حلقہ ارباب ذوق کے افسانے
ترقی پسند ادبی تحریک کو شروع ہوئے ابھی تین سال ہی ہوئے تھے کہ اردو میں ’ بزم داستان گویاں‘کے نام سے۲۹ ؍اپریل ۱۹۳۹ء میں ایک نئے ادبی رجحان(جو آگے چل کر’ حلقہ ارباب ذوق ‘کے نام سے مشہور ہوا) کا وجود عمل میں آیا۔ ترقی پسند ادبی تحریک کی موجودگی میں حلقہ ارباب ذوق کا قیام یہ بتاتا ہے کی حلقہ کے اراکین ترقی پسند ادبی رویے سے خوش نہ تھے۔ اسی لیے حلقہ ارباب ذوق کے ادبی نظریات ترقی پسند تحریک سے بالکل مختلف ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق کے ادبی نظریات کا اندازہ حلقے کی کاروائیوں اور منتخب نظموں کے مجموعے کے ابتدائیے سے لگایا جاسکتاہے۔ حلقے کی کاروائیاں یہ بتاتی ہیں کہ حلقہ ارباب ذوق فنی قدروں کو افضل سمجھتا ہے۔ ان کے یہاں موضوع کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ سیاسی وسماجی (ترقی پسند) موضوعات سے اجتناب برتنے کا رویہ ملتا ہے۔ ادب کے افادی پہلو سے حلقہ ارباب ذوق نے کھلا انکار کیا ہے۔ ان کے نزدیک وہی ادب صالح ہے جس میں ’خیال افروزی‘ ہو۔ اسی لیے حلقہ کے افسانہ نگار خواہ وہ شیرمحمد اخترہوں یا محمد حسن عسکری، ممتاز شیریں ہوں یا ممتاز مفتی ، رحمان مذنب ہوں یا انتظارحسین وغیرہ ان تمام حضرات کے افسانے ترقی پسند افسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔ مذکورہ افسانہ نگاروں کے علاوہ حلقہ ارباب ذوق کے جلسوں میں راجندرسنگھ بیدی، کرشن چندر، اوپندرناتھ اشک اورسعادت حسن منٹو جیسے قدآور حقیقت پسندیا ترقی پسندافسانہ نگاربھی شامل ہواکرتے تھے مگران کی شناخت حلقہ ارباب ذوق سے مختلف ہے ۔ اس لیے حلقہ ارباب ذوق کے افسانوں پر بات کرنے کے لیے ہمیں ممتاز مفتی، ممتاز شیریں، شیرمحمد اختر، رحمان مذنب، محمد حسن عسکری، انتظارحسین اورانور سجاد تک ہی اپنی بات محدود رکھنی ہوگی۔ یوں تو پاکستان میں حلقہ ارباب ذوق آج بھی فعال ہے اور پاکستان کے بیشتر شاعر اور افسانہ نگار اس انجمن سے وابستہ ہیں یا اس کے جلسوں میں شریک ہوتے رہتے ہیں مگر نظری اور فکری اعتبارسے حلقہ اباب ذوق کی آج کوئی حیثیت نہیں ہے۔
بہرحال حلقہ ارباب ذوق کا پہلا نام ’بزم داستان گویاں‘ رکھاگیا تھا۔ اس نام سے ہی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ انجمن فکشن سے خاص تعلق رکھتی ہے، مگر اس انجمن کی کارگزاریوں پرشاعری کا غلبہ ہوتا گیا اور اسے جتنے بھی بڑے نام میسرآئے ان میں زیادہ ترشاعر ہی ہیں۔ اس کے باوجود اس انجمن سے وابستہ جو بھی افسانہ نگار ہیں ان کے افسانے بھی حلقہ ارباب ذوق کے نظریات کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔
حلقہ ارباب ذوق کے جلسوں میں جو قابل ذکرافسانے پیش ہوئے ہیں اورجن سے حلقہ ارباب ذوق کے افسانوں کا مزاج طے ہوتا ہے ان میں محمدحسن عسکری کا افسانہ ’پھسلن‘ اورعذرا شیریں کا افسانہ (نام ندارد) قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں افسانوں کے بارے میںپڑھ کر اور ان افسانوں کے متعلق حلقے کے اراکین کی آرا کو جان کر حلقہ ارباب ذوق کے مزاج کا پتہ لگایاجاسکتا ہے۔ عذرا شیریں کا افسانہ (یہ افسانہ آزادی ہنداور قیام پاکستان کے بعد منعقد ہونے والے پہلے جلسے میں پیش کیا گیا تھا) سہاگ رات کی لذتوں اور تکلیفوں پرمبنی تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ فسادات کی آگ ٹھنڈی بھی نہیں پڑی تھی، اس قسم کے افسانے کی پیش کش یہ بتاتی ہے کہ حلقہ ارباب ذوق کاجنسیات سے کس قدرلگائو تھا۔ اسی طرح محمدحسن عسکری کا افسانہ ’پھسلن‘ بھی جنسی موضوع پرمشتمل ہے۔ اس افسانے کے متعلق حلقے کی جورائے ملتی ہے وہ کچھ اس طرح ہے:
’’بدقسمتی سے ہندوستانی سوسائٹی اس قسم کے نظریوں کی عام اشاعت کو برداشت نہیں کرتی۔ اگرچہ فرانس اورانگلستان خصوصاً جرمنی میں جنسیات پر بے باکانہ انداز میں لکھا جاچکا ہے۔ بہرحال اردو ادب میں یہ اپنی قسم کی پہلی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ جو بہت کامیاب ہے۔ نفس موضوع سے قطع نظرافسانے کی زبان بہت پیاری ہے… افسانہ چندغیرضروری تاویلات کی وجہ سے بہت طویل ہوگیا ہے جن کی غیرموجودگی میں بھی اس کے تسلسل میں چنداں فرق پیدا نہیں ہوتا۔‘‘(۱)
مذکورہ اقتباس کا ابتدائی نصف حصہ قابل غور ہے۔ اس ابتدائی حصے میں افسانہ ’پھسلن‘ کی جس طرح پذیرائی کی گئی ہے اورجن باتوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے دراصل وہی حلقہ ارباب ذوق کا ادبی نظریہ ہے۔ فرانس کاذکر بھی یوں ہی برسبیل تذکرہ نہیں آیا ہے بلکہ یہ فرانس کی اشاراتی ورمزی تحریک اور جنسی مسائل و موضوعات سے حلقہ ارباب ذوق کی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔
حلقہ ارباب ذوق سے قبل ترقی پسند تحریک کے زیراثرجوافسانے لکھے جارہے تھے ان افسانوں پر مقصدیت غالب تھی۔ مزدوروں، کسانوں اور پچھڑے طبقے سے متعلق مسائل وموضوعات پیش کیے جارہے تھے۔ ترقی پسندافسانہ نگار اشتراکی نظام کے خواہاں تھے اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنے افسانوں کو ذریعہ بنایا۔ ترقی پسندافسانہ نگار اپنے مقصد کی حصولیابی میں اس قدرمگن تھے کہ انہیں انسانی نفسیات، داخلی کشمکش یا فرد کے اندرون میں جھانکنے کا موقع ہی نہ ملا یا پھر انہوں نے اسے انحطاط پسندی قراردے کر خود کو اس سے دور رکھا۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو نتیجہ یہ نکلا کہ افسانے سے فرد کہیں غائب ہوگیا۔ ترقی پسند تحریک نے جس فرد کو نظر انداز کیا تھااسے حلقہ ارباب ذوق نے اپنے افسانوں میں پیش کیا، اس کے اندرون میں جھانکا اور اس کی نفسیات کا مطالعہ ومشاہدہ کیا۔ حلقہ ارباب ذوق کے کسی بھی افسانہ نگار کا مطالعہ کرلیں ان میں آپ کو یہ قدر مشترک ملے گی کہ حلقہ ارباب ذوق کے افسانے سماج کے بجائے فرد سے معاملہ رکھتے ہیں اور ذات کے حوالے سے کائنات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق کے افسانوں کی یہ خصوصیت شیرمحمد اختر، ممتاز مفتی، ممتاز شیریں، محمد حسن عسکری، رحمان مذنب، انتظارحسین اور انورسجاد کے یہاں مشترکہ طور پر ملتی ہے۔
