جدید افسانے کا علامتی پہلو

ترقی پسند تحریک کے بعد جدیدیت کے رجحان نے اردو ادب خاص کر اردو فکشن پر اپنے اثرات مرتسم کیے۔اردو افسانے میں جہاں اس رجحان سے موضوعات میں اضافہ ہوا وہیں دوسری طرف ان موضوعات کو برتنے کے لیے نئے تکنیکی آلات بھی سامنے آیے۔انہی تکنیکی آلات میں ایک نام ’’علامت‘‘کا بھی ہے جس نے اردو کے روایتی افسانے کو توڑ کر ایک نئی سمت عطا کی۔علامت سے مراد وہ لفظ ہے جو اپنے اصل معنیٰ کو ظاہر نہ کر کے پوشیدہ رکھتی ہیں۔علامت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ معنیٰ کی مختلف جہتیں اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ظاہر کرتی ہیں۔علامت در اصل کسی بھی فن پارے کے اظہار کا ایک اضافی وسیلہ ہے۔ایک ادیب اپنے خیال کو وسیع تر مفہوم میں پیش کرنے کے لیے علامت کا استعمال کرتا ہے۔اردو افسانے میں علامت نگاری کے رویوں نے ترقی پسند عہد میں کہانی کے اکہرے پن کو ختم کر کے اس میںتنوع پیدا کیا۔سماجی استحصال،سیاسی غلامی اور معاشی عدم مساوات کے خلاف جذباتی نعرے بازی کی شدّت کوکم کیا اور افسانے میں اس عمومیت کو جو چیزوں کو براہ راست دیکھنے اور بیان کرنے کی وجہ سے پیدا ہو رہی تھی،ایک توازن عطا کیا۔اردو فکشن میں علامت نگاری نے کیوں اور کیسے جنم لیا؟اس کے متعلق ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نے شہزاد منظر کا ایک اقتباس اپنی کتاب ’’جدید اردو افسانے کے رجحانات‘‘میں درج کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں :

’’ایک طبقہ کا خیال ہے کہ علامت اس وقت جنم لیتی ہے جب اظہار پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔پاکستان میں ۱۹۵۱ ؁ ء سے مختلف طریقوں سے شہری آزادیوں کو کچلنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔اسی دور میں انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی عائد کر دی گئی۔اس کے چند سال بعد یعنی ۵۷ ء میں پہلا مارشل لا نافذ ہوا اور اس کے بعد ۶۰ ء میں علامت نگاری کا رجحان واضح ہونا شروع ہوا۔دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ اردو افسانے میں علامت نگاری کے رجحان کی ایک اور راست گوئی کے خلاف رد عمل اور افسانے کے بنیادی تصور میں تبدیلی ہے۔۔۔جدید افسانہ نگاروں میںعلائم نگاری اور بالواسطہ اظہار کے مقبول ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے دوران بے رحم حقیقت نگاری Crude realism

اور مقصدیت پر کچھ اس انداز سے زور دیا گیا کہ جدید افسانہ نگاروں میں اس کا شدید ردِ عمل ہوا،چنانچہ جدید افسانہ نگاروں نے نہ صرف ادب میں کلیہ پرستی،نعرے بازی اور ادب کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے کی کھل کر مخالفت کی بلکہ انہوں نے افسانہ نگاری کی قدیم اور کلاسیکی روایت کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور افسانے کی مروجہ ہئیت اور فنی اصول کے خلاف بھی شعوری بغاوت کا آغاز کیا اور اس طرح حقیقت نگاری کے ردِ عمل میں علامتی اور تجریدی اسلوبِ اظہار اختیار کیا۔یہہیں وہ اسباب ہیں جن کے اثرات ۱۹۵۰ ؁ ء کے عشرے کے نصف آخر میں مرتب ہونے شروع ہوئے‘‘۔۱؎

اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علامت نگاری کا عمل اردو ادب میں یوں ہی در نہیں آیا بلکہ اردو ادب میں اس کو پیش کرنے کے پیچھے جو وجوہات تھے ان میں ایک ادیب جو سیاسی ظلم و جبر کے خلاف لکھنے میں خود کواپہاج محسوس کرتا تھا ایسے میں علامت نگاری کے وسیلے سے ادیب اس کے خلاف کھل کر لکھنے لگے،دوسری طرف ترقی پسند تحریک کے اصولوں سے ایک ادیب خود کو آزاد کر کے اور پرانی روایتوں کو توڑ کرعلامت نگاری سے ایک نئی راہ کی طرف گامزن ہو گیے۔اردو افسانے میں بہت سی علامتیں مختلف طریقوں سے پیش کی گئی ہیں ان علامتوں اور ان کے برتنے کو آسانی سے سمجھنے کے لیے علی حیدر ملک کا یہ قول ملاحظہ کیجیے:

’’اول طریقہ تو یہ ہے کہ آسمانی صحائف،اساطیر،لوک کہانیوں ،حکایتوں اور قدیم داستانوں کے بعض کرداروں کو ہم عصر ماحول میں نئی زندگی عطا کی گئی یا ان کے بعض واقعات کو اپنے زمانے سے Relate کیا گیا۔آسمانی صحائف قرآن اور انجیل سے خاص طور پر استفادہ کیا گیا ۔اساطیر کے سلسلے میں یونانی اور ہندو دیو مالائوں سے اخذ و انتخاب ہوا۔حکایتوں اور قدیم داستانوں کے ضمن میں عربی فارسی حکایتیں نیز طلسم ہوشربا،الف لیلہٰ،قصہ چہار درویش اور دیگر داستانیں خصوصی توجہ کا مرکز رہیں۔بعض اوقات تاریخی شخصیتوں کو بھی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ۔جن میں گوتم بدھ کی شخصیت سب سے زیادہ محبوب و مقبول رہی۔دوسرا طریقہ فطرت اور مظاہر فطرت میں سے بعض اشیا اور چرند پرند کو علامتی شکل عطا کرنے کا رہا۔مثال کے طور پر سمندر،جنگل،طوطا،کبوتر،گھوڑا اور گائے وغیرہ۔تیسرا طریقہ موجودہ عہد کی بعض ایجادات اور روزمرہ استعمال ہونے والی چیزوں کو بطور علامت پیش کرنے کا سامنے آیا،جیسے بس،سائیکل،لفٹ اور ماچس وغیرہ عام طور پر ہر افسانہ نگار تینوں طریقوں کو علامت سازی کے لیے استعمال کرتا دکھائی دیتا ہے‘‘۔۲؎

غرض ان تمام علامتوں کو بروئے کار لاتے ہویے افسانہ نگار اپنے موجودہ معاشرے کی حقیقتوں کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ اجاگر کر دیتا ہے۔علامتی افسانے کی وجہ سے اردو افسانے میں فکری تہ داری پیدا ہوئی اور مواد،اسلوب اورتکنیک کے اعتبار سے اردو افسانے کا دامن وسیع ہوا اور ساتھ ہی ساتھ خارجی زندگی کے ساتھ باطنی زندگی کی اہمیت کا بھی احساس دلایا ہے۔ علامت نگاری نے اردو افسانے کو قدیم حکایتوں،

اساطیراورلوک کہانیوںسے ملا کر اردو افسانے میں نئے مفاہم پیدا کیے چونکہ اس سے پہلے ان چیزوں کو اردو افسانے کے لیے فرسودہ اور حقیقت سے کوسوں سے دور سمجھا جاتا تھا۔علامت نگاری نے اردو افسانے میں تہہ داری پیدا کر کے اردو افسانے کا کینوس کافی حد تک پھیلا دیا۔علامت نگاری نے معاشرے کے ساتھ ساتھ فرد کی فردیت کا بھی احساس دلایااس طرح جدید دور کے افسانوں میں انسانی ذات اور اس کے وجود کو کافی فوقیت دی گئی۔اردو افسانے میں علامت نگاری کا باقائدہ آغازبقولِ علی حیدر ملک،انتظار حسین نے کیا۔انتظار حسین نے قدیم داستانوں،

