تحقیقی مقالے کا اسلوب نگارش
عاطف شبیر
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، اٹک، پنجاب (پاکستان)
+92-341-5121510
atifofficial99@gmail.com
جب سے انسان معرض وجود میں آیا ہے، تو ہمہ وقت نامعلوم سے معلوم اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرم رہا۔ پر تجسس اشیاء کی کھوج اس کا بہترین مشغلہ رہا۔ ایک خاص تسلسل کے ساتھ انسان تحقیق سے جڑا رہا اور اپنی ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ مختصر یہ کہ انسان کے ارتقائی سفر کو تقویت بخشنے میں تحقیق کو بنیادی حیثیت حاصل رہی۔
علم التحقیق کے کسی بھی پہلو پر بات کرنے سے پہلے تحقیق کے مفہوم سے مکمل آگاہی نہایت ضروری ہے۔ تحقیق کا مفہوم بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل اختر اپنی کتاب ’’تحقیق اور علم التحقیق‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت و حقیقت معلوم کرنے کے لیے چھان بین اور تفتیش کرنا۔ اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی و نقلی مواد میں امتیاز کرنا، پھر تحقیقی قواعد و ضوابط کے مطابق اسے استعمال کرنا اور نتائج اخذ کرنا۔‘‘ (۱)
تحقیق اگر لفظ ’’تحقیق‘‘ کے مفہوم پر پوری نہیں اترتی تو اسے ناقص یا غیر معیاری تحقیق تصور کیا جائے گا۔ ہر دور میں علم التحقیق کے ماہرین نے تحقیق کے مفاہیم اور اصول واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کافائدہ یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے نئے محققین کے لیے بہت ساری آسانیاں پیدا ہوگئیں۔ محققین کے ہاں تحقیق کی تعریف یا مفہوم کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو تقریباَ سبھی ملی جلی آراء رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی بھی معاملے کی مکمل چھان بین، کھرے اور کھوٹے میں فرق، اصل اور نقل میں امتیاز وغیرہ جیسا خیال سب کے ہاں مشترکہ طور پر نظر آتا ہے۔
ادبی حوالے سے اگر بات کی جائے تو مختلف محققین نے اپنے اپنے مخصوص انداز میں ادبی تحقیق کا مفہوم سمجھانے کی کوشش کی ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر گیان چند جین اپنی کتاب ’’تحقیق کا فن‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:
’’جہاں تک اردو کی ادبی تحقیق کا تعلق ہے اس کا بھی یہی مقصد ہے کہ جن مصنفین، جن ادوار، جن علاقوں، جن کتابوں اور متفرق تخلیقات کے بارے میں کم معلوم ہے ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جائیں۔ ان کے بارے میں اب تک جو کچھ معلوم ہے اس کی جانچ پڑتال کر کے اس کی غلط بیانیوں کی تصحیح کر دی جائے۔ تاکہ غلط مواد کی بنا پر فیصلے صادر نہ کیے جائیں۔‘‘ (۲)
ادب اور تحقیق کا آپس میں بڑا گہرا رشتہ ہے۔ درحقیقت تحقیق کا بنیادی کام مستند حوالوں کے ساتھ ادبی حقائق کی نشاندہی کرنا ہے۔ ادبی تحقیق جہاں ادب کو اپنا موضوع بنا تی ہے تو وہیں ادیب کو بھی تحقیق کا حصہ بناتی ہے۔ ہمیشہ وہی تحقیق زیادہ جامع ہو گی جو معاصر جدید تحقیقی اصولوں کو مد نظر رکھ کر کی جائے۔ تحقیقی عمل کے دوران جہاں دیگر اصول اہمیت کے حامل ہیں، تو وہیں تحقیقی مقالے کا اسلوب نگارش بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔
اسلوب:
تحقیقی مقالے کے اسلوب نگارش کے حوالے سے بات کرنے سے قبل اگر ہم اسلوب کے معنی و مفہوم کا سرسری جائزہ لے لیں تو مقالے کی معنویت اور مقصدیت کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔ اسلوب کے لیے انگریزی زبان میں ’’Style‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور اردو میں ’’طرز‘‘ یا ’’اسلوب‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ عربی اور فارسی میں اس کے لیے لفظ ’’سبک‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اصطلاحی حوالے سے اگر بات کی جائے اس کے لیے اردو زبان و ادب میں اسلوب کے لیے ’’زبان و بیان‘‘، ’’اندازِ تحریر‘‘، ’’اندازِ سخن‘¬¬‘، ’’طرزِ تحریر‘‘ ’’رنگِ سخن‘‘ وغیرہ جیسی اصطلاحوں کا استعمال عمل میں لایا گیا ہے۔ اسلوب کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ اپنے مضمون ’’شیخ سر عبدالقادر: شخصیت اور فن‘‘ میں یوں لکھتی ہیں:
’’اسلوب کسی بھی تخلیق کار کا تعارف اور اس کے ذہن کا عکاس ہوتا ہے۔ اسلوب لکھنے والے کی انفرادی کوشش ہے کہ جس کی بنا پر اس کی تحریر کو دوسروں سے ممیز کیا جا سکتا ہے۔ بوفنٹ نے کہا تھا کہ اسلوب خود انسان ہے۔ اس بات سے اس لیے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ تخلیق کار خواہش اور کوشش کے باوجود اپنی تحریر سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتا۔ قاری اس کے تحت ا لشعور سے بھی اس کے لفظوں کے ذریعے آگاہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اسلوب تخلیق کار ہی کا دوسرا نام ہے۔‘‘ (۳)
اصطلاحِ عام میں اسلوب کسی بھی شخص کے مخصوص طرز تحریر کہتے ہیں، جس میں صاحبِ تحریر مخصوص الفاظ اور ہیئت کا استعمال کرکے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ جس طرح ہر شخص عام زندگی میں اپنا منفرد اور جداگانہ تشخص رکھتا ہے اسی طرح ایک قلم کار بھی اسلوب کے معاملے میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ بعض اوقات اسلوب کی مدد سے کسی بھی تحریر کے مصنف کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پرسر سید کی حقیقت نگاری، غالب کی حکیمانہ شوخی، حالی کی سنجیدگی وغیرہ ان کی تحریروں کوانفرادیت بخشتی ہیں۔ سید عابد علی عابد اپنی کتاب ’’اسلوب‘‘ میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
’’اسلوب سے مراد کسی لکھنے والے کی وہ انفرادی طرز نگارش ہے جس کی بنا پر وہ دوسرے لکھنے والوں سے ممیز ہو جاتا ہے۔‘‘ (۴)
اب یہ لکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ادبی دنیا میں اپنا تشخص کیسے قائم کرتا ہے۔ اس ضمن میں لکھنے والے کا تعلق خواہ تخلیق سے ہو یا تحقیق و تنقید سے اس کو انفرادیت بخشنے میں اسلوب اہم کردار ادا کرتا ہے۔
تحقیق کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو تحقیقی مقالے کیلئے استعمال ہونے والی زبان کو اکیڈمیک رائٹنگ کہتے ہیں۔ تحقیق کے دوران ایک محقق کو اسلوب کے حوالے سے مندرجہ ذیل باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے:
موزوں الفاظ کا استعمال:
تحقیق کے دوران ایسے متن کا انتخاب کیا جائے جس کی آپ کے موضوع کے ساتھ براہ راست مماثلت ہو، یعنی ہمیشہ موزوں الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ غیر موزوں الفاظ کا استعمال مقالے کی نہ صرف چاشنی اور حسن کو ماند کرتا ہے بلکہ تحقیق کو گنجلک بنا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر تحقیق سائنس کے کسی شعبے سے وابستہ ہے تو اس دوران سائنسی اصطلاحات کا استعمال کیا جائے اور اگر تحقیق زبان و ادب کہ کسی پہلو سے وابستہ ہے تو ادبی اصطلاحات کا استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ تحقیق کے دوران زیادہ مشکل اور دقیق الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے، کیوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قاری کو مقالہ پڑھتے ہوئے بار بار لغت کا سہارا لینا پڑے۔ لہذا محقق کو چاہیے کہ عام فہم اور سادہ الفاظ کا استعمال کر کے اپنا موضوع بیان کرے۔
تحقیقی مقالے میں جہاں متروک الفاظ استعمال کرنے کی پابندی ہے تو وہیں نئے الفاظ کو بھی تحقیقی مقالے کا حصہ نہ بنایا جائے۔ تحقیقی مقالے میں بازاری یا مقامی الفاظ کے استعمال سے بھی گریز کیا جائے کیونکہ ایسے الفاظ کے استعمال سے زبان میں سنجیدگی کا عنصر ختم ہو جاتا ہے۔ تحقیق کے دوران حتی الامکان کوشش یہی کی جائے کہ جس زبان میں تحقیق کی جا رہی ہے اسی زبان کے الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ کسی دوسری زبان کے الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے۔ تحقیق کے دوران عامیانہ اور عالمانہ الفاظ کے استعمال سے بچا جائے، ایسے الفاظ کی جگہ شگفتہ الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ اگر کہیں کسی دوسری زبان کے لفظ کو استعمال کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے تو اس لفظ کے ساتھ ہی بریکٹ میں اس کی مختصر وضاحت بھی کر دی جائے۔
مناسب اختصار:
کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم کی ادائیگی ایک معیاری مقالے کی خصوصیت ہے۔ ایک محقق کو چاہیے کہ وہ اختصار سے کام لے کر اپنا موقف بیان کرے۔ اس ضمن میں سادہ، آسان اور پر مغز الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اختصار اس قدر نہ ہو کہ تحقیق میں تشنگی باقی رہ جائے۔ لہذا تحقیق کے دوران مناسب اختصار سے کام لینا چاہیے۔ عام طور پر محقق مقالے کا پیٹ بھرنے کے لیے اضافی متن شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں مقالے کے ظاہری لوازمات تو پورے کر لیے جاتے ہیں لیکن مقالہ اپنا معیار اور وقار کھو دیتا ہے۔ عام طور پر اس صورت حال کا سامنا جامعات میں ہونے والی تحقیق کے محققین کرنا پڑتا ہے۔جہاں الفاظ کی قید و بند لازمی قرار پاتی ہے۔
آہنگ اور تسلسل:
تحقیق کے دوران محقق اپنے موضوع کو مکمل آہنگ اور تسلسل کے ساتھ پیش کرے۔ مقالے میں الفاظ، جملوں اور پیراگراف کے مابین ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ مقالے کی تحریر میں باہمی ربط ایک معیاری مقالے کی خوبی ہوتی ہے۔ حسب ضرورت پیراگراف کی شکل میں اپنا خیال بیان کیا جائے۔ اگر کوئی نیا خیال رقم کرنے کا ارادہ ہو تو اس کے لیے نیا پیراگراف بنایا جائے۔ پیراگراف بناتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ پیراگراف نہ تو بہت چھوٹے ہوں اور نہ ہی طویل ہوں۔
تعریف و توصیف سے گریز:
تحقیق اور تنقید میں اگر جانب داری کا عنصر آجائے تو یہ اپنا اصل مقام و مرتبہ کھو دیتی ہیں۔ واضح رہے کہ تحقیق یا تنقید کا دارومدار کسی ادبی فن پارے یا تخلیقات پر ہوتا ہے۔ تو اس ضمن میں محقق کو چاہیے کہ وہ ذاتی تعلقات کو بالائے طاق پر رکھ کر کسی بھی فن پارے کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لے۔ تحقیقی مقالے میں توصیفی کلمات کا استعمال نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ تعظیمی کلمات کا استعمال بھی تحقیقی مقالے کو زیب نہیں دیتا۔
