جائے وہاں صنف نازک کے جذبات واحساسات کا بھی پاس ہونا چاہیے،جہاں مضمون کی سند،مضمون نگارکی رسائی اورلفظیات کی ادبیت کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں املا کی غلطیوں،ادارے کے مقاصد اور طالب علموں کی ضروریات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔الغرض مجلہ’’ترسیل‘‘ ایک اہم تحقیقی وتنقیدی جریدہ ہے اور جس چیزسے جتنی اُمیدیں وابستہ ہوتی ہے ،قاری اس کو اتنا ہی بلند وبالا اور عظمت کا حامل دیکھنا چاہتا ہے۔
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
(۶)ترسیل،شمارہ ۶،۲۰۰۶ء:
مجلہ ’’ترسیل ‘‘کا چھٹا شمارہ۲۰۰۶ء میں پروفیسر شفیقہ پروین،شبینہ پروین اور کوثر مذمل کی ادارت میں شائع ہواہے۔۱۰۰ صفحات پر مشتمل یہ شمارہ متنوع اور منفرد تحقیقی وتنقیدی مقالات کا مجموعہ ہے۔اس شمارے میں کچھ نئے قلمکاروں کے ساتھ ساتھ پرانے لکھنے والوں کے مقالات کو بھی جگہ دی ہے۔زیر ِ نظر شمارے میں’’ پروفیسر عبدالحق کا’’کرنا ہے تری جوشِ جنون تیری قبا چاک‘‘،پروفیسر حامدی کاشمیری کا’’ فراقؔ کی شعری دنیا‘‘،پروفیسر افغان اللہ خان کا’’گورکھپور کی ادبی روایت اور پریم چند وفراقؔ‘‘،پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا’’اردو شاعری میں واقعیت اور جمہوریت‘‘،اکبر حیدی کاشمیری کا’’حکیم خاقانی شیرانی:مولوی عبدالکلام آزاد دہلوی کی نظر میں‘‘،پروفیسر شفیقہ پروین کا’’زہرہ نگار:ایک معتبر شاعرہ‘‘،ڈاکٹر منظور احمد دکنی کا’’دکنی زبان اور کلام حضرت بندہ نواز‘‘،ڈاکٹر عبدالرشید خان کا’’تحریکِ آزادی میں اردو شاعری کا کردار‘‘،ڈاکٹر وجے دیو سنگھ کا’’اردو اور فاصلاتی نظامِ تعلیم:صوبہ جموں کے حوالے سے‘‘،پروفیسر خلیل انجم کا’’حسرت موہانیؔ اور جگر مراد آبادی:ایک تقابلی جائزہ‘‘ ،ڈاکٹر شبینہ پروین کا’’رومانیت اور اردو شعراء:اقبالؔ،شیرانیؔ اور جوشؔ کے حوالے سے‘‘،عطا عابدی کا’’صدیق مجتبیٰ کی غزلیں:ایک تاثیر‘‘اورسیدہ شہناز پروین کا’’گوپی چند نارنگ:ایک روشن چراغ‘‘شائع ہوئے ہیں۔تحقیقی وتنقیدی مقالات میںپروفیسر افغان اللہ خان کا مضمون ’’گورکھپور کی ادبی روایت اور پریم چند وفراقؔ‘‘علاقائی ادب اور تقابلی تنقید دونوں کے لحاظ سے ایک نادر مضمون ہے۔اس میں گورکھپور میں اردو ادب کی روایت کا بغور جائزہ لیا گیا ہے اور خصوصی طور پر پریم چند اور فراق کی تخلیقیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔پروفیسر خلیل انجم کا تقابلی مطالعہ کافی وسیع نظر آتا ہے۔زیرِ نظر شمارے میں ان کا مضمون’’حسرت موہانیؔ اور جگر مراد آبادی:ایک تقابلی جائزہ‘‘ادبی حلقوں میںکافی سراہا گیا۔اس میں انہوں نے جدید غزل کے دو معروف غزل گو شعراء کا تقابلی مطالعہ کرکے ان کی شاعری میں مماثلت ومغائرات کی نشاندہی کی ہے۔ڈاکٹر شبینہ پروین کا مضمون ’’رومانیت اور اردو شعراء:اقبالؔ،شیرانیؔ اور جوشؔ کے حوالے‘‘ بھی تقابلی تنقید کے باب میں ایک اہم اضافہ ہے۔علامہ اقبال جیسے فلسفی وپیامی شاعر کا موازنہ مختلف ذرائع سے رومانی شاعر اختر شیرانیؔ اورانقلابی شاعر جوشؔ ملیح آبادی کے ساتھ کیا گیا ہے۔مجموعی طور پر یہ شمارہ تقابلی تنقید پر کام کرنے والو ں کیلئے ایک اہم ماخذ و مرکز بن سکتا ہے۔
دیگر شماروں کی طرح اس شمارے میں بھی شاعری کا حصّہ شامل کیا گیا ہے۔اس میں مناظر نسیم ہرگانوی،ریحانہ عاطف خیر آبادی،اشرف ساحل،ڈاکٹر پریمی رومانی،پروفیسر حامدی کاشمیری،اشرف عادل، اسرار احمد اسرارؔ،حفیظ اللہ خضرؔ، سلیم ساغرؔ،پروفیسر شفیقہ پروینؔ،ناصر ضمیر اور ڈاکٹر خالدہ نگار کی غزلیں اور نظمیں شامل کی گئی ہیں۱۱؎۔تمام نظم گو اور غزل گو شعراء نے شعری لوازمات کا حق ادا کیا ہے اور کچھ نئے موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔لیکن شفیقہ پروینؔ کی دونظمیں’’گرداب‘‘ اور ’’خوشبو کا زہر‘‘ اس شمارے میں اپنی خوشبو بکھیرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔دونوں آزاد نظمیں ہیں اور ’’خوشبو کا زہر‘‘ میں لکھتی ہے ؎
یہ آدمی کیوں
خداوند بن کر
روئے گرداں ہوئے ہیںایسے
نہ خوشبوئوں کا، نہ روشنی کا
نہ رنگ کا،نا ہی زندگی کا
کوئی احساس ان میں باقی(ص:۱۰۴)
(۷)ترسیل،شمارہ ۷،۲۰۰۷ء:
’’ترسیل‘‘ کا ساتواں شمارہ ۲۰۰۷ء میںپروفیسر شفیقہ پروین کی ادارت میں منظر عام پر آیا ہے۔یہ شمارہ ۱۷ مقالات اور چھ غزلیات کا عمدہ مجموعہ ہے۔تمام تحقیقی و تنقیدی مقالات قابل ذکر و قابل مطالعہ ہیں۔ان مقالات میں’’ پروفیسر رحمان راہی کا’’کشمیر کی میراث‘‘،پروفیسر عبدالحق کا’’ دانش ِگاہِ خدوخال‘‘، پروفیسر عتیق اللہ کا’’سرسید اور ابوالکلام آزاد درباب اتفاق و افتراق‘‘، پروفیسر علی رفاد فتحی کا’’شہریار کی نظم’زوال کی حد‘کا تجزیاتی مطالعہ‘‘،پروفیسر قدوس جاوید کا’’کرشن چندر۔خط منحنی کا افسانہ نگار‘‘،پروفیسر ارتضیٰ کریم کا’’ اردو فکشن کی تنقید کا معمار اول‘‘، پروفیسر شفیقہ پروین کا’’کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں‘‘،پروفیسر سجان کور بالی کا’’عہدِ حاضر میں غالبؔ کی معنویت‘‘،پروفیسر تسکینہ فاضل کا’’مرد حاوی معاشرے میں خواتین کے حقوق‘‘،راشد جمال فاروقی کا’’عنوان چستی کا غزل البم‘‘،ڈاکٹر محی الدین قادری زورکاشمیری کا’’ڈرامائی کنایہ اور انارکلی‘‘،ڈاکٹر عرفان عالم کا’’سرسید: ایک ہمہ جہد شخصیت‘‘،عطا عابدی کا’’مقابلہ ہے آئینہ:ایک تعارف‘‘،اصغر رسول کا’’پروفیسر آل احمد سرورؔکی ادبی اہمیت:تحقیق اور تنقید کے حوالے سے ‘‘،پیرزادہ ارشاد احمد کا’’طنز ومزاح ایک جائزہ‘‘اورالطاف انجم کا’’مرزا یگانہ چنگیزی کی چنگیزیت‘‘ شامل ہیں۔پدم شری رحمان راہی کا مضمون’’کشمیر کی میراث‘‘ کافی اہمیت کا حامل ہے۔اس میں راہیؔ صاحب نے کشمیر کی میراث کا جائزہ منفرد ودلکش انداز میں پیش کیا ہے۔پروفیسر عتیق اللہ کا مضمون’’سرسید اور ابوالکلام آزاد درباب اتفاق و افتراق‘‘ نئی نسل کے لئے مشعل راہ کا کام کرسکتا ہے۔اس میں تحریک آزاد ہند کے مرد مجاہد ابوالکلام آزاد اور ہندوستانی مسلمانوں کے مسیحا کی علمی وادبی،مذہبی وملی خدمات کا جائزہ تقابلی انداز میں لیا ہے۔دونوں اپنے اپنے میدان میں صفِ اول کی شخصیات ہیں۔پروفیسر تسکینہ فاضل کا’’مرد حاوی معاشرے میں خواتین کے حقوق‘‘ بھی ایک بہترین معاشرتی واخلاقی مضمون ہے او ر صحیح معنوی میں مرد حاوی معاشرے میں خواتین کے حقوق مسخ کیے جاتے ہیں۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مغرب کے مقابلے میں مشرق میں عورتوں کی زیادہ قدر کی جاتی ہے اور کشمیر میں خصوصاً عورت کو اس کا صحیح حق دیا جاتا ہے۔
