مرزا اطہر بیگ کے ناول ”حَسَن کی صورتِ حال“ میں زندگی کا منظر نامہ
The portrayal of Life in Mirza Athar Baig’s Novel
“Hassan ki Soorate Haal”
Abstract
“Hassan ki Soorate Haal” is such a novel that covers human life, lifestyle, psychology, anthropology, archaeology and philosophies of such topics. Mirza Athar Baig points out the inner self of humans, doing psychoanalysis of his characters. He uses different tools such as non-human characters, multi-characters in a person showing separate characters of the same name and finally uses fine arts depicting the society. He also uses screenplay techniques in this novel.
Key Words: Urdu Novel, Lifestyle, Psychoanalysis, Enthropology, Archeology, Human life
کلیدی الفاظ:اردو ناول، حیاتِ انسانی، تحلیل نفسی،بشریات،کشمکش
حَسَن کی صورتِ حال ٦٠٠ صفحات اور ٢١ ابواب پر مشتمل ضخیم اور غیر روایتی ناول ہے۔ یہ ایک گنجلک اور پیچیدہ ناول ہے۔اس ناول میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا گیا ہے۔ حیات انسانی کے اہم لوازمات اور بنیادی انسانی خواہشات دولت ، عزت ،شہرت اور جنس کو اس ناول میں پیش کیا گیا ہے۔ کہ انسان ان چیزوں کے پیچھے کیسے کیسے پاپڑ بیلتا ہے۔اس کا مطالعہ ہم مختلف کرداروں کے ذریعے کرتے ہیں۔ جیسا کہ پروفیسر صفدر سلطان، سعید کمال(ہر کردار میں)،ارشاد اور جبار شہرت ،پولیس ،تھیٹر کے اداکار اور سیٹھ صفدر سلطان جنس،سیفی اور انیلا دولت اور عزت کے حصول میں کوشاں نظر آتے ہیں۔یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے۔ انسانی کرداروں کے ساتھ ناول میں کچھ غیر انسانی کردارجیسے میگافون، پیپر ویٹ، انگوٹھی، بوتل اور گول میز بھی موجود ہیں۔ ناول میں فلم اور تھیٹر کیایک دنیا آباد ہے۔مصنف نے ناول کے اکثر واقعات حسن رضا ظہیرنام کے کردار کے ذریعے پیش کیےہیں۔مصنف نے حسن رضا ظہیرکی نفسیات کا تجزیہ پیش کیاہے۔
اس ناول میں انسانی کرداروں کے ساتھ ساتھ کچھ غیر انسانی کردارجیسے میگافون، پیپر ویٹ، انگوٹھی، بوتل اور گول میز بھی موجود ہیں۔ ناول میں فلم اور تھیٹر کی ایک دنیا آباد ہے۔ میلے کی رونقوں میں سٹیج کے پرلطف مناظر اور پس سٹیج دردناک واقعات ہیں۔ کباڑ کمپلیکس اور سوانگ پروڈکشنز سرریلسٹک کمپنیاں ہیں۔مرزا اطہر بیگ نے ناول کے واقعات حسن رضا ظہیرنام کے کردار کے ذریعے پیش کیے ہیں۔مصنف نے حسن رضا ظہیرکی نفسیات کا مکمل تجزیہ پیش کیاہے۔ اقبال خورشید حسن کی صورتِ حال پر کچھ یوں روشنی ڈالتے ہیں:
یہ ناول مرزا اطہر بیگ کے دیگر ناولوں سے مختلف ہے مماثلت بس ایک؛ کلیہ شکنی کی خواہش جو اور شدید ہوگئی ہے۔ ناول میں کئی کردار ایک جیسے ناموں کے حامل ہیں۔
یہ یکسانیت انتشار کو مہمیز کرتی ہے۔ آپ کو سررئیلزم کی جھلکیاں ملیں گی، کچھ عجیب و غریب ادارتی نوٹ۔ مصنف کی براہِ راست کلام کرنے کی عادت اور سب سے اہم؛ بیانیے میں فلم میکنگ کی تکنیک، جس نے ناول کو نئی جہت عطا کر دی ہے۔ دراصل اندرون ناول ایک فلم بن رہی ہے جو یہ فلم نہیں بن سکتی اور یہ فلم ضرور بنے گی کے درمیان جھولتی ہے لطف دیتی ہے۔ (۱)
حسن کی صورت ِ حال ہمیں ایک عجیب وغریب دنیا سے متعارف کرواتا ہے۔اس ناول میں تہذیبی خردافروزی، سائنس کے ذریعے دنیا پرغلبہ کے نظریات، سیاسی اتار چڑھاؤ، ورلڈ ریکارڈ بنانے کی تگ و دو، فلمی سکرپٹ رائٹنگ کا انداز اور ہم نام کرداروں کی تکرار ناول کو دلچسپ بنا دیتے ہیں۔اس ناول میں مرزا اطہر بیگ نے سکرین پلے کی تکنیک استعمال کی ہے۔ناول کا اسلوب، ہیت اور تکنیک نئے تجربات کے حامل ہیں۔
