ارون دھتی رائے کے ناول” سسکتے لوگ God of Small Things پر ایک نظر
ڈاکٹر احسن فاروقی نے ناول وار اینڈ پیس کے بارے میں کہا تھا :”زندگی میں لیڈر اہم ہے یا عوام؟ واقع کا ہر جزو اور پوری نوعیت اس سوال کا جواب یہ دیتی ہے کہ خدا اور عوام اہم ہیں۔ “
ارون دھتی رائے کے ناول God of Small Thingsمیں خدا اور عوام اور لیڈر کی تکون پر مشتمل پلاٹ ترتیب دیا گیا ہے۔ جس میں ٹائم فریم میں ایک پورا عہد (Period)سانس لیتا ہو ا موجود ہے مگر بالفعل یہ زمان کی قیود کو توڑ دیتا ہے۔ تاریخ کے جبر سے کشید کہانی لاچار و مقہور انسانون کے ابدی دکھوں کا نوحہ پیش کرتی ہے۔ پروین ملک نے اردو روپ دینے میں انتھک محنت کی ہے۔ ترجمہ کے فن کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ اصل کے مطابق نہ سہی مگر ناول کے مجموعی تاثر کو برقرار رکھنے میں وہ کامیاب رہی ہیں۔
کرافٹ کے اعتبار سے پلاٹ گندھا ہوا اور مربوط ہے۔ واقعات کی جذئیات کی تقسیم میں نظم موجود ہے البتہ منظقی ترتیب میں بے ترتیبی ہے جو ناول نگار کی ذہانت اور خلاقیت پر دال ہے؛وہ یوں کہ قصے کا مجموعی تاثر مجروح نہیں ہوا اور قاری بھی ہمہ تن خوان بنا رہاکیونکہ پیچیدگی میں الجھائو کی بجائے حسن اور دلچسپی زیادہ ہے۔ کہانی میں بظاہر وقت خطِ مستقیم پر سفر کرتا ہے اور ایک مخصوص جگہ (Locale)کیرالہ بھی جس سے قصہ متعلق ہے۔ زمان و مکان کی حد بندی کے علی الرغم یہ ان سے ماورا بھی ہے۔ جس خاندان کا تذکرہ ہے یا جو سماج پیش منظر میں دکھایا گیا ہے یہ تاریخ کے ہر دور میں اپنا ثبات کرتا رہا ہے۔ انسان کی بے بساعتی ، بے بسی، مجبوری، غربت ، طبقاتی تقسیم، ظلم ، جبر طاقت ، تو ابدی سچ ہیں،خاص طور پر ہمارے خطہء ارض پر۔ ناول میں متفرق علوم کا افشا ہونا فنی مجبوری کم اور مصنفہ کی علمیت پر زیادہ دلالت کرتا ہے مثلاً فلسفہ، نفسیات ، تاریخ ، سیاسیات وغیرہ مگر جس چیز پر سر دھننے کو جی چاہتا ہے وہ یہ کہ ان کو ایسے فنی چابکدستی سے قصے میں سمویا گیا ہے کہ خود ناول کی ہیئت پر حرف نہیں آیا بلکہ یہ جملہ علوم اس کا حصہ بن گئے ہیں۔ تخلیق کے دوران ارون دھتی رائے نے اپنی شخصیت کو کہانی میں ظاہر نہیں ہونے دیا(جبکہ مابعد کے ناول Stat of utmost Happiness میں وہ خود کئی مقامات پر ظاہر ہوئی ہیں)ان کا مخفی رہنا ہی ان کا کمال ہے۔
ناول کے کردار واضح، شفاف اور متحرک ہیں یہ زندگی کے حقیقی نمائندہ ہیں ان کی تعریف غالبؔ سے مستعار اصطلاح میں جیتے جاگتے منفی و مثبت رویوں کے حامل متنوع کردار معاشرے کی بوقلمونی کے مظہر۔
