قنوطی شاعری : ایک جائزہ

  مقصود خاں

 61 اوکھلا وہار ، جامعہ نگر ، نئی دہلی ۔

 mkhansp2016@gmail.com

قنوطیت  کا  تعارف

قنوطيت رجائیت  کا برعکس لفظ ہے- اداسی   مايوسی اس لفظ کے مترادفات ہيں- انسانی شعور کا يہ ايک منفی پہلو ہے- بہرکيف ہر انسان اس منفی کيفیت سے دو چار ہوتا ہے-  قنوطيت کا اردو شاعری ميں بہت  دخل ہے- اردو شاعری کا ايک بڑا حصہ اسی پر محیط ہے- لفظ قنوطيت سے مراد ہے- ” زندگی کا تاریک پہلو دیکھنا” (1 )-

اشتقاقی  اعتبارسے لفظ قنوطیت عربی زبان کے  لفظ”قنط”سےمشتق ہے- عربی اردو لغت “المنجد” ميں اسکے معانی ہيں”نااميدومايوس ہونا”- اردو   ميں   قنوطی اور قنوطیت   دونوں مستعمل ہے-  شاعری کی اصطلاح  ميں قنوطيت کےمعنی   مايوسی کے مضامين    ہيں – اس  حوالے سے “لاتقنطو” بھی اردو ميں مستعمل ہے-

٭ جسکی نومیدی سےہوسوز درون کائنات

اسکے حق ميں تقنطو اچھا ہے یا لاتقنطو  – (اقبال) (2 )

یعنی برے حالات کی توقع رکھنے کا رجحان،چیزوں کا صرف منفی اور تاریک پہلو  ديکھنا – خلاصہ کلام  قنوطيت ايک انداز فکر کا نام ہے- جسکے نزديک دنيا اچھی شئی نہيں- اسکی ہر چیز قبیح ہے-ايک انسان حيات کے ظلمت زدہ پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتا ہے-  دنيا سے کوئی بھلائی  کی اميد نہيں رکھتا – قنوطيت طرز احساس ہے-جسکا عمیق مطالعہ علم فلسفہ اور علم نفسيات کا موضوع ہے-

آکسفورڈ   ڈکسنری   آف   فلاسفی  کے مطابق قنوطيت کی اصطلاح  سب سے پہلے کولرج نے استعمال کی- اور قنوطيت کا بلکل صاف اور يقيني اظہار ڈرامہ نگارسوفوکليز کی طرف سے ہوا- امام غزالی نے ياس وقنوط کوايک روحانی مرض قرار ديا ہے- اديب ياتخليق کار چونکہ اسی سماج سے جڑا ہوتا ہے-  سماج کے برے حالات کا سيدھا اثر فرد   پر  پڑتا ہے- بقول ڈاکٹر اسلم انصاری “جبر وتشدد کے معاشرے ميں ايک اديب يا شاعراپنے معاشرے  کے  ساتھ محبت کا اظہار دو طرح سےيا  دو سطحوں پر کر سکتا   ہے- ايک معاشرے کےفرد کی حيثيت سے اور دوسرے ايک تخليق کار کی حيثيت سےاگرچہ يہ دونوں  حیثیتیں باہم مربوط ہيں-  اور ايک کو دوسرے سے الگ نہيں کيا جا سکتا – اگر جبر و تشدد کےحامل معاشرے ميں جبروتشدد کے خلاف کوی مزاحمتی عمل موجود ہے- تو ميرا  خيال ہے کہ ايک جينيس اديب اور شاعر قدرتی طورپر خود کو شريک محسوس کرےگا-“

اردو غزل ميں قنوطيت

اردو  شاعری ميں غزل شروع سے مقبول وممتاز رہی   ہے- یاس والم غزل کا بنیادی عنصر رہا ہے-کلاسکی شعراء سے جدید شعراء تک یاس و الم کے عناصرجابجا دیکھنے کو ملتے ہيں-   اردو غزل کی روايت ميں دردوالم اور ياس و قنوط کے عناصر شروع ہی سے شامل رہے- بقول ڈاکٹر  انور سديد “فارسی شاعری کے تتبع نے اردو شاعری کو ابتداء ميں ہی قنوطيت پسند بنا ديا”¬-  اردو غزل گوئی شروع سے ہی فارسی شاعری کی تقلید کرتی رہی ہے- فارسی شاعری میں وصل کے مقابلے میں فراق کے مضامین کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں –  اسی وجہ سے اردو شاعری میں بھی زیادتی کے ساتھ فراق کے مضامین کی بہتات ہے-  فراق کا قنوط سے گہرا ربط ہے-   لہاذا  فراق کے مضامین کے سبب ہی اردو شاعری کا ایک بڑا حصہ قنوطی ہے- اب ہم چند قنوطی شعراء کا تنقيدی جائزہ ليں گے-

