شفقؔ سوپوری کے ناول ’ نیلیما‘ میں عورتوں کے مسائل کا مذمتی پہلو

غلام نبی

ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو،  دہلی یونیورسٹی ، دہلی

7042420113

 gulam1nabi786@gmail.com

ریاست جموں و کشمیر ( جو اب مرکز کے زیر انتظام ہے ) ابتدا ہی سے ارضی جنت کے نام سے مشہور رہی ہے۔ یہاں کے خوبصورت صحت افزا مقام، ندی نالے، برف سے ڈھکے پہاڑ، خوبصورت وادیاں، دیوداروں اور چناروں کے درخت وادی کے حسن و جمال میں گراں قدر اضافہ کرتے ہیں۔ یہاں کی مٹی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ علم و فن اور شعر و ادب کے لئے بھی ہمیشہ ذرخیز رہی ہے۔ وادی کی اسی مٹی سے زندگی کے مختلف شعبہ جات میں کئی نامور شخصیات نے جنم لے کر سیاست و ادب اور تہذیب وتمدن سے لے کر علم و فن حتیٰ کہ ہر میدان زندگی میں اپنی گراں قدر خدمات سر انجام دیں ہیں۔

جموں و کشمیر صدیوں سے علم و فن اور شعر و ادب کا مسکن رہا ہے۔ یہاں کے شعراء و ادباء نے شعر و ادب کو ذریعہ اظہار بنایا۔ ابتدا میں یہاں کے شعراء و ادباء نے فارسی زبان میں ادب تخلیق کیا۔ جب مہاراجہ ہری سنگھ نے اردو زبان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ۱۸۸۹؁ء میں اسے سرکاری زبان کا درجہ عطا کیا تو وہ شعراء و ادباء جو فارسی یا دوسری مقامی زبانوں میں ادب تخلیق کر رہے تھے، اردو کی طرف مائل ہوئے اور اردو کو ذریعہ اظہار بنایا۔ جن میںہرگوپال کول خستہؔ، سالگ رام سالک، محمد الدین فوق، طالب کاشمیری ، عبدالاحد آزاد، پریم ناتھ بے زار، ملک راج صراف، پریم ناتھ پردیسی، میر غلام رسول نازکی، تیج بہادر بھان پشکر ناتھ سے حامدی کاشمیری، نور شاہ، فرید پربتی، شبنم قیوم، ترنم ریاض، نصرت چودھری وغیرہ تک کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ جنہوں نے سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل کو اردو زبان کے ذریعے پیش کیا۔

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں یہاں کے سیاسی و سماجی ماحول میں افراتفری پھیل گئی۔ ملکی اور غیر ملکی شر پسند عناصر عوام کو ظلم کا شکار بنانے لگے۔ ہندو مسلم فساد ہوا ، جس کی پاداش میں پنڈت کو ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ مسلمانوں کو گولی کا نشانہ بنایا گیا، بعض کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر جو ارضی جنت کے نام سے مشہور تھا ، جہنم کی آگ میں جھلسنے لگا۔ جس کی وجہ سے اردو شعر و ادب نے نیا موڑ لیا۔ یہاں کے وہ قلم کار جو روایتی مسائل کو اپنی تخلیقات میں پیش کر رہے تھے ۔ وہ بھی گرد و نواح کے ماحول سے دامن نہ بچا پائے تو انہوں نے بھی سماج میں پیدا شدہ مسائل کو موضوع سخن بنایا۔ ان میں کئی نامور شعراء و ادباء شامل ہیں جن میں شفق ؔ سوپوری کا نام سر فہرست ہے۔ جو اردو ادب میں درخشاں ستارہ بن کر سامنے آیا۔

