نئی اردو ،ہندی شاعری :منظر و پس منظر

اْردو ہندی شاعری کے ارتقائی مطالعے سے یہ انداز ہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ شاعری اپنے مدارج کس طرح سے طے کررہی تھی اور شاعری کے اندر نت نئی تبدیلیاں  کیوں  اور کیسے رونما ہورہی تھیں ۔ ویرگاتھا کال ہو، ہندی میں  یا اْردو مثنوی نگاری ہو،بھگتی کال یا تصوف کی شاعری ہو یا پھر آدھونک کال اور اْردو میں  نظم جدید یا دیگر شعری رجحان ہوں  شاعری میں  ہر تحریک یا رجحان تبدیلی کی وجہ بنے ہیں ۔ کبھی خیالات میں  تبدیلی،کبھی ہیئت میں  اور کبھی لفظیات اور دیگر علامتی و استعاراتی طریق کار میں  تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ لیکن بیسویں  صدی کے نصف اول کے بعد ہندی اور اْردو شاعری میں  جو تبدیلی ہوئی اس نے واقعی ادب کے معیار کو بلند کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک یا جسے ہندی میں  پرگتی واد کہتے ہیں  اس کے تخلیقی ادب کے بعد ردعمل کے طور پر جس ادب نے یا ادیبوں  نے ادبی حلقے کومتاثر کیا ہے اسے ہندی میں  نئی کویتا (نئی شاعری) اور اْردو میں  کسی حد تک نئی شاعری یا جدیدیت کی شاعری کہا جاتا ہے۔

نئی اْردوہندی شاعری کے منظرنامے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں  اس کے عہد، وجہ، تسمیہ اور شعرا و ناقدین کے بارے میں  جان لینا بے حد ضروری ہے۔ اْردوادب کی جہاں  تک بات ہے تو نئی شاعری کی اصطلاح کو بہت کم استعمال کیا گیا ہے۔ البتہ ہندی ادب میں  نئی کویتا نے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کی ہے۔ اْردو میں  نئی شاعری کو جدیدیت کے تحت ہی بتایا اور دکھایا جاتاہے جب کہ ہندی میں جدیدیت نام کی کوئی چیز نہیں  ہے اس کی جگہ پر نیا ادب،نئی شاعری وغیرہ کی اصطلاح کو استعمال کیا گیا ہے۔نئی کویتا کو نظریاتی بنیاد اور جدیدیت کا فلسفہ تقریباً ایک ہی ہے۔ اس لیے نئی ہندی شاعری اور جدیدیتکی شاعری کو ایک فلسفہ کے ماتحت تسلیم کیا جانا چاہئے۔ان دونوں  کے منظرنامے کو دیکھنے کے بعد یہ بات مزید واضح ہوجائے گی۔چونکہ ہندی ادب میں  ’’نئی کویتا‘‘ کی اصطلاح پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ پہلے ہندی کویتا کے بارے میں  جان لیا جائے اس کے بعد اْردومیں  نئی شاعری کے منظرنامے کو دیکھنے کی کوشش کی جائے گی اور پھر دونوں  کا تقابل کرکے جب نتیجہ اخذ کیا جائے تو زیادہ معنی خیز بات ثابت ہوسکتی ہے۔

ہندی ادب کے ناقدین نے نئی کویتا کی متعدد تعریفات بیان کیے ہیں  جن میں  سمترا نند پنت، ڈاکٹر جگدیش گپت، آچاریہ نند دلارے واجپئی،وودیا نواس مشر، ڈاکٹر ہری چرن شرما،وسمبھراپادھیاے اور منجل اپادھیائے و ڈاکٹر حکم چندرراجپال وغیرہ نے نئی کویتا کی تعریف،تخصیص اور تعیین کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں  سے چند کی تعریفات کو ہم دیکھ کر تجزیہ کریں  گے۔ سب سے پہلے کیدارناتھ اگروال کی تعریف دیکھتے ہیں :

’’میری رائے میں  وہی شاعری نئی شاعری ہے جو صحت مند، مضبوط، خوبصورت ہو، جو زمانے اور حقیقت کو سمیٹ کر چلتی ہے، جو بے پناہ طاقت کے ساتھ زندگی کو خوش و خرم اور متاثر کرتی ہے۔ جو انسانی قدروں  کی عظیم روایت کو مسلسل آگے بڑھاتی ہو۔‘‘۱؎

’’نئی کویتا‘‘ رسالے کے بانی، مدیر اور شہرت یافتہ نقاد اور شاعر ڈاکٹر جگدیش گپت نئی کویتا یا نئی شاعری کی ایک رومانی انداز میں  جس طرح سے تعریف بیان کی ہے وہ دلچسپ ہے۔لکھتے ہیں :

’’نئی شاعری ترقی پسند حقیقت پسندی کے صدمے سے ظاہر رومانیت کے خواب کو توڑ نے کے بعد کی شاعری ہے جس میں  ظاہر جذبات کہرے کے درمیان ظاہر ہونے والی نیند سے نہ مل کردن کی تیز روشنی کے درمیان عجائبات سے گھرے بیدار انسان کے جذبات ہیں ۔‘‘۲؎

اور آخر ی تعریف وشمبھراپادھیائے اور منجل اپادھیائے کے ذریعے دیے گئے کو دیکھتے ہیں  کہ نئی شاعری ان کے مطابق کس چیز کو کہتے ہیں ، لکھتے ہیں :

’’معاصر شاعر اپنے وقت کی اہم تنازعات اور تضادات کی شاعری ہے۔ معاصر شاعری میں  جو کچھ ہو رہا ہے (becoming) کا براہ راست خلاصہ ہے۔ اسے پڑھ کر موجودہ زمانے کا علم ہوسکتاہے کیونکہ اس میں  جیتے، لڑتے،بوکھلاتے، تڑپتے، گرجتے اور ٹھوکر کھاکر سوچتے حقیقی انسان کی تصویر ہے۔ آج کی شاعری میں  زمانہ اپنے متحرک انداز میں  ہے، ٹھہرے ہوئے لمحات یا روانی کی شکل میں  نہیں ۔یہ زمانہ لمحہ کی شاعری نہیں ،زمانے کی بہاؤ کا صدمہ اور دھماکے کی شاعری ہے۔‘‘۳؎

