شاہنامہ فردوسی میں خواتین کردار کی عکاسی
مقصد:
اس تحقیق کا اصلی ہدف ایرانی تہذیب ، خاص طور سے فارسی کی شاہکار تصنیف شاہنامہ میں مذکور خواتین کے مقام و منزلت کو روشن کرنا ہے۔ فارسی کے تمام بڑے ادیب و شاعر مثلا” فردوسی ، سعدی، مولوی، حافظ، مولانا روم، جامی،نظامی، وغیرہ نے خواتین اور انکے مسائل کو اپنی تصانیف میں خاطرخواہ جگہ دی ہے۔ فارسی ادب کے یہ ایسے نام ہیں جو فکروہنر کی فہرست میں سر فہرست نظر آتے ہیں نیز عالم انسانیت اور جہان اسلام پر انکی خاص نطر رہی ہے لہذا ان کے معاشرہ سے مربوط ایک ایسی ذات کے مقام ومنزلت کو سمجھنے کے لئے کہ جس کے دامن سے نکل کر مرد اوج کمال تک پہونچتا ہے، بہترین راستہ ان سخنوروں کے ان اشعار اور متون کی طرف مراجعہ کرنا ہے جو انہوں نے اس موضوع پر لکھے ہیں۔ فردوسی کا شمار بلا شبہ فارسی کے نامورترین شاعروں میں ہوتا ہے اورانکی شہرت کا سبب انکی بے مثال تصنیف شاہنامہ ہے۔ وہ خود دعوہ کرتے ہیں کہ اپنی اس تصنیف نے انہوں نے ایران کو زندہ و جاوید کردیا ہے۔ شاہنامہ میں گوناگون خواتین کردار کا ذکر ہے، اورانہیں خواتین کرداروں کی روشنی میں زمانہ قدیم میں ایرانی معاشرے میں خواتین کے مقام و منزلت اور کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش اس مقالے کا اصل مقصد ہے۔ افسانوی داستانوں میں صنف نسواں کے کردار کی حقیقی عکاسی کرنا یہ ایک ایسا ہنر ہے جس کی جھلک فردوسی کے کلام میں نظر آتی ہے۔ ایک عورت کا حق آزادی، اسکی اہمیت کا معیار، زینت و آرائش کے وسیلے، خیانت کا نتیجہ وغیرہ ایسے مضامین ہیں جن کو فردوسی نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
مقدمہ
ادب کے فن پاروں میں شاید ہی کوئی ایسی تصنیف ہو جس میں خواتین کا ذکر نہ ہو۔ عورتوں کے حسن،عشق، لطافت، نزاکت، مزاج ، کردار وغیر کو ہنرمندانہ انداز سے بیان کرنے کے میدان میں شعرا اور ادباء ہمیشہ صف اول میں نظر آئے ہیں ۔ فارسی ادب کی تاریخ کے مختلف مراحل میں شعرا اور ادیبوں نے اس صنف نازک متعلق مضامین ، اور انکی اہمیت کے بارے میں بلند پایہ مطالب بیان کرتے آئے ہیں۔ اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فارسی ادب کا دامن ایسےکے اشعار اور مضامین سے بھرا پڑا ہے جن میں خواتین سے متعلق موضوعات شامل کئے گئے ہیں۔ فارسی شاعروں اور ادیبوں نے خواتین کے اوصاف کو اپنے اپنے انداز میں مختلف رخ سے پیش کیاہے؛ ادبی کلام میں کبھی یہ عورت مظہر عشق و محبت اور عاشق نظر آتی ہے، توکبھی اسےایک معشوقہ کے روپ میں دیکھا جا سکتا ہے، کبھی زوجہ کے کردار میں دیکھی جا سکتی ہے تو کبھی ایک مہربان ، دلسوز اور بہترین تربیت کرنے والی ماں کی صورت میں نظر آتی ہے، کسی شاعر نے اسی عورت کو اعتماد اور بھروسہ کا مظہر بنا کر پیش کیا تو کسی ادیب نے اس کے زہد و تقوہ کا پیکر بنا کر پیش کیا، بعض نے اسی عورت کو ایک عقلمند اور سیاستمدار شخصیت کے عنوان سے پیش کیا تو کسی نے اسے ایک بغض و کینہ اور فتنہ کا مظہر بتایا ہے۔
