قصائد ذوق کے امتیازات
اصناف شاعری میں قصیدے کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ صنف شاہانِ وقت اور حالات کے متقاضی نمو پذیر تھی ۔ یہ اپنے عہد میں خوب پلی پڑھی اور پھلی پھولی ۔اس صنف کو زیر قلم پروان چڑھانے والوں میں نصرتیؔ ،ولیؔ ،شاکر ناجیؔ ،سوداؔ ،انشاؔ،مصحفی ؔ، غالبؔ ،مو منؔ ، اسیرؔ ،امیرؔ ،منیرؔ ،نسیمؔ ،محسن ؔوغیرہ بہت اہم ہیں ۔یہ صنف اپنے ابتدائی دور کے دکنی نامور شعراء نے مثنوی کی تحت حمدیہ ، نعتیہ،منقبتیہ اور نظمیہ قصیدے کی شکل میں مشتاق ،لطفی ،قلی قطب شاہ ،غواصی ،نصرتی ،ولی دکنی کے ذریعے ہو تے ہوئے شمالی ہند میں قدم رکھتی ہے ۔عہد زرّ یں میں سوداؔ اور ان کے معاصرین نے اس صنف کو بام ِ عروج پر پہنچا یا تو ذوقؔ ؔ نے اس میں مزید تقویت اور عروجیت عطاکی ۔
قصائد کے حوالے سے اکثر نا قدین سودؔا اور ذوقؔ کے مابین تقابلی مطالعہ کے ذریعے ایک دوسرے کی کمیوں اور خامیوں کو اجا گر کر تے ہیں جب کہ دونوں اپنے عہد اور وقت کے اعتبار سے بہت بڑے شاعر تھے ۔ہر شاعر خوبیوں اور خامیوں کا مالک ہو تا ہے بلاشبہ سوداؔ قصیدے کے سَرْخِیل اور نقاش ِ اول کی حیثیت سے جانے جا تے ہیں کیونکہ سودا نے ہی باقا عدہ اصولی اندازمیں زیر ِ فارسی اردو قصائد کی بنا رکھی اور اسے وہ مرتبہ عطاکیا جسے انوریؔ ،خاقانیؔ ،عرفیؔ و ظہوریؔ نے قصائد ِ فارسی کو اوجِ کمال پر پہنچایا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ سوداؔ کے قصائد کا اعتراف و احترام ان کے معاصر اور مابعد شعراو ادبا نے خوب کیا ہے ۔سوداؔ خود کہتے ہیں کہ :
لو گ کہتے ہیں کہ سواد کا قصیدہ ہے خوب
ان کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جا ؤنگا
اس طرح سوداؔ کے بعد تمام قصیدہ نگاروں میں شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ سرِ فہرست نظر آتے ہیں۔جن کے قصائد دیگر قصید ہ گو کے مقابلے انفرادیت کے حامل ہیں ۔ذوق کے حوالے سے اکثر ناقدین لکھتے ہیں کہ انہوں نے حمد ،نعت ،منقبت وغیرہ نہیں لکھے ہیں بلکہ ان کے قصائدبادشاہوں کی شان میں مکمل مداحی ہیں ۔یہ بات درست ہے لیکن ہمیں یہ بات بھی ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ ذوق جیسا پڑھا لکھا انسان ،عربی وفارسی پر مکمل عبور ،لفظوں کی بازی گری سے کھیلنے والا شخص عارضی شاہوں کی مداحی کر ے اور اس حقیقی خداوند قدوس جس کے ارض و سما کے ما بین زندگی معلق ہے۔ اس کو وہ بھو ل جائے یا عظمت ِ حضوری یا منقبتی قصائد نہ لکھے یہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔جب کہ مولانا محمدحسین آزاد اس بات کی طرف اشا رہ بھی کر تے ہیں کہ ۱۸۵۷ء کے حالات نے ان کے گھر کو جلا کر راکھ کر دیا جس سے ان کا کُل سرمایہ ٔ حیات خاکستر ہو گیا جو بچا کچھا دستیاب ہوا وہ ہمارے سامنے ہے مزید آزاد لکھتے ہیں کہ ان ہی میں سے چند منقتبی اشعار بھی دستیاب ہوئے ہیں ۔ان کا ایک قصیدہ ٔ ناتمام’’درمنقتب حضرت امام حسین ؓ‘‘ ہے۔ اس کے صرف چار اشعار دیوانِ ذوق مرتبہ مولانا محمد حسین آزاد میں درج ہے ۔مطلع دیکھیں :
لکھوں جو میں کوئی مضموں ظلم چرخ ِ بریں
تو کر بلا کی زمیں ہو میری غزل کی زمیں
اسی طرح حضرت علی ؓ کی شان میں بھی انہوں نے قصیدہ کہے لیکن جنگ ِ غدر میں تلف ہو گیا ۔شعر دیکھیں :
کر ے ہے مہر ِ علی دل کو صاف پُرانوار ٭ طلوع ِ شمس پہ مو قوف ہے وجود نہار
علی سے کیوں نہ ہو زیرلشکرِ کفار ٭ علٰی ہے حرف علی اور علٰی ہے حرف جار
اس طرح ذوق کے حمد ،نعت ،منقبت میں کوئی مکمل قصیدہ تو نہیں ملتا اور نہ ہی ان چو بیس مدحیہ قصائد کے علاوہ دیگر کو ئی قصائد دستیاب ہے۔
ان تمام چیزوں سے انحراف کر تے ہوئے ذوق ؔ،سوداؔ کے بعد اردو زبان کے سب سے بڑے قصیدہ نگار ہیں ۔انہوں نے اپنی عہد جوانی کو اکبر شاہ ثانی کی مدح میں اور باقی زندگی ‘بہادر شاہ ظفر کی ثنا خوانی کے لئے وقف کر دیا ۔ذوقؔ کے کلام سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ انہوں نے اپنی فنّی خلاقانہ صلاحیتوں کو بَرُ وے کارلاتے ہوئے سودا ؔکے قصائد کی خوب پیروی کی لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ذوقؔ کے مطالعہ میں شعرا ئے کلام ِ فارسی بھی ضرور تھی کیونکہ ان کے قصائد انوریؔ ،خاقانیؔ ،عرفیؔ اور ظہوریؔ وغیرہ کی زمین بھی دستیاب ہے۔ذوقؔ نے خاقانی ؔکے علمیت اور فنی مصطلحا ت کو براہ راست قبول کیا ہے ۔
سوداؔ اور ذوق ؔکے عہد کی لسانی خط و خال میں کافی تبدیلی آچکی تھی ۔عہد ذوق میں زبان ترقی کر کے کافی صاف اور شستہ ہو چکی تھی ، اپنے خیالات کو واضح طورپر پیش کر نے کے امکا نا ت زیادہ وسیع ہو گیے تھے ۔ ذوق ؔنے اپنے قصیدوں میں زبان و بیان کے فنی امکانات کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سمویا ہے ۔لفظوں کی شان و شو کت ،تراکیب کی بندش ،الفاظ کی ادقیت اور بلند آہنگی سے قصید ے کی عظمت کو چار چاند لگا یا ۔سوداؔ کے مقابلے ذوق کی زبان زیادہ صاف او ر رواں ہے لیکن فکری میلانات ،ذاتی مشاہدات کی کمی کے باعث وہ بات نہیں جو سودا ؔکے قصائد میں دکھتی ہے ۔تنویر احمد علوی لکھتے ہیں :