اساطیر،دیومالا اور لوک کہانیوں سے استفادہ کر کے نئی نئی علامتیں اخز کیں۔پروفیسر گوپی چند نارنگ اس ضمن میں لکھتے ہیں:

’’عہد نامئہ عتیق واساطیر و دیو مالا کی مدد سے ان کو استعاروں،علامتوں اور حکایتوں کا ایسا خزانہ ہاتھ آگیا ہے جس سے وہ پیچیدہ سے پیچیدہ خیال اور باریک سے باریک احساس کو سہولیت کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔‘‘۳؎

نتظار حسین نے اپنے علامتی طرزِ فکر کا سفر افسانہ ’’آخری آدمی‘‘ سے شروع کیا اور یوں انہوں نے بہت سے کامیاب علامتی افسانے پیش کیے جن میں زرد کتّا،وہ جو دیوار کو نہ چا ٹ سکے،بندر کہانی،صبح کے خوش نصیب،کشتی،چیلیں وغیرہ بہت ہی اہم ہیں۔’’آخری آدمی‘‘ انتظار حسین کا ہی نہیں بلکہ اردو افسانے کی تاریخ کا مشہور افسانہ ہے۔اس افسانے میں انتظار حسین نے اسلامی اسطور کا سہارا لیتے ہویے انسانوں کو بندروں کی جُون میں تبدیل ہوتے ہویے دیکھایا ہے۔لالچ،ہوس اور خدا سے مکر وفریب کر کے اس بستی کے تمام لوگ بندر بن جاتے ہیں۔انتظار حسین نے موجودہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو علامتی انداز میں بیان کیا ہیں۔انتظار حسین نے موجودہ دور کے انسانوں کو بندر وں سے تعبیرکیا ہیں کہ جس طرح پچھلے زمانے کے لوگ لالچ اور مکر وفریب کی وجہ سے بندر بن گئے تھے اسی طرح آج کے انسان لالچ،ہوس اور اپنی اخلاقی اور روہانی گراوٹ کی وجہ سے بندر بن چکے ہیں۔اگر چہ ظاہری طور پر آج کا انسان ،انسانی شکل و صورت میں نظر آتا ہے لیکن اس کا باطن ہوس،لالچ،فریب،حرام خوری اور سود خوری کی وجہ سے ایک جانور بن چکا ہے۔ اس افسانے میں انتظار حسین نے پچھلے زمانے کے لوگوں کا حال بیان کر کے موجودہ دور کے انسانوں پر طنز کے نشتر چلایے ہیں۔

’’اور اس قرئیے سے تین دن پہلے بندر غائب ہو گئے تھے لوگ پہلے حیران ہوئے پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے۔نابود ہو گئے۔پر اس شخص نے،جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا یہ کہا کہ بندرتو تمہارے درمیان موجود ہیں۔مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں۔‘‘۴؎

’’زرد کتا‘‘ میں بھی انتظار حسین نے بڑھتی ہوئی برائیوں سے انسانی ذات کی تبدیلی کو پیش کیا ہے اور انسان کے نفسِ امارہ کو زرد کتا کی علامت بنا کر پیش کیا ہے کہ جب انسان نفسِ امارہ میں پھنس جاتا ہے تو ایسے میں اُس کا وجود اور اس کی ذات ایک زرد کتے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔اس افسانے میں انتظار حسین نے چند اشخاص کے بدلتے ہویے نفس کو بیان کر کے پورے معاشرے کے لوگوں کی بدلتی ہوئی روحانی صورتِ حال کو پیش کیا ہے۔