’’حسن کی صورت حال‘‘ کی تکنیک میں سادہ بیانیہ انداز، ادارتی نوٹ، کتابوں کے اقتباسات، کرداروں کی داخلی خود کلامی، سوچ، تخیل، خواب، مکالمے، انیلا سیفی سکرین پلے، سکرپٹ رائیٹنگ اور سیفی گھسیٹا کاری شامل ہیں۔سادہ بیانیہ کے ضمن میں ایک اختیاری باب، حیرت کی ادارت، کرداروں کی داخلی خود کلامی، ان کے خواب اور تخیلات بھی کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ناول میں انیلا۔ سیفی سکرین پلے بھی ہے جس میں کیمرے کی پوزیشن کے مطابق فیڈاِن، ٹاپ شاٹ، لانگ شاٹ، پین شاٹ، ٹریکنگ شاٹ، کلوز شاٹ، ٹوشاٹ، سلو موشن شاٹ اور zoom in سے مختلف سین پیش کیے گئے ہیں۔ کباڑ کمپلیکس سٹوڈیو کا نقشہ بھی دیا گیا ہے۔ مصنف واقعات کو تیزی سے انجام تک پہنچانے کے لیے ایک مختلف تکنیک استعمال کرتا ہے جس کے متعلق وہ کہتا ہے:
جز کوکل پر پھیلنے سے روکنے کے لیے ہم جز کی ایک اظہاراتی تکنیک استعمال کریں گے لیکن ترامیم اور اضافوں کے ساتھ… لیکن ساتھ ساتھ اس مقصد کے لیے وہ معلومہ تکن
یک زیادہ استعمال کریں گے جسے فلمی گرامر کے ماہرین مونتاژ کہتے ہیں اور جس کے ذریعے انتہائی مختصر وقت میں ناظر کو طویل سلسلہ واقعات کے زمانی و مکانی پہلوؤں اور کرداروں سے متعلق اہم معلومات فراہم کر دی جاتی ہیں اور اس مقصد کے لیے Dissolve, Fades, Double exposure اور بعض اوقات Split Screen کے طریقوں سے انہیں باہم مربوط کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح فلمی کہانی کی ہفتوں کیا بلکہ برسوں پر محیط پیش رفت چند منٹوں میں سموئی جا سکتی ہے۔ (۲)
مرزا اطہر بیگ کے ناول کا اسلوب جدید ہے ۔اپنے ایک انٹرویو میںمرزا اطہر بیگ نے حسن کی صورت ِ حال کے اسلوب کی وضاحت یوں کی ہے:
اس ناول کو ہم ایک تہذیبی Synthesis کہہ سکتے ہیں۔ میں نے اس ناول میں اس خطے کی تہذیب کے تاریخی، ثقافتی، معاشرتی، جمالیاتی، تخلیقی، وقوفی اور بشریاتی پہلو سمیٹنے اور ان کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اس ناول میں ایک ترکیب استعمال کی گئی ہے صورت ِ حال جسے اسٹیٹ آف افیئر بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی مکمل صورتحال ہے جس کا ہمیں آج کل سامنا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار حسن کی سوچ اور پرکھنے کے عمل سے اس صورت ِ حال کا آغاز ہوتا ہے اور بعد میں اسی صورتِ حال کے متعدد پہلو سامنے آتے ہیں جس میںہم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ (۳)
’’حسن کی صورت ِ حال‘‘میں حسن رضا ظہیر نامی ایک کردار ہے جس کو سامنے رکھ کر مصنف اس کی صور تِ حال بیان کرتا ہے ۔حسن کی صورت ِ حال چونکہ ایک سرریئلسٹک ناول ہے اور سر ریئلزم میں وقت کی اکھاڑ پچھاڑ معمولی بات ہے اور وقت کی ترتیب بدلنا ہی سرریئلزم کا خاصہ ہے۔اس ناول میں مرزا اطہر بیگ نے واقعات کو پیچیدہ انداز میں بیان کیا ہے ۔ایک ہی وقت میں مختلف واقعات کو مختلف انداز میں دیکھنا اور حال سے ماضی اور مستقبل میں جھانکنا اس ناول میں پایا جاتا ہے۔ایک ہی لمحہ کرداروں کی نفسیات کیسے تبدیل ہوتی ہے اور جسمانی اور شعوری طور پر ان کی شخصیات کی تصویر کشی مرزا اطہر بیگ کے قلم کا کارنامہ ہے۔یہاں ہمارے پاس اس کی ایک خوبصورت مثال پروفیسر صفدر سلطان کی ہے جو خرد افروزی پر اپنا ایک قیمتی مقالہ کھو بیٹھتا ہے۔جب پروفیسر بیرون ِ ملک تعلیم حاصل کررہا ہوتا ہے تو اس کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے ،جب وہ مقالہ لکھ رہا ہوتا ہے تو کیفیت تبدیل ہو جاتی ہے اور جب وہ مقالہ کھو بیٹھتا ہے تو معاملات یکسر تبدیل ہو جاتے ہیںاور وہ حواس کھو بیٹھتا ہے۔مرزا اطہر بیگ اس زمانی ومکانی اور واقعاتی تعلق پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
ہم یہ دیکھنے نکلتے ہیں کہ صفدر سلطان اور سعید کمال نامی یہ دونوں کردار کن کن زمانوں میں…کیسے کیسے ادوار میں…کیسے کیسے روپ میں اور کس کس موسم میں کباڑیے ارشاد کی دکا ن پر اسے یہ بتانے کے لیے پہنچ سکتے ہیں کہ ردی میں بک جانے والی ہر چیز ردی نہیں ہوتی۔ (۴)
