حقیقت کے لسانی تصور کا بیانیہ (اسد محمد خاں کے افسانوں کی روشنی میں)

افسانے میں تشکیل دیئے واقعات کے متعلق اب یہ تصور عام ہواہے کہ متن میں موجود واقعہ کا حقیقی یا خارجی ہونا شرط نہیں بلکہ افسانے کا بیانیہ خود واقعہ کو تشکیل دیتا ہے۔ اس لئے متن میں بیان کردہ واقعہ خارجی صداقت کی پابندی سے آزاد ہوتا۔ یعنی افسانہ میں بیان کردہ واقعہ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ خارج میں وقوع کسی حقیقی واقعہ سے مربوط ہو بلکہ افسانے کا بیانیہ خود واقعہ کوسبب اور نتیجے کی اس منطق پر تشکیل دیتا ہے کہ اس پر خارجی/حقیقی واقعہ کا التباس ہونے لگتا ہے۔ اگر متن میں شامل واقعہ کا ربط خارج میں وقوع کسی واقعہ سے ہے تب بھی متن میں بیان کردہ واقعہ حقیقی واقعہ کا بیان یا نقل نہیں ہوتا بلکہ بیانیہ کا تشکیل دیا ہوا  ہوتا ہے۔ اس تصور سے افسانے میں جو سب سے بڑی تبدیلی آئی کہ حقیقت نگاری کا وہ تصور جو پریم چند یا ترقی پسندوں کے زمانے میں رائج تھا کہ افسانہ حقیقی واقعہ کا صرف بیان/ نقل ہوتا ہے، تبدیل ہو گیا اور حقیقت نگاری کا ایک نیا تصور ہمارے سامنے ابھر کر آیا کہ افسانے کی حقیقت پسندی خارج میں موجود کسی واقعے یا حادثے کی نقل نہیں بلکہ خود بیانیہ کا عمل ہے۔

اس تبدیلی کے سبب ہمارے افسانہ نگاروں نے کہانی کی تشکیل کے لیے ایسا اسلوب اختیار کیا جس میں صرف کہانی نقل کرنے کی بجائے، کہانی بیان کرنے کے طریقہ کار کو بھی اپنے پیش نظر رکھا اور جگہ جگہ افسانے میں قاری کو یہ احساس بھی دلایا کہ وہ کوئی حقیقی واقعہ نقل نہیں کر رہا بلکہ ایک کہانی تشکیل دے رہا ہے۔

 اردو میں بیانیہ کے اس طرزِ اظہار پر مبنی افسانوں کی تعداد بہت کم ہے، لیکن اسد محمد خاںکے یہاں ایسے کئی افسانے ملتے ہیں جو اس تصور کی عمدہ مثالیں ہیں۔

m

اسدمحمدخاں بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ ان کی کہانیاں موضوعات کے تنوع، نئے طرز احساس اور اظہار کے ایک نئے اسلوب کے سبب اپنے معاصرین میں ممتاز ہیں۔ان کی کہانیوں میں انسانی تجربے کے بعض بالکل نئے علاقوں کی دریافت کا منظر سامنے آیا ہے۔ موضوعات کے انتخاب سے لے کر ان کی پیش کش کے طریقوں اور فنی تکنیک سب کچھ اسدمحمدخاں کی تخلیقی شعور اور ان کے تجربات میں تنوع کی آئینہ دار ہیں۔

حقیقت نگاری کے جس تصور کا ذکر درج بالا سطور میں پیش کیا گیا ہے اگر اس کی روشنی میں ہم اسد محمد خاں کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو کئی افسانے نظر آتے ہیں مثلاً نربدا، ایک سنجیدہ ڈی ٹیکٹیو اسٹوری، داستان سرائے، ایک میٹھے دن کا انت، ہٹلر شیر کا بچہ، جانی میاں اور اَلّی گجرکی کہانی ،جو اس تصور کا عملی بیان ہیں۔

افسانہ ’نربدا‘ اسدمحمدخاں کے شاہ کار افسانوں میںسے ایک ہے۔ یہ ایک مابعد جدید طرز پر تعمیر کی گئی کہانی ہے۔ افسانہ نگار نے افسانے کے پیش منظر میں ہی افسانہ تعمیر کرنے کی تکنیک کی وضاحت کردی ہے کہ یہ کہانی کس طرح بُنی جائے گی۔ گویا افسانہ نگار بالکل شروع ہی میں یہ وضاحت کردیتا ہے کہ وہ کوئی ’سچا واقعہ‘ وغیرہ نہیں بیان کررہا بلکہ ایک افسانہ تعمیر کررہا ہے۔

افسانے کا بیانیہ ہمہ داں راوی کے اس بیان سے شروع ہوتا ہے:

’’ابھی کوئی کہتا تھا کہ ساونت اور دلاور ختم ہوتے جارہے ہیں…… اور اگر کہیں ان کا ذکرملتا ہے تو افسانوں کہانیوں میں… چلیے یوں ہی سہی۔ ذکر کرنے میں تو کچھ نہیں جاتا۔ اس لیے آئیے ذکر کرتے ہیں ساونتوں کا۔ ایک کہانی جوڑتے ہیں۔

تو پہلے اس کا ڈھانچہ کھڑا کرلیا جائے۔ زمانہ، جگہیں، لوگ

زمانہ؟ وہی جو مجھے کہانیاں سنانے کے لیے اچھا لگتا ہے  — Sur Interregnum — بلکہ خود فرید خان شیرشاہ سوری کی بادشاہت کے ساڑھے چار برس……

جگہیں؟ جگہوں میں دریا، پہاڑ، مسطّح میدان، چھوٹی بستیاں گاؤں…… تو لیجئے دریا…… میرے پرکھوں کا اپنایا ہوا دریا نربدا (نربدا میا)

اور پہاڑ؟ سست پڑا، یا پھر سموچا وندھیاچل (جے وندھیاچل!)

اور بستی مانڈو… اور ایک چھوٹا سا گاؤں تل ونڈی… او رلوگ؟ دو راجپوت باپ بیٹے،… کنور بکرم نارنگ سنگھ اوجینی اور کنور بکرم سارنگ سنگھ اوجینی اور ایک نوعمر لڑکی، …… چار حرامزادے ٹھگ اوربہت سے پٹے پٹائے محروم لوگ اور صاحب ثروت بااختیار لوگوں کے بے اختیار Lackeysاور زرخرید پنڈے اور جی حضوریے اور دوسرے حشرات الارض۔‘‘  ۱؎

مذکورہ اقتباس کے مطالعے سے درج ذیل باتیںبالکل واضح ہیں:

۱۔ افسانہ نگار کوئی سچا واقعہ نہیں سنارہابلکہ کہانی بیان کر رہا ہے۔

 ۲۔ راوی اپنے قاری کو یہ بھی بتاتا جاتا ہے کہ وہ یہ کہانی کیسے تشکیل دے گا۔گویا افسانے کے واقعات صرف بیان نہیں کیے جا رہے بلکہ ساتھ ہی ان کے طرز تشکیل کی بھی وضاحت کی جا رہی ہے۔

