سیرت النبیؐ اور علامہ شبلی (مکتوبات کے حوالے سے)

شبلی کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ عالم دین، ماہر تعلیم، تنقید نگار، محقق اور سوانح نگار کی حیثیت سے علمی و ادبی دنیا میں اپنی پہچان رکھتے ہیں۔علامہ شبلی کے علمی کارناموں میں سب سے اہم سیرت البنی ہے۔   اسلام کے بعض ناموروں کے حالات اور سوانح لکھنے کے بعد شبلی نے آخر میں سیرت رسالت مآبؐ لکھنے کا ارادہ کیا۔ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’سیرت النبیؐ بقدر امکان ہوتی جاتی ہے، یہ عمر بھر کا حاصل اور وسیلۂ نجات ہے۔

عجم کی مدح کی، عباسیوں کی داستاں لکھی

مجھے چندے مقیم آستانِ غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہاہوں سیرتِ پیغمبر خاتمؐ

خدا کا شکر ہے، یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

(مکاتیب شبلی حصہ اول ص۱۰۹)

اس میں شک نہیں کہ سیرۃ النبیؐ کی تصنیف کا کام شبلی نے سب سے آخر میں شروع کیا، لیکن ان کے دل میں یہ خیال پہلے ہی پیدا ہوا تھا۔ بلکہ انھوں نے کچھ لکھنا بھی شروع کر دیا تھا، لیکن وہ کام نا تمام رہا اور ان کی حسب خواہ نہ ہوسکا۔ شبلی چاہتے تھے کہ جو بھی کام ہو وہ اونچے معیار پر ہو، عمدہ سے عمدہ ہو اور بلند پایہ ہو، غالباً

علامہ شبلی نعمانی

اس وجہ سے وہ سیرۃ النبیؐ کے کام کا آغاز جلد نہ کرسکے۔ یہ بات یقینی ہے کہ وہ اس اہم تصنیف کو نہایت بلند معیار پر پیش کرنا چاہتے تھے۔

آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعقیدت کس مسلمان کے دل میں نہیں ۔ شبلی ۱۹؍ برس کی عمر میں حج وزیارت سے مشرف ہوئے، مدینہ منورہ کی حاضری نے دل میں عشق محمدیؐ کی آگ کو اور تیز کردیا تھا اس لیے ان کی یہ تمنا تھی کہ اس ارض مقدس کی طرف چلے جائیں جس کا اظہار بعض مکتوبات میں کیا ہے:

’’بہت کچھ ارادہ ہجرت کا ہے۔ اگر عرب پہنچ گیا تو تمام جھگڑوں سے نجات ہوجائے گی‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول ص۱۰۴)

یہ علامہ شبلی کی آرزو تھی کہ اُس دار الامن میں پہنچ جائیں اور حبیب خدا کی قوموں کے قریب اپنی زندگی کے باقی دن گزار دیں لیکن اللہ تعالی کا منشا کچھ اور ہی تھا وہ اس مخالف ماحول میں شبلی سے بہت سارے کام لینا چاہتا تھا اور بڑی بات یہ کہ اپنے حبیب کی سیرت پاک لکھوانا مقصود تھی۔ شبلی کی کیا مجال کہ عدول حکمی کرتے۔ ان کی غرض بھی یہی تھی کہ حضورؐ کے دربار میں کسی طرح حاضر رہیں۔ ان کا جسم خاکی ہندوستان کی سرزمین پر تھا لیکن روح ارضِ مقدس میں آستانۂ پاک کے قریب تھی۔ وہ جو کچھ لکھتے جاتے تھے ان کی روشنائی اور قلم کی خوبی نہ تھی بلکہ شبلی کا دماغ اور شبلی کا دل اس نور پاک سے ایسا منور ہوگیا تھا کہ اس کی شعاعوں سے ان کا قلم بھی برقایا جا چکا تھا۔ وہ سیرت پاک لکھنے میں محو ہوگئے اور شرپسندوں سے محفوظ ہوگئے۔ لکھتے ہیں:

’’بہرحال اب تو ایک دو برس، ان بدباطنوں سے نجات رہے گی، اور دربار رسالت کا آستانہ ہوگا‘‘۔ (ایضاً:ص ۲۹۳)

۲۷؍ مئی ۱۹۰۳ء؁ کے ایک خط سے جو مولوی حسین عطاء اللہ صاحب حیدر آبادی کے نام تھا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے سیرۃ پاک لکھنے کا آغاز کردیا تھا:

’’میں نے جناب سرور کائنات علیہ الصلاۃ والسلام کی سوانح عمری لکھنی شروع کی ہے، جو سعادت دارین کا ذریعہ ہے‘‘۔ (ایضاً:ص ۳۳۲ تا ۳۳۳)

لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے وہ اس انداز اور معیار پر نہ لکھ سکے جو وہ چاہتے تھے۔ اس لیے یہ کام مکمل اور ناتمام رہ گیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی کے بیان کے مطابق صرف ہجرت تک لکھا جاسکتا تھا اور وہ مسودہ اب بھی دار المصنفین میں موجود ہے۔ چونکہ حسین عطاء اللہ صاحب کے پاس اچھا کتب خانہ تھا اس لیے شبلی نے اس سلسلے میں ان سے کچھ کتابیں مانگی تھیں جس کا علم اسی مکتوب سے ہوتا ہے۔ شبلی اس زمانہ میں حیدر آباد میں تھے اور ان کا کتب خانہ اعظم گڑھ میں ، اس لیے بھی وہ اس کام کو جاری نہ رکھ سکے، لیکن انھوں نے اس ارادے ہی کو ختم نہ کردیا بلکہ وہ مناسب وقت اور موقع کے متلاشی تھے۔ سیرۃ النبیؐ کی اہمیت ان کے پیش نظر تھی۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ مغربی تعلیم کے اثرات قوم کو مذہب سے بے گانہ کرتے جارہے ہیں۔ فرنگی پروپیگنڈہ نے محمد رسول اللہؐ کو دنیا کی دیگر شخصیتوں کی طرح صرف ایک بڑی شخصیت سمجھنے پر مجبور کردیا تھا۔ مسلمان حضور ؐ کی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ ان کے سامنے کوئی کتاب رسول مقبولؐ سے متعلق آتی تو انگریزی میں آتی اور اس میں تعصب کی جھلک ضرور ہوتی یا پھر اردو میں ایسی کتابیں تھیں جن سے طبیعت سیر نہ ہوتی۔ شبلی کو رہ رہ کر یہ بات کھٹکتی تھی کہ اردو میں سیرۃ پاک سے متعلق کوئی جامع اور مستند کتاب نہیں۔ دیگر اکابر نے بھی شبلی کی توجہ اس طرف منعطف کی اور خود شبلی کے اس ارادے میں استحکام پیدا ہوگیا اور انھوں نے اس کو علمی صورت دینے کا تہیہ کرلیا۔ ۱۹۱۲ء؁ کے آغاز کے ساتھ ہی سیرۃ نبوی کے کام کابھی آغاز ہوگیا۔ شبلی مولانا شروانی کو لکھتے ہیں:

’’سیرۃ نبویؐ کا شروع سال سے عزم ہے لیکن پچاس ہزار سرمایہ کی ضرورت ہے، کیا قوم سے یہ امید ہوسکتی ہے‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول،ص ۱۸۶)

شبلی ہر کام باقاعدگی سے کرتے تھے، انھوں نے اس خصوص میں ایک اسکیم بنائی اور اس کے مصارف کا تخمینہ لگایا۔ سیرۃ النبیؐ لکھنے کا شبلی نے جونہی قصد کیا ہر طرف سے اس تحریک کو خوش آمدید کہا گیا۔ الندوہ میں اعلان شائع ہوا اور ایک مجلس تالیف کے قیام کی تجویز ہوئی۔ اس مبارک کام کے لیے پچاس ہزار روپیہ کے سرمایہ کا جمع ہوجانا کوئی مشکل بات نہیں تھی، لیکن والیۂ بھوپال سلطان جہاں بیگم نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ تنہا اس خصوص میں امداد دیں گی۔ غالباً مولانا شبلی نے امداد کے لیے خود درخواست بھی دی تھی یا پھر درخواست دینے کے لیے ان سے کہا گیا تھا، اس کا علم محمد امین زبیری کے نام ایک خط سے ہوتا ہے:

’’ریاست کے عطیہ کی درخواست تو کی، لیکن اب قبول کرتے ایک بڑا بار محسوس کرتا ہوں‘‘۔ (ایضاً:ص ۲۲۶)

لیکن شبلی کے پیش نظر چونکہ ایک اہم کام تھا اس لیے انھوں نے امداد قبول کرنے میں پس وپیش نہ کیا ورنہ اس سے ان کی ذات کو فائدہ پہنچنا مقصود ہوتا تو کبھی بھی قبول نہ کرتے۔ بہرحال والیۂ بھوپال کی مالی ہمدردیوں نے شبلی کو بڑی حد تک مطمئن کردیا کہ وہ انہماک کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہوجائیں۔ لکھنؤ میں رہتے ہوئے ندوہ کے جھگڑوں کے سبب وہ پر اطمینان طریقے پر کام نہیں کرسکتے تھے اس لیے ارادہ تھا کہ بمبئی رہ کر اس کام کو انجام دیں۔ لکھتے ہیں:

’’میرا ارادہ ہے کہ مستقل بمبئی میں قیام کرکے سیرت کو ختم کردوں، یہاں روز ایک قصہ رہتا ہے اور اطمینان نصیب نہیں ہوتا، اسٹاف ساتھ لے جاؤں گا، سید سلیمان ساتھ رہیں گے، خوشنویس اور انگریزی مترجم وغیرہ بھی‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول ،ص ۲۲۸)

سیرت کے سلسلے میں ہر طرف سے امداد دی جانے لگی لیکن غالباً سلطان جہاں بیگم کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت صرف ان ہی کے حصے میں آئے اس لیے شبلی نے دوسرے عطیوں کو واپس کردیا، لکھتے ہیں:

’’ماہواری چندے اور یک مشت رقمیں بہت سی آئیں، میں نے سب واپس کردیں، لوگوں کو شکایت ہے کہ اس سعادت میں ہم کو کیوں موقع نہیں دیا جاسکتا‘‘۔

(ایضاً: ص۱۲۸)

بہرحال شبلی نے اسٹاف کا تقرر کرلیا اور سیرۃ النبیؐ لکھنا شروع کردی۔ اس غرض سے ان کو کافی مطالعہ کرنا پڑتا تھا۔ انگریزی کے علاوہ مختلف زبانوں کی کتابوں سے بھی استفادہ ضروری تھا۔ انگریزی سے وہ اتنے واقف نہ تھے کہ پوری طرح فائدہ اٹھا سکتے، اس غرض سے ان کو مترجم رکھنے پڑے۔ پیر سے تو معذور تھے ہی آنکھ نے بھی ستانا شروع کردیا۔ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود وہ کام کرتے رہے، ایک مکتوب میں تحریر کرتے ہیں:

’’بقدر ہمت کام کر رہا ہوں، آنکھ کی معذوری کا بہت اثر ہے، خود لکھ نہیں سکتا بلکہ لکھواتا ہوں اور اس کی کبھی مشق نہ تھی، البتہ کتابوں کا مطالعہ اب تک کرسکتا ہوں، یوروپین مورخوں کی تصنیفات کشت زعفران نظر آتی ہیں، سیکڑوں ہوائی قلعے بنائے ہیں تمام انگریزی کتابیں خرید لی ہیں، ایک بی۔ اے کو جو ایم۔ اے ہیں، میں زادِ راہ بھیج دیا ہے، کل پرسوں تک آجائیں گے‘‘۔ (ایضاً:ص ۱۹۰)

اسی مکتوب میں سرکار بھوپال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ان کے صاحبزادے کے دو ہزار روپیہ بابت خریداری کتب آگئے‘‘۔

(ایضاً:ص ۱۹۱)

سیرۃ النبیؐ کے متعلق علامہ شبلی نعمانی نے انگریزی کتابیں تو خرید لی تھیں لیکن ان سب کا ترجمہ کروانا ممکن نہ تھا اس کے لیے تو ایک بڑے پیمانے پر دار الترجمہ کے قیام کی ضرورت تھی، اس لیے شبلی نے مناسب یہ خیال کیا کہ ان احباب کے پاس جو عالم وبا ذوق ہوں ایک کتاب بھیج دی جائے تاکہ وہ پڑھ کر اہم مقامات پر نشان لگاتے جائیں اور پھر کتاب واپس بھیج دیں تاکہ دفتر کے مترجمین سے ترجمہ کرایا جاسکے۔ اس بات میں کئی مقاصد پنہاں تھے اور کئی فوائد۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس طرح یہ کام تقسیم کار کے اصول پر آسان ہوجاتا، وقت ضائع نہ ہوتا، دوسرے یہ کہ لوگ جبراً ہی سہی مطالعہ پر مجبور ہوتے۔ مختلف اشخاص مختلف زاویۂ خیال سے کتابوں کا مطالعہ کرتے اور نشان لگاتے جاتے، جس سے شبلی کو اپنے کام میں بڑی مدد ملتی، اس طرح انگریزی کتابوں کا زیادہ سے زیادہ مواد سامنے آتا تو ان کے بیانات اور اعتراضات کا وہ پوری طرح جواب دے سکتے۔ اس کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:

’’سیرت النبیؐ جو زیر تصنیف ہے، میں چاہتا ہوں کہ یورپ کے مصنفین نے جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہے اس سے پوری واقفیت حاصل کی جائے تاکہ ان کے تائیدی بیان حسب موقع حجت الزامی کے طور پر پیش کیے جائیں اور جہاں انھوں نے غلطیاں اور بددیانتیاں کی ہیں نہایت زور وقوت کے ساتھ ان کی پردہ دری کی جائے‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول: ص ۱۹۲)

اس غرض سے شبلی کو جتنا وسیع مطالعہ کرنا پڑا ہوگا وہ ظاہر ہے۔ وہ سیرت کو محدود رکھنا نہ چاہتے تھے۔ اس کو ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت دینے کا مقصد رکھتے تھے۔ لکھتے ہیں:

’’چاہتا ہوں کہ ہر قسم کے مطالب سیرت میں آجائیں یعنی تمام مسائل مہمات پر ریویو، قرآن مجید پر پوری نظر، غرض سیرت نہ ہو بلکہ انسائیکلوپیڈیا ہو اور نام بھی دائرۃ المعارف النبویہ موزوں ہوگا، گو لمبا ہے اور ابھی میں نے فیصلہ نہیں کیا‘‘ ۔ (ایضاً: ص۱۹۳ )

