تبصرہ: حسرتوں کے سرہانے

نام کتاب: حسرتوں کے سرہانے  (شعری مجموعہ)

مصنف:                   شاہیؔ شہباز

کُل صفحات :           (  ۲۲۴)

سالِ اشاعت:            ۲۰۲۱؁ ء

  ناشر/پبلشر:    انک لنکس پبلشنگ ہاوس پانپور،سری نگر کشمیر

تبصرہ وتجزیہ: ڈاکٹر محمد حسین زرگر،صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج پلوامہ

جواں سال شاعر شاہیؔ شہباز کا اصل نام شہباز مشتاق ہے شاہی ؔانہوں نے شعری تخلص رکھا ہے۔موصوف اس وقت ڈگری کالج پلوامہ میں زیرِ تعلیم ہیں۔ان کے شعری مجموعہ”حسرتوں کے سرہانے” کو پہلی بار دیکھ کر میں ذاتی طور اس مخمصےمیں پڑا کہ آیا یہ کلام واقعی کسی طالب ِ علم کا ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں جو بالغ النظر سوچ ،ادراک ،فکر،جذبہ ،تڑپ ،درد،تجربہ وغیرہ  میں نے محسوس کیا اُس کی توقع آ ج کے جیسے طالبِ علم سے کم ہی کی جاسکتی ہے۔بہرحال میں نے مختلف ذرائع سے موصوف کو سمجھنے کی پہل کی جس میں  اُن کے ہم جھولی وسوشل میڈیا کا فیس بُک اکاونٹ بہ طور خاص شامل ہے۔ان ذرائع سے میرا مخمصہ دور ہوا اور میں دھیرے دھیرے طالبِ علم کی اہلیتوں کا قائل ہوا۔اگرچہ میری تقرری بھی اسی کالج میں ہے تاہم  کووڈ۔19 کے پیش نظر آف لائن کلاسس پر قدغن نے روبرو آنے کے مواقعے مسدود کیے۔

شعری مجموعہ میں تخلیقات کی کُل تعداد (۶۲)ہے جس میں (۸) تخلیقات نظم کے زمرے میں آتی ہیں۔(۴)آزاد،(۳)معرٰی اور ایک پابند نظم ہے۔غزلیات میں کئی غزلیں غزل مسلسل کا انداز لیے ہیں۔مجموعے کا عنوان”حسرتوں کے سرہانے” مجموعے میں شامل اسی عنوان کی نظم سے لیا گیا ہے جس کے چند بول یہ ہیں:

کسی اپنے کارونا

(جس کی وابستگی دل کی گہرائیوں سے ہو)

برداشت نہیں ہوتا

اور انسان جیتے جی مرجاتا ہے

میرے ساتھ بھی یہی ہوا

اور میں لیٹ گیا

حسرتوں کے سرہانے

اس کربناک درد کے پیچھے ظاہر ہے شاعر کا کوئی اپنا رہا ہے جس کے ہجر میں الفاظ صفحہ قرطاس پر آکر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔چناچہ یہ دیکھا گیا ہے کہ کوئی غیر معمولی واقعہ شاعرانہ طبیعت رکھنے والے حساس فرد کو بڑا شاعر بنانے میں مہمیز ثابت ہوتا ہے۔اگرچہ تصنیف کے “بین السطور” میں موصوف اپنے پاپا کی ذاتی  جیل ڈائری(روزنامچہ)سے متاثر ہونے کا سب سے بڑا وسیلہ گردانتے ہیں ۔بقول اُن کے:”

شاعری کا چسکا مجھے طالبِ علمی کے زمانے سے ہی لگ چکا تھا ۔چناچہ اسی کےبدولت چند عظیم شعراء کو پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے”

شعری  مجموعے کا “پیش گفتار” مشتاق علی خاکی صاحب نے بڑے ہی خوبصورت اور جامع الفاظ میں تحریر کیا ہے۔یہاں پر اس بات کا ذکر بجا ہے کہ موصوف نے کلام سے اُبھرتے ہوئے  انقلابی رجحان  کو موضوع  سُخن تو بنایا ہے لیکن  حاوی رُجحان ” متصوفانہ فکرو نظر” کا ذکر نہیں کیا ہے یہ پہلو غالباً ان سے چھوٹ گیا ہےیا نظر انداز ہوا ہے اس کا جواب موصوف کی ذاتِ گرامی کا حصہ ہے۔