شیرمحمداخترافسانہ نگار بھی ہیں اور حلقہ ارباب ذوق کے بانی بھی۔ انہوں نے نصیراحمد جامعی کے ساتھ مل کر حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی تھی۔ شیرمحمد اخترنے جہاں حلقہ ارباب ذوق کی ترتیب وتنظیم میں حصہ لیا وہیں اپنے افسانوں کے ذریعے حلقہ ارباب ذوق کے ادبی نظریات کو تقویت بھی پہنچائی۔ شیرمحمداخترکے افسانے ترقی پسندافسانوں کی طرح سماجی اصلاح یا اقتصادی انقلاب کے بجائے فرد کی نفسیات سے تعلق رکھتے ہیں۔
حلقہ ارباب ذوق کے افسانہ نگاروں میں ممتاز مفتی ایک اہم نام ہے۔ ’ان کہی‘، ’گہماگہمی‘، ’چپ‘، ’اسمارائیں، اور ’گڑیاگھر‘ ان کے مشہورافسانوی مجموعے ہیں۔ ممتاز مفتی کے افسانے انسانی نفسیات کے گردگھومتے ہیں۔ جنسی موضوعات سے ممتاز مفتی کو خاص لگائو ہے۔ ان کے متعدد افسانوں میں جنسی مسئلے کو پیش کیاگیا ہے۔ بعض افسانے ایسے بھی ہیں جن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض تلذذ کے لیے لکھے گئے ہیں مثلاً افسانہ ’چپ‘ اور ’پل‘ وغیرہ۔ افسانہ ’چپ‘ ایک ایسی لڑکی یا عورت (جیناں) کی کہانی ہے جو شادی شدہ ہونے کے باوجود خود سے آدھی عمرکے لڑکوں بلکہ بچوںکو جسمانی تعلق کے لیے تیارکرتی ہے۔ افسانے کا کردارقاسم اورمومن دو ایسے لڑکے ہیں جو جیناں سے عمرمیں کافی چھوٹے ہیں (قاسم، مومن اورجنیاں کی عمرکے فرق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پردے کے سخت پابند معاشرے میں یہ دونوں لڑکے جیناں کے گھرآتے جاتے ہیں۔ یعنی ابھی وہ بچے تھے اس لیے ان سے پردہ نہ تھا) ان دونوں لڑکوں کو جنسی ملاپ کے لیے جیناں ہی تیارکرتی ہے، اُس پر نت نئے طریقوں سے ، باتوں کے ذریعہ بدن کے بھیدوں کو کھولتی جاتی ہے۔جینا کو اخلاقیات اور فطرت سے بیرکیوں ہے اس ضمن میں افسانہ بالکل خاموش ہے۔ افسانے کی یہ خاموشی افسانے کوتلذذ پسندی کے قریب لاکر کھڑا کردیتی ہے۔
افسانہ’پل ‘ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنے شوہر کو ایک دوسری عورت کی طرف راغب ہونے پراکساتی ہے تاکہ اسے کسی اورسے دل لگانے کا جواز مل سکے۔ یہ دونوں افسانے ’چپ‘ اور ’پل‘ کسی خاص نفسیاتی گرہ کو کھولنے کے بجائے ایک عام جنسی بے راہ روی کی کہانی بن کررہ گئے ہیں۔
ممتاز مفتی جنسیات کی پیش کش میں خصوصی دلچسپی ضرور لیتے ہیں مگر یہ دلچسپی زندگی کی کسی حقیقت سے پردہ اٹھانے یا کسی نفسیاتی گرہ کو کھولنے کا کام ہرجگہ نہیں کرتی۔ اوپر جن دوافسانوں کا ذکر کیاگیا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں افسانے (’چپ‘ اور ’پل‘) محض جنسی تلذذ کے لیے لکھے گئے ہیں۔ جنسیات پرمبنی افسانے سعادت حسن منٹو نے بھی لکھے ہیں اور بہت کھل کر لکھے ہیں لیکن ان کے افسانوںکی خصوصیت یہ ہے کہ افسانے کے اختتام پرقاری کے تمام فاسدجذبات واحساسات، حیرت واستعجاب اورہمدردی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ممتاز مفتی کے افسانوں میں منٹو کے افسانوں کی سی بات نہیں ملتی۔ بہر حال جنسی موضوعات سے قطع نظر ’آپا‘ ممتاز مفتی کا ایک بہترین افسانہ ہے۔ ممتاز مفتی کے اس افسانے کو ان کا شاہکارافسانہ بھی قراردیاجاتا ہے۔ اس افسانے میں ممتاز مفتی نے سجادہ (مرکزی کردار) یعنی آپا کی نفسیات ، اس کے احساسات و جذبات کو جتنی چابکدستی سے پیش کیا ہے وہ ممتاز مفتی کو بڑا افسانہ نگاربنانے کے لیے کافی ہے۔’آپا‘ بلاشبہ اردو کا ایک بہترین افسانہ ہے اوراس افسانے میں ممتاز مفتی کا فن اپنے عروج پرہے۔
ممتاز مفتی کا افسانوی سفرفرد کی داخلی دنیائوں اورنفسیاتی الجھنوں کی عکاسی میں گزرا اسی لیے ترقی پسندوں نے انہیں رجعت پرست اورجنس زدہ کہا ہے۔ بہرحال ممتاز مفتی کے افسانے فرد کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں فرد مکمل اکائی کی صورت میں سامنے آتا ہے جس پر کسی قسم کی سیاسی وسماجی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی اورنہ ہی وہ کسی خاص قوم، فرقہ یا سماج کی نمائندگی کرتا ہے۔
ترقی پسندادبی نظریے پراعتراض کرنے والوں میں محمدحسن عسکری کا نام بہت نمایاں ہے۔ محمدحسن عسکری یوں تو نقاد اورنظریہ ساز کی حیثیت سے مشہور ہیں مگرانہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں۔ اگرچہ ان کے افسانے تعداد میںکم ہیں، مگر حلقہ ارباب ذوق کے افسانوں کے مزاج کو سمجھنے میں بہت معاون ہیں۔ محمد حسن عسکری نے دوافسانوی مجموعے’’جزیرے‘‘(۱۹۴۳)اور’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘(۱۹۴۷) یادگار چھوڑے ہیں۔ ان کاافسانہ ’پھسلن‘ حلقہ ارباب ذوق کے جلسے میں پیش کیاگیا تھا۔ حلقہ ارباب ذوق کے اراکین نے اس افسانے کے موضوع کی خوب تعریف کی تھی۔ محمد حسن عسکری کے افسانے فرداور اس کی نفسیات کے اردگرد گھومتے ہیں۔ عسکری نے جنس کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ یہ ساری باتیں ترقی پسند ادبی رویے کے خلاف جاتی ہیں اسی لیے محمدحسن عسکری کو حلقہ ارباب ذوق کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
محمدحسن عسکری جس وقت افسانے لکھ رہے تھے اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے شباب پر تھی اور ادب سے سماجی فلاح کا کام لیا جا رہا تھا۔ ایسی صورت میں فرد پس پشت چلا گیا تھا۔محمدحسن عسکری نے اس مروجہ ادبی نظریے پرقدغن لگاتے ہوئے ادب میں فرد کو پھرسے بحال کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ افسانہ’کالج سے گھرتک‘، ’پھسلن‘، ’چائے کی پیالی‘ اور ’حرام جادی‘ وغیرہ میں فرد کی فردیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ محمد حسن عسکری نے اپنے افسانوں میں مختلف اسلوبیاتی اور تکنیکی تجربے بھی کیے مثلاً انہوں نے پلاٹ کے بجائے خیال کو ترجیح دی، خود کلامی اور شعور کی رو کا استعمال کیا ہے۔ افسانہ ’کالج سے گھرتک‘، ’چائے کی پیالی‘ اور ’حرام جادی‘ بغیر پلاٹ کے افسانے ہیں۔ محمدحسن عسکری کے افسانوں کی ان ہی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے جمیل جالبی نے لکھا ہے کہ:
’’عسکری کے افسانوں کے سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان میں پلاٹ نہیں ہوتا لیکن داخلی وخارجی کیفیات کا حقیقت پسندانہ جزئیاتی اظہار شیروشکر ہوجاتا ہے کہ’پلاٹ‘ نہ ہوتے ہوئے بھی’کہانی‘ پورے خدوخال کے ساتھ ابھرکر قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے۔ اسی کے ساتھ تنہائی کا احساس’نفسیاتی کشمکش اورجنسیت کا فطری اظہار ایک طرف افسانے کی فضا میں رنگ بھرتا ہے اوردوسری طرف ان کرداروں کو ابھارتا اور نمایاں کرتا ہے جن کے اردگرد افسانے کا تاروپود بناگیا ہے۔ اسی لیے ’حرام جادی‘ کی ایملی اور ’چائے کی پیالی‘ کی ڈولی ہمارے ذہن پرنقش ہوجاتے ہیں۔‘‘(۲)
ترقی پسندوں نے موضوع اوراسلوب پرجوپہرے لگادیے تھے حلقہ ارباب ذوق نے اس سے انکار کیا اور ادیبوں کی آزادی کو بحال کردی۔ حلقہ ارباب ذوق سے متعلق افسانہ نگاروں نے اس آزادی سے فائدہ اٹھایا اورموضوعات کے ساتھ ساتھ اسلوبیاتی اورتکنیکی سطح پربھی اردو افسانے کو مالامال کیا۔ حلقہ ارباب ذوق کے افسانے موضوعاتی سطح پرتو ترقی پسندافسانے سے مختلف ہیں ہی ان افسانوں میں اسلوبیاتی اورتکنیکی تنوع بھی ملتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ حلقہ ارباب ذوق نے اردو افسانے میں تجربے کی بنیاد ڈالی تو غلط نہ ہوگا۔ اوپرممتاز مفتی اورمحمدحسن عسکری کے حوالے سے اسی حقیقت کو اجاگرکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب ہم ممتاز شیریں کا ذکر کریں گے جن کے افسانے حلقہ ارباب ذوق کے ادبی نظریے کی تشہیر وترویج میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔
ممتازشیریں ناقد اور افسانہ نگار دونوں حیثیت سے مشہور ومقبول ہیں۔ ’اپنی نگریا‘ اور’میگھ ملہار‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ممتاز شیریں کے افسانوںکا مزاج بھی جنس اورنفسیات کے مرکب سے تیارہوا ہے۔ ان کا افسانہ’انگڑائی‘، ’گھنیری بدلیوں میں‘ اور ’دیپک راگ‘ وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن میں جنس کو بالخصوص موضوع بنایا گیاہے۔ ’افسانہ’انگڑائی‘ ہم جنسی کے موضوع پرمشتمل ہے۔ممتاز شیریں کے کم وبیش تمام افسانوں میں محبت کی فراوانی اورجذبات کی وارفتگی ملتی ہے۔ ان کے افسانوں میں جو محبت ہے وہ ارضی ہے اور اس میں جنس کو اہمیت دی گئی ہے۔