شعر و سخن کے حصّے میں راشد جمال فاروقی،پروفیسر شفیقہ پروین، رفیق شاہین،اشرف عادل، اصغر رسول اور حسن اظہر کی غزلیات اور نظمیں شامل ہیں۱۲؎۔پہلی بار جن شعراء کے کلام کو جگہ ملی ہے ان میں رفیق شاہین،اصغر رسول اور راشد جمال فاروقی شامل ہیں۔صدر شعبہ اردو پروفیسر شفیقہ پروینؔ ایک غزل اور ایک آزاد نظم اس شمارے میں شامل ہے۔آزاد نظم میں انہوں نے لالچی،فریبی،دھوکے باز اور مکار لوگوں اور معاشرے کو موضوع بنایا ہے اورپیاسی زبانیں،خشک نگاہیں،پتھر دل،پتھر چہرے،ہنسی کا سودا،ماہ وانجم،بال وپر وغیرہ الفاظ سے اپنی بات قائین تک پہنچائی ہے۔غزل بھی منفرد خیالات ودلکش الفاظ کے سبب کافی پُر کشش نظر آتی ہے اور بیت الغزل کے طور پر اس شعرکو پیش کیا جاسکتا ہے ؎
کھلی ہے یاس کی نرگس،سمن اُمید کی
یہ سوگوار سی دنیا تھی پُر بہار ابھی
(۸)ترسیل،شمارہ ۸،۲۰۰۹ء:
’’ترسیل‘‘ کاآٹھواں شمارہ ۲۰۰۹ء میں ڈاکٹر شفیقہ پروین کی ادارت اور پروفیسر ریاض احمد پنجابی کی نگرانی میں شائع ہواہے ۔یہ شفیقہ پروینؔ کی ادارت میں شائع ہونے والا ساتواں شمارہ ہے۔اس میں جن اہلِ قلم وصاحب ذوق مشاہیر کے مقالات شامل ہوئے ہیں ان میں پروفیسر حامدی کاشمیری کا’’منٹو کا تخلیقی شعور‘‘، نورشاہ کا’’کشمیر کی چند یاد گار ادبی محفلیں‘‘، غلام نبی خیال کا’’جوش ملیح آبادی اور کشمیر‘‘،پروفیسر قدوس جاوید کا’’متن میں معنی کا عمل ترجیحات وامکانات‘‘، ڈاکٹر خواجہ اکرم’’ہم عصر نظم کے معاشرتی سروکار‘‘، ناصر عباس نیّر’’مجید امجد کی نظم نگاری‘‘،جاوید رحمانی کا’’پریم چند اور زبان کا مسئلہ‘‘،پروفیسر محبوبہ وانی کا’’حامدی کاشمیری۔نظریہ ساز نقاد:ایک مطالعہ‘‘،پروفیسر شفیقہ پروینؔ کا’’پروین شاکرؔ۔محبت،رنگ ونور اور خوشبو کی شاعرہ‘‘،پروفیسر سجان کور بالی کا’’غالبؔ کی تنقیدی بصیرت‘‘،ریاض احمد کا’’ہماری مجموعی تعلیمی ترقی‘‘ ،محی الدین زور کشمیری کا’’ڈراما انارکلی میں۔ہند مغلیہ تہذیبی عناصر‘‘،ڈاکٹر الطاف انجم کا’’فاصلاتی نظام تعلیم میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت‘‘، ڈاکٹر عرفان عالم کا’’حالیؔ کا جدید ذہن۔نظم’’برکھارت ‘‘ کے آئینے میں‘‘ اورعصمت آرا وانی کا’’فکر اقبال۔بالِ جبرئیل کے حوالے سے‘‘ شامل ہیں۔ نورشاہ کا مضمون ’’کشمیر کی چند یاد گار ادبی محفلیں‘‘ مقالہ نگار کی یاداشت کا سرچشمہ ہے۔اس میں نور شاہ نے ماضی میں کشمیر کی چند یادگار علمی وادبی محفلوں کا تذکرہ کیا ہے۔واضح رہے آزادی سے پہلے کشمیر میں درجنوں علمی وادبی انجمنیں سرگرام عمل رہی ہیں اور ان میں ہندوپاک کے چوٹی کے شعراء وادباء نے شرکت کی تھی۔اسی قسم کی چند ادبی محفلوں کا ذکر اس مضمون میں ملتا ہے۔غلام نبی خیال کا’’جوش ملیح آبادی اور کشمیر‘‘ ایک اہم مضمون ہے جس میں مقالہ نگار نے جوش ملیح آبادی کی شاعری میں کشمیرکی عکاسی وترجمانی پر روشنی ڈالی ہے۔ادب کے طالب علموں کیلئے ایک نادر مضمون ہے اور اس میں خیال صاحب نے جوشؔ کے ضخیم کلیات میں سے کشمیر کے بارے میں لکھی گئی شاعری کا ذکر کیا ہے۔جاوید رحمانی کا’’پریم چند اور زبان کا مسئلہ‘‘ بھی ایک منفرد مضمون ہے جس میں پریم چند کے ناولوں،افسانوں اور مضامین کے حوالے سے زبان کے مسئلہ پر بحث کی گئی ہے۔پریم چند اردو اور ہندی دونوں میں بیک وقت لکھتے تھے اور اردو زبان کیلئے انہوں نے الفاظ کا ایک ضخیم اور نادر خزانہ یاد گار چھوڑا ہے۔
شعروسخن کے حصے میں اشرف عادلؔ،اقبال صدیقی ؔ، احمد پاشاجیؔ،رخسانہ جبینؔ،رحمت یوسف زئیؔ، انیس اشفاقؔ،مشتاق حیدرؔ،غلام نبی خیالؔ،ڈاکٹر فرید پربتیؔ،پروفیسر سید رضاؔ،پروفیسر حمید نسیمؔ رفیع آبادی،سلطان الحق شہیدیؔ اورہمدم ؔکاشمیری کی غزلیات شامل ہیں۱۳؎۔تمام شعری تخلیقات اگرچہ اہمیت کی حامل ہیں لیکن مشتاق حیدرؔ اور غلام نبی خیالؔ کی غزلوں میں کچھ منفرد موضوعات،نادر لفظیات،دلکش انداز اور جداگانہ اندازِ بیان ملتا ہے۔مشتاق حیدرؔ گیر،زنجیر،تنویر،تفیسر،اکسیر اور تقصیر کو بطور قافیہ استعمال کیا ہے ۔اس سے حیدرؔ کی قابلیت ،لفظیات اور فہم واداراک کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ان کی غزل کا مطلع اور مقطع کچھ اس طرح سے ہیں ؎
جب کسی نے بات کی ہے زلفِ گرہ گیر کی
یاد مجھے آئی ہے اُ س ریشمی زنجیر کی
حیدرؔ آشفتہ سر کی سرفرازی دیکھئے
سر کٹا کے یاد آئی ہے اُسے تقصیر کی
غلام نبی خیال ؔ جن کے پاس تحقیق ،تنقید،تخلیق،شاعری،ترجمہ،صحافت وغیرہ کا وسیع تجربہ ہے اور وہ بین الاقوامی سطح کے قلم کار ہیں۔ان کی غزل کا مطلع سب کچھ بیان کرتا ہے ؎
یاد ہے جب مسکرائی تھی سحر اس شام میں
روشنی تب سے نہیں آئی نظر اس شہر میں
(۹)ترسیل،شمارہ ۹،۲۰۱۰ء:
ادبی مجلہ ’’ترسیل ‘‘ کانواں شمارہ۲۰۰۹ء میں ڈاکٹر شفیقہ پروین ،ڈاکٹرمحمد الطاف اورڈاکٹر عرفان عالم کی ادارت میں منظر عام پر آیا ہے۔ یہ شمارہ ۱۴ تحقیقی و تنقیدی مقالات،سات غزلیات اور تین نظموں کا گلدستہ ہے۔یہ اگر چہ ترسیل کا نواں شمارہ ہے لیکن اس پر غلطی سے شمارہ دس لکھا گیا ہے۔اس کو چھوٹی غلطی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اب قارئین کے سامنے شمارہ ۱۰ کے نام سے دو دو شمارے آئیں گے۔اس قسم کی غلطیوں سے مجلہ’’ ترسیل‘‘ کو پاک وصاف رکھنا چاہیے اور مستقبل میں اس قسم کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہیے ۔حرفِ چند میںپروفیسر شفیقہ پروین نے حامدی کاشمیری،شہریار اور وزیر آغا کا ذکر نہایت عقیدت واحترام سے کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’سال ۲۰۱۰ء میں اردو کو کئی نشیب وفراز دیکھنے کو ملے۔امسال اردو دنیا کے ممتاز ادیب،شاعر،نقاد اور دانشور پروفیسر حامدی کاشمیری اور پروفیسر شہریار کو ان کی بے مثال ادبی خدمات کے اعترا ف میں بالترتیب ’’پدم شری‘‘ اور ’’گیان پیٹھ‘‘ جیسے باوقار اعزازات سے سرفراز کیا گیا ہے۔۔۔ابھی حال ہی میں اردو کے نظریہ ساز نقاد اور شاعر پروفیسر وزیر آغا کا سانحہ ارتحال کی دل خراش خبر موصول ہوئی۔مرحوم اپنے ادبی امتیازات اور تفکیری رویوں کی بنیاد پر ادبی حلقوں میں دیر تک اور دور تک یاد رکھے جائیں گے‘‘۔ ۱۴؎