ایران کا شمار دنیا کی قدیم ترین تاریخ و تمدن والے ممالک میں ہوتا ہے۔ قدیم تمدن کے عوام کے پاس ادب و ثقافت و تہذیب سے متعلق کچھ ایسے خزانہ پائے جاتے ہیں جو ان کے بزرگوں سے سینہ بسینہ ان تک پہونچتے ہیں اور کئی اہل قلم ایسے خزانے کو شعر و نثر کی شکل میں محفوظ کر اپنی آنےوالی نسلوں کیلئے چھوڑ جاتے ہیں ۔ فردوسی نے اسی روایت کی پیروی میں ایرانی عوام کے پاس اس طرح کے جو خزانے ہیں ان کو شاہنامہ جیسی شاہکار مثنوی کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ اس کے مطالعہ سے ہی انسان اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کے آباو اجداد کا طرز زندگی کیا رہا ہوگا ان کے زندگی میں کیا مشکلات تھیں اور کسطرح ان کا سامنا کیا گیا۔
شاہنامہ میں قدیم ایرانی سماج اور تہذیب و ثقافت کا بھر پور عکس ملتا ہے اور اس کا بیانیہ داستانوی ہے اور اسطرح کا کوئی بھی ادب خواتین کرداروں کے بغیر نا مکمل ہوتا ہے ۔ ادب کے اس خزانہ میں بھی عورتوں کے کردار کو جا بجا مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ بعض محققین کے نظریہ کے مطابق شاہنامہ خواتین کے اوج کمال کو بیان کرنے والی کتاب ہے لیکن کچھ محققین نے شاہنامہ کے بعض اشعار کے پیش نظر فردوسی پر خواتین سے دشمنی کا بھی الزام لگا دیا ہے۔ حالانکہ شاہنامہ کے تمام اشعار کو اگر سامنے رکھا جائے تو ان کا یہ الزام خود بخود ریت کی دیوار ثابت ہو جاتا ہے۔
شاہنامہ فردوسی میں خواتین کردار سے متعلق ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں عورت کو ایک مکمل وفادار مخلوق کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے ۔ اکثر موارد میں مرد کی حفاظت کے لئے عورت اپنے تمام وجود کو قربان کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ خواتین کے جن صفات و کردار کو فردوسی نے اپنے شاہنامہ میں جگہ دی ہے ان میں ان کی دلیری، عفت، پردہ دار، آزاد، جنگجو، چالاک، وفادار وغیرہ جیسے عناوین قابل ذکر ہیں۔ اس تحریر میں شاہنامہ کی روشنی میں بطور اختصار عورتوں کے ان اوصاف وکردار پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
شاہنامہ میں خواتین کی تصویر
خواتین کے متعلق شاہنامہ کا بنیادی ترین نکتہ یہ ہے کہ پورے شاہنامہ کی کسی ایک بھی داستان کے لئے دعوہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کہانی بغیر کسی خاتون کی مؤثرموجودگی کے مکمل ہوئی ہے۔
فردوسی نے اپنے شاہنامہ میں عورت کو ایک ایسی مخلوق کی صورت میں پیش کیا ہے جس کے اوصاف میں طہارت، شان و شوکت، جاہ و مرتبہ، عزت اوراعتبار شامل ہے۔ شاہنامہ میں عورت کا سب سے عظیم اور واضح کردار یہ ہے کہ اسے عقلمند، ہنر مند، خود کفیل، شوہر کے لئےوفادار، اور کبھی فتنہ انگیز جیسے کلمات سے متعارف کرایا گیا ہے۔ فردوسی کے قلم سے شاہنامہ میں خواتین کے کردار کی جو مختلف صورتوں میں عکاسی ہوئی ہے وہ بطور واضح بیان کر رہی ہے کہ نمونہ عمل کے لئے خواتین بہترین اور مؤثرترین فرد ہوا کرتی ہیں۔ حالانکہ شاہنامہ میں فردوسی نے جن داستانوں کے ذریعہ عورتوں کے مقام و منزلت ، مزاج و کردارکو بیان کیا ہے تقریبا سبھی داستانیں افسانہ اور خیالی ہیں یا ایک حقیقی واقعہ کو فردوسی نے افسانہ کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ہے اس کے باوجود ان داستانوں میں بیان کئے ہوئے خواتین کے کردار میں وہ صلاحیت ہے کہ قدیمی زمانہ کی عورتوں کے مقام و منزلت کی بخوبی عکاسی کر سکیں۔ فردوسی نے خواتین کے مقام ومنزلت کو متعدد صورتوں میں بیان کیا ہے ان میں سے بعض صورتیں اس مقالہ میں پیش کی جا رہی ہیں:
۱۔ اظہار رائےمیں آزادی
شاہنامہ میں خواتین کے متعلق جو ایک اہم نکتہ بیان ہوا ہے وہ یہ کہ ان کو شریک حیات کے انتخاب اور طریقہ زندگی میں مکمل آزادی حاصل ہے؛ تہمینہ، منیژہ اور سودابہ با وجود اس کے کہ یہ تینوں شہزادیاں تھیں لیکن اظہار عشق میں نہ ان کو کوئی جھجھک تھی اور نہ ہی یہ کام سماج کی نظر میں قابل مذمت تھا۔ یہی نہیں بلکہ قیصر روم نے اپنی بیٹی کتایون کے کہنے پر انتخاب ہمسفر کے عنوان سے ایک جشن کا انتخاب کرتا ہے تاکہ وہ اپنے لئے ایک شریک حیات کا انتخاب خود کرسکے۔ سودابہ کے کردار کی مذمت اس وجہ سے کی گئی کیوں کہ کسی کی بیوی ہونے کے با وجود وہ سیاووش کے عشق میں گرفتار ہو جاتی ہے اور اس تک پہوچنے کے لئے ایک مہرہ کے طور پر اپنی بیٹی کو سیاوش کے سپردکر دیتی ہے ساتھ ہی اپنے شوہر کی موت کا انتظار بھی کر رہی ہے تاکہ سیاووش تک پہونچنے میں کوئی مانع نہ ہو سکے کسی رسوائی کی پروا کئے بغیر وہ اس طرح اپنے عشق کا اظہار کر تی ہے:
من اینک بہ پیش تو استادہ
امتن و جان شیرین ترا دادہ ام
ز من ہ ر چہ خواہ ی ہ مہ
کام توبرآرم نپیچم سر از دام تو
سرش تنگ بگرفت و یک بوسہ داد
بداد و نبود آگہ از شرم و باک
(شاہ نامہ، بخش ۴، بیت ۳۷، ۳۸، ۳۹)
میں تمہارے سامنے کھڑی ہوں اور اپنے شیرین جسم و جان کو تیرے سپرد کر دیا ہے۔ مجھ سے جو بھی چاہو گے سب پورا کروں گی تمہارے جال سے ہرگز آزادی نہیں چاہوں گی۔ بغیر کسی شرم و خوف کے اسنے( سیاوش) کے سر کو مضبوطی سے پکڑا اور ایک بوسہ لیا۔
۲۔ عورت کی اہمیت کا معیارم، شرافت اور خاندان
شاہنامہ کی داستانوں میں خواتین کے متعلق ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ عورت کی اہمیت اسکے کردار اور شرافت کی وجہ سے ہے اور اس اہمیت پر ہم¬مذہب، ہم مسلک یاہم وطن ہونے یا نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ شاہنامہ کی داستانوں میں عورت کے کردار میں نظر آنے والی متعدد خواتین دوسرے ملک یا دوسرے مذہب کی نظر آتی ہیں بطور مثال؛ فریدون نے اپنی شریک حیات کے انتخاب کے لئے اپنے نمایندوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجا اور ملک یمن کی خاتون کا انتخاب کیا۔ شاہنامہ میں عورت کے مشہور کردار میں نظر آنے والی تہمینہ بھی سمنگان کی رہنے والی ہے۔ رودابہ کا تعلق کابل سے ہے، سیاوش کی دونوں شریک حیات کا تعلق توراندو سے ہے، اسی طرح انوشیروان کی زوجہ ایک عیسائی شہزادی تھی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بزرگان ایران کے نزدیک شریک حیات کے انتخاب میں غیر ایرانی یا غیر مذہبی ہونا میعار نہیں تھا بلکہ شرافت اور خاندان دیکھا جاتا تھا۔