حَسَن کی صورت حال کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انسانی کرداروں کے ساتھ ساتھ اس میں بے جان اشیا بھی کہانی کو آگے بڑھاتی ہیں۔ مثلاً میز، میگافون اور وائِن کی بوتل۔ مصنف کے نزدیکیہ اشیا بھی انسانی کرداروں کی طرح اہم ہیں کیونکہ ہماری روز مرّہ زندگی میں اشیا کو انسانوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جب ہم اپنی توجہ اشیا کی تاریخ بیان کرنے پہ صرف کرتے ہیں تو انسانوں کی دنیا کچھ دیر کے لیے منجمد ہو جاتی ہے اور اشیا مرکزی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔اِس صورتِ حال میں ہم انسانی کہانیوں کو ایک مختلف تناظر میں دیکھنے کے انوکھے تجربے سے دوچار ہوتے ہیں۔ حَسَنکی صورت حال میں جن اشیا کا ذکر آتا ہے ان کی مکمل سوانح اور تاریخ بیان کی گئی ہے، مصنف کے مطابق اشیا کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور نظر انداز کیے جانے کییہ روایت کسی صورت قابل قبول نہیں ۔مصنف اس ضمن میں رقم طراز ہے:
چیزیں بول نہیں سکتیں اور چیزوں کے لیے بولنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا…. ہم نے اپنے بچپن میں دیکھی لیکن پھر نامعلوم وجوہ کی بنا پر وہ پنپ نہ سکی۔ ہم نے خود کھوٹے سکے کی کہانی ایک ٹوٹی کرسی کی سرگزشت اور ایک ٹوپی کی داستان جیسے موضوعات پر لاجواب مضمون قلم بند کر کے امتحانات میں اچھے خاصے نمبر حاصل کیے ہیں… ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ….جہاں بھی ممکن ہوا اور ضروری ہوا ہم چیزوں کے لیے بولیں گے خواہ وہ کباڑیے کی دکان کی چیزیں ہوں ۔ (۵)
ان بے جان چیزوں کے زریعے مصنف نے انسان کے لالچ، ہوس، قتل و غارت ،عیش پسندی ،فسادی مزاج اور جنسی بے راہ روی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔گوکہ یہ بے جان اشیا زبان نہیں رکھتیں لیکن تاریخ ضرور رکھتی ہیں۔ مصنف نے وہی تاریخ بیان کی ہے۔
i۔ وائن کی بوتل:
ارشاد کباڑیا شراب کی جس صراحی نما خالی بوتل کو صاف کرتا ہے اس پر ایک مشہور شراب ساز پرتگالی خاندان کے گھڑ سوار کی تصویر بنی ہے۔ تیرھویں صدی میں اس خاندان کا ایک نوجوان الفانسوڈیازپیزارو صلیبی جنگ میں حصہ لینے کے لیے مورز کے علاقے میں داخل ہوا تو دیکھاکہ ایک مور کو شراب پینے کے جرم میں کوڑے مارے جارہے ہیں۔ وہ خوفزدہ ہو کر واپس آگیا اور فیصلہ کیا کہ وہ ساری زندگی شراب سازی میں گزارے گا تب وہ اور اس کی نسلیں شراب سازی کے لیے مشہور ہو گئے۔ یہ بوتل بیس سال تک لزبن کیwinery کے تہہ خانے میںaging کی مدت پوری کرنے کے بعد مصر پہنچی جہاں سے ایک مصری دوست نے اپنے پاکستانی دوست کو تحفے میںدی جو کئی ممالک کا سفیر رہنے کے بعد اب وزارت خارجہ میں اہم عہدہ دار تھا۔ صاحب کے ملازموں نے جب اسے خالی پایا تو کباڑیے کے ہاں بیچ دیا۔اس کہانی میں خوف ،حرص وہوس، رشوت ،دھوکہ اور چوری کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ii۔میگا فون:
ناول میںمیگافون کی تاریخ اور اس کے حالات کا ذکر بھی شامل ہے۔ چوک خداداد میں جبار میگا فون کے ذریعے عظیم نجات دہندہ سے نجات کی خوشی میں بانٹی گئی مٹھائی جمع کر رہا ہے اچانک اس کا میگا فون خراب ہو جاتا ہے۔ میگا فون کی خرابی جاننے کے لیے اس کے ماضی میں جانا ضروری ہے۔یہ جاپانی میگا فون ولسن اینڈ کڈ نامی ایک امریکن فرم کی وساطت سے یہاں پہنچا اور پولیس کے سامان کے ساتھ پڑا رہا۔ایک ہنگامے میں محافظ دستے کے سربراہ نے میگافون کے ذریعے فسادیوں کو خبردار کرنا چاہا لیکن فسادیوں کے پتھراؤ سے میگا فون خراب ہو گیا۔ بعد میں نیلامی کے ذریعے لکی سٹار تھیٹر پہنچا جسے ماسٹر یاسین نے چالو کر کے قابل استعمال بنایا۔ میلے کی آخری رات میگافون پھر خراب ہو گیا اسے جبار جو ٹکٹیں جمع کر رہا تھا، کو دے دیا گیا۔میگا فون کی تاریخ میں سیاست ،جمہوریت،فساد،فنون لطیفہ کا تذکرہ شامل ہے۔
iii۔ پیپرویٹ:
ناول میں بے شرمی کے پیپر ویٹ کی داستان بھی شامل ہے جو فساد میں پتھراؤ کے دوران حوالدار صفدر سلطان کو آ کر لگا۔ صفدر سلطان نے اسے جیب میں ڈال لیا۔ مگر جب گھر جا کر اس سنگ مرمر کے ٹکڑے کو دیکھا تو وہ سن ہو گیا کیونکہیہ بے شرمی کا پیپر ویٹ تھا جس پر ننگے مرد اور عورتوں کی مورتیاں آپس میں بغل گیر تھیں دراصل یہ پیپر ویٹ ایک ملٹی نیشنل فرم کے دفتر میں فسادیوں کے ہاتھ لگا، جبکہ اس فرم کے زونل مینجر سعید کمال کو یہ پیپر ویٹ اس کی منگیتر انیلا بلال نے تحفے کے طور پر دیا تھا جو اٹلی میں میلان کی آرٹ اکیڈمی میں سنگ تراشی اور ceramics میں ایڈوانس ڈگری کے لیے کام کر رہی تھی۔پیپر ویٹ کی کہانی میں انسان کی ناجائز جنسی خواہشات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
iv۔ انگوٹھی:
فساد میں پتھراؤ کے دوران محافظ دستے کے سربراہ کے زخمی ہاتھ کی انگلی سے جو انگوٹھی کاٹ کر اتاری گئی اس کی کہانی بھی قابل ذکر ہے۔ علاج معالجے کے بعد اسے نرس نے عجیب و غریب تاثرات کے ساتھ کٹی ہوئی انگوٹھی واپس کی جو کہ انیلا بلال کے ساتھ اس کا رشتہ طے ہونے کی نشانی تھی اور اسے سسرال کی جانب سے ملی تھی۔ سعید کمال جب انگوٹھی کی مرمت کے لیے سنار کے پاس گیا تو اس نے بتایا کہ یہ خالص سونے کی نہیں بلکہ پیتل پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔ تب سعید کمال کو نرس کے تاثرات سمجھ آگئے۔
v۔ گول میز:
گول میز کی کہانی ناول کا باب ٢٠ہے۔اس طرح گول میز ان سب میں اہم ہے۔ ایمزون جنگلات میں ڈیڑھ سو سال پہلے پیدا ہونے والے مہاگنی کے درخت کو کاٹ کربنی گول میز جو سنگاپور میں آرڈر پر تیار ہوئی مگر بوجوہ اپنے اصل مالک تک نہ پہنچ پائی اور ایک کسینو کی زینتبنی ۔یہاں پوکر کھیلتے ہوئے ہارنے والے کھلاڑی کے وار سے جیتنے والے کی مقتل گاہ بنی۔ کسینو بند ہوا تو میز کسینو کے مالک کے دوست کیپٹن و نسینٹ کے ذریعے جہاز کے crew room میں پہنچ گئی۔ ایس ایس بورنیو نامییہ بحری جہاز سمندری سفر کے دوران بحری قزاقوں کے نرغے میں آگیا۔ قزاقوں نے crew room میں میز کے گرد بیٹھے عملے کے سات افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ جہاز شپ بریکنگیارڈ پہنچا۔ رحمان دادا نے گول میز صاف کروا کر اپنے دوست کے زیر زمین کلینک پہنچا دی جہاں سیاسی مخالفین کو اذیت دہ موت سے ہمکنار کیا جاتا تھا۔ جب کلینک بند ہوا تو گول میز پہلے گوگا فرنیچرز اور پھر گوگی فرنیچرز سے ہوتی ہوئی سعید کمال کے گھر پہنچی۔ یہاں انیلا نے اسے اپنیFurnace کے سامنے Clay کو Bake کرنے کے لیے رکھوا دیا۔ اس گھر میں ڈرائیور کی پوتی خالدہ کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا اور لاش کے ٹکڑے کر کے Furnace میں راکھ بنایا گیا۔ بعد میں میز درانی بلڈنگ منتقل ہوگئی جہاں سوانگ پروڈکشنز کے دفتر میں فلم گروپ کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی نذر ہوئی بالآخر شکستہ حالت میں اپنی فطرت کے عین مطابق قصائی کے ہاں مرغیوں کی مذبح گاہ بن گئی۔ مصنف نے اپنے تخیلکی زبردست طاقت سے گول میز کی خونی کہانی کو انتہائی خوفناک بنا کر پیش کیا ہے۔گول میز کی اس کہانی میں مصنف کی مختلف پیشوں کے متعلق معلومات سے مصنف کے ذوق کا ندازہ ہوتا ہے۔لکڑی سے میز کا بننا، پوکر کا کھیل ،کسینو کا کاروبار،سمندری جہاز کا عملہ اور سفر،زیر ِ زمین مجرموں کی سرگرمیاں، فرنیچر سازی اور اس کا کاروبار،مجسمہ سازی ،فلم سازی اور آخر میں قصائی کا کاروبارمصنف کی معلومات کی داددیتے نظر آتے ہیں۔
تحلیل نفسی:
تحلیل نفسی کے معنی ہیں اپنے آپ کی کیفیتوں کو ٹٹولنا اور ان خالی جگہوں کو ڈھونڈنا جو انسانیاذہان میںباقی ہیں۔ تحلیل نفسیمیں معمول کو بستر پر آرام سے لٹادیا جاتا ہے ۔اسے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں ڈوب کر اس کا مطالعہ کرے اور ذہن میںآنے والے خیالات کو بے تکلف اور بے تکان بیان کرے۔ اس طریقہ کارمیں لاشعور میں دبی ہوئییادوں اور یادداشتوں کو شعور کی سطح پر لایا جاتا ہے۔ ہم اپنے سینے میں کیا کیا راز چھپائے ہوئے ہیں اس کا اندازہ غیر تو غیر خود ہمیں بھی نہیں،یہ تو صرف تحلیل نفسی سے ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ ایک فرشتے میں کتنے شیطان اور شیطان میں کتنے فرشتے چھپے ہوئے ہیں۔ تعمیری اور مثبت نظریات انسانی شخصیت کو طاقت، محبت، روشنی اور عظمت کے مینار میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ہر خیال اچھے یا برے طریقے پر ہمارے جسم کو متاثر کرتا ہے۔
