کشمیر میں مخطوطات کی صورت حال
کسی قوم یا ملک کی تہذیب ، تمدن ، معاشرت، معیشیت، رہن سہن ، ثقافت ، رسم ورواج ، سیاسی یا سماجی تغیرات ، عروج وزوال، مذہب اور زباں وادب کے بارے میں معلومات حاصل کرکے تاریخ مرتب کرنے کے لئے بالعموم تین قسم کے ماخذون سے مدد حاصل کی جاتی ہے:
(۱) آثارِ مضبوطہ(۲) آثارِ منقولہ (۳) آثارِ قدیمہ
آثارِ مضبوطہ سے مراد تمام لکھی ہوئی چیزیں ہیں۔ جنہیں عرف عام میں قلمی مسودات یا مخطوطات کہتے ہیں۔ مثلاً کتابیں ، یاداشتیں، دفتروں کے کاغذ، حکمنامے ، حکمرانوں کے فرمان، پروانے ، فیصلے اور دیگر دستاویزات ، سفر نامے وغیرہ۔
آثارِ منقولہ سے مراد ہے زبان زد عام باتیں مثلاً کہانیاں، نظمیں، ضرب الامثال وغیرہ ۔
آثارِ قدیمہ سے مراد ہیں پرانے زمانے کی نشانیاں مثلاً شہروں کے کھنڈرات قلعے، مکانات، عمارتوں کے کتبے ، پتھروں کی تصویریں، پرانے زمانے کے ہتھیار ، سکے ، برتن وغیرہ ۔
ہماری ریاست جموں وکشمیر کرۂ ارض پر ایک ایسا خطہ ہے جس کی چھ ہزار سالہ تاریخ موجود ہے۔ اس نے ایسے مورخوں اور قلم کاروں کو جنم دیاہے جنہوں نے اس کی تاریخ کو پابندہ اور تابندہ بنا دیا ہے ۔ بارہویں صدی عیسوی میں سرزمین کشمیر نے مور خ کلہنؔ کو پیدا کیا جس نے ’’راج ترنگنی‘‘ تصنیف کرکے تاریخ نویسی میں نام پیدا کیا ۔ شری ور، سوکھہ پنڈت اور جون راج نے اس سلسلے کو جاری رکھا ۔ مسلم مورخین نے اس فن کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اور بھی وسعت بخشی سید علی ، ملک حیدر ، محمد اعظم دیدہ مری اور پیر حسن شاہ کھیوہامی ایسے نامور مؤرخ گذرے ہیں جنہوں نے کشمیر کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی تاریخ کو صفحۂ قرطاس پر لایا ہے ۔ آج بھی کشمیر میں تاریخی ،ادبی ، مذہبی اور طبی علوم پر مشتمل قلمی نسخے اور مسودات بکھرے پڑے ہیں۔ جن کا کوئی پرساں حال نہیں ، عزیز اللہ حقانی نے ’’تاریخ عالم اسلام‘‘ تیرہ سالہ محنت شاقہ سے تحریر کی ہے اور گیارہ جلدوں پر مشتمل یہ مسودہ مرتب ہونے کو ترستا ہے ۔ کلچرل اکیڈمی ،محکمہ آثار قدیمہ اور کشمیر یونیورسٹی کے علاوہ دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ ، میراث محل سوپور اور باب العلم لائبریری بڈگام میں ان کا کچھ حصہ محفوظ کیا ہواہے ، مگر بیشتر حصہ کشمیر کے کونے کونے میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ ان مخطوطات کو محفوظ ومامون کرنے کی جس قدر ضرورت ہے اس قدر عدمِ توجہی اور لاپرواہی کاشکار ہیں۔ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو قوم اسلاف کے اس قیمتی اثاثے سے محروم ہوگی اور ساری آنے والی نسلیں ہمارے بے حسی پر کف افسوس ملتی رہیں گی ۔ پچھلے بیس پچیس برسوں کی افراتفری اور نامساعد حالات میں ہزاروں گھر اُجڑ ے سینکڑوں بستیاں خاکستر ہوگئیں، جن میں یہ گرانقدر سرمایہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معدوم ہوگیا۔ ناگہانی آفات زلزلوں اور سیلابوں کی تباہ کاری نے اس کا کچھ حصہ ڈھادیا ۔ ان کی اہمیت اورافادیت سے نا آشنا بھی کوڑا کرکٹ سمجھ کر دریا بُرد یا زیرِ زمین کیا ہے یاردّی کاغذات کے ساتھ کباڑیوں کو دُھمڑی کے باؤ بیچا ہے۔ جہاں کہیں اب بھی موجود ہے مکانوں کے چھتوں کے کھمبوں کے ساتھ کسی پرانے چمڑے یا موم جام کے ٹھیلے میں دم توڑ رہاہے یا پھر بالکونیوں میں تتربتر گردو غبار چاٹ رہاہے۔ بند لکڑی کے پرانے صندوقوں اور الماریوں میں کرمِ کتابی کی غذا بن رہاہے ۔ امتداد ِزمانہ اور دوسری بے احتیاطوں کے نتیجے میں سڑ رہاہے ۔ جہاں تک میرے مشاہدے کا تعلق ہے اب بھی کچھ لوگوں نے اسلاف کے اس تر کے کوتبرکاً سنبھال کے رکھ دیا ہے اور ایسے بھی گھرانے ہیں جنہیں ان کی افادیت اور اہمیت کا احساس ہے اور انہیں گوہر نایاب سمجھ کر محفوظ کئے ہوئے ہیں۔ دینی ، ثقافتی ، تاریخ ، ادبی وعلمی مسودات ہزاروں کی تعداد میں اب بھی محفوظ کرنے کی حالت میں موجود ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ متعلق ادارے اور علمی وادبی حلقے ان کی افادیت کو اُجاگر کرنے کے لئے عوام میں باقاعدہ مہم چلائیں اور ان کو محفوظ کرنے کے لئے ضروری اقدام کریں۔
اب تک جن مسودات کو میرے والد ِمرحوم ۱؎کو ؔ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ان میں اکثر دینی علوم ، قرآن ، تجوید، قرأت ، صرف ونحو، حدیث ، اُصول حدیث، فقہ منطیق، کلام اور وظائف ، طب، فلسفہ تصوف ، عملیات وعلم الکواکب سے متعلق ہیں۔ یہ عام طورپر اُن گھرانوں میں ہیں جن کے اسلاف کئی کئی پشتوں سے پیشِ نماز رہے ہیں یا قضاء وافتاء یا حکمت طبابت سے منسلک رہے ہیں۔ یہ چونکہ ان بستیوں میں روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ جسمانی علاج ومعالجہ بھی کرتے تھے اور درس وتدریس سے بھی وابستہ تھے ۔ اس لئے ان کے پاس ہر طرح کے علمی سرمائے کو اکٹھا کرنے کی تڑپ ہوتی تھی۔ کچھ لوگ خود بھی کتابت کرتے تھے اور کچھ کاتبوں سے ان کی خرید کرتے تھے ۔
بارہویں صدی تک کے قلمی نسخے ہاتھ سے بنائے ہوئے دیسی کاغذ پر ہیں۔ یہ کام سفیدی مائل موٹا اور کھر درا ہوتاہے ۔ اس کاغذ کی بناوٹ میں کوئی ایسی کیمیائی ملاوٹ ہوتی ہے جس کو نہ کرمِ کتابی ہی نقصان پہنچا سکتا ہے نہ امتدادِ زمانہ ، مگر شاید یہ کیمیا قیمتی ہونے کی وجہ سے خاص خاص ہی استعمال ہوئی ہے ۔ بارہویں صدی کے اس قسم کے کاغذ کے علاوہ مشینی کاغذ کا بھی استعمال ہوا ہے۔ سفید ، رُولدار کاغذ کے علاوہ سبز ، نیلے رنگ کے حریری کاغذ بھی کام میں لائے گئے ہیں۔ کئی مسودات کے سرورق اورصفحات کے حاشیئے دیدہ زیب نقوش اور گلکاری سے مزین ہیں۔ اکثر قرآنی نسخوں، پنچ سوروں، دلائل الخیرات، کبریت احمر وغیرہ وظائف کے ابتدائی ، درمیانی اور آخری دو دو صفحات کے ُاوپری حصوں اور حاشیوں پر سنہری روپیلی، زعفرانی روشنائی سے بنائے ہوئے نقش ونگار اور گُلکاری کا تبوں کی فنکارانہ مہارت اور جمالیاتی ذوق کے عکاسی کرتی ہے ۔ سینکڑوں صفحات پر مشتمل مسودات میں کہیں کراس اور قطع وبرید کانہ ملنا ان کے فنی کمال کے آنکھوں کو خیرہ کرنے والا مظہر ہے ، طرہ یہ کہ اکثر کاتبوں نے اپنا نام بھی ظاہر نہیں کیاہے اور اپنے لئے اپنے والدین اور پڑھنے والوں کے لئے مغفرت کی دعا پر اکتفا کیاہے ۔ایسے بھی نسخے ہیں جن کے آخری صفحہ پرکاتب ، مصنف یا مؤلف کے نام کے علاوہ سنہ کتابت بھی لکھا ہوا ملتاہے۔
اگرچہ میرے والدِ مرحوم کی نظروں سے سینکڑوں دل لُبھانے والے نسخے گذرے ہیں۔ مگر اوڑی کے دور افتادہ گاؤں سلام آباد (جو ایک وانچی پہاڑی پر واقع ہے) انہیں بکھرے اوراق میں ایک ایسا قرآنی نسخہ نظر نواز ہواہے جس نے میرے والدِ مرحوم کے قلب وذہن کو مسحور کردیا ۔ راقم کو بھی بھی اس نسخے کا دیدار نصیب ہوا۔لگتا ہے کہ یہ نسخہ بہت پرانا ہے اور کسی ہنر مند مشاق کاتب کے ہاتھوں تحریر ہوا ہے ۔ اس میں دیسی کاغذ کااستعمال ہوا ہے ۔ جس میں کسی مخصوص کیمیکل کی آویزش ہے ۔ جس نے اسے امتدادِ زمانہ سے قدرتی طورپر ہونے والی رطوبت سے خراب ہونے اور کرمِ کتابی کی غذا بننے سے محفوظ رکھا ہے ۔ اس دل کش نسخے کے بکھرے اوراق کو ترتیب میں لانے میں میرے والدِ مرحوم کو تقریباً ایک ہفتے کی عرق ریزی کے بعد کامیابی ملی۔ یہ نسخہ۳۸۵ اوراق پر مشتمل ہے اور(۲۳×۱۴ )سینٹی میٹر سائز کاہے ۔ اس کے ابتدائی ، درمیانی اور آخری دو دو صفحات کے اوپر حصے محرابی نقوش اور حاشیے دل کش اور خوبصورت گل کاری سے مزّین ہیں۔ ہر صفحے کے خوشنما باڈر ہیںاور ان میں خوشنما گل بوٹوں نے اسے اور بھی دیدہ زیب بنایا ہے ۔ رموز واوقاف کی علامتیں زعفرانی روشنائی سے دکھائی گئی ہیں۔ اس کے کاتب اور سنہ کتابت کی کوئی نشانی کوشش کے باوجود میرے والد کو ممکن نہ ہو سکی البتہ جس کے پاس یہ نسخہ ہے ، اُس کا کہناہے کہ دادا کہتے تھے کہ یہ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے کا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔اسی گھر میں ۱۳۴۳ہجری کا کتابت شدہ ایک قرانی نسخہ بھی موجود ہے۔ جو ۴۸۰ اور اق پر مشتمل ہے ۔( ۶×۳۲×۲۰) سینٹی میٹر سائز کاہے۔ اس کی کتابت سادہ مگر نفیس ہے ۔ گتے سے مجلد بھی ہے ۔ اس نسخے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآنی کتابت کاذوق ابھی بھی زندہ ہے۔