نامساعد حالات وقت کی تنگی اور طبیعت کی خرابی نے شبلی کی اسکیم کو اپنے حقیقی روپ میں پیش ہونے نہ دیا لیکن اس کے باوجود جو کام ہورہا تھا وہ غیر معمولی ہی کہا جاسکتا تھا۔ محمد امین زبیری کو اطلاع دیتے ہیں کہ:

’’سیرت کے سو صفحے ہوچکے تھے، لیکن نظر ثانی میں پھر کچھ کا کچھ ہوگیا، یورپ کی غلط بیانیوں کا ایک دفتر ہے، ان کے ایک ایک حرف کے لیے سیکڑوں ورق الٹنے پڑتے ہیں، یہ کمبخت لکھتے تو جھوٹ ہیں لیکن بے پتہ نہیں لکھتے۔ یہاں ہمارے سیرت نگاروں نے خود بہت بے احتیاطیاں کیں‘‘۔ (ایضاً:ص ۲۳۰)

ہمارے سیرت نگاروں کی بے احتیاطیوں کی وجہ سے شبلی کو زیادہ محتاط اور مستند انداز میں لکھنا پڑا اس لیے وہ تیز رفتاری سے نہ لکھ سکے۔ بھوپال کی امداد صرف دو سال کے لیے تھی اور شبلی جس انداز پر کام کرنا چاہتے تھے وہ دو برس میں کسی طرح بھی تکمیل نہیں پاسکتا تھا۔ لیکن وہ اس بات سے گھبراتے نہیں کہ بھوپال کی امداد بند ہوجائے گی ان کے پاس جوش اور جذبہ تھا اور ارادے میں استحکام، ایک خط میں تحریر کرتے ہیں:

’’میں جانتا ہوں کہ کام دو برس میں نہ ہوگا، یہ بھی احتمال ہے کہ سرکار بھوپال رقم بند کردیں، لیکن اب روپیہ کا نہیں بلکہ میری جان کا معاملہ ہے، ہر حالت میں کام جاری رکھوں گا اور اگر مر نہ گیا اور ایک آنکھ بھی سلامت رہی تو ان شاء اللہ دنیا کو ایسی کتاب دے جاؤں گا جس کی توقع کئی سو برس تک نہیں ہوسکتی‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول: ص۲۳۱)

ایک اور مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’سیرت چل رہی ہے، اب نظر آتا ہے کہ واقعی ایک ایسی تصنیف کی سخت ضرورت تھی، یہ دوسری بات ہے کہ میں پورا کرسکوں گا یا نہیں‘‘۔ (مکاتیب جلد دوم: ص ۱۳۴)

شبلی کو اپنی ذات پر بھروسہ تھا، اپنی تصنیفوں کی برتری کا احساس تھا کہ لیکن اگر کسی سے معقول مشورہ ملتا تو وہ ضرور قبول کرتے بلکہ دوسروں سے وہ خواہش کرتے کہ مدد دیں، مولانا شروانی کو لکھتے ہیں:

’’سیرت کو چاہتا تھا کہ آپ کی نظر سے مسودہ گذر جاتا، لیکن کوئی تدبیر خیال میں نہیں آتی، اردو کا ٹائپ رائٹر نہیں، ورنہ دو تین کاپیاں ہوجایا کرتیں‘‘۔

اسی مکتوب میں آگے لکھتے ہیں:

’’پہلی جلد کا نصف حصہ گو یا تیار ہے، ہر ہفتہ میں دو تین روز طبیعت ناساز ہوجاتی ہے، اس لیے ناغہ سے حرج ہوجاتا ہے، بڑے بڑے معرکے طے ہوئے، اس فن کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت تھی، مجھ کو خود خیال نہ تھا کہ ایسی کامیابی ہوگی، لیکن قدر کون کرے گا، کوئی شخص پہلے طبری وابن الاثیر کو چھان چکاہو، تب اندازہ کرسکتا ہے‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول: ص ۱۹۶)

وہ وقتاً فوقتاً مولوی حمید الدین اور سید سلیمان سے بھی استفسار کرتے جاتے تھے۔ مولوی حمید الدین کو لکھتے ہیں:

’’میں اب سیرت ابتدا سے اس طرح لکھ رہاہوں کہ مکمل ہوتی جاتی ہے اور ساتھ ہی مطبع میں دے دی جائے، لیکن اس ترتیب میں بعض جگہ رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور بعض مباحث ایسے پیش آجاتے ہیں کہ تم سے استفسار وتحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے‘‘۔ (مکاتیب شبلی دوم: ص ۳۵)

وہ اس طرح دوسروں کو تربیت بھی دیتے جاتے اور کام کرنے کے انداز بھی سکھلاتے تھے۔ سید سلیمان کو لکھتے ہیں:

’’سیرت کے متعلق جو عام امور ذہن میں آئیں یعنی کن کن امور پر زیادہ توجہ کی جائے وغیرہ وغیرہ، ان کو وقتاً فوقتاً جب جو بات ذہن میں آئے لکھ بھیجا کرو‘‘۔

(مکاتیب شبلی دوم: ص ۷۷)

