ملا نصرتی ۔۔۔ ایک مطالعہ

Mulla Nusrati is reckoned as a driving force for Adil Shahi poet in the reign of Sultan Ali Adil Shah II, the eighth king of the Adil Shahi dynasty.

From the former researches and critical books, his real name was Sheikh Muhammad Nusrat who was born in a Sunni Muslim family at Bijapur. According to modern research, the year of his birth is 1600 AD or 1008 AH. His ancestors were courtiers and property owners. His father’s name was Sheikh Makhdoom and his grandfather’s name was Sheikh Malik Bud. Moreover, he had two brothers, Sheikh Mansoor and Sheikh Abdul Rahman, and they were soldiers. Mulla Nusrati emerged during the reign. He wrote the first book Gulshan-e-Ishq, but the second book Ali Namah received the title of Malik-ul-Shu’ara by the king. His third book is Tarikh-e-Sikandri discussing the achievements of Sultan Sikandar Shah’s era. Apart from the mentioned books, he also wrote Qaseeda, Ghazal Hajo and Qita. He was martyred anonymously by his literary rivals in 1664 AD or 1085 AH.

اُردو کے ابتدائی ادوار میں دکنی عہد کو ایک الگ اور ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ اس دورمیں دکھنی زبان کے مشہور و معروف شعرا کی ایک بڑی کھیپ منظرِعام پر آئی ،جن میںملا شہید قمی، شاہ برہان الدین جانمؔ، عبدل ، حکیم آتشی، قطب رازی، مرزا مقیمی، امین ، مرزا دولت شاہ، ظہور ابن ظہوری، حسن شوقی، صنعتیؔ، رستمیؔ، ملک خوشنود، شاہ امین الدین اعلیٰ، ملا نصرتیؔ، میراںہاشمی، محمد امین ایاغی، شغلی، عبدالکریم کیریم، مومن، مرتضیٰ ،حسینی، قدرتی، قادر، شاہ ملک،مختار،مرزا بیجاپوری وغیرہ عادل شاہی عہد کے معروف شعرا رہے ہیں۔

اِن دکھنی شعرامیں جو شاعر دکنی رزم و بزم کے اُستاد قرار پائے وہ ملانصرتی ہیں۔ملانصرتی ن

علی نامہ

ے بطور شاعر سلطان علی عادل شاہ ثانی شاہیؔکے دربار تک رسائی حاصل کی اور ملک الشعرا کا تاج سر پر سجا کر دکھنی عہد اور خصوصاً عادل شاہیہ کے نمائندہ شاعر ٹھہرے۔

بیجا پور کی رزم و بزم اور ادبی فضا کو گرما دینے والے ملا نصرتی کے بارے میں مصنف بساتین السلاطین محمد ابراہیم زبیری لکھتے ہیں:

شعرائے ہندی گو بسیار از خاک بیجاپور برخاستہ اند خانہ بخانہ ہنگامۂ شعر تازہ گوئی گرم داشتہ اند۔ ازاں طبقہ یکے میاں نصرتی است کہ برنصرت طبع وقار و مساعدت ذہین ثاقب تیغ زباں پرکشیدہ فتح اقلیم سخنوری کردہ بملک اشعرائے مسلم شد اشعار تازہ مضامین و خیالات مطبوع و رنگین او مقبول بردیدہ رضا گذشتہ برصدق ایں مطالب درنتیجہ طبعے وفا دش یکے گلشنِ عشق کہ در عشق

بازی منہر کنور ومد مالتی باز بستہ است دوم علی نامہ کہ درفتوحات ممدوح عہد خود علی عادل شاہ برداشتہ است”۔ ۱؎

اِسی طرح مصنف گلدستۂ بیجاپور میر احمد علی خان اُن کے بارے میں لکھتے ہیں:

میاں نصرتی کہ خیال رنگین و اشعار تازہ مضامین اس کے مقبول خاص و عام کے ہیں اور شعرائے زماں میں ملک الشعراء سے مشہور ہے اور طبع زاد سے اپنے کتاب گلشنِ عشق اور علی نامہ نام سے اُس شہریار عالی وقار کے تصنیف کیا ہے جو کوئی نسخہ زبان ہندی میں اس خوبی اور تازہ مضمون سے نہیں بنا ہوگا۔ ملانصرتی ہندی گوتھا۔ ۲؎

شعر تازہ گوئی کو گرما دینے والا یہ محرک اور معانی و مضامین میں جدت پیدا کرنے والا یہ علم بردار عادل شاہیہ ملکِ الشعراایک منجھے ہوئے مثنوی نگار،ہراول قصیدہ نگار،کلاسیک غزل نگار،قابل اعتبار تاریخ نگار، رباعی نگار،قطعہ نگاراور ہجو نگار ہوکر بھی آج گمنامی کے پردوں میں ہے۔ حالاتِ زندگی پر ایک کتاب موجود ہونے کے باوجود اُن کے بارے معلومات انتہائی کم او رتحقیقی تقاضوں کے مطابق ناکافی ہیں۔ خود اُن کی فراہم کردہ معلومات جو  گلشنِ عشق   اور   علی نامہ   سے ملتی ہیں۔ اُن کے علاوۂ اُن کی زندگی اور خصوصاً جنم ،جنم بھومی، بچپن اور جوانی اب بھی تحقیق طلب ہیں۔ تحقیقی تقاضا کے تحت مثنوی گلشنِ عشق پر بحث کرتے ہوئے اِس کے خالق پر تحقیقی و تنقیدی بحث بھی تحقیق کا حصہ ہے۔ اِس لیے   ملا نصرتی ایک مطالعہ   کے عنوان سے اُن کے حالاتِ زندگی، شخصیت اور فن پر مختصر مگر جامع تحقیقی و تنقیدی بحث کی گئی ہے۔

ملانصرتی کی پیدائش کے حوالے سے تقریباً تمام تحقیقی کتابیں خاموش ہیں۔ البتہ انسائیکلوپیڈیا پر ایک آرٹیکل میں اُن کی پیدائش (۱۰۰۸ھ/۱۶۰۰ء) لکھی ہوئی ملتی ہے۔ اُردو لٹریچر کے نام سے یہ ایک مضمون ہے جو انگریزی زبان میں ہے۔ اِسے شمس الرحمان فاروقی نے لکھا ہے۔۳؎

اُن کے نام کے حوالے سے بھی تحقیقی دنیا میں شش وپنج پائی جاتی ہے۔

نصرتی کی شاعری پر مولوی عبدالحق کی کتاب

مصنف محبوب الزمن تذکرہ ٔ ِشعرائے دکن مولوی عبدالجبار ملکاپوری نے ان کا نام  محمد نصرت   لکھا ہے۔۴؎

مصنف چمنستانِ شعرا لچھمی نرائن شفیق اورنگ آبادی نے صرف   نصرتی   لکھاہے۔۵؎

مصنف اُردوئے قدیم حکیم سید شمس اﷲ قادری نے   شیخ نصرت   نام لکھا ہے۔۶؎

مصنف دکن میں اُردو،اُردومخطوطات اور یورپ میں دکنی مخطوطات نصیر الدین ہاشمی نے بھی یہی لکھا ہے اور حوالے کے طور پرچمنستان شعرا،طبقات الشعرا اور قدیم دکھنی تذکروں کا حوالہ دیا ہے۔۷؎

مصنف تاریخِ ادب ِاُردو ڈاکٹر رام بابو سکسینہ نے   شیخ نصرت   نام نقل کیا ہے اور ضمن میں اُردوئے قدیم از شمس اﷲ قادری کا حوالہ دیا ہے۔ ۸؎

مصنف تاریخِ ادبِ اُردو ڈاکٹر جمیل جالبی نے   محمد نصرت   نام لکھا ہے۔۹؎

مصنف ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اُردو مثنویاں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بھی یہی نام نقل کیا ہے اور محبوب الزمن تذکرہ شعرائے دکن از مولوی عبدالجبار ملکاپوری کا حوالہ دیا ہے۔ ۱۰؎

مخطوطاتِ اردو انجمن ترقی اُردو (جلد اول) میں افسر صدیقی امروہوی اور سید سرفراز علی رضوی نے بھی یہی نام لکھاہے اور دکن میں اُردو و یورپ میں دکنی مخطوطات از نصیرالدین ہاشمی اور محبوب الزمن ازمولوی عبدالجبار خان آصفی کا حوالہ دیا ہے۔ ۱۱؎

مولوی عبدالحق نے اپنی تصنیف  نصرتی   میں اِسی نام کے حوالے سے محبوب الزمن تذکرہ شعرائے دکن از مولوی عبدالجبار ملکا پوری کا بیان نقل کیا ہے۔مگر ساتھ ہی بغیر ثبوت کے اِس کے ماننے میں تامل کا اظہار بھی کیا ہے۔۱۲؎

موصوف نے اپنی ایک تالیف   گلشنِ عشق   میں بھی اِسی حوالے سے محبوب الزمن تذکرہ شعرائے دکن از مولوی عبدالجبار ملکا پوری کا حوالہ دیا ہے۔ ۱۳؎

اِن تمام کتابوں کے تحقیقی وتنقیدی مطالعہ کے بعد اور ملانصرتی کے حقیقی بھائیوں کے نام شیخ منصور اور شیخ عبدالرحمٰن کی مناسبت سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ ملانصرتی کا اصل نام اُن کے بھائیوں کے ناموں کی مناسبت سے شیخ محمد نصرت المعروف بنام میاں نصرتی ،ملانصرتی یامولانانصرتی تھا ،جبکہ نصرتی ؔتخلص کیا کرتے تھے۔