زیر نظر شمارے میں جن مقالہ نگاروں کے مقالات شامل ہوئے ہیں ان میں’’ پروفیسر رحمان راہی کا مضمون’’ لفظ کی اہمیت:کشمیری سے ترجمہ‘‘،پروفیسر عبدالحق کا’’کلاسیکی شاعری کی حالیہ تحقیق‘‘،ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کا’’افسانوی تنقید میں نئے پیراڈایم کی جستجو:آئیڈیالوجی اور تھیم‘‘،پروفیسر صغیر افراہیم کا’’ کلرک کا نغمہ محبت،آفاقی سچائی کا حسّی استعارہ‘‘،پروفیسر شفیقہ پروین کا’’فاصلاتی نظامِ تعلیم:منظر پس منظر‘‘،جاوید رحمانی کا’’غالبؔ اور اٹھارہ سو ستاون:ایک تحقیقی مطالعہ‘‘،پروفیسر سجان کور بالی کا’’گر نہیں ہے میرے اشعار میں معنی نہ سہی‘‘،ڈاکٹر فرید پربتی کا’’جموں وکشمیر میں اردو شاعری‘‘،ڈاکٹر محمد کاظم کا’’جنگِ آزادی کا معمر سپاہی: بہادر شاہ ظفرؔ،ڈراما نگاروں کی نظر میں‘‘،ڈاکٹر طارق احمد مسعودی کا’’تصور ِخودی کے تعلیمی مضمرات‘‘،ڈاکٹر عارفہ بشریٰ کا’’فراقؔ کی غزل،آئینہ شش جہات‘‘،ڈاکٹر محمد نثار کا’’جدید غزل کا رنگ وآہنگ‘‘،ڈاکٹر عرفان عالم کا’’ماقبل مابعد جدیدیت‘‘،اوردیو پر بسو مترجم ڈاکٹر الطاف انجم کا’’آن لائن تعلیم:مسائل اورامکانات‘‘شامل ہیں۔زیر نظر شمارے میں کلاسیکی شاعری،جدید غزل،جموں وکشمیر میں اردوشاعری،تصور خودی،غالب ؔ اور ۱۸۵۷ء،لفظ کی اہمیت جدیدیت ،مابعد جدیدیت وغیرہ ایسے مضامین ہیں جن پر عصرِحاضر میں بھی تحقیق کا رجحان خاصا ذرخیز نظر آتا ہے۔زیرِ نظر شمارے میں شامل تمام مضامین ایک سے بڑھکر ایک ہے لیکن کچھ مضامین ایسے بھی جن کے بارے میں چند باتیں کہنا میں ضمیر کی آواز سمجھتا ہوں۔عبدالحق کے مضمون میں امیر خسروؔسے غالبؔ تک کے عہد کے تمام شعراء کے کلام میں کلاسیکی رجحان کے تحت جائزہ لیا گیا ہے۔اس میں قارئین کو امیر خسروؔ،فائزؔ،شاہ حاتمؔ،ولیؔ،آبروؔ،شاکر ناجیؔ،بیانؔ، قائم ؔ چاندپوری،سوداؔ،ذوقؔ،دردؔ،غالبؔ وغیرہ کی کلاسیکی شاعری کا منفرد ومتنوع انداز میں جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ناصر عباس نیّر صاحب کا مضمون بھی ہمیشہ کی طرح اپنے انداز بیان،لفظیات،مطالعہ اور ناقدانہ بصیرت کے سبب ہر پلیٹ فارم پر زیر بحث رہے گا۔اس میں نیّر صاحب نے منٹو کے افسانوں کو تھیم پر مبنی قرار دیا ہے اور افسانہ’’جانکی اورٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کے حوالے سے بات کی ہے۔پریم چند کے افسانہ’’کفن ‘‘ کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔یہ ضخیم مضمون تیس صفحات پر مشتمل ہے اور قارئین کو مطالعہ کرنے کے بعد خودبخود اس کی اہمیت وافادیت کا انداز ہوجائے گا۔شفیقہ پروین کا مضمون ادارے کے بنیادی مقصد کے تحت لکھا گیا ایک اہم او ر قابلِ قدر مضمون ہے۔قارئین کو اس میں فاصلاتی نظام تعلیم کے ارتقاء کے بارے میں مکمل جانکاری ملے گئی۔سرسری جائزے کے بعد تمام اہم ممالک میں فاصلاتی نظام تعلیم کے حوالے سے بحث ملے گی۔گوفرداً فرداً تمام مضامین کا ذکر کرنا آسان بھی نہیں ہے اور جواز بھی نہیں ہے۔
شعر و سخن کے باب میں’’ اختر شاہ جہاں پوری،ڈاکٹر فریدپربتی،رئوف خیر،عطا عابدی،اشرف عادل،اقبال صدیقی، اظہر بشیر،صدا کشمیری اور مدثر آغا کی غزلیات اور نظمیں شامل ہیں۱۵؎۔نظموں میں’’اک نظم وزیر آغا کے نام(رئوف خیر)،مختصر نظمیں،تحریب،گمشدگی،
رات اور خوفِ گناہ(اطہر بشیر) ،قافلہ رفتہ(مدثر آغا)شامل ہیں۔مختصر نظم ’’گمشدگی ‘‘پیش خدمت ہے ؎
میری بستی کے
گہرے سناٹے کی تہوں میں
تمام آوازیں
دب چُکی ہیں ۱۶؎
اقبال صدیقی کی نظم اس حوالے سے اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کو ایک خاص مقصد وتقریب کیلئے لکھا گیا ہے۔کشمیر یونیورسٹی کے تاریخی کنووکیشن کی پچیس سال کی تعمیر کے اختتامی تقریب پر اس نظم کو پڑھا گیا تھا اور اس نظم کا آخر شعر کچھ اس طرح سے ہے
پچیس برس سے ہم سب کی آنکھوں نے کیا کیا خواب بُننے
لو آج ہمارے خوابوں کی تعبیر مکمل ہوئی ہے
(۱۰)ترسیل،شمارہ ۱۰،۲۰۱۲ء:
’’ترسیل‘‘ کا دسواں شمارہ۲۰۱۲ء میںپروفیسر نیلو فر خان،ڈاکٹرالطاف انجم اورڈاکٹر عرفان عالم کی مشترکہ ادارت میں شائع ہواہے۔یہ پہلا شمارہ ہے جس کے مدیران میں پروفیسر شفیقہ پروین کا نام نہیں ملتا ہے گویا اس سے پہلے ہی وہ ملازمت سے سبکدوش ہوچکی تھی۔اس شمارے میںتحقیقی وتنقیدی مضامین کا ایک خوبصورت انتخاب جمع کیا گیا ہے۔ اس میں پروفیسر حامدی کاشمیری کا’’جد جہد ِآزادی اور علامہ اقبال‘‘،پروفیسر رحمان راہی کا’’تخلیق،موضوع اور ہنر‘‘، پروفیسر قدوس جاوید کا’’موسمِ برق کا شاعر:سلطان الحق شہیدی‘‘،ناصر عباس نیّر کا’’کچھ کذب وافترا ہے،کچھ کذبِ حق نماہے‘‘، پروفیسر حقانی القاسمی کا’’دلی کا ادبی دریچہ‘‘،حبیب نثار کا’’غالبؔ شناسی کے فروغ میں جامعہ عثمانیہ کا حصہ‘‘،ڈاکٹر عبدالرشید خان کا’’حامدی کاشمیری کی افسانہ نگاری‘‘،عابد سیال کا’’اردو ادب میں رومانوی تحریک‘‘،عارفہ بشریٰ کا’’ترقی پسند افسانہ: چند نئے مباحث‘‘، مشتاق احمد گنائی کا’’عالمی استعماریت اور اقبال کا تصور نظامِ عدل‘‘،ڈاکٹر جوہر قدوسی کا’’ الطاف حسین حالیؔ کی نعتیہ شاعری‘‘، محمد نثار کا’’اردو کے نفسیاتی افسانہ نگاروں میں منٹو کا مقام‘‘،کوثر رسول کا’’غالبؔ کی شاعری کی مختلف جہات‘‘،نصرت جبین کا’’ٹماٹو کیچپ کا تجزیہ‘‘،طاہرہ سید کا’’پروین شاکر:نظمیہ شاعری کے چند حوالے‘‘،سجاد احمد سلطان کا’’حالیؔ و اقبالؔ:جدید غزل گوئی کے آئینے میں‘‘، عرفان عالم کا’’حالیؔ: ایک باغی‘‘،محمد الطاف انجم‘‘،نئی تاریخیت:منظر پسِ منظر‘‘ شامل ہیں۔اس کے علاوہ محی الدین زور کاشمیری کا’’فرید پربتی کی تصنیف’ تنقیدِ رباعی‘ ایک جائزہ‘‘ اور اشرف عادل کا’’یاد وہ بے سبب نہیں آتے‘‘کے نام سے دومضامین بھی شامل ہیں۱۷؎۔یہ شمارہ اپنے اندر ضخیم مواد اور رنگ بہ رنگی موضوعات کا حامل ہے ۔اس کی ضخامت۳۳۶ صفحات ہے اور کل مضامین بیس ہیں۔ڈاکٹر الطاف انجم نے حرف ِچند اور نوجوان شاعر اشرف عادل نے’’یاد وہ بے سبب نہیں آتے‘‘ میں پروفیسر فرید پربتی کے انتقال کواردو ادب کے خسارے سے تعبیر کرتے ہوئے ان کے انتقال پُرملال پر نہایت دکھ کا اظہار کیا ہے۔اشرف عادل نے فرید پربتی کے اُ ن جانباز اسکالروں اور طالب علموں کا ذکر سنہرے حروف سے کیا ہے، جنہوں نے اپنا گھربار اور اپنی پڑھائی چھوڑ کر ڈیڑھ ماہ اپنے استاد کی تیمارداری میں گزاردی ۔اور یوں معلّم اور متعّلم کے رشتے کی ایک نئی مثال قائم کی ۱۸؎۔
