ڈاکٹر خلیق انجم کی تحقیقی بصیرت
اردو کے معروف ادیب،ماہر غالبیات، تراجم و فن تعمیر پرخصوصی صلاحیت رکھنے والے اور نامور ناقد و محقق ڈاکٹر خلیق انجم دہلی کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، خلیق انجم پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے، ان کا دادیہال اور نانیہال دونوں زیور تعلیم سے آراستہ تھا،ان کا تسمیاتی سفر غلام احمد خاں سے ہوتے ہوئے خؒلیق احمد خاں پھر خلیق اقبال اور اس کے بعد خلیق انجم تک پہنچا، ڈاکٹر خلیق انجم کئی حیثیوں کے مالک تھے، اردو دنیا میں ان کے مطالعے اور کارناموں کی کئی جہات مسلم ہیں، نام تھا خلیق انجم مگر اپنی حصولیابیوں اور کارناموں کی وجہ سے ایک انجمن کی حیثیت رکھتے تھے۔
ڈاکٹر خلیق انجم کا تعلیمی سفر اینگلو عربک اسکول سے شروع ہوا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے دہلی یونیورسٹی تک پہنچا۔ خلیق انجم ٹھیٹھ دلی والے تھے، جو دہلوی تہذیب سے مزین اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، خلیق انجم بے حد ذہین، حاضر جواب، خوش گو، شوخ و چنچل اور لاابالی قسم کے انسان تھے، ان کی شخصیت کو چند اقتباسات کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم پرویز اپنے ایک مضمون میں اور شیطان میں لکھتے ہیں ۔
ایک روز انگریزی کی کلاس جاری تھی ، مولانا زبیر قریشی جو کبھی سینٹ اسٹیفن کالج کے طالب علم رہے تھے، زور شور سے مینس فیلڈ کی گرامر سے Analysis کا سبق پڑھا رہے تھےکہ ایک لڑکا شلوار قمیص میں ملبوس، پیروں میں چپل پہنے، سر پر بالوں کا گپھا بنائے، بغل میں کچھ کتابیں دبائے کلاس روم میں داخل ہوا۔ بظاہر یہ نیو ایڈمیشن کیس تھا۔ مولانا زبیر قریشی نے خلاف عادت اس لڑکے سے اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا۔ بعد میں اس کا سبب بھی معلوم ہوگیا کہ اس لڑکے سے ان کی عزیز داری تھی۔ مولانا زبیر قریشی نے نو واردکو ایک خالی بینچ پر بیٹھنے کا اشارہ کرکے Analysis کا سبق پھر وہیں سے شروع کردیا جہاں سے منقطع کیا تھا۔میرے برابر کی سیٹ پر عشرت نام کا ایک لڑکا بیٹھتا تھا۔ یہ لڑکا اس سے پہلے پٹودی ہاؤس کی برانچ میں تھا۔ عشرت نے اس لڑکے کے داخل ہوتے ہی کہا ابے یہ بھی یہاں آگیا۔ میں نے پوچھا کون؟ وہ بولا یہی جو ابھی آیا ہے۔ خلیق ہے اس کا نام، بڑا حرامی ہے سالا۔ ۔۔۔” خلیق انجم: کثیرالجہات شخصیت مرتبہ انیس دہلوی، (سہ ماہی ایوان ادب کا خصوصی نمبر، ترکمان گیٹ، دلی) 2000ء، ص: 15-16
اسی مضمون میں اور شیطان میں دوسری جگہ لکھتے ہیں۔
مسلم یونیورسٹی کے ممتاز ہاسٹل میں ہم دس گیارہ لڑکوں کا گروپ تھا۔ ہم لوگوں میں ہاسٹل کی لائف کی پھونک کچھ زیادہ ہی بھری ہوئی تھی۔ Activityکرنا، پروکٹوریل قوانین کی خلاف ورزی کرنا ہمارا صبح و شام کا معاملہ تھا۔ اس گروپ کے دو سرغنے تھے، ایک میرٹھ کی نادر علی بلڈنگ کے کسی پولس آفیسر کے فرزند اعجاز اور دوسرے خلیق انجم۔ ہم نے شرارتوں کے میدان میں کئی تاریخی کارنامے انجام دئیے۔ جن کے نتیجے میں کچھ کو یونیورسٹی سے ڈیبار ہونا پڑا، کچھ پر جرمانے ہوئے لیکن سزا سے صاف بچ نکلنے والوں میں جو لوگ شامل تھے، ان میں ایک خلیق انجم بھی تھے۔” خلیق انجم: کثیرالجہات شخصیت مرتبہ انیس دہلوی، (سہ ماہی ایوان ادب کا خصوصی نمبر، ترکمان گیٹ، دلی) 2000ء، ص: 21