ملانصرتی کا آبائی وطن کون سا تھا اور وہ کس خاندان سے تعلق رکھتے تھے؟ اس حوالے سے مصنف چمنستانِ شعرا لچھمی نرائن شفیق اورنگ آبادی لکھتے ہیں کہ ملانصرتی ریاست کرناٹک کے حاکم کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے لیکن موصوف نے حاکم کرناٹک کا نام نہیں لکھا اور نہ ہی اپنی اِس تحقیق بابت کوئی ثبوت بہم پہنچائی ہے۔ یہ بات بالائے عقل اِس لیے ہے کہ ملانصرتی نے اپنی تصانیف میں جگہ جگہ اپنے آبا واجداد اور خصوصاً اپنا آپ بیجاپور کا درباری سپہ گر بتایا ہے اِس کے علاوۂ سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی شاہیؔ اور اُن کی تصنیف   کتابِ نورس    کا ذکربھی کیا ہے جواِس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کی پیدائش بیجاپور میں ہوئی۔ بچپن اور جوانی بھی بیجاپور ہی میں گزری ہے۔ چمنستانِ شعرا کے اِس بیان کو مصنف محبوب الزمن تذکرۂِ شعرائے دکن عبدالجبار ملکا پوری توسیع دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملانصرتی ایک عرصہ تک کرناٹک میںرہا اور سلطان علی عادل شاہ ثانی کے دورِ اقتدار میں سیر کرتا ہوا بیجاپور آیا اور دربار سے وابستہ ہوا ۔لیکن موصوف کی یہ بات بھی قابلِ قبول نہیں۔

لہٰذا تحقیق یہ بتاتی ہے ملا نصرتی کی پیدائش بیجاپور میں ہی ہوئی تھی۔ اِس بات کی تصدیق مصنف روضۃ الاولیائے بیجاپور محمد ابراہیم زبیری کے درج ذیل بیان سے بھی ہو سکتی ہے ،جس میں مصنف نے شیخ منصور کے حالاتِ زندگی میں اُنھیں شیخ منصور کا سگا بھائی لکھا ہے:

 آپ اہل اللہ اور کاملان اہل دعوت ہے اور عملیات ونقشیات کے تصرف میں اپنے وقت کے ممتازہے۔سلطان عادل شاہ اور سکندر عادل شاہ آپ کا اعزاز واکرام کرتے تھے۔آپ کا مزار نگینہ باغ میں ہے اور ملک الشعراشیخ نصرتی جو آپ کے حقیقی بھائی ہیں،وہیں مدفون ہیں۔آپ کی اولاد سے جعفر صاحب اور صاحب حسنٰے نگینہ باغ والے گولسنگے میں موجود ہیں۔ ۱۴؎

مولوی عبدالحق نے اِس حوالے سے اِسی کتاب کا حوالہ دیا ہے اور مزید صراحت یہ کی ہے کہ شیخ منصور کے دو بھائی تھے ، ملانصرتی اور شیخ عبدالرحمٰن۔ تینوں بھائی صاحبِ کمال تھے، شیخ منصور عالم و مبلغ تھے۔ شیخ عبدالرحمٰن سپاہی تھے، جبکہ ملانصرتی شاعر تھے۔

مولوی صاحب کے ہاتھ لگے سندِ جاگیر میں اُن کے خاندان کا درج ذیل شجرۂ نسب بھی ملتاہے:

 کہ یک قطعہ باغ نگینہ کہ موازی نوازد ہ بیگہ محدودہ و مروفہ و معلومہ متصل باغ ومسجد ملک جہاں اندرون قلعہ است بموجب اسناد احکام سابق در قبض و تصرف شیخ پیر محمد قادری ابن شیخ برہان الدین بن شیخ علی خواہرزادۂ شیخ منصور بن شیخ مخدوم بن شیخ ملک بو د و شیخ پیر محمد مذکور حی و قائم است۔ ۱۵؎

اِن تمام تحقیقی و تنقیدی کتب کے بغور تحقیقی و تنقیدی مطالعہ سے ثابت ہے کہ شیخ منصور ملانصرتی کا سگا بھائی تھا۔اِس رُو سے شیخ مخدوم اُن کے والد اور شیخ ملک بود اُن کے دادا تھے۔اِس طرح یہ بات بھی ثابت ہے کہ یہ خاندان نسل در نسل مسلمان اور بقول نصیرالدین ہاشمی اور پروفیسر عبدالمجید صدیقی بیجاپور کے عادل شاہیہ دربار میں معززمرتبہ پر فائز تھا اور صاحبِ جائیداد بھی تھا۔

اب اگرتحقیقی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو شیخ منصور اور اُن کے آباواجداد اگربیجاپوری تھے تو پھریہ کیسے ممکن ہے کہ ملانصرتی سگا بھائی ہونے کے باوجود کرنا ٹکی ہو۔

اِس لیے اِس تحقیق کا ختمی نچوڑیہی برآمد ہوتا ہے کہ ملانصرتی کے آبائواجدادمستقل بیجاپوری تھے اور اُن کی پیدائش ، بچپن اور جوانی بیجاپور ہی میں گزری تھی۔

مثنوی علی نامہ کے دیباچہ میں بھی اُن کے حوالے سے یہی بات لکھی ہوئی ہے کہ اُن کے خاندان کے سبھی بزرگ سپاہی پیشہ تھے اور بیجاپور کے جاگیردارتھے۔

ملانصرتی کو بعض محققین اور تذکرہ نگاروں نے برہمن ہندو قرار دیا ہے۔ خصوصاً مشہور فرانسیسی محقق اور ہندو ستانی علوم کے ماہر گارساں دی تاسی اور سرچارلس لائل کے دعوے ،جن میں دونوں نے ملانصرتی کو برہمن ہندو ٹھہرایا ہے۔

لیکن روضۃ الاولیائے بیجاپور کے درج بالا بیان اور خود اُن کی اپنی تصانیف کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ دعوے بے بنیاد ہیں۔ مولوی عبدالحق نے بھی اِس کی رد میں اپنی تصنیف میں دو جگہوں پر ثبوت بہم پہنچائے ہیں ۔ ایک جگہ پر اُن کے مسلمان ہونے کی دلیل میں   گلشنِ عشق   سے یہ شعر نقل کرتے ہیں:

؎محمد اﷲ کرسی بہ کرسی مری

چلی آئی ہے بندگی میں تری۱۶؎

جبکہ دوسری جگہ اِس حوالے سے اپنی ذاتی تحقیق و تفتیش کے سلسلے میں اُن کا شجرۂ نسب بطور ثبوت دیتے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ملا نصرتی نسلاً بعد نسل مسلمان تھے۔۱۷؎  لیکن کیا اُنھیں مسلمان ثابت کرنے کے لیے اُن کی تصانیف کے حمد، نعت ، مناجات، معراج نامہ، منقبت اور مدح خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کافی نہیں؟ اِن موضوعات پر مشتمل اُن کا ایک ایک شعر یہ گواہی دیتا ہے کہ ملا نصرتی مسلمان تھے۔ بلکہ یہاں اگر بسا تین السلاطین کے وہ خاص الفاظ جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ بادشاہِ وقت کے مذہبی میلان کے زُمرے میں لیا جائے تو یہ بات بھی پا یہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ملا نصرتی عقیدتاً سنی المسلک تھے ۔ اِس کی تصدیق یوں کہ عادل شاہیہ خاندان آغاز (۸۹۷ھ/۱۴۹۰ء) سے (۹۵۹ھ/۱۵۵۲ء) تک شیعہ مسلک سے وابستہ رہا ،جبکہ (۹۵۹ھ/۱۵۵۲ء) میں سلطان ابراہیم عادل شاہ اول نے سنی مسلک اختیار کیا اُن کے بعد آخر تک تمام سلاطین سنی المسلک رہے۔۱۸؎   ملانصرتی کے سنی المسلک ہونے کی تائید مصنف محبوب الزمن تذکرۂ شعرائے دکن عبدالجبار ملکاپوری بھی کرتے ہیں۔بقول اُن کے:

 نصرتی سنی المذہب تھا،بندہ نواز گیسودراز کے خاندان کا مرید و معتقد تھا۔ ۱۹؎

 اِس ساری بحث کا تحقیقی و تنقیدی نقطۂ نگاہ سے جو نکلتا ہے اُس کے مطابق ملانصرتی سنی المسلک یا اہلِ تشیع تھے یا نہ  لیکن گارساں دتاسی اور چارلس لائل کے دعووؤں کا قلع قمع ضرور ہوتا ہے اور یہ ختمی نتیجہ برآمد ہ ہوتا ہے کہ وہ کم از کم مسلمان  توضرور تھے۔

ملا نصرتی کی تصانیف خصوصاً مثنوی گلشنِ عشق(۱۰۶۸ھ/۱۶۵۷ء) اور مثنوی علی نامہ (۱۰۷۴ھ/۱۶۶۵ء) کا مطالعہ کرنے سے اُن کے بچپن اور جوانی کے بارے میں جتنی معلومات بہم پہنچتی ہیں، اِن کے مطابق اُن کا باپ (شیخ مخدوم)ایک درباری سپاہی تھا۔ بقول اُن کے:

کہ تھا مجھ پدر سو شجاعت مآب

قدیم یک سلحدار جمع رکاب۲۰؎

بلکہ ایک جگہ تو وہ خود کو بھی ایک جاں نثار سپاہی کہتا ہے:

؎ کہ میں اصل میں یک سپاہی اتھا

فدا درگہ بادشاہی اتھا۲۱؎

یہاں چمنستان شعرا از لچھی نرائن شفیق اورنگ آبادی اومحبوب الزمن تذکرۂ شعرائے دکن عبدالجبار ملکا پوری دونوں کے اُن دعوؤں کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ملا نصرتی اگر کرناٹک کا تھا یاسیر کرتا ہوا سلطان علی عادل شاہ ثانی کے عہد میں دربار سے وابستہ ہوا تو پھر اِن اشعار میں اُن کا والد ایک پرانا درباری سپاہی تھا،کیسے ہوسکتا ہے! اِس لیے یہ دونوں دعوے کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ۔حقیقت یہی ہے کہ وہ نسلاً بعد نسل بیجاپوری ہی تھے۔