سید عبدالقیوم ختائی جو اردو دنیا میں شفقؔ سوپوری کے نام سے مشہور ہیں، ایک شخص نہیں بلکہ دبستان کا نام ہے۔ جنہوں نے یکم اپریل ۱۹۵۹؁ء میں وادی کے شمال میں واقع سوپور کے گاؤں اش پیر کے سید محمد یوسف اور سعیدہ بیگم کے گھر آنکھیں کھولیں۔ یہیں بچپن، جوانی اور اب زندگی کے آخری ایام بسرکر رہے ہیں۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا جس سے اب  سبگدوش ہو چکے ہیں۔ موصوف کو اردو شعر و ادب سے گہرا لگاؤ ہے ابتدا میں روایتی شاعری کی لیکن بدلتے حالات نے انہیں کئی نشیب و فراز سے دو چار کیا جن کا اثر ان کی تصانیف میں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ انہوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ لیکن اردو فکشن ان کا خاص میدان رہا۔ ان کے ہنوز دو ناول’’ نیلیما‘‘ ۲۰۱۶؁ء اور’’ فائر ینگ رینج: کشمیر۱۹۹۰‘‘ ۲۰۱۹؁ء اور ایک ناولٹ’’ موسیٰ ‘‘۲۰۲۰؁ء میں شائع ہو کر داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔

شفق سوپوری نے فکشن میں ارد گرد کے سیاسی و سماجی مسائل کو موضوع بنا کر پیش کیا ۔ لیکن جس ناول نے انہیں شہرت دوام بخشی وہ ’’ نیلیما ‘‘ہے جس میں انہوں نے آدی واسی سماج میں عورتوں کے جنسیاستحصال کو موضوع بنا کر پیش کیا ہے۔ اس ناول کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ مصنف کا تعلق کشمیر سے ہے جس نے کوسوں دور بنگال کے آدی واسیوں کے سماجی مسائل کو پیش کیا ۔ جس میں انہوں نے رشتوں کی شکست و ریخت اور عورتوں کے جنسی استحصال کی مذمت کی ہے۔ پروفیسر قدوس جاوید ناول کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:

اردو میں اب تک دلت افسانے لکھے گئے ہیں۔ سماج کے پچھڑے اور پسماندہ طبقوں کی زندگی کو کئی ناول نگاروں نے موضوع بنایا ہے۔ مثلا الیاس احمد گدی نے اپنے ناول فائر ایریا میں اور غضنفر نے اپنے ناول رویہ بانی میں نچلے طبقوں کے استحصال کی کہانیاں پیش کی ہیں۔ لیکن آج تک کسی نے آدی واسی سماج و ثقافت کو اپنے فکشن کا موضوع نہیں بنایا ہے۔ اس اعتبار سے شفق سوپوری کا ناول اردو کا پہلا ناول ہے جس۔میں آدی واسی عورتوں کے جنسی استحصال کو آدی واسی سماج اور تہذیب کے حوالے سے پیش کیا ہے۔

نیلیما، ڈاکٹر شفق سوپوری، ایجوکیشنل پبکیشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۶؁ء ، ص۔ ۱۱۔۱۲

نیلیما اردو ادب کا پہلا ناول ہے جس میں آدی واسی سماج کی عورتوں کے جنسی استحصال کے مسائل کی عکاسی کی گئی ہے۔ موصوف نے نیلیما ؔکو مرکزی کردار کی حیثیت سے پیش کیا ہے جس کے ذریعہ یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان کو آزاد ہوئے کم و بیش پچہتر سال گزر چکے ہیں لیکن آدی واسی سماج آج بھی سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی اور تہذیبی سطح پر ترقی سے محروم ہے۔ انہیں زمینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر تذبذب کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شراب کی لت میں مبتلا ہو کر عورتوں کو ہوس کا شکار بناتے ہیں۔ یہاں تک کہ رشتوں کا پاس و لحاظ بھی نہیں رکھتے۔ نیلیماؔ آدی واسی سماج کے مفلس گھرانے میں پیدا ہوئی۔ جو کم عمری میں ہی تلاش روز گار کے لئے کشمیر چلی آئی۔ جہاں آسودہ حال گھرانے میں گھریلو خدمات انجام دیتی رہی۔ یہاں اس کی صحت کے ساتھ ساتھ عزت و عصمت کا بھی خیال رکھا گیا۔ لیکن جب وہ گاؤں واپس لوٹتی ہے تو وہاں لالہ لچمن داس کی دوکان پر جاتی ہے جہاں پہلی بار اس کو بدسلوکی کا منہ دیکھنا پڑا۔ شفق سوپوری نے واقعہ کی یوں تصویر کشی کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلیما غصے سے لال پہلی ہو رہی تھی۔ لالہ نے اس کے ہاتھ سے پیسے لے کر کشن سے کہا۔

