انشائیہ کے ابتدائی نقوش
انشائیہ عربی زبان کا ایسا لفظ ہے جس کے معنی تحریر کرنے یا لکھنے کے ہیں دوسرے لفظوں میں کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کو انشائیہ کہا جا سکتا ہے۔ انشائیہ غیر افسانوی نثر کی ایک ایسی صنف ہے جو مضمون کی شکل میں لکھی جاتی ہے،مضمون سے انشائیہ کا امتیاز اسلوب و انداز سے کیا جاتا ہے۔ انشائیے میں انشائیہ نگار آزادانہ طور پر اپنی تحریر پیش کرتا ہے، انشائیہ نگاری کی شرط یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی شرط نہیں۔ انشائیہ میں طرز بیان اور اسلوب و ادا کو فوقیت دی جاتی ہے۔اس صنف میں اسلوب کو اولیت اور موضوع کو ثانویت حاصل ہوتی ہے۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار کی شخصیت کی عکاسی نظر آتی ہے اور کسی خاص نتیجہ کے بغیرانشائیہ نگار اپنی بات ختم کرسکتا ہے۔
’’انشائیہ‘‘ حسن انشا اور ’’حسن عبارت‘‘ ہے اور اس کی روح شگفتگی ہے اب یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ انشائیہ کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟ یا اس کے ابتدائی نقوش کن تحریروں یا نثر پاروں میں ملتے ہیں؟ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں اختلاف تو ہے مگر سب کے دلائل بھی ہیں۔
اردو میں انشائیہ نگاری کا آغاز مضمون کی شکل میں ہوا۔ علی گڑھ تحریک کے زیر اثر اس کا رواج ہوا۔ اور بہت جلد اس نے ترقی کی منزلیں طے کرلیں۔ مضمون نگاری اس دور کی ضرورت تھی۔ سماج کو بدلنے اور اس میں بیداری اور نیا شعور پیدا کرنے کی غرض سے اس صنف نے بہت موثر کردار ادا کیا۔ سر سید احمد خاں کے علاوہ مولانا محمد حسین آزاد کی تحریروں میں بھی انشائیہ کا انداز نظر آتا ہے۔
ـ ’’سب رس‘‘ ملا اسد اللہ وجہی کی تصنیف ہے۔ ملا وجہی، قطب شاہی سلطنت کے درباری شاعر تھے۔ ’’سب رس‘‘ کا سن تصنیف ۱۶۳۵ء ہے۔ اس کی حیثیت قصہ یا داستان کی ہے مگر اس میں جابجا انشائیہ نگاری کے بھی نمونے شامل ہیں۔ انشائیہ کیا ہے؟ اور ’’سب رس‘‘ میں انشائیہ کے نمونے کس طرح شامل ہیں اس کا اندازہ وجہی کی ہی تحریر سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس نے کتاب کی ابتدا میں ہی واضح کردیا ہے کہ
’’ یو عجب کتاب ہے سبحان اللہ …، یو کتاب سب کتاباں کا سر تاج ہے۔ سب باتاں کا سرتاج، ہر بات میں سو سو معراج، یو بات نہیں، یو تمام وحی ہے الہام ہے …، اگر کسی سخن شناس ہور اسرارِ دانی ہے تو یو کتاب گنج العرش، بحر معانی ہے۔ جیتا کوئی طبیعت کے کواڑ کتاب میں نئیں سو بات کیا بولے گا۔ جو کچھ آسمان ہور زمین میں ہے سو اس کتاب میں ہے …، اس بات کوں، اس نبات کوں، یوں کوئی آبِ حیات نئیں گھولیا، یوں غیب کا علم نئیں کھولیا، خضر کے مقام کوں انپڑیا تو اس بات میں پڑنا، میں تو یہ بات نئیں کیا ہوں۔ عیسیٰ ہوکر بات کو جیو دیا ہوں۔ ‘
ملا وجہی، سب رس، مرتبہ : شمیم انہونوی، لکھنو ۱۹۸۵ء، ص ۹