زیرِ نظر شمارے میں جن مقالات سے عام قارئین،ریسرچ اسکالروں اورانجمن اُردو کے شاہکار اساتذہ کو مطالعہ میں سرور،دماغ کو راحت اور اردو کے مستقبل کے حوالے سے اطمینان مل سکتا ہے ۔ایسے مضامین میں پروفیسر حامدی کاشمیری کا مضمون ’’جد جہدِ آزادی اور علامہ اقبال‘‘خاصی اہمیت کا حامل ہے۔حالانکہ’’ اقبال اور کشمیر ‘‘کے عنوان سے پانچ کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر حامدی صاحب نے کچھ نئی چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ڈاکٹر جوہر قدوسی کا ’’ الطاف حسین حالی ؔکی نعتیہ شاعری‘‘ بھی اہمیت کا حامل ہے۔جوہر صاحب نے اردو میں نعت گوئی کے حوالے سے ہی اپناتحقیقی مقالہ لکھا ہے اور یہ مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ناصر عباس نیّر کا مقالہ’’کچھ کذب وافترا ہے،کچھ کذبِ حق نماہے‘‘حالیؔ کی شاعری پر ایک اہم مضمون ہے اور یوں کہا جائے کہ ان کی شاعری کا مابعد نوآبادیاتی سیاق کے حوالے پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے ۔رحمان راہی صاحب نے’’تخلیق،موضوع اور ہُنر‘‘ کے موضوع پر بات کی ہے۔راہی صاحب شاعری سے مراد حیات وکائنات سے وابستہ کسی چیز کے تعلق سے وقوع پذیر ہونے والے کسی اضطراب انگیز یا اجنبی تجربے کو زبان کے ذریعے محسوس کرنا اور اس کی معنویت کو پا لینا اور ساتھ اُس تجربے میں شعر سننے یا پڑھنے والوں کی شرکت ممکن بنا نے کو کہتے ہیں۔چونکہ راہیؔ صاحب اول درجے کے محقق وناقد ہیں اور ان کی ہر بات کسی تراشے ہوئے ہیرے سے کم نہیں ہے۔پورا مضمون ہی طلسم بنا ہوا ہے۔حبیب نثار کا تحقیقی مضمون اداروں کے تحقیقی وتنقیدی کام کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔انہوں جامعہ عثمانیہ کے حوالے سے غالبؔ شناسی پر کیے گے کام کا جائزہ پیش کیا ہے۔ان کی تحقیق کے مطابق دکن میں غالب شناسی کی پہلی کتاب حبیب اللہ ذکا کی ہے اور بعد میں سید عبدالطیف کی’’ غالبؔ‘‘ اور محی الدین قادری زورؔ نے’’ روح غالبؔ‘‘ اور ’’سرگزشت غالبؔ‘‘ منظر عام پر آئی تھی۔غالبیات کے باب میں اہم کام ہے۔اقبال شناس ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی کا مضمون بھی ایک نادر مضمون ہے۔اقبالؔ نے استعماری نظام کے مقابلے میں اسلام کا عادلانہ نظامِ حیات کا نظر یہ پیش کیا ہے۔اقبال کا خیال ہے کہ اولوالعزم افراد،اعلیٰ اسلامی سیرت وکردار سے مزین ،علم وبصیرت میں یکتا لوگ ہی اسلام کا نظام حیات پروان چڑھا سکتے ہیں۔اسی قسم کے مختلف نظریات کا جائزہ اس مضمون میں ملتا ہے۔خطوط کے حصّے میں حامدی کاشمیری،عبدالحق،سید محمد ہاشم،محمد صفت الرحمان،حقانی القاسمی،ابو زید اعظمی،توقیر احمد خان،،م۔افضل،محی الدین زور کشمیری،عطا عابدی کے تشکر کے خطوط شامل ہیں۔صرف حقانی القاسمی کا خط،ابوالکلام آزاد کے انداز بیان کی یاد دلاتا ہے۔انہوں نے نویں شمارے کے تمام مضامین کا سرسری جائزہ پیش کیا ہے اور خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔اس شمارے میں کوئی شعروشاعری کا حصّہ شامل نہیں ہے اور مدیر ’’ترسیل‘‘ جناب الطاف انجم نے بھی اس بارے میں کہا کہ مستقبل میں ’’ترسیل‘‘ صرف تحقیق وتنقید کے مختص رکھا جائے گا۔
(۱۱)ترسیل،شمارہ ۱۱،۲۰۱۳ء:
سالانہ تحقیقی وتنقیدی مجلہ’’ترسیل‘‘ کا گیارھواں شمارہ۲۰۱۳ ء میں ڈاکٹرنیلوفر خان، ڈاکٹر الطاف انجم اور ڈاکٹر عرفان عالم کی مشترکہ ادارت اور پروفیسر طلعت احمد کی نگرانی میں جاری ہواہے۔یہ شمارہ سولہ مقالات کا مجموعہ ہے اوراس کی ضخامت ۲۵۵ صفحات ہے۔اس شمارے میں کوئی غزل، نظم یا خط شامل نہیں ہے۔ابتدائی دس شمارے تین حصّوں میں منقسم ہوا کرتے تھے لیکن اس شمارے سے ایک نیا منشور اپنایا گیا جس کے تحت اس مجلے کو صرف تحقیق وتنقید کیلئے ہی مخصوص رکھا گیا ہے۔بہرِصورت یہ ایک اچھا قدم مانا جاسکتا ہے۔اس شمارے میںجن مقالہ نگاروں کے مقالات شامل ہوئے ہیں ان میں ’’ناصر عباس نیّر کا مضمون ’’میراجی کے تراجم‘‘،حقانی القاسمی کا’’کیکٹس،کینوس اور صادقین‘‘،کوثر مظہری کا’’تبصرہ اور تنقید‘‘، انور ظہیر انصاری کا’’سرسید کا تنقیدی جائزہ‘‘،عابد سیال کا’’کلاسیکی چینی شاعری میں انسان دوستی‘‘،ڈاکٹر رضوانہ ارم کا’’اردو انشائیہ میں مشرقی مزاج اورہندوستانیت‘‘،ڈاکٹرمحمد کاظم کا’’ستیش بترا کا ’’جولے لداخ‘‘ اور ہندوستانی تہذیب‘‘،مسرت جہاں کا’’سعادت حسن منٹو:خاکہ نگاروں کی نظر میں‘‘،ڈاکٹرمحی الدین زور کشمیری کا’’سرسید احمد خان،ابوالکلام آزاد اور ہم‘‘، شمیم فرحت کا’’اقبال مجید کی ناول نگاری‘‘،فلک فیروز کا’’برصغیر کا بدلتا اقداری نظام‘‘،رشید اشرف خان کا’’نول کشور پریس:اُردو طباعت کا ماہ تمام‘‘، محمد اشرف کا’’پنجاب میں صوفیانہ اردوشاعری کی روایت‘‘،سید ظہور گیلانی کا’’اِی لرننگ:اعلیٰ تعلیم میں ایک انقلابی پیش رفت‘‘ ، عرفان عالم کا’’ادب کی موجودہ صورت حال اور ادیب کی ذمہ داریاں‘‘ اور ڈاکٹر الطاف انجم کا’’دریدا،لاتشکیل اور اردو معاشرہ‘‘ شامل ہیں۱۹؎۔حقانی القاسمی کا مضمون ’’کیکٹس،کینوس اور صادقین‘‘ایک عمدہ مضمون ہے اور اس میں نئی تکنیک کے ساتھ ادبی زبان ودلکش لفظیات کااستعمال ملتا ہے۔عابد سیال کا مقالہ ’’کلاسیکی چینی شاعری میں انسان دوستی‘‘ بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اور مقالہ نگار نے’’دہقان کا گیت‘‘ نظم کو چینی شاعری میں پہلی نظم قرار دیا ہے۔اس مضمون سے اس بات کا علم ہوجاتا ہے کہ چینی شاعری میں کس قسم کے جذبات واحساسات پائے جاتے ہیں اور چینی شاعری کا کس حد تک اردو میںترجمہ ہوا ہے۔عرفان عالم کا مضمون’’ادب کی موجودہ صورت حال اور ادیب کی ذمہ داریاں‘‘ ادب کو سائنس سے جوڑنے کے لحاظ سے ایک اہم مضمون ہے۔اس میں مقالہ نگار نے جگہ جگہ سائنسی اصطلاحات کے استعمال سے مضمون کو جاذب نظر بنایا ہے اور عصرِ حاضر کے ادیبوں کو وقت کے ساتھ چلنے اور سائنسی ایجادات و انکشافات سے فائدہ اُٹھانے اور ان کو ادب کے ساتھ جوڑنے پر زور دیا ہے۔