اکیسویں صدی میں اُردو افسانہ (موضوعات کے حوالے سے)
اکیسویں صدی کا آغاز کئی معنوں میںبڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور نئی نئی ایجادات نے دنیا کو ایک گاؤں یا ایک گھر میں بدل دیا، جس سے جہاں لوگوں میں بیداری آرہی ہے اور آسانیاں پیدا ہورہی ہیں، وہیں نئے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ یہ مسائل انسانی زندگی کو مزید پیچیدہ اور دشوار بنارہے ہیں، جسے افسانہ نگار محسوس کرر ہے اوران مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا رہے ہیں۔پروفیسرصغیر افراہیم افسانوں کے بدلتے ہوئے رنگ کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
’’آج کے افسانہ میں احساس ہوتا ہے کہ انسان کی کھوکھلی شخصیت جو محض نمائشی کروفر کی چیز بن گئی ہے، برق رفتار دور میں داخل ہوکر اور بھی پراسرار بن گئی ہے۔ تشنہ آرزوؤں، نفسانی خواہشوں اور جنسی بے راہ روی نے اخلاقی پستی کے کچھ اور بھی دروازے کھول دیے ہیں۔ شہری زندگی میں کاہلی، بیکاری، فاقہ مستی، بددیانتی، بے سرو سامانی اور رشوت ستانی نے ذہن اور ضمیر کی رسہ کشی کو تیز کردیا ہے۔ محدود ذرائع آمدنی سے شکوک میں اضافہ ہوا تو بے نیازی، بے اعتباری اور بے وفائی کا سلسلہ دراز ہوگیا۔ کرب و یاس کے اس ماحول نے عوام کو ذہنی کش مکش میں مبتلا کردیاہے، جس کی بنا پر اس کی شخصیت ٹوٹ کر بکھر گئی ہے۔ فن بھی بدلا ہے اور مطمح نظر کے زاویے بھی تبدیل ہوئے ہیں۔‘‘(1)
اقدار کے زوال، ماحول میں بے چینی ، خوف و دہشت،ذات کے بحران ، معاشی نابرابری، طبقاتی کشمکش، نفرت کے ماحول، بددیانتی ، بے اعتباری اور سیاسی جبر واستبداد کے درمیان ہم عصر افسانوں کے مطمح نظر میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ زیر نظر مضمون میں ان افسانہ نگاروں کے افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ کیا گیا ہے، جن کے افسانوی مجموعے اکیسویں صدی میں شائع ہوئے ہیں۔
صدیق عالم کے افسانہ ’’رودِ خنزیر‘‘ میں ہجرت، بے دخلی اور معزولی کو موضوع بنایا گیا ہے۔یہ افسانہ وطن عزیز ہندوستان کے بٹوارے اور پھرپاکستان سے بنگلہ دیش کے الگ ہونے کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ارسلان دو بار بے وطن ہوتا ہے۔ ارسلان کا والد اسے اور اس کی ماں کوبنگلہ دیش میں چھوڑ کر کراچی چلا جاتا ہے اور کبھی واپس نہیں آتا۔ ارسلان کی ماں اپنی بقا، گھر اور آبرو کے لیے آخری سانس تک جدوجہد کرتی ہے، مگر وہ المناک موت سے دوچار ہوتی ہے۔ ارسلان اور اس کی ماں کو صرف بے وطنی کا ہی نہیں بلکہ بے شناختی کا عذاب بھی جھیلنا پڑتا ہے اور وہ دونوں اپنا نام بدلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
’صدائے بازگشت‘ قصہ در قصہ کی تکنیک میں لکھا ہوا ذکیہ مشہدی کا مشہور افسانہ ہے۔ یہ کہانی فرقہ وارانہ فسادات اور تقسیم ہند کے بعد پیدا ہونے والے مسائل پر مبنی ہے۔ ایک خاندان جو بڑے سکون سے رہ رہا تھا، مگر ملک کے بٹوارے نے جہاں ایک طرف خاندان کے کئی ٹکڑے کردیے، خاندان ہی نہیں بکھرا بلکہ دل بھی بٹ گئے۔خاندان کے کچھ افراد پاکستان تو کچھ بنگلہ دیش پہنچ گئے، جس سے فاصلے بڑھ گئے،خاندان کے وہ لوگ جو دو قومی نظریے کے کٹر مخالف تھے اور باپ دادا کی زمین سے بے حد محبت کرتے تھے، یہیں کے ہو کر رہ گئے ، لیکن انہیں بھی فرقہ پرستی کازہر یہاں سکون سے رہنے نہیں دیتا۔ اس کہانی کا المناک پہلو یہ ہے کہ وہ لوگ جو ملک کے بٹوارے کے وقت پاکستان چلے گئے، ان کے دو قومی نظریے کی حمایت کرنے، اپنا گھر بار چھوڑ کر نئے ملک میں آباد ہونے کی سزا ان لوگوں کو دی جاتی ہے، جن کے دلوں میں اپنے آباؤ اجداد کے وطن اور اس کی مٹی سے پیار ہے۔ وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی ہم وطنوں میں غیرمحفوظ ہوجاتے ہیں۔
رتن سنگھ کا ’’سوالیہ نشان‘‘ تقسیم ہند کے کرب کو اجاگر کرتا ہے۔ ملک کے بٹوارے کے نتیجے میں ہونے والے فسادات جس میں ہزاروںبلکہ لاکھوں بے گناہوں کا قتل ہوا، ماؤں اور بہنوں کی عصمت لوٹی گئی۔ آزادی کا سپنا دیکھنے والے لاکھوں لوگوں کو اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر نئے علاقوں میں جاکر بسنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آپس میں نفرت کا زہر بویا گیا اور وہ زہر اب بھی موجود ہے، لیکن ان سب کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں،جو آپس میں مل جل کر رہنا چاہتے ہیں۔ پیار ومحبت بانٹتے ہیں۔ انہی میں سے ایک افسانے کا مرکزی کردار ’اللہ رکھی عرف رام رکھی‘ بھی ہے۔ رتن سنگھ نفرت کا زہر گھولنے والوں کے درمیان ’اللہ رکھی عرف رام رکھی‘ جیسے لوگوں میں امید کی کرن دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ملک کی تقسیم کے جو اثرات پڑے، لوگوں میں نفرت پیدا ہوئی اس کے باوجود بہت سے ایسے ہیں، جو محبت اور بھائی چارے کو فروغ دے رہے ہیں۔
حسین الحق کا افسانہ ’’مور پاؤں‘‘ میں ہندو اور مسلمان کے درمیان کھنچی دیوار اور ثقافتی اعتبار سے ان کی تقسیم کی عکاسی کی گئی ہے۔ کہانی کا واحد متکلم،جو آزاد خیال ہے، اس کی طبیعت الجھی ہوئی ہے، وہ گھٹن سا محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنے اندرونی خلفشار کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ آخر طبیعت میں یہ اضمحلال کیوں ہے۔ اس کی عمر کا اثر ہے، موسم کی وجہ سے الجھن ہوگئی ہے یا پھر ملک کے موجودہ زہرآلود ماحول کی وجہ سے؟
حسین الحق کا افسانہ ’’ساعتوں کا چور‘‘ خوف و دہشت اور عدم تحمل کے سائے میں جینے والی اقلیتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ’’ساعتوں کا چور‘‘ کو ایک طرف رکھیں اور دوسری طرف اکیسویں صدی میں پیش آمدہ دل دہلا دینے والے واقعات کو رکھیں تو دونوں میں تقریباً یکسانیت پائی جاتی ہے، اکیسویں صدی کی ابتدا سے لے کر اب تک سیکڑوں فسادات میں ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ مسجد-مندر کے تنازع کو ہوا دے کر ووٹ بینک کی سیاست کی جارہی ہے۔ حصول اقتدار کے لیے خونی کھیل کھیلنا عام بات ہوگئی ہے۔اس افسانے میں انسانی کشمکش کو نئے انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ خواب اور پیلی آندھیوں کے درمیان آج کا انسان گھر کر رہ گیا ہے۔
پروفیسر ابن کنول کا افسانہ’’خانہ بدوش‘‘ میں فرقہ وارانہ فسادات کی نذر ہونے والے خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ایک جوڑا جو ہزاروں ارمانوں کے ساتھ بچوں کو چھوڑ کر حج کے مقدس سفر پر جاتا ہے، ان کے بچے انھیں خوشی اور غم کے آنسوؤں کے ساتھ ایئر پورٹ تک چھوڑتے ہیں۔ فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد جب وہ لوٹتے ہیں تو ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے والا کوئی موجود نہیں تھا۔ایئر پورٹ سے حاجیوں کو پولیس اہلکار اپنی گاڑیوں میں بٹھا کر روانہ ہوئے، راستے میں جلے ہوئے مکانات دیکھ کر ان پر خوف و دہشت طاری ہوگئی، لیکن وہ لوگ چاہتے ہوئے بھی پولیس والوں سے استفسار نہ کرسکے۔ ایک طرف جہاں وہ لوگ اپنے گھر بار اجڑنے اور آل و اولاد کے فسادات کی نذر ہوجانے سے غمزدہ تھے تو وہیں پولیس والوں کی بے حسی اور بدتمیزی ملاحظہ کریں:
’’اور حاجی جی کیا کیا مال لائے ہو… یہاں توسب لٹ گیا… پھر جمع کرو…‘‘
چوتھے نے کہا:
’’تم وہاں سے مال لاتے رہو… اور ہم…‘‘
چاروں ہنس دیئے۔ مشتاق بھائی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، پولیس کی گاڑی نے انھیں ایک کیمپ میں اتار دیا۔ اسے منیٰ کے خیمے یاد آئے، عرفات اور مزدلفہ کے بے سایہ میدان اس کی نظروں میں گھوم گئے لیکن منظر بدلا ہوا تھا، چاروں طرف آہ و بکا، بے سروسامانی، برہنہ پا، برہنہ سر خواتین کا ہجوم، بے کفن لاشیں، اس نے محسوس کیا کہ اب وہ ابرہہ کے نرغے میں ہے۔ اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی، ابابیلوں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا، اس لیے کہ وہ اب تین سو تیرہ میں سے نہیں تھا۔‘‘(2)
مذکورہ بالا اقتباس جہاں ایک طرف فسادات میں گھر بار اجڑنے، بے گناہوں کے قتل عام اور خواتین کی تحقیر کی طرف اشارہ کرتا ہے، وہیں ایسے مواقع پر لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے تعینات سیکورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کی بددیانتی، لوٹ کھسوٹ کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے مواقع پر وہ اپنی ذمہ داریوں کی پروا کیے بغیر خود لوٹ کھسوٹ میں شامل ہوجاتے ہیں۔افسانے کا آخری جملہ ’’اس لیے کہ وہ اب تین سو تیرہ میں سے نہیں تھا۔‘‘ میں مسلمانوں کی پوری تاریخ پوشیدہ ہے۔ یہ جملہ مسلمانوں کی حالت زار بیان کررہا ہے۔ پروفیسر ابن کنول کے افسانہ ’’خدشہ‘‘ میں ایک معمولی بات پر دو مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگوںکے درمیان ٹکراؤ کی عکاسی کی گئی ہے۔
’’رنگ کا سایہ‘‘تہہ دار بیانیہ میں لکھا ہوا بیگ احساس کا عمدہ افسانہ ہے۔اس میں بظاہر ایک مسلم لڑکے اور ایک ہندو لڑکی کی محبت کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن پس منظر میں فرقہ وارانہ منافرت کے شکار بے گھر افراد کے درد و کرب ، ان کے محنت کش طبقوں میں پناہ لینے اور وہاں بھی نفرتوں کا شکار بننے کی داستان رقم کی گئی ہے۔ اس کہانی کا اختتام بہت المناک ہے۔ آخر میں بیگ احساس نے قاری پر اس بات کا فیصلہ چھوڑ دیا ہے کہ مرکزی کردار فرقہ پرست ٹولے کا خطرہ مول لے کر لکشمی اور اس کے بیٹے کو اپنا لے اور انہیں لے کر کہیں دور چلا جائے یا پھر فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرہ مول لیے بغیر لکشمی کو دلاسہ دے اور یہاں سے چلا جائے اوراپنی نئی زندگی کی شروعات کرے۔
ذکیہ مشہدی کے افسانہ’’افعئی‘‘میں کالج کی زندگی میں ریگنگ کو موضوع بنایاگیاہے، لیکن افسانے کی تہہ تک پہنچنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ افسانہ دراصل نفرت کے زہر سے آلودہ نئی نسل کے مذہبی جنون کی عکاسی کرتا ہے۔ ذکیہ نے اشاروں اشاروں میں کالج میں ایک طالب علم کو محض ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جو کچھ جھیلنا اور برداشت کرنا پڑتا ، بیان کیا ہے۔
’’نام کیا ہے بے؟‘‘ بے کے آگے ایک موٹی سی گالی بھی تھی۔ لڑکا ذرا کی ذرا ہل گیا۔
’’سنجر۔‘‘
ابے سنجے کے آگے پیچھے کچھ نہیں۔ خالی سنجے؟
شڈ ہوگا سالا۔ لڑکی نے کہا… یہ لوگ آج کل سرنیم نہیں لگا رہے ہیں۔
’’ہم مسلمان ہیں۔ ہمارے یہاں شیڈیول کاسٹ ہوتی ہی نہیں ہے۔‘‘
’’کیا کہا؟ ذرا پھر سے بول۔ سالا مُلاّ ہے۔‘‘ ایک لڑکا بولا۔
’’ابے یہ ملا سنجے نام کب سے رکھنے لگے؟‘‘ دوسرے نے لقمہ دیا۔
’’۹۲ء میں اتنی پٹائی ہوئی کہ یہ دھوکہ باز نام تک بدلنے لگے۔‘‘
’’کیا پتہ جھوٹ بول رہا ہو۔ پاجامہ کھلواؤ۔ پاجامہ…‘‘
’’اور جو کٹوانا بھی بند کردیا ہو تو؟‘‘ ’’ہاہاہا…‘‘ ایک فلک شگاف قہقہہ گونجا۔
لڑکے کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ’’ہمارا نام سید سنجر علی ہے۔ یہ نام ہمیشہ سے ہمارے یہاں ہوتا چلا آیا ہے۔ سنجے نہیں سنجر…‘‘ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔ کوشش کی کہ غصہ اور جھنجھلاہٹ آواز سے عیاں نہ ہو۔ ’’ہم اپنی شناخت چھپاتے نہیں ہیں۔‘‘
’’بڑا ڈھیٹ ہے یار۔ اب کیا اپنی شناخت بھی دکھا دے گا۔‘‘
’’اس کی پوری قوم ڈھیٹ ہے۔‘‘(3)
مذہبی تنگ نظری کا شکار کالج کے شرپسند بچے یہیں پر بس نہیں کرتے ، جب سنجر وہاں سے جانے کی کوشش کرتا ہے تو ایک لڑکا تالی بجا کر کہتا ہے کہ ابے ملا بھاگا۔ کہاں جائے گا؟ پاکستان؟ سنجر جم کر کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ کہیں نہیں جارہا ، یہیں ہوں تمہارے ساتھ۔ پھر ایک کہتا ہے کہ تم نے بولا تھاکہ تمہارے یہاں شیڈول کاسٹ نہیں ہوتی، لیکن کوئی چمارن مسلمان ہوجائے تو اس سے شادی کرلے گا یا پھر جھوٹ موٹ کا جھانسہ دیتے ہو تم لوگ۔ابھی سنجر کچھ جواب دیتا کہ اس سے پہلے ایک اور لڑکا بول پڑا چوتھی شادی کے لیے چمارن بھی چل جائے گی اسے تو چار شادی کرنی ہے نا ورنہ پینتیس بچے کیسے پیدا ہوں گے اور ہم پر ایک بار پھر ان کا غلبہ کیسے ہوگا۔الغرض سنجر کو مسلمان ہونے کی وجہ سے کالج میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بیانیہ اور مکالماتی تکنیک کے امتزاج سے بُنا ہوا شوکت حیات کا ’بھائی‘ فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات پر اہم افسانہ ہے۔ ’بھائی‘ ڈر اور خوف کے سائے میں جینے والی اقلیتوں کی کہانی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے اثرات پرلکھے گئے اس افسانے میں انسانی نفسیات کی عکاسی بڑی خوبصورتی کے ساتھ کی گئی ہے۔ افسانے میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں پائے جانے والے خوف و دہشت اور سماج دشمن عناصر کی امن میں خلل ڈالنے کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ ایسے ماحول اور فضا پر مبنی افسانہ ہے، جس میں ہر شخص دوسرے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ایسا ماحول ہمارے آس پاس پیدا کردیا گیا ہے۔ یہ ایک کڑوی سچائی بھی ہے۔ وہیں دوسری طرف سماج میں ایسے افراد کو بھی دکھایا گیا ہے، جو ذات پات اور رنگ و نسل کی سیاست سے بہت دور ہیں اور ان میں انسانی جذبے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ امن و امان کو قائم رکھنے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات پر شوکت حیات کا ایک اور افسانہ ہے ’’سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ‘‘۔ یہ حقیقت پسند بیانیہ میں لکھا گیا ہے، جس میں فرقہ پرستی کے مکروہ چہرے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مشرف عالم ذوقی کے افسانہ ’’لیبارٹری‘‘ میں گجرات میں پیش آنے والے ہولناک اور خونی منظر کو انوکھے اور منفرد اندار میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں گجرات کو فرقہ پرستوں کی لیبارٹری قرار دیا گیا ہے، جہاں سے فرقہ پرست ٹولے، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کرنے والے ایک پروڈکٹ کی طرح باہر آتے ہیں۔ اس افسانے میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ کس طرح فرقہ پرست سادہ لوح نوجوانوں کی ذہن سازی کرکے، ان کے اندر مذہبی جنون پیدا کرتے ہیں،مذہب کے نام پر دوسرے طبقوں کے خلاف ان کے ذہنوں میں زہر گھولتے ہیں، انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیںکہ جو مضبوط ہوتے ہیں بس انہیں ہی جینے کا حق ہے۔اس سے پہلے کہ وہ آپ کو ڈسیں، آپ کی تہذیب کو ملیا میٹ کردیں، آپ انہیں مٹا دیں۔ اس طرح وہ ان کا استعمال اپنے خاص ایجنڈے اور منصوبے کے مطابق کرتے ہیں۔تکنیکی اعتبار سے ’’لیبارٹری‘‘ ایک اہم افسانہ ہے، جہاں ایک ایسی تجربہ گاہ ہے، جس میں ایک طبقے کے آدمی کا عضوخاص کاٹ کر دوسرے طبقے کے آدمی میں فٹ کیا جارہا ہے تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ ان کی سوچ اپنی ہے نہ ہی ان کا عضو خاص۔ ’لیبارٹری‘ کے کرداروں کی عکاسی اور ان کے مکالمے قاری پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ذوقی کا ایک اور افسانہ ’’احمدآباد۔۳۰۲میل‘‘گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد پیدا ہونے والے حالات وواقعات کا گہرا بیانیہ ہے، جو عصری سیاست کے مکروہ چہرے پر نشتر لگاتا ہے۔
سلام بن رزاق کا افسانہ’’آدمی اور آدمی‘‘ جہاں ایک طرف انسانی ہمدردی کی عکاسی کرتا ہے، وہیں دوسری طرف فرقہ پرستوں کے ذریعہ انسانیت کا خون کرنے والوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ مظہرالزماں خان کا افسانہ’’خوف کے درمیاں‘‘خوف و دہشت کے درمیان زندگی کرنے والے ایک شخص کی کہانی ہے، جو دنیا کے مکر و فریب،عیاری و مکاری، درندگی اورفرقہ پرستی سے خوف میں مبتلا ہوکرخود کو ایک ہی کمرے تک محدود کرلیتا ہے اور بے نام زندگی گزارتا ہے۔
بابری مسجد سانحہ کو اردو کے بیشتر اہم افسانہ نگاروں نے موضوع بنایا ہے۔حسین الحق کی شاہکار کہانی ’’نیوکی اینٹ‘‘ بھی بابری مسجد کی شہادت کے المیہ پر مبنی ہے۔ کہانی میں مسلمانوں کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح انہیں بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور ساتھ ہی یہ افسانہ اکثریتی اور اقلیتی طبقہ کے سماجی اور تہذیبی رشتوں کے روایتی استحکام کو ظاہر کرتا ہے۔ اس میں شیوپوجن اور سلامت اللہ کی دوستی کی کہانی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد فتح کی علامت مسجد کی اینٹوں کی جگہ جگہ نمائش ہورہی ہے۔ شیوپوجن کے یہاں بھی اینٹ آتی ہے، جس سے اس کے گھر کی رونق بڑھ گئی ہے۔ نقض امن کے خطرہ کے پیش نظر جب سرکار داروگیر شروع کرتی ہے تو شیوپوجن اس اینٹ کو اپنے دوست سلامت اللہ کو سونپ دیتا ہے، کیونکہ وہ مسلمان ہے اور اس کے گھر چھاپے کا خطرہ نہیں ہے۔
بابری مسجد کے سانحہ پرہی شوکت حیات کا افسانہ ’’گنبد کے کبوتر‘‘ ہے۔ علامتی اسلوب میں لکھا گیا یہ افسانہ شوکت کی شناخت ہے۔ گنبد ہمارے مذہب اور تاریخ و تہذیب کی علامت تھا، اس کے نہ ہونے سے ہماری تاریخ و تہذیب دھندلی ہوگئی۔کبوتروں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ ان کے بے سہارا ہونے کی علامت ہے۔ اقبال مجید کی کہانی’’سوختہ ساماں‘‘ بھی بابری مسجد سانحہ کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔
’’روح میں دانت کا درد‘‘ خالد جاوید کی خوبصورت کہانی ہے۔ افسانے میں ڈینٹل کلینک اور دانت کے مریض کو پیش کرکے یہ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس طرح دانتوں کا ڈاکٹرمریض کے ایک دانت کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش میں اس کے دوسرے دانتوں کو بھی تکلیف اور درد میں مبتلا کردیتا ہے ، ٹھیک اسی طرح سماج میں ایک تشدد کو ختم کرنے کی کوشش میں کئی دوسرے تشدد کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یعنی تشدد کو تشدد سے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یا پھر سماج کاکوئی ایک فرد یا طبقہ جب تشدد کی بھینٹ چڑھتا ہے تو بہت سارے لوگ یا بہت سارے طبقے اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تشدد کو تشدد کے ذریعہ کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا ، اس کے لیے پیار و محبت کا راستہ اپنایا جانا چاہیے تبھی تشدد کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔
’’ہفتے میں ایک بار اسے اس علاج کی خاطر یہاں آنا پڑتا ہے اور تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے۔ وہ تشدد کے بارے میں تفصیل سے سوچنے لگتا ہے۔
دو تین بار یہاں آنے کے بعد جی کو صبر بھی آگیا تھا۔ اب وہ اس طرح نہیں گھبراتا تھا۔ یہ ایک قسم کی بے حسی تھی،جو ایک خاص طرح کے تشدد کے لیے ذہنی راہ ہموار کرتی ہے۔ پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ یہ تشدد کا فاعلی روپ ہے یا مفعولی۔ جب انسان اپنے عقب میں تیز بھاگتی ہوئی روشنیوں کو کچلتا ہے تو یہ تشدد ہے۔ جب انسان اپنے میلے جانگیے کو رگڑ کر صاف کرتا ہے تو یہ تشدد ہے، جب انسان آدھی رات میں دور سے آتی ہوئی کسی ننھے بچے کے رونے کی آواز کو نظر انداز کرتا ہے تو یہ تشدد ہے۔
تشدد کہاں نہیں تھا۔ اب صورت حال بدل جانے کے بعد بھی وہ موجود ہے اس طرح کہ ایک تمسخرانہ مسکراہٹ میں شامل ہے۔ انسانوں کے درمیان تمام رشتوں میں گندھا ہوا یہ بے زبان تشدد مگر بے رحمی کے ساتھ سب کو ستاتا ہوا، کچلتا ہوا۔‘‘(4)
افسانے کے مذکورہ اقتباس سے افسانہ نگار کہنا چاہتا ہے کہ تشدد سہتے سہتے انسان میں بے حسی آجاتی ہے،جو ایک خاص طرح کے تشدد کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تشدد اس پر ہورہا ہے یا پھر وہ کررہا ہے۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے تشدد کی مختلف باریک شکلوں کی طرف اشارہ کرنے اور بتانے کی کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں سماج میں ہر جگہ تشدد اور ظلم وزیادتی کا وجود پایا جاتا ہے۔ سماجی نظام کے تانے بانے میں کجی ہوتی ہے تو ہر چیز تشدد کی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ سماج کے دبے کچلے غریب افراد کے لیے مہنگائی تشدد کی ایک شکل ہے۔ اسی طرح سماج کے امیروں کا غریبوں کا استحصال کرنا اور مظلوموں کو پریشان کرنا یہ بھی تشدد ہے۔ وہ خوبصورتی جو دوسروں کی تحقیر کرتی ہو وہ بھی تشدد کی ہی ایک شکل ہے۔
اقبال مجید کا افسانہ’’آگ کے پاس بیٹھی عورت‘‘ رمزیہ حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ کہانی کے بیانیہ میں تہہ در تہہ معنویت ہے ،جس کے اسرار قاری پر رفتہ رفتہ کھلتے ہیں۔ کہانی میں ایک فلم ساز بڑے انعامات کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے سور پالنے والوں کی روزمرہ کی زندگی، ان کی گندگی، ان کی عورتوں کی برہنگی اور ننگے دھڑنگے کیچڑ میں لتھڑے اور غلاظت میں لوٹتے بچوں پرفلم بنانا چاہتا ہے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے فلم ساز ایک گندی بستی کو منتخب کرتا ہے اور وہاں کے لوگوں کی غربت و افلاس اور گندگی و غلاظت کو پوری حقیقت پسندانہ سفاکی کے ساتھ فلماتا ہے۔