۳۔ افسانے کی تعمیر کے لیے کن کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً کرداریعنی لوگ، زمانہ یعنی واقعات کے وقوع کا زمانہ اور جگہیں یعنی وہ افسانوی مکان جس میں واقعات قائم کیے جائیں گے وغیرہ، سب کا تعین پہلے ہی کر دیا گیا ہے۔

اس طرح بیانیہ کی تشکیل کے متعلق راوی کا نقطۂ نظر اور اس کی ترجیحات صاف نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ تصور بھی روشن ہوتا ہے کہ اس افسانے کی تعمیر کا طریقہ وہ نہیں جو روایتی حقیقت نگاری (ترقی پسندی یا اس سے پہلے کے افسانے) یا جدید افسانوں کا تھا۔

اسد محمد خاںابتدا ہی میں افسانے کے طرز وجودکے متعلق اپنے قاری کو بتانے کے بعد، واحد غائب راوی کی زبانی متعین کردہ کرداروں کے ذریعے واقعات تشکیل دیتے ہیں کہ تینوں کردار بیل گاڑی پر سوار نربدا دریا پار کرکے تلونڈی میں رکیں گے اور آگے گئے تو شمال کی طرف مانڈو تک جائیں گے۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے افسانے کی ابتدا میں ہی اختتامیہ کا تعین بھی کر دیاہے ۔ یعنی کہ افسانے کے یہ کردار تلونڈی گاؤں یا پھر مانڈو تک جائیں گے اور یہاں جاکر کہانی مکمل ہو گی ۔ اس سے افسانے کے طرز وجود کے متعلق ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ اس افسانے کے دو اختتام ممکن ہیں۔افسانے کی تعمیر کا یہ طریقہ قاری کو حیرت میں ڈال دیتا ہے کیوں کہ افسانے کے بیان کا ایسا طریقہ اردو میں نہ تو پریم چند کے زمانے میں تھا اور نہ بعد میں کہیں نظر آتا ہے۔

افسانہ’نربدا‘ کے اس مطالعہ سے یہ صاف ظاہر ہے کہ افسانہ نگار روایتی طرز بیان کی بجائے اپنی شعوری کوشش سے افسانے کے طرزِ وجود یعنی تحریری صفات کی روشنی میں افسانہ تخلیق کر رہا ہے۔ قاضی افضال حسین لکھتے ہیں:

’’اس کے بعدافسانے میں حقیقت نگاری کا وہ کھیل شروع ہوتا ہے جس میں ہر حقیقت افسانہ نگار کی ایجاد ہوتی ہے اور ہونے اور نہ ہونے کے درمیان قائم ہونے کے سبب حقیقت پسند نقادیہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ وہ اس افسانے کے ابتدائی پیراگراف کا کیا کرے اور مابعد جدید قاری یہ نہیں جانتا کہ وہ افسانے کے بقیہ حصے سے کیا معاملہ کرے۔‘‘ ۲؎

افسانے کا بیانیہ کرداروں کے مکالموں اور راوی کے بیان سے آگے بڑھتا ہے۔ افسانے کے تینوں کردار راستے میں ایک جگہ رک کر کھانا کھاتے ہیں اور پھر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔

بٹ ماروں سے مٹھ بھیڑ کے بعد تینوں مرکزی کردار دریا کے پاس پہنچتے ہیں جہاں انہیں تلونڈی گاؤں کا ایک لڑکا کشتی کی اوٹ لیے پانی میں کھڑا نظر آتا ہے۔اس کے بعد راوی واقعات کا بیان روک کر تشکیل متن کے حوالے سے قاری سے مخاطب ہوتا ہے :

’’کہانی کا Immediatelyآگے کا حصہ روٹین اور mundaneہوگا اور شاید اس لیے غیر دلچسپ ہوجائے گا اگر ہم یہ سوچنے بیٹھیں گے کہ انھوں نے رکھشکوں کی لاشوں کا کیا کیا ہوگا؟ رکھشک کب کے مرے پڑے تھے؟ یا ہمارے لوگ دریا پار کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے۔‘‘ ۳؎

گویا راوی یہ بتاتا ہوا چل رہا ہے کہ پلاٹ کی تعمیر کے لیے اسے کون سے واقعات منتخب کرنے ہیں اور کون سے چھوڑ دینے ہیں۔ یہاں اگر دیکھیں تو افسانے کے implied readerکا بھی علم ہوتا ہے۔ جسے افسانہ نگار نے اس افسانے کے ساتھ ہی تشکیل دیا ہے۔

پھر راوی کا بیانیہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ تینوں مرکزی کردار بچے کے ساتھ تلونڈی گاؤں پہنچتے ہیں۔ راستے میں بچہ انہیں جو کچھ اپنے متعلق بتلاتا ہے راوی اسے اپنی زبان میں بیان کرتے ہوئے قاری تک پہنچاتا ہے۔ گویا افسانہ نگار نے بچہ اورکرداروں کے درمیان ہوئے مکالمے اوروہ تمام واقعات و تفصیلات، ان کرداروں کے گھاٹ پر پہنچنے سے پہلے وہاں ہوئے ،ان سب کے زمانی وقفے کو سمٹتے ہوئے راوی کی زبان سے بیان کر دیا۔ اس کا سبب بھی مذکورہ بالا اقتباس کے ذریعے افسانے میں بیان کر دیا ہے۔

اس کے بعد افسانے کا بیانیہ گاؤں کے سرپنچ اور بوڑھے راجپوت کے درمیان مکالمے سے آگے بڑھتا ہے۔ گاؤں کا ہی ایک بزرگ ٹھاکر نارنگ سے یہ کہتا ہے کہ لڑکے کی ماں لکچھمی نے چوں کہ ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی اس لیے گاؤں کے لوگ بٹ ماروں سے بچانے کے لیے آگے نہیں آئے۔

افسانے کے آخری حصے میں بوڑھا نارنگ سنگھ بساطی کے لڑکے کو لے کر گاؤں کے بڑے کوئیں پر جاتا ہے جہاں نچلی ذات کے لوگوں کا آنا ممنوع تھا۔ ٹھاکر وہاں کنوئیں کے چبوترے پر بیٹھ کر بساطی کے لڑکے کے ساتھ ناشتہ کرتا ہے اور گاؤں کے نچلی جاتی کے کچھ لوگ بوڑھے ٹھاکر کو عقیدت کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں۔

 اس جگہ پہنچ کر افسانہ کا موضوع قاری پر پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ راوی انسانیت و انسان دوستی کو دنیا کی تما م چیزوں پر فوقیت دیتا ہے۔ گویا انسان دوستی کی یہ شجاعت تمام مذاہب سے بڑامذہب اور قابل احترام ہے۔

لیکن ایک سنجیدہ قاری افسانے کا اختتامیہ پڑھ کر اس تذبذب میں گرفتار ہو جاتا ہے کہ اب وہ افسانے کے ان حصوں کا کیا کرے جو افسانے کی تعمیر کے حوالے سے ابتدا اورافسانے کے درمیان وقفے وقفے سے تشکیل دیئے گئے ہیں کیوں کہ اگر انہیں متن سے خارج کر دیا جائے تب بھی یہ افسانہ پوری طرح مکمل نظر آتا ہے۔