  اردو غزل میں قنوطیت” کے زمرے میں ہم فانی بدایونی، ناصر کاظمی، ساغر صدیقی، جون ایلیا اور منیر نیازی کی حزنیہ شاعری کو زیر بحث لایں گے-

 فانی بدایونی (1941- 1879)

شوکت علی خاں فانی کا وطن اسلام نگر ، بدايوں تھا- پہلے شوکت تخلص رکھتے تھے- بعد میں فانی ہو گئے- عمر کا ایک بڑا حصہ وکالت میں گزارا- فانی کی شاعری میں حزن و ملال کو مرکزی حیثیت حاصل ہے- فانی کو شاہ قنوطیت کہنا غلط نہ ہوگا۔فانی کی حیات میں رنج و آلام کی بہتات تھی- اس کا براہ راست اثر ان کی شاعری پر پڑا-

حزنیہ عنصر کی زیادتی کے سبب ہی پروفیسر رشید احمد صدیقی نے فانی کو یاسیات کا امام قرار دیا ہے- قاری فانی کے شعر میں اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ وہ   کبھی کبھی داد تک دینا بھول جاتا ہے- فانی اپنے  والد کی سختی کے سبب چھپ کر شعر کہتے تھے- سو بہت سارا کلام ضائع ہو گیا۔فانی کی زندگی ایک داستان غم ہے – فانی کی نظر میں موت زندگی سے بہتر  اور زندگی کا مقصد ہے – فانی کے یہاں موت محبوب کا درجہ رکھتی ہے –

٭ فانی کی زندگی بھی کوئی  زندگی ہے يا رب

موت اور زندگی میں کچھ فرق چاہئے تھا-

٭ موت جس کی حیات ہو فانی

اس شہید ستم کا ماتم کیا –  (3)

فانی کے کلام میں بہت تاثیر ہے جو ان کی صداقت کا ثمرہ ہے – بقول مغنی تبسم “غالب کے بعد زبان کا ایجاز فانی ہی کے کلام میں ملتا ہے”-  فانی کے کلام میں قول محال کی کثرت  نمایاں ہے – فانی کے چند مشہور زمانہ شعر حسب ذیل ہیں-

٭ ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی

زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا- (4)

٭ سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے

کفن سرکاؤ   میری  بے زبانی   دیکھتے   جاؤ-  (5)

٭ موت کا انتظار باقی ہے

آپ کا انتظار تھا نہ رہا – (6)

٭ زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں

ہائےاس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں –  (7)

٭ کس خرابی سے زندگی فانی

اس جہان خراب میں گزری –  (8)

٭ ترک امید بس کی بات  نہیں

ورنہ  امید  کب  بر  آئی   ہے-  (9)

٭ مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلہ قید حیات

مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے-   (10)

٭ دنیا مری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے-  (11)

٭ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا –   (12)

٭ فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن

غربت جس کو راس نہ آئی  اور وطن بھی چھوٹ کیا-   (13)

٭ ادا سے آڑ میں خنجر کی منہ چھپائے ہوئے

مری قضا کو وہ لائے دلہن بنائے ہوئے-    (14)

٭  کیا چھپاتے کسی سے حال اپنا

دل ہی جب ہو گیا نڈال اپنا     –  (15)

ناصر کاظمی (1972-1923)

ناصر کاظمی  ان قنوطی شعراء ميں شامل ہيں جنکی عمر نے وفانہ  کی- انکے کلام ميں مايوسی کی فضا سايہ فگن ہے- اداسی مايوسی وغيرہ  ان کی غزل گوئی کے کليدی الفاظ ہيں- ‘رات’ لفظ کا استعمال ظلم و ستم، تنہائی اور اداسی کی علامت کے طور پر کیا جاتا ہےـ ناصر کاظمی کے یہاں ‘رات’ کا ذکر بڑی شدت کے ساتھ جگہ جگہ تنہائی اور اداسی کے معنوں میں مستعمل ہے-

٭ شہر سنسان ہے کدھر جائں

خاک ہوکر کہيں بکھر جائں-  (16)

٭ رات کتنی گذر گئی ليکن

اتنی ہمت نہيں کہ گھر جائں- (16)

٭ بھری دنيا ميں جی نہيں لگتا

جانے کس چيز کی کمی ہے ابھی-  (17)

٭ اس قدر رويا ہوں تيری ياد ميں

‎آئینےآنکھوں کے دھندلے ہو گئے-

٭ آج تو بےسبب اداس ہے جی

عشق ہوتا تو کوئی  بات بھی تھی-  (18)