’’کشنے! چھوری کو نپٹا دے۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں لوگ مرچی کا کیا کرتے ہیں؟۔‘‘

یہ سن کر نیلیما کا پارہ اور چڑھ گیا، بولی:

’’بری نظر سے دیکھنے والوں کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں بنیائن نے کبھی بتایا نہیں؟‘‘

لالہ نے بڑے پیار سے کہا:

’’جو خود تتیا مرچ ہو اگر ایک نظر تاؤ بھری سالن یا چٹنی پر ڈال دے، ایسا تیکھا ہو جائے گا کہ کھانے والے تر پڑی سے سی سی کرتے ساری رات پانی مانگیں گے۔ ‘‘

’’بد تمیز‘

اس کا سارا غصہ اور احتجاج اس ایک لفظ میں سمٹ گیا۔ اس نے لپک کر کشن کے ہاتھ سے مرچی کی پڑیا چھین لی اور بھاگنے لگی۔ چلتے چلتے وہ دانت پیس رہی تھی۔

’’ اس سور کی تو ماں بہن۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘

نیلیما، ڈاکٹر شفق سوپوری، ایجوکیشنل پبکیشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۶؁ء ، ص۔ ۳۹۔۴۰

اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لالہ لچمن داس اپنے گاؤں نیرج پور کا رئیس ہے جو عورتوں کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتا ہے۔ جس کی بدسلوکی پر طنز کرتے ہوئے موصوف نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دوشیزہ جو کشمیر میں انجان خاندان میں اپنی عزت بچا کر گاؤں واپس لوٹتی ہے جہاں لالہ لچمن عمر کا پاس و لحاظ نہ رکھتے ہوئے اس کے ساتھ بد سلوکی کرتا ہے جس سے وہ نالاں ہو کر گھر واپس آتی ہے۔ جس کی بری حرکت سے معلوم ہوتا ہے کہ آدی واسی سماج میں لالہ لچمن داس جیسے ہزاروں بدکردار موجود ہیں جو عورتوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔

نیلیما ؔکی نجی زندگی کئی نشیب و فراز کا مجموعہ ہے اس کی زندگی اس وقت نیا موڑ لیتی ہے جب اس کا بہنوئی بنسی لال بھی اسے ہوس کا شکار بناتا ہے۔ جب نیلیماؔ کی بہن کو معلوم ہوتا ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہو کر اسے گھر سے نکال دیتی ہے۔ جس واقعے کو شفق سوپوری نے بڑی ہنر مندی کے ساتھ بیان کیا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔ نیلیما اوندھے منہ سو رہی تھی۔ چادر ایک طرف بکھری پڑی رھی۔ کچھ ہی لمحوں میں بنسی کے ہاتھ نیلیما کے کولہوں پر تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ شلوار سرکا دیتا نیلیما کی نیند اچٹ گئی۔ نیم خوابیدہ حالت میں اسے محسوس ہوا کہ کابوس نے ابھی تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑا ہے:

”مگر وہ بلا تو سینے پر سوار ہو رہی تھی”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پوری طرح جاگ گئی ۔ شراب کی بدبو اور بنسی کے منہ کی بساند سے اسے معاملے کو سمجھنے میں دیر نہ لگی۔ اس نے بنسی کو دور دھکیل دیا۔ بنسی باؤلے کتے کی طرح اس پر جھپٹ پڑا۔ وہ زور سے چیخ پڑی۔ دھاڑ سن کر بیتا دوڑ کے آئی۔ اسے جس حادثے کا کھٹکا تھا وہی ہوا۔ اس نے بنسی کے بال کھسوٹنے شروع کئے:

”حرامی، سور، لفنگے”

۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رو ہانسی ہو گئی:

میرا ہی گھر ملا تھا۔  تھو دھتکار ہے تجھ پر۔”

یہ سن کر نیلیما پتھرا گئی۔ اس کے سارے آنسو ریت کے تپتے صحرا میں کہیں جذب ہو گئے۔

نیلیما، ڈاکٹر شفق سوپوری، ایجوکیشنل پبکیشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۶؁ء ، ص۔ ۵۱