ماما چی، پاپاچی،چاکو، امو، راہل، ایستھا، صوفیامُنی، بے بی کو چاما ، مارگریٹ ،ویلتھا، ویلائیا پاپن، کوٹا پن، کامریڈ پیلائی ، تھامس ، میتھیو انسپکٹر، ہولک، لیری وغیرہ جیسے کردار وںکی گھڑت (creation)مصنفہ نے نفسیات اور ماحول اور روایات کے تناظرات کو مدنظر رکھا۔ دوران قرات قاری ذہنی ریاضت سے کام لے تو کئی رمزیہ گوشے کھل کھل جاتے ہیںان کرداروں کے افعال سے کبھی خوشی کبھی غم کی وہ صورت منشکل ہوتی کہ ایک لمحے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور دوسرے سمے آنکھوں میں نمی پھیل جاتی ہے۔ ان کرداروں کی طبقاتی تقسیم میں سیرین عیسائی (جو ہزار برہمنوںکی اولاد اپنے آپ کو سمجھتے ہیں)پراوان (جو شودر سے عیسائی بنے)اعلیٰ ذات کے ہندو، غریب عوام، بچے ، بوڑھے ، ہندوستانی، انگریز کے علاوہ تکنیکی اعتبار سے Round، Flatاور Fantasticalکی درجہ بندی بھی ممکنات میں سے ہے گو کہ ان میں Gullivens Travelsاور The Time Machineیا الف لیلوی کرداروں والے خوا ص نہیں،اس کے باوجود امو کا کشتی پہ رات کے پچھلے پہر دریا پار کرنا اسے فنتاسی کے قریب تر کر دیتا ہے ۔ یہاں امو سوہنی کے مماثل دکھتی ہے جو گھڑے پر چناب پار کرتی ہے:
“ننھی سی کشتی کی کہانی جو راتوں کو دریا پار کر کے جاتی تھی اس مرد اور اس عورت کی جو چاندنی راتوں میں ایک دوسرے پر عیاںہو جاتے تھے۔۔۔ کشتی (جو ایستھا اور راہل نے دریافت کی تھی)ایک درخت کی شاخ سے بندھی ہوتی ہے۔ ہر رات پانی کی لہروں پر ڈولتی ہوئی عشاق کی واپسی کی منتظر۔۔۔” (۱)
کہانی میں انفرادی رنگ اس کا ماحول ہے۔پلاٹ کے کہانی پن پانچوں حسیات (senses)کی دلچسپی اور جاذبیت کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔ مہاکا شت نگاری میں سحر کاری سے کام لیا گیا ہے۔ سینما گھر کا منظر ہو کہ جنگل کی تصویر کشی، لباس وآرائش کا بیان ہو کہ غربت کی عکاسی ارون دھتی رائے ناولسٹ سے بڑھ کر مصور نظر آتی ہے۔ قاری اپنے آپ کو عینی شاھد کے روپ میں ڈھال لیتا ہے۔ دریا میں بچوں کی کشتی کے الٹنے پر صوفیامنی کی تیرتی لاش کا منظر شامی مہاجر بچے کا سمندر میں ڈوبنے جیسا ہے جو ترکی کے ساحل پر ملا (یاد رہے کہ ناول کئی سال پہلے تخلیق ہوا)۔
“دریائی کائی اس کے خوبصورت سرخی مائل بھورے بالوں میں بے طرح الجھی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں کے نرم پپوٹوں کی مچھلیوں نے نوچنے کی کوشش کی ہوگی(یہ مچھلیوں کی عادت ہے کہ وہ ہر شے پر منہ مارنے اسے چکھنے کی کوشش ضرور کرتی ہیں)اس کی کاسنیپینٹ پر لکھت تھا”Holiday”جو دیکھنے والے کو چہکتا ہو ا سا محسوس ہوتا تھا، اس کے پورے جسم پر یوں جھریاں سی پڑی تھیں جیسےدھوبی کے ہاتھ پانی میں دیر تک رہنے سے جھریا جاتے ہیں۔ اسفج کی جل پری جو تیرنا نہیں جانتی تھی۔ـ” (۲)