کہانی میں اہم موڑ اس وقت آتا ہے،جب گاؤں کا مکھیا مہمانوں کے لیے پانی پینے کا انتظام کراتا ہے۔ مکھیانے ٹھاکروں کے گاؤں سے پانی منگایا تھا۔ ڈائرکٹر بھائی چارے کے جذبے کے دکھاوے کے لیے قریب ہی آگ کے پاس بیٹھی عورت کے پاس رکھے ہوئے گلاس سے پانی پینے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ مکھیا کے منع کرنے کے باوجود دلتوں کے اس گندے ٹوٹے پھوٹے المونیم کے گلاس میں پانی پیتا ہے۔پانی پینے کے بعد ڈائرکٹر دلتوں سے اپنے بھائی چارے کے جذبے کی نمائش کر کے دل ہی دل میں خوش تھا اور ان کے تاثرات جاننا چاہتا تھا۔ لیکن ڈائرکٹر کو جب پتہ چلتا ہے کہ اس گلاس میں وہ عورت سور کے بیمار بچے کو دودھ پلایا کرتی ہے تو وہ سکتے میں آجاتا ہے اور یہ نظارہ دیکھ کر آگ کے پاس بیٹھی وہ عورت ایسی مطمئن اور مسرور نظرآرہی تھی جیسے اس نے ایک لمبی اذیت، اندوہناکی اور درد و دکھ سے نجات پالی ہو اور اس نے ان تمام میڈیا والوں سے انتقام لے لیا ہو جو اپنے مقصد کے حصول کے لیے ان کی غربت و افلاس اور ان کی بے کسی و مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
’’وہ عورت آگ کے پاس بیٹھ چکی تھی، اس کے چہرے کو اس بار میں آنکھیں گڑا کر دیکھتا رہا تو مجھے احساس ہوا جیسے پڑوس میں جلتی اور شعلے لپکتی لکڑیوں کی وہ آگ چپکے چپکے نہ جانے کب سے اس کے خون کی گردش اور سانسوں کے زیر وبم میں بھی جل رہی تھی، اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں کے ڈوروں میں بھی وہی آگ سیال بن کر رواں تھی اور اسی سیال میں ہزیمتوں، شکستوں، محرومیوں اور دل آزاریوں کا کیسا کیسا زہریلا اور فاسد خون کسی زخم خوردہ سانپ کے مانند بے قابو ہوکر دوڑتا صاف نظر آرہا تھا۔ پھر یہ دیکھ کر تو ہم سب ہی دم بہ خود رہ گئے کہ آگ کے پاس بیٹھی وہ عورت ڈائرکٹر کے جھوٹے کیے ہوئے المونیم کے گلاس کو لوہے کے چمٹے سے پکڑے لپکتے ہوئے شعلوں پر رکھ کر گرم کر رہی تھی اور وہ اس گلاس میں پانی پینے والے کو یوں دیکھ رہی تھی،جس کے بے رحم تشدد کو دنیا کی کسی زبان کے بھی الفاظ نہیں صرف کیمرہ ہی بیان کرسکتا تھا۔‘‘(5)
درج بالا اقتباس سے میڈیا کے خلاف اس دلت عورت کی نفرت کی شدت کے احساس کی عکاسی ہوتی ہے۔ آگ کے پاس بیٹھی عورت ڈائرکٹر کے پانی پینے کے بعد المونیم کے گلاس کو لوہے کے چمٹے سے پکڑ کر آگ میں تپاتی ہے گویا وہ یہ بتانا چاہتی ہے کہ فلم کے ڈائرکٹر کے اس گلاس میں پانی پینے کی وجہ سے گلاس جھوٹا ہوگیا ہے اور اب وہ گلاس اس قابل بھی نہیں رہا کہ سور کے بچے کو اس میں دودھ پلایا جاسکے۔ اس افسانے کو موضوع، ٹریٹمنٹ اور رمزیہ حقیقت نگاری کے سبب اقبال مجید کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
سلام بن رزاق کا افسانہ’’کلہاڑی‘‘ اعلیٰ طبقہ کے ذریعہ نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کی بہو بیٹیوں کے جنسی استحصال کی عکاسی کرتا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردارراگی ہے۔راگی کو مکھیا اور اس کے گرگے پورے گاؤں میں گھماتے اور اسے مارتے پیٹتے ہیں کیونکہ اس نے اپنی عزت و آبرو بچائی تھی۔ مکھیا کی ہوس کا شکار نہیں بنی تھی۔ اس نے اپنی عصمت کو تار تار نہیں ہونے دیا تھا۔ اپنے اوپر ہونے والے جنسی تشدد کے خلاف وہ احتجاج کربیٹھی تھی۔
ساجد رشید نے اپنے افسانے’’مکڑیاں‘‘ میں چمارٹولے کی ذلت بھری زندگی کی تصویر کشی کی ہے۔ اس افسانے میں حقیقت نگاری کی گئی ہے۔ گاؤں کی سیاست میں حصہ لینے کی جرأت کرنے والی چمارٹولے کی ایک عورت ’’بھیلی‘‘ کی اجتماعی آبروریزی کی جاتی ہے۔جب یہ معاملہ پولیس تک پہنچتا ہے تو تھانے دار بھی تفتیش کے نام پر ’’بھیلی‘‘کی عزت سے کھلواڑ کرتا ہے۔ نیوزچینل کے نمائندوں کے سوال بھی بے عزتی کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ تھانیدارپوچھ گچھ کے دوران دسیوں بار بھیلی سے اس کے بلاتکار کی باریکیوں پر سوال کرتا ہے۔اسے برہنہ کیے جانے سے لے کرآبروریزی کی پوری تفصیل سنتا ہے۔ پولیس کی تفتیش کا ایک منظر ملاحظہ کریں:
تھانے دار نے اسے میز کے قریب آنے کا اشارہ کیا اور بولا،’’ہاں اب بتا کیا ہوا تھا تیرے ساتھ؟‘‘
اندھیرے سے مل کر مٹ میلے ہوتے اجالے میں اسے تھانے د ار کی آنکھیں لکڑبگھے کی آنکھوں کی طرح چمکتی معلوم ہوئیں۔ اب کی بار رات کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس کا حلق بری طرح خشک ہوگیا تھا۔
’’چوٹ کہاں کہاں لگی ہے؟‘‘
بھیلی نے قمیص کا ڈھیلا آستین کندھوں تک سرکا کر بازو سامنے کردیا، جس پر سرخ خراشیں تھیں۔
’’تو بتا رہی تھی نا تیری چھاتی پر بھی نوچا تھا دانت بھی مارے تھے…؟‘‘ کہتے ہوئے تھانیدار نے قمیص کے دامن میں ہاتھ ڈال دیا۔ وہ لرز کر پیچھے ہٹی۔
’’ڈر نہیں جانچ کیے بغیر مقدمہ کیسے درج ہوگا۔‘‘ تھانیدار نے بیٹھے بیٹھے دوسرے ہاتھ سے اس کا ایک بازو مضبوطی سے پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے قمیص کا دامن سینے تک اٹھا دیا۔ ‘‘(6)
ساجد نے اپنے افسانوں میں جس سفاکی اور بے باکی کے ساتھ سسٹم کو بے نقاب کیا ہے یہ ان کی جرأت اور صاف گوئی کی دلیل ہے۔ وہ عصری موضوعات کو عصری پس منظر میں بیان کرتے ہیں۔
پروفیسر ابن کنول کا افسانہ ’’گھرجلاکر‘‘ جھگیوں میں بسنے والے اور کوڑا کرکٹ چن کر زندگی کرنے والے نچلے طبقہ کے لوگوں کی حالت زار بیان کرتا ہے۔ افسانے کا آخری جملہ’’ماںہماری جھگیوں میں پھر کب آگ لگے گی؟‘‘ بڑا ہی درد ناک ہے۔ یہ آخری جملہ ان غریبوں اور مفلسوں کے احساس محرومی، مستقبل سے مایوسی اور حکومتوں کی عدم توجہی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ان کی غربت اور مفلسی انھیں ایساسوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔
سلام بن رزاق کا علامتی اور استعاراتی اسلوب میں لکھا گیا افسانہ ’’آخری کنگورا‘‘ ہے۔ یہ افسانہ ارباب اقتدار کے اس نظام پر ایک گہرا طنز ہے، جس میں محمد علی جیسے شریف،بے گناہ اور عزت دار شہری کو ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے شک کی بنیاد پر حراست میں لے لیا جاتا ہے اور ذہنی و جسمانی اذیتیں دے کر اس سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔
مظہرالزماں خان کی کہانی’’بستی‘‘میں ایک مخصوص طبقے میںپولیس اور انتظامیہ کے خوف کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کے ایک اور افسانے’’بے زمین لوگ‘‘میں ملک کے فرقہ پرستوں کی اس ذہنیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،جو مسلمانوں کو باہری سمجھتے ہیں اور ان کی زمین جائداد پر اپنا حق جتلاتے ہیں۔
’’قدموں کا نوحہ گر‘‘خالد جاوید کاعلامتی افسانہ ہے، جس میں جوتا مرکزی کردار ہے۔افسانے میں جوتا اپنی کہانی خود بیان کرتا ہے کہ وہ کس طرح انسان کے ہرطبقے کے پیروں کی حفاظت کرتا ہے، لیکن اسے صاف ستھری جگہوں سے دور رکھا جاتا ہے اور جب کسی کام کانہیں رہتا تو اسے پھینک دیا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے سماج کے دبے کچلے اور اچھوت سمجھے جانے والے طبقے جواپنی بے لوث محنت اور خون پسینہ ایک کر کے سماج کے اعلیٰ طبقات کی خدمات انجام دیتے ہیں، لیکن سماج میں ان کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہوتی۔
