’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘اور تہذیبوں کا انضمام

Abstract

Comparative studies of the traditions is the important need of modern times. Every language represents specific traditions. The Drawar tradition of Sindh which is one of the main tradition of four major traditions five thousand years ago is currently part of Pakistan. This tradition from Sindh to Hind and from there onwards to Hindh Islami and Ganga Jamni. Finally, it transcended into Hind European tradition. During British rule, the English rulers were also responsible for decline of local tradition. It was a social and political need to impose their own language to local language. They wanted to convince the local people that their customs, way of life, way of interaction, history, fiction, in short, their literature is obsolete. English rulers portrayed the need for modern requirements in such a way that local people considered their own ways inferior and accepted the new techniques as superior. It is a psychological tactic which is used by every conqueror. In this way a new language and a new tradition got blended in local tradition which was already a compound of many languages and traditions before it. The following research paper presents the comparative study of various traditions in the historical, social and political background of subcontinental tradition.

تہذیب انسانی کائنات کی اہم ترین اصطلاح ہے۔ لیکن اس کی شرح و تعبیر اس قدر مختلف انداز سے کی گئی ہے کہ بالآخر اس کے اساسی اور پیدائشی معانی غائب ہوکر رہ گئے ۔ اس ضمن میں مختلف وجوہات پیش نظر رکھنی چاہییں۔ مثلاً تہذیب کے عناصر ترکیبی میں سے کسی ایک عنصر کو مبالغہ آمیز انداز سے اہمیت دینا؛ مخصوص فلسفیانہ ذاتی، مقامی یا روایتی تعصبات کا اظہار وغیرہ۔ اس پریشان کن صورتِ حال میں سوائے اس کے اور کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا کہ تہذیب کے لغوی معنی کی طرف رجوع کیا جائے۔

تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے ۔ اس کے معنی :

’’کسی درخت یا پودے کو کاٹنا اور تراشنا تاکہ نئی شاخیں پھوٹیں۔ ‘‘(۱)

اردو میں تہذیب کے معنی ’’فرہنگ ِ آصفیہ‘‘ کے مطابق یہ ہیں:

 ۱: آراستگی، صفائی، پاکی، درستی، اصلاح،۲: شائستگی، خوش اخلاقی، اہلیت، لیاقت، آدمیت، تربیت، انسانیت، شرافت(۲)

’’نور اللغات‘‘ کے مطابق:

’’پاک کرنا، اصلاح کرنا، آراستگی، پاکیزگی، اصلاح، شائستگی، خوش اخلاقی، تہذیب ِ اخلاق، درستیِ اخلاق، انسانیت، خوش اخلاقی، تہذیب یافتہ، تربیت یافتہ، تعلیم یافتہ، مؤدب، شائستہ‘‘(۳)

درج بالا بحث سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ایک سماج یا تہذیبی گروہ جو کسی مقام پر کاشت کرتے ہوئے مقیم ہوتا ہے اور اپنی زندگی گزارتا ہے اور اس گزارنے والی زندگی میں وہ تمام شعبہ جات رہتے ہیں جو ایک سماج میں عمومی طور سے پائے جاتے ہیں اور یہ تہذیب اس گروہ کا ورثہ ہے۔

ہر زبان کسی خاص تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔ سندھ کی درواڑی تہذیب جو پانچ ہزار سال قبل کی چار بڑی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہی تہذیب سندھ سے ہند، پھر ہند اسلامی اور گنگا جمنی تہذیب کے ناموں سے آشنا ہوئی تو نوآبادیاتی دور میں اس نے ہند یورپی تہذیب کا چولا پہن لا۔ نوآبادیاتی دور میں مقامی تہذیب کے زوال میں مقتدر انگریز حکمرانوں کا بھی حصہ ہے۔ مقامی زبان پر اپنی زبان کو مسلط کرنا ایک سیاسی اور سماجی ضرورت تھی۔ مقامی لوگوں کو یہ باور کرانا کہ ان کے رسم و رواج بطور طریق ، اصول و فروع، تاریخ و افسانہ۔ غرض ان تمام علمی و ادبی تفاخر از کارِ رفتہ ہوچکا ہے۔ نئے زمانے کی ضروریات کو نئے حاکموں نے اپنے تفاخر کے ساتھ پیش کیا تاکہ مقامی لوگ ان کی برتری تسلیم کرکے خود کو گھٹیا او رکمتر سمجھیں۔ یہ ایک نفسیاتی حملہ تھا جو ہر نیا فاتح استعمال کرتا ہے۔ یو ںایک نئی زبان اور نئی تہذیب مقامی تہذیب میں ضم ہوئی جو کہ پہلے ہی کئی تہذیبوں اور زمانوں کا مرکب تھی۔