’’میں وہاں سے اٹھ کر آگے چلا اور میں نے سیّد رضی کے قصر کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ اس کے پھاٹک میں ایک بڑا سا زرد کتّا کھڑا ہے اور میں نے اس زرد کتّے کو شیخ حمزہ کی حویلی کے سامنے کھڑا پایا اور ابو جعفر شیرازی کی مسند پر محو خواب پایا اور ابو مسلم بغدادی کی محل میں دُم اٹھائے کھڑے دیکھا۔‘‘۵؎

ہوس پرستی اور نفس ِ امارہ کی وجہ سے ان لوگوں کی ذات بدل کر ایک زرد کتے کی شکل اختیار کر لیتی ہے ،یعنی دنیاوی چیزوں اور ہوس پرستی میں گر کر یہ لوگ اپنے آخرت اور انسانی وجود سے دور بھاگ کر زر،زمین،قصر اور محل سے دل لگاتے ہیں اور یوں ان کی روحانی اور اخلاقی قدریں مسمار ہو جاتی ہے۔’’بندر کہانی‘‘ ایک علامتی افسانہ ہے جس میں انتظار حسین نے موجودہ معاشرے کے نوجوان طبقے سے وابستہ افراد کو اپنے تہذیب اور کلچر سے کنارہ کشی کر کے مغربی تہذیب و کلچر کی طرف گامزن ہونے کو بیان کیا ہے۔انتظار حسین نے اس افسانے میں بندروں کو علامت بنا کر مشرقی تہذیب وثقافت کے زوال اور بندروں کا انسانی نقالی کرنے کو بہت ہنر مندی کے ساتھ بیان کیا ہے۔

’’رات کی تاریخی میں کوئی نوجوان بندر اٹھتا اور چپکے سے سٹک جاتا ۔کتنے مہم جو نوجوان بندر اسی انداز سے اپنے جنگل سے نکلے اور آدمیوں کی دنیا کی خبر لائے۔وہاں سے آئینہ ہی لے کر نہیںآئے اورکتنی ہی چیزیں لے کر آئے۔ایک نوجوان بندرکسی گھر سے ایک لہنگا اور ایک دوپٹہ اچک لایا۔آکر اپنی بندریاں کو تحفہ میں پیش کیا ۔۔۔ابھی بندروں میں اس واقعہ پرچہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ ایک بندر یا اغواء ہو گئی ۔پھر یوں ہوا کہ ایک بندر نے اپنی بندریا سے منہ موڑا اور کسی غیر بندریا سے ناجائز تعلقات قائم کر لیے جب اس کی بندریا نے اس پر شور مچایا تو بندر نے اسے طلاق کی دھمکی دے ڈالی۔‘‘۶؎

انتظار حسین نے بظاہر طور پر اپنے اصل معنیٰ کو پوشیدہ رکھ کر بندروں کی کہانی بیان کی ہے۔چونکہ بندروں کی بدلتی ہوئی تہذیب وثقافت،روایت اور انسانوں کی نقالی اس افسانے کے سیاق و سباق سے پوری طرح ہم آہنگ اور موثر نظر آتی ہیں۔انتظار حسین کی علامت نگاری کو مدِ نظر رکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے تقریباًہر چیز میں علامتیں اخز کی ہیںچاہے وہ چرند پرند ہو،مذہبی اساطیر،دیومالا،کتھا،سائنسی ایجادات وغیرہ وغیرہ۔غرض کہ ہر ایک علامت کو نئے ڈھنگ سے اور نئے موضوع میں سما کر موجودہ معاشرے کے تحت پیش کیا ہے۔

