کلامِ سُرورؔ جہان آبادی میں تذکرۂ خواتین
منشی درگاسہائے سرورؔ جہان آبادی کاشمار ہمہ جہت شاعروں میں ہوتاہے۔ انہوں نے متعدد شعری اصناف کے حوالے سے پُر تاثیر انداز میں اپنے قلبی احساسات وجذبات کا اظہار کرکے اردو کے دامن کو وسیع کرنے کی کوشش کی، جس کے ثبوت میں اُن کی وہ تمام شعری تخلیقات پیش کی جاسکتی ہیں جو اُن کے مختلف شعری مجموعوں اور انتخابات میں شامل ہیں۔ سرور کامرتبہ اس لئے بھی وقیع ہے کہ انہوں نے جب میدانِ شاعری میں غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ ،نوحہ، رباعی اور قطعہ وغیرہ کی صورت میں جو ادب تخلیق کیا اُس میں انفرادیت موجود ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہیں بہ حیثیت نظم نگار زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ اُن کی رومانی، عشقیہ، فطری، قومی ووطنی اور اصلاحی نظمیں بلا کی تاثیر رکھتی ہیں۔
سرورؔ کو ہندوستانی تہذیب ،تمدن، ثقافت اور اخلاقی روایت پر بے حد فخر وناز تھا۔ انہوں نے خواتین کو ہمیشہ قدر وقیمت کی نگاہوں سے دیکھا۔ اکثر اُن کی نظموں کا مطالعہ کرتے وقت ایسا محسوس ہوتاہے کہ انہیں ’’ماترشکتی‘‘سے گہری عقیدت ہے، اسی لئے انہوں نے خواتین سے متعلق بعض ایسی لاجواب اور بے مثال منظومات تخلیق کیں جو خواتین سے متعلق ادب، احترام اور عقیدت جیسے صاف ستھرے جذبات سے سرشار ہیں۔ گوکہ اس قبیل کی منظومات سبھی مجموعوں اور انتخابات میں موجود ہیں لیکن ’’نوائے سرورؔ‘‘ میں مذکورہ جذبات وموضوعات کی فراوانی ہے ۔ اس مجموعۂ کلام کی چند مشہور مقبول منظومات میں ’’نورجہاں کے مزارپر‘‘ ، ’’زن، خوش خو‘‘ ، ’’ ایک حسینہ اور جگنو ‘‘ ، ’’پدمنی‘‘، ’’سیتاجی کی گریہ وزاری‘‘ ، ’’روٹھی رانی‘‘ ، ’’اُجڑی ہوئی دلہن‘‘ ، ’’ لکشمی جی‘‘ ، ’’ ستی‘‘ اور ’’صدائے شرم‘‘ جیسی منظومات شامل ہیں جن کے مطالعے ومشاہدے سے یہ رمز فاش ہوتا ہے کہ خواتین سے متعلق اُن سے قبل اور اُن کے معاصر شعراء نے اس طرف ویسی توجہ صرف نہیں کی جیسی مثال سُرورؔ نے پیش کرتے ہوئے سبقت حاصل کی۔ سُرورؔ نے اپنی متذکرہ منظومات میں ہندوستان کی آدرش ناری یعنی مثالی خواتین کاجوروپ پیش کیا اُس سے متاثرہوکر پروفیسر حکم چند نیّر رقم طراز ہیں :
’’سُرورؔ کو عورتوں کے جذبات واحساسات کی ترجمانی کرنے پر پوری قدرت حاصل تھی۔ اُن کامشاہدہ اور نفسیاتی مطالعہ بہت وسیع تھا۔ اُن کے یہاں عورت کے جذبات اور احساسات کی دل نوازتصویریں اور گوناگوں تفسیریں ملتی ہیں۔ اُن کے یہاں عورت روایتی تصورات کے تحت صرف جنسی خواہشات کامجسمہ یا ایک مقدس دیوی بن کر سامنے نہیں آتی۔ وہ ایک ماں، ایک بیوی، ایک مظلومہ اور ستم رسیدہ اور سب سے بڑھ کر ایک عورت کے روپ میں سامنے آتی ہے ۔‘‘
پروفیسر نیّر کے مذکورہ بیانات کی وضاحت میں سُرورؔ کی نمائند تخلیقات سے اگرچہ متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن یہاں ایک بہترین مثال پر اکتفا کیاجارہاہے، یعنی :
تیرا دیو استھان دیوی دل کے کاشانے میں ہے ٭ تیری تصویرِ مقدّس ہر صنم خانے میں ہے
لکشمی تو ہے زمانے میں اُجالا تیرا ٭ ہر کنول کا پھول پانی میں شوالہ ہے تیرا
سرسوتی کا روپ ہے، دُرگا کی ہے اوتار تو ٭ نطق ودانش کی ہے دیوی مادرِ غمخوار تو