قرآنی نسخے سہ پاروں کی صورت میں بھی ہیں اور دو دو پاروں والے بھی بالعموم قلمی نسخوں میں صفحہ شمارہنسوں میں نہیں ہوتاہے ۔ اس لئے بکھرے اوراق کومرتب کرنے میں بڑی دشواری ہوتی ہے۔ البتہ ہر صفحہ کے نچلے کونے پر دوسرے صفحے کے عبارت کے ایک دو الفاظ لکھے ہوتے ہیں۔ جن کی مدد سے بکھرے اوراق کو مرتب کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
بہت سے قرآنی نسخے ایسے بھی ہیں جن کا فارسی یا کشمیری زبان میں لفظی ترجمہ بھی بین السطور کیا ہوا ہے۔’’ تفسیرِ حسینی‘‘ کے کئی نسخے بھی صحیح سالم حالت میں میرے والدِ مرحوم کی مشاہدے میں آئے۔’’ حدائق الحقائق فی کشف دقائق‘‘ کے نام کی تفسیرِ سورۃُ الیوسف ۴۳۸ اوراق پر مشتمل( ۱۷×۱۲) سائز کا نادر نسخہ بھی انھیں دیکھنے کو نصیب ہوا جس کی عبارت باریک ہے اوراس کاکاتب کوئی معین مسکینؔ ہے ۔ کافی کوشش کے باوجود میرے والدِ مرحوم کوتاریخ کتابت کا پتہ نہ چلا البتہ امتداد زمانہ سے اس کے بیشتر اوراق چپکے ہوئے ہیں اور کرم ِکتابی نے اسے کافی نقصان پہنچایا ہے۔
حدیث نبویؐ سے متعلق جن کتابوں کے قلمی نسخے میرے والدِ مرحوم نے دیکھے۔ ان کے نام کچھ اس طرح ہیں:مشکوۃ المصابیح ، شرح بخاری ، لُباب الباب ، لُباب الاخبار ،حصن الحصین، بخاری شریف مؤطا امام محمد ، بلوغ المرام وغیرہ اس کے علاوہ چہل الحدیث کے بہت سارے نسخے جن میں مولانا عبدالرحمن جامی کا مرتب کیا ہوا منظوم فارسی ترجمہ نسخہ بھی شامل ہے ۔ علم فقہ سے متعلق کتابوں کے قلمی نسخے کنز ودقائق ، مالا بُدمنہ ، منیت المصلی ،کیدانی، شرح ِ وقایہ ،عربی متن میں موجود دیکھنے کو ملے ۔ ان میں کچھ سالم، کچھ کا آخری یا پہلا حصہ غائب ، کچھ کرم خوردہ اور شکستہ حالت میں دیدہ زیب کتابت کے ساتھ موجود ہیں۔
قصائد میں قصیدہ بانت سعاد، قصید بردہ ، قصیدہ خمریہ ، قصیدہ جلجلوتیہ ، قصیدہ سریانی ، قصیدہ لامی ، قصیدہ قطبیہ ، قصیدہ الھا بیہ ، مناجات ِابو بکرؓ کے علاوہ قصیدہ علی بن ابی طالب پر مشتمل نسخے نفیس کتابت سے مگر کہیں خستہ حالت میں یا کرم خوردہ، اوراق چپکے ہوئے اور کہیں گرد وغبار میں اٹے ہوئے موجود ہیںاور Preservation کے متقاضی ہیں۔
فارسی اور عربی زبانوں سے متعلق گرائمر کے قلمی نسخے زنجانی ، صرف ہوائی ، ہدایۃ الرجاء ، دسوتر الصبیاں ، رقعات وغیرہ بھی بکھرے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ تصوف اور سلوک سے متعلق بے شمار نسخے ان کے مشاہدہ میں آئے جن میں کچھ دسویں صدی سے پہلے کے بھی ہیںجوعربی اورفارسی دونوں زبانوں میں موجود ہیں۔