جاوید وششٹ نے ملا وجہی کو انشائیہ کا باوا آدم قرار دیا ہے۔ ان کی رائے ہے کہ
’’اردو انشائیہ اپنی ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ دورِ سرسید میں انگریزی ادب سے ہمارے انشائیہ نے ضرور استفادہ کیا مگر یہ کہنا غلط ہے کہ اردو انشائیہ انگریزی سے آیا ہے ہمارا انشائیہ کلیتاً ہمارا انشائیہ ہے۔ ملا وجہی اردو انشائیہ کا باوا آدم ہے۔ جس وقت عالمی ادب میں انشائیہ کی صنف نے جنم لیا کم و بیش اسی وقت ہمارا انشائیہ بھی عالم وجود میں آیا۔‘‘ جاوید وششٹ،انشائیہ پچیسی،دہلی،ص ۱۵
اس رائے سے بعض صاحب قلم نے اختلاف کیا ہے مگر ڈاکٹر سید عبداللہ نے دلیل دی ہے کہ
’’ سب رس کے اسلوب بیان کے جو خصائص خود وجہی نے بیان کئے ہیں ان میں اہم بات (مصنف کے نزدیک) یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس نثر میں شعریت کے انداز پیدا کیے ہیں۔ ’نظم ہور نثر ملا کر گلا کر‘ بیان کے ایسے پیرائے ایجاد کیے جن سے نثر میں شعر کا سا لطف پیدا ہوگیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر سید عبداللہ،مقدمہ : ملا وجہی،لاہور ۱۹۶۱ء
سر سید احمد خاں کی نثر علمی نثر ہے اور ایک خاص مقصد سے قلمبند کی گئی ہے اس میں خشکی کی حد تک سنجیدگی بھی ہے اس کے باوجود سرسید کی بعض تحریروں میں انشائیہ کے نمونے موجود ہیں۔ مثلاً
’’ اسے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید جب کہ زندگی کا چراغ ٹمٹماتا ہے اور دنیاوی حیات کا آفتاب لب بام ہوتا ہے، ہاتھ پائوں میں گرمی نہیں رہتی، رنگ فق ہوجاتا ہے، منہ پر مردنی چھاتی ہے، ہوا ہوا میں پانی پانی میں مٹی مٹی میں ملنے کو ہوتی ہے تو تیرے ہی سہارے سے وہ کٹھن گھڑی آسان ہوتی ہے۔ ‘‘
سر سید احمد خان،امید کی خوشی، انتخاب مضامین سرسید،علی گڑھ ۱۹۷۱ء،ص ۹۱
’’خطوط غالب‘‘ میں بھی انشائیہ کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے لکھا تھا :
’’اردو انشاء پردازی کا آج کو انداز ہے اور جس کے مجدد و امام سر سید مرحوم تھے اس کا سنگ بنیاد دراصل مرزا غالب نے رکھا۔ ‘‘ ۲۵؎ شبلی نعمانی،مقالات شبلی، جلد دوم،اعظم گڈھ ۱۹۶۴ء،ص ۶۰
رشید احمد صدیقی بھی اسی خیال کے حامل ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے :
’’ غالب کا ہر خط ان کی شخصیت کے کسی نہ کسی پہلو کی ترجمانی کرتا ہے۔ زندگی کی معمولی سے معمولی باتوں کو اکثر اس انداز سے پیش کیا ہے جیسے زندگی کے بڑے بڑے حقائق ان ہی معمولی باتوں کی کھلی چھپی یا بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔ دل کا معاملہ اشعار میں اتنا نہیں کھلتا جتنا خطوط میں، اس اعتبار سے غالب کے خطوط ان کے اشعار سے زیادہ گھر کے بھیدی ہیں۔‘‘
رشید احمد صدیقی،غالب کی شخصیت اور شاعری، مشمولہ قومی زبان، کراچی، فروری ۱۹۷۱ء ص ۳۷