اپنی پرورش اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں:

معلم جو میرے جتے خاص تھے

دھرن ہار او مجھ سوں اخلاص تھے

کچھ یک میں سنبھالیا جب اپنا شعور

کیا کر کتاباں پر اکثر عبور۲۲؎

اپنے اساتذہ کے حوالے سے ملانصرتی نے اپنی تصانیف میں کئی ایک جگہ پر سلطان علی عادل شاہ ثانی اورخدیجہ سلطان شہربانو المعروف بڑی صاحبہ کا حوالہ دیا ہے ۔ لیکن یہ صرف اُن کااظہارِعقیدت اور شاہی عقیدت مندی تھی کیونکہ وہ ایک فطری شاعر تھے اُن کا غالبؔ کی طرح کوئی اُستاد نہ تھا۔اگر اُستاد تسلیم کر بھی لیا جائے تو تحقیق یہ بتاتی ہے کہ سلطان علی عادل شاہ ثانی کی پیدائش(۱۶ربیع الثانی۱۰۴۸ھ بمطابق ۲۷ اگست۱۶۳۸ء) کو ہوئی تھی۔  ۲۳؎  اِسی طرح خدیجہ سلطان شہربانو کی شادی (۱۰۴۲ھ/۱۶۳۲ء) میں ہوئی تھی۔۲۴؎

یہاں یہ وضاحت مقصود ہے کہ مصنف اُردوے قدیم حکیم شمس اﷲ قادری نے خدیجہ سلطان کے حوالے سے یہاں تو اُن کا نام خدیجہ سلطان لکھا ہے لیکن اِسی کتاب کے صفحہ ۱۲۳پر فاطمہ سلطان لکھا ہے۔

 اگر تحقیقی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو سلطان علی عادل شاہ ثانی کی پیدائش کے وقت ملانصرتی مذکور تاریخ کے مطابق پورے اڑتیس(۳۸) برس کے تھے، اِسی طرح خدیجہ سلطان جن کی داد و دہش سے ملک خوشنود اور رستمی وغیرہ مال و منصب سے سرفراز ہوئے یہ قیاس درست معلوم ہوتا ہے کہ ملانصرتی پر بھی اُن کی نظر کرم ہوئی ہو وگرنہ نہ تو سلطان علی عادل شاہ ثانی ملانصرتی کے اُستاد تھے اور نہ ہی خدیجہ سلطان شہربانو۔اگر ایسا ہے تو یہ صرف اور صرف شاہی عقیدت مندی ہے اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

یہاں یہ وضاحت بھی مقصود ہے کہ مصنف دکن میں اُردو نصیرالدین ہاشمی نے ملا نصرتی کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اُن کی تعلیم و تربیت شاہی محل میں ولی عہد سلطان علی عادل شاہ کے ساتھ ہوئی۔۲۵؎  موصوف کی اِس بات کو جُزوی طور پر تو مانا جاسکتا ہے لیکن مکمل قطعی نہیں۔ جُزوی اِس طرح کہ وہ شاہی محل میں رہے ضرور، لیکن اُن کی تربیت ولی عہد کے ساتھ ہوئی،بالائے عقل ہے۔ کیونکہ یہ اوپر واضح ہوچکا ہے کہ سلطان علی عادل شاہ ثانی کی پیدائش کے وقت ملانصرتی پورے اڑتیس(۳۸) سال کے تھے اور یہ خلافِ قاعدہ ہے کہ ایک شِیر خوار کم سِن بچے کے ساتھ اِتنی بڑی عمر کے شخص کی تربیت ہو۔ہاں یہ بات اٹل ہے کہ وہ شاہی محل سے وابستہ تھے۔

 مثنوی گلشنِ عشق میں خدیجہ سلطان شہربانو کی تعریف و توصیف میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

؎ کہ میں اصل میں اک سپاہی اتھا

فدا درگہ بادشاہی اتھا۲۶؎

اب اگر وہ شاہی محل سے بطورِ سپاہی وابستہ رہا تو پھر یہ ممکن ہے وہ سلطان علی عادل شاہ ثانی کے خاص محافظین میں سے رہا ہو اور چونکہ سلطان کی پرورش خدیجہ سلطان کے ہاتھوں ہوئی تھی اِس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ اُن کی تربیت سے بالواسطہ اُنھیں بھی فیض پہنچا ہو۔ شاید اِسی عقیدت مندی اور ملک خوشنود و رستمی کی طرح ان کی دادو دہش کی وجہ سے اُنھوں نے خدیجہ سلطان کو اپنا اُستاد کہا ہے۔ سلطان علی عادل شاہ ثانی کی عقیدت میں گلشنِ عشق میں لکھتے ہیں:

مجھے یو سخن بادشاہ یاد ہے

پچھے پیر کے وصف استاد ہے

مجھ استاد استاد عالم اچھے

جتا علم از بر جسے جم اچھے۲۷؎

 علی نامہ میںاِس حوالے سے لکھتے ہیں:

بحمداللہ کیا یو بڑے تخت آج

نہ استاد کوئی مجھ علی شہ کی باج۲۸؎

اِسی طرح خدیجہ سلطان شہربانو کو اپنا استاد کہہ کر لکھتے ہیں:

مجھے تربیت کر توں ظاہر کیا

شعور اس ہنر کا دے شاعر کیا۲۹؎

خدیجہ سلطان چونکہ ایک ادب پرور خاتون تھیں۔ اُنھوں نے ملک خوشنود اور رستمی کو خوب نوازا ۔اِس لیے داد و دہش واسطے ملا نصرتی نے بھی اُن کی مدح سرائی کی ہے۔ یہاں دوسرے شعر میں ’’ظاہر کیا‘‘ سے مراد یہی لی جاسکتی ہے کہ ملانصرتی اُس سے پہلے شاعر تھے، مگر گمنام ،اور بڑی صاحبہ کی دادودہش یا توجہ سے ہی وہ منظر عام پر آئے۔بقول حکیم شمس اﷲ قادری اُن کی دربار تک پہنچ سلطان محمد عادل شاہ غازی کے عہد میں ہوئی تھی۔ ۳۰؎  اُن کے عہد میں اُنھوں نے چند قصیدے لکھے تھے ۔

نچوڑ اِس بحث سے یہ برآمد ہوتا ہے کہ ملانصرتی پیشہ کے اعتبار سے خاندانی سپہ گر تھے لیکن یہاں ایک سوال پھر رہ جاتاہے کہ وہ شاعر کس طرح بنے ؟اِس کا جواب اُن کی تصانیف کے مطالعہ سے یہ برآمد ہوتا ہے کہ وہ موروثی شاعر نہیں تھے بلکہ صرف شوقیہ اِس فن کو اپنایاتھا۔اِس کا اعتراف وہ خود مثنوی گلشن عشق میں کرتے ہیں:

؎ نہ کچھ شاعری کسب کا کام ہے

کہ یو حق کی بخشش تی الہام ہے۳۱؎

 مثنوی علی نامہ میں بھی اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں:

؎   اے شہ رتن کا کھن ہوا منج من سو تیرا فیض ہے

کچ کسب موروثی نہیں حقا کہ منج یو شاعری۳۲؎

ملانصرتی سلطان علی عادل شاہ ثانی المعروف اُستادِ عالم کے دورِ اقتدار (۱۰۶۷ھ/۱۶۵۶ء تا ۱۰۸۳ھ/۱۶۷۲ء) میں (۱۰۶۸ھ/۱۶۵۷ء)کو اُس وقت منظرِ عام پر آتے ہیں جب اُن کی پہلی کاوش   مثنوی گلشنِ عشق   دکھنی ادب کا حصہ بنتی ہے۔بقول عبدالمجید صدیقی ملانصرتی گلشنِ عشق ہی کے ذریعے اہلِ بیجاپور سے روشناس ہواتھا اور بادشاہ اور عوام کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔

ملانصرتی ایک فطری اور صاحبِ کمال شاعر تھے۔اُن کوتمام اصنافِ سخن پر کمال قدرت حاصل تھی۔وہ بہ یک وقت مثنوی نگار،قصیدہ نگار،غزل نگار،رباعی نگار،تاریخ نگار،قطعہ نگاراور ہجویہ نگار تھے۔بلکہ قصیدہ نگاری اور تا ریخ نگاری میں تواُنھیں ہراول حیثیت حاصل ہے اور اِن اصناف کے باوآدم ہے۔

ملانصرتی کی اولین تصنیف مثنوی  گلشنِ عشق   سلطان علی عادل شاہ ثانی کی تخت نشینی کے تقریباً ایک سال بعدمثنوی کے آخر میں ایک شعر کے مطابق (۱۰۶۸ھ/۱۶۵۷ء) کو منظرعام پر آئی ۔یہ مثنوی راجا کنور منوہر اور شہزادی مدمالتی کی دیو مالائی عشقیہ داستان ہے ،جو کل (۴۵۵۰) اشعار پر مشتمل ہے۔یہ مثنوی ملانصرتی نے اپنے ایک دوست شاعر نبی ابن عبدالصمد کی فرمائش پر لکھی تھی۔

 اُن کی دوسری تصنیف مثنوی  علی نامہ  ہے۔یہ مثنوی تو اصل میںسلطان علی عادل شاہ ثانی کی جنگی مہمات پر مشتمل کتاب ہے لیکن ساتھ ہی یہ سلطنت بیجاپور کی پندرہ سالہ مستند منظوم تاریخ بھی ہے۔ سالِ تصنیف اِس مثنوی کااس میں شامل ایک شعر کے مطابق (۱۰۷۶ھ/۱۶۶۶ء) ہے۔