افسانہ ’ایک سنجیدہ ڈی ٹیکٹیواسٹوری‘ کا راوی بھی ہمہ موجود ہے۔ عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ یہ ایک جاسوسی طرز کی کہانی ہے۔ یہ افسانہ ایک تاریخی پس منظر میں تعمیر کیا گیا ہے۔ کہانی کی ابتداء صیغۂ ماضی میںراوی کے اس بیان سے ہوتی ہے:

’’دریاخان حجاب دار پرانے وفاداروں میں سے تھا۔ وہ اقامتِ گاہ سلطانی کے قریب کہیں رہتا تھا… دریاخان کے لباس، اس کی تلوار کے مرصع نیام یا دستار کے جواہر نگار چیغے پر جس بھی رہگیر کی نظر پڑتی یا جو بھی گاڑی بان اس کی پرتکلف چال، سرخ و سپید رنگت اور بارعب چہرے کی جھلک دیکھ لیتا وہ حیران اور مرعوب ہوکر راہ دے دیتا۔‘‘۴؎

مذکورہ بیان تاریخ کے ایک خاص عہد کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ ایک قدیم اسلوب کودوبارہ استعمال کیا ہے اور تعمیرِواقعہ کو حقیقت نگاری کی سطح پر قائم کرنے کے تمام رائج طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔

اس کے بعد افسانے کا بیانیہ جاسوسی طریقہ کار سے آگے بڑھتا ہے بلکہ اسے اس صنف کے اصولوں کے مطابق ہی برتا گیا ہے، کہ دریاخان پرتگالی طبیب افانزو اور اس کے ساتھی کا تعاقب کرتے ہوئے اس سامری کے مکان میں پہنچتا ہے جو شیطانی دوائیں تیار کرتا ہے۔ دریاخان کو سامری کے کارندے پکڑ کر اس کے سامنے لے جاتے ہیں۔ یہاں دریاخان سامری کے سازش کا شکار ہوجاتا ہے اور خود اپنے ہی ہم رتبہ دبیر دولت شادی خان کو مارنے کی تدبیر سوچنے لگتا ہے۔

لیکن افسانے کے آخری دو اقتباس میں راوی خود ہی اپنے حقیقت پسندانہ اسلوب میں تشکیل دیے گئے بیانیہ کو رد کردیتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے مرکزی کردار دریاخان کے متعلق راوی کے یہ بیانات ملاحظہ ہوں:

’’روز مرہ کے مفید کاموں میں مصروف ان سادہ، محنتی لوگوں کو اپنی موجودگی سے اس طرح ٹوکنا دریاخان کو اچھا نہ لگا………‘‘

’’……جس شہر میں سلطان یاسلطانہ موجود ہوں، وہاں دیوان شرط کی ذمے داریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ بات مملکت کے میرتوزک اور دربار کے حجاب دار (یہ دونوں عہدے دریاخان کے پاس تھے) سے زیادہ اچھا کون جانتا ہوگا۔‘‘۵؎

’’……خان چڑ گیا کہنے لگا، ’نیک بخت! بے کار باتیں نہ بنا میںملک التجار نہیں، سپاہی ہوں۔ غلط کاروں کی گرفت کرنے کا فوری اور سادہ طریقہ اختیار کرتا ہوں۔ یعنی گھیر کے اور تلوارکے ذریعے۔‘‘۶؎

اس کے بعد اب افسانے کا یہ اختتام ملاحظہ ہو:

’’مگر فی الاصل یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ دریاخان ہیولے تک آپہنچا تھا۔ اس تاریک کمرے کے مماثل ایک تاریک کمرہ اور تھا جس میں عین مین اس ہیولے کا ہم شکل ایک سایہ کرسی میں ٹانگیں پھیلائے بیٹھا چہچہارہا تھا اور اپنے عالی قدر مہمان دبیر دولت شادی خان فرملی کو سامنے بٹھائے عرض کرتا تھا کہ بندہ نواز غور کیا جائے کہ حجاب دار دریاخان سے…… نجات حاصل کرنے کے لیے کیا حکمت وضع کی جاسکتی ہے؟

اور ایسے ہی ایک اور تاریک کمرے، ایک فراخ کرسی میں ٹانگیں پھیلائے بیٹھا، ایسا ہی ایک اور ہیولا خوشامد میں چہچہارہا تھا اور دریااور شادی سے کہیں زیادہ عالی منزلت ایک نرتاج دار (یا شاید وہ مادہ تھی) کو آمادہ کررہا تھا کہ رعایا پر گرفت رکھنے کے لیے کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ بعض عمائد مملکت کو عطر اور لباس کے تحائف دئیے جائیں؟ یا برتنوں کے تحفے؟ اور مواصلت کے لیے بہ حکمت تیار کی گئی ناکتخدا عورتوں کے تحفے؟ کس لیے کہ ان اشیاء سے متعلق حکمت اس خانہ زاد کے پاس فی الوقت موجود ہے۔‘‘۷؎

مذکورہ پہلے اقتباس میں دریاخان کی شخصیت کے متعلق راوی کا بیان اور اختتامیہ میں اس بات کا انکشاف کہ دریاخان اتفاق سے نہیں بلکہ خود چل کر ہیولے کے پاس آیا تھا، ایک دوسرے سے تضاد پر قائم ہیں۔ پروفیسر قاضی افضال حسین لکھتے ہیں:

’’پوری کہانی کا اسلوب حقیقت پسندانہ ہے لیکن افسانے کے آخری دو پیراگراف حقیقت نگاری کی زمین پر مضبوطی سے قائم اس بیانیہ کی پوری جدلیات رد کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘۸؎

 غور سے اگر افسانے کا مطالعہ کیا جائے تو راوی کے نقطۂ نظر و اس کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار اپنے موضوع کو روشن کرنے کے لیے راوی سے یہ کام لیتا ہے۔ بیانیہ میں اسی تضاد کی وجہ سے افسانے میںمعنی قائم ہوتے ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ کہ حقیقت نگاری یعنی سبب اور نتیجے کی منطق پر قائم بیانیہ جو واقعے کی روداد سنا رہا تھا یعنی کہ زبان جوصرف واقعہ بیان کرنے کا فریضہ انجام دے رہی تھی اختتام تک پہنچتے پہنچتے واقعہ تعمیر کرنے کا فرض انجام دینے لگتی ہے۔ اس طرح اپنے روایتی مفہوم سے محروم ہوکر یہ پوری کہانی خارج میں وقوع پذیر کوئی واقعہ بیان کرنے کے بجائے خود اپنی تعمیر کے سلیقے پر تبصرے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔‘‘۹؎

اس طرح کا افسانوی متن تشکیل دینے کے لیے واحد غائب راوی سے بہتر دوسرا کوئی راوی نہیں ہوسکتا تھا۔ کیوں کہ افسانے کے اختتامیہ میں راوی کو جس طرح کی آزادی چاہیے تھی وہ صرف ہمہ جہت راوی کے اختیار میں تھی۔ اب یہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ اسدمحمدخاں تشکیل متن کے مختلف طریقوں میں راوی کے کردار سے کام لینے کا ہنر جانتے ہیں۔اور اسے جس خوش اسلوبی سے استعمال کرتے ہیں وہ فنّ افسانہ نگاری پر ان کی بے مثال گرفت کا ثبوت ہیں۔

