اردو زبان میں لسانیاتی تحقیق: آثار وامکانات
تلخیص:
زبان اصل میں آواز ہے۔یہ ایک زندہ وجود ہے ،جو بولنے والے کے ذہنوں میں موجود رہتی ہے۔ ایک زبان جو ہیئت سے ماوراء ہے اور جس سے انسان کی داخلی کائنات منور ہے۔اور ایک زبان جو ہیئت کی متقاضی ہے اوراسے کائنات کا خارجی حصہ روشن ہے۔انسانی ذہن بذات خود منبع اسرار ہے اس منبع میں زبان کے وجود کا انکشاف ،ماہرین لسانیات اور اہل عرفان دونوں نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں کیاہے۔ اس صداقت سے انحراف مشکل ہے کہ انسانی وجود کی فراوانی اور صحت و سلامتی کی ضمانت میں مبتدا کا رول کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
عصرِ حاضر میں سائنس و تیکنالوجی کی حیرت انگیز پیش رفت نے جہاں زندگی کے تمام شعبہ ہائے فکرو فن کو متاثر کیا وہیں زبان اودب کی تحقیق بھی تحیر آمیز تبدیلیوں سے متعارف ہوئی۔انیسویں صدی کے اواخر میں سوئزرلینڈ کے مشہور فائلالوجسٹ فَری۔دانند۔دی۔ساسور کی بدولت بیسویں صدی میں شعبہ لسانیات کا قیام عمل میں آیا۔لسانیات کی جامع تعریف یوں کی گئی ہے کہ یہ زبان کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔اس بات کا اظہار مختلف انگریزی ماہرین لسانیات ،جن میں لیونارڈ بلوم فیلڈ،نوم چامسکی او ر ڈیوڈ کرسٹل بالخصوص شامل ہیں ‘ نے اپنی مایہ ناز تصانیف بالترتیبLanguage(1965) ,Selected Readings (1971),Linguistics (1971)میں اپنے منفرد اُسلوب میں کیا ہے۔
اردو ماہر لسانیات ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں :
’’سائنس میں صحیح اور قطعی اصولوں کی تلاش کی جاتی ہے۔ان اصولوں کو تجربوں کے ذریعہ سے دکھایا ،سنایااور محسوس کرایا جاتا ہے کہ یہ صحیح ہے محض عقیدے کے طور پر کچھ تسلیم کرنے کومجبور نہیں کیا جاتا۔سائنس میں قدیم اساتذہ کی سند کے بجائے عینی مشاہدے سے کام لیا جاتاجاتا ہے۔سائنس صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ بالکل معروضی بھی ہوتی ہے۔یہاں اخلاقی اورسماجی قدروں سے کوئی واسطہ نہیں ۔‘‘ ۱؎
آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’لسانیات میں کسی حد تک تجربے،قطعیت اور معروضیت کی گنجائش ہے۔اس کا سب سے اہم عُنصر سماج میں رہتا ہوا انسان ہے اس کے پاس سوچنے اور محسوس کرنے والا ذہن ہے۔اس انسان کے ذہن کی پیداوار ’’زبان‘‘ کو کس طرح معروضی اعتبار سے دیکھا جائے؟ جدید لسانیات کوشش کرتی ہے کہ حتی الامکان زبان کا شخصی اور معنوی عُنصر نظر انداز کرکے اس کی ہئیت ہی کا مطالعہ کیا جائے۔اصوات،صرف اور نحو کو معنوی اور نفسیاتی قدروں سے الگ کرکے مطالعہ کیا جاتا ہے۔یہ طریقہ سائنسی مطالعہ ہے۔‘‘ ۲؎
زبان کے تعلیمی نظام میں لسانیات کی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ اس نے زبان کی ماہئیت کے فہم کو عام کیا ہے۔بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ:
’’ لسانیات نے زبان کو فسانہ و فسوں (Myth) کی دنیا سے نکال کر سائنس کی معروضی روشنی میں پیش کیا ہے اور اس کی اصلیت سے نقاب اُٹھائی ہے۔‘‘ ۳؎
لسانیات میں زبان کے مطالعے کے دو طریقہ کار وضع ہیں ۔
۱۔تاریخی لسانیات
۲۔توضیحی لسانیات
تاریخی لسانیات میں زبانوں کی تاریخ کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔ان کی عہد بہ عہد تبدیلیوں کی کھوج لگائی جاتی ہے۔یہاں ان اصولوں اور قواعد کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔جس کے سبب زبانوں میں مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔
توضیحی لسانیات میں زبان کی توضیح درج ذیل سطحوں پر کی جاتی ہے۔
۱۔صوتیات ۲۔فونیمات یا تجزصوتیات ۳۔صرفیات یا مارفیمیات ۴۔نحویات ۵۔معنیات
اہم لفظیات:
۱۔فائلالوجسٹ ۲۔فونیمات ۳۔لفظی نشان گر ۴۔تبادلی قواعد ۵۔جڑواں مصوتے ۶۔تھپکدار ۷۔ تلفیظی صوتیات ۸۔جدول ۹۔صوت رکن ۱۰۔توضیحی لسانیات
اصل موضوع :
اردو میں لسانیاتی تحقیق کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔گو کہ اسے قبل اردو میں لسانی مطالعہ و تحقیق کی روایت موجود ضرور رہی ہے۔جس کی شروعات اہلِ یورپ میں ڈِچ،پُرتگالی،فرانسیسی،جرمن،اطالوی اور انگریز علماء نے کی۔اس سلسلے میں اردو کے دو اہم نام سراج الدین علی خان آرزو اور انشااللہ خان انشاء ہیں ۔ان کی تصانیف ’’نووادرالالفاظ‘‘ اور ’’دریائے لطافت‘‘ قابلِ تحسین ہیں تاہم انہیں جدید لسانیاتی تحقیق کے زمرے میں نہیں لایا جاسکتاجس کی بنیاد سائنسی مطالعے پر منحصر ہے۔
اردو میں سائنسی طرز پر لسانیاتی تحقیق کا باقاعدہ آغاز ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ (۴۲۔۱۹۰۴) کے ہاتھوں ہوا۔ان کی دو مایہ ناز تصانیف اردو کی ـــ’’ہندوستانی لسانیات‘‘ اور انگریزی کی Hidustani Phonetics) بعد میں آنے والے لسانی محققین کے لیے مشعل راہ بنیں ۔
اردو میں جدید لسانیاتی تحقیق زبان کی مختلف سطحوں پر ہوا ہے۔جس میں لُغت نگاری،اردو زبان کی تاریخ، اصطلاحات سازی،تدوین متن،معنیات،تدریس زبان،ترجمہ نگاری، اُسلوبیات وغیرہ شامل ہیں ۔ان سبھی عنوانات پر بات کرنے سے مقالے کی ضخامت نیز سائنسی طرزِ استدلال کی کمیت کا نمو ہونا واجب ہے کیونکہ کہیں نہ کہیں ان میں سے بعض عنوانات کا علاقہ فلسفہ و تاریخ کی حدوں کو چھو جاتا ہے۔لہذا یہاں صوتیات اورقواعد اور کے حوالے سے ہی بات کرنے پر اکتفا کیا جائے گا۔