علاوہ ازیں مقالے میں ناموں کے استعمال کے معاملے میں بھی انتہائی محتاط رویہ رکھا جائے۔ جناب، محترم، صاحب وغیرہ جیسے سابقوں اور لاحقوں کے استعمال سے اجتناب برتا جائے۔ اگر ڈاکٹر سلیم اختر کہ کسی فن پارے پر تحقیقی عمل انجام پا رہا ہو تو محقق کو چاہیے کہ حسب ضرورت ’’ڈاکٹر سلیم اختر‘‘ کا ہی استعمال کرے۔ مقالے میں ’’جناب ڈاکٹر سلیم اختر‘‘ یا ’’ڈاکٹر سلیم اختر صاحب‘‘ جیسے ناموں کے استعمال سے گریز کرے۔
مناسب حوالہ جات:
حوالہ جس قدر ٹھوس اور مستند ہوگا تحقیق اتنی ہی جامع اور معیاری ہو گی۔ تحقیقی مقالے میں جہاں محقق کے ذاتی افکار و خیالات اہمیت رکھتے ہیں تو وہیں اس سے بڑھ کر تحقیق کے دوران دیے گئے حوالے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سنی سنائی باتوں کا حوالہ دینے سے گریز کریں۔ حوالہ ہمیشہ مستند ذرائع سے پیش کریں۔ حوالہ ہمیشہ تحقیق سے متعلق ہی ہو اور اس کا مقصد تحقیق کو مستند بنانا ہو۔
اس کے علاوہ تحقیقی مقالے میں حوالہ دیتے وقت حوالہ دینے کے قواعد و ضوابط کو مد نظر رکھا جائے۔ حوالہ حسب ضرورت ہی دیا جائے۔ حوالہ دیتے وقت اختصار سے کام لیا جائے۔ یعنی حوالہ طوالت کی شکل اختیار نہ کر جائے۔ جا بجا حد سے زیادہ غیر ضروری حوالے تحقیقی مقالے کو غیر معیاری بنا دیتے ہیں۔ تحقیقی مقالہ اختلافات سے پاک شواہد اور دلائل پر مبنی ہونا چاہیے۔
ابہام سے پاک متن:
تحقیقی مقالے کا بیان دو ٹوک اور واضح انداز میں ہونا چاہیے۔ کسی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ ابہام سے پاک متن اچھی اور معیاری مقالے کی پہچان ہوتا ہے۔ تحقیق کے دوران اگر کسی وقت، تاریخ یا پھر کسی دور کا تذکرہ ہو تو کوشش کی جائے کہ ایسی واقعات رقم کرتے وقت کوئی ابہام نہ رہ جائے یا پھر قاری کو الجھن کا شکار نہ کر دے۔ مثلا:
سعید پچھلے کئی سالوں سے اس شہر میں رہ رہا ہے۔ (غیر معیاری جملہ)
سعید پچھلے پندرہ سال سے اس شہر میں رہ رہا ہے۔(معیاری جملہ)
مخففات و محاورات سے اجتناب:
تحقیقی مقالے میں بلاوجہ مخففات اور محاورات کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ ہر ممکن کوشش کے ساتھ تحریر سلیس و سادہ انداز میں ہونی چاہیے۔ جہاں محففات اور محاورات کے استعمال کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو تو کوشش کی جائے کہ ان کی وضاحت بھی ساتھ ہی ساتھ بریکٹ یا عام متن میں کر دی جائے۔ اکثر اوقات رقم کیے گئے محففات و محاورات سے عام قاری آشنا نہیں ہوتا۔ یوں ایسے قاری کے لیے تحریر کو پڑھنا اور اس کی معنویت تک رسائی ناممکن ہوجاتی ہے۔ لہذا تحقیقی مقالے میں حتی الامکان کوشش کے ساتھ مخففات اور محاورات سے بچنا چاہیے۔
ذاتی تعصبات سے پاک تحریر:
تحقیقی عمل کے دوران ذاتی پسند و ناپسند کوئی معنی نہیں رکھتی۔ غیرجانبدارانہ رویہ ہی معیاری تحقیق کی پہچان ہوتا ہے۔ درحقیقت تحقیی عمل پہلے سے موجود بنیادی و ثانوی ماخذات کو بنیاد کر وجود میں لایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں اگر محقق اپنی کوئی ذاتی آرا رکھتا بھی ہے تو انہیں مستند بنانے کے لئے اسے کسی دوسرے ذرائع سے حوالے دینے پڑیں گے۔ بصورت دیگر وہ مقالہ ایک شخصی رائے کے زمرے میں تو آ سکتا ہے لیکن کوئی تحقیقی مقالہ کہلانے سے قاصر رہے گا۔لہذا تحقیقی عمل کے دوران ذاتی پسند و ناپسند کو بالائے طاق پر رکھ کر حقائق یعنی نتائج کا برملا اظہار کرنا چاہیے۔