یہ زرمیہ مثنوی ملانصرتی نے بقول اُن کے اپنے ساتھی شعراء قاضی سید کریم اﷲ اور شاہ نور اﷲ کی فرمائش پر لکھی تھی۔ ملانصرتی کو اپنی اِسی تصنیف پر بادشاہ کی طرف ملک الشعرا کا خطاب ملا۔ ۳۳؎  ملانصرتی کی یہ مثنوی رزمیہ شاعری کا شاہکار ہونے کے ساتھ معانی و مضامین کا کان بھی ہے۔

مصنف گل رعنا حکیم عبدالحیی کے بقول علی نامہ مشہور فارسی مثنوی شاہنامہ فردوسی کا جواب ہے ۔  ۳۴؎  ممکن ہے حکیم صاحب نے مثنوی کے درج ذیل اشعار کی بنا پر اِسے شاہنامہ کا جواب ٹھہرایا ہے :

عجب کیا کہ فردوسئی  پاک  زاد

اپس غم بسر اپ کرے روح شاد

کتا ہوں سخن مختصر بے گماں

کہ یو شاہ نامہ دکھن کا ہے جاں۳۵؎

 اِس کتاب میں مثنوی علی نامہ کے علاوۂ اُن کے سات قصیدے اورتین تاریخی قطعات بھی شامل ہیں۔اشعار کی تعداد(۵۲۷۸)ہیں،جن میں (۶۳۸)اشعار قصائد کے اور (۱۷)اشعار تاریخی قطعات کے ہیں۔اِس مثنوی کو ملانصرتی نے علی نامہ،شاہنامہ،فتح نامہ،نامہ دکھن،شاہنامہ دکھن وغیرہ جیسے نام دئیے ہیںلیکن مثنوی کے آغاز میںعلی نامہ کے معروف نام سے ہی متعارف کرتاہے۔

اُن کی تیسری تصنیف   تاریخِ اسکندری   ہے۔ اِس کا دوسرا نام   فتح نامہ بہلول خان  بھی ہے۔یہ کتاب سلطان علی عادل شاہ ثانی کی وفات (۱۰۸۳ھ/۱۶۷۲ء) کے چند ماہ بعد لکھی گئی ہے۔اِس میں بیجا پوری سردارعبدالکریم المعروف بہلول خان اور سیوا جی کی لڑائی کا تذکرہ ہے۔یہ مثنوی کل (۵۵۴) اشعار پر محیط ہیں،جن کو ضرورت کے تحت چھے عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔

 ملا نصرتی کی چوتھی تصنیف اُن کے قصائد اور غزلیات وغیرہ کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اُردو مثنویاں میں اسٹوارٹ کا بیان نقل کرتے ہیں۔ اُن کے بقول مثنوی گلشنِ عشق کا جو قلمی نسخہ کتب خانہ ٹیپو سلطان میں موجود ہے اِسی مخطوطے میں گلدستۂ عشق کے نام سے قصائد و غزلیات کا مجموعہ بھی شامل ہے۔۳۶؎   اِس مجموعہ کو ترتیب دے کر ڈاکٹر جمیل جالبی نے   دیوانِ نصرتی   کے نام شائع کیا ہے۔

 ملانصرتی بحیثیت قصیدہ نگار ایک بلندنام رکھتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی وہ اُردو کا پہلا قصیدہ نگار ہے۔ ۳۷؎  ملا نصرتی کے قصائد کی کل تعداد مختلف محقیقین وناقدین نے تیرہ بتائی ہیں۔ یہ تمام قصیدے معیار کے لحاظ سے بہت بلند ہے۔ مثنوی علی نامہ کے دیباچہ میں عبدالمجید صدیقی اُن کی قصیدہ گوئی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

 اُن کے قصیدوں میں جو بلندی ہے وہ دوسرے اصناف میں نہیں ہے۔قصیدوں میں بحر اور قافیوں کی لطافت کے علاوۂ الفاظ کی شوکت اور خیالات کی رنگینی بھری ہوئی ہے اور یہ اُردوادب کی جان ہے۔   ۳۸؎

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

 اُن کے قصیدے جذبات کے سمندر معلوم ہوتے ہیں۔ہرشعرگویاجذبات کے کی ایک موج ہے۔ ۳۹؎

افسر صدیقی امروہوی ملانصرتی کی قصیدہ گوئی کی تعریف میں لکھتے ہیں:

 نصرتی کے قصائد میں قصیدہ گوئی کے تمام لوازم موجود ہیں،علوئے تخیل،نفاستِ تشبیہ،ندرتِ بیان اور کثرتِ اشعار کے اعتبار سے وہ مرزا سودا کے پیشرو معلوم ہوتے ہیں ۔ ۴۰؎

 قصائد کی تفصیل کچھ اِس طرح ہے کہ اِن میں سات مثنوی علی نامہ میں،جن کے اشعار کی کل تعداد(۶۳۸) ہیں۔دومثنوی گلشنِ عشق اور علی نامہ کے منظوم عنوانات کو یکجا کرنے سے برآمد ہوتے ہیں،جن کے اشعار کی تعداد بالترتیب ۴۳،۴۳ہیں۔چاردیوانِ نصرتی میں جن میںہجویہ قصیدہ (۴۶اشعار)،مدحِ سلطان علی عادل شاہ ثانی(۱۸اشعار)، قصیدہ گھوڑا مانگنے کی درخواست (۱۸اشعار)اور قصیدہ چرخیات(۱۳۳اشعار) ہیں۔اِن تمام کو اکٹھا کرنے سے یہ تعداد تیرہ بنتی ہیں،جبکہ اشعار کی کل (۹۳۹)ہیں۔

علی نامہ کے سات قصائد کی تفصیل مثنوی علی نامہ کے علاوۂ اُردو شہ پارے (جلد اول) از ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورمیں صفحہ ۶۶تا۶۷، یورپ میں دکنی مخطوطات از نصیرالدین ہاشمی میں صفحہ ۲۹۲تا ۳۰۷ ، مخطوطات انجمن ترقی اُردو (جلد اول)از افسر صدیقی امروہوی میں صفحہ ۲۷۳ تا ۲۷۴ موجود ہیں۔

یہاں یہ وضاحت مقصود ہے کہ مصنف مخطوطات انجمن ترقی اُردو افسر صدیقی امروہوی نے علی نامہ کے قصائد کی تعداد سات ماننے سے انکار کیا ہے ا ور یہ دعویٰ کیا ہے کہ اُن میںپانچواں قصیدہ اصل میں تیسرے قصیدے کا تتمہ ہے،اِس لیے یہ تعداد سات نہیں بلکہ چھے ہیں ۔قصائد کے بغور تنقیدی مطالعہ سے امروہوی صاحب کے بات کی تصدیق ہوتی ہے۔اِس طرح اِن قصائد کی تعداد تیرہ کے بجائے بارہ رہ جاتی ہیںلیکن ساتھ ہی اُنھوں نے اِن قصائد کے اشعار کی کل تعداد (۶۹۹)بتائی ہے جبکہ ساتھ ہی نصیرالدین ہاشمی کا حوالہ بھی دیا ہے جنھوں یہ تعداد(۶۹۳)بتائی ہے ۔لیکن مثنوی علی نامہ مرتبہ عبدالمجید صدیقی میں قصائد کے مطالعہ سے یہ تعداد (۶۹۳)ملتی ہیں۔

ملانصرتی نے غزلیں بھی لکھی ہیں، جو ڈاکٹر جمیل جالبی کے مرتبہ دیوان   دیوانِ نصرتی   میں شامل ہیں۔اِن غزلوںکی کل تعداد(۲۴)ہیں،جن میں(۲۳)اُردو(دکھنی)زبان میںاورایک فارسی میںہے۔غزلیہ اشعارکی کل تعداد( ۲۰۴)ہیں،جن میں( ۱۹۷) اُردو ،جبکہ (۷) فارسی ہیں۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق یہ غزلیں دکنی غزل کے مزاج کے عین مطابق ہیںاور اِن پر بیجاپوری اُسلوب کا رنگ غالب ہے۔تمام غزلوں میں موضوع عورت ہے۔اشعار میں عشق و محبت کے جذبات عام عاشقانہ کا اظہار ملتاہے۔ چونکہ جالبی صاحب کے بقول ملانصرتی کے سلطان علی عادل شاہ ثانی شاہیؔکے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے ۔  ۴۱؎  جبکہ کلیاتِ شاہی میں نقل صاحب ِبساتین کے بیان کے مطابق سلطان علی عادل شاہ ثانی شاہیؔ حد درجہ تک عیاش تھے ۔ ۴۲؎  اِ س لیے ملانصرتی کی غزلوں میں عشق کا یہ رال ٹپکتا اِحساس بھی ایک فطری امر ہے۔

ملانصرتی نے رباعیات بھی لکھی ہیں۔اِن رباعیات کی کل تعداد (۲۸)ہیں۔اِن میں چند حمدیہ ونعتیہ ہیں ،جبکہ باقی ناصحانہ و عاشقانہ موضوع کی حامل ہیں۔

اِن رباعیات کی زبان انتہائی صاف ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کے بقول ولی دکنی کے ہاں اُسلوب کا جوجدیدپہلو ملتا ہے اُس کی سوت یہیں سے پھوٹتی ہے۔ یہ رباعیات دیوانِ نصرتی میں شامل ہیں۔

ملانصرتی نے دو مخمس بھی لکھی ہیں۔ پہلی مخمس آٹھ بندوں پر مشتمل ہیں،جس میں محبوب کے حسن کی تعریف ، عشق اور وصل سے پہلے کی کیفیت کا اِظہار ملتا ہے ۔