صوتیات:
توضیحی لسانیات کو پانچ زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔۱۔صوتیات ۲۔تجزصوتیات ۳۔صرفیات ۴۔نحویات ۵۔معنیات
۱۔توضیحی لسانیات میں صوتیات (Phonetics)کوکلیدی اہمیت حاصل ہے۔صوتیات تکلمی آوازوں کے سائنسی مطالعے کانام ہے۔اس میں اعضائے تکلم سے پیداشدہ تمام ممکنہ آوازوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ علم صوتیات کی تین اہم شاخیں ہیں :
۱۔تلفیظی صوتیات Articulatory Phonetics)):صوتیات کی اس شاخ میں اعضائے تکلم سے پیدا شدہ آوازوں کی ادائیگی،مخارج اور درجہ بندی پربات کی جاتی ہے۔نیز ایک آواز دوسری آواز سے کس طرح الگ ہے۔اس پر بھی بحث کی جاتی ہے۔
۲۔سمعیاتی صوتیاتAcouisitic Phonetics)):میں مقرر اور سامع کے مابین سفر کرتی ہوئی آوازوں کی طبیعی خصوصیاتPhysical Propertiesمثلاً تعدادِ ارتعاش Frequency
شدت Intensity اور وقت Time کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔سمعیاتی صوتیات کے لیے تجربہ گاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔فزیکس سے اس کا رشتہ بڑا قریبی ہے۔
۳۔سمعی صوتیات(Auditory Phonetics):میں کان اور ان سے ملحق دوسرے درون اعضاء کے ذریعے مرتب ہونے والی آوازوں کے سمعی اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔معنی کی تفہیم میں یہ مطالعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
۲۔تجزصوتیات (Phonemics)میں تکلمی آوازواں کی اہم اورتفاعلی آوازوں کاتعین کیاجاتا ہے۔صوتیات اورتجزصوتیات کو ملاکر (Phonology)علم الاصوت کا نام دیاجاتاہے۔
صوتیات کے ضمن میں اس مختصر تمہید کا بنیادی مدعا یہ ہے کہ اہل اردو پر یہ بات واضح ہوسکے کہ ہم ابھی صوتیاتی تحقیق میں کتنے پیچھے ہیں کیونکہ ارددو کی آ ج تک تمام تر صوتیاتی تحقیق تلفیظی صوتیات کے ارد گرد ہی گھومتی ہے۔ گویا صوتیاتی تحقیق میں ابھی اردو اپنے ابتدائی منزلوں میں ہے۔
اردو صوتیات پر لکھنے والوں میں پہلا نام سید محی الدین قادری زورؔ کاہے۔اس کے بعد عبدالقادر سروری،مسعود حسین خان،گیان چندجین،گوپی چند نارنگ،شوکت سبزواری،سہیل بخاری، چودھری محمد نعیم اور مرزا خلیل احمد بیگ وغیرہ کے نام خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ۔
۱۔سید محی الدین قادری زور(۱۹۶۲۔ ۱۹۰۴):
محی الدین قادری زور صحیح معنوں میں اردو کے وہ پہلے ماہر لسانیات ہیں جنہوں نے باقاعدہ لندن اور پیرس میں قیام کرکے لسانیات کی تعلیم حاصل کی۔لسانیاتی اعتبار سے موصوف کی دوکتابیں Hindustani Phonetics(1930) اور ؔ’’ہندوستانی لسانیات(۱۹۳۲) کافی اہم ہیں ان میں اول الذکر انگریزی میں ہے ۔گیان چندجین اس حوالے سے لکھتے ہیں :
’’لسانیات میں ان کا اصل کارنامہ ’’ہندوستانی فونیٹکس ہے۔افسوس یہ ہے کہ اس کااردو ترجمہ نہیں کیاگیا جس کی وجہ سے اردو دنیا اس کے نام سے بھی روشناس نہیں حالانکہ ڈاکٹر زور کو لسانیات کی تاریخ میں کوئی مقام دیاجائے گا تو اسی کی بدولت‘‘ ۴؎
اسی صفحہ میں آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’لندن اور پیرس کی تجربہ گاہوں میں ڈاکٹر زور نے آوازوں کا جو تجزیہ کیا،ہندوستانی صوتیات اسی کانتیجہ ہے۔اس میں علم زبان کے وہ موتی بھرے ہیں کہ جب بھی اس کی سیر کی جائے کوئی نہ کوئی گوہرِ غلطاں ہاتھ آہی جاتا ہے۔‘‘ ۵؎
Hindustani Phonetics کا دوسرا حصہ صوتیاتی نقطہ نظر سے کافی اہم ہے۔کتاب کے پہلے حصے میں موصوف نے اردو کے آغاز کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا ہے۔موصوف نے شمال اور دکن کی بولیوں کا جائزہ خا لص صوتیاتی اصولوں کی بنیاد پر لیا ہے۔ان دونوں بولیوں کے بیچ آوازوں اور قواعدی اختلافات کو نمایاں کیا۔نیز اردو کی ایک ایک آوازکو مختلف نقشوں اور جدول کے توسط سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔بقول گیان چند جین:
’’اردو کی ایک ایک آواز کو لے کر اس کا تجزیہ پیش کرناڈاکٹر زور کا ایسا کارنامہ ہے جس کی نظیر تاحال اردو اور ہندی کی کسی کتاب میں نہیں ملی‘‘ ۶؎
زورؔ کے مطابق اردو میں ’ؔ’ نو‘‘ مصوتےVowels اور ’’چھے‘‘ دوہرے یا جڑواں مصوتے Dipthongsپائے جاتے ہیں انھوں نے اردو کی منفرد آوازوں میں نھ۔لھ۔رھ ۔زھ وغیرہ جیسی مرکب آوازوں کو شامل کیا ہے۔ حالانکہ اُن سے قبل یا بعد میں کسی بھی اردو یا ہندی کے عالم نے انھیں مفرد آوازوں کا درجہ نہیں دیا ہے۔ اردو مصمتوں Consonants کے تجزئیے میں بھی موصوف نے باریک بینی کا مظاہرہ کیا ہے۔
آوازوں کے بعد زورؔ نے مرکب الفاظ کی بعض آوازوں کی تفصیل درج کی ہے۔کتاب کے آخر میں بَلStress اور سُرلہرIntonation کی اہمیت و افادیت کو اُجاگر کیا ہے۔ اسے قبل ان موضوعات کو اردو میں کسی نے چھیڑا تک نہیں تھا۔ ڈاکٹر درخشاں ذریں لکھتی ہیں :
’’ ان موضوعات پر بھی اس کتاب میں زورؔ نے پہلی بار روشنی ڈالی۔غرض کہ ایسے وقت میں جب اردو میں صوتیات کا کوئی واضح تصور نہ تھا زورؔ نے اس علم سے متعلق اتنی گراں قدر تصنیف پیش کرکے واقعی ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔‘‘ ۷؎