حلقہ ارباب ذوق کے افسانہ نگاروں میں ممتاز شیریں منفرد وممتاز اس لیے دکھائی دیتی ہیں کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں سب سے زیادہ تکنیکی تجربے کیے ہیں۔ اسلوبیاتی سطح پر انہوں نے علامت اور اساطیر کا استعمال کیا ہے اور بالکل نئی تکنیکیں بھی استعمال کی ہیں۔ مثال کے طور پر افسانہ ’ میگھ ملہار‘ اور ’دیپک راگ‘ کو پیش کر سکتے ہیں ،جو اسلوبیاتی اور تکنیکی اعتبارسے بالکل منفرد ہیں۔ یہ دونوں افسانے اسلوبیاتی اعتبار سے اساطیری ہیں اوران کی تکنیک سہ ابعادی (Three Dimensional) ہے۔ سہ ابعادی ایک ایسی تکنیک ہے جس کے تحت کسی ایک مرکزی خیال پر مختلف زاویے سے روشنی اس طرح ڈالی جاتی ہے کہ آخرمیں وہ سب مل کر کسی ایک مرکزی خیال یا وحدت تاثر کا احساس پیداکرتے ہیں۔ اگرچہ بعض ناقدین نے لکھا ہے کہ ممتاز شیریں سہ ابعادی تکنیک کو کامیابی سے برت نہیں سکی ہیں۔ بہرحال اس تکنیک کے استعمال سے اتنا تو ظاہر ہے کہ حلقہ ارباب ذو ق کے افسانہ نگاروں کو تجربے کا شوق تھا اورانہوںنے نت نئے تجربے کرکے اردوافسانے کے دامن کو وسیع کیا ہے۔
حلقہ ارباب ذوق کے افسانہ نگاروں میں انتظارحسین بہت بڑا نام ہے۔ ان کا قداتنا بڑا ہے کہ وہ کسی ایک تحریک یا رجحان میں نہیں سما سکتے وہ اپنے آپ میں ایک تحریک ہیں۔ مگر حلقہ ارباب ذوق سے ان کی وابستگی اور وہ بھی فعال وابستگی انہیں حلقہ ارباب ذوق کے تحت شمار کرنے پرمجبور کرتی ہے۔ انتظارحسین حلقہ ارباب ذوق کے فعال رکن تھے۔ انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کے سکریٹری شپ کے لیے انتخاب میں حصہ لیا تھا اور کامیاب بھی ہوئے تھے۔ اب جب کہ وہ حلقہ ارباب ذوق کے رہنما بھی رہ چکے ہیں تو ظاہرہے کہ ان کے افسانوں میں حلقہ ارباب ذوق کے اصول ونظریات توپائے ہی جائیں گے۔ انتظار حسین کے افسانے ان ہی اصول ونظریات کی پیروی کرتے ہیں جس کی بنامیراجی اورن۔م۔راشد وغیرہ نے ڈالی تھی۔
انتظارحسین کے افسانے کھوئے ہوئے کی تلاش اور ہجرت کا المیہ ہیں۔ ان کے افسانے حقیقت پسندافسانے سے یکسر مختلف اساطیری اور دیومالائی شان لیے ہوئے ہیں۔ انہیں تاریخ، تہذیب اور مذہب کے اندر تاک جھانک کرنے کا شوق ہے۔ اسی لیے وہ اپنے افسانوں کے لیے علامات تاریخ، تہذیب اورمذہب میں تلاش کرتے ہیں۔ افسانہ ’آخری آدمی‘، ’شہرافسوس‘، ’نرناری‘ اور’کچھوے‘ وغیرہ ایسے ہی افسانے ہیں جن میں تاریخ، تہذیب اورمذہب سے استفادہ کیا گیا ہے۔
انورسجاد کے افسانے فکری اعتبارسے حلقہ ارباب ذوق کے دیگرافسانہ نگاروںسے (انتظارحسین کو چھوڑ کر) بالکل مختلف ہیں۔ مثال کے طور پرممتاز مفتی، ممتاز شیریں، محمد حسن عسکری وغیرہ کے افسانوں کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ افسانہ نگاروں کے یہاں جنس اور نفسیات پرزور ملتا ہے اورمادی، معاشی اور سیاسی موضوعات سے گریزکا واضح رجحان ملتا ہے۔ انور سجا دنے مادی، معاشی اور سیاسی موضوعات سے پرہیز کرنے کے بجائے ان موضوعات کو بالکل نئے انداز کے ساتھ علامت واستعارے کے پردے میں پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ’کونپل‘ اور’مرگی‘ جیسے افسانوں کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ افسانہ ’کونپل‘ میں سیاسی جبر کو موضوع بنایاگیا ہے۔ افسانے کامرکزی کردارانقلاب واحتجاج کا اعلامیہ ہے جسے ارباب اقتدارخاموش کردیناچاہتے ہیں۔ اس کی آواز کو دبانے کے لیے اس پرجبروظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں مگروہ حق وانصاف سے دستبردار نہیں ہوتا۔ افسانے کی فضانہایت پراسرار اورخوفناک ہے، اس میں ’کونپل‘، ’چھپکلی‘، ’پورٹریٹ‘ اور’پتنگا‘ وغیرہ استعاراتی معنوںمیں استعمال ہوئے ہیں۔ افسانہ بہت دلچسپ اور پراثرہے نیز’اچھے دن آنے والے ہیں‘ کا اشاریہ بھی ہے۔
افسانہ ’مرگی‘ مادی اورمعاشی مسائل کو پیش کرتا ہے۔ یہ افسانہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو کسی مل میں معمولی اجرت پر کام کرتا ہے۔ اس کی تنخواہ اتنی قلیل ہے کہ وہ صرف خواب بن سکتا ہے اس کی تکمیل نہیں کرسکتا۔ اس کی ذہنی، جسمانی اور قلبی ضرورتیں وہی ہیں جو کسی عام انسان کی ہوتی ہیں۔ وہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی شادی ہو اورکوئی لڑکی اس سے پیارکرے۔ مگر اس کی تنخواہ اتنی قلیل ہے کہ وہ شادی یاعورت کا سکھ نہیں پاسکتا بس خواب دیکھ سکتا ہے:
’’وہ تمام دن بالکل ٹھیک ٹھاک رہا ہے۔ اس کے مالک نے اس کے کام سے خوش ہوکر اس کی تنخواہ میں اضافہ کردیا ہے، جس سے اس کی شادی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ اب وہ عنقریب سیٹل ہوجائیگا۔‘‘(۳)
اورجب اس کی یہ خواہش پوری ہوتی نظرنہیں آتی ہے تو وہ اپنے تصور میں (مرگی کادورہ پڑنے کے بعد ہوش میں آنے سے قبل) اپنی اس لطیف خواہش کو پورا ہوتا ہوامحسوس کرتا ہے۔ اسی لیے تو وہ جلد ہوش میں آنا نہیںچاہتا کہ ہوش بحال ہونے کے بعد یہ سب اس کی دسترس سے باہر چلا جاتا ہے۔ اسی لیے تو جب جب اس کی بے ہوشی دور ہو رہی ہوتی ہے، وہ پوری قوت سے اپنی آنکھیں بھینچ لیتا ہے تاکہ وہ ہوش میں نہ آسکے اور جوکچھ بے ہوشی یا نیم بے ہوشی کے عالم میں اس پرگزررہا ہے وہ رکنے نہ پائے یاختم نہ ہونے پائے۔ معاشی مسائل کے نتیجے میں انسان کی محرومیوں پرمبنی انور سجاد کا یہ ایک کامیاب افسانہ ہے۔
ذات کے حوالے سے کائنات کا مطالعہ انور سجاد کے افسانوں کا خاصہ ہے۔ مثال کے طور پر افسانہ ’مرگی‘ کو لے لیجیے یہ افسانہ فرد کی داخلیت، اس کی محرومیوں اور تشنگیوں کو پیش کرتا ہے۔ مگرانورسجاد نے اسے جس طرح پیش کیا ہے اس سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ اس شخص کی محرومیوں اورناکامیوں کی وجہ ہمارا معاشی نظام ہے۔ انور سجاد وجودی مسائل وموضوعات کو کسی نہ کسی مادی یا سیاسی جبر کا زائیدہ سمجھتے ہیں ، یہ زاویہ نظر ان کے افسانوں میں حاوی نظر آتا ہے۔ انورسجاد ریڈیکل افسانہ نگار ہیں اس لیے سماجی، سیاسی اورمعاشی جبرکے خلاف ان کا قلم تلواربن جاتا ہے۔ انور سجاد کے افسانوں کا یہ مزاج ان کے تقریباً تمام افسانوں میں پایا جاتا ہے سوائے’چوراہا‘(پہلا افسانوی مجموعہ) کے، ’ چوراہا ‘میں شامل ان کے افسانے رومانی قسم کے ہیں۔