ان کے علاوہ متعدد نقادوں  نے نئی ہندی شاعری کی تعریف کی ہے۔ ان تینوں  تعریفات سے ہمیں  بہت ساری باتوں  کا علم ہو جاتا ہے کہ نئی ہندی شاعری کیا ہے، اس کی بنیاد کب پڑی اور کیوں  اس طرح کی شاعری کی گئی۔ کیدار ناتھ اگروال کے مطابق نئی شاعری وہ ہے جو انسان کی زندگی کو خوش و خرم رکھنے کی حد تک ہو۔ انسانی قدر کی عظیم روایت کو جو آگے بڑھائے وہی نئی ہندی شاعری ہے۔ زمانے اور حقیقت پسندی کو ایک ساتھ لے کر چلے۔ان کے مطابق نئی شاعری کسی خاص فلسفے یا دابی زاویے کے تحت نہیں  آتی ہے بلکہ یہ آزاد ہے۔انسان جس شاعری سے خوش و خرم ہوجائے مطلب تلذذ انسانی کا جو شاعری خیال رکھے گی وہی نئی شاعری ہے۔ ہندی میں  چونکہ رومانیت کا بڑا زور رہاہے اور رومانیت پسند شعراء ہی ترقی پسندیت سے کنارہ کرکے نئی شاعری کی طرف آئے تھے کیدارناتھ کی تعریف اسی سمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جگدیش گپت اسی بات کی تصدیق کرتے ہوئے اپنی تعریف میں  یہی بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ نئی شاعری رومانیت کے خوابگاہ سے نکل کر وجود میں آئی ہے۔ ترقی پسندیت کے بعد اور رومانیت کی گود سے ظاہر نئی شاعری میں  اس روشنی بھری دنیا میں  پریشانیوں  سے گھرے ہر ایک انسان کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ نئی شاعری کے فلسفے کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں  تو یہی بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ نئی شاعری میں  اس بھیڑ بھاڑ والی دنیا میں  تنہا ہوتے ہوئے انسان کی داستان ہے۔مشینی دور میں  انسان ظاہری طور پر تو ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں ،لیکن ذہنی طور پر وہ تنہا ہوتے ہیں ۔ اس تنہائی کو جس طرح سے علامتوں  کے ذریعہ نئی شاعری کے شعراء نے بیان کیا ہے انسانی درد کی تصویر کشی ہوجاتی ہے۔ وشمبھر اپادھیائے اور منجل اپادھیاے اسی طرح کے انسانی کرب کی نمائندگی والی شاعری کو نئی شاعری بتلاتے ہیں ۔ ان کی تعریف کے مطابق آج کے دور میں  زندگی گذراتے ہوتے ہوئے لڑتے،بوکھلاتے، تڑپتے،گرجتے اور ٹھوکر کھاتے ہوئے انسان کی کہانی ہے۔نئی شاعری ٹھہراؤ کی شاعری نہیں  ہے بلکہ بہاؤ کی شاعری ہے۔یہ ایسی شاعری ہے جس میں  تیزی ہے اور دھماکہ ہے۔ان تینوں  تعریفات کی روشنی میں  ہمیں  نئی شاعری کیا ہے سمجھنے میں  آسانی ہوتی ہے۔

نئی شاعری کی تعریف سمجھ لینے کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں  کہ نئی شاعری کا نام کس طرح پڑا؟ قدیم کے مقابلے ہر آنے والی چیز نئی ہوتی ہے تو اس نئی شاعری کا زمانہ کہاں  سے کہاں  تک کا ہے؟نئی شاعری کا دور ہندی میں  اْردو سے پہلے شروع ہوا۔ اْردو میں  حلقۂ ارباب ذوق کی شاعری کو اگر نئی شاعری کے زمرے میں  رکھا جائے تو اْردو میں  ہندی سے پہلے شروع ہوا لیکن چونکہ اْردو والوں  نے نئی شاعری کی اصطلاح ۱۹۶۰ء کے بعد استعمال کیا ہے اور ہندی میں  ۱۹۴۰ء سے اس کا استعمال ملتا ہے۔ہندی ادب میں  ۱۹۶۰ء کے بعد شاعری کو روایت پسندی سے نکالنے کی کوشش شروع ہوئی۔ ہندی رومانیت کی تحریک کی کوکھ سے ہی نئی شاعری نے جنم لیا ہے اور اس اصطلاح کو اوّل ہندی ادب میں  متعارف کرانے والے ہیں  سچدا نند ہیرانند و التسیہ یاین عرف اگیہ ،انہوں  نے سب سے پہلی بار شاعری کا مجموعہ سات ہندی شعراء کو یکجا کرکے ’’تارسپتک‘‘ کے نام سے ۱۹۴۳ء میں  شائع کیا۔ اس کتاب کے مقدمے میں  اگیہ نے پہلی بار نئی کویتا یعنی نئی شاعری کی اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔ اس مجموعے میں  انہوں  نے گجانن مادھومکتی بودھ، نیمی چندر جین،بھارت بھوشن اگروال، پربھا کرما چوبے، گریجا کمار ماتھر،رام ولاس شرما اور خود اپنی شاعری یعنی اگیہ نے اپنی شاعری کو اس میں  جگہ دی ہے۔اس کے بعد ’’دوسرا سپتک‘‘ ۱۹۵۱ء ’’تیسرا سپتک‘‘ ۱۹۵۹ء میں  شایع کیا۔ اس سلسلے کی کڑی کو آگے چل کر پروفیسر نامور سنگھ نے ’’چوتھا سپتک‘‘ نام سے مجموعہ شائع کرکے مکمل کیا۔ ۱۹۵۲ء میں  سب سے پہلے اگیہ نے پٹنہ آکاش وانی میں  اپنے لکچر کے دوران نئی شاعری کا اعلان کیا۔۱۹۵۳ء میں  ان کا یہ لکچر ’’نئے پتے‘ رسالے میں  جنوری فروری کے شمارے میں  شائع کیا گیا۔اس کے بعد ڈاکٹر جگدیش گپت،ڈاکٹر رام سروپ چترویدی اورڈاکٹر وجے دیونارائن ساہی کی ادارت میں  ’’نئی کویتا‘‘ کے نام سے رسالے کی اشاعت روبہ عمل آئی۔ اس رسالے سے باقاعدہ نئی شاعری کو خصوصیت کے ساتھ مختلف قسم کی شعری طرز بتانے کا کام شروع ہوا۔ اس کی حمایت لکشمی کانت ورما نے بھی کی۔