یہ بات خاطر نشین رہے زورؔ صاحب نے جس انہماک اور اجتہاد سے اردو صوتیات پرخامہ فرسائی کی افسوس کہ اس روایت کو ایک لمبے عرصے تک اہلِ اردو میں کسی نے آگے نہیں بڑھایا۔اس کی وجہ غالباً یہ بھی رہی ہوگی کہ خود زورؔ صاحب بھی لسانیات سے زیادہ دیر تک جُڑے نہیں رہے۔اس جیسے سُلجھے ہوئے ماہر لسانیات کااردو لسانیات کے ساتھ زیادہ دیر تک جُڑے نہ رہنا یقینا اردو زبان کے حق میں لمبے عرصے تک سائنسی مزاج کی کمیت کا موجب بھی بنا۔
۲۔عبدالقادر سروری(۱۹۷۱۔۱۹۰۶):
عمومی لسانیات پر اردو میں شائع ہونے والی پہلی کتاب عبدالقادر سروری کی ’’زبان اور علم زبان‘‘(۱۹۵۶)ہے۔عمومی لسانیات کو بقول مرزا خلیل احمد بیگ:
’’علم لسانیات اور اس کے تمام پہلوئوں کا ایک جامع تعارف بھی کہاجاسکتا ہے‘‘ ۸؎
یہ کتاب اُس وقت سامنے آئی جب اردو میں جدید لسانیات ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی۔اس لئے موضوعی اعتبار سے اس کتاب کو اردو میں اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کا وہ حصہ اہم ہے جہاں موصوف نے جدید لسانیات کی مختلف شاخوں جن میں ،صوتیات،تجزصوتیات،تشکیلیات اور نحویات شامل ہیں ،پر مفصل اور مدلل روشنی ڈالی ہے۔صوتیات کے ضمن میں سروریؔ نے آوازوں کے استخراج پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔نیز مصوتہ اور مصمتہ کی تقسیم میں طلبہ کی آسائش کے لیے نقشے اور مختلف جدول کا سہارا لیا ہے۔ بقول ڈاکٹر درخشاں زریں :
’’ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان تمام چیزوں کا پہلے انہوں نے گہرائی سے مطالعہ اور مشاہدہ کیا اس کے بعد انہیں بحث کا موضوع بنایا ہے‘‘ ۹؎
سروریؔ کا لسانیات کے باب میں ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ فارسی،عربی اور ہندی کا سہارا لے کر اردو میں لسانیاتی اصطلاحات خود وضع کیں ۔جن میں سے بعض آج بھی مروج ہیں اور بعض رواج نہ پاسکیں ۔
یہ بات صحیح ہے اور جس کا اعتراف خود سروریؔ نے بقول درخشاں زریں اپنی کتاب کے مقدمے میں کیا ہے۔کہ انہوں ؔ نے تاراپور والا کی تصنیف Elements of the Science of Language سے استفادہ کیا ہے۔اس کے بعد لسانیات کی دنیا میں کئی نئے نظرئیے سامنے آئے۔ ظاہر ہے آج کے وقت میں سروریؔ صاحب کی کتاب ’’زبان اور علم زبان‘‘ سے پوری رہنمائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
بہرحال اُس زمانے میں اردو زبان کوجدید لسانیات کی مبادیات سے واقف کراناجب اردو زبان اس میدان سے ابھی باہر تھی خود میں ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس سے اردو لسانیات کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
۳۔مسعود حسین خان(۲۰۱۰۔۱۹۱۹ ):
مسعود حسین خان علمی وادبی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ بیک وقت شاعر ،نقاد،محقق،دانشوراور سب سے بڑھ کر ایک ماہر لسانیات رہے ہیں ۔لسانیات میں صوتیات سے ڈاکٹر زورؔ کے بعد ان کا خاص شغف رہا ہے۔ڈاکٹر زور کی Hindustani Phonetics(1930) اور مسعود حسین خان کی تصنیف A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urdu(1954) اردو صوتیاتی تحقیق میں بنیادی اور گراں قدر تصانیف میں شمار ہوتی ہیں ۔مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنے اُستاد محترم کی مذکورہ کتاب کا اردو ترجمہ ’’اردو لفظ کا صوتیاتی وتجزصوتیاتی مطالعہ‘‘ (۱۹۸۶) کے نام سے کیا۔صوتیات کے ضمن میں ان کے باقی مضامین جن میں ’’اردو حروفِ تہجی کی صوتیاتی ترتیب‘‘ ،’’اردو صوتیات کا خاکہ‘‘،’’اقبال کا صوتی آہنگ‘‘،وغیرہ شامل ہیں ۔
اردو صوتیات کا خاکہ(۱۹۶۶) مشمولہ (شعروزبان) مسعود صاحب کے تمام مضامین میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔اردو صوتیاتی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد مضمون ہے۔اس میں بقول ڈاکٹر نذیر احمد ملک:
’’ تلفظی صوتیات کے اصولوں کی روشنی میں اردو اصوات کا معروضی اور سائنسی مطالعہ پیش کیا گیاہے‘‘ ۱۰؎
مسعود صاحب نے اپنے مضمون میں اردو کے دس مصوتوں Vowels کی نشاندہی کی ہے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اسے اتفاق جبکہ گیان چند جین اس تعداد پر متفق نظر نہیں آرہے ہیں ۔اس طرح کا اختلاف رائے ماہر لسانیات کے بیچ کوئی نئی بات نہیں ۔بالخصوص مصوتوں کے ضمن میں ایساخلاف قیاس نہیں کیونکہ کسی بھی زبان کے مصوتے Vowels عموماً قریب المخرج ہوتے ہیں ۔اس لیے ان کے درمیان امتیاز کھینچنا مشکل امر بن جاتا ہے۔ڈاکٹر نذیر احمد ملک لکھتے ہیں :
’’ اس طرح کے اختلافات کو صرف سمعیاتی تجزیے AcousiticAnalysis) )کے ذریعے ہی دور کیاجاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اردو اصوات کے تجزئیے میں جدید تر صوتیاتیتکنیک سے کام نہیں لیا گیاہے۔‘‘ ۱۱؎