علامہ شبلی نعمانی اور رشید احمد صدیقی نے جو کچھ لکھا ہے اس سے اختلاف کی گنجائش نہیں کیونکہ واقعہ یہی ہے کہ غالب کے بیشتر خطوط کی خوبیاں وہی ہیں جو انشائیہ کے محاسن میں شمار کی جاتی ہیں یا انشائیہ کو دوسری تحریروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہاں پیش ہے ایک خط جو نواب امین الدین خاں کے نام لکھا گیا تھا :
’’ سنو عالم دو ہیں، ایک عالمِ ارواح اور ایک عالمِ آب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا ایک ہے جو خود فرماتا ہے۔
لِمن الملک الیوم، پھر جواب دیتا ہے۔ لِللہ الواحد القادر۔ ہر چند قاعدہ یہ ہے کہ عالمِ آب و گل کے مجرم عالم، ارواح میں سزا پاتے ہیں لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالمِ ارواح کے گنہ گار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں چنانچہ آٹھویں رجب ۱۲۲۵ء کو میرے واسطے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پائوں میں ڈال دی اور دلّی شہر کو زنداں مقرر کیا اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔ فکر، نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد جیل خانہ سے بھاگا، تین برس بلادِ شرقیہ میں پھرتا رہا۔
پایانِ کار مجھے کلکتہ سے پکڑ لائے اور پھر اسی مجلس میں بٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے تو ہتھکڑیاں اور بڑھا دیں۔ پائوں بیڑی سے فگار، ہاتھ ہتھکڑیوں سے زخم دار، مشقت مقرری اور مشکل ہوگئی۔ طاقت یک قلم زائل ہوگئی۔ بے حیا ہوں۔ سال گزشتہ بیڑی کو زاویہ زنداں میں چھوڑ کر مع دونوں ہتھکڑیوں کے بھاگا میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوا رام پور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑ آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا، بھاگوں گا کیا۔ بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔ حکم رہائی دیکھئے کب صادر ہو۔‘‘ غالب،خطوطِ غالب
سر سید کی تحریروں میں تو انشائیہ کے نمونے ہیں ہی ان کے عہد اور عہد کے بعد کے دوسرے نثر نگاروں کی تحریروں میں بھی انشائیہ کے نمونے شامل ہیں مثلاً حالی، محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد، نواب محسن الملک، مولوی ذکاء اللہ، عبدالحلیم شرر، مہدی افادی، وحید الدین سلیم، رتن ناتھ سرشار۔ سرشار نے جو کچھ سیکھا ’’اودھ پنچ‘‘ سے سیکھا مگر بہت کچھ وہ لکھا جس میں انفرادیت ہے اور ان میں انشائیہ کی کیفیت یا اجزا بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں مثلاً ـ
’’عشق کس کو کہتے ہیں اس کا حال کسی چوٹ کھائے ہوئے دل سے پوچھئے وہ دل جو مسلک عشق میں فنا ہوگیا، وہ دل جو عشق کے صدمے اٹھانے کا جگر رکھتا ہو، وہ دل جو عشق کی کڑی منزل میں تھک کے بیٹھ گیا مگر ہمت نہ ہارا ہو، وہ دل جو راہِ عشق سرد و گرم چشیدہ ہو، وہ دل جو عشق کی بھول بھلیاں بھٹک کر کعبۃ اللہ جاتے جاتے ترکستان کا ڈھرا پکڑے اور بحر اوقیانوس ہوکر خوارزم پہنچنے کو سیدھا راستہ سمجھے وہ دل جس کی رنگینی نشتر غم کی خوگر ہو۔ ‘‘