اُف یہ سندر چھب تیری، یہ سانوری صورت تیری
دل کے مندر کی ہے زینت موہنی مورت تیری
یہ اشعار نظم’’مادرِ ہند‘‘سے ماخوذ ہیں ۔
اس کے علاوہ سرورؔ جب اپنی نظم بعنوان ’’گنگا‘‘میں گنگاندی کا ذکرکرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ صنفِ نازک کی شان میں قصیدہ پڑھ رہے ہوں، دراصل یہ رومانی انداز کسی عورت کے حسن وجمال اور رعنائی و زیبائی کی مثال معلوم ہوتا ہے :
اُو پاک باز نازنین، اُو پھولوں کے گہنے والی
اُو عفتِ مسجم پربت کی رہنے والی
صلِ علیٰ یہ تیری موجوں کا گنگنانا
وحدت کا یہ ترانہ، او چپ نہ رہنے والے
حسنِ غیور تیرا ہے بے نیازِ ہستی
تو بحرِ معرفت ہے، اُو پاک باز ہستی
کہاجاتاہے کہ سُرورؔوہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اپنے محبوب کو عورت کے روپ میں پیش کیا ہے ورنہ فارسی کی تقلیدی اور روایتی شاعری سے متاثر شعرائے اردو نے اپنے محبوب کو مرد کی صورت میں تصور کرکے مخاطب کیا ہے۔ لیکن سرورؔ نے اس تقلید وروایت سے انحراف کرتے ہوئے عورت کو عورت کی صورت ہی میں پیش کیا ۔ اِ س بابت پروفیسر حکم چند نیّر کا یہ بیان بے حد متوازن اور برمحل معلوم ہوتا ہے کہ :
’’سُرورؔ نے حسن اور لوازماتِ حسن کا بھرپور مشاہدہ کیاہے اور عورت کے جسم وجمال، رنگ وروپ اور آرائش وزیبائش کو جس طرح دیکھا ہے، بے کم وکاست تصویر میں پیش کر دیاہے، یہ عورت ہندوستان میں پیدا ہوئی ہے ، یہیں پلی اور بڑھی ہے ، اس کے لوازماتِ حسن میں چوڑیاں ہیں، نورَتن ہیں، مانگ کی افشاں ہے جوتاروں بھری انجمن کا سماں دکھاتی ہے ۔ مشرقی عورت شرم وحیا سے آراستہ ہے ۔ یہ خلوص وصداقت اور ایثار و قربانی کاپتلا ہے اور یقینا بے باک عشوہ طراز اور اوباش جامن والیوں، مالنوں ، مہترانیوں او رجنگل کی شہزادیوں سے افضل ہے۔ یہ حسن وجمال لطافت وجوانی کامجسمہ ہے جس کے آگے فرشتے بھی سربسجود ہوجاتے ہیں۔ مادّی حسن کی جس قدر مکمل تصویریں سرورؔ نے پیش کی ہیں، کسی نے آج تک نہیں پیش کیں۔‘‘
پروفیسر گوپی چندنارنگ اپنے مضمون بعنوان ’’درگاسہائے سرورؔ اور عروسِ حبِّ وطن‘‘میں کلام سرورؔ میں صنفِ نازک سے متعلق سرگرمِ عمل موضوعات وتخیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’عورت کے حسن کے کئی روپ ہیں۔ قدیم آریائی ذہن نے عورت کی مختلف شاخوں یعنی بیوی، بیٹی، بہن، ماں، محبوب وغیرہ پر بیک وقت بھی نظرڈالی ہے ۔ اورجنس کے تصور کی طرح طرح سے تقدیس اور تطہیربھی کی ہے ۔ دورِ حاضر میں فراقؔ گورکھپوری کے ہاں عورت کے اس جامع تصور کی کارفرمائی ہے ۔ فراقؔ نے اس تصور کو اپنانے کی شعوری کوشش کی ہے ۔ جبکہ سرورؔ کے ہاں وطن کے ہمہ پہلو جسمانی تصور کاسوتا ان کی ذاتی محرومی اور نارسائی کے احساس سے پھوٹتا ہے اور غیر شعوری طورپر جنس کی جمال آفرینی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔ اُن کی نظم عروس حب وطن کے یہ اشعار دیکھئے۔ ان میں کسی مست شباب دوشیزہ سے شبِ وصال منانے، اس کو گلے لگانے اور اس کی زلف مشک بو سے کھیلنے کی کیسی کیسی تمنائیں مچل رہی ہیں۔ نظم کااندازِ بیان وہی محبوب سے خطاب کاہے۔ جو سرورؔ کو سب سے زیادہ مرغوب تھا۔