افسانہ ’داستان سرائے‘ اسد محمد خاں کے افسانوی مجموعہ ’نربدا‘ میں شامل ہے۔ یہ ایک ساتھ دو کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ پہلی کہانی کا پلاٹ اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ ایک شادی شدہ جوڑا اپنے ہنی مون کے لیے ایک ہوٹل میں آتا ہے۔ اس ہوٹل کا نام ’داستان سرائے‘ ہے۔ سرائے کی مالکن، لڑکی سے بتاتی ہے کہ اس سرائے کا نام داستان سرائے کیوں ہے۔ عورت، لڑکی کو ایک شہزادے کی ادھوری کہانی سناتی ہے، جو کسی لڑکی کو یہاں ملا تھا۔ اس کے بعد مالکن، لڑکی سے یہ کہہ کر چلی جاتی ہے کہ آگے کی کہانی خود مکمل کرلے۔

لڑکی اپنے شوہر سے یہ بات کہتی ہے کہ ہوٹل کی مالکن نے ایک نامکمل کہانی سنائی ہے اور یہ کہہ کر گئی ہے کہ آگے کی کہانی خود مکمل کرلو۔اس کے بعد دونوں میاں بیوی باری باری سے کہانی مکمل کرتے ہیں۔ مرد کہانی بیان کرنے سے پہلے پوچھتا ہے کہ شہزادہ نے راستے میں خواب دیکھا تھا۔ تو لڑکی کے جواب پر مرد کہتا ہے:

’’شہزادے خواب نہیں دیکھتے ہیں۔ اس کہانی والے آدمی کو شہزادہ نہیںملکُالتجار بناؤ، ہاں… اچھا پختہ عمر، پکے ارادوں کا ایک ٹائیکون… تجربہ کار ملک التجار۔‘‘۱۰؎

اس کے بعد مرد اپنے نقطۂ نظر سے کہانی مکمل کرتا ہے کہ اس کا منیجر بہت سارے تحفے، تحائف لے کر لڑکی کے بھائیوں کے پاس جاتا ہے اور شادی طے ہوجاتی ہے وغیرہ۔ پلاٹ کے آخری حصے میں لڑکی نامکمل کہانی کو پورا کرتی ہے:

’’اب لڑکی دریچے کے پاس کھڑی تھی، اس نے سامنے اندھیرے میں اشارہ کیا۔ حقارت سے بولی، ’’وہ تحفے تحائف؟… وہ نسلی جانور انھوں نے ذبح کرکے وہاں کھائی میں پھینک دئیے… جہاں اس وقت اندھیرے میں مور گھومتے پھر رہے ہیں۔‘‘

بڑی عمر کے مرد کی جیسے چیخ نکل گئی۔ ’’ واہ ایسا کب ہوتا ہے۔ نہ نہ نہ بئی۔‘‘ وہ کڑوے پن سے مسکرائی، ’’نہ نہ کیوں؟ کہانی اب میری ہے، میں جیسی چاہوں گی بناؤں گی، تم بیچ میں مت بولو۔‘‘ ۱۱؎

تاجر اور اس کی بیوی کی مکمل کی ہوئی یہ کہانیاں بالکل واضح طور پر یہ اعلان کرتی ہیں کہ کہانی ہمیشہ اپنے راوی کے نقطۂ نظر کی پابند ہوتی ہے۔تاجر کہانی کے شہزادہ کو پہلے تاجر میں تبدیل کرلیتا ہے اور پھر کہانی مکمل کرتا ہے، جبکہ لڑکی شہزادی کو پہلے ’اسکول ٹیچر‘ میں بدل لیتی ہے اورپھر کہانی مکمل کرتی ہے۔ کہانی میں بیان کیا گیا تصور یہ ہے کہ کہانیاں ہمیشہ راوی کے تجربے/ نقطۂ نظر سے ہی لکھی جاتی ہیں۔

یہاں جو بات کہنے کی ہے وہ یہ کہ افسانے کے اختتام پر قاری کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ افسانہ خارج میں موجود کسی واقعہ یا خیال کے مادی دنیا میں موجود کسی تصور پر تشکیل نہیں دیا گیا ہے بلکہ خود یہ افسانے کی تعمیر کے حوالے سے گفتگو کر رہا ہے۔

افسانہ ’اک میٹھے دن کا انت‘ مجموعہ ’نربدا‘ میں شامل ہے۔ یہ افسانہ طوائفوں کی روزانہ زندگی کا خاکہ ہے،جو اس کوٹھے کی مالکن ددّی کے انتقال کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک دن نہیں بلکہ ایک خاص زمانے تک روزانہ معمولات کانہایت عمدہ بیان ہے۔

افسانہ ’نربدا‘ کی طرح اسد محمد خاں نے اس افسانے کی ابتدا بھی روایتی افسانوں (حقیقت پسند افسانہ) سے الگ نہج پر قائم کی ہے۔ افسانے کی ابتدا اس بیان سے ہوتی ہے:

’’وقت لوگوں کو بدل سکتا ہے۔۔۔۔۔بدل دیتا ہے۔

اس نے میری کہانی کے لوگوں کو، جنھیں میں سن ساٹھ سے جانتا ہوں، ویسا نہ رہنے دیا جیسا میں انھیں جانتا تھا۔ بدل کے رکھ دیا، یا انھیں مار دیا، یا ختم کردیا۔‘‘۱۲؎

مذکورہ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگار گذشتہ زمانے کے کسی واقعہ کا بیان کرنے جا رہا ہے بلکہ وہ اس واقعے کے کرداروں کے متعلق قاری کو بتا رہا ہے جنہیں وقت نے بدل دیا۔ گویا کہانی بیان کرنے سے پہلے ہی افسانہ نگار نے کہانی کے کرداروں کی اطلاع اور کہانی کے اختتام کے متعلق بتا دیا ہے۔

اس کے بعدایک ایک کرکے راوی کہانی کے کرداروں سے قاری کو متعارف کراتا ہے اور اختصار میں یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ سب پہلے کیا تھے اور اب کس حال میں ہیں۔مثلاً مرامردار ماشٹرجو طوائفوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا، جانی خاں سارنگی نواز جو سارنگی بجانا سکھاتے تھے، بے بی نگینہ اور رانی خانم مالیر کوٹلے والی یعنی ددی کے کوٹھے پر رہتی تھیںاور رفیق فی کے اس کوٹھے پر کام کرتا تھا۔ اس پورے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگار خارج میں موجود ان کرداروں پر گزرے ہوئے واقعات کا بیان کرنے جا رہا ہے جو کہ حقیقت نگاری کا روایتی تصور ہے۔

اس کے بعد راوی کا یہ بیان دیکھیں :

’’تو وقت نے جنھیں میں جانتا ہوں انھیں بدل کے رکھ دیا، وقت نے۔۔۔۔۔یا ماردیا۔۔۔۔یا ختم کردیا۔

اب بس یہ ہے کہ میں انھیں ری کال کر سکتا ہوں۔ اپنی کہانی میں کہیں سے تلاش کرکے لا سکتا ہوں۔ لمڈے رفیق فی کے کو، بے بی نگینہ کو، خانم مالیر کوٹلے والی کو، جسے سب ددی کہتے تھے، جس کے بالاخانے پہ وہ سب جماؤ رہتا تھا۔