۳۔ شجاعت اور بہادری
فردوسی نے اپنے شاہنامہ میں عورت کے جس کردار کو پورے وجد میں آکر بیان کیا ہے وہ ان کی شجاعت اور بہادری ہے۔ شاہنامہ میں بہرام کی بہن گردیہ کو ایک شجاع اور بہادر خاتون کے عنوان سے معتارف کروایا گیاہے۔ گردیہ کی شجاعت کے بارے میں فردوسی کے ا شعار کا لہجہ بتا رہا ہے کہ شاعر کی نظر میں خواتین کی شجاعت اور بہادری کی ایک خاص اہمیت ہے۔ فردوسی نے گردیہ کی شجاعت کو اس انداز میں بیان کیا ہے:
بدو گردیہ گفت کاینک منم کہ بر شیر درندہ اسب افکنم
ہ مان خواہ ر پہ لو نامدار بہ نیزہ در آمد بہ نزد سوار
زنی بود برسان گردی سوار ہمیشہ بہ جنگ اندرون نامدار
(شاہنامہ، بخش۵۲، بیت ۲۴، ۲۵ ، بخش ۷ ، بیت ۲)
گردیہ نے اس سے کہا کہ یہ میں ہوں جو درندہ صفت شیر پر گھوڑا سوار کر دیتی ہوں۔پہلو نامدار (بہرام) کi وہی بہن ہے جو اسپ سوار کے سامنے نیزہ لیکے ڈٹ جاتی ہے۔وہ ایک ایسی عورت تھی کہ جنگ کے دوران اسکی رفتار ایسی تھی گویا ہوا سے بات کر رہی ہو اور ہمیشہ میدان کے بیچ و بیچ نظر آتی تھی۔
فردوسی نےاپنے اشعار کے ذریعہ عورتوں کے مقام و منزلت کو کمال اوج پر پہچا دیا ہےجس کی تایید یہ شعر کر رہا ہے؛
ببوسید پیشش زمین پہلوان بدو گفت ای مہتر بانوان
زمین از تو گردد بہاران بہشت سپہر از تو راند ہمی خوب و زشت
(شاہنامہ، بخش ۱۸، بیت ۱۵۶، ۱۶۷)
( اے پہلوان اس کے سامنے زمین کا بوسہ دو اور کہو اے مہربان خاتون تمہاری وجہ سے ہی یہ زمین جنت نما بنی ہے۔۔۔)
۴۔ خواتین کی زینت، عفت اور حجاب
لفظ حجاب سے عام طور پر ذہنی تبادر اسلامی خواتین کی طرف چلا جاتا ہے ۔ شاہنامہ میں خواتین کے پردہ کے متعلق جو مطالب بیان ہوئے ہیں ان کے ذکر سے پہلے عرض کردینا ضروری ہے کہ فردوسی نے اپنے اشعار میں جن خواتین کا ذکر کیا ہے ان کا تعلق مذہب اسلام سے نہیں بلکہ اکثریت کا تعلق دیگر مذاہب سے تھا جس میں اسلام کی بنسبت پردہ کی اہمیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے اس کے باوجود شاہنامہ کی خواتین حجاب کے اعتبار سےبھی بہترین مثال بنی ہوئی نظر آتی ہیں ۔
تاریخ ایران اور شاہنامہ کا ایک بہت ہی مشہور کردار ’شیرین‘ ہے۔ فردوسی نے خسرو پریز کی داستان میں ’شیرین‘ کے کردار کی بلندی کو خود اسی زبان سے جوبیان کیا ہے وہ عفت اور پردہ ہے؛
بہ سہ چیز باشد زنان را بہی کہ باشند زیبای گاہ مہی
یکی آنک با شرم و با خواستست کہ جفتش بدو خانہ آراستست
دگر آنک فرخ پسر زاید او ز شوی خجستہ بیفزاید او
سہ دیگر کہ بالا و رویش بود بپوشیدگی نیز مویش بود …
مرا از ہنر موی بُد در نہان کہ آن را ندیدی کس اندر نہان۔
(شاہنامہ، بخش ۶، بیت ۵۲، ۵۳، ۵۴، ۵۵ و ۶۴ ))