خلیق انجم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دوران طالب علمی حسب مزاج کئی ناخوش گوار اور نا مناسب حرکات کیں مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔خلیق انجم جہاں کہیں رہے شوخی ،چنچل مزاجی اور لاابالی پن ان کے ساتھ رہی، خواہ اسکولی زمانہ رہا ہو یا کالج کا اور یونیورسٹی کا زمانہ رہا ہو یا پھر ملازمت کا۔
پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی خلیق انجم کے بارے میں رقم طراز ہیں۔
برسوں پر پھیلا ہوا جینے کا یہ ڈھب جس شخص کے لئے ایک کھیل رہا، وہ تھا خلیق احمد خاں جو خود ہی کسی دن خلیق انجم بن گیا۔ میں تو ان کے ساتھ زیادہ تر مٹر گشتی کرنے والوں میں تھا۔ خلیق ہی کی طرح ہمارے ساتھ اسلم پرویز تھے۔ پورا پورا دن ساتھ گزرتا، اپنے اپنے کاموں میں بھی ہم سب مگن رہتے۔ زندگی خوش گوار تھی۔ ادبی اور علمی مجلسوں میں وقت گزارتے،چائے خانوں میں فرصت کے وقت خوش گپیاں کرتے مگر اسی بےفکری کے زمانے میں رشید حسن خاں، نثار احمد فاروقی اور شمیم حنفی جیسے دوست ملے اور قاضی عبدالودود، امتیاز علی عرشی، ڈاکٹر نذیر احمد، محی الدین قادری زور، آل احمد سرور، احتشام حسین، حیات اللہ انصاری، سید سجاد ظہیر اور اس عہد کے تمام مشاہیر عالموں اور دانشوروں کے قدموں میں بیٹھنے اور ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملا اور پھر اپنے بس بھر لکھنے پڑھنے کی بدولت اپنے زمانے میں جانے پہچانے گئے۔” سہ ماہی اردو ادب، مشترکہ شمارہ:41-240، جلد: 61-60 (اکتوبر تا دسمبر 2016ء، جنوری تا مارچ 2017ء) ص: 6
خلیق انجم نے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد ایک انجمن اور ایک تحریک کی شکل اختیار کی، انہوں نے کسب معاش کے لئےبہت محنت و مشقت کی۔ کبھی جامع مسجد کے پاس کی گلیوں میں بیٹھ کر بجلی کے پنکھوں کی مرمت کی تو کبھی ڈاک خانے کے پاس بیٹھ کر ضرورت مندوں کے خطوط لکھے، کبھی کروڑی مل کالج میں بحیثیت لکچرر کام کیا ، کبھی بحیثیت ڈائرکٹر گجرال کمیٹی تو کبھی انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری اور نائب صدر رہے۔ غرض انہوں نے ہر کام اور ہر ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دیا۔ انہوں نے مختلف ذمہ داریوں کے باوجود تصنیف و تالیف اور ادبی کار گزاریوں کو کبھی متاثر نہیں ہونے دیا۔