منظر کشی ناول کی رگِ جاں ہوتی ہے۔ پلاٹ میں جابجا بیانیے کو لفظی تصویروں سے آراستہ کیا گیا ہے۔مثلاً
“دریا کے دوسرے کنارے کی ڈھلان پر بے شمار جھگیاں کھمبیوں کی طرح اگ آئی تھیں۔ کچھ بچے کنارے پر دریا کی طرف پیٹھ کر کے یوں بیٹھے تھے کہ ان کا پاخانہ سیدھا دلدلی مٹی میں جا کر گر رہا تھا۔” (۳)
فائیو سٹار ہوٹل بنا تو کچی بستی چھپانے کے لیے ہوٹل والوں نے ایک لمبی دیوار کھڑی کر دی۔ حال ہی میں امریکی صدر کے ہندوستان یاترا کے موقع پر بھی کچی بستی اور ظلِ سبحانی کی بصارت کے بیچ دیوار حائل کرنا پڑی۔ سطور بالا میں جو لکھا گیا کہ یہ ناول زمان کی قید سے آزاد ہے اسی تناظر میں تھا۔ پیرا ڈائیز فیکٹری میں اچار، چٹنی ، تیل ، نمک، مرچ، مصالحے کا بیان آتا ہے تو سامعہ کے ساتھ لامسہ کی حس بھی بیدار ہوتی ہے۔ ماحول میں خوشنمائی یا بدنمائی ہر دو کو وہ جذئیات میں منقش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ صحن، دریچے ، دیوار و در ، گلی کوچے ، رسوم و رواج غرضیکہ پورے ناول کو پینوراما سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ بظاہر عام سی کہانی میں منظر نگاری اور ماحول کی عکس بندی سے مذین کر کے اسے اولیٰ فن پارہ (Moster Piece)بنا دیا گیاہے۔ تاریخ کی ٹہنی پر لٹکتا وقت still یوں دکھائی پڑتا ہے جیسے منصور سولی پر ٹنگا ہوا ہو۔ اس کے ادھڑے ہوئے جسم سے رِستے ہوئے لہو کی ہر بوند سے نعرہ انا الحق کی صدا آرہی ہے۔ پولیس کے اعلیٰ جاتی پر مشتمل دستے نے ہسٹری ہائوس کا محاصرہ کر لیا ہے اور وقت کا حلاج ان کے قبضے میں ہے جسے اپنی ہستی کے ہونے کا یقین دلانے کا بڑا چائو تھا:
“اس کی کھوپڑی تین جگہوں سے چٹخ چکی تھی ۔ ناک اور گالوں کی ہڈیاں چور چورہو جانے چہرہ پُلپلا اور بے شناخت سا لگ رہا تھا۔ منہ پر پڑنے والی چوٹ سے اوپری ہونٹ پھٹ گیا تھااور چھ دانت ٹوٹ گئے تھے جن میں سے تین نچلے ہونٹ میں پیوست نظرآرہے تھے۔ اس بھیانک مسکراہٹ میں اس کی خوبصورت مسکراہٹ کھو گئی تھی۔” (۴)
ناول کا بیانیہ جتنا مضبوط ہے شاید ویسی مکالمہ نگاری نہیں ہے۔ مکالموں میں ٹھہرائو اکثر Passiveہے مگر کئی کئی جگہائوں پر بہت جاندار ہے۔ امو کے شرابی شوہر اور اس کے مالک ہولک کے درمیان ، بے بی کو چاما اور انسپکٹر کے مابین مکالمے جڑواں بچوں کی باہم گفتگو اور اپنی ماں سے بات چیت جیسے اور کئی مقامات پر قاری کی فراست کو ٹہوکا ملتا ہے۔ گھن گرج کے بغیر دھیمے سروں میں پیدا کی گئی کسک تاثر کو گہرائی عطا کرتی ہے۔