صدیق عالم کے افسانے’’ڈھاک بن‘‘میں ایک بوڑھی ماںکی زندگی اور اولاد کے ساتھ اس کے لگاؤ کو بیان کیا گیا ہے۔ افسانے میں ایسا جنگل ہے ،جہاں بستی کی تمام روحیں مرنے کے بعد پہنچ جاتی ہیں۔یہ افسانہ جھرنا ہیمبرم نام کی ایک عام عورت کی کہانی ہے۔وہ اپنے شوہرسے عشق کرتی ہے، جو افسانے کے آغاز سے پہلے ہی مرچکا ہے۔ افسانے کا آغاز خاصا جادوئی ہے، جب جھرنا سوچتی ہے کہ ایک دن منگرو کا بھوت آئے گا اور وہ ہرکام آسان کردے گا۔ وہ اس کے قیام کے لیے بندوبست کرتی ہے تاکہ اپنے آرام کے لیے اسے ڈھاک کے جنگل کی طرف لوٹنا نہ پڑے بلکہ یہیں آرام سے رہے۔ افسانے کے آغاز میں ہی ایک بیان چونکانے والا ہے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس حقیقت پسندانہ افسانے کی سرحدیں طلسمات کی دنیاسے کہیں نہ کہیں ملیں گی۔
صدیق عالم کے افسانہ’’جانور‘‘میں ایک شادی شدہ عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے ،جو افسانے کی راوی بھی ہے۔ اس جوڑے کے گھر ایک بچہ ہے جسےPetپالنے کا شوق ہے، لیکن وہ بچہ نارمل نہیں ہے۔میاں بیوی اس ابنارمل بچے سے اتنا تنگ آچکے تھے کہ انہوں نے اپنے بچے پر اس جانور کو ترجیح دی، جو ان کے اشاروں پر چلنے لگا تھا۔ اس پورے افسانے کی ساخت حقیقت پسندانہ ہے۔
خالد جاوید کے افسانہ ’’برے موسم میں‘‘ سماج کے متوسط طبقے کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس افسانے میںمرد، عورت اور ایک بچی پر مشتمل کنبے کے رہن سہن، اس کی بدحالی کی عکاسی کی گئی ہے۔ عورت پڑھی لکھی، مرد سے ذہین اور برسرروزگار ہے، وہ گھر چلاتی ہے ، جبکہ مردتنگ دست، بے روزگار اور کام چور ہے۔ اس کہانی کے دو پہلو واضح طور پرنمایاں ہوتے ہیں۔ پہلاپہلو یہ ہے کہ سماج میں عورت کو مرد سے کمتر نہیں سمجھاجانا چاہیے۔وہ بھی وہ سب کچھ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے، جو مرد کرسکتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس گھر کی عورت ملازمت پیشہ ہوتی ہے اور مرد بے روزگار ہوتا ہے اس گھر میں مرد کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور اس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔
گھریلو زندگی کے موضوع پر شوکت حیات کا افسانہ ’’بلی کا بچہ‘‘ ہے۔ ممی کو دادی اماں سے چڑ تھی، اس لیے بچوں کی ممی کو ہر وہ کام پسند تھا، جس سے دادی اماں کو تکلیف پہنچے۔ پڑوس کے گھر میں ایک بلی نے بچوں کو جنم دیا۔ تو انھیں پالنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بچوں نے پڑوس کی آنٹی سے اس خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے کچھ دنوں بعد لے جانے کی اجازت دے دی۔ بہرحال کچھ دنوں بعد وہ بچے بلی کے بچے کو گھر لائے۔ پاپا نے مخالفت کی اور سب سے زیادہ اس کی مخالفت دادی اماں نے کی۔ انھیں بلی کا بچہ کسی طرح برداشت نہ تھا۔ وہ اسے قبول کرنے کے لیے کسی طور پر آمادہ نہیں تھیں۔ دادی اماں اور پاپا کے اعتراض پر ممی نے اپنا ابتدائی موقف تبدیل کردیا۔ پہلے تو وہ بھی راضی نہ تھیں، لیکن دادی اماں اور پاپا کے مخالفت کرنے پر وہ بچوں کی حمایت کرنے لگیں۔ بچے ممی کو اپنی طرف داری کرتے دیکھ کر پھولے نہ سمائے اور ان کے حوصلے بلند ہوگئے۔ دادی اور پاپا کے اعتراض سے بچوں کو یہ فائدہ ہواکہ ان کی ممی نے ان کی راہ ہموار کردی۔ بچوں کے پاپا نے بات بڑھنے کے خوف سے خاموشی اختیار کرلی۔
’’ایک گمشدہ عورت‘‘ ساجد رشید کا اہم افسانہ ہے۔ اس میں انہوں نے عورت کی بے وفائی کو جنسی ناآسودگی سے جوڑا ہے۔اس افسانے کا سب سے اہم اور المناک پہلو یہ ہے کہ افسانے کے مرکزی کردار جگدیش کی بیوی اپنی مرضی سے ایک شخص کے ساتھ ہم بسترہوتی ہے اور اس کے بعد اس کی موت ہوجاتی ہے۔ جگدیش پولیس سے ملزم کے بیان میں تبدیلی کی درخواست کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ملز م یہ بیان درج کرائے کہ سریکھا کی مرضی اس میں شامل نہیں تھی بلکہ اس کا ریپ ہواتھا۔اس کے لیے جگدیش ملزم کو بھاری رقم دینے کی پیش کش بھی کرتا ہے۔ جگدیش کو ریپ قبول ہے ہم بستری گوارا نہیں، کیونکہ ریپ سے مرد کی انا مجروح نہیں ہوتی۔ اس وقت بیوی محض ایک عورت ہوتی ہے، لیکن بیوی جب غیر مرد سے پیار کرتی ہے تو وہ عورت نہیں ہوتی وہ بیوی رہتی ہے ،جو انا کو مجروح کرتی ہے۔ جگدیش نے سریکھا کی استھیاں گنگا میں بہانے کے لیے محفوظ کرلی تھں، لیکن جب اس کی بے وفائی کی تصدیق ہوجاتی ہے تو وہ استھیاں کمرے میں چھوڑ کر اپنے شہر روانہ ہوجاتا ہے۔
بیگ احساس کا ’دخمہ‘ باعتبار موضوع نہایت اچھوتا افسانہ ہے۔ اس کے کردارپارسی لوگ ہیں،جن کا ایک مذہبی عقیدہ دخمہ ہے۔ پارسیوں کے مذہبی عقیدے کے مطابق مرنے والے کی لاش کو ایک اونچے مقام پر رکھ دیا جاتا ہے، وہاں گدھ آتے ہیں اور لاش کو نوچ نوچ کر کھالیتے ہیں۔ ’دخمہ‘ تاریخی شہروں کی مٹتی تہذیب کا المیہ ہے، جو اپنے تہذیبی، معاشرتی، ثقافتی تمدن کے باعث اپنی خاص پہچان رکھتے تھے۔جہاں کی عمارتیں، پکوان، رسم و رواج، سخاوتیں، ادبی و ثقافتی محفلیں ،دریا دلی اور رہن سہن مثالی ہوتا تھا، لیکن آج ترقی کے نام پر ان شہروں کی تہذیبی قدریں زوال کا شکار ہیں، روایتیں دم توڑ رہی ہیں۔ مذہب کی آڑ میں سیاست کا کھیل جاری ہے۔ نفرت نے امن اور بھائی چارہ کے ماحول کو پراگندہ کردیا ہے، جس کی وجہ سے دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
’’ہم نے جس وقت’’مئے کدہ‘‘ جانا شروع کیا۔ شہر کئی انقلابات سے گزر چکا تھا۔ کمیونسٹوں کی شاہی کے خلاف جدوجہد، تلنگانہ تحریک کامیاب تو ہوئی لیکن شاہی کا خاتمہ کانگریس کی نئی حکومت نے کیا تھا۔ پولیس ایکشن نے مسلمانوں کو حواس باختہ کردیا تھا۔ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم سے پوری قوم سنبھلی بھی نہ تھی کہ زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی نئی حد بندیاں کی گئیں۔ ریاست کے تین ٹکڑے کردیے گئے۔ برسوں گزر جانے کے بعد بھی دوسری ریاستوں سے جڑے یہ ٹکڑے ان کا حصہ نہ بن سکے۔ اپنی مستحکم تہذیب کی بنیاد پر ریاست کے یہ حصے ٹاٹ میں مخمل کے پیوند لگتے تھے۔ مذہب کے نام پر تقسیم کو عوام نے قبول نہیں کیا تو زبان کے نام پر ریاستوں کی نئی حد بندیوں کو بھی ایک ہی زبان بولنے والوں نے قبول نہیں کیا۔ دومختلف کلچر۔!! جس شہر کی تاریخ نہیں ہوتی اس کی تہذیب بھی نہیں ہوتی۔ نئے آنے والوں کی کوئی تاریخ تھی نہ تہذیب ایک مستحکم حکومت کا دارالخلافہ سیاسی جبر کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں آگیا۔ وہ پاگلوں کی طرح خالی زمینوں پر آباد ہوگئے۔ ایک طرف بڑی بڑی حویلیاں حصے بخرے کر کے فروخت کردی گئیں۔ زمین بیچنا یہاں کی تہذیب کے خلاف تھا۔ شرما شرمی میں قیمتی زمینیں کوڑیوں کے مول فروخت کردی گئیں۔ آنے والے زمینیں خرید خرید کر کروڑ پتی بن گئے۔ نئے علاقوں کو خوب ترقی دی۔