اردو مصمتوں کی تعدادمسعود صاحب نے (۳۷) ظاہر کی ہے جس میں دو نیم مصوتے (ی۔و) شامل ہیں ۔اردو مصمتوں کا جو خاکہ مسعود صاحب نے مرتب کیا ہے ۔گوپی چند نارنگ کا خاکہ بھی قریباً وہی ہے البتہ بعض اصوات کے مخارج اور طرزِ ادائیگی میں مذکورہ تینوں ماہرین لسانیات کے مابین تھوڑا سا اختلاف رائے ضرور ملتا ہے۔ مثلاً گوپی چند نارنگ او ر گیان چند جین نے /ر/اور/ڑ/کو تھپک دار Flapped(وہ آواز جس کے ادا کرنے مین زبان کا اگلا حصہ سخت تالو کی طرف اُٹھ کے مرتعش ہوجائے)جب کہ مسعود صاحب /ر/کو تالیکاTrillاور/ڑ/کو تھپک دار Flapped( وہ آواز جس کے ادا کرنے میں زبان کا اگلا حصہ مُڑ جاتا ہے ااور سخت تالو کے ساتھ ایک بار مل کراس سے فوراًالگ ہوجاتا ہے) بتایا ہے۔ڈاکٹر نذیر احمد ملک Systematic Phonetics) )اصولیاتی صوتیات کا حوالہ دیتے ہوئے مسعود صاحب کی تائید کرتے ہیں ۔
صوتیاتی تحقیق میں مسعود صاحب کا تحقیقی مقالہ، جس کا ترجمہ مرزا خلیل احمد بیگ نے’’ اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزصوتیاتی مطالعہ‘‘ کے نام سے کیا ہے، اردو کے تعلق سے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔بقول مرزا خلیل احمد بیگ:
’’اس مقالے میں مسعود حسین خان نے ممتازبرطانوی ماہر لسانیات جے۔آر۔فرتھ(J.R.Firth)کے ’عروضی تجزصوتیات‘ (Prosodic Phonology)کے نظریے سے استفادہ کرتے ہوئے اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجزصوتیاتی مطالعہ پیش کیاہے۔اردو لفظ کے اس قسم کے مطالعے کی یہ پہلی کوشش تھی‘‘ ۱۲؎
مسعود صاحب نے مذکورہ مقالے کا آغاز ’لفظ‘ کی تعریف اور اس کی حد بندی سے کیا ہے۔لفظ کے وجود سے انکار ناممکن ہے۔لسانی دنیا میں ’لفظ‘ کی کوئی حتمی تعریف مشکل ہے کیونکہ ہر زبان میں تعین الفاظ کے اصول الگ الگ ہیں ۔حقیقتیں صرف وہ نہیں ہواکرتی جو ہمیں نظر آتی ہیں بلکہ وہ بھی ہوتی ہیں جن پر ہماری نظرنہیں پڑتی۔بہر حال مسعود صاحب نے بھی لفظ کی کوئی حتمی تعریف نہیں کی ہے لیکن اردو میں لفظ کی حد بندی کے اصولوں کی شناخت میں اُن کی نظر بہت دور تک جا پہنچی ہے۔ اردو میں ’’لفظی نشان گر‘‘ کے حوالے سے انہوں نے بعض اہم نتائج منظر عام پر لائے ہیں ۔مثلاًاردو لفظ کے آخر میں واقع ہونے والا مصمتہ ہمیشہ ساکن ہوتا ہے۔اس لیے اس کاشمار لفظی نشان گر کی حیثیت رکھتا ہے۔اسی طرح /ڑ/اور /ڑ ھ/ لفظ کے ابتدا میں واقع نہیں ہوتے اس لیے الفاظ کی حدبندی ان کی موجودگی سے سے اثر انداز ہوتی ہے۔/پھ/ لفظ کے آخر میں واقع نہیں ہوتا۔اس لیے اس کا شمار بھی لفظی نشان گر میں ہوتا ہے۔وغیرہ وغیرہ
صوت رکن Syllable صوتیاتی تجزئیے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔مسعود صاحب پہلے ایسے ماہر صوتیات ہیں جنہوں نے اردو الفاظ کی صوت رکنی ساختیات پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔صوت رکن کی شناخت کے سلسلے میں مسعود صاحب لکھتے ہیں :
’’صوت ارکان کی قریبی سمعی بنیاد،اضافی گونج اور امتداد ہے جس سے بول چال کے مدھم اور رواں اسلوب میں نمایاں اُتاروچڑھائو کا پتا چلتا ہے‘‘ ۱۳؎
اردو میں صوت رکن اور مصمتی خوشوں Consonantal Clustersکی وقوع پذیری۔اس ضمن میں عربی ،فارسی اور انگریزی الفاظ کے تداخل نے کیا اثرات مرتب کئے۔اس سب کا خلاصہ مسعود صاحب مثالو ں کے ساتھ بڑی خوبی سے کیا ہے۔
انفیت ،معکوسیت،ہائیت اورمسموعیت کو مسعود صاحب نے اردو کی ممیز صوتی خصوصیات میں شمار کیا ہے۔٭مسعود صاحب کے خیال میں اردو میں معکوسیت کی سب سے بڑی مقدار مشدداور دُہری شکلوں میں وقوع پذیر ہوتی ہیں ۔
اردو مصوتوں کی کمیت اس قدر اہم نہیں جس قدر ان کی کیفیت۔اس سلسلے میں مسعود صاحب نے کمیت کی عروضیات (Prosodies of Quantity)کے تحت گہر امطالعہ کیا ہے۔ان کا مانناہے کہ اردو میں مصوتوں کا طویل اور خفیف ہونا اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔
بہ حیثیت مجموعی مسعود صاحب کی صوتیاتی تحقیق اردو صوتیاتی تحقیق میں بنیادی کام کی حیثیت رکھتی ہے۔گوکہ اس کا دائرہ کار بھی تلفیظی صوتیات کے ارد گرد ہی گھومتا ہے۔
۲۔گیان چند جین(۲۰۰۷۔۱۹۲۳):
اردو میں مسعود حسین خان کے بعد جن لوگوں نے اردو صوتیات کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا اُن میں گیان چند جین کانام سرفہرست ہے۔عمومی لسانیات پر عبدالقادر سروری کی کتاب’’زبان اور علم زبان‘‘ کے بعد دوسری اہم کتاب گیان چند جین کی ’’عام لسانیات‘‘(۱۹۸۵) ہے بقول مرزاخلیل احمد بیگ:
’’اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب کافی چھان بین اور گہرے مطالعے نیزغوروفکر کے بعد لکھی گئی ہے۔اس میں لسانیات کے تمام شعبوں کی مبادیات سے بحث کی گئی ہے۔‘‘ ۱۴؎
صوتیات کے حوالے سے گیان چند جین کی کتاب ’’لسانی مطالعے‘‘(۱۹۷۳)اہم ہے۔اس میں شامل سات مضامین اردو صوتیات سے متعلق ہیں ۔جن میں اردو کے مصوتوں ،جڑواں مصوتوں ،غنائی اصوات،صوت رُکن،بَل اور زور پر بات کی گئی ہے۔علاوہ ازیں اُن کی ایک اور تصنیف ’’کھوج‘‘(۱۹۹۰) میں شامل مضمون ’’اردو کی ہکاری آوازیں اور حروف‘‘ بھی ایک عالمانہ مضمون ہے۔ وہ ہائیہ حروف کو اردو میں ثانوی درجہ دینے کے حق میں ہیں ۔
اردو کے حوالے سے اگرچہ گیان چند جین کے اکثر لسانی وصوتی نتائج مبہم رہے ہیں تاہم اُن کی محنت اور کاوشوں کے اعتراف میں کوئی کلام نہیں ۔
گوپی چند نارنگ(۱۹۳۱۔۔۔):