i۔ناول کے اہم کردار وں کا تحلیل نفسی:
مرزا اطہربیگ نے حَسَن کی صورت ِ حال میںمختلف کرداروں کی مختلف انداز میں تحلیل نفسی کے ذریعے ان کی شخصیت کو مکمل کیا ہے۔حسن رضا ظہیر کی زندگی میںسفر اہمیت کا حامل ہے اور وہ اس سفر کے ذریعے مختلف مناظر کو دیکھتا ہے ۔ کئی مناظر اُس کے ذہن میں خالی جگہیں چھوڑ جاتے ہیں تو وہ ان کو اپنی تحلیل نفسی کے ذریعے خواہ وہ عملی طریقہ کار اختیار کرتا ہے یا ذہن کو استعمال کرتا ہے ان خالی جگہوں کو پُر کرتا چلا جاتا ہے۔آگے ہم اس پر مزید بحث کریں گے ۔ دوسرا اہم کردار سیفی ہے جو گھسیٹا کاری کے ذریعے نیلا رجسٹر استعمال کرتا ہے اور اس طرح سے وہ لکھ کراپنی شخصیت کو مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔سیٹھ صفدر سلطان اس مقصد کے لیے ببلی کا سہارا لیتی ہے اور ببلی اپنی فلم بنانے کے لیے سیٹھ صفدر سلطان کا ۔پروفیسر صفدر سلطان تہذیبی خرد افروزی کے نظریہ پر محنت کرتا ہے اور اس طرح وہ عملی طور پر ذاتی تحلیل نفسی کا کام کرلیتا ہے۔سعید کمال نام کے مختلف کردار بھی اپنے اپنے انداز میںیہ کام سر انجام دیتے ہیں ۔اسی طرح ارشاد کباڑیا اور جبار جمع کرنے والا بھی اپنی نامکمل شخصیت کو کباڑ کمپلکس کے ذریعے مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ارشاد کباڑیا میں بعض اوقات شیکسپیئر کی روح گھس جاتی ہے گو کہ یہ ایک مضحکہ خیز صورت ِ حال ہے لیکن اس طریقہ کارکو بھی مصنف نے استعمال کیاہے۔
ii۔ خالی جگہیں پر کرو…. حیاتِ انسانی میں رہ جانے والا خلا اور تجسس:
خالی…جگہیں …پُر …کرو۔ ناول کا ذیلی عنوان ہے۔انسان کا ذہن بہت پیچیدہ ہے ۔انسان کی حقیقی زندگی کیا ہے اور انسان کی ظاہری زندگی کیا ہے ؟ اس کا تعلق انسان کے ذہن کے ساتھ ہوتا ہے ۔انسان کی زندگی میں کئی ایسے لمحات آتے ہیں جو اُس کی زندگی میں ایک خلا چھوڑ جاتے ہیں ۔بعض اوقات یہ خلا پُر ہو جاتا ہے اور بعض اوقات یہ خالی جگہیں پُر نہیں ہوتیں ۔انسان کے ذہن میں ایک تجسس سا رِہ جاتا ہے۔مرزا اطہر بیگ نے انسان کے ذہن کے اسی پہلو کو اپنے ناول حسن کی صورت ِحال میں اُٹھایا ہے۔مصنف کا تخلیق کردہ کردار حسن اپنیزندگی میں آنے والی خالی جگہوں کو کچھ اپنے خیالات سے پُر کر لیتا ہے جیسا کہ ہر انسان کرتا ہے اور بادےئ النظرمیں وہ کچھ خالی جگہوں کو پُر کرنے کے لیے عملی اقدامات اُٹھا تا ہے۔یہاں اُ س کی چند مثالیں ملتی ہیں :
تو اسی طرح حسن رضا ظہیر کے ساتھ چلتے چلتے ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے نہ صرف ٹوٹے ہوئے آئینے اور خون کی لکیروں ،ڈھانچہ گاڑی میں کتاب بلکہ برسوں پر محیط ایسے ہی اٹکے خوف کے ان گنت دوسرے لمحات کے خالی پن کو بھی کئی متبادل منظر ناموں سے پُر کیا۔مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ سب بیان نہیں ہو سکتیں۔سڑک کے کنارے کھڑی برقع پوش خاتون ایک لمحے کے لیے نقاب اٹھاتی ہے ۔اندر ایک چہرہ نظر آتا ہے جو نہ عورت کا ہے نہ مرد کا بلکہ شاید انسان کا ہی نہیں۔کس اور مخلوق کا ہے ۔وہ مخلوق کون ہے؟ ایک دیہاتی بس سٹاپ پر ہر روز ایک لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو محبت کے اشارے کرتے نظر آتے ہیں۔ایک روز نظر نہیں آتے۔شام واپسی پر گاؤں کی اطراف میں دو مختلف جگہوں پر دو جنازے نظر آتے ہیں ۔لڑکا اور لڑکی پھر کبھی نظر نہیں آتے ۔جنازے کن کے تھے ؟وغیرہ وغیرہ۔حسن رضا ظہیر نے کمپنی کی گاڑی میں برسوں سفر کے دوران ایسے ان گنت سوالوں کے ایسے امکانی جواب تلاش کیے جنہوں نے اسے ہر لحاظ سے مطمئن کر دیا اور اسے کبھی بھی کسی خوف لمحے کا پیچھا کرنے اور دنیا میںـ براہِراستمداخلت جیسی سنگین خلاف ورزی کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
لیکن ہم اپنی اس رائے کی صحت پر قطعاََ اصرار نہیں کریں گے کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیایہ جاننا نا ممکن ہے کہ کسی بھی شخص کی ذاتی حقیقی زندگی اصل میں کیا ہوتی ہے۔ (۶)
