اپنی بات
ایک شخص کسی ادیب کے پاس رہ کر ادب کے اسرار ورموز سیکھنے کا خواہاں ہوا۔ ادیب نے اپنی مصروفیت کا بہانہ کرکے اس کو شام تک شہر کے چوک پر بیٹھنے کو کہا۔ شام کو وہ شخص جب ادیب کے سامنے حاضر ہوا تو اس نے پوچھا کہ تم نے چوک پر کیا دیکھا۔ اس نے جواب دیا کہ کچھ خاص نہیں، گاڑیاں آرہی تھیں، جارہی تھیں۔ کچھ لوگ پیدل آجارہے تھے۔ کچھ لوگ خریداری میں مصروف تھے۔ ادیب نے پوچھا کہ بس اتنا ہی؟ اس شخص نے تعجب سے کہا کہ جی، بس یہی سب میں نے دیکھا۔ ادیب نے اس سے کہا: بیٹا! تم کوئی اور کام دیکھو۔ ادب تمہارے بس کا روگ نہیں۔ جب تمہیں پورے دن چوک پر کوئی قابل ذکر چیز نظر نہیں آئی تو سمجھ لو کہ ادب کی دنیا تمہارے لیے نہیں ہے۔
اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ادیب اپنا مواد سماج اور معاشرہ سے لیتا ہے۔ سماج میں جوکچھ ہورہا ہوتا ہے اس پر اس کی گہری نظر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کو سماج کا آئینہ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ ساری باتیں شاید اردو ادیبوں کے لیے نہیں ہیں۔ یا معاملہ یہ ہے انہیں چبا کر اگل دیئے گئے نوالے ہی کھانے کی عادت ہوگئی ہے۔ ہمارے ادیب کسی موضوع پر اس وقت لکھنا شروع کرتے ہیں جب دوسری زبانوں کے لیے وہ موضوع فرسودہ ہوچکا ہوتا ہے۔ حال ہی میں کئی اہم موضوعات سامنے آئے۔ ہجومی تشدد ، اظہار رائے کی آزادی پر حکومتی قدغن اورکرونا ایسے سامنے کے موضوعات تھے جن پر اردو میں اچھی شاعری ہوسکتی تھی۔ اچھے افسانے اور ناول لکھے جاسکتے تھے۔ یہ موضوعات اپنے اندر بہت سے ذیلی موضوعات رکھتے ہیں۔ ہجومی تشدد کے پیچھے کی نفسیات، اس کے اسباب وعوامل،متاثرہ خاندانوں کی روداد وغیرہ۔ کرونا کی وجہ سے دنیا کی بدلتی صورتحال ، مزدوروں کی ہجرت، بھوک، مہنگائی، بے روزگاری اور حکمرانوں کی نااہلی جیسے بے شمار زاویے سامنے آسکتے ہیں جن پر ہمارے شاعر اور ادیب اپنی تخلیقات پیش کرسکتے ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ ان موضوعات پر ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے تخلیقات نہیں پیش کی ہیں۔ اخبارات ورسائل کے ادبی صفحات پرشاعری اور افسانے کی شکل میں کچھ چیزیں سامنے آئی ہیں لیکن اب تک جو مواد سامنے آیا ہے وہ کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے قابل اطمینان نہیں ہیں۔
عام طور پر سامنے کے موضوعات پر قلم اٹھاتے وقت ہمارے ادیب ادب اور صحافت کے درمیان کی لکیر کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ فسادات کے موضوع پر جو افسانے لکھے گئے ان میں سے اکثریت فن کی کسوٹیوں پر کھرے نہیں اترتے۔ انہیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ افسانہ نگاروں نے انہیں ہضم کیے بغیر افسانے کی شکل میں باہر نکال دیا ہے۔ حال کے موضوعات پر بھی جو تحریریں سامنے آئی ہیں وہ بھی کچھ اسی طرح کی ہیں۔ مستقبل کا قلم کار جب ہمارے زمانے کے موضوعات پر کام کرنا چاہے گا تو کیااس کے پاس وافر مقدار میں مواد ہوگا؟ شاید نہیں۔ اس لیے کہ ہمارے ادیب عصری حثیت سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے ادیبوں کا ایک بڑا طبقہ اسی طالب علم کی طرح ہے جس کے سامنے موضوعات ہاتھ باندھے کھڑے ہیں لیکن اسے دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی انہیں یہ بتانے والا نہیں ہے کہ ادب ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔
قارئین اردو رسرچ جرنل کے لیے یہ خبر باعث مسرت ہوگی کہ تہران یونی ورسٹی، ایران نے اس جرنل کو اپنی منظور شدہ جرنل کی لسٹ میں شامل کرلیا ہے۔ اس کے لیے ہم ڈاکٹر فرزانہ لطفی اور تہران یونی ورسٹی کے ذمہ داران کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔
یہ شمارہ کیسا لگا، ہمیں آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
عزیر اسرائیل
Leave a Reply
Be the First to Comment!