٭ دل تو ميرا اداس ہے ناصر

شہر کيوں سائں سائں کرتا ہے- (19)

٭ چپ چپ  کيوں رہتے ہو ناصر

يہ کيا روگ لگا رکھاہے-  (20)

٭ او پچھلی رت کے ساتھی

اب کے برس میں تنہا ہوں-

٭ پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں

زمیں نگل گئی انہیں کہ آسمان کھا گیا-

ساغر صديقی (1974-1928)

ساغر کا اصل نام اختر تھا-  جائے ولادت امرتسر تھی – زندگی بہت افلاس و غربت ميں گزاری-ياس وحرماں انکی شاعری ميں بکثرت نظر آتی ہے- انکا مجموعہ ئکلام لوح جنوں کے نام سے شائع ہو چکا ہے  (21)-  چند شعر حسب ذیل ہیں –

٭ موت کہتے ہيں جسکو اے ساغر

زندگی کی کوئی  کڑی ہوگی-  (22)

٭ آج پھر بجھ گئے جل جل کے اميدوں کے چراغ

آج پھر تاروں بھری  رات نے دم توڑ ديا-  (23)

٭ اے دل بيقرار چپ ہو جا

جا چکی ہے  بہار چپ ہو جا-  (24)

٭ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں-

جون ايليا  (2002-1931)

جون کی ولادت 1931 ميں ہوئی- وطن امروہ تھا-  وہ ايک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے- جون کی شخصيت پر گھرےلو   ماحول کا براہ راست اثر پڑا- تقسيم وطن کے بعد کراچی ہجرت کر گئے- اور جاتے ہی وہاں کے ادبی حلقوں پر چھا گئے- 2002 ميں راہی ملک عدم ہوئے- جون روايت شکنی کے لئے مشہور ہيں- غزل ميں اپنے محبوب کے لئے تانيث کا صيغہ استعمال کياہے (25)-

٭ جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ  زندگی گزاری ہے-  (26)

٭ کتنی دلکش ہو تم کتنا دلجوہوں ميں

کيا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جايں گے-

٭کيا بتاوں کہ مر نہيں پاتا

جيتے جی جب سے مر گيا ہوں ميں-

٭ خود سے مايوس ہو کے بيٹھا ہوں

آج ہر شخص مر  گيا ہوگا-   (27)

منير نيازی (2006 – 1923)

٭ ‏عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منير اپنی

جس شہر ميں بھی رہنا اکتائے ہوئے  رہنا-

 منير نيازی کا اصل نام محمد منير خاں تھا – مولد خانپور ضلع ہوشيار پور تھا-   1947ميں بی  اے پاس کيا-  اگرچہ منير نے فلمی نغمہ نگاری ،پابند اورآزاد نظميں وغيرہ لکھيں ہيں-  مگر ان کا اصل ميدان غزل ہے-  آپ کی غزل گوئی  ميں ايک پراسراريت ہے-آپ کی غزل گوئی  ميں رات،  شام  وغيرہ کليدی الفاظ ہيں جو یاس و قنوط کے عکاس ہيں-

٭ اب کون منتظر ہے ہمارے لئے وہاں

شام آگئی  ہے لوٹ کے گھر جائں ہم تو   کيا-   (28)

٭ آگئی  یاد شام ڈھلتے ہی

بجھ گيا دل چراغ جلتے ہی-  (29)

٭ شہر کی گليوں ميں گہری تيرگی گرياں رہی

رات بادل اس طرح آئے کہ ميں تو ڈر گيا-   (30)

٭ زندہ   رہيں تو  کيا  ہے مر جائں ہم تو  کيا

دنيا سے خامشی سے گزر جائں ہم تو   کيا-  (31)

اردو نظم میں قنوطیت

اردو نظم میں یاس وحوماں سب سے پہلے حلقہ ارباب ذوق میں دیکھنے کو ملتی  ہے- حلقہ ارباب ذوق کے شعراء میں قنوط کا عنصر شدت کے ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے- حلقہ ارباب ذوق نے ترق پسند نظریہ سے انحراف کیا اور اجتماعیت کی جگہ انفرادیت پر زور دیا- تنہائی  اور مایوسی میں گہرا ربط ہے- دونوں لازم و ملزوم ہیں- اس لیے انفرادیت پر زور دینے کے نتیجے میں قنوط کی فضا جا بجا دیکھنے  کو ملتی ہے- حلقہ ارباب ذوق کا کوئی  شاعر اس سے مستثنا نہیں ہے- حلقہ ارباب ذوق نے اپنے اندر کی کائنات کو محور غور فکر بنایا- تمام ماہرین نفسیات کا اتفاق ہے کہ ذہن کے کسی نہ کسی گوشہ میں قنوط کا عنصر ضرور ہوتا ہے- جس پر غور دینے کے نتیجے میں یہ عنصر بڑی شدت کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق کے شعراء کے کلام مین نظر آتا ہے- داخلیت کو حلقہ میں اولیت حاصل ہے- جس کے سبب( یاس و حرماں جو ہر انسان کے اندرون میں کہیں نہ کہیں ہوتا ہے) قنوطی شاعری کا ایک بڑا حلقہ ارباب ذوق میں نظر آتا ہے-