گوپی چند نارنگ موجودہ دور کے بین الاقوامی شہرت یافتہ نقاد ہیں ۔لسانیات و صوتیات سے انہیں گہری دلچسپی ہے۔ پروفیسر موصوف نے جدید لسانیات کی باضابطہ تربیت بیرون ممالک امریکہ کی وسکانسن اور انڈیانا یونیورسٹیوں میں دوران قیام حاصل کی۔ لسانیات کے ضمن میں اُن کی اہم پیش کش ’’اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو(۱۹۶۱) ہے۔اس کتاب میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ زبان پر دست رس حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم زبان کے مخصوص صوتی نظام،قواعد،ساخت نیز تلفظ اور محاوروں سے آشنا ہوجائیں ۔اور اس کے لیے جدید مشینوں سمعی وبصری آلات سے خاطر خواہ مددلی جاسکتی ہے۔ڈاکٹر ذاکر حسین جو کہ صدر جمہوریہ ہند رہ چکے ہیں ۔اس کتاب کے تعلق سے لکھتے ہیں :
’’کتابچہ آپ نے خوب لکھا،بہت پُرمغز۔اس بصیرت سے جو صوتیات سے حاصل ہوتی ہے۔ہمارے تعلیمی کام میں بڑی آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور مدرسوں میں اس علم سے کام لے کر طریقہء تعلیم بدلا جاسکتا ہے۔‘‘ ۱۵؎
اس موضوع پر ان کے کئی مضامین منظرِ عام پر آکر داد حاصل کرچکے ہیں ۔اردو صوتیات کے ضمن میں اُن کا اہم مضمون ’’اردو زبان کے مطالعے میں لسانیات کی اہمیت‘‘ (۱۹۶۷) اپنی مثال آپ ہے۔مضمون کے پہلے حصے میں نارنگؔ نے نوم چامسکیؔ کے نظریہ تشکیلی گرائمرTransformational Grammer کو اردو میں پہلی بار متعارف کرایا۔مضمون کے دوسرے حصے میں نارنگ صاحب نے واضح طور پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اردو میں مصوتوں کی تعداد دس ہے اور بہ ظاہر ان کے اظہار کے لیے علامتیں صرف تین ہیں ۔ اس مقالے میں نارنگ صاحب نے لسانیاتی نقطہ ء نظر سے چار اہم نکات پر بحث کی ہے۔۱۔زبان آوازوں کا مجموعہ ہے۔۲۔زبان بنیادی طور پر بول چال ہے،تحریرثانوی چیز ہے۔۳۔زبان تغیر پذیرہے۔۴۔زبان ایک نظام رکھتی ہے۔
’’ہمزہ کیوں ‘‘ (۱۹۶۸) نارنگ صاحب کا ایک مشہور مضمون ہے۔اس میں موصوف نے لسانیاتی بنیادوں پر یہ واضح کیا ہے کہ اردو میں ہمزہ محض ایک املائی نشان ہے ۔جس کا استعمال صوتی تسلسل (Vowel Sequence ( کے لیے ہوتا ہے۔
نارنگ صاحب نے دو نون کا ذکر بھی کیا ہے۔ایک دندانی دوسرا غشائی۔اردو کے صوتی مزاج کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے لسانی تجزئیے سے یہ ثابت کیا کہ اردو کے صوتی نظام میں صرف ایک نون پایا جاتا ہے جس کی حیثیت مکمل صوتیے (Phoneme)کی ہے،اور وہ دندانی نون ہے۔اور نون کی باقی تمام شکلیں اسی دندانی نون کی ذیلی شکلیں ہیں (Allophones)ہیں ۔بقول مرزا خلیل احمد بیگ:
’’لسانیاتی اور صوتیاتی اعتبار سے یہ بات صد فی صد دُرست ہے‘‘ ۱۶؎
اردو صوتیات کے حوالے سے نارنگ صاحب کے دو مضامین’’اردو آوازوں کی نئی درجہ بندی۔۔امتیازی خصوصیات کی روشنی میں ‘‘ ’’اردو مصوتوں کی نئی درجہ بندی۔۔امتیازی خصوصیات کی روشنی میں
(۱۹۷۱۔۱۹۶۸)
اردو صوتیوں (Phonemes)کی ایسی درجہ بندی پہلی بار عمل میں آئی ہے۔مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں :
’’امتیازی خصوصیات (Distinctive Features)کا یہ صوتیاتی نظریہ دبستانِ پراگ کے ایک ممتاز ماہرِ لسانیات رومن یاکوبسنؔ کا ہے۔اس نظریے کی رو سے ہر آواز یا صوتیہ(مصمتہ اور مصوتہ)چند صوتیاتی خصوصیات کا مجموعہ ہوتا ہے۔جنہیں ’’امتیازی خصوصیات‘‘ کہتے ہیں ‘‘ ۱۷؎
اردو کی تمام مصمتی اور مصوتی آوازوں کا اس نظرئیے کی روشنی میں صوتیاتی تجزیہ اور درجہ بندی یقیناً قابلِ داد عمل ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں :
’’ ڈاکٹر نارنگ نے یہ کام ۶۵۔۶۴ء میں امریکہ کی وسکانس یونیورسٹی اور انڈیانا یونیورسٹی میں کیا۔اردو میں اس قسم کا کام ڈاکٹر نارنگ نے پہلی بار پیش کیا ہے۔‘‘ ۱۸؎
شوکت سبزواری ،سہیل بخاری،ابوللیث صدیقی نے بھی اردو صوتیات پر کافی مضامین لکھے ہیں جن کی اپنی منفرد اہمیت اور افادیت ہے۔علاوہ ازیں عبدالستار دلوی ،چودھری نعیم ،مرزا خلیل احمد بیگ ، نذیر احمد ملک وغیر ہ اردو صوتیاتی مسائل پر وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں ۔ یہاں مرزا خلیل احمد بیگ کا ذکر ناگزیر ہے ۔ اردو زبان ولسانیات کو ان کی بڑی دین ہے۔ اس موضوع پر ان کی کئی تصانیف جن میں بالخصوص ’’اردو کی لسانی تشکیل(۲۰۰۰)،’’لسانی تناظر‘‘(۱۹۹۷)،اور ’’لسانی مسائل ومباحث‘‘(۲۰۱۷) منظر عام پر آکر چکی ہیں ۔یہ تصانیف مذکورہ موضوع کے حوالے سے بڑی کار آمد تصور کی جاتی ہیں ۔ نذیر احمد ملک کے حوالے سے یہاں اس بات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اُن کے قلم سے اردو لسانیات کو ابھی تک دو تصانیف ملی ہیں ’’کشمیری سرمایہ الفاظ کے سرچشمے‘‘(۱۹۹۳) اور ’’ اردو رسمِ خط۔ارتقاء اور جائزہ(۲۰۰۴)۔اول الذکر اگرچہ کشمیری صرفیات و لفظیات کا احاطہ کرتی ہے۔لیکن اردو میں لکھنے کے باعث اردو لسانیات میں اضافہ ہے اور موخرالذکر جدید لسانیاتی تناظر میں لکھی جانے والی بڑی اہم کتاب ہے جس پر موصوف کو اسٹیٹ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
قواعد:
صوتیات کے بعد لسانیات کی دوسری شق صرفیات یا مارفیمیات Morphologyہے۔تیسری شق نحو Syntax ہے۔صرف ونحو کے مجموعے کو قواعدGrammer کہتے ہیں ۔