اردو دنیا میں خلیق انجم کا شمار کئی حیثیتوں سے ہوتا ہے،انہوں نے تنقید، تحقیق، ترجمہ اور صحافت کے میدان میں اپنی خدمات ہیش کی ہیں مگر ان کی اصل شناخت اور شہرت بحیثیت محقق مسلم ہے، ان کے ادبی کارنامے تعداد اور معیار کے اعتبار سے ناقابل فراموش ہیں۔انہوں نے 80 سے زائد کتابیں ترتیب و تدوین اورتصنیف و تالیف کیں اور بے شمار تحقیقی و تنقیدی مضامین منظر عام پر آئے۔ انہوں نے خودکو ادب کی کسی ایک یا چند اصناف تک محدود نہیں رکھا اور نہ ہی کسی تنظیم، گروپ یا جماعت سے وابسطہ رہے بلکہ ہر صنف ادب کو لائق اعتناءسمجھااور اردو زبان و ادب کے لئے جب اور جہاں موقع ملا اس سے استفادہ کیا۔ خلیق انجم اپنی تحقیق نگاری کے بارے میں خود لکھتے ہیں۔
میں پہلے تنقید کے میدان میں آیا لیکن قدرت کو میرا نقاد ہونا منظور نہ تھا۔ بعد میں تحقیق کو اپنا میدان بنایا۔ مجھے اطمینان ہے کہ خدا نے مجھے جتنی صلاحیتیں دی تھیں، میں نے ان کا پورا استعمال کیاہےاور میں نے قلم کے تقدس کا ہمیشہ احترام کیا ہے۔” سہ ماہی اردو ادب، مشترکہ شمارہ:(اکتوبر تا دسمبر 2016ء، جنوری تا مارچ 2017ء) ص: 79
خلیق انجم نے انتہائی جاں فشانی اور مستقل مزاجی کے ساتھ ترتیب و تدوین جیسا غیر معمولی کام کیا اور تحقیقی و تنقیدی سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھا۔ ان کے تحقیقی اور ترتیب و تدوین کے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے، اس ضمن میں “معراج العاشقین، متنی تنقید، غالب کے خطوط، آثارالصنادید،مرقع دہلی، رسوم دہلی، دلی کی درگاہ شاہ مرداں، دلی کے آثار قدیمہ، غالب کی نادر تحریریں، غالب اور شاہان تیموریہ، غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ اور مرزا محمد رفیع سودا” وغیرہ کا نام بطور خاص لیا جاسکتا ہے۔ یوں تو ڈاکٹر خلیق انجم نے مختلف اصناف ادب پر خامہ فرسائی کی ہے مگر ان کا سب سے زیادہ پسندیدہ موضوع دہلی کی قدیم عمارتیں، مقبرے، کتبے اور غالب کے علاوہ تحقیق ہے۔ دہلی سے متعلق ان کی تحریریں یعنی مرقع دہلی، رسوم دہلی، دلی کی درگاہ شاہ مرداں، دلی کے آثار قدیمہ دہلی کی کھنڈروں، قدیم عمارتوں، مقبروں اور کتبوں کی تاریخ و تفصیل بیان کرتی ہیں، دہلی کی تاریخ پر انہیں کمال کی معلومات تھیں۔سر سید احمد خاں نے ایک تاریخ ساز اور تحقیقی کارنامہ آثارالصنادید کے نام سے پیش کیا، سر سید احمد خاں کی یہ کتاب ایک جلد پر مشتمل ہے۔ دہلی کے کھنڈرات اور قدیم عمارتوں سے خلیق انجم کی دلچسپی نے آثارالصنادید کی تدوین پر مجبور کیا۔ سر سید نے آثارالصنادید میں جن عمارتوں کا ذکر کیا تھا، خلیق انجم نے ان عمارات کی موجودہ تصاویرخود کے کیمرے سے لے کر کتاب میں شامل کیا، ساتھ ہی حاشیوں میں اضافےبھی کیے، اس طرح انہوں نے آثارالصنادید کو کار آمد اور ضروری اضافے کے ساتھ تین جلدوں میں شائع کیا، خلیق انجم کا یہ کام خالص تحقیقی ہے، ڈاکٹر خلیق انجم نے آثارالصنادید کی ترتیب کے وقت کس ایڈیشن کو بنیاد بنایا اور تصحیح متن کے لئے کون سے طریقۂ کار کو اپنایا۔ اس سلسلے میں رقم طراز ہیں۔