ہندوستان کی تاریخ میں انیسویں صدی بہت زیادہ اہمیت کی حامل رہی ہے ، کیوں کہ اس دور میں دو تہذیبیں ایک دوسرے کے متوازی تھیں۔ ایک ہندوستانی یا مشرقی تہذیب، دوسری مغربی تہذیب۔ اس ناول میں شمس الرحمن فاروقی نے ناول کے مختلف اجزا یعنی پلاٹ، کردار، مکاں و زماں کے بدلتے ہوئے تناظر کے علاوہ ہندوستانی معاشرے کی جزئیات کی پیش کش مخصوص انداز میں کی ہے۔ مثلاً کبھی کرداروں کی گفتگو کے ذریعے، جن میں امرا، ادبا و شعرا ، ملازمین، مختلف پیشہ ور، مردو عورت اور بچے وغیرہ، ان کے مکالموں میں بطورِ خاص حفظ ِ مراتب کا خیال رکھا گیا ہے جو اس تہذیب کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔علاوہ ازیں کہیں تعلیم، قالین کا ذکر ہے تو سات رنگوں کی تخصیص، موسیقی کے بیان میں سات سروں کی انفرادیت، مصوری کی اہمیت، ٹھگوں کے بارے میں معلومات، انگریزوں کا لب و لہجہ اردو الفاظ کی ادائیگی کے وقت، ان کا تہذیبی تشخص وغیرہ۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ شمس الرحمن فاروقی کا شہر آفاق اور معرکہ آرا ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ ایک ایسا  تہذیبی ناو ل ہے جس میں دو تہذیب بہ یک وقت انضمام/ ادغام ہورہی ہیں۔ ایک اسلامی ہند تہذیب اور دوسری ہند یورپی تہذیب۔ دونوں تہذیبیں متوازن چل رہی ہیں۔

نوآبادیاتی نظام کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ غیرملکی حاکم اپنی زبان اور اپنے کلچر کو ہندوستانیوں پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ بھولے بھالے ہندوستانی تو ان کے اثر میں آگئے اور اپنے آپ کو اسی سانچے میں ڈھالنے لگے ،لیکن باشعور افرادکو اس ظلم کا شدید احساس تھا۔ ان کی کوشش رہی کہ اپنی زبان،اپنی روایات و اقدار کا تحفظ ممکن حد تک کیا جائے۔ شمس الرحمن فاروقی نے وزیر خانم کے ایک پانچویں پشت کے فرد ڈاکٹر وسیم جعفر کے توسط سے جن امور کو پیش کیا ہے وہ محض زیب ِ داستاں کے لیے نہیں ہیں بلک ہاس وسیلے سے انھو ںنے اپنے تہذیبی تشخص کی حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔ کہاجاسکتا ہے کہ وسیم جعفر ایک طرح سے خود مصنف کی علامت ہیں۔

انڈیاآفس لائبریری کا بیان، نوآبادیاتی نظام کے منفی اثرات کا تذکرہ، ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے ،وہ ہندو ہوں یا مسلم، باوقار معزز شہریوں کی شناخت کا باقی نہ رہنا، اخلاف کا اپنے اسلاف سے بے جڑ کے پودوں کی طرح بے گانہ رہ جانا، وسیم جعفر کا اپنے حسب نسب سے واقفیت کے لیے سرگرداں ہونا اور گزشتہ واقعات کی یادوں کے تحفظ کی کوشش۔ یہ تفصیلات اپنی جگہ پر کچھ کم دلچسپ نہیں ہیں، لیکن اور بھولی بسری تہذیبی اشیا کا ذکر ابھی ختم نہیں ہوسکتا۔

شمس الرحمن فاروقی نے تہذیب کے کسی گوشے اور زاویے سے صرفِ نظر نہیں کیا ہے ۔ لباس کے تعلق سے جب ان کا قلم اٹھتا ہے تو مختلف ملبوسات کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔ مشرق اور مغرب کے لباس کے فرق کے علاوہ ہندوستان کے مختلف شہروں کی جداگانہ نوعیت کا ذکر صراحت سے کیا گیا ہے ۔ اعلیٰ اور متوسط طبقہ، پیشہ ور افراد سب اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ملبوس نظر آتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں، ایک ہی فرد موقع محل کی مناسبت سے لباس بدلتا ہے تو اس کا ذکر موجود ہے:

’’ولیم فریزر کا لباس ہندوستانی تھا۔ اورنگ آبادی ہمرو کا ایک بر کا تنگ پاجامہ، بدن پر باریک تنزیب کا کرتا، اس پر سیاہ مخملی نیمہ، یعنی انگرکھا جس کی آستینیں کٹی ہوئی تھیں… آٹھوں انگلیوں میں بیش قیمت انگوٹھیاں… سر پر سرخ سیاہ بوٹیوں کا چیرۂ بلدار… بالکل دلّی کا امیر زادہ لگتا تھا۔‘‘(۴)

فاروقی نے تہذیبی تفاوت کے معمولی سے معمولی فرق کا بھی بہت باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے۔ پنڈت نند کشور کا دیوانِ حافظ سے فال نکالنا، اور معاوضہ لینے سے انکار ، پنڈت جی کے لیے وزیر خانم کا احترام و اہتمام، ہندو مسلم یگانگت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ معمولی سے معمولی الفاظ کے انتخاب سے شہروں کی تہذیب کی انفرادیت کا پتہ چلتا ہے، مثلاً نواب شمس الدین احمد خاں کے محل کا تفصیلی حال درج ہے جس سے عمارتوں کی تعمیر و تزئین، نقش و نگار، زیبائش و آرائش کی متعدد اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں اور کہیں کہیں ان جگہوں کا بھی ذکر ہے جن سے وہ اصطلاح یا ہنر منسوب ہے۔ روشنی کے انتظام اور پنکھوں کی نوعیت کا پتہ ملتا ہے۔ ولیم فریزر کا مزار مشرق اور مغرب کے فنِ تعمیر کے امتزاج کا عمدہ نمونہ ہے۔

تاریخی اعتبار سے یہ ناول انیسویں صدی سے بھی بہت پہلے سے شروع ہوکر ۱۸۵۶ء میں ختم ہوتا ہے۔ اس پورے عرصے کا بیان ہمیں ایسی دنیا کی سیرکراتا ہے جو معاشرتی اور تہذیبی لحاظ سے بے حد معمور ہے۔ یہاں کی زندگی اور اس کی اقدار نہایت مستحکم اور توانا ہیں۔ ہر طرف زندگی کی چہل پہل اور محرک نظر آتا ہے۔ یہ دنیا ایسی ہے جس تہذ یبی پر کوئی بھی عہد فخر کرسکتا ہے۔ یہاں کی ادبی تہذیب بھی پوری تابناکی کے ساتھ جلوہ گر ہے اور دنیا کی دوسری بڑی تہذیبوں سے خود کو کم نہیں سمجھتی۔ لیکن پھر زمانے کی بساط الٹتی ہے اور سماں بدل جاتا ہے۔

اس حوالے سے شمس الرحمن فاروقی نے خود ناول کے آخر میں ’اظہارِ تشکر‘ کے ضمن میں لکھا ہے:

یہ تاریخی ناول نہیں ہے، اسے اٹھارویں اور انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب اور انسان اور تہذیبی و ادبی سروکاروں کا مرقع سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘(۵)

اردو میں اس طرح کے ناول بہت کم لکھے گئے ہیں۔ آج سے پچاس سال قبل شعور کی رو کی تکنیک میں ’’آگ کا دریا‘‘ لکھا گیا تھا۔ مگر بیانیہ طرز میں ہند اسلامی تہذیبی عناصر کے مخصوص تاثر کے اظہار نے ’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ کو ایک یادگار دستاویز بنا دیا ہے۔ خاص کر جب ناول نگار انگریزوں کے بڑھتے ہوئے تسلط کے دوران اینگلو اسلامی تہذیبی تصادم کو پیش کرتا ہے تو قاری اس زوال پذیر ماحول میں گم ہوجاتا ہے۔