درج بالا اقتباس میں موصوف نے آدی واسی سماج میں ایسے بدکرداروں کی مذمت کی ہے جو معاشرے میں رشتوں کا پاس و لحاظ مٹا دیتے ہیں۔ ناول کے مرد کردار شراب کی لت میں مبتلا ہیں ۔ جونشے کی حالت میں کم عمر لڑکیوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ جن کی وجہ سے سماجی اقدار پامال ہو رہی ہیں۔ پورا ناول نیلیما کے ذریعہ آگے بڑھتا ہے۔ نیلیما جب بے یار و مدد گار در در کی ٹھوکریں کھاتی ہے تو اس کا بچپن کا دوست دھنی رام اسے اپنے ساتھی راجندر کے گھر لے جا کر عزت لوٹ لیتا ہے۔ لیکن دوستی برقرار رکھنے کے لئے دونوں شادی کر لیتے ہیں۔ جب وہ سسرال پہنچ کر غریبی اور مفلسی کی انتہا دیکھتی ہے تو دھنی رام پر غصہ کرتی ہے۔ موصوف نے ناول میں جنسی استحصال کے ساتھ ساتھ معاشرے کی مفلسی اور بد حالی کی بھی منظر کشی کی ہے۔ جس سے نالاں ہو کر لوگ جلا وطنی کرنے پر مجبور ہیں بعض تلاش معاش کے لئے ملک کے کونے کونے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ناول میں دو ضمنی قصے بھی موجودہیں جن میں درگا ماں اور نرملا دیوی کی کہانیاں ہیں۔ درگا ماں خاوند کے ظلم و جبر،دھوکہ اور فریب  کاری سے پریشان آ چکی ہے۔ جو پانچ بیٹیوں کی ماں بن چکی ہے ۔ لیکن اس کا خاوند دوسری عورت کو بھگا لے جاتا ہے کیونکہ اس کی خوبصورتی  ماند پڑ چکی ہوتی ہے۔ یہاں موصوف نے انسانیت کو شرمسار کرنے والے واقعہ پیش کیا ہے جہاں بیوی کی محبت اور بچوں کے پیار کا احساس  نظر آتا ہے۔ معاشرے میں انسان ہوس کا پجاری بن چکاہے جس کی منظر کشی ناول میں یوں کی گئی ہے۔

ہوس کا پودا پھلتے پھولتے چھتنار درخت بن گیا ل۔ اوپر تلے پانچ بچے پیدا کرنے والی ماں کے لچھن جب چھڑ گئے۔  تو ہری رام کسی دوسری درگا کو بھگا کر کے گیا۔۔۔۔۔ ۔ پھر سنگھرش کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ شہر شہر، گلی گلی، گھر گھر لوگوں کے پوتڑے صاف کرنے کی ذلت آمیز چا گری۔ وقت کی جس سیڑھی کے زینے چڑھتے چڑھتے بچے جوان ہو گئے۔ اسی کی دوسری طرف اترتے اترتے ماں بوڑھی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ بجوگ پڑا کہ پانچ بیٹیوں کی ماں اپنے سابقہ مالکوں کے یہاں بھیک مانگ مانگ کر گزارہ کرنے لگی، در بدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید وہ اس دھرتی کی آخری پکار سن کر جیون بھر کے دکھوں کی گٹھری کاندھے پر اٹھائے گاؤں واپس آتی تھی۔ دھرتی کی امانت دھرتی کو سونپے۔

نیلیما، ڈاکٹر شفق سوپوری، ایجوکیشنل پبکیشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۶؁ء ، ص۔ ۸۲

اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناول میں مرد کردار ہوس کے پجاری ہی۔ در اصل ناول نگار نے ایسے سماجی مسائل کی منظر کشی کی ہے جن سے عورتوں کی نجی زندگی کے ساتھ ساتھ معصوم بچے بھی پیار و محبت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ درگا ماں جو پانچ بچیوں کی ماں ہے اور  جس کے حسن میں کمی کی وجہ سے خاوند علاحدگی اختیار کر لیتا ہے۔ موصوف نے عورتوں کی نجی زندگی کی منظر کشی کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ معاشرے میں عورتوں کو جانوروں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جن کو ہوس مٹانے کے علاؤہ کسی رشتہ سے منسلک نہیں کیاجاتا ہے۔