کسی کوٹھی میں صدر ٹپہ خانہ آگیا، کسی حویلی میں انجینئرنگ کا آفس، کسی حویلی میں اے۔ جی آفس تو کسی حویلی میں بڑا ہوٹل کھل گیا۔ باغات کی جگہ بازار نے لے لی۔ لیڈی حیدری کلب پر سرکاری قبضہ ہوگیا۔ کنگ کوٹھی کے ایک حصے میں سرکاری دوا خانہ آگیا۔ جیل کی عمارت منہدم کر کے دوا خانہ بنادیا گیا۔ رومن طرز کی بنی ہوئی تھیٹر میں اب بہت بڑا مال کھل گیا تھا۔ حویلیوں، باغات، جھیلوں اور پختہ سڑکوں کے شہر کی جگہ دوسرے عام شہروں جیسا شہر ابھر رہا تھا جس کی کوئی شناخت نہ تھی۔‘‘(7)
درج بالا اقتباس میں افسانہ نگار نے تاریخی شہر حیدرآباد کی مٹتی ہوئی تہذیب، وہاں آنے والے انقلابات،شاہی خاندان کے خلاف کمیونسٹوں کی جدوجہد، تلنگانہ تحریک، شاہی کا خاتمہ، پھر مسلمانوں کے خلاف پولیس کی کارروائی، زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی نئی حدبندیوں، مذہب کے نام پر عوام کو بانٹنے کی کوشش، شہر کی بڑی بڑی حویلیوں اور کوٹھیوں میں تبدیلی، خالی زمینوں پر نئی آبادی کا ذکر بڑی ہی خوبصورتی سے کیا ہے۔ مختصر یہ کہ بیگ احساس نے ’دخمہ‘ میں شہر حیدرآباد کے تہذیبی و ثقافتی زوال کی عکاسی بڑی ہی فن کاری کے ساتھ کی ہے۔
طارق چھتاری کے افسانہ ’’باغ کا دروازہ‘‘میں ایک ہزار سال قبل سے شروع ہونے والی کہانی میں علامت اور استعارے کا سہارا لے کر ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب و ثقافت کے پروان چڑھنے اور اس کے اجڑنے کی داستان بیان کی گئی ہے کہ کس طرح سیکڑوں سال پہلے دنیا کے مختلف خطوںاور مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ یہاں آکر آباد ہوئے۔ وطن عزیز مختلف مذاہب اور تہذیب و ثقافت کا گہوارا بنا۔ لوگوں کے بھائی چارہ اور میل جول نے مشترکہ تہذیب وثقافت کو پروان چڑھایا۔ بالکل ایک باغ کی طرح جس میں مختلف پھولوں کے پودوں کو لگا کر اسے سجایا اور سنوارا گیا ہو، لیکن کچھ لوگوں کو یہ مشترکہ تہذیب و ثقافت، میل جول اور بھائی چارہ گوارا نہیں ہے اور وہ اسے مٹا کر ملک کو ایک خاص رنگ میں رنگنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے میں یہ باغ اجڑتا ہوا اور تباہی کے دہانے پر پہنچتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ افسانہ نگار نے بڑی ہی ہنرمندی سے نفرت پھیلانے والوں، تنگ نظروںاور سطحی ذہن رکھنے والوں پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کہانی مختلف خطوں اور مذہب کی مشترکہ تہذیب و ثقافت اور بھائی چارے کو بچانے کے لیے کشادہ دلی سے کام لینے کا اشاریہ ہے۔
ذکیہ مشہدی کے افسانے ’’اجن ماموں کا بیٹھکہ‘‘ میں نئی اور پرانی تہذیبوں کے تصادم کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس افسانے کو انہوں نے پرانے زمانے کے پرسکون حالات اور نسل نو کی بھاگ دوڑ اور اتھل پتھل کو بڑی ہی فنکارانہ بصیرت سے پیش کیا ہے۔ ’’انگوٹھی‘‘ میں تہذیبی زوال کو موضوع بنایاگیا ہے۔ذکیہ مشہدی نے ایک انگوٹھی کے سہارے تقریباً ڈیڑھ سو سالہ تہذیبی سفر کو کھنگالنے کی کوشش کی ہے۔
حسین الحق کے افسانے ’’جلیبی کا رس‘‘ میں ہندوستانی سیاست کے معاصر منظر نامہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ حسین الحق کی انسانی زندگی کے مختلف رنگوں، معاشرے کی اتھل پتھل پر گہری نظر ہے ، جسے وہ محسوس کرتے ہیں اور پھر اسے افسانوی رنگ دے دیتے ہیں۔ اس کہانی میں علاقائی اثرات، مقامی محاورے اور مکالموں نے فطرت انسانی کی عکاسی کی ہے۔’’جلیبی کا رس‘‘ میں سیاست کے میدان میں کامیابی اور عہدے حاصل کرنے کی آرزو میں بے حسی اور سیاست دانوں کے مکروہ چہرے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ’’روشن بہاری‘‘ ایک سیاسی کارکن ہے، جو مکھیہ منتری کے قریبی ’’ششی بھوشن‘‘ کو اپنی بیوی کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل کردینا چاہتا تھا، لیکن جب وہ شخص اسے ایک بڑے عہدے کے لیے آفر لیٹر پیش کرتا ہے تو وہ بے حس اس کے پیر چھونے لگتا ہے۔
محمد مظہرالزماں خان کاافسانہ’’صدی کا آخری حکمراں‘‘ ایک ایسے ظالم حکمراں کی کہانی ہے جو اپنے شہریوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے اپنی اپنی آنول لاکر جمع کریں اور جو اپنی آنول جمع نہیں کرائے گا اسے شہر بدر کردیا جائے گا یا پھر اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ حاکم شہر کے حکم کے بعد جن شہریوں کے پاس ان کی آنول موجود نہیں تھیں وہ پریشان تھے کہ کس طرح آنول کو حاصل کیا جائے، جو عورتیں حاملہ تھیں وہ اپنے بچوں کی ولادت کے بعد آنول کی حفاظت کے لیے سوچ رہی تھیں، جن کے یہاں بچوں کی ولادت ہوئی تھی وہ ان بچوں کی آنول کو کسی قیمتی شے کی طرح اس کی حفاظت کر رہی تھیں۔ ’’صدی کا آخری حکمراں‘‘حالیہ برسوں میں رونما ہونے والے واقعات بالخصوص ملک میں شہریت(ترمیمی) قانون(سی اے اے)اور دی نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس(این آر سی)کے نام پر ملک کے مسلمانوں میں ڈر، خوف اور دہشت کے ماحول کی غمازی کرتا ہے۔
عبدالصمد کا افسانہ’’میوزیکل چیئر‘‘سیاست دانوں کی انانیت پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں ان سیاست دانوں کو موضوع بنایا گیا ہے ،جو اقتدار کی کرسی حاصل کرتے ہی وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں ،جو نہیں کرنا چاہیے۔ وہ یہ قطعی نہیں سوچتے کہ جو کرسی آج میرے حصے میں ہے کل کسی اور کی ہوگی۔
محمد مظہر الزماں خان کے افسانہ’’کہانی ایک بوند پانی کی‘‘میںانسان کی خودپرستی اور انانیت کی عکاسی کی گئی ہے۔ آج انسان نئی نئی ایجادات و اختراعات کے زعم میں اپنے وجود کوبھول چکا ہے۔ آج کے انسان کو گدھ سے مماثلت دے کر سماج میں پھیلے ہوئے جھوٹ اور مکر و فریب کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج کے انسان نے گدھوں کی جگہ لے لی ہے۔ جیسے پہلے گدھ مردارجانوروں کو نوچ نوچ کر کھا جایا کرتے تھے،اسی طرح آج کا انسان مختلف شکلوں اور الگ الگ صورتوں میں مسلسل زمین کو نوچ رہا ہے۔ یہاں تک کہ آج انسان ترقی کے نام پر خود کو اتنا آگے سمجھنے لگا ہے کہ وہ قدرت سے بغاوت پر آمادہ نظر آتا ہے۔ یہ افسانہ ساری دنیا کے خالق و مالک کے وجود کی نفی کرنے والوں پر کاری ضرب لگاتا ہے۔ ایک سائنسداں سائنسی ایجادات کرکے سوچتا ہے کہ بہت سی چیزوں میں اضافہ کرلیا، لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتا کہ جو کچھ اس نے اضافہ کیا ہے وہ انہی چیزوں میں سے ہے، جو پہلے سے اپنا وجود رکھتی تھیں۔