الطاف انجم اورسید ظہور گیلانی کے مضامین میں بھی کچھ نئی چیزوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔مسرت جہاں کے مضمون’’سعادت حسن منٹو:خاکہ نگاروں کی نظر میں‘‘منٹو پر لکھے گئے بارہ خاکوں کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔اس میں پریم گوپال متن کی’’سعادت حسن منٹو‘‘،نقوش لاہور کے منٹو نمبر ۱۹۵۶ء،نصرت جاوید کے خاکہ’’منٹو پہلے پاگل ہوا پھر مرگیا‘‘،سہ ماہی نخلستان جے پور کا منٹو نمبر ،قراۃ العین حیدر کا منٹو پر لکھا خاکہ،عصمت چغتائی کا’’منٹو میرا دوست،میرا دشمن‘‘ وغیرہ کے حوالے سے منٹو پر انکشافات،ہمدردی،منفی اور مثبت پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔محی الدین زور کشمیری نے اپنے مضمون میں مولانا ابوالکلام آزار اور سر سید احمد خان کی خدمات میں کچھ مماثلتوں و مغائرات کو موضوع بنا یا ہے اوردونوں میں سنجیدہ اور پختہ فکر نذہبی خاندانوں سے تعلق ہونا،دونوں کا تفسیر القرآن اور ترجمان القرآن کے سبب مفسر قرآن ہونا،صحافی ہونا، اکابرین قومی یکجہتی ،ہندومُسلم اتحاد اور سیکولرازم کا حامی ہونا اور دیگر معملات میں یکسانیت ہونے پر روشنی ڈالی ہے۔فرحت بشیر نے اپنے مضمون میں اقبال مجید کی ناول نگاری کے حوالے سے ان کے ناول ’’کسی دن‘‘ اور’’ نمک‘‘کے حوالے سے بحث کی ہے۔فلک فیروز نے ۱۹۶۰ء کے بعد اردو افسانے میں جدید شہری منظر نامہ کی ترجمانی پر لکھے گئے افسانوں کو موضوع بحث بنایا ہے اور سریندر پرکاش،بلراج مین را،غیاث احمد گدی، جوگندرپال،رشید امجد،شوکت صدیقی، سلام بن رزاق، ابن کنول وغیرہ کے افسانوں میں برصغیر کے بدلتے اقداری نظام کے حوالے سے بات کی ہے۔سید ظہور گیلانی نے ’’اِی لرننگ ‘‘ کے ضمن میںاس کے چار اہم مراحل’’ کثیر نشریاتی زمانے،ویب کی شروعات،نئی نسل اور موبائیل تدریس‘‘ کے حوالے سے بحث کی ہے۔حالانکہ دیگر مضامین بھی اہمیت کے حامل ہیں مگر تمام مضامین کامغز پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔البتہ زیر نظر شمارے میںڈاکٹر الطاف انجم نے لکھا ہے کہ’’ جامعیات میں اسکالروں سے لے کر اساتذہ تک من جملہ سبھی لوگ تحقیقی طریقہ کار سے اس قدر نا واقف ہیں جس طرح مرزا غالب انگریزی سے تھے‘‘ ۲۰؎۔ اس کے علاوہ انہوں نے بیرون ریاست کی یونیورسٹی میں ہورہے تحقیقی کام پر کچھ الزاما ت عائد کیے ہیں جن میںکچھ اس طرح سے ہیں: سی جے ایم (CJM)یونیورسٹی پر پابندی عائد کرنا اور اس کی ڈگریوں کو منسوخ کرنے کو ایک اہم قدم قرار دیا ہے اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ یہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لئے تین سے پانچ لاکھ روپے بطور فیس لیے جاتے تھے۔جو صحیح معنوں میں ایک جرت مندانہ فیصلہ ہے۔ان کا ماننا ہے کہ بیرون ریاست کی جامعیات میں اردو میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسناد کی تحصیل کے طریقہ کار غیر تسلی بخش ہیں۔بیرون ریاست کی یونیورسٹی میں ایک ایک نگراں بیک وقت بیس بیس ریسرچ اسکالروں کی نگرانی کرتا ہے۔ان میں فرسودہ موضوعات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کا تحقیقی کام ہوتا ہے۔ بیرون ریاست کے ان ریسرچ اسکالروں کو اپنے کام کی کچھ خبر نہیں ہوتی ہے اور یہاں کے ریسرچ اسکالر اپنا پورا مقالہ یا ابواب کسی دوسرے سے لکھواتے ہیں۲۱؎۔ان تمام الزمات کو تحقیقی بنیاد پر عائد کیا گیا ہے یا بیرون ریاست کی یونیورسٹیوں کے خلاف ایک غلط رائے کے طور ظاہر کیا گیا ہے۔لیکن ایک بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ کشمیر یونیورسٹی میں بھی تحقیقی مقالے دوسروں کے لکھوانے کی رسم ملتی ہے۔رسمی موضوعات پر کام کرنا ہو یا اپنے مقالے کی کچھ خبر نہ ہونا یہاں بھی رسم ملتی ہے ۔ڈاکٹر الطاف انجم نے خود بھی بیرونی ریاست سے پی ایچ ڈی کیا ہے اوربیرون ریاست کے ادب نواز لوگ کشمیر کے ادب نوازوں کوکسی قابل نہیں سمجھتے ہیں۔اس کی کیا وجہ ہے؟ہم کشمیر میں ایک تالاب کی مینڈک کی طرح سوچتے ہیں کہ سب کچھ ہم ہی ہیں لیکن صحیح معنوں میں جب ہندووپاک میں کوئی بین الاقوامی سطح کی کوئی کانفرنس منعقد ہوتی ہے تو وہاں سرے سے ہی کشمیر کانام نہیں لیا جاتا ہے اور اگر خداناخواستہ کسی شخصیت کا نام لیا جائے تو رسمی طور پر۔گویا جس طرح ہماری نظروں میں بیرون ریاستوں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالر کسی لائق نہیں ہوتے ہیں، ٹھیک اسی طرح ان ریاستوں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالروں کی بصیرت میں کشمیر میں اردوکے حوالے سے صرف مایوسی ہی نظر آتی ہے۔بہرحال ہر چیز کے بارے میں اپنی اپنی رائے رکھنا ایک حق ہے۔
(۱۲)ترسیل،شمارہ ۱۲،۲۰۱۴ء:
سالانہ تحقیقی وتنقیدی مجلہ’’ ترسیل‘‘ کابارھواں شمارہ ۲۰۱۴ء میں پروفیسر خورشید اقبال اندرابی کی سربراہی اور ڈاکٹرنیلوفر خان ، ڈاکٹر الطاف انجم اور ڈاکٹر عرفان عالم کی ادارت میں شائع ہواہے۔اس میں کل ۲۰ تحقیقی وتنقیدی مقالات شامل ہیں۔زیر بحث شمارے میں پروفیسر قدوس جاوید کا مضمون ’’متن،قرآت اور معنی کا چراغاں: نارنگ تھیوری‘‘،محمد کلیم ضیاؔ کا’’مشترکہ تہذیبی شعور: قومی شاعری اور نتائج‘‘،عابد سیال کا’’اقبالؔ کی غزل: خصوصیات وامتیازات‘‘،محمد معظم الدین کا’’ حسرتؔ:غزل کے آئینے میں‘‘،حدیث انصاری کا
’’جدید نظم کا بانی: نظیر اکبر آبادی‘‘،عالم اعظمیٰ کا’’ پریم چند: معاندانہ تنقید کی زد میں‘‘،مشتاق حیدر کا’’ اردو افسانہ اور جدیدیت کے پیچ وخم‘‘،نصرت جبین کا’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور منٹو کا افسانوی متن‘‘،محمد حسین زرگر کا’’ اردو،ہندی اور ہندوستانی: مسائل واختلاف‘‘،شاہ فیصل کا’’داغؔدہلوی کی مکتوب نگاری‘‘،احسان الحق کا’’مسجد قرطبہ:ادبی تاریخ کا نیا باب‘‘،فردوس احمد بٹ کا’’ فکشن اور تاریخ: اشتراک وافتراق‘‘،شبینہ شبیر کا’’ مشرقی و مغربی تہذیب وفکر: اقبالؔ کی روشنی میں‘‘،سبزار احمد بٹ‘‘اکتشافی تنقید کی شعریات‘‘،اشرف لون کا’’ اردو میںترقی پسندی کے ابتدائی نقوش‘‘،الطاف انجم کا’’ماکسیت،نو مارکسیت اور سردار جعفری کی تنقید‘‘،عاشق حسین کا’’بلبل کاشمیری کی شعری جہات‘‘ اور عرفان عالم کا’’ منٹو کے افسانوں کی عصری معنویت‘‘شامل ہیں۲۲؎ ۔ بیس مقالات پر مشتمل اس شمارے کی ضخامت ۳۲۳ صفحات ہے۔گویا ان تمام مضامین کا مختصر تعارف وتبصرہ پیش کرنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی تمام مضامین کو یوں ہی چھوڑا جاسکتا ہے۔لہٰذا چندایک مضامین کے بارے میں دو دوکلمات بیان کرتے ہیں۔