یہ ایک پیچیدہ سوال ہے کہ انسان کی حقیقی ذاتی زندگی کیا ہے اور حقیقی ذاتی زندگی کا فلسفہ کیا ہے؟انسان بظاہر جوزندگی جیتا ہے یا وہ زندگی جو وہ اپنے شعور اور لاشعور میں جیتا ہے۔کیا ظاہری زندگی ایک دھوکہ ہے یا شعوری زندگی دھوکہ ہے۔ انسان ان چیزوں کو جس انداز میں دیکھتا ہے مصنف نے اسے یوں بیان کیا ہے:
ہم سمجھتے ہیں کہ کفن دفن کا سامان بیچنے والوں کی دکان کے سامنے رکھے تختے پر گلاب کے پھولوں کی پتیوں اور گیندے کے ہاروں کے درمیان ایک کچھوے کو بیٹھا ہوا دیکھنا حسن کی اچٹتی منظر بینی کی تاریخ کا سب سے غیر احتمالی واقعہ تھا لیکن ظاہر ہے کہ نا ممکن نہیں تھا اس لیےیہ رائے دینا نا مناسب ہو گا کہ حسن نے ایسے مناظر دیکھنے شروع کر دیے تھے جو حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے تھے بلکہ حسن تو خود ہو سکتا ہے یہ میری نظر کا دھوکہ ہو کو ہمیشہ خوف کے آخری ناقابل تردید متبادل کے طور پر قبول کر لیا کرتا تھا۔لیکن اس کے ساتھ ہی کسی انوکھی جبلی خود آگاہی کی سطح پر وہ جانتا تھا کہ اس کی حقیقی ذاتی زندگی غیر احتمالی اور نا ممکن کے درمیان پر خطر زمان و مکا ن میں ہی پروان چڑھ سکتی ہے اور صرف حقیقی ذاتی زندگی ہی نہیں بلکہ اس کی ظاہری کامیابی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھ سکنے والے شخص کی زندگی بھی غیر احتمالی اور نا ممکن کی خطوط واحدانی میں بند تھی۔ (۷)
iii۔کرداروں کی جنسی نفسیات:
جنس انسانی زندگی کا اہم لوازمہ ہے۔یہ کئی انسانوں کے اہم مقاصد ِ زندگی میں شامل ہوتا ہے،جیسا کہ اس ناول میں صفدر سلطان۔ حَسَن کی صورت ِ حال گو کہ ایک پیچیدہ ناول ہے لیکن پھر بھی جنس کے تذکرے سے خالی نہیں ہے۔ غلام باغ کی نسبت اس ناول میں جنس کا تذکرہ کم ہے ۔انیلا بلال جو کہ فلم میں سکرپٹ رائٹر ہے اسے سعید کمال صفدرسلطان کو جنسی طور پر لبھانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔بعد ازاں ماسٹر یٰسین بالی کے ذریعے صفدر سلطان کو ببلی سے سکون کراتا ہے جس کا طریق ِ کار واقعتا عام قاری کے لیے نیا اور دلچسپ و عجیب ہے۔ اس ناول میں ہم جنس پرستی کا تذکرہ بھی شامل ہے۔
اس ناول میں جنسی نا آسودگی کا تصور زیادہ پایا جاتا ہے۔خاص طور سیٹھ صفدر سلطان اور سعید کمال کا ۔سعید کمال ویسے تو لیڈی کلر مشہور ہے لیکن عملی معاملات میں وہ فارغ ہے ۔ اسی طرح سعید کمال باڈی بلڈر غریب ہونے کی وجہ سے جنسی ناآسودگی کا شکار ہے۔ایک منظر ملاحظہ فرمائیں:
سلو موشن شاٹ: Biceps پر سے بارش کے قطروں کو چاٹنے کا کلوز۔سعید کمال کے چہرے پر آنکھوں میں لذت کی ایسی کیفیت جو جنسی لذت سے مشابہت رکھتی ہے۔ (۸)
غلبہ کی کشمکش:
حَسَن کی صورت ِحال میںایک پہلو انسانوں کی ایک نسل کی دوسری نسل پر غلبہ کی کشمکش ہے ۔ پروفیسر صفدر سلطان جب اس کے لیے جدو جہد کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اُ سے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔وہ تہذیبی خرد افروزی کے ذریعے غلبہ کی خواہش رکھتا ہے ۔ اسی طرح سیفی بھی کچھ عجیب وغریب خیالات کاحامل کردار ہے ۔وہ نوآبادیاتی نظام کے بھی سخت خلاف ہے ۔جا ن کو کباڑ کمپلکس کا دورہ کراتے ہوئے ایک موقع پر وہ کہتا ہے:
سیفی: ہاں اس کا سرخ رنگ ۔جو تم دیکھ رہے ہو خون ہے…اسے ہمارے ہاں صدیوں سے ظلم کی ہر شکل ،خاندانی،تہذیبی،مذہبی اور سامراجی کے خلاف جدوجہد میں جان دینے والوں کے خون سے بنایا گیا ہے۔یعنی جان دینے کی وہ صورتیں جن میں خون خارج ہوتا ہے ۔مثلاً… جان کا منہ بگڑ جاتا ہے ۔جیسے ابکائی آرہی ہو۔ (۹)