جبکہ دوسری مخمس کے سات بندہیں،جو اصل میں سلطان علی عادل شاہ ثانی شاہیؔ کی ایک غزل کی تظمین ہے۔

یہ دونوں مخمس ڈاکٹر جمیل جالبی کے مرتبہ دیوانِ نصرتی میں شامل ہیں۔

ملانصرتی کی آخری دونوں مثنویات ایک منظوم تاریخ ہے لیکن اُن میں علی نامہ کا مرتبہ بہت بلند ہے اور اِسی رزمیہ مثنوی کے بنیاد پر ملا نصرتی کو ایک مستند اور قابل اعتبار تاریخ نگار کا اعزاز حاصل ہے۔اِس حوالے سے مولوی عبدالحق اپنی کتاب   نصرتی  میں لکھتے ہیں:  نصرتی کا بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے تاریخی واقعات کو صحیح ترتیب،بڑی احتیاط اور صحت کے ساتھ بیان کیا ہے جن میں بیان اور زور کلام کے تمام اسلوب ہوتے ہوئے کہیں تاریخی صحت سے تجاوز نہیںکیا۔تاریخ سے واقعات کو ملا لیجئے کہیں فرق نہ پایئے گابلکہ بعض باتیں شاید اس میں ایسی ملیں گی جن کے بیان سے تاریخ قاصر ہے۔باوجود اس کے واقعات کی تفصیل،مناظر قدرت کی کیفیت،رزم وبزم کی داستان اور جنگ کا نقشہ کمال فصاحت و بلاغت اور صناعی سے کھینچا ہے۔اُردو زبان یوں ہی رزمیہ نظموں سے خالی ہے اور ایک آدھ رزمیہ نظم اس سے قبل لکھی گئی ہے وہ ہرگزاس کو نہیں پہنچتی۔یہ رزمیہ مثنوی ہر لحاظ سے ہماری زبان میںبینظیر ہے۔ ۴۳؎

فنِ تاریخ گوئی کے حوالے سے بھی اُنھیں سبقت حاصل ہے۔ افسر صدیقی امروہوی کے مطابق وہ اِس فن کے باوا ا ٓدم ہے۔  ۴۴؎  فنِ تاریخ پرمبنی اُن کے تاریخی قطعات کی تعدادامروہوی کے بیان کے مطابق تین ہیںاور اُن کے بقول یہ تینوں قطعات مثنوی علی نامہ مرتبہ پروفیسر عبدالمجید صدیقی میں شامل ہیں۔ لیکن مثنوی کے مطالعہ سے یہ تعداد دو ملتی ہیں۔

ملا نصرتی کی شہرت اور ملک الشعرائی اُن کے معاصر درباری شعرا کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور اکثر اُن کی شاعری کا مذاق اُڑایا کرتے تھے ۔اِس لیے ملانصرتی نے بھی اُن کی ایک ہجو لکھی ۔یہ ایک ہجویہ قصیدہ ہے اور اِس کے اشعار کی تعداد(۴۶)ہیں۔ یہ ہجو دیوانِ نصرتی مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی میں شامل ہے۔

اِس کے علاوۂ اُنھوں نے قطعات بھی لکھی ہیں ،جن کی تعداد چھے ہیں۔ اِن میں تین قطعات تاریخی ہیں جو مثنوی علی نامہ میں شامل ہیں ،جبکہ باقی تین عام قطعات ہیں جو دیوانِ نصرتی میں ہیں۔

مثنوی علی نامہ ایک مستند ضخیم سوانح حیات بھی ہے۔اِس میں سلطنت بیجاپور کے مشہور ومعروف عسکری سپہ سالاروں کی بہترین سوانحی نگاری ملتی ہے اور بہت سی شخصیات تو ملانصرتی کے علی نامہ نے ہی زندہ ٔجاوید کر دیے۔

ملانصرتی چونکہ فطری شاعر تھے اِس لیے بہت فی البدیع واقع ہوئے تھے۔صاحبِ بساتین میرزا ابراہیم زبیری اور اُن کی تقلید میں بہت سے محققین و ناقدین کی طرح مولوی عبدالحق صاحب نے بھی اُن کی بدیہہ گوئی کے بیان میں سلطان علی عادل شاہ ثانی کے ساتھ یہ شاعرانہ مکالمہ نقل کیا ہے کہ ایک دن سلطان اور ملانصرتی محل میںموجود تھے کہ سامنے اُڑتے فوارے کو دیکھ کرسلطان بول اُٹھتے ہیں:

ع   اُڑتا سو یو فوارہ پانی کا کیا نچھل ہے

سلطان کے اِس مصرع پر ملا نصرتی کی رگِ سخن پھڑک اُٹھتی ہے اور معاًیہ مصرع چُست کرتے ہیں:

ع   تجھ شاہ پر اُڑانے موتی کا مورچھل ہے ۴۵؎

ملانصرتی طبیعت کے بہت غصیلے بھی واقع ہوئے تھے۔مصنف تذکرۂ چمنستان شعرا لچھمی نرائن شفیق اورنگ آبادی اُن کا غصے سے متعلق ایک وقعہ بیان کیا ہے کہ ایک فقیر جس کا نام اُنھوں نے شاہ میر بتایا ہے،ایک دن آکر ملانصرتی سے شعر سننے کی فرمائش کرتا ہے۔ملانصرتی نے درج ذیل اپنا یہ نیا نویلا شعر جو اُنھوں نے اُسی دن ہی لکھا تھا سنا دیا:

؎  نہ بولا ہے نہ بولے گا کدی کو

زمیں کی زلف میں بولا ندی کو

شاہ میر بھی شائد شاعر تھے یا صرف شغف رکھتے تھے نے بدیہہ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب میں یہ شعردے مارا:

؎ نہیں ظاہر کیے چیتی موئے کو

زمیں کی۔۔۔ میں بولا کوئے کو

فقیر کے اِس برجستہ جواب پرانانیت و نرگسیت کے اِس علمبردار نے اُسے پکڑ کر کنویں میں لٹکا دیا اور پھر تین دن اُس کی خبر تک نہ لی۔ ۴۶؎

بیجار پور کے رزم و بزم کے اُستاد ملا نصرتی کو معانی و مضامین میں جدت وندرت برپا کرنے کااعزاز حاصل ہے۔ عام طور پر تازہ کاری کا جو تاج ولی دکنی کے سر پر سجایا جاتا ہے اُس کا آغاز کرنے والے ملانصرتی ہی تھے۔ ولی دکنی سے تقریباً ساٹھ ستر برس پیشترملانصرتی نے اُس پیوندکاری کا اعتراف کیا ہے جس کے موجد ولی دکنی کو ٹھہرایا جاتاہے ۔اگر ولی دکنی فارسی اور اُردو کے ملاپ سے شعری تازہ کاری شاہ سعداﷲ گلشن کی فرمائش پر پوری کرتے ہیں، تو ملا نصرتی بھی اپنے معاصر شاعر نبی ابن عبدالصمد کی فرمائش پر دکھنی اورفارسی کے ملاپ سے تازہ کاری کی ایک نئی صورت پیدا کرتاہے۔

ریختی کا موجدمیراں ہاشمی جو اُن کا ہم عصر تھا اُن کی تعریف میں لکھتے ہیں:

دکھن میں ہوا نصرتی پر ہنر

جو ہے شعر جس کا سکل معتبر

علی نامہ گلشن کا قصہ بنا

دیا زیب و زینت دکھن کوں سدا ۴۷؎

ملانصرتی کے حوالہ سے صاحبِ بساتین میرزاابراہیم زبیری کا بیان جوکہ اِس فصل کے آغاز میں ذکر ہوچکاہے اُس کے مطابق ملانصرتی واقعی اقلیم سخن وری کا بادشاہ تھا اور ملک الشعراہونا اُس کے لیے ہرصورت سزاوارتھا۔

ملا نصرتی کی تازہ گوئی اور ندرتِ ادا کی تعریف کرتے ہوئے مصنف چمنستانِ شعرا لکھتے ہیں:

 شاعرے بود فصیح البیان، واززمرۂ دکن زایان شیرین زبان۔ اشعار اور اکثر مضامین تازہ دارد و معانی بیگانہ را بالفاظ آشنامی ساز د اگرچہ الفازش بطور دکھنیاں برزبانہا گران می آید،اماخالی از لطفے و لذتے نیست۔  ۴۸؎

مثنوی علی نامہ کے دیباچہ میںپروفیسرعبدالمجید صدیقی ملانصرتی کی تعریف اِن الفاظ میںکرتے ہیں:

 ایک عام آدمی بھی جس کو شعر و سخن کا تھوڑی بہت چسکا ہوکہہ سکتا ہے کہ بیان کی شگفتگی اور روانی کے اعتبار سے نصرتی کا درجہ تمام دکھنی شاعروں سے کچھ اُونچا ہی ہے۔نصرتی کا سا قدرتِ کلام دکن کے اور شاعروں میں خواہ بیجاپور میں پیدا ہوئے ہوں یا گولکنڈے میں نہیں پایاجاتا۔ ۴۹؎