جذباتی طرز تحریر سے گریز:
تحقیق کا ایک مقصد قاری کو نئی سوچ اور فکر عطا کرنا ہوتا ہے۔ تحقیق کوئی وقتی جذبات کو ابھارنے کیلئے عمل میں نہیں لائی جاتی بلکہ یہ دائمی ہوتی ہے اور مستقبل کے محققین کا تحقیقی ماخذ بنتی ہے۔ لہذااس ضمن میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تحقیقی مقالہ قارئین کے فکر در وا کرنے میں معاون ثابت ہو۔
مکالماتی انداز سے پرہیز:
تحقیقی مقالے کا متن پر تکلف اور سادہ اسلوب میں لکھا جائے۔ تحقیقی مقالے میں مکالماتی انداز تحریر سے پرہیز کیا جائے۔ اس کے علاوہ ضمائر متکلم یعنی: ہم، میں، تم، ہمارا، میرا وغیرہ کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے الفاظ کے استعمال سے تحقیقی مقالے کا امتیاز اور انفرادیت ختم ہو جاتی ہے۔
عالمانہ انداز نہیں اپنانا چاہیے:
عام طور پر یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ تحریر جس قدر پیچیدہ اور تبدیل ہوگی وہی تحقیقی مقالے کے حسن کا باعث بنے گی۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ تحقیق میں جس قدر اختصار اور جامعیت ہوگی اس قدر معیاری اور جامع ہوگی۔ محقق کو چاہیے کہ سیدھے سادھے انداز میں اپنا موقف بیان کرے۔ تحقیقی مقالے میں تشبیہات، استعارات، ضرب الامثال اور محاوروں کا بلاوجہ استعمال تحریر کو زیادہ پیچیدہ اور مشکل بنا دیتا ہے۔ لہذا تحقیق کے دوران عالمانہ انداز کو اپنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
تحقیقی مقالے میں رموز اوقاف کا استعمال
عام بول چال کے دوران کہیں ٹھہرا جاتا ہے تو کہیں نہیں ٹھہرا جاتا یا پھر کہیں کم اور کہیں زیادہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ بول چال کے دوران یہ عمل یعنی ٹھہرنے، نہ ٹھہرنے یا پھر کم یا زیادہ ٹھہرنا بات کو صحیح اور واضح انداز میں دوسرے شخص تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تحریر کے دوران اس صورتحال کو واضح کرنے کے لیے کچھ علامتیں رائج ہے جنہیں ’’رموزاوقاف‘‘ کہا جاتا ہے۔ رموز اوقاف کے استعمال سے تحریر کو زیادہ واضح انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ رموز اوقاف کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے مولوی عبدالحق اپنی کتاب ’’قواعد اردو ‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:
’’اوقاف یا وقف ان علامتوں کو کہتے ہیں جو ایک جملے کو دوسرے جملے سے یا کسی جملے کے ایک حصے کو دوسرے حصوں سے علیحدہ کریں۔ ان اوقاف کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اول تو ان کی وجہ سے نظر کو سکون ملتا ہے، اور وہ تھکنے نہیں پاتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذہن پر جملے یا جزوِ جملہ کی اصلی اہمیت کو جان لیتا ہے اور مطالب سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔‘‘ (۵)
رموز اوقاف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحمید خان عباسی اپنی کتاب ’’اصولِ تحقیق‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’تحریری عمل، خواہ وہ تحقیقی ہو یا غیرتحقیقی، میں رموز اوقاف کا صحیح استعمال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر انہیں موقع و محل کے مطابق استعمال نہ کیا جائے تو عبارت کے مفہوم میں کی طرح کا خلل واقع ہوجاتا ہے۔‘‘ (۶)