Fantasyپتنگے کی دریافت اور پراوان کی زندگی کی حقیقت کہانی میں پوری طرح جلوہ گر ہے۔ پاپا چی جو ماہر حشریا ت کے عہدے پر فائز تھے انھوں نے ایک نئی قسم کا پتنگا دریافت کرنے کا دعویٰ کیا مگر اس کی تصدیق سے قبل ہی وہ سروس سے ریٹائیر ڈ ہو گئے۔ شودر کی روایتی تعریف معروف ہے۔ فکشن نگار نے تخیل کو بروئے کار لا کر فنتاسی کی فلاسفی منوائی ہے:
“ویلتھاکے برعکس کوٹا پن صحیح معنوں میں پراوان تھا۔ اسے نہ تو لکھنا آتا تھا نہ حروف کی پہچا ن تھی۔ بستر پر سیدھا لیٹے ہوئے اسکے چہرے پر سرکنڈوں کی چھت کی درزوں سے جھڑ جھڑ کر گرد اور مٹی پڑتی اور اس کے پسینے میں شامل ہوتی رہتی ، بعض اوقات چیونٹیاں اور دوسرے چھوٹے چھوٹے حثرات بھی اس میں شامل ہو جاتے۔ سرخ مٹی سے لپی دیواریں ہاتھوں میں ہاتھ بنائےگھیرا ڈالے قریب آجاتیں ، اتنا پاس کہ وہ بے ساختہ چیخ اٹھتا اور کبھی وہ لاتعلقی سے دور ہٹ جاتیں کمرہ وسعت اختیار کرجاتا۔۔۔ اتنی وسعت کہ کوٹاپن کا وجود اس وسعت کے سامنے ایک حقیر ذرے کی صورت اختیار کر جاتا اور کوٹاپن گھبرا کر چییخ پڑتا۔ـ” (۵)
ارون کا اسلوب ِ نگارش دل نشین ہے اولین ناول نے جو مقبولیت سمیٹی وہ برصغیر میں قراۃ العین حیدر کے “آگ کا دریا”کے جیسی ہے۔ ناول کے عنوان سے لے کر واقعات اور کرداروںکے افعال تک میں جو نظریہ حیات پیش کیا گیا ہے وہ سب سے اہم ہے۔بصیرت سے بھر پور نقطئہ نظر میں ہندوستان کے سماج کو متشکل کیا گیا ہے۔ ذات پات ، چھوت چھات ، جھوٹی مذہبی انانیت ، سیاسی شعبدہ بازی اور منافقت کے چہرے پر پڑے نقاب اتار لئے گئے ہیں۔ مصنفہ کا مطالعہ، مشاہدہ، تجربہ اور شعور تحریر میں تلخی نہیں لانے دیتے۔خالص ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے وہ ایسی فضا بنا نے میں کامیاب ہو جاتی ہیں جو قاری کو لکھاری کی ذہنی سطح کے برابر لانے کا سبب بن جاتی ہے۔ اور ناول پر کسی صحیفہ کے قائمقام ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ امو قراۃ العین حیدر کی چمپا کی طرح تیسری دنیا کے ہر دور کی عورت کی مظلومیت کا استعارہ ہے۔ امو اس سے سوا دھرتی کی علامت بھی ہے۔ وہ آٹھ مہینے کی حاملہ تھی تو اکتوبر ۱۹۶۲ء تھا اور چین کے ساتھ جنگ چھڑ گئی۔ جب جڑواں بچے تین سال کے ہونے کو آئے تو اسے ستمبر ۱۹۶۵ء میں طلاق ہوگئی۔ اب پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا۔شاید اسی تناظر میں صفحہ ۲۳۶ اور ۲۳۷ پر کورئوں اور پانڈئوں کے قصے کا اجمالا ذکر ہے۔