یہ بات صحیح ہے کہ کسی زندہ زبان کو قواعد کے اصولوں میں قید نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ اعتراض روایتی قواعد پر کیا جاسکتا ہے جو کہ ہدایتی اور امتناعی ہوتی ہے۔جدید قواعد صرف اصول دریافت کرتی ہے۔ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے دھونس دبائو نہیں کرتی۔
قواعد کی کئی قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔مثلاً روایتی قواعد،توضیحی قواعد،تبادلی قواعد،تاریخی قواعد،تقابلی قواعد،تخالفی قواعد،عملی قواعد،تدریسی قواعد،حوالہ جاتی قواعد وغیرہ
روایتی قواعد Traditional Grammer))
اردو کی بیشتر قواعدیں روایتی ہی ہیں ۔ اہل یورپ کی لکھی ہوئی بیشتر اردو قواعدوں کا انداز بھی روایتی اور ہدایتی رہا ہے۔بابائے اردو مولوی عبدالحق (۱۹۶۱۔۱۸۶۹) کی ’’اردو قواعد(۱۹۱۴) کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی حالانکہ یہ بھی روایتی قواعد کے ہی زمرے میں آتی ہیں ۔ڈاکٹر عصمت جاوید لکھتے ہیں :
’’ مولوی عبدالحق کی’ قواعداردو‘اس اعتبار سے اہم ہیں کہ ان میں عربی قواعد کو نمونہ نہیں بنایا گیا ہے لیکن اب یہ قواعدیں بھی پرانی ہوچکیں اور ان میں وہ تمام کمزوریاں موجود ہیں جو ایک روایتی قواعد میں ہوسکتی ہیں ‘‘ ۱۹؎
روایتی قواعد ’حرف‘ کو بنیاد مانتی ہے۔ اور’ صوت ‘ سے صرفِ نظر کرتی ہے۔ اس کے نزدیک زبان کی مکتوبی شکل ہی اہمیت کی حامل ہے۔تقریری یا تکلمی پہلو کو وہ نظر انداز کردیتی ہے۔ بقولِ ڈاکٹر عصمت جاوید :
’’یہ دریافت کہ اصل زبان بول چال کی زبان ہے،اس کی تحریری شکل نہیں ،صدیوں کے بعد حاصل کی ہوئی کمائی ہے‘‘ ۲۰؎
۲۔توضیحی قواعد (Descriptive Grammer):
توضیحی قواعد زبان کی ساخت (Structure)کی توضیح(Description)کرکے اصول د ریافت کرتی ہے۔اس قواعد کا طریقہ کار یہ ہے کہ ماہر لسانیات متعلقہ زبان یا بولی کے بولنے والے(Native Speaker)سے رابطہ کرتا ہے۔اُسے اپنی زبان یا بولی کا مواد حاصل کرتا ہے جو نمائندہ الفاظ،فقروں اور جملوں پر مبنی ہوتا ہے۔حسبِ ضرورت لسانی مواد جمع ہونے پر اس کا تجزیہ لسانیات کی مختلف سطحوں مثلاً صوتی،صرفی،نحوی وغیرہ پرمعروضی انداز میں کرتا ہے۔اور اسی عمل سے زبان یا بولی کے اصولوں اور قاعدوں کو مرتب کرتا ہے۔جس سے توضیحی قواعد کا نام دیاجاتا ہے۔توضیحی قواعد لسانی اظہارکے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ صادر نہیں کرتی ۔اس بِنا پر اسے غیر اقداری (Non-Judgemental) قواعد بھی کہتے ہیں ۔اسے بعض ماہر لسانیات ’’بیانیہ قواعد‘‘ بھی کہتے ہیں ۔
اردو میں پہلی توضیحی قواعد عصمت جاوید نے’’نئی اردو قواعد(۱۹۸۱ء) کے نام سے لکھی ہے۔اس کے تعلق سے ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ یوں رقم طراز ہیں :
’’یہ کتاب اردو کے لسانی مزاج کی بھر پور عکاسی کرتی ہے اور اردو میں جدید لسانیات کی روشنی میں لکھی جانے والی پہلی توضیحی قواعد ہے‘‘ ۱ ۲؎
اس ضمن میں دوسرا نام پروفیسر قتدار حسین خان کی ’’اردو صرف ونحو(۱۹۸۵ء)کا ہے۔اگرچہ یہ کتاب انگریزی کے توضیحی ماڈل کو سامنے رکھ کرلکھی گئی ہے۔تاہم اردو کے حوالے سے صرف ونحو کی تمام اکائیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اور اردو کو توضیحی اور تبادلی قواعد پر ڈھالنے کی ایک اچھی کوشش ہے۔
نصیر احمد خان کی ’’اردو ساخت کے بنیادی عناصر(۲۰۰۰ء) اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔دکنی میں اردو کی توضیحی قواعد خطیب سید مصطفٰی نے(A Descriptive Grammer Of Dakhani) (۲۰۰۰) کے نام سے لکھی۔اردو قواعد کے بعض پہلووئں پر روسی اسکالروں نے بھی قابلِ قدر کام کیا ہے۔سونیا چرنیکو وا ردو کی ایک
ایسی ہی اسکالر ہیں جن کے قلم سے اردو قواعد کے تعلق سے دو کتابیں ’’اردو کے صیغے(۱۹۶۹) اور’’اردو افعال‘‘(۱۹۸۹)منظرِ عام پر آئی ہیں ۔موصوفہ کی یہ دونوں تصانیف جدید اردو قواعد میں ایک اہم اضافہ ہے۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری کی نامکمل کتاب’’اردو قواعد‘‘ روایت سے ہٹ کر جدید انداز میں لکھی جانے والی بڑی اہم کتاب ہے۔
جدیداردو قواعد پر وقتاً فوقتاً لکھنے والوں میں گوپی چند نارنگ،ابوللیث صدیقی،فرمان فتحپوری،رشید حسن خان،عبدالستار دلوی وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں ۔
تبادلی قواعدTransformational Grammer) ):
تبادلی قواعد کا دوسرا نام ’’تبادلی۔تخلیقی قواعد‘‘ (Transformational-Generative Grammer)۔اس کی ابتدا نامور امریکی ماہر ِ لسانیات نوام چامسکیNoam Chomsky))کی شہرہ آفاق کتاب Syntactic Structure))(۱۹۵۷) کی اشاعت کے بعد ہوئی۔زبان کے مطالعے کا یہ طریقہ نہ صرف زبان کی بیرونی سطح یا ساخت بلکہ زبان کی اندرونی سطح یعنی معنی کی سطح کو بھی زیرِ بحث لاتا ہے۔ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ ’’تبادلی قواعد‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ تبادلی قواعد کا ارتقا ساختی قواعد Structural Grammer))کے رَد عمل کے طورپر عمل میں آیا۔ساختی قواعد میں ،جس کی نمائندگی لیونارڈ بلوم فیلڈ(۱۹۴۹۔۱۸۸۷) کرتاہے،زبان کی ساخت یا ہیئت ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے اور ’معنی‘ (Meaning)کویکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چامسکی کی تبادلی قواعد نہ صرف زبان کیبی رونی سطح یاساخت Surface Structure))سے تعلق رکھتی ہے،بلکہ اسکی اندرونی سطح یعنی معنی کی سطحStructure)) کو بھی اپنے دائرہ بحث میں لاتی ہے۔‘‘ ۲۲؎