ناول میں ایک ضمنی قصہ نرملا دیوی کا بھی ہے ۔ جس میں ناول نگار نے ایسی دوشیزہ کے ذریعہ سماجی نابرابری کو پیش کیا ہے۔ جس کی ماں کانتا دیوی کا عاشق کرم چندر مزدوری کی غرض سے بیرون ملک جاتا ہے جہاںسے کئی سالوں تک واپس نہ لوٹنے کی وجہ سے جب کانتا کا جوبن ڈھلنے کو ہوتا ہے تو اس کے والدین نے سوہن لال سے شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ شادی کے ایک سال گزرنے کے بعد انکے یہاں نرملا دیوی نے جنم لیا۔ کچھ سال بعد کرم چندر واپس لوٹتا ہے اور کانتا دیوی سے دوبارہ جنسی تعلقات قائم کر لیتا ہے۔جس واقعے پر ڈاکٹر منظور حسین کمار یوں لکھتے ہیں:

چنانچہ کانتا اور کرم چندر کے تعلقات پھر سے تازہ ہو جاتے ہیں اور ایک دن سوہن۔لال انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ کر غیرت سے ندی میں کود کر جان دیتا ہے وقت گزرتا ہے اور جب نرملا جوان ہوتی ہے تو کرم چندر اس پر ڈرے ڈالنے لگتا ہے۔ کانتا کو یہ بات چھبتی ہے اور وہ کرم چندر کو زہر دیکر موت کے گھاٹ اتارتی یے۔ کچھ برس جیل میں رہتی ہے اور چھوٹ کے کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ نرملا لاوارث ہو جاتی ہے۔اس کا بری طرح جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔

شفق سوپوری حیات اور ادبی کارنامے ، ڈاکٹر منظور حسین کمار، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی، ۲۰۲۱؁ء ص ۔ ۱۳۷

درج بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آدی واسی سماج میں مرد ہوس بجھانے کے لئے عمر کا لحاظ بھی نہیں رکھتے۔ وہی کرم چندر جو کانتا کا عاشق تھا کچھ سال بعد جب اس کی بیٹی نرملا جوان ہوئی تو کرم چندر نے اسے بھی ہوس کانشانہ بنانا شروع کیا۔ جس پر کانتا آگ بگولا ہو کر اسے زہر دے کر لمبی نیند سلا دیتی ہے۔

ناول اس وقت نیا موڑ لیتا ہے جب نیلیما اپنے جیٹھ کی طرف سے کی گئی بدسلوکی کی شکایت خاوند سے کرتی ہے۔ جو اپنے دوستوں کے ساتھ شراب نوشی کے ساتھ ساتھ جوا کھیلتا ہے۔ پوری دولت، پیسہ لٹانے کے بعد نیلیما کو ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا ہے ۔ جس کی شکایت کرنے پر دھنی رام اس کو نہ صرف برا بلا کہتا ہے بلکہ مار پیٹ بھی کرتا ہے۔ جس واقعے کو ناول نگار نے یوں بیان کیا ہے:

وہ لڑ بڑا کر بولنے لگی۔

جانتے ہو تمہارے بھائی نے مجھ سے کیا کہا۔۔۔۔۔۔ اس نٹھلے نٹھکو کو سمجھاؤ کہ اپنے نکمے دوستوں کی سنگت میں رہ کر آوارگی کرنا چھوڑ دے۔ کام دھندے کی فکر کرے ورنہ گھر سے الگ ہو جائے۔ سنو دھنی رام اپنے بھائی کو کو سمجھاؤ کہ میں کوئی اس کی لگائی نہیں۔ میرے ساتھ پھوں پھاں نہ کرے۔ میں میں۔۔۔۔۔۔۔۔”

وہ کانپنے لگی۔

یہ سن کر دھنی آپے سے باہر کو گیا۔ اس نے ایک گھونسہ کس کے نیلیما  کے گال پر رسید کیا:

رنڈی سالی۔۔۔ تم بھائیوں میں بگاڑ ڈالنا چاہتی ہو۔ سن آگے چیں چپڑ کی منہ کالا کر کے گھر سے دفان کر دوں گا۔ پاؤں کی جوتی سر کو لگی۔