رتن ناتھ سرشار،انشائیہ کی بنیاد،ص ۱۱۲
بیسویں صدی میں انشائیہ نگاروں کی طویل فہرست ہے۔ اس فہرست کے چند اہم نام یہ ہیں :
میر ناصر علی دھلوی، نیاز فتح پوری، سجاد حیدر یلدرم، منشی پریم چند، سید احمد دھلوی، خلیق دھلوی، سلطان حیدر جوش، مہدی افادی، سجاد انصاری، فلک پیما، مولانا ابوالکلام آزاد، حسن نظامی، فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، کرشن چندر، اکبر علی قاصد، مشتاق احمد یوسفی، مجتبیٰ حسین۔ یہاں صرف دس نثر نگاروں کی تحریریں مثال میں پیش کی جارہی ہیں۔ یہ وہ نثر نگار ہیں جنھیں انشائیہ نگاروں کی فہرست میں عام طور سے شامل نہیں کیا جاتا۔
۱۔سجاد حیدر یلدرم :
’’چاند، وہ بے جان مخلوق میں سب سے زیادہ طرب انگیز چیز یعنی چودھویں رات کا چاند تو مجھے بالکل بے تاب کردیتا تھا اسے بھی پکڑنے اس سے بھی ملنے کی خواہش ہوتی تھی۔ میں اسے اپنے پاس اپنی طرف متوجہ سمجھتا تھا۔ سب کہتے تھے دیکھو دیکھو! کیسا ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے۔ آنکھ بھی نہیں جھپکتی۔ میں اسے دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑتا تھا کیونکہ میں اسے اپنی طرف مائل پاتا تھا اور پھر اسے پکڑنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتا تھا مگر آہ! چاند دور تھا، حسن بھی دھوکہ دیتا ہے۔ ‘‘
سجاد حیدر یلدرم،چاند : اردو ایسیز،ص ۳۷
۲۔منشی پریم چند :
’’یوں تو گالیاں بکنا ہمارا سنگھار ہے۔ مگر بالخصوص عالم غیض و غضب میں ہماری زبان جولانی پر ہوتی ہے غصہ کی گھٹا سر پر منڈلاتی اور منہ سے گالیاں موسلا دھار مینہ کی طرح برسنے لگتی ہیں … حریف کی ہشتاد پشت کو زبان کی نجاست سے لت پت کردیتے ہیں۔ علیٰ ہٰذا فریق مخالف بھی دور سے کھڑا ہماری گالیوں کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہا ہے، اسی طرح گھنٹوں تک گالی گلوچ کے بعد ہم دھیمے پڑ جاتے ہیں اور ہمارا غصہ کم ہوجاتا ہے … جن گالیوں کو سن کر ہمارے خون میں جوش آجانا چاہیے ان گالیوں کو ہم دودھ کی طرح پیتے ہیں اور پھر اکڑ کر چلتے ہیں گویا ہمارے اوپر پھولوں کی برکھا ہوئی ہے۔ یہ بھی قومی زوال کی ایک برکت ہے۔‘‘
پریم چند،گالیاں : مشمولہ اردو کا بہترین انشائی ادب،ص ۱۷۳،مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی
۳۔سید احمد دہلوی :
’’بے چارے مفلس کے ناخن دیکھو تو کدالیں نکل رہی ہیں، مونچھوں پر نظر ڈالو تو منہ کے اندر جارہی ہیں ریچھ کے سے بال بڑھ رہے ہیں۔ لوگ اس سے بھاگتے ہیں وہ لوگوں سے شرماتا ہے ٹوٹی جوتی ہے تو پھٹا انگرکھا ہے۔‘‘
سید احمد دہلوی،مفلسی : مشمولہ اردو کا بہترین انشائی ادب،ص ۳۴،مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی
۴۔مہدی افادی :