سو اب میں اس وقت کو ری کال کرتا ہوں، اپنی کہانی میں:

اور میں آواز سے شروع کرتا ہوں۔۔۔۔پانی گرنے کی آواز سے۔‘‘ ۱۳ ؎

مذکورہ بیان سے صاف ظاہر ہے کہ افسانہ نگار کوئی سچا واقعہ سنانے نہیں جا رہا بلکہ ان کرداروں کی مدد سے وہ ایک افسانہ تشکیل دینے جا رہا ہے، جس کی تصدیق مذکورہ بالا اقتباس کے اس بیان سے کی جا سکتی ہے کہ ’’میں انھیں ری کال کر سکتا ہوں۔ اپنی کہانی میں کہیں سے تلاش کرکے لا سکتا ہوں۔‘‘ اس بیان سے ایک اور بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ بہت سے واقعات خارج میں موجود ہوتے ہیں لیکن وہ بامعنی اسی وقت بنتے ہیں جب وہ افسانے میں تشکیل دئیے جاتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کے لیے افسانے کے آخری اقتباس پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں افسانہ نگار’’ ددّی ‘‘ کی موت  کے بعد کرداروں کے احوال بیان کرتا ہے اور لکھتاہے:

’’تو ایسا ہی ایک فضول سا بے توقیر انجام کہانی کے بیشتر لوگوں کو نصیب ہوگاکہ آں قدح بشکست وآں ساقی نماند۔۔۔

مسئلہ یہ ہے کہ میں ان عام سے مگر غیر معمولی اور من موہنے لوگوں کو کوئی گرینڈ فنالے (Grand finale) دینا چاہتا تھا۔‘‘۱۴؎

تو وہ اہمیت و معنویت جو ان کرداروں کو اس افسانے میں حاصل ہے حقیقت میں وہ متن سے باہر کہیں بھی نظر نہیں آتی۔

لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ راوی نے جن کرداروں کا بیان افسانے میں کیا ہے ان کی معنویت صرف افسانے کے متن میں ہی قائم ہو سکتی ہے نہ کہ ورائے متن کسی معروض یا تصور سے انہیں منسلک کرکے۔ گویا یہ افسانہ ان کرداروں کو ایک تعمیر اور متن سے نمو کرنے والی بافت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس سے حقیقت نگاری سے مخصوص تصورِ معنی، جس میں متن کا مدلول متن سے باہر کوئی معروض یا تصور ہے، معطل ہو جاتا ہے اور معنی کی وہ سطح قائم ہوتی ہے جس میں متن کا حوالہ (Referent) خود ایک متن ہوگا۔

اس کے علاوہ افسانے میں ’وقت‘ کو جو راوی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے حاوی کردار ہے جس نے اس کی کہانی کے کرداروں کو بغیر اس کی اجازت کے تبدیل کر دیا ہے۔ جیسا کہ افسانے کے آخر میں راوی کا یہ بیان ’’کہ وقت جو اس کہانی کا (اور ہر کہانی کا) ایک حاوی کردار ہے۔۔۔۔۔کہ اپنے سوا کسی کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے۔‘‘ گویا کہانی کے کرداروں کا جو حال ہے وہ وقت کی وجہ سے ہے، لیکن سوال یہ کہ افسانہ نگار جس وقت کا یہاں ذکر کر رہا ہے وہ کون سا وقت ہے۔ کیوں کہ افسانے میں وقت راوی کے فیصلے کا پابند ہوتا ہے جب کہ خارج میں وقت (nonspatial time) کی اپنی ایک فطری رفتار ہے جس پر ہمارا یا کسی کا کوئی اختیار نہیں۔

اب افسانے کو ذہن میں رکھیں تو یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کرداروں کا حال فطری وقت میں اچھا نہیں رہا، لوگ ان سے نفرت کرتے ہیںاور انہیںمعاشرہ میں نیچی نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن افسانے میں یہ کردار قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیںاور ان سے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وہی گرانڈ فنالے ہے جو افسانہ نگار ان کرداروں کو دینا چاہتا ہے۔

افسانہ ’جانی میاں‘ ایک جاسوسی طرز کی کہانی ہے۔ اس کا بیانیہ تین راویوں کے ذریعے مرتب کیا گیا ہے۔ افسانے کی ابتداء میں ہی مصنف (افسانہ نگار)نے اس بات کی وضاحت کردی ہے:

’’یہ کہانی تین آدمی سنارہے ہیں۔ ایک تومیں ہوں راوی، الگ تھلگ رہ کے قصہ سنانے والا۔ میں کہانی میں چلتا پھرتا نظر نہیں آؤں گا۔ دوسرا’ زوّار‘ ہے۔ یہ سلطان بھائی کی گول پیٹھے والی دکان، گوالیار سائیکل مارٹ پر نوکر ہے۔ ان کا اسسٹنٹ سمجھ لو۔ تیسرا جانی میاں کا چمچا وحید ہے۔ یہ ان کا رکھوالا ہے۔ اسے جاننے کے لیے جانی میاں کو سمجھنا ضروری ہے۔‘‘۱۵؎

درج بالا بیان میں افسانہ نگار نے راوی کی صفات کا تعین کر دیا ہے کہ کون سا راوی کس حد تک بیان کر سکتا ہے۔یہ بیان صرف راوی کی صفات کے جانب ہی اشارہ نہیں کرتے بلکہ افسانے کی طرزِ تشکیل کا بھی اظہار کرتے ہیں۔

افسانہ واحد غائب راوی کے بیان سے شروع ہوتا ہے، مثلاً:

’’ایک روز گول بیٹھے کے مین بازار میں گوالیار سائیکل مارٹ کے آگے پھر ٹیکسی رکی اور دونوں ایک ایک تھیلا اٹھائے اتر پڑے۔ وحید نے ٹیکسی والے کو پیسے تھمائے اور جانی میاں کا ہاتھ پکڑ دکان کی طرف چلا۔ دکان کو پہچان کے جانی میاں کلکاریاں مارنے لگا۔‘‘۱۶؎

مذکورہ اقتباس کی طرح افسانے کا جتنا بیانیہ ہمہ داں راوی کے ذریعے ترتیب دیا گیا ہے۔ ان میں راوی کی حیثیت ایک ناظر کی ہے۔

کردار زوّار کی زبانی بیانیہ کا جو حصہ تشکیل دیا گیاہے، وہ صرف ’سلطان بھائی‘ کے کردارکو روشن کرتا ہے۔ زوّار قاری کو یہ بتاتا ہے کہ سلطان بھائی دکان پر کام کرنے والے کسی بھی شخص کو کوٹھوں وغیرہ پر نہیں جانے دیتے تھے کیوں کہ ان چیزوں کے وہ سخت مخالف تھے لیکن جانی میاں سے وہ خفا نہیں ہوتے بلکہ ریٹا بائی کے کوٹھے پر جانے کے لیے وہ خودجانی میاں کو ٹیکسی کا کرایہ دیتے تھے۔ راوی زوّار کے ذریعے یہاں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ آخر سلطان بھائی جانی میاں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہے تھے۔ شاید اس لیے کہ غائب راوی جو اپنی کہانی کا پلاٹ جاسوسی طرز پر مرتب کررہا ہے، کو اس بات کا پورا خیال ہے کہ افسانے میں قاری کا تجسس کہیں بھی کم نہ ہونے پائے۔