تاریخ اور سوانح سے متعلق نسخے، حمید اللہ کا منظوم اکبر نامہ ، نفحات الکبرویہ ، مقامات حریری ، حجتہ الفقراء ، سلطانی، کراماتِ غازی عبداللہ ، فیض الطیبین، تذکرہ رفیقی، ریشی نامہ ، ریشی نامۂ بہاء الدین متو ، خاورنامہ امیر شاہ ، تواریخ عالم اسلام عزیز اللہ حقانی، نسخہ تصریح مقامات مخدوم العارفین ، مصنف علی بن عثمانی بکتابت عبدالرحمن بن ابوالفتح جس کا سنہ کتابت ۱۱۳۶ ہجری ہے ایسے نسخے میرے والدِ مرحوم کو نظر نواز ہوئے ۔
فارسی اور عربی زبانوں میں منطق، کلام، فلسفہ ، تجوید عروض ، قرأت ، علم فلکیات ، علم نجوم ، ریاضی ، اسماء الرجال کے علاوہ وظائف، ادعیہ ، نعوت اور مناقب ومناجات کی بے شمار بیاضیں بھی مختلف علاقوں میںبکھریں ہوئی انھیں دیکھنے کو ملی ہیں۔
فارسی زبان میں خوش نویسی کے اعلیٰ نمونے مثنوی مولانا روم ، مثنوی یوسف و زلیخا، سکندرنامہ ، مخزن لاسرار ، سلسلتہ الذہب، منطق الطیر ، دیوان حافظ ، دیوان غنی کاشمیری ، دیوان بو علی قلندر، شاہ نامہ فردوسی ، ورد ُ المریدین ، دسوتر السّالکین ، سلطانی بہاء الدین متو ، بہار اعجم ، ریشی نامہ کے علاوہ گلستان و بوستان سعدی ، کریما،نامہ حق ،بدایع منظوم ، تحفہ نصائح وغیرہ کی صورت میں کہیں صحیح وسالم ، کہیں خستہ وکرم خوردہ کہیں مکمل اورکہیں اول وآخری حصے گم شدہ صورت میں ملے۔ اسی طرح تصوف اورسلوک کے متعلق مخطوطات جیسے مثنوی شاہ شرف الدین ، چہل اسرار حجتہ الفقراء ، تنبیہ القلوب ، تحفۃ العاشقین، راحت القلوب ، ہدایتہ السالکین وغیرہ بھی متذکرہ صدر صورت میں مختلف جگہوں میں موجود ہیں۔اسی طرح کشمیری زبان میں بیشتر مخطوطات موجود ہیں۔ جن میں وہاب حاجنی کی تصانیف، کلامِ وہاب حاجنی بقلم وہاب ، شاہ نامہ ، کاشر سلطانی ، منظوم ترجمہ اکبر نامہ ، صدیق اللہ حاجنی کی مغازی النبی قصہ اصحابِ کہف ، اعجاز غریبیہ ، ردِّ وہابی ، مجموعہ غزلیات اکبر نامہ ،امیرشاہ کریری کاسام نامہ ، خاور نامہ ، اسد پرے کی گلریز ، مقبول شاہ کرالہ واری کی گلریز گریس نامہ اور پیر نامہ ، عزیز اللہ حقانی کی مثنوی قصہ بے نظیر کی کئی جلدیں ، شہزاد خان کا مجموعہ غزلیات ، علی شاہ ہریل کی تصنیفات ، شہادت نامہ حسین ، دھ عذاب ، جنگ ئبر الالم، معجزہ یمن ،قصۂ تمیم انصار ، وفات نامہ آنحضور ؐ ،قصہ فرزنداں ہارون رشید ، جنگِ زیتون اور جنگ تال ، محمودگامی کی خسروشرین ، مجموعہ غزلیات ، شیخ احمد چوگلی کی ضروریات دین وغیرہ میرے والدِ مرحوم کے مشاہدے میں آئے ،اس مضمون میں ہوئے تمام مخصوطات کا ذکر کرنا ناممکن ہے ۔گیارہ برسوں کے سروے کے دوراں آثار مضبوط یا مخطوطات کی جو صورت حال میرے والدِ مرحوم کے مشاہدے میں آئی یہ صرف اس کاایک اجمالی جائزہ ہے ۔ جس کی روشنی میں یہ بتانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اگر اس قیمتی اثاثے کو محفوظ کرنے کے لیے مستقبل قریب میں ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو قوم کو اسلاف کے اس عظیم تر کے سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔
مخطوطات سے متعلق قومی مشن کی ر جسٹریشن اور سروے سے ان کے مالکوں(Owner)میں ان کی افادیت اوراہمیت کا ہلکا سااحساس بیدار ہواہے۔ مگر انہیں وہ وسائل میسر نہیں ہیں جن سے ان کاتحفظ یقینی بن سکے ۔ مثلاً فطری رطوبت اور گردوغبار سے بچانے کے لئے مناسب Storageکا انتظام کرنا ہر کی کے بس میں نہیں ہے ۔ کاغذی کیڑوں سے محفوظ کرنے کے لئے دوائی نایاب بھی ہے اور اگر کہیں میسر بھی آسکے تو اس کی قیمت ادا کرنے کی استطاعت ہر کسی میں نہیں ہے۔ اس اثاثے کی دیکھ بھال اورنگرانی کے لئے ان کے پاس ماہرانہ صلاحیت بھی مفقود ہے ۔ اس صورت حال میں Ownersان کو زیادہ دیر سنبھالنے کی حالت میں نہیں ہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مخطوطات متعلق قومی مشن ، محکمۂ آثار قدیمہ اور زبان وادب سے متعلق دوسرے ادارے ہر سطح پر انکے تحفظ کے اقدامات کریں۔ اس سلسلے میں چند تجاویزپیش خدمت ہیں:
۱۔ عوام الناس میں مخطوطات کی اہمیت اور افادیت کو اُ جاگر کرنے کے لیے ضلع سطح پر سیمیناروں اور کا نفرنسوں کا اہتمام کیا جائے جن میں شرکت کے لیے ایسے لوگوں کو مدعو کیا جائے جن کی تحویل میں مخطوطات بکھرے پڑے ہیں ۔
۲۔ایسے اشتہار اور پملٹ شائع کیے جائیں جن میں مخطوطات کے تحفظ کے لیے رہنمائی بھی ہو اور مناسب تدابیر کا ذکر بھی ہو۔
۳۔ مخطوطات کے موجودہ مالکوں کی مالی معاونت کی جائے تاکہ وہ ان کی جلد سازی کریں ،کرم ِکتابی کے تدارک کے لیے ادویات اور ضروری کیمیکل حاصل کر سکیں اور ان کے تحفظ کا مناسب انتظام کر سکیں۔
۴۔مناسب قیمت ادا کر کے موجودہ مالکوں سے خرید کر میوزیموں اور لائبریوں میں محفوظ کیے جائیں ۔
۵۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ان کی عکس بندی کرکے بھی مخطوطات کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
اسلاف سے ملے اس قیمتی اثاثے کو بچایا جا سکتا ہے اگر اہلِ علم ودانش اور اربابِ اقتدار متوجہ ہوں اور اس کارِ خیر میں زیادہ اور دیر نہ لگایئں ۔ یہ مخطوطات ہماری میراث گم گشتہ ہیں ، متاعِ عہد ِ رفتہ ہیں اور سرمایہ تاریخ ہیں اور دولت بے بہا ہیں اور علمی اداروں کی نگاہِ التفات کے منتظر ہیں ۔
****
۱؎ میرے والدِ مرحوم نظام الدین سحرؔ ۲۰۰۵ ء سے لے کر ۲۰۱۶ ء تک مخطوطات سے متعلق قومی مشن میں بحیثیت اسکالر وابستہ رہے ،اس دوران انھوں نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں جاکر مخطوطات سے متعلق جانکاری حاصل کی ۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!