۔۔۔ تین چیزیں عورت کی منزلت بڑھاتی ہیں اور یہی تینوں چیزیں عورت کا اصلی زیور ہیں؛ اول یہ کہ شرم و حیا رکھتی ہو اسی سے گھر با رونق رہتا ہے دوم یہ کہ عورت ماں بن کر اپنے با برکت اور محترم شوہر کی نسل کو آگے بڑھائے اور سوم یہ کہ اوپر سے نیچے تک اس طرح حجاب میں رہے کہ سر کا بال بھی چھپا ہوا ہو مجھے ہمیشہ سلیقہ سے اس طرح حجاب میں رکھو کہ اس حجاب میں مجھے کوئی دیکھ نہ سکے۔
فردوسی کی نظر میں خواتین کی قدر و منزلت انکے پردہ سے ہے اسی وجہ سے متعدد مقامات پر خواتین کے لئے لفظ ’زن‘ کے بجائے، ’پوشیدہ روی، پوشیدہ رخ وغیرہ‘ جیسے کلمات کا استعمال کیا ہے۔ فریدون کی داستان میں جس وقت فریدون کے سفیر ’جندل ‘نے یمن کے بادشاہ کی بیٹیوں کا ہاتھ فریدون کے بیٹوں کے لئے مانگا تو فریدون کی زبانی اس کی بیٹیوں کو ’پوشیدہ روی‘ اور ’پوشیدہ رخ‘ کے عنوان سے خطاب کیا؛
زکار آگہان آگہی یافتم / بدین آگہی تیز بشتافتم
کجا از پس پردہ پوشیدہ روی تو داری سہ پاکیزہ نامجوی
سہ پوشیدہ رخ را سہ دیہیم جوی سزا را سزاوار بی گفتگو
با خبر لوگوں سے مجھے ایک ایسی خبر ملی جس کی وجہ سے تیزی سے میں یہاں آیا ہوں کہ تمہارے پاس پس پردہ تین نامور نقاب پوش ہیں۔ ان تینوں پردہ نشینوں کے لئے تین رشتہ ہیں سزا دینے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ کوئی بات نہ کی جائے(
لفظ ’زن‘ یا ’دختر‘ کے بجائے پوشیدہ روی اور پوشیدہ رخ جیسے کلمات کا استعمال یہ بیان کر رہا ہے کہ فردوسی کے شاہنامہ کے اعتبار سے اس زمانے کی خواتین کے کردار ایک اہم حصہ حجاب اور پردہ رہا ہے۔
شاہنامہ کی خواتین ہمیشہ اپنے جسم کو غیروں کی نطر سے پوشیدہ رکھتے ہوئے فخر محسوس کرتی نظر آتی ہیں جیسا کہ منیژہ نےکمال فخر کے ساتھ اپنے حجاب کی تعریف کی ہے؛
منیژہ منم دخت افراسیاب برہنہ ندیدہ تنم آفتاب
(شاہنامہ، داستانہ بیژن و منیژہ، بیت ۹۷۴)
(میں افراسیاب کی بیٹی منیژہ ہوں میرے جسم کو آفتاب نے بھی برہنہ نہیں دیکھا ہے۔)
شاہنامہ میں خواتین کے جس حجاب کا ذکر ہوا ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ خانہ نشین رہتی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حجاب کی رعایت کرتے ہوئے معاشرہ کے ہر گوشہ میں نظر آتی ہیں حتی ان میں سے بعض خواتین تخت سلطنت پر بھی نظر آئی ہیں جیسے ہمان، پوران، آزرم وغیرہ۔
۵۔ قابل مذمت کردار
فردوسی کے شاہنامہ میں ۳۰۰ خواتین کا ذکر ہوا ہے جن صرف سودابہ ایک ایسا کردار ہے جسے ایک مذموم شخصیت کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ سیاوش کی موت کے بعد پہلوان رستم کی زبانی اس طرح مذمت کی گئ ہے:
زن و اژدہا ہر دو در خاک بہجہان پاک از اين ہردو ناپاک بہ
(شاہنامہ امیر بہادر، بخش ۴، بیت ۶)
(زمین پر عورت اور اژدہا دونوں رہتے ہیں انہیں دونوں کی وجہ سے یہ پاک زمین نا پاک ہوئی ہے۔)