اس کے بعد افسانوی بیانیہ پھر غائب راوی کے بیان سے آگے بڑھتا ہے اور ایک ناظر کی حیثیت سے قاری کو یہ دکھاتا ہے کہ جانی میاں جو بظاہر اب تک افسانے میں ذہنی طور پر مفلوج نظر آتا ہے، وہ حقیقت میں اس کا سوانگ کررہا ہے۔

’’وہ جو جانی میاں بنا ہوا تھا، اب اپنا سوانگ بھلاکے گاؤ تکیے پر سر رکھ کے بے آرامی میں بھی بے خبر سوگیا۔‘‘۱۷؎

جاسوسی واقعات سے مرتب کیا گیا پلاٹ مکمل ہوجانے کے بعد جانی میاں کا چمچہ وحید اپنے اور جانی میاں کے متعلق قاری کو اطلاعات فراہم کرتا ہے کہ وہ ایک سرکاری آدمی ہے جو اسمگلروں کی جاسوسی کے لیے جانی میاں کے ساتھ ریٹابائی کے کوٹھے پر آتا تھا اور جانی میاں جو پیشے سے ایک Actorہے، مفلوج شخص کا کردار ادا کررہا تھا لیکن جب یہ دونوں کردار سلطان بھائی کے پاس پہنچ کر اپنے متعلق انہیں سب کچھ بتاتے ہیں تو وہ غصے سے انہیں گالیاں دے کر وہاں سے بھگادیتے ہیں۔ قاری کو یہاں تعجب ہوتا ہے کہ آخر سلطان بھائی ان دونوں کے متعلق انہیں کی زبانی سب کچھ سن لینے کے بعد، کیوں گالیاں دے کر بھگادیتے ہیں۔ اس نقطے کی وضاحت کے لیے افسانہ نگار راوی زوّار کو دوبارہ سامنے لاتا ہے کیوں کہ اس سے پہلے بھی سلطان کے کردار کا تعارف اسی نے کرایا تھا۔ زوار سلطان بھائی کی اس ناراضگی کی وجہ قاری پر ظاہر کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ سلطان جو کوٹھے پر آنے جانے والوں کو سخت ناپسند کرتا تھا کیوں جانی میاں کو کچھ نہیں کہتا تھا، اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’وہ دونوں دکان سے اترگئے، نہیں تو ضرور کوئی رپھڑابن جاتا۔اللہ جانتا ہے سلطان بھائی تو پھر ٹائم لیتے،میرا دل یہ کرتا تھا کہ ان حرامی سرکاری آدمیوں پر پانا لے کے پل پڑوں۔

ان سالوں کو کچھ پتاہی نہیں… معلوم ہے؟ سلطان بھائی اشٹور میں گھسے تھے توروتے ہوئے گھسے تھے، آج تک اللہ جانتا ہے، کسی نے انہیں ایسی پوجی شن میں نہیں دیکھا۔میرے کو پچھلا سب پتا ہے۔سلطان بھائی سے پانچ چھ برس چھوٹا ایک بھائی تھا کمزور دماغ کا- جان محمد- سب جانو جانوکہتے تھے۔ یہی سلطان بھائی اس کو لیے لیے پھرتے تھے سب جگے۔ اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے تھے۔ نو دس برس کا ہوکے وہ جان محمدمرگیا تو باپ کو، سوتیلی ماں کو چھوڑ چھاڑ یہ بمبئی آگئے۔ پھر نہیں گئے۔ چوری چھپے یاد بھی کرتے تھے۔ اس جان محمد کو۔ جب سے یہ حرامی لوگ نے آنا جانا شروع کیا تھا، خوش رہنے لگے تھے سلطان بھائی۔

انھیں سرکاری آدمیوں کو تو کچھ پتاہی نہیں سالوں کو۔‘‘۱۸؎

افسانہ نگار چاہتا تو پوری کہانی ہمہ داں راوی کے ذریعے ہی بیان کرواسکتا تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ شاید اس لیے کہ افسانہ نگار نے جوغائب راوی تشکیل دیا ہے وہ صرف ناظر کی حیثیت سے موجود ہے، جو اپنے متعلق تو سب کچھ بتاسکتا ہے لیکن دوسرے کرداروں کے متعلق وہ جذباتی و نفسیاتی بیان نہیں دے سکتا، جیسا کہ شروع میں ہی افسانہ نگار نے راوی کے حدود کا تعین کردیا ہے۔ اسی لیے افسانے کے اختتام پر کسی اور راوی کے بجائے کردار راوی زوّار کے ذریعے سلطان کے متعلق اس فوری ردعمل کے نتیجے میں جو جذبات کارفرما تھے، اس کی وضاحت کی گئی ہے، جو اس بیان کے لیے بالکل معتبر تھا۔

افسانہ تشکیل کرنے کا یہ طریقہ روایتی حقیقت پسند افسانوں سے بالکل مختلف ہے۔ کیوں کہ افسانہ بیان کرتے ہوئے افسانہ نگار بیان کے طریقہ کار کی بھی وضاحت کرتے ہوئے چلتا ہے اورمتن کی تعمیر کے ان وسائل کو پیش منظر میں رکھتا ہے جن سے کوئی کہانی تشکیل پاتی ہے۔

افسانہ ’ہٹلر شیر کا بچہ‘ اسدمحمدخاں کے ’کردار مرکزی‘ افسانوں میں سے ایک بہترین افسانہ ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار ’ہٹلر‘ ہے جس کا پورا نام مرزا وحید الرشید بیگ نسیاں ہے جو ایک معمولی سا شاعرہے۔ یہ کردار افسانے میں بظاہر چالاک بننے کی کوشش کرتا ہے جو وہ نہیں ہے۔ اسی تضاد کی کشمکش سے افسانہ نگار نے بڑی ہی فن کاری کے ساتھ اس کردار کو تشکیل دیا ہے۔ مثلاً کردار کی یہ گفتگو دیکھیں جس میں افسانے کے ایک دوسرے کردار کے پوچھنے پر کہ تم حوالات میں کس طرح آئے تو ہٹلر کہتا ہے:

’’تم ادھر کیسے آیابئی؟ کھوسہ نرمی سے پوچھ رہا تھا۔

ہٹلر کو حوصلہ ہوا، وہ کمبلوں کے درمیان لہرایا، بولا، ’بس عالی جاہ! یہی مت پوچھئے… کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے…‘ اسے فوراً ہی میرے دوست کی دھمکی یاد آگئی،جلدی سے کہنے لگا، ’یعنی یہ نہ پوچھیے تو بہتر ہے سرکار!‘ ’کیوں بئی؟‘

’رسوائیاں بھی ساتھ چلیں دم بہ دم کے ساتھ… کوچے میں آکے بیٹھ رہے ہر قدم کے ساتھ… حضور والا! محض بے وجہ بدنام کرنے کو مجھے یاں پہنچادیا گیا ہے۔‘‘