آ اے نگار تجھ کو گلے سے لگائوں میں
آ، مجھ سے ہمکنار ہوالے شوخِ خوش گلو
وہ دن خدا کرے کہ منائوں شبِ وصال
گردن ہو تیری اور مرا دستِ آرزو
زانو ہو تیرا اور سر شوریدہ ہو مرا
میرا مشامِ جاں ہو تری زلفِ مشکبو
تیری شرابِ عشق کا آنکھوں میں ہو سرور
خلوت میں ہو نہ ذکر مے و شیشہ و سبو
لپٹوں میں بیخودی میں جو تجھ سے شبِ وصال
بانہیں ترے گلے میں ہوں لب پر یہ گفتگو ‘‘
پروفیسر حکم چند نیّر اور پروفیسر گوپی چند نارنگ کے مذکورہ بیانات کی وضاحت وصراحت کے لئے ضروری معلوم ہورہا ہے کہ کلام سرورؔ سے مزید مثالیں پیش کی جائیں :
الجھے الجھے بال، مستانہ ادا، متوالی چالیں
تیکھی چِتون، گورے گورے گال چھوٹا سا دہن
ننھی ننھی انگلیاں، پتلی کمر، بوٹا سا قد
اس میں سونے پر سہاگہ جامہ زیبی کی پھبن
گوری گوری ساق، سیمیں پیاری پیاری ایڑیاں
قد چھریرا، جسم سانچے میں ڈھلا، نازک بدن
چھوٹے چھوٹے دانت کلیاں موتیوں کی خوش نما
پتلے پتلے نرم ونازک ہونٹ برگِ ساسمن
گورے گورے ہاتھ میں تھیں دھانی دھانی چوڑیاں
پیارے پیارے بازوئوں میں ہلکے ہلکے نورتن
یہ لبِ رنگیں میں مِسّی کی اداحت کے نشاں
اُودے اُودے فالسوں کا تھا شگفتہ اک چمن
رخ کے افشاں کا عجب عالم تغیر خیز تھا
دن میں آتی تھی نظر تاروں بھری اک انجمن
بھینی بھینی بس میں آتی تھی تنِ نازک کی بو
صانعِ قدرت نے صندل کا بنایا تھا بدن
اردو شاعری میں سراپا نگاری کی متعدد مثالیں مل جاتی ہیں، لیکن سرورؔ جیسا دلکش انداز انوکھے پن کی بہترین نظیر بہ مشکل ہی ملتی ہیں۔ سرورؔ جب کسی فطری منظر کاذکرکرتے ہیں تو وہاں بھی صنفِ نازک کسی نہ کسی روپ میں جلوہ نماہوتی ہے، جیسے :
وہ فتحِ آب، وہ موجیں، وہ جوشِ طغیانی
وہ آبشار، وہ جھرنے، وہ خوش نما پانی
وہ آفتاب کی کرنوں کی جلوہ افشانی
وہ طائرانِ گلشان کی زمزمہ خوانی
پری وِشوں کا وہ پنگھٹ پہ جوق جوق آنا
سُبو و دوش پہ، پانی کو بھر کے لے جانا
نظموں میں شمار ہوتی ہے ۔ اس نظم میں انہوں نے ہندوستان کی مثالی خاتون یعنی آدرش ناری کا روپ دکھایاہے۔ اس نظم کا ایک ایک شعر تاثیرمیں ڈوبا ہوامعلوم ہوتا ہے۔مثلا ً :
ہمراہ اپنے ساتھ مجھے ناتھ لے چلو
ریکھا تمہارے قدموں کی ہوں ساتھ لے چلو
نازک ہے میرا شیشۂ دل ٹوٹ جائے گا
چھوٹا تمہارا ساتھ تو جی چھوٹ جائے گا
قسمت نے جب سے باپ کے گھر سے جدا کیا
سوامی مجھے نہ تم نے نظر سے جدا کیا
گھر میں جو چھوڑ جائوگے سیتا غریب کو
پائوگے ون سے آکے نہ جیتا غریب کو
شوہر بغیر قابلِ بیجا ہے آہ زن
شمعِ خموش خانۂ ویراں ہے آہ زن
کرپا وِدھان مجھ کو نہ دو دکھ وِیوگ کا
پرانوں کے پران مجھ کو نہ دو دکھ وِیوگ کا
اسی طرح ہندوستانی آدرش ناری کاایک اور روپ اُن کی مشہور نظم ’’سوزِ بیوگی‘‘ میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے، یعنی :
عجب رقت بھری اے چارہ گر ہے داستاں میری
جگر میں چٹکیاں لیتی ہے رہ رہ کر فُغاں میری
پسند آئی نہ آرائش تجھے او آسماں میری
اتاری بندیاں بے درد توڑی چوڑیاں میری
فلک نے چھین لیں مجھ سے شہابی چُنریاں میری
پہنتی سرخ جوڑا ایسی قسمت تھی کہاں میری
بہا جاتا ہے دل آنکھوں سے خونِ آرزو ہوکر
یہ رونا ہے رہے گی بیکسی یارب کہاں میری