یہ بات یہاں قابلِ ذکر ہے کہ موصوف کی عصری حالات پر بھر پور نگاہ ہے۔خاص کر وادی کے سیاسی ،سماجی اور تہذیبی نشیب وفراز پر  ۔۔بہ ایں ہمہ صحت مند روایات کی ناقدری،رشتوں کا احساس،رشوت خوری،مکاری،خودغرضی،پیسہ خوری۔۔غرض زندگی کی گونا گوں حرکات و حرارت پر شاعر کی نظر ہے۔

شاعر کے یہاں اُن کی تخلیقات کو پڑھ کر واضح طو پر دو حاوی رُجحانات سامنے آتے ہیں:

۱۔ انقلابی کیفیت

   ۲۔ متصوفانہ فکرو نظر

مبتدی رجحان کے دلیل میں چند اشعار پیش خدمت ہے:

سچائی ہے اس بستی میں سانسوں پر ہے پابندی    لیکن ڈر مت ظالم سے تو جینا ہے تو کُھل کے جی

ہر طرف تخریب کی آندھی چلی ہے        اے نشان روشنی چل بھاڑ میں جا

کیا رواں تم سُرخ چشمہ دیکھ لو گے     چیر کر جو میرا سینہ دیکھ لو گے

موخر الذکر رُجحان کے دلیل میں درج ذیل اشعار پیش خدمت ہے:

ہر جگہ ہے خدا خدا موجود     اس کا نام ونشان دھوکہ ہے

 وہ شب وروز جس کو تکتے ہو   ہاں وہی آسماں دھوکہ ہے

کھیل گر یہ دوزخ وجنت کا ہے تو       خاک ہے پھر بندگی چل بھاڑ میں جا

طواف من شدی کرکے میں سمجھا        وہی آغاز اور انجام مرشد

من کے اندر ھُو کی آوازیں سُنائی دے رہی ہیں       میرے دل یہ کیا حقیقت تم چھُپائے پھر رہے ہو

جب سے دروازوں کو میں نے بند کیا     تب سے دل کا تالا کُھلتے دیکھا ہے

شاعری تخیل اور تجربے سے بنتی ہے۔عموماً بلند پایہ شعراء نے کسی موضوع کی بابت  محض تخیل کے  اونچے گھوڑے دوڑا کر اپنا نام کمایا ہے۔جب موضوع تصوف کا ہو تو یہاں تخیل تجربے سے الگ نا ہو۔ظاہر ہے تجربہ ایک عملی چیز ہے تو بغیر عمل کے تجربے کا اظہار ایسا ہی ہے جیسے بے سر پیرکی۔ہاں فکر کو پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں ۔مزاج  کی رَمق سے  اشعار کو آمیز کرنا بجا ہے۔لیکن تجربے کے اظہار کے لیے شاعر کو خود صوفی بننا پڑے گا یہ میرا ماننا ہے۔تصوف کسی رسم کا نہیں ،وادی عشق کا نام ہے جہاں تحقیق و تجربے کو بنیادی اور اولین اہمیت حاصل ہے۔مثال کے لیے:

محب ،محبوب میں بس فاصلہ ہے   بقر کی ابتدا کا لام مرشد

مندرجہ بالا  شعر کےمضمون کے دو پہلو ہے۔ایک علمی، ایک عملی۔اگر محض علمی بنیاد پر کہا جائے تو رسم کہلائے  گااور اگر عملی بنیاد پر کہا جائے تو تجربہ کہلائے گا۔عشق مجاز کی حد تک  رسمیہ ہوناتو صحیح ہے لیکن جب بات حق یا حقیقت کی ہو تو یہا ں  محض رسمیہ ہونا روا نہیں۔

ہیئت اور پیشکش کے اعتبار سے بات کی جائے تو موصوف کو میں “جدت طراز” جیسے نام سے منسوب کروں گا۔ایک نظم الف” کے عنوان سے انتخاب میں شامل ہے جو کُل (۱۲) اشعار یعنی (۲۴)مصرعوں پر مشتمل ہے۔مذہبی رنگ لیے نظم کا ہر ایک مصرعہ حروف تہجی کے (الف) سے شروع ہوتا ہے۔چند اشعار پیش خدمت ہے:

الف ایمان  ہے جو زندگی میں رنگ لائے گا       الف اللہ ہے،ہر پل جِسے تو ساتھ پائے گا

الف آغاز آدم ہے جو چاہے کچھ بھی ہو لیکن      الف انجام ہے ،جو خاک میں آخر ملائے گا

الف سے اشک ہے شاہیؔ جو آنکھوں کا ہے سرمایہ      الف پر غور کر ورنہ فقط “شک” ہاتھ آئے گا

اردو زبان وادب میں ایسی کوئی نظم شاید ہی میری نظروں سے گذری ہے۔اب اگر ردیف وقافیہ کی بات کی جائے تو کلام شاہیؔ کے یہاں ایسے ردیف وقوافی کااستعمال ملتا ہے جو بہت کم شاعروں کے یہاں  دیکھنے میں آتا ہے:

تھے ہم۔۔۔مرشد۔۔۔مولا۔۔۔توبہ توبہ۔۔۔یعنی۔۔۔۔چل بھاڑ میں جا۔۔۔سائیں نہ پوچھ۔۔۔۔قبول ہے جی۔۔۔وغیر ہ

شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کی   مشہورو معروف غزل کی زمین میں ایک غزل ہے:

ترے عشق کی انتہا چاہتاہوں        مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں      (اقبالؔ)

زمین جانتا ہوں فلک جانتا ہوں    یہاں تک کہ تیری دھڑک جانتا ہوں

میں اس بار پورا مروں گا قسم سے       دکھائی جو تم نے  جھلک جانتا ہوں      (شاہیؔ)

سدرشن فاکرؔ اردو کے ایک خوبصورت شاعر رہے ہیں ان کی ایک مشہور نظم ہے:

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو

مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

اب دیکھیے اسی مزاج ومنہاج کی ایک خوبصورت غزل شاہیؔ نے تخلیق کی ہے:

جہاں گر پڑا ہوں وہاں سے اُٹھادے        وہ بچپن کی یادیں مجھے پھر سُلادے

وہ جس کو میں سرہانے رکھتا تھا شب بھر   وہ یادوں کی گُڑیا کہیں سے دلا دے

میں تاریکیوں سے بہت ڈر رہا ہوں    وہ جادو کی جھپی ،لوری سُنادے

رشتوں کی ناقدری کا احساس اور بیٹی کی فریاد میں ایک پوری غزل ہے:

میں زینت ہوں لکھا ہے صاف یہ قرآن میں بابا        مگر تم نے لگایا داغ میری شان میں بابا

تحفظ تجھ سے تھا میرا ،میری عصمت کے رکھوالے      رہا کیا فرق تجھ میں اور اک حیوان میں بابا

شاہی ؔہندی روایات سے بعض الفاظ چُن لیتے ہیں اور ان کی  آمیزش سے بیان کو لطف آمیز بناتے ہیں ۔جیسے:دیپک ۔جانی ۔سائیں ۔ناٹک۔ڈھولک۔پونجی۔پنچھی۔جانم ۔نراش ۔رُت ۔میاں۔سنسار۔بھاشن۔پونجی ۔ڈھولک۔وغیرہ یہ اور ان جیسے الفاظ ان کے کلام میں گردش کرتے نظر آتے ہیں۔

 ہندی روایات سے قربت ایک خوش آئند قدم ہے۔آج بھی دیکھا جائے تو کوئی زبان اردو سے اتنی قریب نہیں ہے جتنی کہ ہندی ہے۔عربی وفارسی سے اردو کا رشتہ مسلم ہے ہندی سے میل جھول بڑھانا اردو کی فطرت میں شامل ہے اور اردو کو اپنی فطرت پر استوار رکھنا بہت اچھا قدم ہے۔

چند اشعار حقیقت نگاری کا غضب رنگ  لیے ہیں جنہیں قارئین کی بصارتوں کے نظر کرنا ضروری بنتا ہے:

جب سے ہم اس باغ میں آئے تب سے تو

مالی کو بس  پھول مسلتے دیکھا ہے

شام سے پہلے سورج  ڈھلتے دیکھا ہے     میں نے سب کا چہرہ بدلتے دیکھا ہے

اک پنچھی ہوں،ٹوٹے پر ہیں ،شاخ پہ آخر مرنا ہے

ٹوٹے پروں کو ہجرت کا میں جھوٹا دلاسا کب تک دوں

ہیں کتنی صورتیں پنہاں ،خدا را اب دکھا جہلم        کوئی شہر خموشاں ہے ترے اندر بتا جہلم

عاجزی اختیار کرلی ہے      ہم نے حد ہی پار کرلی ہیں

تم سے اتنی ہی گزارش ہے میری        میں ترا ہوں تو مجھے اپنا بنا

مجموعی اعتبار سے شاہی شہباز کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو یہ جواں سال شاعر اردو زبان وادب کی روایتوں کا پاسدار بھی ہے اور جدت کا طرفدار بھی ہے۔  اسےغزل کی فنی وہئیتی تکنیک کی شدھ بدھ  بھی ہے اور موضوعات میں تنوع کی بو قلمونی بھی ہے۔نظموں میں ” قلم خون دل میں ڈبوں کر لکھوں گا” جذبہ و درد سے بھری ہوئی ہے۔شاعر کو اپنے وطن کی ہر اک چیز پیاری ہے۔ظلم کی انتہا میں شاعر امید کا دامن نہیں چھوڑتا :

نہ گھر ہی لُٹیں گے ،نہ ہی آشیانے

نہ بچھڑیں گے اپنے ،نہ روئے گا کوئی

وطن کو میں اپنے بچانے کی خاطر

قلم خون  دل میں ڈبو کر لکھوں گا!

میں سب کچھ لکھوں گا ! میں سب کچھ لکھوں گا!

مجموعے میں شامل دوسری  معٰری و آزاد نظمیں تلاش وتجسس اور اپنے آپ کو پانے کا گُمان درشا رہی ہیں۔فراریت یا تبدلی جیسے نوجوانی سے بچپن کی طرف لوٹنے کی جستجو دراصل شاعر کی باطنی کیفیات کو اُجاگر کرتی ہے۔شاعر دنیا کے جھمیلوں سے دور کہیں فرصت سے

 سکون کے لمحات میں ایام گزارنے کا خواہاں ہے۔یہ حسرت تب دلوں میں پنپتی ہے جب  دنیا اور دنیا والوں کی سچائی بے نقاب ہوجاتی ہے۔جب خواہشوں اور تمناوءں کے سوتے کمزور پڑجاتے ہیں:

فکرِ دنیا میں فقط رسوائیاں تھیں         اس لیے  فانی مکاں چھوڑے ہیں پیچھے

جانے دونا سب باتوں کو رہنے دو    میں فرقت میں اگلا ،پچھلا بھول گیا

بیسویں صدی ایک علمی دھماکے کی صدی سے منسوب ہوئی۔اکیسویں صدی بھی من وعن انہیں خطوط پر استوار ہے۔البتہ اس صدی میں تکنالوجی کا دھماکا ہو اجو بدل کر اب سائبر تیکنالوجی کے زیر نگین آیا ہے۔سارا جہاں  اب اسی تعا قب میں دھیرے دھیرےآرہا ہے۔حالیہ صدی اور بالخصوص گذشتہ صدی میں زبان اودب اگر کسی المیے کے شکنجے میں رہا تو وہ ہےتخیل اور تخلیقیت کا فقدان” اب اس مایوس صورتحال میں شاہیؔ شہباز جیسےتخلیق کاروں کا  سامنے آنا یقیناً اردو زبان وادب کے لیے نیک شگن ہے۔یہ جواں سال شاعر ثابت  قدم رہا تو یقیناً  شعرو ادب کی اونچائیوں کو چھوئے گا۔ایسے میں یہ محض ضلع پلوامہ یا مخصوص کالج کا اثاثہ نہیں بلکہ پوری وادی کا اثاثہ ہوجاتا ہے۔مولا  انھیں اپنے تخلیقی جوہر کو صحیح سمت دینے میں کامیابی سے نوازے۔

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.