……کھوسہ بھی منھ پھیر کے مسکرارہا تھا، بولا، ’کس نے بدنام کیا ہے بئی تم کو؟‘

کہنے لگا، ’مجھ پر الزام بے وفائی ہے… جھوٹا الزام لگایا ہے خود میرے محبوب نے ،مجھ پر… بلاوجے ایک ناکردۂ گناہ کی پاداش کے جرم میں بند کردیا گیا مجھے…‘‘

میںنے پوچھا، ’کیا جرم کیا ہے آپ نے؟ مطلب کیا جرم نہیں کیا جو وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے کیا ہے؟‘

’ زنابالجبر!‘

کھوسہ ایک دم ہنس پڑا، بولا’اڑے بئی بڑا استاد، خرکوزیہ خبیث ہے ڑے مچھر… بھلا تم زور زبردستی کا مجرم ہے بئی؟ ہاہاہا۔‘‘

’’اوہو… اوہ ، ہوں… آپ سمجھے نہیں عالی جاہ! زنابالجبر کاارتکاب نہیں کیا… ناں… بالکل نہیں حضور والا! میں او رمیرا محبوب بہ رضا و رغبت ملتے رہے ہیں ایک زمانے سے، چنانچہ اس روز بھی ہماری ملاقات میں بھی وہی سرشاریاں، سرمستیاں…‘‘

’’چل اے! خرمستی پہ مٹی ڈال، اصل بات بول۔‘‘

’’اصل بات یہ ہے بندہ پرور کے دشمنوں نے محبوب سے جھوٹا بیان دلواکے مقدمہ قائم کرادیا۔ پولیس کو کثیر رقم چڑھادی گئی… اور اب ناکردہ گناہ ہیں آزردگی سے ہم۔‘‘۱۹؎

مندرجہ بالا مکالموں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ کردار یعنی ایک معمولی سا شاعر کس طرح خود سے اپنی شخصیت تعمیر کررہاہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کردار کی تشکیل میں نہ تو راوی کام کررہا ہے اور نہ ہی افسانہ نگار۔ یہی نہیں بلکہ افسانے کے خاتمے تک یہ کردار،قاری اور افسانے کے دوسرے کرداروں کے سامنے خود کو جیسا بناکر پیش کرتا ہے حقیقت میں وہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔

کس کس طرح سے وہ اپنے کردار کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کی ایک اورمثال افسانے سے پیش کی جاتی ہے۔ ہٹلر کو پولیس والے جب تفتیش کے بعد واپس جیل میں چھوڑجاتے ہیں تو وہ کس طرح اپنے دوستوں کو اپنے متعلق بتاتا ہے،ملاحظہ ہو:

’’کھوسہ نے پوچھا، کیسا ہے تم؟‘‘

ہٹلر کے چہرے پر جیسے کسی لہر کے ساتھ ایک دم چالاکی آگئی۔ اس نے پہلے لاک اپ کے دروازے کی طرف سر گھمایا، پھر ہمیں دیکھ کر آنکھ ماری اور سرگوشی میں بولا، ’بندہ نواز! ناچیز ٹھیک ہے… بس خاموشی سے دیکھتے رہو، بے مثال اداکاری کررہا ہے یہ خادم۔‘

’’اداکاری؟ واڑے وا!‘‘ کھوسہ پریشان ہوگیا۔

ہٹلر نے مسکراتے ہوئے کراہ کے کروٹ بدلی اوربولا، ’جی جناب!‘

……مجھے بے چینی ہوئی۔میںنے پوچھا، ’کیا بات ہے؟ کیوں لے گئے تھے تمھیں؟‘

کہنے لگا، ’بڑے افسران کو ہمارے دشمنوں نے اپنے ساتھ ملالیا ہے اور چھوٹے عملے… نائب صوبے دار، حولدار، نائک، لیس نائک… کومال پانی خرچ کرکے ہم نے قابو کرلیا ہے۔ سمجھے جناب؟ اوپر سے حکم آتا ہے کہ بھئی مرزاوحیدالرشید بیگ نسیاں کو ہلاؤ جلاؤ، مارو پیٹو، پوچھ گچھ کرو نچلا عملہ کہتا ہے جو حکم سرکار اور ہمیں رات میں لے جاکے وہ ایک کمرے میں بٹھادیتے ہیں۔ چائے پلاتے ہیں، بسکٹ کھلاتے ہیں…نائب صوبے دار تو اخبار بھی پڑھ کر سناتا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہم ہائے وائے کا شور اور واویلا کرتے رہتے ہیں تاکہ سب یہ سمجھیں ہم پر تشدید کی جارہی ہے تو میاں!دوسرے تیسرے دن یہ ناٹک ہوتا ہے۔ ابھی تک مجال ہے جو پولیس نے ہمیں انگلی بھی چھوائی ہو۔ گویابس زنداں میں بھی مزے آرہے ہیں بندہ نوازیوں کے۔‘‘۲۰؎

ہٹلر اپنے دوستوں کے سامنے جس طرح سے اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے یعنی بظاہر خود کو ایک چالاک شخص کے طور پر پیش کرتا ہے جو کہ اصلاً وہ نہیں تھا بالکل فطری معلوم ہوتا ہے۔

افسانے کے آخر میں ہٹلر پولیس سے مل کر اپنے قیدی ساتھیوں، ٹریڈ یونین لیڈر اور ورکر کو فرار ہونے کی ترکیب بناتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی چالاکیوں کے ذریعے نائب صوبے دار کورشوت وغیرہ دے کر ان ساتھیوں کوحوالات سے فرار کرادے گا لیکن جب ہٹلر کو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پولیس اسے اپنی سازش کا آلۂ کار بناکر اس کے ساتھیوں کو مار دینا چاہتی ہے تو وہ انھیں خبردار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مارا جاتا ہے۔

افسانہ نگار نے بڑی فنکاری کے ساتھ اس کردار کو تشکیل دیا ہے۔ پورے افسانے میں یہ کردار اپنے قول و فعل سے بالکل فطری معلوم ہوتا ہے۔ قاری کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ یہ شخص جو اتنی چالاکیاں کررہا ہے دراصل ایک سیدھا سا شرمیلا انسان ہے۔

افسانہ نگار نے یہاں بھی اپنی تخلیقی ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے ہٹلر کے متعلق اتنے مستند شخص (ہٹلر کا ہم شکل چھوٹا بھائی) سے بیان دلواتا ہے کہ بغیر کسی شک وشبہ کے ہٹلر کے ذریعے تعمیر کی گئی اس کی پوری شخصیت کی نفی ہوجاتی ہے اور کردار سازی کے فن پر افسانہ نگار کی مضبوط گرفت کا پتا چلتا ہے۔

اس سلسلے کا آخری افسانہ ’’الی گجر کی کہانی‘‘ ہے۔ یہ مابعد جدید طریقے سے تشکیل دیا گیا افسانہ ہے، جس میں کہانی تعمیر کرنے اور اسے کردار کی زندگی کے اصل تجربے سے مربوط کرنے کے طریقۂ کار کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس طرح یہ افسانہ ایک ساتھ دو کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ افسانے کا پلاٹ اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ افسانے کی ابتدا میں راوی مرکزی کردار الّی گجر کا تعارف کراتا ہے۔ الّی چوئی صاحب کا ناجائز بیٹا تھا جو ہجرت سے پہلے ہی پیدا ہوا تھا۔ ہجرت کے وقت راستے ہی میں الّی کی ماں کا قتل کردیا گیا۔ لیکن الّی زندہ بچ گیا تو چوئی صاحب اسے اپنے ساتھ لے آیا۔سبھی کو معلوم تھا کہ الّی چوئی صاحب کا ناجائز بیٹا تھا لیکن معاشرے میں بدنامی کی وجہ سے انھوں نے کبھی اسے اپنا بیٹا تسلیم نہیں کیا۔