اردو میں تاحال تبادلی قواعد کا کوئی نمونہ منظرِ عام پر نہیں آیا ہے۔یہ بڑے تاسف کا مقام ہے کہ اس اہم مغربی نقطہ نظر کی جانب ابھی ہمارے ماہرین لسانیات اہلیت کے باوجود پوری طرح راغب نہیں ہوئے ہیں ، تاہم عصمت جاوید اور اقتدار حسین خان کی متذکرہ کتابوں میں اس سے متعلق اشارے ضرور ملتے ہیں ۔
تاریخی قواعد:کی بات کریں تو یہاں بھی صورت حال تبادلی قواعد ہی جیسی ہے۔بقول مرزا خلیل احمد بیگ:
’’اردو میں تاریخی قواعد نویسی کی روایت تقریباً ناپید ہے۔دکنی اردو کے حوالے کچھ کام ضرور ہوا ہے،لیکن وہ منتشر حالت میں ہے‘‘ ۲۳؎
یہ بات یہاں قابلِ ذکر ہے کہ مرزا خلیل احمد بیگ نے اردو زبان کی پہلی تاریخی قواعد (Urdu Grammer: History and Structure (1988) کے نام سے لکھی۔اس قواعد میں موصوف نے امیر خسروؔ (۱۳۲۵۔۱۲۵۳)سے لے کر میر تقی میر(۱۸۱۰۔۱۷۲۳) تک کی اردو کے قواعدی ڈھانچے میں ہونیوالی تبدیلیوں کا تاریخی جائزہ پیش کیا ہے۔یہ عرصہ قریباً ۶۰۰ سو سال کے عرصے کو محیط ہے۔ یقینا یہ موصوف کا اردو کے تئیں ایک قابلِ قدر کارنامہ ہے۔ لیکن اردو والوں کی سرد مہری کا اس سے بڑھ کر اور کیا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف کے بعد آج تک کسی نے اس موضوع کوچھیڑا تو کیا ادھر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ہے۔
تقابلی قواعد :(Comparative Grammer)میں ایک زبان کا دوسری زبان یا زبانوں کی قواعد سے مماثلت یا افتراق کی بنیاد پر موازنہ کیا جاتا ہے۔اردو میں ایسی قواعد محض درسی ضروریات کے پیش نظر لکھی گئی ہیں ۔مغربی ماہرین لسانیات نے زبانِ ہندوستانی،عربی اور فارسی کو بنیاد بناکر اس حوالے سے کام کیا ہے جس کی اپنی اہمیت مسلم ہے۔دیکھا جائے تو اہلِ اردو نے اس جانب بھی ابھی کوئی کارہائے کام انجام نہیں دیا ہے۔
تخالفی قواعد Contrastive Grammer)) :تخالفی قواعدمیں دو مختلف زبانوں کے درمیان صوتی ،صرفی و نحوی سطح پرپائے جانے والے اختلافات کو نمایاں کیا جاتا ہے تاکہ ثانوی زبان کی تحصیل و تدریس میں مبتدی کی مشکلات کا ازالہ کیا جاسکے۔اس جانب بھی اہلِ اردو ابھی اغماز ہی برت رہے ہیں ۔بقول مرزاخلیل احمد بیگ:
’’اردو میں لکھی ہوئی کوئی تخالفی قواعد تاحال میری نظر سے نہیں گذری ہے،البتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ) کے شعبہء لسانیات میں اس موضوع پر تحقیقی کام ضرور ہوا ہے،لیکن سارا مواد انگریزی میں ہے‘‘ ۲۴؎
عملی قواعد Practical Grammer) (:درسی ضروریات کے پیش نظر طلبہ کے لیے ترتیب دی جاتی ہے۔یہ قواعد بنیادی طور پر مشقوں (Exercises)اور عملی کاموں پر مشتمل ہوتی ہے۔جس میں زبان کی صحت نیز سارا مواد معیاری زبان سے حاصل کیا جاتا ہے۔اصطلاحیں عموماً روایتی قواعد سے ہی اخذ کی جاتی ہیں ۔اردو میں سید اشفاق حسین رمزی نے ’’عملی قواعد وانشاء‘‘ (۱۹۶۵) میں لاہور سے شائع کی۔یہاں بھی اہل یورپ ہی پیش پیش نظر آرہے ہیں ۔جن میں جیمزرابرٹ بیلن ٹائن،سر مونئیر ولیمز وغیرہ کا نام قابلِ ذکر ہیں ۔
تدریسی قواعد Pedagogical Grammer) (:میں غیر مادری یا ثانوی زبان کی تدریس کو روبہ عمل لایا جاتا ہے۔اس قواعد سے غیر اہلِ زبان (Non-native Speakers) کو زبان کی باریکیاں سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔تدریسی قواعد میں ہدایتی Prescriptive اور توضیحی Descriptive قواعد ،دونوں طریقہ کار سے مدد لی جاتی ہے۔ثانوی زبان کی حیثیت سے اردو سکھانے کے لیے جو قواعد مرتب کی گئی ہیں اُن میں اردو رسم خط کی تدریس پر بھی خاصی توجہ دی گئی ہے۔ ثانوی زبان کی حیثیت سے اردو سکھانے اور اس کے رسمِ خط کی تدریس کے لیے سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز(CIIL) ،نیشنل کونسل فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ NCERT))اور دوسری سرکاری وغیرسرکاری اور انجمنوں نے اس سلسلے میں اپنی بساط بھر کوشش ضرور کی ہے۔
حوالہ جاتی قواعد(Reference Grammer) :یہ قواعد مادری زبان بولنے والوں کے لیے بہ طور خاص لکھی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی زبان کی صرف و نحو وقواعد سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں ۔ اس حوالے سے رشید حسن خان کی ’’ زبان اور قواعد (۱۹۷۶) اور ’’انشا اور تلفظ‘‘(۱۹۹۵) اور آسی ضیائی کی تصنیف ’’دُرست اردو‘‘(۱۹۹۳)کو رکھا جاسکتا ہے۔
ماحصل:
اردو زبان میں لسانیاتی تحقیق کے گوشہ صوتیات اور قواعدکے اس مختصر جائزے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اردو میں زبان کے ان اہم گوشوں پر بھر پور توجہ کی سنجیدہ ضرورت ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ اُ رددمیں آ ج تک کی تمام تر صوتیاتی تحقیق تلفیظی صوتیات کے ارد گرد ہی گھومتی ہے۔ گویا صوتیاتی تحقیق میں ابھی اردو اپنے ابتدائی منزلوں میں ہے۔اس لیے لسانیات کی توضیحی سطح پر اردو کو جدید وسائل سے کام لینا ہوگا۔