پروفیسر قدوس جاویدکا مضمون’’متن،قرآت اور معنی کا چراغاں: نارنگ تھیوری‘‘اس شمارے کا بہترین مضمون ہے اس میں قدوس جاوید نے مشرق ومغرب کے اہم ناقدین کے نظریات کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔اس میں ساختیات،پس ساختیات،رد تشکیل،قرآت وغیرہ پر بحث ملتی ہے اور جگہ جگہ دریدا کے دلائل اور ان کے روعمل کے حوالے سے ذکر ملتا ہے۔قدوس صاحب نے اسلامی روایت اور ہندوستانی روایت کو بھی متن،معنی اور قرات کے حوالے سے قارئین تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کلیم ضیا نے مشترکہ تہذیبی شعور کے تحت شاعری کا ایک بہترین انتخاب جمع کیا ہے اور امن وامان،محبت وبھائی چارہ،رواداری،ہمدردی کے حوالے سے شاعری کا جائزہ لیا ہے۔نظیر اکبر آبادی کی شاعری پر بھی اچھا مضمون لکھا گیا ہے اور اس میں مشرق ومغرب کے ناقدین کے حوالوں سے مضمون کو جامع وبلند فکر بنایا گیا ہے۔عالم اعظمی نے پریم چند پر معاصرانہ تنقیدی کے حوالے نفیس مضمون قلم بند کیا ہے۔مشتاق حیدر نے اردو افسانے اور جدیدیت کے رشتے کے حوالے سے افسانے کی منفرد خصوصیات میں داستانوی فضا،علامتی اظہار اور تجرید پر بحث کی ہے۔انتظار حسین نے بلراج مین را اور انور سجاد اس مضمون کے خاص روح روا ہیں۔نصرت جبین نے منٹو کے افسانہ’’ سہائے،ٹوبہ ٹیک سنگھ،بابو گوپی ناتھ،کالی شلوار‘‘ کے حوالے سے ان کے افسانوی متن پر بات کی ہے۔حسین زرگر نے ایک اہم اور پرانی بحث کو چھیڑا ہے اور اردو،ہندی اور ہندوستانی کے پرانے جھگڑے کو عصر حاضر پر اثرانداز ہونے پر بحث کی ہے۔شاہ فیصل نے داغ دہلوی کے خطوط کے مجموعوں ’’ انشائے داغ،زبان داغ‘‘ اور دیگر مجموعووں میں شامل خطوط اورشاگردوں اور معاصرین کے نام لکھے گئے خطوط کی علمی وادبی اہمیت پر بات کی ہے۔شبینہ شبیر نے علامہ اقبال کی بصیرت اور مذہبی مطالعہ کے پیش نظر ان کے مشرقی ومغربی تہذیب فکر کا جائزہ لیا ہے اورعلامہ اقبال مغربی تہذیب کی مادہ پرستی،عقلی نارسائی،عریانیت کے مخالف اور سائنس،علوم وفنون کے حمایتی ہونے پر روشنی ڈالی ہے۔اکتشافی تنقید کے حوالے سے سبزار احمد نے ایک اہم مضمون لکھا ہے اور اس میں حامدی کی کتاب’’اکتشافی تنقید کی شعریات‘‘ کے حوالے سے حامدی کو نظریہ ساز ناقد ماننے سے انکار کرتے ہوئے اس نظریہ کو ہیتی تنقید،اسلوبیات،ساختیات اور پس ساختیات سے اخذ شدہ قرار دیا ہے۔عاشق حسین نے بلبل شاہ کاشمیری کی حیات وخدمات،شعری کائنات اور طنز ومزاح پر اچھا مضمون لکھا ہے ۔اس ضخیم شمارے میں مقالہ نگاروں سے رابطہ کرنے کیلئے ان کے فون نمبر اور ای میل درج کردی گئی ہے اور تمام مقالات کا ایک مختصر تعارف آخرمیں پیش کیا گیا ہے۔ روزافزئوں مجلہ ترسیل کے مضامین،ان کے معیار اور قارئین کے بھروسے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مجلہ کو زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچایا جائے اور زیادہ سے زیادہ قلمکاروں کو لکھنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔
(۱۳) ترسیل، شمارہ ۱۳،۲۰۱۶ء:
سالانہ تحقیقی وتنقیدی مجلہ’’ترسیل‘‘ کا تیرھواں شمارہ ۲۰۱۶ء میں ڈاکٹر نیلو فرخان، ڈاکٹر الطاف انجم اور ڈاکٹر عرفان عالم کی نگرانی میں منظر عام پر آیا ہے۔زیر نظر شمارہ کی مجلس مشاورت میں شامل بین الاقوامی شخصیات جیسے ڈاکٹر ناصر عباس نیّر(پنجاب یونیورسٹی لاہور پاکستان)،پروفیسر بادشاہ منیر بخاری(پشاور یونیورسٹی پشاور،پاکستان)،پروفیسر یوسف خشک(شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیر پورسندھ پاکستان)،ڈاکٹر سید مصری(الازہر یونیورسٹی قاہرہ،مصر)،پروفیسر ظفر احمد(ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ دیش)،پروفیسر علی بیات(تہران یونیورسٹی،ایران) کے نام کو شامل کیا گیا ہے۔یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ایسی عظیم شخصیات کا نام اس مجلے کی مجلس مشاورت میں شامل کیا گیا ہے۔یہ شمارہ ۲۱۰ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں۱۳ تحقیقی وتنقیدی مضامین شامل ہیں۔اس شمارے میں ہندوپاک کی جن اہم شخصیات کے تحقیقی وتنقیدی مقالات کو جگہ دی گئی ہے، ان میں’’ناصر عباس نیّر کامضمون ’’موت کا زندگی سے مکالمہ:بلراج مین را کا افسانہ‘‘،اسلم آزاد کا’’دوگززمین‘‘ہجرت کے المیے کا منظر نامہ‘‘،خالد اشرف کا’’گردشِ رنگ چمن ماضی کی بازیافت پرستی؟‘‘،انور ظہیر انصاری کا’’جاں نثار اختر کی ادبی قدروقیمت کے تعیّن کی کوشش‘‘،محی الدین زور کشمیری کا’’عصمت چغتائی کی ڈراما نگاری‘‘،عابد گلزار کا’’جدید فارسی شاعری کا ارتقائی سفر:ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘،امتیاز عبدالقادر کا’’علی گڑھ تحریک:نوآبادیات کے حوالے سے‘‘، جاں نثار معین کا’’مولانا ابوالکلام آزاد کے صنفی تصورات‘‘،عبداللہ امتیاز احمد کا’’علامہ شبلی کی فارسی غزل گوئی‘‘، محمد امتیاز احمد کا’’ترقی پسند ادب کی شعری جمالیات‘‘،عرفان عالم کا’’پیر رومیؔ،مُرید ہندی ‘‘اور الطاف انجم کا’’حکایات زاغ وبلبل‘‘کا بیانیاتی مطالعہ‘‘ شامل ہیں۲۳؎۔ناصر عباس نیّر کا مضمون’’موت کا زندگی سے مکالمہ:بلراج مین را کا افسانہ‘‘ ایک نادرتحفہ ہے۔اس میں نہ صرف قارئین بلکہ افسانہ نگاروں کیلئے بھی دلچسپی کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔زیرِ نظر مضمون میں انہوں نے مین را کے افسانوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے کمپوزشن کے تصور میں ایک نیم فلسفیانہ جہت شامل ہے اور ان کے کمپوزیشن والے افسانے پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ افسانہ کمپوز کرنے کو’ حقیقت خلق کرنے‘ کا فنی عمل سمجھتے ہیں‘‘۲۴؎۔انور ظہیر انصاری نے اپنے مضمون میں جاں نثار اختر کے خاندان،حیات وخدمات،ازدواجی زندگی ،بھوپال کی زندگی،شعری کائنات،فلمی دنیا،عشقیہ خطوط ،ترقی پسندی اور ان کی تخلیقات کو موضوع بنایا ہے اور جگہ جگہ ناقدین اور معاصرین کے خیالات وبیانات سے مضمون کو پُراثر بنانے کی کوشش کی ہے۔عصمت چغتائی کی ڈراما نگاری پر لکھا گیا مضمون بھی اہمیت کا حامل ہے اس میں ان کے یک بابی ڈراموں فسادی،سانپ اور انتخاب کے ساتھ دیگر ڈراموں تین اناڑی،دھانی بانکپن،شیطان،دوزخ کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور خصوصی طور پر ان ڈراموں کی کردار نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔علی گڑھ تحریک کے حوالے سے اس اصلاحی تحریک کے تعلیمی مقاصد اور مشرقی علوم کے مطالعہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد کے صنفی تصورات پر لکھا گیا مضمون بھی قابل قدر ہے اور اس میں ’’مسلمان عورت‘‘ کے حوالے سے آزاد اور عورت اور اس کتاب کے آٹھ نکات پر بحث ملتی ہے۔