مصنف کے مطابق مغرب نے جمہوریت کے ذریعے سیاسی غلبہ حاصل کیا ہواہے اورانہیںیہاں اب فوج کشی کی ضرورت نہیں کیونکہ انہوں نے جمہوریت کو لوگوں کی ضرورت بنا دیا ہے ۔جمہوریت کے اس ڈرامہ کو سکرین پلے کی صورت میں مصنف نے باب ٤ عظیم نجات دہندہ سے نجات۔ آؤ مٹھائی بانٹیں میں ملکی سیاسی صورت حال کی شکل میں پیش کیا ہے۔ شہر کا مرکزی چوک خداداد عظیم نجات دہندہ سے نجات کی خوشی مناتے اور مٹھائی بانٹتے لوگوں سے بھرا ہے وہ ایک بار پھر عظیم نجات دہندہ سے نجات پانے پر اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں اوررنگا رنگ مٹھائیاں راہ چلتے لوگوں کے منہ میں ٹھونس رہے ہیں۔ عظیم نجات دہندہ سے نجات ایک طویل جدوجہد کے بعد نصیب ہوئی تھی۔ اس جدوجہد میں اشتعال انگیز مظاہرے، احتجاج، ہنگامہ، فساد سب شامل تھا۔ایک منظر ملاحظہ فرمائیں:
نجات چاہنے والوں کے حوالے سے بری بری خبریں آ رہی تھیں اور ان کے ساتھ بُری کرنے کا آرڈر تو گذشتہ شام ہی آچکا تھا.. محافظ دستے کے سربراہ نے میگافون کا رخ فسادیوں کی طرف کیا… خبردار۔ (۱۰)
فسادی ہلہ بول چکے تھے اور سخت پتھراؤ کر رہے تھے جس سے محافظ دستے کا سربراہ لہولہان ہو گیا۔ فسادیوں کی زبردست طاقت دیکھ کر آنسو گیس کے گولے برسائے گئے اور پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔ شرپسندوں کی گولی نے ڈپٹی انسپکٹر کو ہلاک کر دیا۔ فسادیوں نے نجات پانے کے مطالبے کو پرزور بنانے کے لیے دکانوں اور دفاتر میں خوب لوٹ مار مچائی۔ بعد میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر کو آگ لگا دی۔ یہ مظاہرے کئی دنوں تک جاری رہے بالآخر عظیم نجات دہندہ سے نجات حاصل ہو گئی۔کیا شاندار مصروفیت ہے اب لوگوں کے پاس ۔
باب٣ کباڑ خانہ میں مصنف ایک انگریزی ناول The Clash کا حوالہ دیتے ہوئے غلبہ حاصل کرنے کی خواہش اور کشمکش کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
ناول کے مرکزی خیال کے مطابق ہر ثقافت اور پھر مجموعی طور پر ہر تہذیب میں اپنے علاوہ باقی ہر ثقافت اور تہذیب پر غلبہ حاصل کرنے بلکہ بعض کے ہاں تو دوسروں کو سرے سے تہہِ تیغ کر دینے کی جو شدید خواہش پائی جاتی ہے اُس کی حقیقی وجہ ثقافتییا تہذیبییا تاریخی نہیں بلکہ جینیاتی ہے۔ (۱۱)
غلام باغ کی طرح حسن کی صورت ِ حال میں بھی غلبہ کی خواہش اور اعلیٰ وادنیٰ کی کشمکش دکھائی گئی ہے۔ مصنف نے سیفی اور پروفیسر کے ذریعے مغربی تہذیب اور اس کے غلبے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ غلام باغ میں ناول لکھنے پر زور ہے اور حَسَن کی صورت ِ حال میں فلم بنانے پر ۔نہ ہی ناول لکھا جاتا ہے اور نہ ہی فلم بن پاتی ہے ۔ ناول لکھنے والا اور فلم بنانے والا پورا عملہ حادثاتی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس میںیہ دکھایا گیا ہے کہ یہ سارا کچھ غلبہ کی خواہش اور کشمکش کی وجہ سے ہے۔ امبر جان کبیر کو اس لیے مار دیتا ہے کہ وہ زہرہ پر قبضہ کر لیتا ہے اور فلم بنانے والا پورا عملہ مغربی ایجنسیوں کی تخریب کاری کے نتیجے میں فلم بناتے ہوئے بم دھماکے کا شکار ہو جاتا ہے۔
حسن کی صورتِ حال میں سررئیلسٹ فلم بنانے کی وضاحت کرتے ہوئے مرزا اطہر بیگ نے خود بھی ایک سررئیلسٹ ناول لکھ دیاہے۔ناول میں جگہ جگہ حقیقت کے ساتھ ماورائے حقیقت واقعات موجود ہیں۔مثال کے طور پر ارشاد کباڑیے میں شیکسپیئر کی روح کا آنا، ہوپ کو آدم خور پودے کا کھانا، پروفیسر صفدر سلطان کا جنات سے بجلی پیدا کرنا اور آدم خور پودوں کا عرق تیار کرنا اور اس کے علاوہ حسن کا حیران کن مناظر دیکھنا اور حقیقت میں تخیل شامل کر کے خالی جگہیں پر کرنا سررئیلزم میںشامل ہے۔ ناول میں ابتدا سے لے کر اختتام تک ایسے ہی واقعات پیش کیے گئے ہیں جو سررئیلزم کی تعریف پر پورا اترتے ہوں۔ عاصمہ اصغر سررئیلزم کے بارے میں لکھتی ہیں:
دراصل سررئیلزم نے ظاہری حقیقت اور شعور کے مدار سے باہر نکلنے کی کوشش کی یعنی ماورائے حقیقت ایک اور طرح کی حقیقت کو پیش کرنے کی جستجو کی۔ یہی وجہ ہے کہ سرئیلی فنکار لاشعوری اور غیر منطقی طریق کار پر کاربند ہوتا ہے۔ (۱۲)