’’ذوقؔ اپنے مذاق ِ علمی کی تکمیل کے لیے اس زمانے کے اہل ِ فن اور اصحاب علم کی خدمات میں برابر حاضر بھی ہو تے رہتے تھے ۔ اسی لیے نسبتاً کم عمری میں انگشت نمائے خلق ہو گیے اور اس زمانے کے معیار فن،قدرت ِ کلام ،حسن ِ بیان اور لطف ِ زبان کے اعتبار سے ان کا کلام سند سمجھا جا نے لگا ۔قصائد کا زور و شور تو اور بھی غیر معمولی ہے ۔ذوقؔ اپنے شعورِ فن اور کمال ِ شاعری کے لحاظ سے اپنے خاندان یا اپنی شخصیت کے نہیں دہلی کی شعریت کے نما ئندہ ہیں ‘‘۔(ذوق دہلوی ایک مطالعہ ۔مرتب شاہد ماہلی )
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حالی کے نظر یے کے بعد قصیدے کی فکری جہت میں کا فی تبدیلی آنے لگی اور اسے دَور گزراں کی چیز سمجھی جا نے لگی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قصیدہ نگاران ِ ‘خاص طور پر ذوقؔ اپنی علمی و فنی نقطہ ٔ نظر سے اپنے وقت کے مروجہ علوم و فنون کی تاریخ کو محفوظ کر نے میں کا میاب نظر آتے ہیں اسی لیے انہیں علمی و فنی مصطلحات کے امام ِ اعظم کہا جا تا ہے لیکن وہیں ایک دشواری یہ بھی آتی ہے کہ ذوق نے اپنے شعروں میں متداولہ علوم اور فنی مصطلحات کو برتنے سے آج کے ترقی یافتہ دور کے تعلیم یافتہ طبقہ ان قصیدوں کے فہم و فراست سے بہت دور ہیں ۔
ذوق ؔعلم و فضل کے دلدادہ نظر آتے ہیں کیونکہ فارسی کے عظیم قصیدہ نگار خاقانی جو علمی اصطلاحا ت کے پیمبر مانے جا تے ہیں ان کے نقش قدم پرچلتے ہوئے ذوق ؔنے انیس سال کی عمر میں اکبر شاہ ثانی کے دربار میںایک ایسا قصیدہ پڑھا جس میں علمی و فنی مو ضوعات قلمبند تھے ۔یہ قصیدہ اٹھارہ شعرمیںاٹھارہ زبانوں پر مشتمل تھی ‘جسے کئی طرح کی صنعتوںسے مزین کیا گیا تھا۔یہ قصیدہ ان کی علمیت کا اشارہ دیتی ہے لیکن یہ قصیدہ اب نا پید ہے ۔جس کا ذکر مختلف کتابوں میں مو جود ہے ۔اسی قصیدے کی بنیاد پر اکبر شاہ ثانی نے انہیں خاقانی ہند کا خطاب عطافرمایا تھا۔ شعر دیکھیں :
جب کہ سر طانُ و اسد مہر کا ٹھہرا مسکن
آب و ایلو لہ ہوئے نشو و نمائے گلشن
ذوق کے قصائد کے مطالعہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کے عہد میں حالات ساز گار نہ ہو نے کے باوجود علمی اکتسابات اور ادبی فتوحات غیر معمولی تھے ۔ہر ذی علم اپنے علم دانی سے غرور و نخوت کا پر چم بلند کر رہا تھا۔ذوقؔ نے بھی اپنے ایک قصید ے میں مشرقی علوم و فنون ،منطق و فلسفہ ،نجوم و ہیئت ،موسیقی و طب ،تفسیر و حدیث ،تاریخ و تمدن وغیرہ سے آراستہ کیا ہے ۔
مزے لیتا تھا پڑا علم و عمل کے اپنے
تھا تصور میرا ہرامر میں تصدیق صفت
کبھی ہمت تھی میری قاعدہ ٔ صرف میں صرف
کبھی تھی نحو میں ہر نحو مجھے محویت