جدیدیت میں قنوطیت

جدیدیت کا ایک تاریخی تصور ہے-  ایک فلسفیانہ تصور ہے اور ایک ادبی تصور ہے-  مگر جدیدیت ایک اضافی چیز ہے-  یہ مطلق نہیں ہے-  ہمارے ملک میں جدیدیت مجموعی طور سے انیسویں صدی سے شروع ہوتی ہے-  یہ جدیدیت مغرب کے اثر سے آئی ہے (32)-  جدیدیت ایک رجحان ہے جو ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد آیا ہے – اسکی شروعات 1960مانی جاتی ہے-  بقول وحید اختر “جدیدیت ترقی پسندی کی توسیع ہے”-

جدیدیت میں نظم اور غزل دونوں صنف کو فروغ حاصل ہوا – اگر چہ غزل کے مقابلے میں نظم کم کہی گئی- مگر جو نظمیں ہیں وہ انتخاب ہیں- جدیدیت میں اپنے اندر کی کائنات میں غور کرنے پر اسرار کیا گیا- جدیدیت کو ترقی پسند نظريہ کی رد کہ سکتے ہیں – تنہائی اداسی وغیرہ موضوعات کو شدت کے ساتھ پیش کیا گیا- جدیدیت میں انفرادیت احساس اور جذبہ کو مرکزی و بنیادی اہمیت حاصل ہے- اسی سبب جدیدیت کے زیر اثر لکھی گئی نظموں میں یاس و قنوط کا عنصر نمایاں طور سے دیکھنے کو ملتا ہے-

حواشی

 1-   فروزالغات   از    مولوی  فروزالدین صفحہ 136

2-  نظم جبریل و ابلیس   از    بال جبریل صفحہ   143

3-  کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ  80

4- کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ 46

5-     کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ  151

6-      کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ  70

7- کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ  137

8- کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ  162

9- کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ   241

10-    کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ  243

11- کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ  242

12- کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ  46

13-     کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ  85

14- کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ   214

15- کلیات فانی   از   نعمانی  پریس  دہلی   صفحہ  63

16- دیوان   مرتب  حافظ  یوسف  سدیدی  صفحہ  33

17- دیوان  مرتب  حافظ  یوسف  سدیدی  صفحہ 34

18- دیوان   طابع  شاہی  پریس  لکھنؤ صفحہ  46

19- برگ نے   ناشر   آزاد  بک  ڈپو  صفحہ  100

20- دیوان  طابع  شاہی  پریس  لکھنؤ  صفحہ  92

21- ریختہ   وب سائیٹ سے 8 جون 2021 کو لیا گیا – https://www.rekhta.org/poets/saghar-siddiqui/profile?lang=ur

22- دیوان ساغر    از  خیام  پبلیشرز  صفحہ 256

23- دیوان ساغر    از  خیام  پبلیشرز  صفحہ 50

24- مجموعہ  لوح جنوں  صفحہ 83

25- ریختہ   وب سائیٹ سے 8 جون 2021 کو لیا گیا –

 https://www.rekhta.org/poets/jaun-eliya/profile?lang=ur&_ga=2.138749621.762384919.1623138439-1471738694.1609169202&_gac=1.224942440.1620109262.Cj0KCQjwvr6EBhDOARIsAPpqUPHRYpwhaeoocUq7bkItnH7kI0iKX1BN8qkWNYvwNk1HGfgbO0h4Id8aAh2-EALw_wcB

26- مجموعہ  یعنی   کا   سر ورق

27- مجموعہ    زخم امید   صفحہ 233

28- چھ  رنگیں  دروازے  از  مکتبہ  منیر  صفحہ 61

29- مجموعہ  ماہ منیر  صفحہ 59

30-کلیات منیر  تیز ہوا اور تنہا پھول ”   صفحہ 31

31- مجموعہ چھ رنگیں دروازے   از   مکتبہ منیر  صفحہ61

سے 27 جون 2021 کو لیا گیا۔  ریختہ وب سائیٹ-32

https://www.rekhta.org/articles/adab-mein-jadidiyat-ka-mafhoom-aale-ahmad-suroor-articles?lang=ur

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.