طارق چھتاری نے ’’کھوکھلا پہیا‘‘ میں یہ دکھایا ہے کہ جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی جارہی ہے خارجی اثرات اس پر مسلط ہوتے جارہے ہیں اورقدروںکا زوال ہوتا جارہا ہے۔ اس کہانی میں ترقی کے نام پرظاہری چمک دمک اور انسانی زندگی اور اس کے اخلاقی زوال کی کھوکھلی تصویر پیش کی گئی ہے۔ ایک طرف ظاہری طور پر انسان تو ترقی کی نئی نئی منازل طے کرتا جارہا ہے، لیکن اس کا باطن اتنا ہی کھوکھلا ہوتا جارہا ہے۔ یہ کہانی ترقی یافتہ اور عہد جدید پر گہرا طنزہے۔ یہ انسانی زندگی کے کھوکھلے پن، مکر و فریب اور سازشوں کو اجاگر کرتی ہے۔ کہانی میں یہ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ اقدار میں گراوٹ آتی جارہی ہے۔ انسان بھلے ہی ترقی کرتا جارہا ہے، لیکن وہ اندر سے کھوکھلا ہے۔ زندگی کی یہ ظاہری چمک دمک اندر سے تاریک و تنگ ہوتی جارہی ہے۔ افسانہ نگار نے بڑی ہی فنی مہارت سے اس ترقی یافتہ زندگی کے کھوکھلے پن،اس کے مکر و فریب اور اس کی بے حسی کو ایک کفن چور کے احساسات سے اجاگر کیا ہے۔ یہ افسانہ اپنی جزئیات نگاری، خوبصورت کردار نگاری، منظر کشی اور بھر پور ڈرامائیت سے ایسا تاثر چھوڑتا ہے کہ بے حس کفن چور سے قاری کو ہمدردی ہونے لگتی ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’’نقش‘‘ معاشرے کی گھٹن اور انسانی زندگی کی شکست و ریخت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ افسانہ چار کرداروں بہو، بیٹا، ماں اور ڈاکٹر کو لے کر بُنا گیا ہے۔ بہو اور بیٹے شادی کے پانچ برس بعد بھی اولاد سے محروم ہیں۔ اولاد کی خوشی سے محروم ہونے کی وجہ سے ان تینوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔تمام علاج و معالجے کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلتاتو وہ اپنی میڈیکل رپورٹ لے کر ماہر نفسیات کے پاس جاتے ہیں۔ ماہر نفسیات تینوں سے باری باری گفتگو کرکے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ماں جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اس کے بے جا احتیاط کی وجہ سے بیٹا نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوگیا ہے اور وہ ہر معاملے میں محتاط رہتاہے، اسی وجہ سے اولاد سے محروم ہے۔
بیگ احساس کی کہانی’’سانسوں کے درمیان‘‘اس بے حس اور صارفی سماج کا آئینہ ہے،جس میں رشتے اور ناطے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ رنگین اور چکا چوندھ دنیا سادگی، کفایت شعاری اور اخلاص کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ جیسے ہی کہانی کے مرکزی کردارکے ہاتھ پیسے لگتے ہیں تو اس کی توجہ کا مرکز و محور کومے کی حالت میں باپ کے بجائے اپنی شخصیت بن جاتی ہے اور اس کی دبی ہوئی خواہشات ابھرنے لگتی ہیں۔ یہ کہانی قاری کو موجودہ سماج کے اخلاقی زوال اور سطحی ذہنیت کا ادراک کراتی ہے۔
بیگ احساس کا افسانہ’’کھائی‘‘ میں ایک جاگیر دار شوکت میاں، ان کے بیٹے اور پوتے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ سب کچھ لٹ چکنے کے باوجود شوکت میاں میں وہی جاگیردارانہ شان و شوکت باقی رہتی ہے۔ افسانے کا اختتام بڑا المناک ہے۔ کھودی گئی قبر کے بارے میں باپ کے لیے شہزادہ کا جملہ ’’آپ کے کام آئے گی۔‘‘ یہ محض ایک جملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ جملہ اخلاقی اقدار کے زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ جملہ انسانی جذبوں پر کاری ضرب لگا تا ہے۔ فنی اعتبار سے ’’کھائی‘‘ خوبصورت افسانہ ہے۔ اس میں تین نسلوں اور پورے ایک عہد کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔
طارق چھتاری کا افسانہ ’آن بان‘ انسانی اقدار کے زوال، جھوٹے کر و فر اور اس کے سائے میں پروان چڑھنے والے رسم و رواج کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ افسانہ معاشرے میں برے رسم و رواج اور جھوٹی شان شوکت پر گہرا طنز ہے۔ کہانی کے مرکزی کردارہری سنگھ کی زندگی ٹھاکروں کی جھوٹی آن بان کی نذر ہوجاتی ہے۔طارق چھتاری نے اس کہانی میں سماجی حقیقت نگاری کی ہے۔
عبدالصمد کے افسانہ ’’گھوڑے واپس نہیں آئے‘‘ میں اکیسویں صدی میں زندگی کرنے والے انسانوں کی کش مکش کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ آج کے انسان اور جانور میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان سے دور ہوتا جارہا ہے اور اس میں جانوروں سے ہمدردی کا جذبہ بیدار ہورہا ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’’پاسا‘‘ تاریخی دروغ گوئی کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح اپنے نظریے اور ایجنڈے کو سچ ثابت کرنے کے لیے تاریخی حقائق کو جھٹلانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ یہ افسانہ موجودہ حالات کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس کہانی میں اپنے نظریے کے مطابق ملک کے اکثریتی طبقے کی ذہن سازی کرنے،اقلیتوں کے خلاف زہر گھولنے، مشترکہ تہذیب و ثقافت کو ملیا میٹ کر کے اپنی تہذیب و ثقافت کو سب پر تھوپنے ، وطن عزیز کی آزادی میں جنھوں نے اہم کردار ادا کیے ان کی اہمیت کو گھٹانے اور جن کا کوئی کردار نہیں ان کو ہیروبنانے کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔موضوع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ افسانہ بہت اہم ہے۔ ایک مخصوص نظریے سے وابستہ شخص ادب و تاریخ کی باریکیوں پرگہری نظر رکھنے والے شخص سے اپنے ایجنڈے کے مطابق کتاب لکھوانا چاہتا ہے۔کہانی کی ابتدامکالمے سے ہوتی ہے:
’’ہم نے تمہیں چنا ہی اس کارن ہے کہ تم ساہتیہ اور اتہاس کی باریکیوں کا گیان رکھتے ہو۔ تمہیں کیول یہ کرنا ہے کہ ہماری کلپنا انوسار ایک کتاب لکھو۔‘‘
’’آپ کی کلپنا کے انوسار؟ آپ …کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ہاں اس کتاب کا کانسپٹ ہمارا ہوگا۔ اتہاس لکھنے والوں نے کچھ ویکتیوں کو ہسٹری کے کوڑے دان میں ڈال دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے وہی ہمارے پرش تھے۔‘‘
’’وہ مہان تھے یا نہیں؟‘‘
’’ہمیں اس کا گیان نہیں ہے۔ پر ہمارے کچھ پرکھے کہہ گئے وہ بھی مہان تھے اور اب تو سرکار ہماری ہے۔ دیش کی بڑی آبادی میں ہم ہیں۔ آج تک جو بھی گزری ہے اس پر تمہیں زیادہ شبد خرچ نہیں کرنے ہیں۔‘‘
’’پر اس سے… ہوگا کیا؟‘‘
’’ہوگا۔ اوشیہ ہوگا۔ ہمارے دیش پہ شدھ، سدھانتک اور ادھیاتمک سنسکرتی لاگو ہوگی۔‘‘(8)
مخصوص نظریے کاحامل شخص اس مؤرخ سے اپنے نظریے کے مطابق کتاب لکھنے کی پیش کش کرتا ہے۔ اس کے لیے اسے لالچ دیتا ہے۔ کہتاہے کہ صرف تمہیں لکھنا ہے ، سرکار اپنے پریس سے اس کتاب کو شائع کروائے گی اور یہ کتاب محض چند لوگ نہیں بلکہ لاکھوں لوگ پڑھیںگے۔ مصنف کو یہ بھی اطمینان دلاتا ہے کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج سرکار ہماری ہے۔ پولیس ہماری ہے۔ فوج ہمارے کنٹرول میں ہے اور یہ سب حاصل کرنے کے لیے ہمیں پچاس برس انتظار کرنا پڑا۔ وہ مصنف سے یہ بھی کہتا ہے کہ آج جو لوگ ہمارے نظریات کی مذمت کر رہے ہیں، ان کے پرکھوں نے بھی یہ کیا تھا، لیکن اس وقت ان نظریات کو کھل کر لوگوں کے سامنے رکھنے کا موقع نہیں تھا۔ اس وقت ہم نے دانش مندی کا مظاہرہ کرکے ان کے ساتھ مل کر اتحاد و یکجہتی کے گیت گائے، کیونکہ ہمیں اقتدار تک پہنچنے کے لیے اس وقت اسی کی ضرورت تھی۔ وہ مصنف سے کہتا ہے کہ وہ لوگ سیکولرازم کی مالا جپتے رہے اور ہم نے دیش کی پاٹھ شالاؤں میں اسے سبوتاژ کرنے کا کام شروع کیا۔ اپنے نظریات کو فروغ دینے کے لیے چھوٹی چھوٹی کتابیں شائع کیں، ان کتابوں کو شکشا سنسدوں، کیندریوں میں پڑھایا گیا۔ فوج سے جو لوگ سبکدوش ہوئے ان کی خدمات حاصل کر کے اپنے نوجوانوں کو تیارکرنے پر لگا دیا اور یہ سب صرف اس لیے کیا گیاکہ ’’اس دیش میں شدھ سدھانتک اور ادھیاتمک سنسکرتی ہو۔‘‘