ان کا جی تو چاہتا تھا کہ تفریح بھی کریں لیکن کام کو فوقیت پر رکھتے تھے۔ ابو الکلام آزاد نے کلکتہ آنے کی دعوت دی تھی اس کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’کلکتہ آنے کو سو سو بار جی چاہتا ہے، لیکن کیا کروں سیرۃ کے لیے کتابوں کی کئی الماریاں ساتھ رکھنی پڑتی ہیں، ان کو کہاں کہاں لیے پھروں‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول:ص ۲۷۰)

ایک اور خط میں ابو الکلام آزاد کو لکھتے ہیں:

’’سیرت کی وجہ سے میری نقل وحرکت سخت مشکل ہوگئی ہے، ہر جگہ ایک اونٹ کتابیں لاد کر لے جانی پڑتی ہیں‘‘۔ (ایضاً:ص ۲۷۲)

لیکن نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی کی خواہش پر وہ حیدر آباد گئے تاکہ ان کو ترجمۂ قرآن مجید کے متعلق مشورہ دے سکیں۔ مولانا کے مکتوب سے پتہ چلتا ہے کہ عماد الملک پندرہ پارے مکمل کرچکے تھے اور وہ روزانہ کام کرتے تھے۔ حیدر آباد پہونچ کر شبلی اپنے کام سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ بعض مفید کتابیں جو وہاں ان کے ہاتھ آئیں ان سے استفادہ کیا جس کا اظہار ایک اور مکتوب سے ہوتا ہے۔

 ’’یہاں سیرت کے متعلق بعض اچھی کتابیں ہاتھ آئیں، ہاں مطبوعات یورپ یہاں اکثر ملتی ہیں‘‘۔ (ایضاً:ص ۲۷۱)

یورپ کی مطبوعات کا مطالعہ کرتے جاتے تھے اور غلط بیانیوں کی تردید لکھتے جاتے تھے۔ ایک خط میں سید نواب علی پروفیسر بڑودہ کالج کو لکھتے ہیں:

’’سیرت کے متعلق یورپ کی غلط کاریوں کا تعجب نہیں جب کہ خود اسلامی مورخین اور اربابِ روایت نے سیکڑوں غلطیاں کی ہیں، مجھ کو تاریخ نہیں بلکہ عدالت کا فیصلہ لکھنا پڑتا ہے، لیکن انداز بیان تاریخی ہوتا ہے، ورنہ بے لطف ہوجائے‘‘۔ (ایضاً:ص ۲۹۸ تا ۲۹۹)

بہرحال ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء کو جو خط محمد امین زبیری کو لکھا اس کا اقتباس یہ ہے:

’’کتاب کا پہلا حصہ جس میں سادہ حالاتِ زندگی ہیں، قریباً تیار ہوگیا ہے، اگرچہ اس میں بھی نہایت کد وکاوش اور تمام کتب حدیث ورجال کی چھان بین کرنی پڑی، تاہم اصلی مرحلے آگے ہیں، کتاب پانچ جلدوں میں ہوگی، جو حصہ گو تیار ہے وہ قریباً ۵۰۰؍ صفحوں میں ہے، پوری کتاب کو اس کا چوگنا کرلیجیے‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول:ص ۲۳۴ تا ۲۳۵)

جہاں تک خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی جلد حیدر آباد کے قیام میں تکمیل پا رہی تھی جیسا کہ ان کا ارادہ تھا۔ لکھتے ہیں:

’’اب یہاں طبیعت درست ہوچلی ہے اور ہر روز کام کرلیتا ہوں، گو زیادہ نہیں کرسکتا، غرض یہ ہے کہ ارادہ یہ ہوگیا ہے کہ پہلی جلد ختم کرکے یہاں سے اٹھوں، اسٹاف بھی یہیں بلا لیا ہے، سید سلیمان کو بھی بلایا ہے اور انگریزی مترجم بھی‘‘۔

(مکاتیب شبلی جلددوم:ص ۴۲)

یہ جواب ہے مولوی حمید الدین صاحب کے خط کا، جنھوں نے مولانا سے لکھنؤ آجانے کی خواہش کی تھی۔ ان کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہاں کے کاموں کو ان کے آنے تک اٹھا نہ رکھا جائے۔ اس لیے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے اور جمنے میں وقت لگتا ہے۔ اور وہ اپنا سارا وقت سیرت ہی پر صرف کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے لکھتے ہیں:

’’بھائی سیرت سب چیزوں سے زیادہ عزیز ہے‘‘۔ (ص ۴۲، جلد دوم، ایضاً)

مولوی مسعود علی ندوی کے نام ایک خط میں یوں لکھتے ہیں:

’’ایک نہایت ضروری لیکن پر کیف خدمت میں مصروف ہوں، (سیرت نبویؐ) وہ جس قدر زیادہ ختم کے قریب آتی جاتی ہے ذوق بڑھتا جاتا ہے، اس لیے اکثر یہ ارادہ ہوتا ہے کہ پہلی جلد تمام کرکے یہاں سے نکلوں، وہاں یہ یکسوئی کہاں، لیکن بظاہر پہلے آنا پڑے گا، اس غرض سے کہ بعض امور میں میاں حمید سے مشورہ رہ سکے‘‘۔ (ایضاً:ص ۱۰۲ تا ۱۰۳)