زیر نظر تنقیدی اڈیشن کے لئے آثارالصنادید کے دوسرے اڈیشن کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس اڈیشن میں سر سید نے بہت زیادہ ترمیم و تنسیخ، حذف اور اضافے کیے ہیں۔ یہ اڈیشن دلی کے مطبع سلطانی میں 1854ء میں چھپا تھا۔ میں نے زیر نظر اڈیشن میں متن کی درستی کا ہر ممکن خیال رکھا ہے، مقدمے میں مسلم فن تعمیر اور ہندو مسلم فن تعمیر کی مختصر تاریخ بیان کرکے دلی کے آثار قدیمہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سر سید کی تاریخ نویسی پر گفتگو کرکے آثارالصنادید کی تصنیف اور مختلف اڈیشنوں اور ری پرنٹوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔” آثارالصنادید (جلداول) سید احمد خاں مرتبہ خلیق انجم، اردو اکادمی، دلی، 1990ء، ص: 21
ان کا دوسرا پسندیدہ موضوع غالب ہے، مکاتیب غالب کے حوالے سے انہوں نے قابل قدر تحقیق “غالب کے خطوط” پانچ جلدوں پر مشتمل پیش کیا ہے، غالب کے خطوط کی وجہ سے ڈاکٹر خلیق انجم کا غالب کے اہم محققین میں شمار کیا جاتا ہے۔”غالب کے خطوط” پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی جلد میں ایسے خطوط شامل کئے گئے ہیں جو عود ہندی، اردوے معلیٰ، مکاتیب غالب، نادرات غالب، غالب کی نادر تحریریں اور دیگر رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے تھے، ان تمام خطوط کو خلیق انجم نے غالب کے خطوط میں یکجا کردیا ہے۔ غالب کے خطوط پانچویں جلد میں غالب کے ان تمام خطوط کی تاریخ وار فہرست ہے جو غالب کے خطوط چاروں جلدوں میں شامل ہیں۔ اس کام کی تکمیل میں خلیق انجم نے بارہ برس صرف کئے، انہوں نے خطوط کو صحیح شکل میں پیش کرنے اور درست متن کی بازیافت کے لئےہر ممکن و مشکل ذرائع اور وسائل کا ستعمال کیا۔ اس ضمن میں ساجد ذکی فہمی اپنے ایک مضمون غالب کے خطوط اور خلیق انجم میں تحریر کرتے ہیں۔
خلیق انجم نے ان تمام ذرائع اور وسائل کو اختیارکیا جن سے خطوط غالب کی تلاش، تصحیح و ترتیب کا کام باوزن اور معتبر ہوسکتا تھا۔ یعنی متن کے تصحیح کے لئے انہوں نے نسخۂ اساس ان نسخوں کو بنایا جو غالب کے ہاتھ کا لکھا تھا۔ اس کے علاوہ عود ہندی اور اردوے معلیٰ کے پہلے اڈیشن میں شائع شدہ خطوط کو بھی بنیادی نسخے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ چونکہ عود ہندی کے بالمقابل اردوے معلیٰ میں طباعت کی غلطیاں قدرے کم تھیں اس لئے جو خطوط عود ہندی اور اردوے معلیٰ میں مشترک تھے وہاں انہوں نے اردوے معلیٰ کے متن کو ترجیح دی ہے۔” سہ ماہی اردو ادب، مشترکہ شمارہ:41-240، جلد: 61-60(اکتوبر تا دسمبر 2016ء، جنوری تا مارچ 2017ء) ص: 81
اپنی مرتبہ کتاب غالب کے خطوط کے متن کے سلسلے میں ڈاکٹر خلیق انجم خود لکھتے ہیں۔
غالب کے خطوط میں جن لوگوں، کتابوں، اخباروں اور مختلف مقاموں کا ذکر آیا ہے۔ ان پر جہان غالب کے عنوان سے حواشی لکھے گئے ہیں۔ متن کے مآخذ کے تحت ہر خط کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ خط کا بنیادی متن کہاں سے لیا گیا ہے اور کس متن سے اس کا موازنہ کرکے اختلاف نسخ بیان کیے گئے ہیں۔ غالب کے خطوط میں جتنے بھی فارسی اور اردو اشعار یا مصرعے نقل ہوئے ہیں، ان کا اشاریہ اشعار کا اشاریہ کے عنوان سے ترتیب دیا گیا ہے۔ پورے متن کا مکمل اشاریہ بھی تیار کیا گیا ہے۔” غالب کے خطوط (جلد اول) مرتبہ خلیق انجم، غالب انسٹی ٹیوٹ ایوان غالب مارگ نئی دہلی، 1984ء، ص: 12
شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے بانی پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نےشعبہ اردو میں اردومخطوطہ شناسی کے لئے ایک نئے کورس کا آغازPost MA Diploma in Urdu Palaeography کے نام سے شروع کیااور ڈاکٹر خلیق انجم کو اس موضوع کا مطالعہ کرکے مواد اکٹھا کرنے اور مخطوطہ شناسی کے طلبہ کو پڑھانے کی ذمہ داری دی۔ چنانچہ انہوں نے کروڑی مل کالج کے اپنے ایک ساتھی کوہلی صاحب کی مدد سے مذکورہ موضوع پر مطالعہ اور طلبہ کو پڑھانا شروع کردیا۔ چنانچہ ڈاکٹر خلیق انجم نے مخطوطہ شناسی کے طلبہ اور تصحیح متن اور متن کی دریافت و بازیافت کرنے والے ریسرچ اسکالر اور محققین کے لئے متنی تنقید کے نام سے ایک کتاب پیش کردی۔پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے اس اہم کتاب کی اشاعت پر اپنی خوشی کا اظہار یوں کیا ہے۔
مجھے بڑی خوشی ہے کہ انہوں نے میری فرمائش پر اس موضوع پر نہایت مفید کتاب بھی مرتب کی ہے، جس کے لئے میں ان کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ انہوں نے زیر نظر تالیف میں متن کی تعریف اور تنقید، متنی نقاد کے فرائض، بنیادی نسخے، اختلاف نسخ، متن کے سنہ تصنیف کا تعین، مآخذ کی نشاندہی غرض تمام ضروری مباحث کا احاطہ کیا ہے اور اس کے مرتب کرنے میں بڑی جان کھپائی ہے، انہوں نےاردو اور فارسی سے متعلق وہ تمام ضروری مثالیں دی ہیں جن سے اس کتاب کی دلچسپی اور افادیت بڑھ گئی ہے اور یہ خشک موضوع پرلطف بن گیا ہے۔ اس میدان میں ان کی حیثیت ایک پیش رو کی ہے۔” پیش لفظ، متنی تنقید، خلیق انجم، انجمن ترقی اردو (ہند)،نئی دہلی، دوسری اشاعت 2006ء، ص: 11
اس زندہ جاوید کارنامہ (متنی تنقید) سے قبل اس موضوع پرکوئی کتاب نہیں تھی ہاں کچھ مضامین ضرور تھے، متنی تنقید کی پہلی اشاعت 1967ء میں ہوئی جو بہت جلد مارکیٹ سے ختم ہوگئی، اس کی دوسری اشاعت نظر ثانی کے بعد ترمیم و اضافے کے ساتھ2006ء میں ہوئی۔ متنی تنقید دوسرے اڈیشن کے بارے میں ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں۔
میں نے پوری کوشش کی ہے کہ متنی تنقید کے ان تمام مسائل کا بھی احاطہ کروں جن کا پہلے ایڈیشن میں ذکر نہیں کرسکا تھا۔ ان مسائل کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ نیا ایڈیشن متنی تنقید کے تقریباً تمام مسائل، اصول اور ضوابط کا احاطہ کرتا ہے اور طلبہ، اساتذہ اور متنی نقادوں کو پہلے ایڈیشن کے مقابلے میں زیادہ معلومات فراہم کرتا ہے۔” متنی تنقید، خلیق انجم، انجمن ترقی اردو (ہند)،نئی دہلی، دوسری اشاعت 2006ء، ص: 14