سیرین عیسائیوں کا برہمنوں کی اولاد ہونے کا دعویٰ اور پھر یسوع مسیح کی تعلیمات کا پرچارک ہو کر بھی ذات پات پر یقین ، کیرالہ میں کمیونسٹ حکومت کے قیام کے بعد بھی عام آدمی کی حالت کا جوں کا توں رہنا، مارگریٹ اور چاکو میں ولایتی اور دیسی کا فرق جیسے کئی مقامات تاریخی شعور کی بیدار ی کے سنگ ِ میل ہیں۔ ویلتھا کی پراوان کی حیثیت بدلنے کی خواہش اور کوشش وہ ابدی سچ ہے جو ہزاروں سال سے فقط خوب ہی رہا ہے۔ مارکسزم سے لیکر ملا ازم تک ہر حربہ سحر سامری ثابت ہوا ہے اور جس کی تعبیر ویلتھا کے الم ناک انجام کی صورت نکلا ہے:
“حوالات میں اندھیرا چھایا ہو اتھا۔۔۔کسی کی بھاری بھاری سانسوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ پاخانے کی بو سے اسے (ایستھا)کو متلی ہونے لگی۔کسی نے لائٹ جلا دی۔ ایک دم ہر شے ظاہر ہوگئی۔ ویلتھا میلے چکنے فرش پر پڑا تھا۔ اس کے بدن پر کچھ نہیں تھا۔ سوائے سر سے بہتے ہوئے خون کے جو یوں رس رہا تھا جیسے راز افشا ہوتے ہیں۔ اس کا سر اور چہرہ سوج کے کپا
ہوگئے۔تربوز کی طرح سوجے چہرے پر ٹوٹے ہوئے دانتوں کی وجہ سے عجیب سی جناتی مسکراہٹ کا گمان ہو رہا تھا۔ پولیس بوٹ پیشاب کے اس تالاب سے ادھر ہی رُک گئے جو ویلتھا کے جسم سے نکل کر اس کے ارد گرد پھیلا تھا۔ـ” (۶)
ناول کی ہیئت (structure)کی تشکیل میں تکنیک کے مروجہ سانچوں سے کام لیا گیا ہے۔ شعور کی رو ، داخلی خود کلامی، مصنف کا ہم بین بیان، فلیش بیک ، تشبیہاتی ، استعاراتی اور علامتی پیرائیوں کے ذریعے فن پارے کو وقیع بنا یا گیا ہے۔ Personificationکے ذریعے دریا کی تجسیم حیرت انگیز بھی ہے اور فکر انگیز بھی:
“ایک زمانہ تھا کی دریا کی اپنی ایک ہیبت اور شوکت تھی۔ یہ لوگوں کی زندگیوں کا رخ موڑدینے کی طاقت رکھتا تھا۔ مگر اب اس کے دانت گر چکے تھے اور وہ رینگتے ہوئے کوڑے کرکٹ کے انبار پر سر اٹھائے سمندر کی طرف رواں تھا۔ شوخ رنگوں کے پلاسٹک بیگ اس کی گدلی سطح پر استوائی خطوں کے پھولوں جیسے لگ رہے تھے۔” (۷)
عصری معنویت کی حامل یہ سطور پانی کے سراب میں بدلنے کی ہولناک تصویر کشی ہے۔ناول اور تاریخ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تاریخ کشی کسی طرح چپکے سے اردو کے کم و بیش سارے بڑے ناولوں میں اس طرح شامل ہو جاتی ہے کہ کردار یا نفسِ مضمون معلوم ہونے لگتی ہے، یہ کہنا ہے آصف فرخی کا۔ (۸)
مگر یہ قول ارون کے انگریزی ناول پر بھی صادق آتا ہے۔ اس لیے کہ God of Small Thingsپس نوآبادیاتی مطالعات کے ضمن میں آتا ہے۔ بن باس، مہاجرت، Displacement، دربدری، دیس نکالا، فراق ، برصغیر کے فکشن میں تکرار کے ساتھ موجو د ہے۔ ارون دھتی رائے نے بظاہر معمولی واقعہ سے تاریخ کی دکھتی رگ کو چھیڑاہے ۔صوفیہ منی کی موت کے بعد جڑواں بچوں کی نانی ایستھا کو باپ کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کرتی ہے اور ان کی ماں (امو )کو گھر چھڑوانے کا۔ ریلوے سٹیشن پر امو اپنی بیٹی راہل کے ساتھ اپنے بیٹے کو وداع کہنے آتی ہے۔ یہ منظر انفرادی نفسیات سے زیادہ تاریخی ابتلا کو سامنے لاتا ہے۔