سیرت کا جب کچھ حصہ تکمیل پاگیا تو انھیں اس کی طباعت کی فکر ہوئی سخت متردد تھے کہ کہاں بھیجیں چھاپنے والوں پر اعتماد نہ تھا اور ٹائپ سے متعلق انھیں شبہہ تھا کہ لوگ پسند نہ کریں گے۔ سید سلیمان اور دیگر اصحاب سے اس متعلق مشورہ بھی کرتے ہیں۔ سید سلیمان نے غالباً ٹائپ کی موافقت میں لکھا تھا اس لیے لکھتے ہیں:

’’میں تو ٹائپ کے بارہ میں تم سے متفق ہوں لیکن عام پبلک تو اب تک چشم آشنا نہیں، مولوی ابوالکلام صاحب سے کہو کہ چھپائی کا بہتر سے بہتر نمونہ، بہتر سے بہتر کاغذ پر ایک صفحہ چھپوادیں‘‘۔ (ایضاًص ۱۸۳)

معلوم ہوتا ہے کہ شبلی خود ٹائپ کی موافقت میں تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ پچاس صفحے نہایت عمدہ کاغذ پر ٹائپ میں چھپوائیں اور اس کی جلد بھی بنوادی جائے تاکہ یہ اندازہ ہوجائے کہ ٹائپ بھی چل سکتا ہے ورنہ تو لیتھو ہی میں چھپوانے کا قصد تھا۔ سیرت کی طباعت سے متعلق مولانا شروانی کو بھی لکھتے ہیں:

’’سیرت کے چھپنے کا مرحلہ پیش ہے، الہلال میں چار صفحے نمونہ کے لیے چھپوائے بہت عمدہ چھپا، لیکن لوگ ٹائپ کو بالکل پسند نہیں کرتے، لطف یہ کہ انگریزی خواں بھی‘‘۔

(مکاتیب شبلی حصہ اول: ص ۲۲۰)

اسی مکتوب میں ایک اور خیال کا اظہار کرتے ہیں:

’’عرب کے قدیم خطوط، دو ہزار برس قبل اسلام، حمیری اور نابتی خطوط جو کھنڈروں میں ملے، ان کے فوٹو منگوا لیے ہیں، سیرت میں شامل ہوں گے‘‘۔

غرض یہ کہ مولانا شبلی سیرت کے لکھنے میں ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف تھے۔ جنوری ۱۹۱۲ء؁ سے دسمبر ۱۹۱۳ء؁ تک باوجود مزاحمتوں کے کام کرتے رہے۔ بھوپال کی امداد صرف دو سال کے لیے تھی، لیکن والیۂ بھوپال نے جو خود بھی علم دوست اور با ذوق تھیں اس امداد میں توسیع کردی۔ شبلی اس سے بڑے خوش ہوگئے اور محمد امین زبیری کو لکھا کہ:

’’حضورسرکار عالیہ لکھنؤ تشریف لائیں گی تو ان کا نہایت پر شان استقبال اہل شہر اور ندوہ کی طرف سے ہونا چاہیے‘‘۔ (ایضاً:ص ۲۳۹)

اسی مکتوب میں مندرجہ ذیل اشعار بھی لکھ بھیجے:

مصارف کی طرف سے مطمئن ہوں میں بہر صورت

کہ ابر فیضِ سلطانِ جہاں بیگم زر افشاں ہے

وہی تالیف وتنقید روایت ہائے تاریخی

تو اس کے واسطے حاضر مرا دل ہے، مری جاں ہے

غرض دو ہاتھ ہیں اس کام کے انجام میں شامل

کہ جس میں اک فقیر بے نوا ہے، ایک سلطاں ہے

دیکھا جائے تو ان کو ذات خداوندی پر اتنا بھروسہ تھا کہ بھوپال کی امداد کی چنداں فکر نہ تھی، جب امداد کی مدت ختم ہونے لگی تو لکھتے ہیں:

’’معلوم نہیں بھوپال اس کے بعد اضافہ کرتا ہے یا نہیں، خیر ایسی باتیں مہمات میں سد راہ نہیں ہوسکتیں لیکن عزم وثبات درکار ہے‘‘۔ (مکاتیب شبلی جلددوم:ص ۱۰۴)