’’عورت بہ اعتبارِ خدمت ایک خوبصورت گلدستہ ہے جس کی ساخت میں نہایت نازک پھول پتیاں صرف ہوئی ہیں۔ جس طرح پھول کی پتیوں میں نازک رگیں نسیں اور باریک نقش و نگار ہوتے ہیں عورت کا دل و دماغ بھی ہر طرح کی لطافتوں اور نزاکتوں کا مخزن ہوتا ہے جس کے بیل بوٹے قدرت کی بہترین نقاشی ہیں ان ہی باریک حسیت و جذبات کا ابھارنا اور ان کے نشو و ارتقائے تدریجی کے سلسلے کو قائم رکھنا چاہنے والے کا اصلی فرض ہے۔
مہدی افادی،بحوالہ طنزیات و مضحکات
۵۔مولانا ابوالکلام آزاد :
’’صبح کے ساڑھے تین بجے ہیں۔ اس وقت لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو معلوم ہوا سیاہی ختم ہورہی ہے۔ ساتھ ہی خیال آیا کہ سیاہی کی شیشی خالی ہوچکی تھی نئی شیشی منگوانی تھی، مگر منگوانا بھول گیا۔ میں نے سوچا تھوڑا پانی کیوں نہ ڈال دوں؟
یکایک چائے دانی پر نظر پڑی میں نے تھوڑی سی چائے فنجان میں انڈیلی اورقلم کا منہ اس میں ڈبو کر پچکاری چلا دی پھر اسے اچھی طرح ہلا دیا کہ روشنائی کی دھوون پوری طرح نکل آئے اور اب دیکھئے کہ روشنائی کی جگہ چائے کے تند و گرم عرق سے اپنے نفس ہائے سرد صفحہ قرطاس پر نقش کررہا ہوں۔‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد،غبارِ خاطر،ص ۱۴۷
۶۔حالی :
’’ اے بلبل ہزار داستان! اے میری طوطی شیوہ بیان! اے میرے قاصد! اے میری ترجمان! اے میری وکیل! اے میری زبان! سچ بتا تو کس درخت کی ٹہنی اور کس چمن کا پودا ہے کہ تیرے ہر پھول کا رنگ جدا ہے اور تیرے ہر پھل میں نیا مزہ ہے کبھی تو ایک ساحر فسوں ساز ہے جس کے سحر کا رد نہ جادو کا تار، کبھی تو ایک افعی جاں گداز ہے جس کے زہر کی دارو نہ کاٹے کا منتر، تو وہی زبان ہے کہ بچپن میں کبھی اپنے ادھورے بولوں سے غیروں کا جی لبھاتی تھی اور کبھی اپنی شوخیوں سے ماں باپ کا دل دکھاتی تھی۔ وہی زبان ہے کہ جوانی میں کبھی اپنی نرمی سے دلوں کا شکار کرتی تھی اور کہیں اپنی تیزی سے سینوں کو فگار کرتی تھی۔‘‘ مولانا حالی،زبانِ گویا : اردو ایسیز،ص ۶۳
۷۔عبدالحلیم شرر :
’’آہ کیسی اچھی اچھی جگہ تیرا گزر ہوتا ہے اور تو کیسی کیس لطف کی صحبتوں میں پہنچ جاتی ہے۔ تو آزادی کا نمونہ، محبتوں کا بے باک ہاتھ یا ہماری تمنا ہے۔‘‘ عبدالحلیم شرر،صنف انشائیہ اور انشائیے : ڈاکٹر سید محمد حسنین،ص ۴۹
۸۔رشید احمد صدیقی :
’’ اس وقت ہندوستان کو دو خطرات درپیش ہیں ایک سوراج کا اور دوسرے تعلیم یافتہ بیوی کا لیکن غور کیا جائے تو سوراج اور تعلیم یافتہ بیوی دونوں ایک ہی ہیں کیونکہ چار پائیت دونوں حالتوں میں نمایاں ہیں۔ سوراج تو وہ ایسا چاہتا ہے جس میں انگریزوں کو حکومت کرنے اور ہندوستانیوں کو گالی دینے کی آزادی ہو اور بیوی ایسی چاہتا ہے جو بیوی ہونے سے زیادہ تعلیم یافتہ یعنی گالیاں دینے سے بہتر تالیاں بجا سکتی ہو۔‘‘ رشید احمد صدیقی،’’چارپائی‘‘ مشمولہ اردو ایسیز،ص ۱۵۲
۹۔کرشن چندر