جدیدیت سے وابستہ دوسرے افسانہ نگاروں میں جوگندر پال،انور سجاد اور بلراج مینرا نے علامت نگاری کے استعمال میں اپنی انفرادیت کے ساتھ پیش قدمی کی۔دوسرے افسانہ نگاروں میں اقبال مجید،سریندر پرکاش،کلام حیدری،غیاث احمد گدی،رشید امجد اور شوکت حیات کے نام قابلِ ذکر ہیں۔جدیدیت کے رجحان میں علامت نگاری کا رواج عام ہوا تقریباً ہر بڑے فن کار نے اس تکنیک کا سہارا لیتے ہویے کامیاب افسانے تخلیق کیے۔علامت نگاری کے سلسلے میں بلراج مینرا کا مشہور افسانہ ’’وہ‘‘قابلِ دید ہے۔اس افسانے کا کردار سرد رات میں گھر سے باہر سگریٹ سلگانے کی غرض سے نکلتا ہیں چونکہ گھر میں ماچس نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس بہانے سے گھر سے نکلتا ہے کہ شاید کہیں ماچس مل جائیں۔

’’اس نے چادر کندھوں پر ڈال لی اور کمرے سے باہر آگیا۔دسمبر کی سرد رات تھی ۔سیاہی کی حکومت تھی اور خاموشی کا پہرہ۔کسی ایک طرف قدم اٹھانے سے پہلے وہ چند لمحے سڑک کے وسط میں کھڑا رہا۔جب اس نے قدم اٹھائے وہ راستے سے بے خبر تھا۔رات کالی تھی۔رات خاموش تھی اور دور دور تاحد نظر کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔لیمپ پوسٹوں کی مدھم روشنی رات کی سیاہی اور خاموشی کو گہرا کر رہی تھی اور چوراہے پر اس کے قدم رک گئے۔یہاں تیز روشنی تھی کہ دودھیاں ٹیوبیں چمک رہی تھی۔لیکن خاموش جوں کی توں تھی کہ ساری دکانیں بند تھی اس نے حلوائی کی دکان کے چبوترے پر کوئی لحاف میں گٹھری بنا سو رہا تھا۔کون ہے؟کیا کر رہے ہو؟میں بھٹی میں سلگتا ہوا کوئلہ ڈھونڈ رہا ہوں۔پاگل ہو کیا؟بھٹی ٹھنڈی پڑی ہے ۔تو پھر؟پھر کیا؟گھر جائو ۔ماچس ہے آپ کے پاس؟ماچس!ہاں مجھے سگریٹ سلگانا ہے۔تم پاگل ہو!جائو میری نیند خراب مت کرو،جائو!تو ماچس نہیں ہے آپ کے پاس؟ماچس سیٹھ کے پاس ہوتی ہے وہ آئے گا اور بھٹی گرم ہو گی،جائو تم۔وہ پھر سڑک پر آ گیا۔سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔اس نے قدم بڑھائے۔چوراہا پیچھے رہ گیا۔تیز روشنی پیچھے رہ گئی۔کیا کیا کچھ نہ پیچھے رہ گیا۔‘‘۷؎

اس اقتباس میں ماچس کے حصول پر بہت زور دیا گیا ہے کیوں کہ بلراج مینرا کی خصوصیت یہی ہے کہ وہ سامنے کی کسی بھی چیز میں علامت ڈھوند کر اس میں معنیٰ کی مختلف پرتیں نکالتا ہے۔اس افسانے میں ’’ماچس‘‘انسانی زندگی اور ذات کی تلاش کی علامت ہے۔

علامت نگاری کی ایک اور مثال اقبال مجید کا افسانہ ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔یہ افسانہ علامتی کہانی کی اعلیٰ مثال ہے۔اس افسانے میں کہانی پن کے ساتھ ساتھ واقعات کا منطقی ربط اور تجسس و اختتام بھی موجود ہیں۔اس پورے افسانے میں واقعات کا تانا بانا دو بے نام کرداروں کے گرد بُنا گیا ہے جو ایک دوسرے کے لیے افسانے کے آخر تک اجنبی رہتے ہیں۔