“اچانک ٹرین چل پڑی، آہستہ رفتار سے۔ الیستھا کے اسکول کے طالب علم یکا یک معدوم ہوگئے اور اس کی انگلیاں امو کے ہاتھ میں گڑ گئیں جو ٹرین کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ گاڑی رفتار پکڑ رہی تھی اور اب امو کو اس کے ساتھ دوڑنا پڑ رہا تھا۔ خدا حافظ میرے بچے، میرے جگر کے ٹکرے میں آئوںگی۔ جلدی آئوں گی۔ اور پھراس کا ہاتھ امو کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔” (۹)
جہاں تک کہانی کے موضوع ، تھیم (Theme)یا مرکزی خیال کا تعلق ہے توگبریل گارشیا مارکیز کے بقول “موضوع اور مصنف دونوں ایک دوسرے کو مہمیز دیتے ہیں”کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ برصغیر کے زمینی حقائق کو فکشن کی آنکھ سے دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ ناول کا تانا بانامندرجہ ذیل نکات پر مبنی ہے:
(ا) نو آبادیاتی تسلسل /استحصالی نظام
(۲) نسلی(Racial)امتیازات و تعصبات /طبقاتی تقسیم
(۳) سیاسی شعبدہ بازی/کھوکھلی انقلابی سوچ
(۴) انسانی نفسیات / بشریاتی بحران (Anthropological Crises)
کالونیلزم بظاہر اختتام پزیر ہوا مگر بباطن پورے کروفر سے جلوہ فگن ہے۔ ماقبل و مابعد نو آبادیات سے عام آدمی کی نقدیر یکساں رہی۔ مٹی میں شامل نسلی عصبیت اور ذات پات کے کنکریٹ میں کوئی مذہب عقیدہ ازم دراڑ نہ سکا۔ سیرین عیسائی ہوکہ راجپوت و جاٹ مسلمان وہ اندر کے بُت کو شکستہ کرنے میں ناکام رہا۔ اور آدمی انسانیت کے منصب پر فائز ہونے سے قاصر رہا۔ سیاسی وعدے محض سحر سامری تھے۔ انقلابی بھی فقط کوئی رنگ باز ہی تھے۔اینگلو اور انڈین کے فرق کو سمجھنے کے لیے “چاکو”کا کردار اتنا ہمہ گیر ہے کہ پوری برصغیر کی کالوئیل تاریخ حمام میں ننگی ہوگئی ہے۔ تاریخ کے سیاسی ، سماجی اور عمرانی پہلوئوں کی استعاراتی شکل کہانی میں دریا کے اس پار موجود “ہسٹری ہائوس”ہے۔ یہ علامت ہی دراصل ناول کے ابلاغ کی ترسیل کو سہل بنا دیتی ہے۔ ارون دھتی رائے جنوبی ایشیا کی گبریل گارشیا مارکیز ہے ۔ جس کے ہاں دنیا میں فقط دو دھڑے ہیں ایک خیر دوسرا شر۔
حوالاجات
(۱) سسکتے لوگ۔ص۲۵۹
(۲) سسکتے لوگ۔ ص۲۵۵
(۳) اردن دھتی رائے۔ ترجمہ پروین ملک۔ سسکتے لوگ۔ عکس پبلی کیشنز ،لاہور۔ سن ندراد۔ ص۱۳۱
(۴) سسکتے لوگ۔ ص۳۱۳
(۵) سسکتے لوگ۔ ص۲۱۰
(۶) سسکتے لوگ۔ ص۳۲۴۔۳۲۵
(۷) سسکتے لوگ۔ ص۱۳۱
(۸) آصف فرخی۔ چراغ شب افسانہ۔ سنگ میل ،لاہور۲۰۱۶۔ص۲۰۲
(۹) سسکتے لوگ۔ ص۳۳۲
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!