بنیادی طور پرنئی ہندی شاعری کی اصطلاح ۱۹۵۳ء میں  شائع ’’نئے پنے‘‘ کے شمارے سے شروع ہوئی اور اس کے بعد ڈاکٹر جگدیش گپت اور ان کے دو ساتھیوں  ڈاکٹر رام سوروپ چترویدی اور ڈاکٹر وجے دیو نارائن ساہی کی ادارت میں  شائع ہونے والے رسالے ’’نئی کویتا‘‘ ۱۹۵۴ء کے شمارے میں  نئی ہندی شاعری پر بحث شروع ہوئی اور ’’دوسرا سپتک‘‘ کی اشاعت کے بعد تخلیق کاروں  اور نقادوں  کے ذریعہ نئی شاعری کی اصطلاح کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ اسے ایک رجحان کے طور پر بھی قبول کیا گیا۔ اس کے بعد تو جیسے شعراء اور ان کے مجموعوں  کا ریلا لگ گیا۔ نئی شاعری کے تحت چند شعراء اور ان کے وہ مجموعے جو اس دورمیں  شائع ہوئے اور نئی شاعری کی بنیاد کو مضبوط کرنے والوں  میں  قابل ذکر ہیں ۔ جس میں  اگیہ کا مجموعہ باوراہیری ۱۹۵۴ء اندر دھنش روندے ہوتے یہ ۱۹۵۷ء، اری او کرونا پربھاسے ۱۹۵۹ء،دھرم ویر بھارتی کے مجموعہ ٹھنڈا لوہا ۱۹۵۲ء ، سات گپت ورش ۱۹۵۹ء کانوپریا ۱۹۵۸ء ماچوے کے سور بھنگ ۱۹۵۷ء انوکشن ۱۹۵۹ء وغیرہ اہم ہیں ۔ ان کے ساتھ ہی سپتک کے دیگر شعراء کے بھی شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔مثلاً گریجا کمار ماتھر، دھوپ کے دھان ۱۹۵۵ء ،کنور نرائن چکروہیو ۱۹۵۶ء، بھوانی پرشاد مشرکا گیت فروش ۱۹۵۶ء، نریش مہتا کاون پاکھی سنو ۱۹۵۷ء، شمشیر بہادر سنگھ کا کچھ کویتائیں  ۱۹۵۹ء ،بھارت بھوشن اگروال کا مجموعہ ’’او آپرستت من‘‘ ۱۹۵۸ء، سرویشوردیال سکسینہ کا مجموعہ کاٹھ کی گھنٹیاں  ۱۹۵۹ء، رگھویر سہائے کا مجموعہ سیڑھیوں  پر دھوپ میں  ۱۹۶۰ء، جیسے شعراء اور ان کے مجموعے نئی ہندی شاعری کے لیے سنگ میل ثابت ہوئے ان کے علاوہ ۹۵۹ء میں  تیسرا سپتک شائع ہوا تو اس میں  ان شعراء میں سے سات شاعروں  کے کلام شامل کیے گئے وہ شعرا کیدار ناتھ سنگھ، سرویشور دیال سکسینہ و کنورنرائن کے علاوہ پریاگ نرائن ترپاٹھی،کیرتی چودھری، مدن واتسیہ یاین اور وجے دیو نرائن ساہی شامل ہیں ۔

۱۹۵۹ء میں  جب تیسرا سپتک شائع ہوا تو اس کے مقدمے میں  اگیہ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اب نئی شاعری کو رسالوں  اور لوگوں  کے خطوط وغیرہ میں  اہمیت دی جانے لگی ہے۔اس سے متعلق پروفیسرنامورسنگھ نے بھی لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’۱۹۵۱ء میں  دوسرا سپتک کی اشاعت کے ساتھ نئی شاعری کے جن اصول و نظریات کو پیش کیا گیا اس کا پھیلاؤ تیسرا سپتک کے اشاعت ۱۹۵۹ء تک تیز رفتاری کے ساتھ ہوتا رہا۔‘‘۴؎

نئی شاعری کا نام کیوں  کر نئی شاعری پڑا اس سلسلے میں  ہری چرن شرما لکھتے ہیں :

’’دنیا کے نئے حالات کو پیش کرنے اور نئے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے نئی شاعری کا نام چل پڑا۔‘‘۵؎

اور نئی شاعری کے نام کے فوائد اور اس کے نام کے بارے میں  پروفیسر نامور سنگھ لکھتے ہیں :

’’کچھ لوگوں  کا خیال ہے کہ شاعری کے ساتھ ’’نیا‘‘ صفت ضروری ہے یا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’نیاصفت‘‘ سے نئی زندگی کی جس تازگی کا علم ہوتا ہے وہ اس شاعری میں  نہیں  ہے۔‘‘۶؎

نئی ہندی شاعری کے پس منظر کو دیکھ لینے کے بعد اب ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں  گے کہ نئی ہندی شا عری میں  کیا ہے۔نئی ہندی شاعری کیا ہے،اس کا ادبی وجود کیا ہے اور ادب میں  اس کا مقام کیا ہے۔ ادب میں  اس کی ضرورت کیوں  پڑی اور ادب کو یہ تحریک کس قدر معاون ثابت ہوئی؟ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نئی ہندی شاعری فرد کے جذبات اور اس کی جدوجہد کی تصویر پیش کرتی ہے۔ یہ شاعری انسانیت کے لیے موجودہ نظام میں  تبدیلی لانے کی کوشش کرتی ہے۔نئی شاعری کے شعراء نے اپنی شاعری میں  ان تمام رجحانات کو شامل کیا ہے جو معاشرہ کے لیے فائدہ مند ہیں ۔ اس کا تعلق زمانے سے زیادہ رہا ہے۔ نئی شاعری کے تخلیقی پہلو پر جب ہم غور کرتے ہیں  تو سمجھ میں  آتا ہے کہ اس میں  سب سے زیادہ جدید دور کی تمام چیزیں  ملتی ہیں  جن کا سیدھا اثر نئی شاعری کی تخلیق پر ہے۔ ا س شاعری نے اپنے آپ کو زمانے کے حساب سے ڈھالا ہے اور نتیجے کے طور پر جدید سائنس، نفسیاتی مطالعہ،معاشرتی مطالعہ وغیرہ میدان کی مختلف حصولیابیوں  کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ جدیدیت کے زیر اثر فرد کو اہمیت دی گئی ہے۔فرد کومرکز تسلیم کرکے انفرادیت پر زور دیا گیا ہے۔ڈاکٹر جگدیش گپت اسی تناظر میں  لکھتے ہیں :