’’اس کے جواب پر میں دل ہی دل میںجزبر ہوا،میں نے سمجھا تھا کہ میرے اور اس کے درمیان بہت کچھ مشترک تھا۔سفر کا ارادہ،یک بارگی بارش میں پھنس جانا،ایک ایسی چھت کے نیچے سر چھپانا جس کی رگ رگ چھدی ہوئی تھی اور پھر ایک ہی کیفیت میں لگاتار بھیگنا،اس لیے میں نے سوچا تھا کہ ایسے حالات میں ہم دونوں کی سوچ بھی مشترک ہو گی۔لیکن وہ ایسی حماقت آمیز حرکتیں کر رہا تھا جن کا کوئی جواز میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔۔۔‘‘۸؎

جدید افسانے میں انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانوں کو بھی کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔بلکہ بے جان چیزوں کو بھی مرکزی کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔اس کی واضح مثال غیاث احمدگدی کا افسانہ ’’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘ اورسریندر پرکاش کا افسانہ ’’بجوکا‘‘ ہے۔غیاث احمد گدّی نے ’’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘‘ میں منّی بائی کے طوطے کو ایک زندہ جاویدکردار بنا کر پیش کیا ہے۔اس افسانے میں غیاث احمد گدی نے انسانی جبر کو طوطے کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔

’’لیکن دفعتاً طوطا اس کی گرفت میں آنے کے بجائے تڑپ کر اچھلتا ہے اور اس کی کنپٹیوں پر جھپٹتا ہے اور گردن کا گوشت نوچ لیتا ہے۔اس آدمی کے منھ سے چیخ نکلتی ہے جس سے سن کر اس کا دوسرا ساتھی لپکتا ہے اور طوطے کی گردن پر ہاتھ ڈالنا ہی چاہتا ہے کہ طوطا گھور کر دوسرے آدمی کو دیکھتا ہے،اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں پھیل جاتی ہیں اور ان میں لہو اتر آتا ہے وہ اپنی پوری طاقت کو سمیٹتا ہے اور دہل کر دوسرے آدمی پر حملہ کرتا ہے اور اس کے سارے چہرے کو نوچ کر لہو لہان کر دیتا ہے۔‘‘۹؎

سریندر پرکاش نے افسانہ ’’بجوکا‘‘ میں ایک بے جان شئے کو مرکزی کردار بنا کر پیش کیا ہے۔بجوکاموجودہ نظام ِ حکومت کی علامت بن کر سامنے آتاہے۔بجو کاایک زندہ جاوید کردار بن کر سامنے آتاہے۔وہ باتیں بھی کرتا ہے،فصل بھی کا ٹتا ہے اور اپنے حق کے لیے ہوری سے لڑتا بھی ہے۔ جب پنچایت بیٹھتی ہے تو ایک فریق بن کر مقدمہ بھی لڑتا ہے

’’اچانک کھیت کے پرلے حصے میں ایک ڈھانچہ سا ابھر ا اور جیسے مسکرا کر انہیں دیکھنے لگا ہو،پھراس کی آواز سنائی دی۔میں ہوں ہوری کاکا۔بجوکا!۔اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی درانتی فضا میں ہلاتے ہوئے جواب دیا۔سب کی مار ے خوف کی گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی۔ان کے رنگ زرد پڑ گئے اور ہوری کے ہونٹوں پر گویا سفید پپڑی سی جم گئی۔کچھ دیر کے لیے وہ سب سکتے میں آگئے اور بالکل خاموش کھڑے رہے۔وہ کچھ دیر کتنی تھی؟ایک پل،ایک صدی یا پھر ایک یُگ،اس کا ان میں سے کسی کو اندازہ نہ ہواجب تک کہ انہوں نے ہوری کی غصّے سے کانپتی آواز نہ سنی انہیں اپنی زندگی کا احساس نہ ہوا۔تم بجوکا۔تم۔ارے تم کو میں نے کھیت کی نگرانی کے لیے بنایا تھا بانس کی پھانکوں سے اور تم کو اس انگریز شکاری کے کپڑے پہنائے تھے جس کے شکار میں میرا باپ ہانکا لگاتا تھا اور وہ جاتے ہوئے خوش ہو کر اپنے پھٹے ہوئے خاکی کپڑے میرے باپ کو دے گیا تھا۔تیرا چہرا میرے گھر کے بے کار ہانڈی سے بنا تھا اور اس پر اسی انگریز شکاری کاٹوپا رکھ دیا تھا۔ارے تو بے جان پُتلا میری فصل کاٹ رہا ہے۔‘‘۱۰؎