اس خط کے جملے سے شبلی کی فطرت کا ایک جوہر سامنے ابھرکر آتا ہے وہ ہے عزم وثبات، حوصلہ، انھوں نے علمی طور پر واقعی ہر موقع پر اپنے عزم وثبات کا بہترین ثبوت دیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ بھی شبلی کے مقابلے میں آسانی سے ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ جب سیرت کے ابتدائی اوراق چھپ کر منظر عام پر آئے تو مخالفین نے بھی قدم آگے بڑھائے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ منتظر ہی بیٹھے تھے اور بھوپال کی امداد میں توسیع نے تو ان کے لیے آگ پر تیل کا کام کیا۔ اعتراضوں کے تیر چلائے جانے لگے، جن سے صاف یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ذاتی اختلاف اور حسد اس کا سبب ہے۔ شبلی کے لیے کفر کے فتوے جاری ہوئے اور بھوپال بھیجے گئے کہ کسی طرح یہ امداد بند ہوجائے۔ شبلی سے غالباً والیۂ بھوپال نے امین زبیر کے تو سعاً یہ خواہش کی کہ شبلی ان اعتراضات کا جواب لکھیں۔ شبلی نے امین زبیری کو جواب میں لکھا:

’’اعتراضات کا جواب میں کہہ چکا (۱)، نہایت مہمل اور محض معاندانہ اعتراضات تھے‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول: ص ۲۴۴)

شبلی کی طبیعت کے خلاف تھا کہ ہر اعتراض کا جواب دیں۔ وہ اسے کسر شان سمجھتے ہوں گے۔ امین زبیری نے یہ بھی خواہش کی تھی کہ وہ خود بھوپال تشریف لائیں تاکہ معاملات کی یکسوئی ہوجائے لیکن یہ بات بھی ان کو ناگوار ہوئی۔ جواب میں لکھتے ہیں:

’’میں بارش کے قبل نہیں آسکتا بہت ضرورت ہو تو ایک دو دن کے لیے آجاؤں، لیکن اگر اسی درجہ کے لوگوں کے لکھنے پر میری داروگیر ہوتی رہے گی تو میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اعانت سے مستعفی ہوجاؤں‘‘۔ (ایضاً:ص ۲۴۴)

شبلی نعمانی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر کوئی مستند عالم ان کے مسودہ کی نظر ثانی کرلے تو وہ اس پر بھی رضامند ہیں۔ انھوں نے ابتدائی اوراق میں بھی کچھ رد وبدل کردیا جن پر اعتراضات کیے گئے تھے۔ لکھتے ہیں:

’’اگرچہ اعتراضات میں اعلانیہ خیانت کی ہے یعنی عبارت جو نقل کی ہے اس کے الفاظ تک بدل دیئے ہیں اور اکثر اعتراضات محض غلط تعبیری پر مبنی ہیں‘‘۔

(ایضاً:ص ۲۴۵)

ان تمام الجھنوں کے باوجود شبلی کام میں مصروف رہے، اس مکتوب کے آخر میں لکھتے ہیں:

’’یہاں کام نہایت سکون اور اطمینان سے ہورہا ہے، ارادہ تو یہ ہے کہ اب بغیر تکمیل کتاب یہاں سے نہ ٹلوں‘‘۔

واقعہ یہ ہے کہ وہ بمبئی میں رہ کر نہایت سکون کے ساتھ کام کرسکتے تھے۔ لکھتے ہیں:

’’بمبئی میں سارا دن کام کے لیے ملتا ہے، دن بھر کو ئی جھانکتا نہیں، اس لیے برس دن تک یہاں سے ٹلنے کا ارادہ نہیں‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول: ص ۲۴۶)

یہی بات مولانا شروانی کو بھی لکھی۔

’’تسلیم! سیرت کے اتمام کے لیے یہیں (۱) کی خاموشی اور سکون درکار ہے، دن بھر کوئی جھانکتا نہیں‘‘۔ (ایضاً:ص ۲۰۲)

شبلی کی یہ تجویز کہ کوئی مستند عالم مسودہ دیکھے مخالفین کو کب منظور تھی۔ شبلی کے ایک مکتوب سے پتہ چلتا ہے کہ جب مولوی عبید اللہ سندھی مسودہ لے کر دیوبند پہونچے کہ مولوی محمود حسن کو دکھلائیں تو وہاں کے مولویوں نے محمود حسن کو ایسا کرنے سے باز رکھا اور عبید اللہ کو کافر ٹھہرایا۔ والیۂ بھوپال کے سکریٹری محمد امین زبیری کو لکھتے ہیں:

’’میں جس تحقیق وتدقیق سے سیرت لکھ رہا ہوں ناممکن تھا کہ مولوی محمود حسن صاحب اس کو دیکھتے اور تحسین نہ کرتے، لیکن مخالفوں نے ان کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ سرے سے دیکھنے ہی سے انکار کردیں۔ البتہ مولوی عبید اللہ سندھی مسودہ دیکھ رہے ہیں، ان کی رائے آجائے گی تو بھیج دوں گا، مولوی عبید اللہ ٹونکی پر اگر اطمینان ہو تو ان کے پاس بھیج دوں یا جو مصلحت ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ سردست اس قصہ ہی کو خاموش چھوڑ دیا جائے‘‘۔

 (ایضاً:ص ۲۴۸)