ملا نصرتی کی اُستادی اور ملک الشعرائی واقعی مسلّم ہے۔ مولوی عبدالحق کے مطابق بحیثیتِ شاعر ملانصرتی کا مرتبہ ولی دکنی سے بہت بلند ہے۔ ۵۰؎ لیکن شاید یہ ملانصرتی کی اپنی بدنصیبی تھی کہ جیتے جی توبہت پوجے گئے لیکن مرتے ہی بھلا دیئے گئے۔ اب اِس کو اُن کی کم بختی سمجھ لیںیا پھر ایک تاریخی غلطی کہ جو مقام ولی دکنی کو دیا جاتاہے اُس سے بڑے مقام کے حق دار ملا نصرتی ہیں۔لیکن بقول ڈاکٹر جمیل جالبی وہ   تاریخ کی سفاکی  کا شکار ہوگئے ۔ ۵۱؎  اِس حوالے سے بحیثیت ایک محقق میں یہی کہوں گا کہ ملانصرتی شمالی ،جنوبی ہند دشمنی کا شکار ہو گئے کیونکہ صاحب ِبساتین محمد ابراہیم زبیری کے مطابق شمالی ہند والے دکھنی زبان اور اِس کے الفاظ و محاورات اور بندشوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور مذاق اُڑایا کرتے تھے ۔ ۵۲ ؎   ملانصرتی چونکہ دکھنی زبان کے ایک پُرجوش علمبردار تھے اورہررزم وبزم میں دکھنی زبان وبیان پر بڑا فخر کیا کرتے تھے اوراِسی پاداش میں اِس روایتی دشمنی کا شکار ہوگئے۔ اِسی لیے تو آج وہ ملک الشعرا،جدت وندرت کا علمبردار،صنفِ قصیدہ ، فنِ تاریخ گوئی اور رزمیہ شاعری کا موجد اور صاحبِ گلشنِ عشق و علی نامہ ہو کر بھی گمنامی کے دبیزپردوں میں لپٹے ہوئے نظرآتے ہیں ۔

ملا نصرتی کی وفات کے بارے بھی اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔ مصنف نصرتی مولوی عبدالحق نے مصنف بیاض حسنیٰ تذکرۂِ فتوحات کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کی دکن کی فتح (۱۰۹۸ھ/۱۶۸۷ء) کے بعد بھی وہ حیات تھے بلکہ اُن کے مطابق تو ملا نصرتی کو ملک الشعراکا خطاب بھی دکن کی فتح کے بعد اورنگ زیب عالمگیر نے دیاتھا۔ موصوف نے تاریخ ِوفات نہیں لکھی ہے ۔  ۵۳؎

مصنف محبوب الزمن تذکرۂ شعرائے دکن مولوی عبدالجبار ملکاپوری نے اُن کی وفات کا سال (۱۰۹۵ھ/۱۶۸۴ء) لکھا ہے۔  ۵۴؎

مصنف ہندوستانی قصوں سے ماخوذاُردو مثنویاں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے مصنف تذکرۂ شعرائے دکن والی تاریخ نقل کی ہے ۔ ۵۵؎

مصنف اُردوئے قدیم حکیم شمس اﷲ قادری نے بھی یہی تاریخ لکھی ہے۔  ۵۶؎

مصنف تاریخِ ادب اُردو ڈاکٹر رام بابو سکسینہ نے مصنف اُردوئے قدیم والی تاریخ نقل کی ہے ۔ مگر اُس کے ماننے میں تامل بھی کیا ہے۔۵۷؎

مصنف گل رعنا حکیم سید عبدالحیی نے بھی مصنف محبوب الزمن کا حوالہ دے کریہی تاریخ نقل کی ہے ۔۵۸؎

مصنف اُردوئے قدیم دکن اور پنجاب میں ڈاکٹر محمد باقر (۰۸۰اھ/۱۶۷۰ء) نقل کرتے ہیں۔ ۵۹؎

مصنف اُردو شہ پارے پروفیسر محی الدین قادری زور نے یہ تاریخ (۱۰۸۱ھ/۱۶۷۰ء) قرار دی ہے۔ ۶۰؎

مصنف نصرتی ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے ریاض حسنیٰ اور مصنف تذکرۂ شعرائے دکن کی تواریخ اور بیانات نقل کئے ہیں، لیکن ریاض حسنیٰ کے ماننے میں تامل کا اظہار بھی کیا ہے۔ ۶۱؎

اُردو مخطوطات ، کتب خانہ سالار جنگ میں نصیر الدین ہاشمی نے اُن کی وفات کے حوالے سے درج ذیل کا قطعہ نقل کیا ہے:

ضربِ شمشیر سوں یو دنیا چھوڑ

جاکے جنت میں خوش ہو رہے

سال تاریخِ آ ملایک نے

یوں کہے نصرتی شہیدا ہے۶۲؎

اِس قطعہ کے آخری مصرع میں  نصرتی شہیداہے  کے الفاظ سے علم الاعداد کے رُو سے سالِ وفات (۱۰۸۵ھ/۱۶۷۴ء)برآمد ہوتاہے۔ لیکن موصوف نے اِس قطعہ کے شاعر کا نام نہیں بتایا ہے اور نہ ہی اِس حوالے سے کوئی ثبوت بہم پہنچائی ہے۔موصوف نے پہلے پہل یہ ذکر  نصرتی کا سنہ وفات کے عنوان سے نوائے ادب ،بمبئی جنوری تا اکتوبر ۱۹۵۴ء میں بھی کیا ہے۔درج بالا قطعہ کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملانصرتی کو شہید کیا گیا تھا۔ اُنھیں اپنے کسی بدخواہ شاعر نے معاصرانہ چشمک کی عناد کی وجہ قتل کر دیا تھا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق اُن کی شہرت معاصر شعراء کو چھبتی تھی اوروہ حسد کا شکار ہوگئے تھے اِس لیے اُن کے درباری دشمن زیادہ ہوگئے تھے۔ اپنے دشمنوں کا ذکر اُنھوں نے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے۔

نصیر الدین ہاشمی نے اپنی دوسری تصنیف  دکن میں اُردو  میں بھی تاریخِ وفات کے حوالے سے مصنف بیاض حسنیٰ کا بیان نقل کیا ہے لیکن ساتھ ہی درج بالاجدید تحقیق (۱۰۸۵ھ/۱۶۷۴ء) کا حوالہ دے کر اُسے غلط بھی قرار دیا ہے۔ ۶۳؎

مخطوطات انجمن ترقی اُردو (جلد اول) مرتبہ افسر صدیقی امر و ہوی اور سید سرفراز علی رضوی نے بھی اِسی قطعہ کا حوالہ دے کر یہی تاریخِ وفات لکھی ہے۔ ۶۴؎

مصنف تاریخِ ادبِ اُردو ڈاکٹر جمیل جالبی نے تاریخِ وفات کے حوالے سے مصنف تذکرہ شعرائے دکن، مصنف اُردو شہ پارے اور اُردو مخطوطات از نصیر الدین ہاشمی کا حوالہ دے کر اُردو مخطوطات کی قطعہ والی تاریخ کو قرین قیاس قرار دے کر درست تسلیم کیا ہے۔  ۶۵؎

ملا نصرتی نے کل کتنی عمر پائی اور کتنے بادشاہان کا زمانہ دیکھا ؟ اِس حوالے سے مولوی عبدالحق نے اپنی تصنیف  نصرتی   اور تالیف  گلشنِ عشق  میں لکھا ہے کہ اُنھوں تین بادشاہوں سلطان محمد عادل شاہ، سلطان علی عادل شاہ ثانی اور سلطان سکندر عادل شاہ کا زمانہ دیکھا اور لمبی عمر پائی تھی ۔۶۶؎

مثنوی علی نامہ کے دیباچہ میں بھی پروفیسر عبدالمجید صدیقی نے بھی اِن تین شاہان کے عہد کا لکھا ہے۔۶۷؎

یہی بات مصنف ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اُردو مثنویاں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بھی نقل کی ہے۔۶۸؎

اِس کے علاوہ ٔ تقریباًتمام کے تمام محققین و ناقدین نے معمولی ردوبدل کے ساتھ مولوی عبدالحق والی بات ہی نقل کی ہے۔

لیکن یہاں اگر لمبی عمر سے مراد جو عام طور پر ساٹھ ستر سال یا اُس سے اوپر کی لی جاتی ہے ،اُردو مخطوطات کے قطعہ کی تاریخِ وفات کے حوالے سے دیکھی جائے تو پیدائش کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی کی لکھی ہوئی تاریخِ پیدائش قرین قیاس ہو کر درست معلوم ہوتی ہے۔اب اگر ایسا ہے تو پھر مولوی عبدالحق کا یہ کہنا کہ اُنھوں نے تین بادشاہوں سلطان محمد عادل شاہ غازی ،سلطان علی عادل شاہ ثانی اور سلطان سکندر عادل شاہ کا زمانہ دیکھا بالکل بھی درست دکھائی نہیں دیتا،کیونکہ اِن تین بادشاہوں کاکل عرصہ اُن کی وفات تک (۴۷)سال بنتا ہے اور یہ کسی بھی رُو سے طویل عمر نہیں مانی جا سکتی ہے۔ اِس کی تفصیل کچھ اِس طرح کہ سلطان محمد عادل شاہ غازی(۱۰۳۶ھ/۱۶۲ء تا ۱۰۶۶ھ/۱۶۵۶ء) اپنے باپ سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی المعروف جگت گروؔ(۹۸۸ھ/۱۵۸۰ء تا ۱۰۳۶ھ/۱۶۲۷ء) کی وفات(۱۰۳۶ھ /۱۶۲۷ء) کو بادشاہ بنے تھے۔اُن کی وفات(۱۰۶۶ھ/۱۶۵۶ء)پراُن کا بیٹا سلطان علی عادل شاہ ثانی شاہیؔ المعروف اُستادِ عالم (۱۰۶۶ھ/۱۶۵۶ءتا ۱۰۸۳ھ/۱۶۷۲ء)بادشاہ بن گئے اور(۱۰۸۳ھ /۱۶۷۲ء) کو اُن کی وفات اُن کا بیٹاسلطان سکندر عادل شاہ (۱۰۸۳ھ/۱۶۷۲ء تا ۱۰۹۷ھ/۱۶۸۶ء )بادشاہ بنا تھا ،جبکہ تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہے کہ(۱۰۸۵ھ/۱۶۷۴ء) کو ملانصرتی کی وفات ہوئی تھی۔