اٹھارویں اور انیسویں صدیوں میں ہمارے ملک میں ہند اسلامی دنیا کیا تھی؟ اس دور کی تہذیب اور ادبی سماج کیسا تھا؟ انگریزی سیاست اور اس کی وجہ سے سماج میں کیا کیا تبدیلیاں آرہی تھیں؟ مغلیہ سلطنت کی مٹتی ہوئی بادشاہت انگریزی حکومت کا ہندوستان پر بڑھتا شکنجہ اس ناول میں پوری طرح سما گیا ہے۔

ذاکر حسین کا کہنا ہے:

’’انگریزوں کی زبان، افواج و سیاح کی زبان، امراو بادشاہوںکی زبان، شعر و عوام الناس کی زبان کے استعمال میں واضح طور پر امتیاز قائم رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ ہر باب اور ہر عہد میں الگ الگ زبان کا استعمال کرتے ہوئے ناول مکمل کرنا آج فاروقی کا حصہ ہے۔ ‘‘(۶)

فاروقی نے ناول میں مشرقی اور مغربی اقدار کے بعض ایسے پہلوئوں کی نشاندہی کی ہے جن سے دونوں قوموں کی روایتوں کے فرق کو جانا جاسکتا ہے۔ مثلاً مغرب میں مخاطب سے گفتگو کے وقت آنکھ ملانا معیوب نہیں ،ورنہ وہ بات کرنے والے کو دغا باز اور مکار سمجھتے لیکن مشرق میں یہ عمل قابل اعتراض ہے۔

ناول کا مرکزی کردار وزیر خانم ایک بھرپور تہذیبی شخصیت کی حامل ہے۔ جس میں وہ تمام تہذیبی نقوش دکھائی دیتے ہیں جو کسی بھی تہذیبی شخصیت کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ ناول میں وزیر خانم کی کہانی کے ذریعے قاری کو انیسویں صدی کی زوال آمادہ تہذیب کو دیکھے کا موقع ملتا ہے۔ یہ تہذیب انگریزوں کی سیاسی پیش رفت کو دیکھتی ہے لیکن تلخ حقائق سے منہ چھپانے کی کوشش میں خود کو عیش وعشرت میں غرض کرلیتی ہے۔

’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ کو تہذیبی ناول تسلیم کرتے ہوئے بہت سی باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ مثلاً حکیم احسن اللہ خان جیسے غدار کو فاروقی نے اپنے ناول کا ہیروں کیوں پیش کیا؟

’’۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے سب سے بڑے غدار حکیم احسن اللہ خان کے روزنامچہ Memories of Hakim Ahsanullah Khan مرتبہ ڈاکٹرمعین الحق کاپہلا تفصیلی تجزیہ ومحاکمہ۔ حکیم احسن اللہ خان برطانوی استعمار کے جاسوسِ خاص تھے۔ جس نے محل میںہونے والی انقلابی سرگرمیوں کی لمحہ بہ لمحہ روداد سے انگریزوں کو آگاہ کیا۔ اور بہادر شاہ ظفر کو جنرل بخت خان کے مشورے پر عمل سے روکا۔ بہادر شاہ ظفر کو دہلی خالی کرنے سے بازرکھا اور ۱۸۵۷ء کے جہاد کو اپنی سازشوں سے ناکام بنادیا۔ اگر بہادر شاہ ظفر بخت خان کے مشورے پر روہیل کھنڈ چلے جاتے تو جنگ کا نقشہ بدل سکتا تھا۔ ہڈسن کے سامنے بہادر شاہ ظفر کی سجدہ ریزی حکیم احسن اللہ کے ذریعے ممکن ہوئی۔ جس کاصلہ انھیں دوسوروپے ماہانہ پنشن کے طورپر ملا۔ اس غداری کے باوجود حکیم احسن اللہ نے ساری زندگی گمنامی میں کیوں بسر کی؟ احسن اللہ کی جاسوسی اور غداری کاعلم لوگوں کوہوچکا تھا۔ لوگ انھیں قتل کرنا چاہتے تھے لیکن بہادر شاہ انھیں اپنا مخلص سمجھتے تھے اور انگریزوں کے درمیان رابطہ کامعتبر ذریعہ جانتے تھے۔لہٰذا ہرمرتبہ احسن اللہ کی جان بخشی بہادر شاہ ظفر کی وجہ سے ہوجاتی۔ حکیم احسن اللہ جیسے غدار کو شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ناول ’’کئی چاندتھے سرِ آسماں‘‘‘ میں ایک ہیرو کے طوپرکیوں پیش کیا؟‘‘(۷)