شبلی اپنے کام میںمنہمک رہے اور ان مخالفتوں اور اعتراضوں کے باوجود وہ پست ہمت نہیں ہوگئے، لیکن ان پر ایک ناگہانی آفت ٹوٹ پڑی اور ان کے بھائی محمد اسحاق کا انتقال ہوگیا۔ اب شبلی مجبور تھے کہ بمبئی کو چھوڑکر پھر اعظم گڑھ چلے جائیں۔ محمد اسحاق کی وفات نے ان کی ہمتوں کو پست کردیا۔ لکھتے ہیں:

’’میں اب بالکل دل شکستہ ہوگیا ہوں، برادرم اسحاق کی وفات نے دل بٹھا دیا ہے‘‘۔ (ایضاً:ص ۱۲)

آگے لکھتے ہیں:

’’سیرت کا کام جاری ہے، گو تاخیر طبع سے طبیعت اچھی طرح آگے نہیں بڑھتی‘‘۔

شبلی نے اس حادثہ کے باوجود سیرت کے کام کو روک نہیں دیا لیکن جب دل ودماغ ہی متاثر ہو تو تازہ توانا آدمی بھی مجبور ہوجاتا ہے، شبلی تو پھر بیمار ہی تھے اس پر کمزور بھی اور معذور بھی، اور پھر دنیا بھر کی فکروں اور الجھنوں میں گرفتار۔ سیرت کے کام کو تمام کرنے کی تمنا تھی ’’سیرت پر خاتمہ ہوجائے تو یہ حسن خاتمہ ہے‘‘۔ لیکن آخر زمانے میں بالکل ناامید ہوگئے تھے، انھیں یقین ہوگیا تھا کہ سیرت اب مکمل نہ ہوسکے گی غالباً انھیں اپنی مدت قریب نظر آرہی تھی۔ مولوی حمید الدین کو لکھتے ہیں:

’’افسوس یہ ہے کہ سیرت پوری نہ ہوسکی‘‘۔ (مکاتیب شبلی جلددوم:ص ۴۷)

انتقال سے ایک ماہ قبل شبلی نے یہ لکھا تھا اور اس کے چند روز بعد ہی انھیں مرض الموت نے آگھیرا، سیرت کی نا تمامی کی خلش دل میں رہ گئی، موت سے پہلے بھی انھیں سیرت ہی کی رٹ تھی، انتقال سے تین روز قبل مولوی حمید الدین، مولوی ابو الکلام اور مولوی سید سلیمان کو تار کروایا، مولوی ابو الکلام کو جو تار بھیجا گیا وہ مکاتیب میں شامل ہے:

’’اگر آپ (۱) اس اثنا میں مل جاتے تو سیرت نبویؐ کی اسکیم کا کچھ انتظام ہوجاتا ورنہ سب کارروائی بیکار ہوجائے گی، سید سلیمان اگر موجود ہوتے تو ان کو پورا پلان سمجھا دیتا‘‘۔ (مکاتیب شبلی حصہ اول: ص ۲۷۵)

۱۸؍ نومبر ۱۹۱۴ء؁ کو ان کی روح پرواز کرگئی لیکن جس کو سرور کائنات کی ذات پاک سے محبت اور عقیدت ہے وہ علامہ شبلی نعمانی کو بھی ضرور جانتا ہے اور ان کی قدر کرتا ہے۔ شبلی نعمانی کا نام سیرۃ النبیؐ کے ساتھ زندہ جاوید ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ کارنامہ ان کی ’’عمر بھر کا حاصل اور وسیلۂ نجات ہے‘‘۔

کتابیات

(۱)تنقیدیں۔ ڈاکٹر خورشیدالاسلام ۔ انجمن ترقی اردو ہند ، علی گڑھ۔ سن اشاعت ۱۹۵۷ء

(۲)مکاتیب شبلی۔ سیدسلیمان ندوی

(۳)دارالمصنّفین کی ادبی خدمات کا تعارف ۱۹۸۰ء تک۔ ڈاکٹر شباب الدین۔ سن اشاعت ۲۰۰۸ء۔ اصیلہ آفسیٹ پرنٹرز نئی دہلی۔

(۴)مکتوبات شبلی۔ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی۔ اصیلہ پریس ، نئی دہلی۔ سن اشاعت ۲۰۱۲ء

(۵) خطوط شبلی ۔ مرتبہ امین زبیری

(۶)خطوط شبلی بنام آزاد۔ مرتبہ سیدمحمود حسین

(۷)نقوش لاہور، مکاتیب نمبر۔ مرتبہ محمد طفیل، ادارہ فروغ اردو ، لاہور

(۸)عبدالماجد دریابادی۔ شبلی نقادوں کی نظر میں۔ مرتبہ محمد واصل عثمانی۔ صفیہ اکیڈمی کراچی۔

(۹)غالب کے خطوط(دوجلد یں) ۔ مرتبہ ڈاکٹر خلیق انجم

(۱۰)مکتوباتی ادب، ڈاکٹر شمس بدایونی

(۱۱)شبلی۔ مکاتیب شبلی کی روشنی میں، مرتبہ ڈاکٹر معین الدین عقیل

(۱۲)مراسلات شبلی ، مرتبہ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی

٭٭٭

ابورافع

ریسرچ اسکالر، شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.