’’جدیدیت اپنے صحیح معنوں  میں  اس صوابدید نظریہ سے اگتی ہے جو فرد کو حقیقت میں  زمانے کا شناسابنانے کے ساتھ ساتھ زیادہ ذمہ دار،متحرک اور انسانیت سے بھرپور بناتا ہے۔‘‘۷؎

اس قول سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرد کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ جدیدیت کو بھی اہمیت دی گی ہے۔یہاں  جدیدیت سے مراد ماڈرنزم یعنی تجدید کاری ہے۔

نئی شاعری نے تجدید کاری کو سب سے زیادہ خاص تسلیم کیا ہے۔ تجدیدکاری کا علم وہ نظریہ ہے جو انسان کے اندر چھپی تخلیقیت کو ابھارتی ہے اور اسے حقائق کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ دھرم ویر بھارتی نے’’ اندھا یگ‘‘ میں  تجزیہ کرتے ہوئے جدیدیت کا علم ہونا کامیاب انسان کے اظہار کا ذریعہ بتایا ہے۔مثال دیکھیں :

یہ یگ ایک اندھا سمندرہے /چاروں  اور پہاڑوں  سے گھرا ہوا /سینکڑوں  کینچل چڑھے اندھے سانپ /ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے /سارے پرواہ کو /کتھا کی گتی کو باندھ دیا ہے /اور سب پاتر اپنے استھان پر استھر /ہوگئے ہیں /کیونکہ میں  چیر پھاڑ کر ہر ایک کے آنترک /اسنگتی سمجھنا چاہتا ہوں

اس نظم کے ٹکڑے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرد کس قدر پریشان ہے اور جدید علم کی مدد سے وہ فرد کے اندرونی جذبات کو کنگھال کر دیکھنا چاہتا ہے۔ تمام تر رکاوٹوں  کے باوجود فرد مسائل کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے اور اس کی بلند ہمتی کا نتیجہ ہے کہ کا ئنات ٹہر جاتی ہے۔ مسائل راستہ چھوڑ دیتے ہیں  اور وہ بآسانی اپنے مقصد کی حصولیابی میں  کامیاب ہوتا ہے۔ نئی ہندی شاعری فرد کے انہیں  مسائل کی پیش کش سے بھرپور ہے۔انفرادیت کی وجہ سے نئے شاعر شاعری کو درون ذاتی کے تجزیہ کا ذریعہ مانتے ہیں ۔اظہار کے راستے میں  شاعر لفظ ’میں ‘ کو اہمیت دیتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں  فرد پر بھروسہ اور یقین ہے۔ان کی شاعری میں  جابجا فرد کی اسی طرح سے ترجمانی کی گئی ہے۔دشنیت کمار کی ایک نظم ’’سوریہ کا سواگت‘‘ اسی نظریہ کوبیان کرتی ہے۔

اگر اس لڑائی میں  میری سانسیں  اکھڑ گئیں /میرے بازو ٹوٹ گئے /میرے چرنوں  میں  آندھیوں  کے سمو ٹہر گئے/میرے ادھروں  پر ترنگاکل سنگیت جم گیا/یا میرے ماتھے پر شرم کی لکیریں  کھنچ گئیں /تو مجھے پراجت مت ماننا

اس نظم میں  فرد اپنے آپ لاکھ مصیبتیں  اور پریشانیوں  کے آنے کے باوجود بھی اپنی شناخت اور انفرادیت کو نہیں  کھوتا ہے۔ وہ ہمیشہ فتح یاب ہونا چاہتا ہے۔ہر مصرعے میں  لفظ ’’میں ‘‘ کی گونج سننے کو ملے گی۔ اس لیے دیکھا جاتا ہے کہ نئے شعراء میں  ’’انانیت‘‘ اور ’’میں ‘‘ کے لیے مکمل آزادی ہے۔ صرف آزادی ہی نہیں  بلکہ ہر مقام پر لفظ میں  ہی دیکھنے کو ملے گا۔ سماج روایت پسندی، تاریخ سے الگ یہاں  ہر انفرادیت کو سب سے زیادہ اوّلیت ملی ہے۔اگیہ نے اپنی نظم ’’پوروا‘‘ میں  اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:

کیول بنا رہے وستار ہمارا بودھ/مکتی کا/سیمائیں  کھلے پن کا

شمشیر بہادر کی ایک نظم کی مثال بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ’’میں  ‘‘کی کتنی اہمیت ہے:

میں  سماج تو نہیں ،نہ میں  کْل/جیون/کن سموہ میں  ہوں  میں  کیول/ایک کن

نیا شاعر لفظ ’’میں  ‘‘ پر اسی لیے زیادہ زور دیتا ہے تاکہ سماج میں  پھیلے اس یقین کو بدلا جاسکے کہ جہاں  فرد کی کوئی اہمیت نہیں  ہوتی بلکہ سماج میں  ہمیشہ جماعت کی اہمیت ہوتی ہے اور جماعت کے مسائل سے ہی تعلق ہونا چاہئے۔نئی شاعری نے اس فکر پر گہری چوٹ کی ہے اور اجتماعیت سے اوپر اٹھ کر لفظ میں  کے ذریعہ انفرادیت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سماج فرد کے بغیر مکمل نہیں  ہوسکتا۔ اسی لیے نئی ہندی شاعری کے شاعر لکشمی کانت ورما ، اگیہ،وجے دیو نارائن ساہی،بھارت بھوشن اگروال اور کنور نارائن وغیرہ نے ہمیشہ ترقی پسند تحریک کے خلاف بغاوت کی ہے۔بھارت بھوشن اگروال کی نظم مثال کے طور پر دیکھیں :