سریندر پرکاش کا یہ افسانہ ہندستان کے کسان طبقہ کی ترجمانی کرتا ہے۔ہوری جو اپنے کھیت میں تیار کھڑی فصل کو دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے کہ اب اس ساری فصل پر اس کا حق ہے کیوں کہ اب وہ ایک آزاد ہندوستان میں جی رہا ہے وہ یہ سوچ رہا ہے کہ سامراجی نظام کے خاتمے کے بعدلگان کا خاتمہ بھی ہو گیا ہے لیکن جوں ہی بجوکا ،ہوری سے اپنا حق مانگتا ہے تو اُس کی ساری امیدوں پر پانی پھیر جاتا ہے۔اسی چیز کو سریندر پرکاش نے علامت بنا کر بجو کا کے حوالے سے موجودہ حکومتی نظام پرطنز کیا ہے۔

غرض کہ جدید افسانوں میں علامت نگاری نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔علامت نگاری سے جہاں جدید اردو افسانوں میں موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے وہیں دوسری طرف معنیٰ کی مختلف جہتوں سے اردو افسانے کا کینوس کافی حد تک پھیل گیا ہے۔

حواشی:

۱؎ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش،جدید اردو افسانے کے رجحانات،انجمن ترقی اردو پاکستان،۲۰۰۰ ؁ ء ،ص۳۵۱۔۳۵۲

۲؎ علی حیدر ملک،افسانہ اور علامتی افسانہ،عاکف بک ڈپو،دہلی،۱۹۹۹؁ ء،ص ۶۸

۳؎ انتظار حسین کا فن:متحرّک ذہن کا سیّال سفر،مشمولہ،اردو افسانہ روایت اور مسائل،مرتب،پروفیسر گوپی چند نارنگ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۲۰۱۶؁ ء ،ص۵۳۶

۴؎ انتظارحسین ،آخری آدمی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی، ۲۰۱۷ ؁ ء ،ص۲۱

۵؎ ایضاً،ص ۴۱

۶؎ انتظار حسین،خالی پنجرہ،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۸ ؁ ء ،ص۸۵

۷؎ بلراج مینرا،وہ،مشمولہ،آ زادی کے بعد اردو افسانہ(ایک انتخاب)،جلد اوّل،ترتیب گوپی چند نارنگ،ارتضیٰ کریم،اسلم جمشید پوری،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،۲۰۰۳ ؁ ء ،ص۳۲۴۔۳۳۶

۸؎ اقبال مجید،دو بھیگے ہوئے لوگ، نامی پریس لکھنو،سن ندارد،ص۲۸۹۔۲۹۷

۹؎ غیاث احمد گدی،پرندہ پکڑنے والی گاڑی،صبا آرٹ پریس دھرم شالہ روڈ جھریا ،بہار ۱۹۷۷ ؁ ء ،ص۲۰

۱۰؎ ؎ سریندر پرکاش،بجوکا،مشمولہ،آزادی کے بعد اردو افسانہ(ایک انتخاب)،جلد اوّل،ترتیب گوپی چند نارنگ،ارتضیٰ کریم،اسلم جمشید پوری،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،۲۰۰۳ ؁ ء ،ص۳۲۴

 ٭٭٭٭

مشرف فیاض ٹھوکر

ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو، سنٹرل یونی ورسٹی کشمیر،انڈیا

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.