کبھی میں کر تا تھا تصریح معانی و بیاں
کبھی تعلیم عقاید بکتاب و سنت
ہو گیا علم حصو لی تھا مصوری مجھ کو
تھا مرا ذہن نہ محتاجِ حصو لِ صورت
ذوق کُتب بینی کا شوق رکھتے تھے اپنے عہد کے علماء کرام یا اسلاف میں علماء و ادبا کے کتابوں پر بھی ان کی نظر تھی ۔ذوق اپنے شعروں میں مختلف علوم کی کتابوں کا تذکرہ بکثرت کر تے ہیں ۔عہد شاہ جہانی میں چند ر بھان نامی شاعر جس کا تخلص بر ہمن تھا اس کے فارسی خطو ط کا مجموعہ ’’انشائے برہمن‘‘ ہے یا پھر فلسفہ کی کتاب ’شمس بازغہ ‘ اور میر حسن کی مثنوی سحر البیان کی شہزادی بدر منیر کے کردار کاذکر ہو ۔ شعر دیکھیں :
تیرے حکم شرع سے جب کفر دریا بردہو
غرق ہو وے تابہ انشائے برہمن آب میں
ہوا ہے مدرسہ یہ بزم گاہ عیش و نشاط
کہ شمس بازغہ کی جا پڑھیں ہیں بدر ِ منیر
وہیں ذوقؔ کا علم ِ نجوم سے رغبت اور دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ جگہ بجگہ اس کا تذکرہ ملتا ہے ۔شاید ہی کوئی قصیدہ ایسا ہو جہاں کسی ستارے یا بُرْج کا ذکر نہ ہو ۔علم نجومیوں کے مطابق ستاروں کو کسی نہ کسی منصب سے تعبیر کیا جا تا ہے ۔یہاں درج ذیل اشعار میں سعدِ اکبر کو مشتری، عطّاردکو منشی ٔفلک اور ترک گردوں کو مِرّیخ ستارے سے تعبیر کیا ہے ۔ذوق ؔنے اسے یوں بیان کیا ہے ۔
سریر آرائے گردوں جب تلک سلطانِ خاور ہو
قمر دستور اعظم ،صدر اعلی سعد اکبر ہو
عطّارد میر منشی ،زہرہ نا ظرِ آسماں پر ہو
زحل میر عمارت ،ترک گردوں میر لشکر ہو
سرِ ہفت آسماں جب تک کہ دور ہفت اختر ہو
الہی یہ بہادر شاہ شاہ ہفت کشور
قصائداپنے لب و لہجہ میں گھن گرج آواز چاہتا ہے لیکن ذوقؔ باعتبارِ سادہ شخصیت کہ اسلو ب میں بھی سادگی کا اظہارملتا ہے۔ وہ گھن گرج ان کے کلام میں نہیں جو سوداؔ کے یہاں نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود ذوقؔ بھاری بھر کم الفاظ ،ثقیل تراکیب سے اس کمی کو بڑی حد تک پو ری کر دیتے ہیں ۔اس لحاظ سے ان کے قصیدوں کے اجزائے ترکیبی میں بڑا توازن نظر آتا ہے ۔تشبیب کے ذریعے ذوق نے اپنی صناعی اور فنکارانہ صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کر تے ہوئے تشبیبوں میں غضب کا حسن پیدا کیا ہے ۔اس کے ذریعے انہوں نے آسمان و زمین کی شکا یت ،فخرو تعلّی اور علم و ہنر کی ناقدری کا بیان وغیرہ نِت نئے انداز میںبیان کیا ہے ۔
قلم جو صفحہ کا غذ پہ ہوئے نکتہ نگار ٭ تو اپنے نقش مٹادیں جہاںکے جادو کار
یا پھر
شب کو میں اپنے سرِبستر ِخوابِ راحت ٭ نشۂ علم میں سر مست و غرور و نخوت
یا پھر صبح سویرے کایہ منظر:
دی ہے مسجد میں مؤ ذن نے اذاں بہر نماز ٭ با وضو ہوکے نمازی نے ہے باندھی نیت
ہوئی بت خانہ سے ناقوس کی پیدا آواز ٭ چلے جمنا کو برہمن کوئی لے کے مو رت
اک طرف سے ہوئی گھڑیال کی آواز بلند ٭ ایک جانب سے لگی آنے صدائے نو بت
گریز میں ذوقؔ کا کوئی خاص مقام نہیں بلکہ فرسودہ روایات کی تقلید نظرآتی ہے لیکن مدحیہ اشعار کے ذریعے خوب طبع آزمائی کی ہے۔ جس میں انہوں نے پورا زور بیان، بلندی ٔ خیال اور پرواز فکر کا جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ پر شکوہ الفاظ سے نئے معنی و مفاہیم پیدا کرتے ہیں ۔ممدوح کے مراتب کے اعتبار سے ان کے شایان ِ شان تعریف ،ان کی شجاعت ، اوزارِ حرب ،خدمت خلق ،عدل و انصاف کا نعرہ بلند کرتے ہیں ۔چند اشعار ملاحظہ ہو :
سارے پڑھے اسمائے الہی سب ہیں موثّر اے شہِ اکبر ٭ اسم جو اعظم ہے تو وہی ہے جس سے ہے تیرا اسم ِمسمّٰی
ابو ظفر ،شہِ والا گُہر ،بہادر شہ ٭سراجِ دینِ نبی ،سایہ ٔ خداے قدیر
جو ہر سے تیری تیغ کے دکھلائے ہے قضا ٭سرکش کو لکھ کے حرف بحرف آیت عذاب
الغَرَض ذوقؔ کے قصائد میں زندگی سے متعلق تمام چیزیں اسماء و علائم ،طبقات و ملل ،اسلامیات و مقامات ،خطاطی ،آتش بازی ،ہا تھی او ر گھو ڑے کے متعلقات ،فنّ سپہ گری ،ملبو سات و زیورات ،معدنیات ،نباتات اور فارسی و عربی کے ضرب الامثال محاورے وغیرہ خوب ملتے ہیں۔ انہوں نے اپنے عہد میں شاہوں کے دربار سے خو ب واہ واہی تو ضرور لو ٹی ہے لیکن حالات ِحاضرہ کے تحت ان کے قصائد میں علمی و فنّی اصطلاحات کی بھر مار سے اشعار بو جھل نظر آتے ہیں۔عہد ِ میر کی سیاسی،سماجی اورمعاشرتی احوال و کوائف کو سودا نے اپنے قصیدوں اور شہر آشو ب میں خوب بیان کیاہے لیکن وہیںانیسویں صدی کے نصف آخر سے قبل کے حالات و واقعات کسی سے مخفی نہیں۔ غالب کی شاعری اور ان کے خطو ط اس عہد کی ترجمانی کر تے ہیں لیکن ذوق کی قصید ہ نگاری اس دور کے احوال کو بیان کر نے سے قاصر نظر آتے ہیں وہ سودا کی طرح شہر آشوب لکھ سکتے تھے لیکن وہ اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے مجبور ،ذہنی اپج بھی کالمعدوم جو ان کی عصری حسیت کو بیدار کرتا ۔ان تمام چیزوں سے مبرأہو کر یہ تسلیم کر نا کہ انہوں نے اپنی علمیت ،مضمون آفرینی ،مبالغہ آرائی ،صنائع و بدائع کے استعمال سے قصائد کے تمام کمیوں کو دور کردیا ہے۔
پرہیز میرا یہ ہے کہ تقوے سے ہے گریز
تقویٰ ہے میرا یہ کہ ہے تو بہ سے اجتناب
(ذوق)
٭٭٭
ڈاکٹر محمد ارشدندوی
شعبہ ٔ اردو،دیال سنگھ کا لج،دہلی یو نیورسٹی ،دہلی
9213307499
Leave a Reply
Be the First to Comment!