امتیاز احمد نے ترقی پسند ادب کے ضمن میں تحفظ ثقافت،انگارے،لکھنو کانفرنس کے چار اہم مقاصد،ترقی پسندوں کے فارمولہ کے سات نکات،ترقی پسند شعرا کی جمالیات جیسے باریک چیزوں کا جائزہ لیا ہے۔عرفان عالم کا مضمون رومی اور اقبال کے حوالے سے اہم ہے۔اس میں مولانا رومی اور علامہ اقبال کے روحانی رشتے کو دو جسم ایک روح سے تشبیہہ دی گئی ہے۔علامہ کے دل میں رومی کی عقیدت واحترام اور ان کی شاعری پر رومی کے اثرات کا بھی محاکمہ ملتا ہے۔حکایات زاغ وبلبل مضمون میں زاغ بلبل کی تاریخ،مکتوب نگار ،مکتوب الیہ،خط کے نفس مضمون،غرض وغایت وغیرہ کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس خط کوفصل کی موجودگی،عمل کی تبدیلی،تبدیلی میں زمانے کی شرکت اورکردار کا متحرک یا ارتقاء کے خانوں میں تقسیم کرکے دیکھا گیا ہے۔تمام مقالہ نگاروں نے اپنے مضبوط وپسندیدہ میدان میں اضافہ کیا ہے اور ادب کے قارئین کو بہترین تخلیقات فراہم کیں ہیں۔
فاصلاتی نظام تعلیم کے ترجمان مجلہ’’ترسیل‘‘ کے اگرچہ صرف تیرہ شمارے ہی منظر عام پر آئے ہیں اور اس کی عمر محض پندرہ سال ہے۔لیکن مختصر مدت میں ہی اس نے اپنی ایک الگ پہنچان بنائی ہے اوربے تکلف’’بازیافت،اقبالیات،تسلسل،شیرازہ،ہمارا ادب‘‘ جیسے معیاری رسائل وجرائد سے کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔لیکن عرف عام میں ایک محاروہ استعمال ہوتا ہے کہ جہاں دھوپ وہاں چھائوں اور جہاں چاہ وہاں راہ۔گویا اس میں تمام تر خوبیوں کے باوجود کچھ خامیاں بھی نظر آتی ہے۔’’ترسیل ‘‘ میں شائع ہونے والے مقالات ،شاعری اور خطوط کے مطالعہ سے ایک بات کی طرف ضرور دھیان جاتا ہے کہ اس میں ریاست سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شعراء کے علاوہ ہندوپاک کے مشاہیر ِادب کی تخلیقات بھی شائع ہوتی ہیں۔جن میں پاکستان کے پروفیسر ناصر عباص نیّر اور پروفیسر عابد سیال بھی شامل ہیں۔کچھ خطوط ایسے بھی ملے ہیں جو ریاست سے باہر تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شعراء نے ارسال کیے ہیں۔جن میں انہوں نے ادارے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ،کشمیر اور اردو سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔اس رسالے میں دو خامیاں چودھویں کے چاند کی طرح نظر آتی ہیں۔ایک اس میں سال بھر شعبہ اردو کی کارکردگی کی کوئی رپورٹ دستیاب نہیں ہوتی ہے۔جس کے سبب اردو میں ایم اے کرنے والے طلبا اور دیگر خدمات کی معلومات سے مایوسی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔دوسرا اس میں طالب علموںکے مضامین یا مقالات بہت کم شائع ہوپاتے ہیں۔اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ’’ترسیل‘‘ کی اہمیت و افادیت اور مقبولیت میں روز افضاوں اضافہ ہورہا ہے،مگر ا سکے شماروں کی بے قاعدگی کو بھی پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ یہ سالانہ مجلہ کچھ گنے چنے مشاہیر کی وراثت لگتا ہے ،ہر شمارے میں انہیں کے مقالات اور ان کی شاعری شائع ہوتی ہے۔بے قاعدگی کا سلسلہ جو پہلے شمارے سے شروع ہوا تھا، وہ ۲۰۱۹ء تک جاری نظر آتا ہے۔اگر پہلا شمارہ ۲۰۰۱ء میں منظر عام پر آیا ہے تو اس کے مطابق آج اُنیسویں شمارے کی تیاری ہونی چاہیے نہ کہ چودھویں شمارے کی۔آج لکھنے والوں کی ایک جماعت کھڑی رہتی ہے کہ کئی سے ان کا مقالہ شائع ہوجائے اور ویسے بھی ۲۰ مقالات اور چند غزلوں اور نظموں کا سال بھر نہ ملنا اپنے اندر ایک بڑ ا سوال ہے۔میرا کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ کسی بھی ایرے گیرے نتھو کھیرے کے مضمون کو شامل کیا جائے بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر سال دسمبر یا جنوری میں مجلہ شائع ہوتا ہے تو اس کیلئے سال کے شروع سے ہی تیاری کرنی چاہیے اور ایک شمارے کیلے عرفان صاحب کو اور دوسرے شمارے کیلئے بیک وقت الطاف صاحب کو تکدو کرنی چاہیے۔تب جاکر کچھ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ایک درخواست یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر سال ہر شمارے میں لوگوں سے گزارش کرکے مضامین بھیجنے کی درخواست کی جائے۔بلکہ فاصلاتی نظام تعلیم میں ہر سال کم از کم ایک قومی سطح کا سمینار یا کانفرنس یا پھر توسیع خطبہ کا اہتمام ہوتا ہے۔ان ادبی مجالس میں پڑھے جانے والے مقالات کو بھی کتابی شکل دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان مقالات میں سے چند اہم مقالات یا پھر تمام مقالات کو’’ ترسیل‘‘میں شامل کیا جائے تو یہ بھی ایک اچھا قدم ہوگا۔۲۰۰۱ء سے تاحال درجنوں ادبی مجالس کا انعقاد کیا جاچکا ہے لیکن بدقسمتی سے ایک بھی سمینار ،کانفرنس یا توسیعی خطبے کو نہ تو کتابی شکل دی گئی ہے اور نہ ہی ترسیل میں شائع کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔اربابِ اقتدار کو اس کی طرف شدت سے توجہ دینی چاہیے۔متعدد لوگوں نے ’’ترسیل ‘‘ کے نام اپنے خطوط میں اپنی تجاویز،شکایات اور شکریہ کے کلمات لکھکر بھیجے ہیں۔ڈاکٹر ارمان ساحلی (ممبی)نے ایک خط کے ذریعے ’’ترسیل‘‘ کو بہتر بنانے کی چند تجاویز بھیجی تھی اورانہوںنے لکھا تھا:
’’ترسیل کا باقاعدہ قاری ہونے کے ناطے حق رکھتا ہوں کہ اس کو مزید دیدہ زیب بنانے کے لئے اپنے معتبر مشوروں سے آگاہ کروں۔اول یہ کہ ترسیل کا سائز اردو میں چھپنے والے تمام تر رسالوں سے بڑا ہے اسکو چھوٹا کیجیے گا۔دوم یہ کہ خطوط کے حصے کا نام صرف خطوط رکھے۔سوم شعر و سخن میں غزلیں الگ اور نظمیں الگ لکھیے۔میرے خیال میں زیادہ خوبصورت لگے گا۔‘‘ ۲۵؎