اردو قواعد کے حو الے سے بات کی جائے اگرچہ اس موضوع پر ہمارے یہاں لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے اور برِصغیر ہندوپاک کی بقیہ زبانوں کے مقابلے میں اردو میں قواعد پر کام کی روایت خاصی قدیم بھی ہے اور جامع بھی ۔تاہم زبان کے اس اہم گوشے پر اب بھی بات کرنے کی گنجائش کافی ہے جدید لسانیات ،جس کی بنیاد خالص سائنسی مطالعے پر منحصر ہے کی روشنی میں اس حوالے سے اردو میں ابھی کام بہت کم ہوا ہے۔ قواعد کی دنیا میں آج بالخصوص توضیحی اور تبادلی قواعدکہ اہمیت مسلم ہے۔اردو میں اس حوالے سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔نوم چامسکی کی Syntactic Structureکو اردو میں بھرپور طریقے سے روشناس اور عملانے کی ضرورت ناگزیر ہے۔ تا کہ زبان کی صحیح تفہیم اور تدریس میں حائل رُکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔سائنس کا بنیادی مدعا یہی ہے کہ چیزوں کو مشکل سے آسان اور آسان تر بنانے کی کوشش کی جائے ظاہر ہے زبان کی سائنس اس ذمہ داری سے خود کو دستبردار نہیں کرسکتی۔ ضرورت آشنائی کی ہے جس کے لئے اہلِ اردو کو سنجیدگی سے پہل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جدید لسانیاتی رُجحانات کے پیش نظر تقابلی لسانیات،تشریحی لسانیات،تجزیاتی اور اطلاقی لسانیات پراردو میں خاطر خواہ کام ہواہے۔ تاریخی لسانیات کے حوالے سے بھی اردو کی صورت حال تسلی بخش ہے تاہم بعض اہم لسانی گوشے جن پر اردو لسانی ماہرین کو سخت توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جن گوشوں پر کام کرنے کے بے انتہا امکانات روشن ہیں ۔ اُن میں ،تدریس و تحصیل ِ زبان،بالخصوص غیر ملکی زبان،اسلوبیات،لغت نویسی،ترجمہ، اور زبان کا کمپیوٹر میں استعمال وغیرہ شامل ہیں بقول درخشاں زریں :
’’ہمارے یہاں فی الوقت اردو لسانیات کے شعبے میں ریاضیات اور کمپیوٹر پر ریسرچ کرنے میں عطش درانی جیسے کتنے ہیں جنہوں نے اس جانب توجہ کی ہیں ؟‘‘ ۲۵؎
آئے روز لسانی دنیا میں نِت نئے تجربے ہورہے ہیں ۔امریکہ اور یورپی ممالک میں اس علم نے کافی ترقی کی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اردو زبان ان دنوں سُرعت سے بین الاقوامی سطح پر اپنی گرفت مضبوط کررہی ہے۔برِصغیر ہندوپاک میں آج بھی بحیثیت لنگوا فرنیکا اردو کی ہی طوطی بول رہی ہے۔لیکن اس شان اور دبدبے کو قائم رکھنے کے لیے اردو زبان کو بہرصورت مذکورہ پہلوئوں پر دھیان دینا ہوگا ۔اس ضمن میں اردو ماہرین لسانیات پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ لسانی دنیا میں جدید نظریات اور تجربوں سے سرِدست روشناس ہوجائیں ۔بعد ازاں ان نظریات کو متعارف کراکے اردو میں عملی طور ان کا اطلاق کرائیں ۔ تب ہی ممکن ہے کہ آج اردو زبان سائنس وتیکنالوجی کے اس انقلاب آمیز دور میں ترقی کے منازل سے ہم کنار ہوجائے۔
حوالے:
۱۔عام لسانیات۔۔گیان چند جین۔۔۔۔۔(۲۰۰۳)(ص۔۱۷ ) قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی
۲۔عام لسانیات۔گیان چند جین۔(۲۰۰۳)(ص۔۱۷ ) قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی
۳۔اردو زبان ولسانیات۔ (۲۰۰۶) ص(۲۸۵)۔رام پور رضا لائبریری
۴۔ (لسانی مطالعے۱۹۹۱) ص۔۲۰۸۔ترقی اردو بیورو نئی دہلی
۵۔ (لسانی مطالعے۱۹۹۱) ص۔۲۰۸۔ترقی اردو بیورو نئی دہلی
۶۔ (لسانی مطالعے) (ص ۲۰۹)ترقی اردو بیورو نئی دہلی
۷۔اردو لسانیات کی تاریخ‘‘(۲۰۱۰) ص۔۱۴۵ ایجوکیشن پبلشنگ ہاوس دہلی
۸۔لسانی تناظر(۱۹۹۷) :ص(۶۷)باہری پبلیکیشنز نئی دہلی
۹۔ اردو لسانیات کی تاریخ (ص :۱۴۸ ) ایجوکیشن پبلشنگ ہاوس دہلی
۱۰۔’’پروفیسر مسعود حسین خان کی صوتیاتی تحقیق ‘‘مشمولہ (نذرِمسعود ۱۹۹۰ ص۔۲۲۹)۔۔۔بیکن بکس ملتان شرکت پرنٹنگ پریس نسبت روڑ لاہور۔
۱۱۔’’پروفیسر مسعود حسین خان کی صوتیاتی تحقیق ‘‘مشمولہ (نذرِمسعود ۱۹۹۰ ص۔۲۲۹)۔۔۔بیکن بکس ملتان شرکت پرنٹنگ پریس نسبت روڑ لاہور۔
۱۲۔لسانی مسائل ومباحث (ص۔۲۰۰ )ایجوکیشن پبلشنگ ہاوس دہلی
۱۳۔ بحوالہ ’’پروفیسر مسعود حسین خان کی صوتیاتی تحقیق‘‘ از ڈاکٹر نذیر احمد ملک مشمولہ ’’نذر مسعود‘‘ ص۔۲۳۳
۱۴۔لسانی تناظر۔(۱۹۹۷) (صْ۶۹)۔باہری پبلیکیشنز نئی دہلی
۱۵۔بہ حوالہ۔۔گوپی چند نارنگ (حیات وخدمات)۔۔از ڈاکٹر محمد حامد علی خان (۱۹۹۵)۔ایجوکیشن پبلشنگ ہاوس علی گڑھ
۱۶۔پیش لفظ۔۔اردو زبان و لسانیات(۲۰۰۶)۔۔گوپی چند نارنگ۔۔رام پور رضا لائبریری
۱۷۔پیش لفظ۔۔اردو زبان و لسانیات(۲۰۰۶)۔۔گوپی چند نارنگ۔۔رام پور رضا لائبریری
۱۸۔’’کھوج‘‘(۱۹۹۰)۔(ص ۳۶۷)۔ایجوکیشن پبلشنگ ہاوس علی گڑھ
۱۹۔ ( نئی اردو قواعد) (۱۹۸۱)(ص۔۱۳) ترقی اردو بیورو نئی دہلی
۲۰۔ ( نئی اردو قواعد)(۱۹۸۱)(ص۔۱۴)ترقی اردو بیورو نئی دہلی
۲۱۔’’لسانی تناظر‘‘ (۱۹۹۷)(ص۔۷۳)۔باہری پبلیکیشنز نئی دہلی
۲۲۔لسانی مسائل ومباحث(ص۔۱۴۰)(۲۰۱۷) ایجوکیشن پبلشنگ ہاوس دہلی
۲۳۔(لسانی مسائل ومباحث) (ص۔۱۴۴)ایجوکیشن پبلشنگ ہاوس دہلی
۲۴۔لسانی مسائل ومباحث(۲۰۱۷) (ص۔۱۴۷)ایجوکیشن پبلشنگ ہاوس دہلی
۲۵۔اردو لسانیات کی تاریخ(تحقیق و تنقید)(۲۰۱۰) ص:(۲۶۳۔۲۶۲)۔۔ایجوکیشنل ہاوس دہلی
٭٭٭
ڈاکٹر محمد حسین
صدر شعبہ اردو گورئمنٹ ڈگری کالج پلوامہ، جموں وکشمیر
drhussain35@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!