کوئی توڑو اپنا شبد جال،جو آج کھوکھلا شْنیہ ہوا/یہ ہے اپنے پرکھوں  کی پیھو،بھوگ مئی کلشت وانی/مدمت،ولاسنی!تیاگ اسے،بننا ہے تجھ کو تو اگو/یوگ کا،یوگ کی بھوکی،کمزور ہڈیوں  کا،جن کا پانی/ہے اٹھا کھول،گھر رہا وِشو پر گھٹا ٹوپ،بادل بن کر

نئی ہندی شاعری اپنے آپ میں  اصطلاحی سطح پر بالکل واضح ہے اور ہندی والوں  نے اسے قبول بھی کیا ہے اور اس پر کھل کر بحث بھی کی ہے، لیکن اردو کا مسئلہ ذرا مختلف ہے۔نقادوں  اور تخلیق کاروں  نے نئی اردو شاعری کی حد بندی ایک توتاخیر سے کی ہے اور دوسرے بیشتر لوگ اس بابت واضح نہیں  نظر آتے ہیں  ۔مرزا غالبؔ سے لے کر موجودہ عہد کی شاعری کے بیشتر ادوار کو نئی شاعری کی ابتدا اور محرک تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔وضاحت جہاں  سے نظر آتی ہے وہ ترقی پسند تحریک اور علامہ اقبال کا دور ہے۔ترقی پسند تحریک اپنے آپ میں  ایک تحریک ہے جس کااپنا مینی فیسٹو ہے ۔اس لیے اس تحریک کے زیر اثر لکھی گئی شاعری کی اپنی ایک شناخت ہے۔ اقبال کی شاعری کو کس طرح سے نئی اردو شاعری کے زمرے میں  رکھ سکتے ہیں  اس سلسلے میں  پروفیسر شمیم حنفی نے بہت تفصیل سے بحث کی ہے ۔ایک اقتباس ملاحظہ ہو بہت حد تک بحث کو سمجھنے میں  آسانی ہوگی۔لکھتے ہیں :

’’اقبال اس صدی کے پہلے شاعر ہیں  جن کے یہاں  نئے انسان کے ذہنی، سماجی،اخلاقی اور روحانی مسئلوں  کا احساس ملتا ہے۔ دوسری طرف اقبال کا رشتہ اپنی شعری روایت سے بھی بہت مستحکم ہے۔ گرچہ انہوں  نے اپنے بیشترمعاصرین کے برعکس روایت کو عادت کے طورپر قبول نہیں  کیا اور اپنی شاعری کو زبان و بیان اور خیال کے امتناعات سے آزاد کرکے روایت سے مربوط رکھنے کے باوجود ایک نیا تخلیقی اور ذہنی استعارہ بنادیا۔‘‘۸؎

ترقی پسند تحریک اور علامہ اقبال کے بعد اْردو شاعری میں  ایک اور قسم کی ندرت آتی ہے جسے صحیح معنوں  میں  ’’نئی شاعری‘‘ کی بنیاد تسلیم کیا جاسکتا ہے وہ حلقۂ ارباب ذوق‘‘ ہے۔ ۱۹۳۹ء میں  وجود پذیر اس تحریک نے شاعری کی دنیا میں  انقلاب برپا کردیا۔ میراجیؔ ن۔ م۔ راشد، قیوم نظرؔ ، ضیا جالندھری وغیرہ شعراء نے مل کر حلقے کے زیر اثر ترقی پسند تحریک کے مقابلے کھڑے ہوکر شاعری میں  موضوعاتی اور فنی سطح پر نیاپن پیدا کیا۔ اجتماعیت کی مخالفت میں  انفرادی کائنات کو اہمیت حاصل ہوئی اور فرائڈ و دیگر نفسیاتی فلاسفرز کے نظریات کی ترویج ہوئی۔ معریٰ اور آزاد نظموں  کے ساتھ غزلیہ شاعری میں  بھی وہی وطیرہ اختیار کیا گیا۔ حلقہ مسلسل ادبی دنیا میں  ترقی پسند تحریک سے برسرپیکار تھی، لیکن ترقی پسند تحریک کی آفاقیت اور سیاسی پشت پناہی کے سامنے محدود وسائل اور امکانات والی حلقہ زیاد ہ دیر تک مقابلہ نہیں  کرسکی۔ میراجی ، ن۔ م۔ راشت، قیوم نظر اور ضیا جالندھری وغیرہ کے بعد حلقہ کا اثر مندمل ہوگیا۔ لیکن ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق کی سرگرمیوں  اور ادبی تخلیقات نے نئی شاعری کے لیے راہ ضرور ہموار کی ہے۔ ہندی شاعری میں  نئی ہندی شاعری کی ابتدا اسی دور سے ہے۔ اْردو میں  نئی شاعری کا دور کب سے شروع ہوتا ہے اور کہاں  سے کہاں  تک کی شاعری کو اس میں  تسلیم کیا جاسکتا ہے اس بابت متعدد آرا موجود ہیں  لیکن ہر ایک کی بحث انہیں  باتوں  سے شروع ہوتی ہے کہ نئی اْردو شاعری کی ابتدا سرسید تحریک سے ہوئی ہے اور مسلسل اس کا سفر ۱۹۵۵ء تک جاری رہا ہے اور اس مدت تک آتے آتے شاعری نے کھلے طور سے ’’نئی‘ لفظ کو قبول کیا ہے اور نقادوں  نے نئی شاعری کی بحث کو مقام عطا کیا ہے جن میں  آل احمد سرور، عبادت بریلوی، شمس الرحمن فاروقی، خلیل الرحمن اعظمی، شمیم جنفی، مظفر جنفی، احمد محفوظ اور دیگر بہت سارے نقاد قابل ذکر ہیں ۔ نئی شاعری کی بحث میں  شمس الرحمن فاروقی کا رسالہ ’’شب خون‘‘اور احمد ندیم قاسمی کا رسالہ ’’فنون‘‘ لاہور کے قابل ذکر کارنامے ہیں ۔ ہندی میں  جس طرح سے ڈاکٹر جگدیش گپت کے رسالے ’’نئی شاعری‘‘ کی اہمیت ہے ٹھیک اسی طرح اْردو میں  ان دونوں  رسالوں  کی اہمیت مسلم ہے۔ ستر کی دہائی میں  ’’فنون‘‘نے جدید غزل نمبر کی اشاعت کرکے اس بحث کو اور آسان اور واضح کرنے کی بہت بڑی کوشش کی ہے جس میں  وہ کامیاب ہیں ۔ اس رسالے میں  نہ صرف انہوں  نے سید احتشام حسین، خورشید الاسلام، ممتاز حسین، خلیل الرحمن اعظمی، شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی اور سلیم اختر جیسے نقادوں  کے مضامین شامل کیے ہیں  بلکہ نئے شعراء کے منتخبات کو بھی شامل کیا ہے۔ اس کے بعد ’’فکروتحقیق‘‘ کے دو خاص شمارے ’’نئی غزل نمبر‘‘ اور ’’نئی نظم‘‘ نمبر اہمیت کے حامل ہیں  شمیم حنفی کی کتاب ’’جدیدیت اور نئی شاعری‘‘ اْردو تنقید میں  نئی اْردو شاعری کی تاریخ و روایت کے ساتھ اس کی فنی باریکیوں  کو سمجھنے میں  ممدو و معاون ہے۔ نئی شاعری کی حد بندی میں  مختلف طرح کی آرا دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں :

’’نئی شاعری سے میں  وہ شاعری مراد لیتا ہوں  جو بیسویں  صدی کی تیسری دہائی سے شروع ہوئی۔‘‘۹؎

بیسویں  صدی کی تیسری دہائی میں  ایک طرف رومانیت پسند شاعری کا دور تھا تو وہیں  حسرت، فانی، جگر، اصغر اور یگانہ کی سرپرستی میں  نو کلاسکیت کا دور چل رہا تھا۔ ان کے یہاں  ایک طرف تو کلاسیکی شاعری کا روایت سے ارتبا ط تھا تو وہیں  دوسری طرف نئے لفظیات و نئے آہنگ کی طرف بھی ان کے میلانات تھے۔ یگانہ ان میں  بالکل منفرد تھے۔ ان کی شاعری کو بہرطور سے نئی شاعری کا آغام قرار دیاجاسکتا ہے۔پروفیسر شمیم حنفی لکھتے ہیں :

’’نئی شاعری ترقی پسند تحریک کے ردعمل کا پتہ دیتی ہے۔ متعدد ایسے شعراء جو ترقی پسند تحریک کی پیش رو ادبی روایت سے الگ ہوکر اس تحریک میں  صرف اس لیے شامل ہوئے تھے کہ یہاں  انہیں  فکر و احساس کی تازہ کاری کے لیے بہتر فضا ملنے کی توقع تھی۔ رفتہ رفتہ اس تحریک کے سماجی اور اجتماعی مقاصد اور بڑی حد تک غیر ادبی طریق کار سے دل برداشتہ ہوکر اس سے الگ ہوگئے۔ اس طرح نئی شاعری کی روایت کا آغاز باغیانہ اقدام کی حد تک کم و بیش انہیں خطوط پر ہوا جو ترقی پسند تحریک نے اختیار کیے تھے ۔جو بات ان خطوط کو ایک دوسرے سے مختلف اور آزاد حیثیت عطا کرتی ہے وہ سمتوں  کا اختلاف ہے۔۱۰؎

بہت بے باکی سے شمیم حنفی نے نہ صرف نئی شاعری کا تعین زمانہ کیا ہے بلکہ نئی شاعری کو ترقی پسند تحریک کا منبع بھی قرار دیا ہے۔ جس طرح ترقی پسند تحریک باغیانہ طرز سے شروع ہوئی تھی اسی طرح نئی شاعری بھی ترقی پسند تحریک سے مخالفت اور طرز نو کے لیے شروع ہوئی۔ یہ زمانہ تقسیم ہند کے بعد کا زمانہ ہے اور ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد کا دور ہے۔ پروفیسر احمد محفوظ بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’بیسویں  صدی کی پانچویں  اور چھٹی دہائی میں  جب ترقی پسند ادبی تحریک کا زور ٹوٹنے لگا تو اْردو ادب میں  جس نئے رجحان کا آغاز ہوا اسے ہم جدید ادب یانیا ادب سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس رجحان کے زیراثر جو شاعری تخلیق ہوئی اسے جدید یا نئی شاعری کہا گیا۔ اسی زمانے میں  نئی نظم یا نئی غزَ ل کہنے کی ایسی فضا تیار ہوئی جس کے اثرات بہت دور تک دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘۱۱؎

شمیم حنفی نے صرف اشارتاً کہا تھا کہ نئی شاعری کی بنیاد ترقی پسند تحریک کے ردعمل میں  پڑی جبکہ یہاں  احمد محفوظ کے مطابق بیسویں  صدی کی پانچویں  اور چھٹی دہائی اس کی حد بندی ہے۔ یہی دور ترقی پسند تحریک کے زوال اور جدیدیت یا بقول احمد محفوظ نیا ادب کی ابتدا اسی دور سے ہے۔ شمیم حنفی، احمد محفوظ وغیرہ ظاہر سی بات ہے اپنے خیالات کو جدیدیت کی ابتدا سے منسلک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ شمس الرحمن فاروقی کا اس بابت کیا خیال ہے وہ اہمیت رکھتا ہے۔ رسالہ ’’فنون‘‘ کے اپنے مضمون ’’ہندوستان میں  نئی غزل‘‘ میں  لکھتے ہیں :

’’۔۔ٹی۔ ایس ایلیٹ نے ایک بڑی عمدہ بات کہی ہے کہ ہمارے عہد میں  شاعروں  کی نسلیں  کوئی بیس سال کی مدت میں  بدل جاتی ہیں ۔ ایسا نہیں  ہے کہ کسی شاعر کا بہترین تخلیقی زمانہ بیس ہی سال پر محیط ہوتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کے تقریباً اس مدت کے گذرنے پر شاعری کا کوئی نیا اسلوب پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شاعر پچاس برس کا ہو تو وہ اپنے آگے ستر برس کے شاعر کا کلام اور اپنے پیچھے تیس برس کے شاعر کا کلام دیکھ سکتا ہے۔ ایلیٹ کا خیال موجودہ دور کی اْردو شاعری پر بھی صادق آتا ہے کیونکہ ۱۹۳۶ء کے آس پاس شاعروں  کی ایک نسل ابھری اس کے بعد ۱۹۵۴ء کے آس پاس دوسری نسل سامنے آئی۔‘‘۱۲؎