حلقہ ارباب ذوق کے افسانہ نگاروں میں رحمان مذنب بھی ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ رحمان مذنب کے افسانوں میں بھی جنس کو خاص مقام حاصل ہے۔ حلقہ ارباب ذوق کے دیگر افسانہ نگاروں کی طرح رحمان مذنب نے بھی آدرش واد اورمقصدیت سے دوررہتے ہوئے افسانے لکھے ہیں۔ ان کے افسانوں کا خاص موضوع تیسری جنس ہے۔ تیسری جنس کو موضوع بناکر رحمان مذنب نے جنسی بے راہ روی اوران (تیسری جنس) کے بیٹھکوں، ڈیروں اور کوٹھوں کی جس طرح تصویر کھینچی ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ ’پتلی جان‘ ، ’باسی کلی‘، ’لال چوبارہ‘، ’چڑھتا سورج‘ اور ’کشتی‘ وغیرہ ان کے بہترین افسانے ہیں۔
رحمان مذنب کی طرح آغابابرنے بھی تیسری جنس کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ آغابابربھی تیسری جنس کے حوالے سے جنس ہی کو انپا موضوع بناتے ہیں۔ ’گلاب دین چٹھی رساں‘ اور ’چارلس ہجڑا‘ ان کے بہترین افسانے ہیں۔ یہاں ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ حلقہ ارباب ذوق کے لکھنے والے جنسیات کی طرف اتنے راغب کیوں تھے۔ بہرحال وجہ چاہے کچھ بھی ہویہ بات تو ثابت ہے کہ حلقہ ارباب ذوق کے افسانوں میں جنس غالب موضوع ہے۔
اب تک حلقہ ارباب ذوق کے تحت آنے والے جتنے بھی افسانہ نگاروں کا ذکر کیاگیا ہے ان کے علاوہ بھی ایسے بہت سے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے حلقہ ارباب ذو ق کے افسانوی نظریات کو تقویت پہنچائی ہے۔ مثلاً امجدالطاف، غلام علی چودھری اور صلاح الدین اکبر وغیرہ۔ مگرچونکہ ہمارا کام ناموں کی فہرست جاری کرنا نہیں ہے اس لیے میں نے اپنی بات ممتاز مفتی، ممتاز شیریں، محمد حسن عسکری، انورسجاد، انتظارحسین، آغابابر اوررحمان مذنب تک محدود رکھی ہے۔ مذکورہ افسانہ نگاروں کے فکروفن پرجوگفتگوہوئی ہے اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ حلقہ ارباب ذوق موضوع ، اسلوب یا تکنیک کے تعلق سے کسی قسم کی پابندی کا قائل نہیں ہے، وہ ادیبوں کی آزادی کا داعی ہے اسی لیے حلقہ ارباب ذوق نے تجربے کو سراہا ہے اور اسے ادب کے لیے نیک فال گردانا ہے نیز نفسیات اور جنسیات پرکھل کربات کی ہے اور اسے درست ٹھرایا ہے۔ یعنی حلقہ ارباب ذوق نے موضوع کے ساتھ ساتھ تکنیکی اوراسلوبیاتی سطح پربھی اردو افسانے کے دامن کو وسیع کیا ہے ۔
حواشی
۱۔ بحوالہ: یونس جاوید، حلقہ ارباب ذوق، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۸۴، ص:۳۵
۲۔ جمیل جالبی، (دیباچہ )، عسکری نامہ۔افسانے‘مضامین‘سنگ میل پبلی کیشن‘لاہور‘۱۹۹۸‘ص-۱۰-۹
۳۔انور سجاد، مرگی، مشمولہ: مجموعہ، ڈاکٹر انور سجاد،سنگ میل پبلی کشنز‘لاہور‘۲۰۱۱‘ص-۳۱۹
٭٭٭
م
ڈاکٹر سید قمر صدیقی
شاہین باغ جامعہ نگر، نئی دہلی
- SYED QAMAR SIDIQUEE
H.No. 155/3, Shaheen Bagh, Jamia Nagar, New Delhi-110074
Mob. 09716935294/ 8700712701
Email: qamarjnu81@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!