’’وٹامن سیب کے گودے میں نہیں سیب کے چھلکے میں ہوتا ہے۔ ناشپاتی کے خول میں ہوتا ہے۔ سنگترے کے ریشوں میں ہوتا ہے۔ آم کے روئیں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر لوگ اصرار کرتے ہیں کہ روٹی پکاتے وقت گیہوں کے آٹے سے بھوسی کو الگ نہیں کرنی چاہیے … چنانچہ میں اپنے مہمانوں کو جو اکثر وٹامن کے عاشق ہوتے ہیں بڑی آئو بھگت کرتا ہوں، خود سیب کا گودا کھاتا ہوں انھیں چھلکے کھانے کو دیتا ہوں۔ خود چاول کھاتا ہوں، ان کے لیے بھوسے کی روٹی میز پر رکھتا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر گیان چند،کرشن چندر ایک تاثر،ص ۲۳
اکیسویں صدی میں بھی ’’انشائیہ‘‘ لکھا جارہا ہے۔ لکھنے والوں میں بعض بیسویں صدی میں بھی لکھ رہے تھے۔ بعض دنیا سے گذر چکے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ انشائیہ کے نام پر جو کچھ لکھا جارہا ہے ان سب کو انشائیہ تسلیم کرلیا جائے مگر وہ لوگ جو دعویٰ کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں یا جنھیں عام طور سے انشائیہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے، ان کے نام یہ ہیں :
شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور، کرشن چندر، فکر تونسوی، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا، کرنل محمد خان، عطاء الحق قاسمی، خامہ بگوش، مجتبیٰ حسین، یوسف ناظم، فرحت کاکوروی، احمد جمال پاشا، رام لال نابھوی، اندر جیت لال، مانک ٹالہ، پرویز یداللہ مہدی، وجاہت علی سندیلوی، انجم مانپوری، سید ضمیر دہلوی، جاوید وششٹ، دلیپ سنگھ، عابد معز، نریندر لوتھر، مسیح انجم، علیم خان فلکی، جہاں قدر چغتائی، رئوف خوشتر، شفیقہ فرحت، حلیمہ فردوس، ڈاکٹر حبیب ضیا، انیس سلطانہ، ڈاکٹر لئیق صلاح، فرزانہ فرح، ڈاکٹر سید محمد حسنین، اعجاز علی ارشد، مناظر عاشق ہرگانوی، منظور الامین، منظور عثمانی، رشید قریشی، ممتاز مہدی، رشید الدین، شمیم کلیم رئوف پاریکھ، جہانگیر انیس، ڈاکٹر راہی قریشی، عباس علی متقی، مرزا کھونچ، مختار ٹونکی، مسرور شاہجہاں پوری، ممتاز مہدی، پروفیسر شمیم کلیم، علیم جہانگیر مختار یوسفی، بانو سرتاج، رفیق شاکر، بابو آر کے، ایس ایس علی، حیدر بیابانی، محمد طارق کھولا پوری، ثریا صولت حسین، ایس ایس علی، شاہد رشیدوغیرہ۔
انشائیہ کے نقوش میر ناصر علی، نیاز فتح پوری، سجاد انصاری، فرحت اللہ بیگ، مہدی افادی کی تحریروں میں ملتے ہیں۔ البتہ اس کی زیادہ ترقی یافتہ شکل خواجہ حسن نظامی، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، کنھیا لال کپور، فرقت کاکوروی کے یہاں نظر آتی ہے۔ بعد کے دور میں وزیر آغا، نظیر صدیقی، کرنل محمد خاں، ابن انشا، احمد جمال پاشا، مشتاق احمد یوسفی، مجتبیٰ حسین نے انشائیہ کی صنف کو فروغ و استحکام عطا کیا۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!