افسانے سے یہ بھی اجاگر ہوتا ہے کہ کس طرح سے اپنے نظریات کو فروغ دینے کے لیے کھرے کو کھوٹا اور کھوٹے کو کھرا ثابت کیا جاتا ہے اور سماج کے ایسے لوگوں کو جو اپنے پیشے میں مہارت رکھتے ہیں، ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔
مظہرالزماں خان کی کہانی’’قم‘‘انسان کی بے مقصد زندگی، سرد مہری اور بے حسی کو اجاگر کرتی ہے۔آج لوگ اپنے ہونے نہ ہونے کی پہچان نہیں رکھتے ۔ زندہ لاش ہیں۔ اگر انہیں اپنی موجودگی کا احساس ہوتا تو ضرور ثبوت پیش کرتے۔ کیونکہ صرف چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا ہی زندگی کامقصد نہیںہوناچاہیے۔ محمد مظہرالزماں خان کا افسانہ ’’آخری پوسٹ مین‘‘ موجودہ دور کے جھوٹ، مکروفریب، بے غیرتی ، بے حیائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آج کے انسان سے انسانیت مفقود ہوچکی ہے۔ چہار سو بدعنوانی، غلط بیانی، ملاوٹ عام بات ہوچکی ہے۔ کہانی کا واحد متکلم پوسٹ مین جو کسی ’انسان‘ کے نام خط پہنچانا چاہتا ہے، اس کے لیے وہ بستی کے گھر گھر جاتا ہے، لیکن اس خط کو وصول کرنے والا نہیں ملتا، بالآخر بستی کے آخری گھر پہنچتا ہے:
’’بہرحال اس گھر پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے میں نے پوسٹ مین کی آواز نکالی لیکن دو تین آوازیں دینے کے بعد گھر کا دروازہ کھلا اور پھر میلے کچیلے لباس میں ایک ادھیڑ عمر کا شخص اندر سے برآمد ہوا۔ اور میں نے اس خط کو اس شخص کی طرف بڑھا دیا، لیکن خط پر لکھے نام کو دیکھ کر اس نے کہا۔یہ خط کسی’’انسان‘‘ کے نام پر لکھا ہوا ہے اور اس پورے گھر میں بلکہ اس پوری بستی میں ایک بھی انسان موجود نہیں ہے کہ چاروں طرف ہم جیسے ہی موجود ہیں اور پھر وہ دروازہ بند کر کے اندر غائب ہوگیا تھا۔‘‘(9)
درج بالا اقتباس کا آخری حصہ’’یہ خط کسی’’انسان‘‘ کے نام پر لکھا ہوا ہے اور اس پورے گھر میں بلکہ اس پوری بستی میں ایک بھی انسان موجود نہیں ہے کہ چاروں طرف ہم جیسے ہی موجود ہیں ۔‘‘ مٹتی ہوئی انسانی قدروں، معاشرے کی زبوں حالی اور بدحالی، اقدار کی پامالی،اخلاقی زوال، بکھرتے ہوئے سماجی تانے بانے اور انسانوں کو انسانوں میں بانٹنے کی کوشش پر کاری ضرب لگا تا ہے۔
کشمیر کے سیاسی، سماجی ، معاشی اور تاریخی حالات پر لکھا گیا ’یمبرزل‘ ترنم ریاض کاخوبصورت افسانہ ہے۔ یہ افسانہ تین بچوں ’نکی‘،’یاور‘ اور ’یوسف‘ کے ارد گرد گھومتا ہے، لیکن اس کے پس منظر میں کشمیر کی تاریخ اور وہاں کے حالات نمایاں ہوتے ہیں۔ ترنم ریاض کا تعلق کشمیر سے ہے، اس لیے ان کی وہاں کے حالات پر گہری نظر ہے۔ مذکورہ افسانے سے کشمیر میںآئے دن پیش آنے والے پرتشدد واقعات، ملی ٹینسی، اس کے نتیجے میں بے گناہوں کو اس کی سزا کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ افسانے میں حسین وادی کے آبشاروں، لالہ زاروں، ندی نالوں، پہاڑوں، وہاں کے کلچر اور وہاں کی نادر چیزوں کو دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ترنم ریاض کے ایک اور افسانے ’مجسمہ‘ میں کشمیری تہذیب و ثقافت اور تاریخی ورثے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کہانی میں میوزیم کے توسط سے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر تاریخی اہمیت کے حامل ورثے کی مناسب دیکھ بھال نہ کی جائے تو وہ رفتہ رفتہ تباہ ہونے لگتے ہیں۔
ساجد رشید کاعریضے کی ہیئت میں لکھا ہوا ایک اہم افسانہ ’موت کے لیے ایک اپیل‘ ہے، جس میں ایک ریٹائرڈ ٹیچر کے ذریعہ ملکی عدلیہ سے مرنے کی اجازت دینے کی اپیل کی گئی ہے، جس میں جابجا فنکاری کے نمونے نظر آجاتے ہیں:
بڑا عجیب قانون ہے۔ ایک شخص اگر زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی نہیں جٹا پاتا ہے اور اس کی خود داری ذلت کے رزق پر موت کو ترجیح دیتی ہے تواسے قانون اس لیے سزا کا مستحق ٹھہراتا ہے کہ اس نے آتم ہتیا کرنے کا جرم کیا ہے۔ معاف کیجئے جج صاحب قانونی موشگافیوں کو میں نہیں جانتا، لیکن ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ جو قانون دو وقت کی روٹی کی گارنٹی نہیں دیتا اسے کسی آدمی کو ذلت کے ساتھ جینے کے لیے مجبور کرنے کا کیا حق ہے۔ (10)
مذکورہ افسانے میں راوی کا بیانیہ اگرچہ انشائیے، مکالمے، ماحول نگاری و غیرہ صنفی تقاضوں سے عاری ہے اورمحض اطلاع فراہم کرنے والا متن ہے،لیکن اس میں جگہ جگہ سسٹم کے خلاف طنز ہے۔
اکیسویں صدی میں لکھے جانے والے پانی کے مسئلے پر’’تعاقب‘‘(رضوان الحق)، ’’آب حیات‘‘( فرقان سنبھلی) اور’’پانی‘‘( اختر آزاد)، ماحولیات کودر پیش خطرات پر ’’کارواں‘‘(مہتاب عالم پرویز) اورپانی اور درختوں کے تحفظ پر ’’بے جڑکا پودا‘‘ ( مہ جبیں نجم) وغیرہ نئے موضوعات پر عمدہ افسانے ہیں۔
ہم عصر افسانہ نگاروں کی کہانیوں میں انسانی زندگی کے حقائق، سیاسی و سماجی زندگی کے تضادات، اقدار کا زوال، خوف و دہشت، معاشی نابرابری، مہنگائی، بے حسی اور انسانی کشمکش کی عکاسی پائی جاتی ہے۔ رواں صدی میں لکھے جارہے افسانوں کے جائزہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دور کہانیوں کے اعتبار سے گزشتہ ادوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ زرخیز ہے۔
حواشی
1۔صغیرافراہیم، اردوفکشن: تنقید اور تجزیہ، ص:231، 2003، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ
2۔ابن کنول، ’خانہ بدوش‘، مشمولہ ’پچاس افسانے‘، ص47، 2014، کتابی دنیا، دہلی
3۔ذکیہ مشہدی، ’افعئی‘، مشمولہ’صدائے باز گشت‘، ص:24-25،2003،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
4۔خالد جاوید، ’روح میں دانت کا درد‘، مشمولہ ’آخری دعوت‘، ص:90-91، 2007، پینگوئن بکس، نئی دہلی
5۔اقبال مجید، ’آگ کے پاس بیٹھی عورت‘، مشمولہ ’آگ کے پاس بیٹھی عورت‘، ص:174-175، 2010، فائن آفسیٹ پریس اردو بازار، دہلی
6۔ساجدرشید،’مکڑیاں‘، ایک چھوٹا سا جہنم، ص:132، 2004، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی
7۔بیگ احساس، ’دخمہ‘، مشمولہ’دخمہ‘ ، ص:126-127، 2015، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی
8۔علی امام نقوی، ’پاسا‘، مشمولہ’کہی ان کہی‘، ص:29-30، 2012، تخلیق کار پبلشرز، لکشمی نگر، دہلی
9۔محمد مظہر الزماں خان، ’آخری پوسٹ مین‘،مشمولہ ’ایک شہر جوکبھی آباد تھا‘،ص:20،2018، لؤ لؤ آفسیٹ پرنٹرس مادنا پیٹ، سعیدآباد، حیدرآباد
10۔ساجد رشید، ’موت کے لیے ایک اپیل‘، ایک مردہ سر کی حکایت،ص:8، 2011،کتاب دار، ممبئی
طفیل احمد
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی
Tufail Ahmad
House No.122, Street No.01,Zakir Nagar, Jamia Nagar,New Delhi-110025
Email: tufailalimi@gmail.com, Mob: 9540064531
Leave a Reply
Be the First to Comment!