’’نورجہاں کامزار‘‘ سرورؔ کی طویل نظموں میں شامل ہوتی ہے ۔ گوکہ یہ نظم ۱۴۴ اشعار پر مشتمل ہے لیکن وحدتِ تاثر میں کسی طرح کا خلا یاتعطل محسوس نہیں ہوتا۔ زبان وبیان اور عمدہ تشبیہات واستعارات نے اس نظم کو جوتاثیربخشی اُس کے پیشِ نظرسرورؔ کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ واضح ہوکہ یہ نظم سرورؔ نے ایسے وقت لکھی تھی جب علامہ اقبالؔ جیسے عظیم شاعر کاڈنکا بج رہاتھا، چنانچہ علامہ کا کوئی معاصر اس قسم کی تخلیق کو پایۂ تکمیل پر پہنچائے یہ بھی ایک قسم کا اعزاز ہے ۔ اس نظم سے چند اشعار بطورِ ملاحظہ فرمائیں :
نور بن بن کر برستی ہے در و دیوار سے
کس کے جلوے کی تجلی، کس کے پرتو کی ضیا
کس کا شانہ صبح کو اٹھ کر ہلاتی ہے نسیم
گدگداتی ہے کسے آہستہ آہستہ صبا
سو رہی ہے کون، رکھ کر بالشِ سیمیں پہ سر
محوِ خوابِ ناز ہے یہ کس کی چشمِ نیم وا
پڑ گئی کس نازنیں کے حسن کے پھولوں پر اوس
کس پری تمثال کا بوٹا سا قد کمہلا گیا
کس کے غم میں بھر رہی ہے ٹھنڈی سانسیں بادِ سرد
کس کا شیون کر رہے ہیں آہ مرغانِ ہوا
کس پری وش نازنیں کا عنبر افشاں ہے کفن
بھینی بھینی کس کے بالوں کی مہک سے ہے ہوا
’’پدمنی‘‘ ایک ایسا تاریخی کردار ہے جس پر قریب قریب ہر زبان میں شعری تخلیقات وجو دمیں آتی رہی ہیں۔ ہر شاعر کے سوچنے کا ڈھنگ اور طریقہ الگ الگ ہے۔ سرورؔ نے بھی پدمنی کے کردار کے تقدس کے پیش نظر اپنے طو ر پر انفرادی رنگ وآہنگ کے ساتھ نظم تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اُن کے اکثرناقدین نے اس نظم کی بھی دل کھول کر تعریف کی ہے ۔ دراصل یہ نظم ہے ہی ایسی کہ کوئی متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ذیل میں اس نظم کے چند اشعار نمونتاً پیش خدمت ہیں :
تیری فطرت میں مروّت بھی تھی غمخواری بھی
تیری صورت میں ادا بھی تھی طرحداری بھی
جلوۂ حسن میں شامل تھی نکو کاری بھی
درد آیا تیرے حصے میں ، تو خود داری بھی
آگ پر بھی نہ تجھے آہ مچلتے دیکھا
تپشِ حسن کو پہلو نہ بدلتے دیکھا
تو وہ عصمت کی تھی او آئینہ سیما تصویر
حسنِ سیرت سے تھی تیری متجلّا تصویر
لاکھ تصویروں سے تھی اک تری زیبا تصویر
تجھ کو قدرت نے بنایا تھا سراپا تصویر
نور ہی نور تیرے جلوۂ مستور میں تھا
انجمِ ناز کا جھرمٹ رخِ پُر نور میں تھا
یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ اپنی مرحومہ بیوی کی یاد میں حد درجہ مئے نوشی کرنے او رنہایت تنگ دستی اور عسرت کی زندگی گذارنے والے سرورؔ جہان آبادی نے اپنے دماغی توازن کو برقرار رکھ کر سرگرمِ عمل شاعر کی حیثیت سے خواتین کے متعلق تاریخی نوعیت کی ایسی منظومات تخلیق کیں جو ادبی لحاظ سے بھی مثالی تخلیقات کا ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں۔ گوکہ ان کے مجموعہ ہائے کلام ’’جامِ سرورؔ‘‘ ، ’’ خمخانۂ سرورؔ‘‘ اور ’’خمکدۂ سرورؔ‘‘ میں اس قبیل کی نظمیں موجود ہیں لیکن پروفیسر حکم چند نیّر نے سرورؔ کا مجموعہ ’’نوائے سرورؔ‘‘ مرتب کرکے شائع کرایا تو ایسی تمام منظومات کو ترجیح دی۔ دراصل یہ اور اسی نوعیت کی منظومات سرورؔ شناسی میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہیں۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!