اردو زبان و ادب میں رموز اوقاف کا استعمال مستشرقین کے ہاتھوں ہوا۔ انگریزوں کی آمد سے قبل ان کے استعمال کا باقاعدہ کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یوں بھی نہیں کہ یہاں سے باسی رموز اوقاف سے بالکل ناآشنا تھے۔ لیکن رموز اوقاف کا باقاعدہ استعمال انگریزوں کی آمد کے بعد ہی شروع ہوا۔ انگریزوں نے یہاں کے مقامی لوگوں سے میل جول کے لئے یہاں کی مقامی زبان یعنی ’’اردو‘‘ کو ترجیح دی۔ اس ضمن میں انہوں نے اردو زبان کی لغات اور قواعد کی کتب مرتب کیں۔ جس کا مقصد انگریزوں کو یہاں کی مقامی زبان کی تعلیم دینا تھا لیکن اس عمل سے اردو زبان کو بھی وسعت اور ترقی ملی۔
رموز اوقاف اور ان کے استعمال کا طریقہ کار:
ختمہ: (۔)
اس علامت کو انگریزی میں ’’Full Stop‘‘ کہتے ہیں۔ تقریر کے دوران اس کا استعمال وہاں عمل میں لایا جاتا ہے جہاں جملہ اختتام پذیر ہو رہا ہوں۔ یعنی کہ جب کوئی فقرہ یا ترتیب جہاں اپنا مطلب و معنی مکمل کر رہے ہوں تو وہاں یہ علامت استعمال ہوتی ہے۔ مثلا:
۱۔علی لاہور جا رہا ہے۔
۲۔میں کتاب پڑھ رہا ہوں۔
وغیرہ۔
علاوہ ازیں مخففات کے بعد بھی اس علامت کا استعمال عمل میں لایا جاتا ہے۔ مثلا:
۱۔بی۔اے (بیچلر آف آرٹس)
۲۔ایم۔اے (ماسٹر آف آرٹس)
وغیرہ۔
سکتہ: (،)
سکتہ کو انگریزی میں ’’Comma‘‘ کہتے ہیں۔ تحریر کے دوران اگر کہیں تھوڑی دیر کے لئے رکنا پڑا تو اس صورت میں جملے کے بیچ اس علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تحریر کے دوران جملے میں اگر ایک ہی قسم کے کلمے تین یا تین سے زیادہ کی تعداد میں ایک ساتھ آجائیں تو اس علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا:
۱۔اسلام آباد، راولپنڈی لاہور، حیدرآباد اور کراچی پاکستان کے بڑے شہر ہیں۔
۲۔علی نہایت سمجھدار، عقلمند اور اعلیٰ اخلاق کا مالک ہے۔
وغیرہ۔
ندائیہ طرز لفظوں اور جملوں میں کاما کا استعمال:
۱۔میرے دوست، میری بات مان۔
۲۔جاگنے والو، جاگتے رہو۔
وغیرہ۔
دیگر طرز کے جملوں میں کاما کا استعمال:
۱۔رات ہو یا دن، دھوپ ہو یا چھاؤں ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
۲۔عقل، علم اور ہنر وقت پر کام آتے ہیں۔
۳۔سارا زمانہ آیا، علی نہ آیا۔
۴۔مولوی عبدالحق، قواعد اردو کے مصنف ہیں۔
وغیرہ۔
سوالیہ: (؟)
اس علامت انگریزی میں ’’Mark of Interrogation‘‘ کہتے ہیں۔ یہ علامت عام طور پر سوالیہ جملے کے آخر میں استعمال ہوتی ہے۔ کسی جملے میں کچھ پوچھنا یا جاننا مقصود ہو تو جملے کے آخر میں اس علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا:
۱۔کیا یونیورسٹی کھلی ہے؟
۲۔کیا بارش ہو رہی ہے؟
۳۔تم لاہور کب جا رہے ہو؟
۴۔کیا تم یہ کتاب پڑھ چکے ہو؟
وغیرہ۔
وقفہ: (؛)
انگریزی میں اس علامت کو ’’Semi Colon‘‘ کہتے ہیں. جملے میں اگر کہیں سکتے سے زیادہ رکنا مقصود ہو تو اس علامت کا استعمال کیا جاتا ہے. اس کے علاوہ اگر جملے کو تقسیم کرنا ضروری ہو تو اس علامت کا استعمال عمل میں لایا جاتا ہے۔ مثلا:
۱۔جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے؛ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔
۲۔آنا، تو خفا آنا؛ جانا، تو رلا جانا
آنا ہے، تو کیا آنا؛ جانا ہے، تو کیا جانا
وغیرہ۔
رابطہ: (:)