نیلیما، ڈاکٹر شفق سوپوری، ایجوکیشنل پبکیشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۶؁ء ، ص۔ ۱۰۴

ناول نگار نے یہاں ایسے واقعات کی عکاسی کی ہے جہاں رشتوں کا پاس و لحاظ مٹاتے ہوئے نشے کو اولیت دی جاتی ہے۔ جس کی اجازت مذہب دیتا ہے نہ سماج۔ لیکن اس معاشرے کی بدحالی کا یہ المیہ ہے کہ ان کی عورتیں اپنے ہی گھر وں میں محفوظ نہیں رہتیں۔ جن کی رات کی نیند اور دن کا چین گھر والوں نے چھین لیا ہے۔ جو محنت و مشقت کر کے سکون کی زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں لیکن سماج کے شر پسند اجازت نہیں دیتے۔ کیونکہ وہ ہمیشہ ان سے ہوس بجھانا چاہتے ہیں۔

شفق سوپوری کا ناول پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ماہر سماجیات کے ساتھ ساتھ ماہر نفسیات بھی ہیں۔ کیونکہ انہوںنے آدی واسی سماج کے مسائل کے ساتھ ساتھ نیلیماؔ کی نجی زندگی میں ہو رہے جنسی استحصال کی عکاسی بھی کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بنگال سے کوسوں دور کشمیر میں رہ کر آدی واسی سماج کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشی صورتحال کی عکاسی کی ہے۔ ناول میں نیلیما کو مرکزی کردار کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ جس کے ذریعہ سماج کے ایسے پہلو اجاگر کیے ہیں جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ناول میں تسلسل ہمیشہ برقرار رہتا ہے ۔قاری دوران مطالعہ ہر نئے واقعے کی خواہش مند رہتا ہے۔کیونکہ نیلیما کی زندگی کا درد و کرب اور جنسی استحصال کو جس علامتی انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ قابل ستائش ہے اور قابل داد بھی۔

ناول کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ناول نگار نے نہ صرف اس پچھڑے سماج کی غریبی و مفلسی کو پیش کیا ہے بلکہ عورتوں کو بنیادی حقوق سے محرومی کے ساتھ ساتھ عزت و عصمت کو بھی موضوع بنا کر پیش کیاہے۔  ناول نگار نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ آدی واسی سماج میں عورت کو صرف ہوس مٹانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے رشتوں کو شکست و ریخت کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ناول میں عورتوں پر ظلم و جبر اور جنسی استحصال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رفیق انجم یوں لکھتے ہیں:

اس ناول کے سب زنانہ کردار کسی نہ کسی صورت میں مردوں کے استحصال کا شکار ہیں۔ چنانچہ نیلیما کے ساتھ ساتھ نرملا، سمن، کانتا دیوی اور سب سے بڑھ کر درگا ماں، یہ سب کردار آدی واسی عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی علامتیں ہیں۔ ایک اور حقیقت جس کی طرف شفقؔ نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ آدی واسی مرد جنسی معاملات میں خاندانی رشتوں کا تقدس نہیں رکھتے۔

نیلیما، ڈاکٹر شفق سوپوری، ایجوکیشنل پبکیشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۶؁ء ، ص۔ ۲۱

شفق سوپوری نے اگرچہ یہ ناول آدی واسی سماج کی عورتوں کا جنسی استحصال کو موضوع بنا کر لکھا ہے جس میں نیلیما کو مرکزیت کا جامہ پہنایا ہے۔ لیکن آج ہمارے معاشرے میں بے شمار نیلیما ایسی ہیں جن کا یہی المیہ ہے۔کیونکہ آج ہر معاشرے میں نوجوان نشے کی لت میں مبتلا ہیں اور بے ہوشی کے عالم میں ہوس بجھانے کے لئے ایسی نازیبا حرکات کرتے ہیں جن کی وجہ سے کئی نوجوان لڑکیوں کی زندگی برباد ہو رہی ہے اور وہ کھل کر دکھ کا اظہار بھی نہیں کر سکتیں۔ جس کی مثال ناول نیلیما سے بڑھ کر کہیں اور نہیں مل سکتی۔

*****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.