ناول کا تہذیبی اعتبار سے بیانیاتی تجزیہ کرتے ہوئے یہ امر سامنے آتا ہے کہ اب ہند اسلامی تہذیب، ہند یورپی تہذیب میں ضم ہو رہی ہے گویا یورپ خصوصاً برطانیہ کا نو آبادیاتی نظام ہندوستان کی قدیم تہذیب، روایت اور وسائل حیات پر مسلط ہوتا جارہا ہے ۔ نوآبادیاتی نظام نہ صرف اپنی نو آبادی میں تہذیبی تبدیلیاں لاتا ہے بلکہ اس کے متن کو بھی تبدیل کردیتاہے۔

ایڈورڈسعید اپنی کتاب میں شرق شناسی (Orientalism) میں ایسی ہی متنی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نو آبادیاتی طاقت اس حد تک حاوی ہوجاتی ہے کہ اس کے مفکرین ، سیاح، تجزیہ نگار اور مصنفین سبھی ایسامتن اختیار کرتے ہیں جس میں مغرب اور مشرق کے درمیان فرق پیدا کرتے ہوئے مغرب کو تو ایک اعلیٰ نسل قرار دیا جاتا ہے جبکہ مشرق کو اس کے مقابل انسانیت کے درجے سے بھی گراتے ہوئے اسے صرف معلومات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور بعض مصنفین تو ایسی نو آبادی کو صرف انگریزی تہذیب کی پسماندہ تحریف قرار دیتے ہیں مثلاً

ایڈورڈ سعید (Edward Said)کا کہنا ہے کہ:

’’اسلام پر کام کرنے والے شرق شناسوں نے اسلام سے فاصلے کو فائدہ مند رویے کے طورپر نہیں لیا حالانکہ اس رویے سے وہ اپنے تمدن کو بہتر طورپر سمجھ سکتے تھے اس کے برعکس اسلام سے بیگانگی نے یورپی تمدن کے اعلیٰ تر ہونے کے احساسات میں ان کے دل و دماغ میں مشرق کی نسبت اکراہ کو بھی راہ ملی اور مشرق میں اسلام بھی شامل ہے جس کو ایک کمتر (اور عام طورپر مضرت رساں اور خطرناک ) مشرق کا نمائندہ خیال کیا جاتا تھا‘‘۔ (۸)

’کئی چاند تھے سرآسماں‘ محض کرداروں کا نہیں، تہذیبی المیے کاناول ہے  اور تہذیب کے مختلف دائرے بناتا ہے۔ ا س کا ہیرو کوئی آدمی نہیں، وقت ہے۔ اس میں زوال آماد ہ سوسائٹی کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ فاروقی کا یہ ناول ہندوستان کی تہذیب کی سچی عکاسی کرتا ہے۔

حوالہ جات

۱۔        ’المنجد‘، (عربی اردو لغت)، لوئیس معلوف، ترجمہ: مولانا عبدالحفیظ بلیاوی، لاہور،مکتبہ قدوسیہ، ۲۰۰۹ء، ص۸۷

۲۔       ’فرہنگ ِ آصفیہ‘ مرتبہ: مولوی سید احمد دہلوی(جلد اوّل ودوم)، لاہور، اردو سائنس بورڈ، ۲۰۱۰ء، ص۶۴

۳۔       ’نور اللغات‘، مرتبہ: مولوی نور الحسن نیر، (جلد اوّل)، لاہور، سنگ ِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء، ص۱۰۱۳

۴۔       شمس الرحمن فاروقی ’’کئی چاند تھے سرآسماں ‘‘ کراچی ، شہرزاد، ۲۰۰۶ء، ص ۲۳۶ تا۲۳۷

۵۔       ایضاً، اظہارِ تشکر،  ص۸۴۷

۶۔        ذاکر حسین، ’’کئی چاند تھے سر آسماں: نوبل انعام کا مستحق ناول‘‘،مشمولہ، ’’خبر نامہ شب خون‘‘،  الٰہ آباد،(انڈیا)، شمارہ نمبر۳، جنوری تا جولائی ۲۰۰۷ء

۷۔       ماہنامہ’ساحل ‘‘کراچی ،مئی ۲۰۰۶ء

۸۔       ایڈورڈ سعید ’’شرق شناسی‘‘(ترجمہ: محمد عباس)، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان ، ۲۰۰۵ء، ص ۲۸۵، ۲۸۶

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.