اس علامت کو انگریزی میں ’’Colon‘‘ کہتے ہیں۔ تحریر میں اگر کہیں وقفے سے زیادہ ٹھہراؤ یا سابقہ کسی بات کی تشریح کرنا مقصود ہو تو اس علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا:
۱۔سچ ہے: جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
۲۔بقول ڈاکٹر سلیم اختر:
وغیرہ۔
تفصیلیہ: (:۔)
تفصیلیہ کو انگریزی میں ’’Colon & Dash‘‘ کہتے ہیں۔ تحریر میں اگر کہیں کوئی طویل اقتباس کیا کسی فہرست کو پیش کرنا ضروری ہو تو اس علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر:
۱۔ پاکستان کے بڑے شہروں کے نام یہ ہیں:۔ لاہور، ملتان، کراچی اورراولپنڈی۔
۲۔انگریزی مہینوں کے نام یہ ہیں:۔ جنوری، فروری، مارچ، ۔۔۔۔۔۔ دسمبر۔
وغیرہ۔
قوسین: ( ) [ ]
انگریزی میں اس علامت کے لیے ’’Brackets‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے. یہ علامت تحریر میں جملہ معترضہ کے شروع اور آخر میں لگائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جملے میں کسی لفظ کی وضاحت کرنے کے لئے بھی اس علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا:
۱۔احمد(جو علی کا بھائی ہے) نہایت ہی سمجھدار اور اعلی اخلاق کا مالک ہے۔
۲۔کتب خانہ (Library)
وغیرہ۔
واوین:( ’’ ‘‘ )
واوین کو انگلش میں ’’Inverted Commas‘‘ کہتے ہیں۔ تحریر میں جب کوئی قول نقل کیا جائے یا پھر کسی اقتباس کو شامل کیا جائے تو اس علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا:
۱۔ڈاکٹر تلک سنگھ لکھتے ہیں: ’’تحقیق علم کا وہ شعبہ ہے جس میں منظم لائحہ عمل کے تحت سائنسی اسلوب میں نامعلوم و ناموجود حقائق کی کھوج اور معلوم و موجودہ حقائق کی نئی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ علم کے علاقے کی توسیع ہوتی ہے۔‘‘
۲۔اس نے کہا کہ،’’وہ کل لاہور جائے گا۔‘‘
وغیرہ۔
فجائیہ، ندائیہ: (!)
اس علامت کے لئے انگریزی ’’Mark of Exclamation‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ علامت تحریر میں ان الفاظ یا جملوں کے آخر میں لگائی جاتی ہے جن میں کسی جذبے کا اظہار ہو رہا ہو۔ مثلا:
۱۔اوہ! تم کب آئے؟
۲۔شاباش! تم نے اچھا کھیل پیش کیا۔
۳۔خواتین و حضرات!
وغیرہ۔
ترچھا خط: (/)
اس علامت کو انگریزی میں ’’Oblique‘‘ کہتے ہیں۔ یہ علامت عام طور پر ’’یا‘‘ کے متبادل استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دفتری تحریروں میں اس علامت کے استعمال کو عمل میں لایا جاتا ہے۔ مثلا:
۱۔مرد / عورت
۲۔ بن / بنت
۳۔کا / کی
وغیرہ۔
نقطے: ( ۔۔۔ )
اس علامت کو انگریزی میں ’’Dots‘‘ کہتے ہیں۔ اگر تحریر کا کوئی حصہ حذف کرنا مقصود ہو تو اس علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اقتباس طویل ہو رہا ہو تو اس کو مختصر کرنے کے لئے غیر متعلقہ تحریر کو حذف کردیا جاتا ہے اور جہاں سے تحریر کو حذف کیا جاتا ہے تو وہاں اس علامت کا اندراج کیا جاتا ہے۔
عام طور پر تحقیقی عمل کے دوران درج بالا رموز اوقاف کا استعمال زیادہ تر دیکھنے کو ملتا ہے۔ رموزاوقاف کا استعمال کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ، ان کا استعمال وہیں کیا جائے جہاں ان کی ضرورت ہو۔ رموزاوقاف کا درست استعمال کیا جائے۔ ان کا غلط استعمال تحریر کا مفہوم بدل دیتا ہے۔ مثلا:
۱۔روکو، مت جانے دو۔
۲۔روکو مت، جانے دو۔