متنی تنقید کو انہوں نے چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے، اس کتاب کا ہر باب کئی حصوں میں منقسم ہے۔چھ ابواب پر مشتمل یہ کتاب ہر ریسرچ اسکالر، محقق، تصحیح متن اور ترتیب وتدوین متن سے دلچسپی رکھنے والے کے لئے راہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان کی ایک اور اہم کتاب مرزا محمد رفیع سودا ہے، اس کتاب میں خلیق انجم کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔اس کتاب کی اہمیت اور خلیق انجم کے تحقیقی رویے کے بارے میں پروفیسر آل احمد سرور کا کہنا ہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اردو میں تحقیق و تنقید کا معیار گر رہا ہے انہیں خلیق انجم کی اس تصنیف کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔سودا کی عظمت تو شروع سے مسلم رہی ہےلیکن سودا کی یہ بدقسمتی اور اردو کے محققوں اور نقادوں کی یہ بدتوفیقی ہے کہ نہ تو ان کے کلیات کا کوئی صحیح ایڈیشن اب تک شائع ہوا ہے اور نہ شیخ چاند اور حال میں محمد حسن کے علاوہ کسی نے سودا کی حیات، شخصیت اور کلام کے سیر حاصل جائزے کی ضرورت سمجھی۔ شیخ چاند کی کتاب قابل قدر ہے مگر اب خاصی پرانی ہوگئی ہے، اس لئے جدید تحقیق کے معیار سے سودا پر ایک نئی اور سیر حاصل کتاب کی اشد ضرورت تھی، خلیق انجم نے اس ضرورت کو بڑی خوبی سے پورا کیا ہے” مرزا محمد رفیع سودا، خلیق انجم، انجمن ترقی اردو (ہند) علی گڑھ،1966ء
اپنی کتاب مرزا محمد رفیع سودا میں خلیق انجم نے سیاسی و سماجی حالات اور سوانح کے علاوہ تنقید کے عنوان سے سودا کی شعری کائنات پر مدلل اور سائنٹیفک بحث کی ہے، اس ضمن میں سودا کی غزل گوئی، قصیدہ نگاری، ہجو گوئی، مرثیہ نگاری، شہر آشوب اورمثنوی نگاری کے حوالے سے سودا کی جملہ شعری انفرادیت کی وضاحت کی گئی ہے، سودا تذکرہ نگاروں اور نقادوں کی نظر میں عنوان کے تحت ناقدین ادب اور تذکرہ نگاروں نے جس انداز سے سوداکے مقام و مرتبہ کا تعین کیا ہے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔کتاب کے ایک حصے میں سودا کی تصانیف، سودا کا الحاقی کلام، سودا کا غیر مطبوعہ کلام، سودا کے شاگرد، اشعار سودا کا انگریزی ترجمہ، کتابیات اور اشاریہ کا ذکر محققانہ انداز میں کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے کئی اہم علمی و ادبی تصانیف پیش کی ہیں جو سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مراجع و مصادر
1۔ خلیق انجم: کثیرالجہات شخصیت مرتبہ انیس دہلوی، (سہ ماہی ایوان ادب کا خصوصی نمبر، ترکمان گیٹ، دلی) 2000
2۔ ڈاکٹر خلیق انجم (شخصیت اور ادبی خدمات)، مرتبہ ایم۔حبیب خاں (کتاب نما کا خصوصی شمارہ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ)
3۔ سہ ماہی اردو ادب، مشترکہ شمارہ:41-240، جلد: 61-60،اکتوبر تا دسربع 2016، جنوری تا مارچ 2017
4۔ آثارالصنادید (جلداول) سید احمد خاں مرتبہ خلیق انجم، اردو اکادمی، دلی، 1990
5۔ غالب کے خطوط (جلد اول) مرتبہ خلیق انجم، غالب انسٹی ٹیوٹ ایوان غالب مارگ نئی دہلی، 1984
6۔ متنی تنقید، خلیق انجم، انجمن ترقی اردو (ہند)،نئی دہلی، دوسری اشاعت 2006
7۔ مرزا محمد رفیع سودا، خلیق انجم، انجمن ترقی اردو (ہند) علی گڑھ،1966
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!