۱۹۵۴ء کے بعد ہی جدیدیت کے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے شمس الرحمن فاروقی نے بیسویں  صدی میں  اْردو شاعری کی دوسری نسل بتایا ہے۔ اسی مضمون میں  آگے انہوں  نے اسی نسل کے شعراء کو نئی شاعری کے پیش رو کہا ہے۔

نئی شاعری کو عمومی معنی میں  نہ لے کر خصوصی رجحان یا تحریک کی شاعری اگر قرار دیا جائے تو جیسا کہ شمیم حنفی، شمس الرحمن فاروقی اور احمد محفوظ نے لکھا ہے کہ اس کا دور ساٹھ کی دہائی یعنی جدیدیت کا دور ہے۔ اْردو ادب میں  جدیدیت کی تحریک ساٹھ کی دہائی سے شروع ہوئی اور اب تک گامزن ہے۔ اس تحریک نے ادب میں  وجودی طرز فکر کو اختیار کیا اور ادب کو اصولی جکڑ بندیوں  سے آزاد کیا۔ جدید سائنسی اور ٹکنالوجیکل دور میں  مشینوں  کی ترقی سے انسان کی ذات جس طرح سے اس بھیڑ بھرے معاشرے میں  تنہا ہوگئی ہے اسی کی دریافت کا نام ہے جدیدیت۔ نئی شاعری نے اسی طرز کو اختیار کیا اور شاعری میں  لفظیات کا ایک نیا نظام مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ ہئیت، استعارہ سازی اور علامتی دنیا میں  نئے پن کا راستہ دکھایا جس کی وجہ سے نئی شاعری اور کلاسیکی اْردو شاعری میں  زمین و آسمان کا بعد نظر آتا ہے۔ نئی غزل کے چند اشعار کچھ نمائندہ شعرا کے اور چند نظمیں  نظم نگار شعرا کا اگر ہم دیکھیں  تو اندازہ ہوجائے گا کہ لفظیات و طرز ادا میں  کس قدر تبدیلی واقع ہو گئی ہے:

دشائیں  چھو رہی ہیں  آج مجھ سے

نکل کر خو د سے باہر آگیا ہوں

اب اس کا نام تک باقی نہیں  ہے

وہی جو جی رہا تھا میرے اندر

کمار پاشی

چہروں  کی دھند بجھنے لگی شام سے ظفرؔ

رنگ ہوائے شام کچھ ایسا ہی زرد ہے

روکو گے تو ہم کریں  گے دنگا

بن جائے گا بات کا بتنگا

کپڑے پہناؤں  کیا سخن کو

سر پر میرے آسماں  ہے ننگا

ظفر اقبال

عجیب رونا سسکنا نواح جاں  میں  ہے

یہ اور کون مرے ساتھ امتحاں  میں  ہے

کسی کے لوٹنے کی جب صدا سنی تو کھلا

کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی سفر میں  تھا

بانی

میرے حصے کی زمیں  بنجر تھی میں  واقف نہ تھا

بے سبب الزام میں  دیتا رہا برسات کو

شہریار

ان اشعار میں  وجودیت کی جو جھلک دکھائی دے رہی ہے وہ نئی شاعری کا خاصہ ہے۔ لفظ ’’میں ‘ اور درون ذاتی کسمپرسی کا بیان انسانی ذات و اپنے آپ میں  غائب ہوتا ہوا سمٹتا ہوا ہمیں  ان اشعار میں  دکھ جائے گا۔ ظفر اقبال کی لفظیات اور طرز بیان اپنی مثال آپ ہے اسی لیے نئی اْردو شاعری ہی نہیں  بلکہ اْردو شاعری کی تاریخ میں  تجربات کے یہ امام کہلائے جاتے ہیں ۔ لفظیات و علامات کی سطح پر انہوں  نے غیر معمولی تجربے کیے ہیں ۔ نئی غزلیہ شاعری اس طرح کے اشعار سے بھرپور ہے ۔قاری قدم قدم پر نئے طرز ادا اور طرز احساس سے دوچار ہوگا۔ غزل کے ساتھ ہی نظم میں  بھی ہمیں  یہی روش نظر آتی ہے۔ نئی نظم سے چند مثالیں  دیکھئے اندازہ لگ جائے گا کہ لفظ ’’میں ‘‘ یا دورن ذاتی غم کو یا اپنے اندر کے فرد کی داستان کس طرحسے سنائی جارہی ہے :

برہنہ پا تھا/برہنہ سر تھا/اٹھے ہوئے تھے فلک کی جانب/وہ ہاتھ جو کر چکے تھے طے فاصلے گریباں /کے چاک کے آخری حدوں  تک/دعا، مگر مجھ کو اس کی چشمِ الم میں  ہرگز نظر نہ آئی/نہ میں  نے اس نے/گناہ اورمعذرت کی کوئی جھلک ہی پائی

’’میں ‘‘ اور ضمیر’’وہ ‘‘یہاں  ایک ہی شخصیت کے دوچہروں  کی طرف اشارہ ہے۔ داخلی انسان اور خارجی انسان دونوں  ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں ۔ انسان دو حصوں  میں  تقسیم ہو گیا ہے۔مشینی دور میں  اسے ہر وقت اپنے وجود کی بقا کی فکر لاحق رہتی ہے۔نئی شاعری میں  شعراء نے اپنی نظموں  میں  اْسی موضوع کو اولیت پر رکھا ہے۔ عمیق حنفی کی نظم ہے ’’مشین زادوں  کی بستی میں ‘‘ ملاحظہ ہو:

شارع عام پر حادثہ ہو گیا/آدمی کٹ گیا/س کا سر پھٹ گیا/بھیڑ بہتی رہی/بات کرنے میں  جو تھے مگن/بات کرتے رہے/قہقہے چیخ کے پر کترتے رہے/اور اکثر جو خاموش تھے/چپ گذرتے رہے/آدمی مر گیا