اس شعر کے سلسلے میں محققین کے درمیان بہت اختلاف بھی ملتا ہے اکثر کا ماننا ہے کہ یہ شعر فردوسی کا نہیں ہے بلکہ ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ جو محققین اس شعر کو فردوسی کا تسلیم کرتے ہیں انہوں نے اپنے اعتبار سے اس کی تشریح بھی کی ہے۔ جن ادب شناش کا ماننا ہے کہ یہ شعر فردوسی کا نہیں ہے ان موقف نسبتاً قوی نظر آتا ہے کیوں کہ؛ یہ شعر صرف چند سنگی نسخوں میں ملتا ہے جیسے ۱۲۷۶ ھ میں ممبئی اور کلکتہ سے چھپنے والے نسخہ یا شاہنامہ امیر بہادر، کلالہ خاور، شاہنامہ ایران باستان،نسخہ امیر کبیر، نسخہ دبیر سیاقی میں سیاوش کی داستان میں یہ شعر کچھ ردو بدل کے ساتھ ذکر ہوا ہے جب کہ جو پندرہ خطی قدیمی نسخہ ایرانی کتب خانوں میں موجود ہیں ان اس شعر کا نام و نشان نہیں ہے۔ (سجاد آیدنلو، مقالہ ’ این بیت از فردوسی نیست‘ مجلہ کتاب ماہ ادبیات و فلسفہ، آبان ۱۳۸۴ (نومبر ۲۰۰۵ ء، ص ۵۰، تا ۵۵)
نتیجہ
فارسی زبان کے اکثر نامور قلم نگاروں نے خواتین کے مقام و منزلت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ کسی نے اپنی تحریر میں صنف نسواں کی خوبیوں کو شمار کیا تو کسی نے خامیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ فارسی کے معروف شاعر فردوسی نے بھی اپنی شاہکار تصنیف شاہنامہ میں اس موضوع پر خاص توجہ دی اورایرانی خواتین سے متعلق مختلف صورتوں میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ فردوسی نے جس انداز اور جس سلیقہ سے خواتین کے مقام و منزلت کو بیان کیا ہے اس کی نظیر ایرانی ادب کی تاریخ میں کم نظر آتی ہے۔ شاعر نے خواتین کے مقام و منزلت اور کردار کی عکاسی کرنے کے لئے ایسی داستانوں کا سہارا لیا ہے جو اکثر افسانہ یا خیالی ہیں لیکن انہیں خیالی داستانوں کی شکل میں فردوسی نے ایرانی ورثہ کو ایک ایسا آئینہ دے دیا جس میں وہ اپنے بزرگوں کے مقام و منزلت کو بخوبی دیکھ سکیں۔ اس مختصر سی تحقیق میں ہم اس نتیجہ پر با آسانی پہوچ سکتے ہیں کہ فردوسی کے شاہنامہ میں خواتین کے کردار اور مقام و منزلت کی جو عکاسی کی گئی ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے؛کہ زندگی بسر کرنے اور شوہر کے انتخاب میں عورت کو مکمل اختیار حاصل ہے حتی باپ کی طرف سے بھی زور و زبردستی مناسب نہیں ہے۔ ایک عورت کی اہمیت کا معیار اس کی خاندانی شرافت اور کردار سے اس ہم وطن ،ہم مسلک ہونے کو کوئی دخل نہیں ہے۔اگر وقت آجائے تو شجاعت و بہادری کے مظاہرے میں تو عورت کسی سے پیچھے نظر نہیں آئے گی۔ایک عورت کی زینت اسکی شرم و حیا اور حجاب ہے۔خیانت اسی عورت کو سماج میں قابل مذمت بنا دیتی ہے۔
منابع و ماخذ:
شاہنامہ فردوسی، آخری نسخہ، تاریخ نشر، تیرماہ ۱۳۹۸ (جولائی ۲۰۱۹)
شاہنامہ امیر بہادری، حسین پاشا خان امیر بہادر، نسخہ سنگی ،کتابت محمد حسین آزاد ۱۳۲۲ (۱۹۴۳ء)
’ این بیت از فردوسی نیست‘ مجلہ کتاب ماہ ادبیات و فلسفہ، آبان ۱۳۸۴ (نومبر ۲۰۰۵ ء، )، سجاد آیدنلو
بررسی سیمای زن در شاہنامہ فردوسی، آقای علوی
زن در شاہنامہ فردوسی، آنتی پور پیرار
مجلہ پیام زن، نمبر ۲۰۳، سیمای عفاف و حجاب در آیینہ زنان شاہنامہ، گروہ محققین
٭٭٭
ڈاکٹر محمد جاوید اختر
شعبہ فارسی ، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسیٹی ، لکھنئو
Leave a Reply
Be the First to Comment!