 اِس صورت میں صحیح تحقیق یہ ہے کہ ملا نصرتی نے تین نہیںبلکہ چار بادشاہوں سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی، سلطان محمد عادل شاہ، سلطان علی عادل شاہ ثانی اور سلطان سکندر عادل شاہ کا زمانہ دیکھا ہوگا۔اگراِس حوالے سے شمس الرحمان کی بتائی ہوئی تاریخِ پیدائش(۱۰۰۸ھ/۱۶۰۰ء )کو درست مان لیا جائے تو پھراِس طرح اُن کی وفات تک اُن کی کل عمر(۷۴) سال بنتی ہے جوکہ ایک لمبی عمر قرار دی جا سکتی ہے۔ یہاں شمس الرحمان کی بتائی ہوئی تاریخِ پیدائش اِس بنا پر بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ ملا نصرتی نے اپنی تصنیف مثنوی گلشنِ عشق میں جگہ جگہ سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی اور اُن کی کتاب کتابِ نورس (۱۰۰۶ھ/۱۵۹۷ء)  ۶۹؎  کا ذکر کیا ہے۔

لہٰذا اِس غلط دعوے اور اَندھی تقلید کی بجائے آئندہ اِس جدید اور سو فی صد درست تحقیق کے رُو سے ملانصرتی کاتین نہیں بلکہ چار بادشاہوں کا زمانہ دیکھنے کا ذکر لکھااورپڑھا جائے۔

مولوی عبدالحق نے اپنی تصنیف  نصرتی    میں اپنی ذاتی تحقیق و تفشیش کے بارے میں بتایا ہے کہ اُنھوں نے خود بیجا پور جاکر اپنے طور پر یہ معلوم کروایا ہے کہ ملا نصرتی کی اولاد اب بھی بیجاپور میں موجود ہیں۔ چونکہ ملانصرتی کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی صرف ایک بیٹی تھی اِس لیے یہاں مولوی صاحب کے بیان سے مراد بیٹی کی اولاد ہی ہے۔ اُن میں سے ایک صاحب محمد ملتانی قادری جو جعفر صاحب کے نام سے مشہور ہے ، اُن سے ملاقات کا بھی بتایا ہے۔ ملتانی صاحب سے سندِ جاگیر جس میں اُن کے خاندان کا شجرۂ مفصل درج ہے، لینے کا بھی ذکر کیا ہے۔

مولوی صاحب کے بقول یہ سندِ انعام اورنگ زیب عالمگیر (۱۰۶۸ھ/۱۶۵۸ء تا۱۱۱۹ھ/۱۷۰۷ء) کے عہد کی ہے۔ اِس پر امانت خان عالمگیر شاہی اور محمد کاظم مرید شاہ عالمگیر کی مہریں ثبت ہیںجو اصل میں قدیم عادل شاہی سند کی تجدید ہے۔ ۷۰؎

جائیداد کا ملانصرتی کی بہن اور بیٹی کی طرف جانے سے یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ملا نصرتی کے دونوں بھائیوں کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی۔ شیخ منصور کی لاولدی کا ذکر تو پہلے ہی کرچکے ہیں مگرشیخ عبدالرحمن کااُنھوں نے کچھ بھی نہیں بتایا۔ لیکن یہاںجائیداد کا بہن کی طرف جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ شیخ عبدالرحمن کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی۔

مولوی صاحب اپنی ذاتی تحقیق و تفشیش میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ملانصرتی کی قبر نگینہ باغ گولسنگی بیجار پور میں آج بھی موجود ہے۔ اُن کے بقول یہ زمین اب گورنمنٹ ہائی سکول کے احاطے میں شامل ہے۔

ملا نصرتی کی قبر کے حوالے سے روضۃ الاولیائے بیجار پور میں یہ بیان رقم ہے:

 ملک الشعراء شیخ نصرتی بھی جو آپ کے حقیقی بھائی ہیں ، وہیں مدفون ہیں۔ ۷۱؎

حوالہ جات

۱)ابراہیم زبیری،میرزا    بساتین السلاطین(تاریخِ بیجاپور)  مطبع سیدی حیدرآباد ،دکن  اشاعت۱۳۰۷ھ،ص ۴۳۰

۲) میراحمد علی خاں  گلدستۂ بیجاپور ( ترجمہ: سیدحمیدشطاری) اعجاز پریس چھتہ بازار حیدرآباد،دکن  اشاعت۱۹۵۸ء، ص ۷۷۔۷۶

3)   www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00fwp/srf/txt_urdulit2007.html

Shams ur Rahman Faruqui: Urdu Literature; adrift of an encyclopaedia article,

Text provided by the author, Sept. 2007

۴)عبدالجبار، ملکاپوری  محبوب الزمن تذکرۂ شعرائے دکن(جلددوم) در مطبع رحمانی حیدر آباد ، دکن  ۱۳۲۹ھ، ص۱۰۹۰

۵)لچھمی نرائن، شفیق   چمنستانِ شعرا(مرتبہ:مولوی عبدالحق) انجمن ترقی اُردوحیدرآباد،دکن  طبع اول،۱۹۲۸ء ،ص ۳۲۲

لچھمی نرائن، شفیق  چمنستانِ شعرا(تلخیص و ترجمہ:سیدعطاالرحمٰن عطاکاکوی)عظیم الشان بک ڈپو سلطان گنج پٹنہ۔۶،انڈیا  اشاعت۱۹۶۸ء،ص۸۰

۶)شمس اﷲ قادری ، حکیماُردو ئے قدیمجنرل پبلشنگ ہاؤس، کراچی۱۹۲۹ء ،ص ۱۲۷

۷) نصیر الدین ہاشمی،سیددکن میں اُردوانشاپریس،لاہور     طبع پنجم ، ۱۹۶۰ء، ص ۱۷۴

نصیر الدین ہاشمی ،سید   اُردو مخطوطات(جلداول) کتب خانہ سالار جنگ حیدر آباد ، دکن  اشاعت  ۱۹۲۹ء،ص۹۸

۸)رام بابو سکسینہ ، ڈاکٹر تاریخِ ادب اُردو(ترجمہ:محمدحسن عسکری) غضنفر اکیڈمی پاکستان، کراچی ، طبع نہم،۱۹۹۸ء ،ص ۷۱

۹)جمیل جالبی، ڈاکٹر (مرتبہ)  تاریخِ ادبِ اُردو (جلد اول) مجلسِ ترقی ادب، لاہور  طبع پنجم،مارچ۲۰۰۵ء، ص ۳۲۹

۱۰)گوپی چندنارنگ ، ڈاکٹر   ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اُردو مثنویاں    سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور  ۲۰۰۳ء، ص ۹۹

۱۱)  صدیقی افسر،امروہوی(مرتبہ) مخطوطات انجمن ترقی اُردو(جلد اول) انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی   طبع اول ، ۵ ۱۹۶ء ،ص ۲۷۷

۱۲)عبدالحق ، ڈاکٹر   نصرتی      کل پاکستان انجمن ترقی اُردو ، کراچی     طبع اول ،۱۹۴۴ء ،ص ۱۰

۱۳)عبدالحق، ڈاکٹر(مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو ، کراچی  طبع اول ،مئی۱۹۵۲ء ،ص ۲ دیباچہ

۱۴)    ابراہیم زبیری،میرزا  روضۃ اولالیائے بیجاپور(ترجمہ:سیدشاہ سیف اﷲ)در مطبع صبغت اللٰہی رائے چور،انڈیا      اشاعت۱۳۱۴ھ، ص ۱۹۔۲۱۸

۱۵)عبدالحق ، ڈاکٹر نصرتی   کل پاکستان انجمن ترقی اُردو ، کراچی     طبع اول، ۱۹۴۴ء ،ص۱۵۔۱۴

۱۶) ایضاً،ص۱۰

۱۷)      ایضاً،ص۱۵

18)  Salma Ahmad Farooqui. A comprehensive history of Medievel India: from 12th of the Mid-Eighteen Century. (Darling Kindersley Pvt. Ltd. 2011), P.174

۱۹)عبدالجبار، ملکاپوری  محبوب الزمن تذکرۂ شعرائے دکن(جلددوم) در مطبع رحمانی حیدر آباد ، دکن  ۱۳۲۹ھ، ص۱۰۹۴

۲۰)عبدالحق، ڈاکٹر(مرتبہ)  مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو ، کراچی ،طبع اول،مئی ۱۹۵۲ء ،ص ۳۰

۲۱)ایضاً ،ص ۲۹

۲۲)ایضاً، ص ۳۰

۲۳)مبارزالدین،رفعت(مرتبہ) کلیاتِ شاہی ازسلطان علی عادل شاہ ثانی  انجمن ترقی اُردو(ہند)علی گڑھ  اشاعت  ۱۹۶۲ء، ص ۱۴

۲۴)شمس اﷲ قادری ، حکیماُردو ئے قدیمجنرل پبلشنگ ہاؤس، کراچیجون  ۱۹۲۹ء ،ص ۱۲۶

۲۵) نصیر الدین ہاشمی،سیددکن میں اُردوانشاپریس، لاہور      طبع پنجم،  ۱۹۶۰ء، ص ۱۷۵

۲۶)عبدالحق، ڈاکٹر(مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی   انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع اول،مئی ۱۹۵۲ء ،ص ۲۹

۲۷)ایضاً،ص ۲۲

۲۸)   عبدالمجید،صدیقی(مرتبہ)مثنوی علی نامہ از ملانصرتی  سالارجنگ دکنی پبلشنگ کمیٹی حیدرآباد،دکن ،طبع اول،مئی۱۹۵۹ء، ص۳۶

۲۹)     عبدالحق ، ڈاکٹر(مرتبہ)مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع اول،مئی ۱۹۵۲ء ۸،ص ۲۹