راوی کا بیان ہے کہ یہیں سے الّی نے کہانیاں بُننا اور سنانا شروع کیں:

’’اس نے باپ کے نہ ہونے اور چوئی صاحب کے برامنانے کے بیچ ایک رستہ نکالا اور پہلی کہانی یہ بنائی کہ اس کا باپ بخشاگجر تھا(جو بعد میں چوئی صاحب کا بتایا ہوا مزارع اور رحمتی کا آدمی بنا) پھر یہ بخشاگجر مزارع بھی ہجرت کے دوران سب کے ساتھ فوت ہوگیا۔‘‘۲۱؎

اس کے بعد اس نے اپنی ماں کے ایک بھائی ناصر ڈکیت کی کہانی بناکر لوگوں کو سنائی تو اس پر چوئی نے اس کی خوب پٹائی کی۔ اس واقعے کے بعد الّی ہوشیار ہوگیا اور وہ دو قسم کی کہانیاں بننے لگا۔ایک قسم وہ جس میں اس نے اپنا خاندان پھیلایا تھا۔ کہانیوں کی یہ قسم سب کو سنانے کے لیے تھی لیکن دوسری وہ کہانیاں تھیں جو وہ اپنے لیے بناتا اور اکیلے میں خود کو سناکر خوش ہوتا۔ لیکن جب بھی چوئی کو ان کہانیوں کے بارے میں معلوم ہوتا اس کی خوب پٹائی ہوتی۔

پہلے جب الّی لوگوں کو کہانیاں سنایا کرتا تھا تو ان کہانیوں میںناصر ڈکیت اس کاماما تھا۔ لیکن جب الّی پاگل ہوا اور چوئی صاحب نے اسے گھر میں قید کردیا تو الّی گجر صرف اپنے لیے کہانیاں بنتا۔ ان کہانیوں میں جو ذرا فرق آیا تھا وہ یہ کہ ناصر ڈکیت اب اس کا بیٹا بن جاتا ہے۔ افسانے کے آخر میں جب ڈاکے کی تفتیش کے لیے پولیس اہلکار آتے ہیں تو الّی گجر یہ کہانی سناتا ہے:

’’اوئے ربامیریا! الّی نے اندر ہی اندر چیخ ماری۔ اوئے دیکھو وہ ناصر کو باندھ کر لارہے ہیں۔ الّی گجر کے بیٹے ناصر کو!… الّی گجر زنجیر بجابجاکے روتا تھا چھالاں پیاں مارتا تھا۔

پھر اسی وقت عجیب بات ہوئی۔ ناصر، ڈاڈے جوان نے مولاعلی کا نام لیا، ایک جھٹکا مارا کہ مشکیں اس کی آزاد ہوگئیں پولیس والے دوڑے الّی نے دیکھا کہ وہ ناصر کو گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں پر وہ جو ان کا بچہ ہاتھ نہیں آتا۔

الّی گجر نے قہقہہ مارا۔ ناصر، اس کا بیٹا، چھپرکھٹ کی طرف آرہا تھا۔ اس نے باپ کا ہاتھ پکڑا، پھول کی طرح اٹھالیا۔ دونوں حویلی سے باہر چلے۔ چوئی صاحب پکارا روکو انہیں روکو۔‘‘۲۲؎

اپنی زندگی کو کہانی کی مدد سے سمجھنے اور سنبھالنے کا یہ غیرمعمولی تصور اس افسانے میں پوری فن کاری کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

ان افسانوں کے مطالعے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسد محمد خاں کے یہ افسانے تعمیرِ متن کے اس تصور پر تشکیل دئیے گئے ہیں کہ متن میں بیان کردہ واقعہ خارج میں وقوع حقیقی واقعہ کا بیان نہیں ہوتا بلکہ زبان کا تشکیل دیا ہوا کارنامہ ہوتا ہے۔ اس طرح کا افسانہ لکھنا افسانہ نگاری کے فن پر غیر معمولی قدرت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ افسانے اسد محمد خاں کے تخلیقی شعور اور افسانہ نگاری کے فن پر ان کی قدر کا اثبات کرتے ہیں۔

حواشی:

(۱)افسانہ نربدا مشمولہ مجموعہ نربدا، ۲۰۱۵ء ص:۲-۱

(۲)تحریر اساس تنقید، ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۲۰۰۹ء، ص:۲۰۶

(۳) ایضاً،ص:۸-۳

(۴)افسانہ ایک سنجیدہ ڈی ٹیکٹو اسٹوری،مجموعہ غصے کی نئی فصل، مشمولہ جو کہانیاں لکھیں۲۰۰۶ء،ص:۳۵۲-۳۵۱

 (۵)ایضاً، ص:۳۵۳-۳۵۲

(۶)ایضاً،ص:۳۶۴

(۷)ایضاً،ص:۳۷۹-۳۷۸

(۸)تحریر اساس تنقید، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۲۰۰۹ء، ص:۲۰۵

(۹)تحریراساس تنقید،ص:۶۷

(۱۰)افسانہ :’داستان سرائے‘ مجموعہ ’نربدا‘(مشمولہ) ’جو کہانیاں لکھیں‘۲۰۰۶ء، ص:۵۳۳

(۱۱)ایضاً،ص:۵۳۵-۵۳۴

(۱۲)اک میٹھے دن کا انت، مجموعہ نربدا، القا پبلیکیشنز لاہور،۲۰۱۵ء، ص:۸۹

(۱۳)اک میٹھے دن کا انت، مجموعہ نربدا، القا پبلیکیشنز لاہور،۲۰۱۵ء، ص:۹۰تا ۹۱

(۱۴)ایضاً، ص:۱۱۵

(۱۵) افسانہ جانی میاں،مشمولہ مجموعہ نربدا۲۰۱۵ء، ص:۱۳۴

(۱۶)ایضاً،ص:۱۳۵

 (۱۷)ایضاً، ص:۱۴۵

(۱۸)ایضاً، ص:۱۵۱-۱۵۰

 (۱۹) ہٹلر شیر کا بچہ،مجموعہ غصے کی نئی فصل، مشمولہ جو کہانیاں لکھیں۲۰۰۶ء،ص:۲۹۲-۲۹۱

 (۲۰) ایضاً،ص:۲۹۵-۲۹۴

(۲۱)افسانہ الّی گجر کی آخری کہانی، مجموعہ نربدا،مشمولہ جو کہانیاں لکھیں۲۰۰۶ء، ص:۵۷۱

(۲۲)ایضاً،ص:۵۷۶-۵۷۵

٭٭٭

ڈاکٹر عبدالرحمن فیصل

شعبۂ اردو ، یونیورسٹی آف الٰہ آباد

Mb-8218467664,

abdurrahmankhann@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.