اسی طرح ترسیل کو مزید خوبصورت اور معیاری بنانے کیلئے جو مشورے موصول ہوئے تھے ،ان میںڈاکٹر جاوید رحمانی(قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی) نے مشورہ دیا تھا کہ آٹھویں شمارے کا اداریہ نامعلوم سمتوں میں لایعنی سا سفر نظر آتا ہے۔شاعری والے حصّے کو شعریات کا نام دینا بالکل غلط ہے کیونکہ شاعری اور شعریات میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔تخلیقات کے انتخاب میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ آٹھویں شمارے میں ڈاکٹر ناصر عباس نیّر اور ڈاکٹر الطاف انجم کے مضامین کو چھوڑ کرباقی تمام قابل مطالعہ اور قابل معیار نہیں ہیں۲۶؎۔ڈاکٹر طارق احمد مسعودی نے آٹھویں شمارے کے بارے میں لکھا ہے کہ اس میں پروف کی غلطیاں کثرت سے ملتی ہے اورجوش ملیح آبادی پر لکھے مضمون میں درجنوں غلطیاں ہیں ،اس قسم کی خامیوں سے بچنا ضروری ہے۲۷؎۔ڈاکٹر محی الدین زور کاشمیری نے’’ ترسیل‘‘ کے نویں شمارے کا جائزہ لیتے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ غزلوں اور نظموں کے ساتھ ساتھ افسانوں اور انشائیوں کا بھی حصّہ شامل ہوناچاہیے، اس سے نئے افسانہ نگاروں او ر انشائیہ نگاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۲۸؎۔ظہور احمد مخدومی نے ترسیل کے تیسرے شمارے میں شامل خط میں مشورہ دیا تھا کہ ترسیل نہ صرف ایک ادبی رسالہ ہے بلکہ یہ ایک اصلاحی اور اخلاقی رسالہ بھی ہے اور یہ تمام طلبا تک پہنچنا چاہیے۲۹؎۔کم ازکم جو طلباء فاصلاتی نظام تعلیم سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرتے ہیں ۔ان کو دو سال میں دو شمارے تعلیمی مواد کے ساتھ ہی ملنے چاہیے۔اگرچہ شعبہ اردو وکے طلبا ء کو ’’بازیافت‘‘ کے شمارے مل سکتے ہیں تو فاصلاتی نظام تعلیم میںایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟تاحال ترسیل کے شمارہ نمبر چودہ (۲۰۱۷ء)اور پندرہ(۲۰۱۸ء) منظر عام پر نہیں آئے ہیں ۔ادب کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ نااُمید نہیں ہونا چاہیے،اسی اُمید کے ساتھ کہ مستقبل قریب میں’’ ترسیل ‘‘کے ذمہ داراں ان باتوں کی طرف دھیان دیں گے اور اس تحقیقی وتنقیدی مجلہ کو خوب سے خوب تر بنانے کی پہل کریں۔
سالانہ ادبی مجلہ’’ ترسیل ‘‘میں ابھی بے قاعدگی کے لحاظ سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔پروف کی بات کریں تو دور دودو شماروں پر شمارہ دس لکھا ہوا ملتا ہے۔اس سے بڑی پروف کی غلطی کیا ہوسکتی ہے۔پہلے دس شماروں میں شاعری اور خطوط کے حصّے بھی ملتے ہیںلیکن پچھلے تین شماروں میں شاعری اور خطوط کے حصّے کو حذف کیا گیا ہے۔ دو مایوس کن باتیں یہ نظر آتی ہے کہ ہر شمارے کی قیمت ۱۵۰ روپے رکھی گئی ہے اور تمام شمارے خود فاصلاتی نظام تعلیم کی لائبریری میں بھی دستیاب نہیں ہے۔اب ایک قابل قبول قدم اٹھایا گیا ہے کہ ترسیل کے شماروں کو پی ڈی ایف(PDF) شکل میں یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر دستیاب رکھا گیا ہے۔اگر اس کو تاریخی قدم مانا جاسکتا ہے تو پرانے شماروں کو بھی پی ڈی ایف(PDF) کی شکل میں اَپ لوڈ کرنا چاہیے۔’’ترسیل‘‘ کی ٹیم کو ایک مشورہ یہ بھی دینا چاہو گا کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ کشمیر کے ریسرچ اسکالر غیرادبی اور غیر معیاری رسائل میں اپنے مقالات کچھ پیسے دے کر شائع کرتے ہیں لیکن خود ’’ترسیل،بازیافت اور اقبالیات‘‘ نے کتنے ریسرچ اسکالروں کے مقالات کو جگہ دے کر ان کو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔سال بھر صرف ایک بار یہ جرائد شائع ہوتے ہیں اور مشکل سے بیس مضامین کو جگہ ملتی ہے۔اگر ترسیل کے ذمہ دار مدیران یہ قدم اُٹھائیں کہ ترسیل کو ششماہی یا سہ ماہی میں تبدیل کریں ،تو بڑی بات ہوگئی۔اس سے بیک وقت دو فائدے ہوں ۔ایک طرف فاصلاتی نظام تعلیم کی طرف سے منعقد کیے جانے والے سمیناروں ،کانفرنسوں اور توسیعی خطبات میں پڑھنے جانے والے مقالات کو کتابی شکل ملتی اور قارئین کوبھی پڑھنے کیلئے اچھے اچھے مقالات ملیںگے۔دوسرا نئے لکھنے والوں کو بھی موقع ملے گا۔اگر ریسرچ اسکالروں سے زر تعاون کے طور پر پانچ سو یا ایک ہزار فیس بھی لی جائے تو اس میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے۔ترسیل کے شمارے نہ صرف تمام کالجوں تک پہنچانے چاہیے بلکہ شعبہ اردو ،فاصلاتی نظام تعلیم اور اقبال انسٹی ٹیوٹ کے خواہش مند طلباء اور ریسرچ اسکالروں تک بھی ان کی رسائی ہونی چائیے۔گویا’’ ترسیل‘‘ کی ترسیل کو مزید تقویت اور استحکامت کی ضرورت ہے۔
ہر مجلہ میں جہاں معیار واعتبار کا دھیان رکھنا ضروری ہے وہاں باقاعدگی اورپاکیزگی کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے،جہاں تمام مستقل قارئین کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں نئے قارئین کی دلچسپی کا بھی احترام کرنا چاہیے،جہاں پرانے قلم کاروں کو موقع دیا جاتا ہے وہاں نئے قلم کاروں کو بھی پلیٹ فارم مہیا کیا جانا چاہیے،جہاں مرد حضرات کی خواہشات وجذبات کو مد نظر رکھا جائے وہاں صنف نازک کے جذبات واحساسات کا بھی پاس ہونا چاہیے،جہاں مضمون کی سند،مضمون نگارکی رسائی اورلفظیات کی ادبیت کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں املا کی غلطیوں،ادارے کے مقاصد اور طالب علموں کی ضروریات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔الغرض مجلہ’’ترسیل‘‘ ایک اہم تحقیقی وتنقیدی جریدہ ہے اور جس چیزسے جتنی اُمیدیں وابستہ ہوتی ہے ،قاری اس کو اتنا ہی بلند وبالا اور عظمت کا حامل دیکھنا چاہتا ہے۔
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
٭٭٭٭٭
حواشی
۱؎ اردو دنیا، ،اپریل ۲۰۱۳ء،ص: ۲۴۲؎ اردو دنیا، ،اپریل ۲۰۱۳ء ،ص: ۳۸
۳؎ اردو دنیا، نئی دہلی،دسمبر ۲۰۱۳ء،ص: ۳۳۴؎ ترسیل،شمارہ،۱،۲۰۰۱ء،ص:۱۱۱
۵؎ ترسیل،شمارہ ۸،۲۰۰۹ء،ص:۷۶؎ ترسیل،شمارہ۱،۲۰۰۱،ص:۱۔۱۱۳
۷؎ ترسیل ،شمارہ۲،۲۰۰۲ء،ص:۱،۱۳۲۸؎ ترسیل،شمارہ ۳،۲۰۰۳ء،ص: ۱۳۹۔۱
۱۰؎ ترسیل شمارہ ۵ ،۲۰۰۵ء ،ص:۱۲۰) ۱۱؎ ترسیل،شمارہ ۶،۲۰۰۶،ص:۱۔۱۰۵
۱۲؎ ترسیل،شمارہ ۷،۲۰۰۷،ص:۱۔۱۰۷۱۳؎؎ ترسیل شمارہ۸،۲۰۰۹، ص: ۱۳۔۱۷۰
۱۴؎ ترسیل ،شمارہ۹،۲۰۱۰ء،ص:۷۔۸۱۵؎ ترسیل،شمارہ ۹،۲۰۱۱،ص:۶۔۲۲۵
۱۶؎ ایضاً،ص:۲۲۳۱۷؎ ترسیل،شمارہ ۱۰،۲۰۱۲ء،ص: ۶۔۲۸۱
۱۸؎ ایضاً، ص:۲۹۰۱۹؎ ترسیل،شمارہ۱۱،۲۰۱۳،ص: ۳۔۲۳۹
۲۰؎ ترسیل،شمارہ۱۱،۲۰۱۳،ص:۲۲۱؎ ترسیل،شمارہ۱۱،۲۰۱۳،ص:۱۔۳
۲۲؎ ترسیل،شمارہ۱۲،۲۰۱۴ء،ص:۷۲۳؎ ترسیل،شمارہ۱۳،۲۰۱۶ء۔ص:۱۴۔۲۱۰
۲۴؎ موت کا زندگی سے مکالمہ:بلراج مین را کا افسانہ ،ناصر عباس نیّر ،ترسیل شمارہ ۱۳ ۲۰۱۶ء،ص:۱۸
۲۵؎ ترسیل ،شمارہ ۸،ص:۱۷۴۲۶؎ ترسیل ،شمارہ۹،ص:۲۲۷
۲۷؎ایضاً،ص:۲۲۹۲۸؎ ترسیل ،شمارہ ۱۰،ص:۳۰۴
۲۴ ؎ ترسیل ،شمارہ ۳،ص:۱۵۹)
٭٭٭٭٭٭
****
محمد یاسین گنائی
ببھارا، پلوامہ، جموں و کشمیر
PSOTAL ADDRESS:MOHD YASEEN GANIE,S/O: AB REHMAN GANIE, R/O: BABHARA,DISTRICT AND TEHSILE:PULWAMA,JAMMU AND KASHMIR, POST OFFICE:TIKEN BATPORA,PINCODE: 192306
Leave a Reply
Be the First to Comment!