۳۰)شمس اﷲ قادری ، حکیم      اُردو ئے قدیم   جنرل پبلشنگ ہاؤس، کراچی    جون  ۱۹۲۹ء، ص ۱۲۷

۳۱)عبدالحق ، ڈاکٹر(مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع اول،مئی ۱۹۵۲ء ،ص ۳۰

۳۲)عبدالمجید،صدیقی(مرتبہ) مثنوی علی نامہ از ملانصرتی سالارجنگ دکنی پبلشنگ کمیٹی حیدرآباد،دکن طبع اول،مئی۱۹۵۹ء، ص۱۱۶

۳۳)عبدالحق، ڈاکٹر(مرتبہ)  مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی  طبع اول،مئی۱۹۵۲ء ،ص ۳۱

۳۴)عبدالحیی، حکیم   تذکرۂ شعرائے اُردو موسوم بہ گل رعنا  مطبع معارف اعظم گڑھ ،یو۔پی  طبع سوم، ۱۳۶۴ھ ،ص۷۸

۳۵)ایضاً۔

۳۶)جمیل جالبی،ڈاکٹر (مرتبہ)   دیوانِ نصرتی     قوسین تھارنٹن روڈ،لاہور   طبع اول،۱۹۷۲ء،ص۱۷

۳۷)ایضاً، ص۳۴۵

۳۸)عبدالمجید،صدیقی(مرتبہ) مثنوی علی نامہ از ملانصرتی سالارجنگ دکنی پبلشنگ کمیٹی حیدرآباد،دکن طبع اول،مئی۱۹۵۹ء، ص۱۱۔۱۰دیباچہ

۳۹)ایضاً،ص۲۰دیباچہ

۴۰)افسرصدیقی،امروہوی(مرتبہ) مخطوطات انجمن ترقی اُردو(جلد اول)انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی طبع اول،۱۹۶۵ء،ص ۲۷۴

۴۱)      جمیل جالبی، ڈاکٹر (مرتبہ)  تاریخِ ادبِ اردو (جلد اول) مجلسِ ترقی ادب، لاہور  طبع پنجم مارچ ۲۰۰۵ء، ص۳۴۸

۴۲)     مبارزالدین،رفعت(مرتبہ)  کلیاتِ شاہی ازسلطان علی عادل شاہ ثانی  انجمن ترقی اردو(ہند)علی گڑھ  اشاعت۱۹۶۲ء، ص ۱۴

۴۳)   عبدالحق ، ڈاکٹر     نصرتی کل پاکستان انجمن ترقی اُردو ، کراچی     طبع اول، ۱۹۴۴ء ،ص۸۲

۴۴)افسرصدیقی،امروہوی(مرتبہ)مخطوطات انجمن ترقی اُردو(جلد اول)انجمن ترقی اُردوپاکستان،کراچی،طبع اول،۱۹۶۵ء ،ص ۲۷۴

۴۵)عبدالحق ، ڈاکٹر     نصرتی کل پاکستان انجمن ترقی اُردو ، کراچی     طبع اول، ۱۹۴۴ء ،ص۱۸۔۱۷

۴۶)   لچھمی نرائن،شفیق چمنستانِ شعرا(مرتبہ :مولوی عبدالحق )انجمن ترقی اُردو حیدر آباد،دکن ،طبع اول،۱۹۲۸ء،ص۲۳۔۳۲۲

لچھمی نرائن،شفیق   چمنستانِ شعرا(ترجمہ:سیدعطاالرحمٰن عطاکاکوی) عظیم الشان بک ڈپو سلطان گنج پٹنہ۔۶،انڈیا  ،اشاعت۱۹۶۸ء،ص۸۱۔۸۰

۴۷) میراںہاشمیاحسن القصہ    نسخہ خطی متعلق بہ کتاب خانہ برٹش میوزم، لندن  شمار ایڈیشنل ۱۱۳۲۸ ،ص ۲۵۲

۴۸)لچھمی نرائن ، شفیق   چمنستانِ شعرا(مرتبہ:مولوی عبدالحق)انجمن ترقی اُردو حیدر آباد، دکن ،طبع اول، ۱۹۲۸ء،ص ۳۲۲

۴۹)عبدالمجید،صدیقی(مرتبہ)مثنوی علی نامہ از ملانصرتی سالارجنگ دکنی پبلشنگ کمیٹی حیدرآباد،دکن طبع اول،مئی۱۹۵۹ء، ص۸دیباچہ

۵۰)عبدالحق،ڈاکٹر(مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی،طبع اول،مئی۱۹۵۲ء،ص ۱۲دیباچہ

۵۱)     جمیل جالبی، ڈاکٹر (مرتبہ)  تاریخِ ادبِ اُردو (جلد اول) مجلسِ ترقی ادب، لاہور  طبع پنجم مارچ ۲۰۰۵ء، ص ۳۵۱

۵۲)ابراہیم زبیری،میرزا    بساتین السلاطین(تاریخِ بیجاپور)   مطبع سیدی حیدرآباد دکن  اشاعت۱۳۰۷ھ،ص ۴۴۰

۵۳)عبدالحق، ڈاکٹرنصرتی     کل پاکستان انجمن ترقی اُردو ، کراچی    طبع اول، ۱۹۴۴ء ،ص ۱۹۔۱۸

۵۴)عبدالجبار ، ملکاپوری   محبوب الزمن تذکرۂ شعرائے دکن (جلد دوم)  مطبوعہ رحمانی حیدر آباد ، دکن ۱۳۲۹ھ، ص ۱۰۹۰

۵۵)گوپی چند نارنگ ، ڈاکٹر      ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اُردو مثنویاں  سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور ،  ۲۰۰۳ء، ص ۹۹

۵۶)شمس اﷲ قادری ، حکیماُردو ئے قدیمجنرل پبلشنگ ہاؤس ،کراچیجون  ۱۹۲۹ء ،ص ۱۳۰

۵۷)رام بابو سکسینہ ، ڈاکٹر تاریخِ ادبِ اُردو(ترجمہ:محمدحسن عسکری)غضنفر اکیڈمی پاکستان، کراچی، طبع نہم،۱۹۹۸ء ،ص ۷۱

۵۸)عبدالحیٔی حکیم     تذکرۂ شعرائے اُردو موسوم بہ گل رعنا  مطبع معارف اعظم گڑھ ،یو۔پی  طبع سوم ، ۱۳۶۴ھ ،ص۸۰

۵۹)محمد باقرڈاکٹر    اُردوئے قدیم دکن اور پنجاب میں  مجلسِ ترقی ادب ،لاہور  طبع اول ،اگست، ۱۹۷۲ء، ص ۲۹

۶۰) محی الدین قادری زورؔ   اُردو شہ پارے (جلد دوم)  مکتبۂ ابراہیمیہ حیدر آباد ، دکن  اشاعت  ۱۹۲۹ء ،ص ۶۰

۶۱)عبدالحق ، ڈاکٹر    نصرتی      کل پاکستان انجمنِ ترقی اُردو ، کراچی  طبع اول، ۱۹۴۴ء ،ص ۱۹

۶۲) نصیر الدین ہاشمی ،سید    اُردو مخطوطات   کتب خانہ سالار جنگ حیدر آباد ، دکن  اشاعت  ۱۹۲۹ء ،ص۶۰۱

۶۳)نصیر الدین ہاشمی،سید     دکن میں اُردو     اُردو اکیڈمی سندھ ،کراچیطبع پنجم ، ۱۹۶۰ء ،ص ۱۷۵

۶۴) افسرصدیقی،امروہوی (مرتبہ) مخطوطات انجمن ترقی اُردو (جلد اول) انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع اول، ۱۹۶۵ء، ص ۲۸۰

۶۵)جمیل جالبی، ڈاکٹر (مرتبہ)  تاریخِ ادبِ اُردو (جلد اول) مجلسِ ترقی ادب، لاہور  طبع پنجم مارچ۲۰۰۵ء ،ص ۳۳۰

۶۶)      عبدالحق ، ڈاکٹرنصرتی      کل پاکستان انجمن ترقی اُردو ، کراچی  طبع اول، ۱۹۴۴ء ،ص۱۸

عبدالحق،ڈاکٹر(مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع اول،مئی ۱۹۵۲ء،ص۳دیباچہ

۶۷)عبدالمجید،صدیقی(مرتبہ) مثنوی علی نامہ از ملانصرتی  سالارجنگ دکنی پبلشنگ کمیٹی حیدرآباد،دکن طبع اول، مئی۱۹۵۹ء ،ص ۵دیباچہ

۶۸)گوپی چندنارنگ ، ڈاکٹر    ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں   سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور ، ۲۰۰۳ء ،ص ۹۹

۶۹)نذیراحمد،ڈاکٹر(مرتبہ) کتابِ نورس از سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی  دانش محل امین الدولہ پارک لکھنؤ طبع اول،اپریل ۱۹۵۵ء،ص۲۰۔۱۹

جمیل جالبی، ڈاکٹر (مرتبہ)  تاریخِ ادبِ اُردو (جلد اول) مجلسِ ترقی ادب، لاہور  طبع پنجم ،مارچ ۲۰۰۵ء ،ص ۲۱۴

۷۰)عبدالحق ، ڈاکٹرنصرتی      کل پاکستان انجمن ترقی اُردو ، کراچی  طبع اول ،۱۹۴۴ء، ص ۱۴

۷۱) ابراہیم زبیری،میرزا  روضۃ اولالیائے بیجاپور(ترجمہ :سیدشاہ سیف اﷲ) در مطبع صبغت اللٰہیرائے چور،انڈیا  ،اشاعت۱۳۱۴ھ، ص ۲۱۹

٭٭٭٭

 محمد علی ساگر

لیکچرر اُردو کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی،پاکستان

+923448378780

alisagar666@yahoo.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.