اور ندا فاضلی کی نظم ’’مشین ‘‘ دیکھیں  جدید معاشرہ میں  پستے ہوئے انسان کی کربناک کہانی کو بیان کررہی ہے۔نئی شاعری نے جس طرح سے فرد کی ذات کو باہر لانے کا بیڑا اٹھایا تھا موضوعات کا انبوہ لگ گیا۔اور مشینی دور و مشین پر اس قدر شاعری ہوئی کہ یہ ایک علامت کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ ندا فاضلی کی نظم نئی شاعری کی آئینہ ہے:

مشین چل رہی ہیں /نیلے پیلے لوہے کی مشینوں  میں /ہزاروں  آہنی پرزے/مقرر حرکتوں  کے دائروں  میں /چلتے پھرتے ہیں /سحر سے شام تک پْرشور آوازیں  اگلتے ہیں /بڑا چھوٹا،ہر ایک پرزہ/کسا ہے کیل پینچوں  سے/ہزاروں  گھومتے پرزوں  کو اپنے پیٹ میں  ڈالے/مشینیں  سوچتی ہیں /چیختی ہیں /جنگ کرتی ہیں /مشینیں  چل رہی ہیں

تنہائی، شہر،بھیڑ، پرچھائیں ، مشین،سیلاب، ریت،اندھیری رات، شبِ چراغ،سائے،چہرہ کچھ ایسے لفظیات ہیں  جو نئی نظم میں  علامت کے طور پر استعمال ہوئے ہیں ۔ان نظموں  کی قرأت ہمیں  ہر موڑ پر اس نئے انسان سے روبرو کرواتا ہے جو مسلسل آگے تو بڑھ رہا ہے،لیکن پیچھے اپنی پہچان کھوتے بھی جارہا ہے۔اس کی ذات کہیں  ساحل پر پڑی اس ریت پر بنے ہوئے عکس کی مانند ہے جو لہروں  کے ذریعہ تباہ کردی جاتی ہے،مٹ جاتی ہے،اور مٹنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے وجود کو کھڑا کرنے کی تگ و دو میں  لگ جاتا ہے لیکن ابھی صحیح سے سنبھل بھی نہیں  پاتا کہ لہریں  پھر آجاتی ہیں  اور کمال کی بات ہے کہ فرد کو یہ بھی معلوم ہے کہ لہروں  کا مسلسل آنا مسلم ہے،لیکن یہ سوچ کر وہ اپنی ذات کو یوں  مٹنے اور فنا نہیں  ہونے دے گا۔نئی شاعری اسی المیے کی داستان ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نئی اْردو ہندی شاعری کا دور اگرچہ مختصرہے اور ابتدائی دور کے بارے میں  بہت کچھ ہمیں  پڑھنے کوملتا ہے لیکن جیسا کہ شمس الرحمن فاروقی نے ٹی۔ ایس۔ایلیٹ کا قول نقل کیا تھا کہ ہر بیس سال میں  ادبی نسلیں  بدل جاتی ہیں  لہذا یہ مان لیا جائے کہ بیس سال بعد نئی شاعری بھی ختم ہو گئی۔ایسا بالکل بھی نہیں  ہے۔نئی شاعری اصطلاحی طور پر ایک ایسی اصطلاح ہے جو لامحدود ہے۔ آج تک نئے نئے تجربات جاری ہیں ۔نئی اْردو ہندی شاعری دراصل ایک ہی دور کی پروردہ ہیں ۔ ہندی نے اس اصطلاح کو ابتداء میں  ہی اپنا لیا اور اْردو نے ساٹھ کی دہائی میں  جدیدیت کے زیر اثر اپنایا۔ شمس الرحمن فاروقی نے جہاں  رسالہ ’’شب خون‘‘ جاری کیا وہیں  ہندی میں  ڈاکٹر جگدیش گپت نے ’’نئی کویتا‘‘ نامی رسالہ جاری کیا۔ ۱۹۵۵ء دونوں  زبانوں  میں  نئی شاعری کے آغاز کا زمانہ ہے لیکن ہندی اور اْردو دونوں  زبانوں  کے نقاد بیسویں  صدی کی ابتدا سے ہی نئی شاعری کا دور تسلیم کرتے ہیں ۔ہندی میں  چھایا واد،پرگتی واد،پریوگ واد اور پھر نئی کویتا کا دور ہوتا ہے تو وہیں  اْردو میں  نظم جدید کی تحریک،رومانیت، ترقی پسندی،حلقۂ ارباب ذوق، دور اقبال اور جدیدیت سے لے کر مابعد جدیدیت تک اس کا دور پھیلا ہوا ہے۔

٭٭٭٭٭

۱۔آدھونکتا،نئی کویتا، سمسیا اور سمادھان کیدارناتھ اگروال ص۔۴۴

۲۔نئی کویتا سوروپ اور سمسیائیں ڈاکٹر جگدیش گپت ص ۔۱۹۳

۳۔سم کالین کویتا کی بھومیکاڈاکٹروشمبھر اپادھیائے اور منجلاپادھیائے ص ۔۴۔۳

۴۔کویتا کے نئے پریتمان پروفیسر نامور سنگھ ص ۔۹۵

۵۔نئی کویتا نئے دھراتل ڈاکٹر ہری چرن شرما ص ۔۳۹

۶۔آدھونک ساہیتہ کی پرورتیاں پروفیسر نامور سنگھ ص ۔۱۱۶

۷۔نئی کویتا سورو پ اور سمسیائیں ڈاکٹر جگدیش گپت ص ۔۲۶

۸۔جدیدیت اور نئی شاعری پروفیسر شمیم حنفی، ص ۔۳۱۶

۹۔جدیدیت تفہیم و تجزیہ مرتب مظفرحنفی ا ٓ ل احمد سرور، ص ۔۱۳

۱۰۔غزل کا نیا منظر نامہ شمیم حنفی، ص ۔۲۰

۱۱۔رسالہ فکر و تحقیق (نئی غزل نمبر،(جنوری تا مارچ ۲۰۱۳)مضمون نگاراحمد محفوظ، ص ۔۸۷

۱۲۔رسالہ فنون لاہور (جدید غزل نمبر۔جنوری ۱۹۶۹ء)مضمون نگارشمس الرحمن فاروقی، ص ۔۳۸۔۱۳۷

****

علیم اللہ

ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی

Mob:8791755950

email:alim.khan138@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.