درج بالا دو جملوں میں سکتے کی علامت کا استعمال دو مختلف جگہوں میں کیا گیا ہے۔ رموز اوقاف کی تھوڑی سی تبدیلی نے پورے فقرے کا مفہوم بدل ڈالا ہے۔ لہذا ہر ممکن کوشش کے ساتھ رموز اوقاف کا درست اور صحیح استعمال کیا جائے۔
درست املا کا استعمال
املا کے لغوی معنی ہیں، لکھنا یا لکھوانا جبکہ اصطلاح میں ’’املا‘‘ سے مراد کسی لفظ کو مقررہ ضابطوں اور صحیح تلفظ کے ساتھ بولا اور پڑھا جائے۔ تحقیق کے دوران ہمیشہ درست املا کا استعمال ہی کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے رشید حسن خان اپنی کتاب ’’اردو املا‘‘ کے ابتدائیے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’جس طرح یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم جس لفظ کو بول رہے ہیں اس کا مفہوم کیا ہے؛ اسی طرح یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ ہم جس لفظ کو لکھنا چاہتے ہیں، اس کی صحیح صورت کیا ہے۔‘‘ (۷)
ایک محقق درست کے املا کے اصولوں سے پوری طرح آگاہ ہو۔ اس ضمن میں املا کے حوالے سے کچھ اصول ملاحظہ فرمائیں:
۱۔حروف ربط کو دوسرے لفظوں کے ساتھ ملا کر نہ لکھا جائے۔ مثلا :
مینے، ہمسے، تمکو، وغیرہ (غلط)
میں نے، ہم سے ، تم کو، اس کا، وغیرہ (درست)
۲۔مفرد الفاظ کو آپس میں جوڑ کرنہ لکھا جائے۔ مثلا:
جانیوالا، آنیوالا، بیحد، وغیرہ (غلط)
جانے والا، آنے والا، بے حد، وغیرہ (درست)
۳۔کچھ مرکب الفاظ جن کو ملا کر نہ لکھا جائے۔ مثلا
طالبعلم، ذیقعدہ، شاہنامہ، وغیرہ (غلط)
طالب علم، ذی قعدہ، شاہ نامہ، وغیرہ (درست)
۴۔تحریر کے دوران حسب ضرورت اعراب کا درست استعمال بھی کرنا چاہیے۔ اعراب کا استعمال عام تحاریر کی بہ نسبت درسی کتب میں ضرور کرنا چاہیے۔ کچھ اہم اور زیادہ استعمال ہونے والے اعراب کی تصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
زبر َ : جَب، اَبپیش ُ : اُن، اُس
زیر ِ : بِن، مِن تشدید ّ : اللہ
جزم ْ : دوسْت، سانْجھمد ٓ : آب، آنکھ
۵۔ تحریر کے دوران مخصوص علامات کا استعمال موقع کے مطابق کرنا چاہیے۔ مثلا:
ؔ تخلص کے اوپر استعمال ہونے والی علامت
؎شعر کے شروع میں استعمال ہونے والی علامت
ؑعلیہما کے لیے
ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ؓ رضی اللہ تعالی عنہ
ؒ رحمتہ اللہ علیہ
وغیرہ۔
مجموعی طور اگر بات کی جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ، تحقیقی عمل کو احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہچانے کے لیے محقق کو جدید رسمیات تحقیق سے مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔ بصورت دیگر ایک معیاری تحقیقی مقالہ منظر عام پر آنے سے قاصر رہے گا۔
حوالہ جات:
۱۔ محمد جمیل اختر، ڈاکٹر، ’’تحقیق اور علم التحقیق‘‘، مثال پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۶ء، ص۲۷
۲۔ گیان چند جین، ڈاکٹر، ’’تحقیق کا فن‘‘، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، ۲۰۰۵ء، ص۱۳
۳۔ https://www.punjnud.com
۴۔ عابد علی عابد، سید، ’’اسلوب‘‘، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۷۶ء، ص۴۴
۵۔ مولوی عبدالحق، ’’قواعد اردو‘‘، انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دہلی، ۲۰۰۷، ص۲۳۷
۶۔ عبدالحمید خان عباسی، ڈاکٹر، ’’اصول تحقیق‘‘، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، ۲۰۱۷ء، ص۲۹۹
۷۔ رشید حسن خان، ’’اردو املا‘‘، نیشنل اکاڈمی، دہلی، ۱۹۷۴ء، ص۱۰
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!