حَسَن کی صورت ِ حال کرداروں کے حوالے سے ایک الگ ناول ہے ۔ اس ناول میں ایک ہی نام کے مختلف کرداروںکو انسانی معاشرے کے مختلف طبقات میں دکھاتے ہوئے ان کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ حَسَنکی صورت ِ حال میں گو کہ اہم کردارسیفی ،انیلا ،صفدر سلطان ،سعید کمال،جبار اور حسن رضا ظہیر ہیں اور چھوٹے کردار بے شمار ہیں لیکن ہم نام کرداروں کی تکرار دلچسپی کی حامل ہے جن میں صفدر سلطان ،سعید کمال، ارشاد ،جبار، انیلااوریٰسین کے کردار شامل ہیں۔صفحہ ٤٣ پر صفدر سلطان ایک پروفیسر، صفحہ ٧٨ پرحوالدار،صفحہ ١٠٠ پرفلم فنانسرہے ۔صفحہ ٤٣ پر سعید کمال صفدر سلطان کا شاگرد ،صفحہ ٦٨ پرASP،صفحہ ٨٢ پر ایک کمپنی کا زونل مینیجر، صفحہ ٨٤ پر مولوی کا بیٹا،صفحہ ٩٩ پر فلم ڈائریکٹر ،صفحہ ١٤٣ پر باڈی بلڈر، صفحہ ٣٧٨ پر ایک ننھا طالب علم جو بڑا ہو کر ایک کامیاب مترجم بنا۔اسی طرح وہ لکی سٹار تھیٹر کا رانجھا بھی ہے اور مرزا بھی ہے ۔ان کے علاوہ صفحہ ٦٩پر انیلا بلال ایک لیکچرر ہے اور ASP کی منگیتر ہے،صفحہ ٨٢ پر وہ زونل مینیجر کی محبوبہ ہے ،صفحہ ٨٧ پر انیلا سسی کے نام سے سٹیج درامہ کی اداکارہ ہے،صفحہ ٩٩ پر فلم کی سکرپٹ رائٹر ہے۔ان اہم کرداروں کے علاوہ ارشاد کباڑیہ ، ارشاد ڈرائیور،جبار فسادی،جبار ہوٹل والا اورجبار جمع کرنے والا،ماسٹریٰسین کیمرہ مین اوریٰسین مکینک سب ملتے جلتے ناموں کے الگ الگ کردارہیں ۔مصنف نے ان کی زندگیوں میں ان کی نفسیاتی صورت ِ حال کواس طرح سے کھول کر بیان کیا ہے:
ہم ہر ممکن اصرار کریں گے ، دیکھا جائے تو مثالی حقیقی صدمہ کا جو تصور اس تحریر میں سامنے لایا گیا ہے یعنی ایسا صدمہ جس کا دکھ آپ دنیا میں کسی ایک بھی شخص کے ساتھ بانٹ نہ سکیں ،اتنا گھمبیر اور دل ہلا دینے والا المیہ کہ اس پر صفحوں کے صفحے کالے کیے جا سکتے ہیں لیکن ہم ایسا کچھ بھی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے کیونکہ ہمیں دوسرے بہت سے افراد کا جائزہ بھی لینا ہے جو شاید اتنے مثالی اور حقیقی نہ ہوں لیکن بہرحال حسن کی صورت حال کا حصہ ہیں۔مثال کے طور پر سوانگ فلم گروپ کے ممبران کے صدمات جو اپنے اپنے طور پر اس امیدوبیم میں مبتلا ہیں کہ اعلی پائے کی فلم یہ فلم نہیں بن سکتی کبھی بن سکے گییا نہیں۔اور آرٹ اور کلچر کے چمپین حکمت بہزاد کی زندگی بھر کے صدمات میں کھلنے والے نئے صدمات کا باب ۔اپنی گھریلو تہذیب کی خرد افروزی کے چمپین پروفیسر صفدر سلطان کا صدمہ کہ الہ دین کے چراغ کا جن بجلی پیدا کرنے میں کوتاہی کیوں کرتا ہے۔پروفیسر کے شاگرد سعید کمال کا صدمہ کہ ارشاد کہ ارشاد کباڑیے نے پروفیسر کے خرد افروزی کے مسودے کو کیا واقعی آگے ردی کے بھاؤ بیچ دیا۔ پیارا نامی بونے کا کافی حقیقی صدمہ کہ جب وہ بے بی کٹار کا وصل حاصل کرتے محروم رہ جاتا ہے۔اور اس کے علاوہ بھی دوسرے سعید کمال۔دوسری انیلا۔دوسرے صدمے۔ (۱۳)
حَسَن کی صورت ِ حال میں دولت ،شہرت ،عزت ،مرتبہ، جنسی خواہشات کی جائز وناجائز تکمیل، غلبہ کی جدو جہد اور کشمکش اس ناول کا فلسفہ حیات ہے۔اس ناول کا ہر کردار اپنی مابعد الطبیعیات کا حامل ہے۔یہ ناول کئی ایک علوم کا احاطہ کرتا ہے جو زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق ہیں۔
حوالہ جات
۱۔اقبال خورشید:’’مرزا اطہر بیگ کی صورت حال ‘‘مشمولہ: سنڈے ایکسپریس( فیصل آباد، ٢ نومبر٢٠١٤) ص٢١
۲۔مرزا اطہر بیگ:’’حسن کی صورت ِ حال‘‘(سانجھ پبلیکیشنز،لاہور،٢٠١٤) ص٢٨٩
۳. www.dw.de/حسن۔کی۔صورتحال۔مرزا۔اطہر۔بیگ۔کا۔نیا۔ناول/a.17659421
۴۔مرزا اطہر بیگ:’’حسن کی صورت ِ حال‘‘ص٣٩
۵۔ایضاً، ص ١٥
۶۔ایضاً، ص ٢١
۷۔ایضاً، ص ٤٥
۸۔ایضاً، ص ٤٩
۹۔ایضاً، ص ٤٤٧
۱۰۔ایضاً، ص ٦٦
۱۱۔ایضاً، ص ٤٧
۱۲۔عاصمہ اصغر، ’’سررئیلزم‘‘ مشمولہ: زبان وادب(شعبہ اردوجی سی یونیورسٹی، فیصل آباد،شمارہ٧،جولائی تا دسمبر٢٠١٠) ص١٣١،١٣٢
۱۳۔مرزا اطہر بیگ:’’حسن کی صورت ِ حال‘‘ ص ٣٦٣
٭٭٭٭
محمد فاروق بیگ
لیکچرار،شعبہ اردو،رفاہ انٹر نیشنل یونی ورسٹی فیصل آباد کیمپس،فیصل آباد ،پاکستان
Muhammad Farooq Baig
Lecturer Department of Urdu, Riphah International University Faisalabad Campus, Pakistan
Leave a Reply
Be the First to Comment!