نیم کا پیڑ- زوال پذیر معاشرے کی علامت

امیر فیصل

ریسرچ اسکالر،شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی

Mob: 9210658659

Email: ameerfaisalkmc@gmail.com

راہیؔ معصوم رضا اپنی منفرد تحریروں کے سبب اپنی مثال آپ ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اردو والے بھیڑ چال پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ اردو ادب میں راہیؔ کو ’آدھاگاؤں‘ میں سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ بلاشبہ ’آدھا گاؤں‘ کینوس کے اعتبار سے ایک لازوال ناول ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ راہی معصوم رضا نے ’آدھا گاؤں‘ کے علاوہ کچھ لکھا ہی نہ ہو۔ مثال کے طور پر ’ٹوپی شکلا‘، ’ہمت جونپوری‘، ’ اوس کی بوند‘ ’کٹرہ بی آرزو‘ ’سین-۷۵‘ ، ’دل ایک سادہ کاغذ‘، ‘اسنتوش کے دن‘،’نیم کا پیڑ‘ ، ’قیامت‘ اور ’کاروبارِ تمنا‘ جیسے ناول راہی معصوم رضا کے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان ناولوں پر کسی قسم کی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔ ہاں دو ناولوں کا ترجمہ ضرور ہوا ہے۔ جہاں تک میری نظر ہے ’آدھاگاؤں‘ کو چھوڑ کر راہی کے کسی بھی ناول پر خاطرخواہ بات نہیں کی گئی ہے۔ جب کہ راہی معصوم رضا ان ادباء میں ہیں جنھوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ناول، غزلیں، نظمیں، فلمی اسکرپٹ اور مختلف موضوعات پر ان کے مکمل مضامین بھی ملتے ہیں۔ جس سے ان کی نثر نگاری کے معیار کا پتہ چلتا ہے۔ یہاں راہی معصوم رضا کا ناول ’نیم کا پیڑ‘ میری گفتگو کا مرکز ہے۔

اس ناول کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ وہ کسی بھی طرح ’آدھا گاؤں‘ سے کم نہیں ہے۔ چاہے وہ موضوعات کے حوالے سے ہو یا فن کے حوالے سے ہو یا پھر زبان کے حوالے سے۔ ایک ایسا ناول جس میں تقسیم ہند کا درد، فسادات کے لمحات اور سماجی و سیاسی مسائل، ذات پات اور ہندو-مسلم کے آپسی تعلقات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اسی طرح اگر ہم ’نیم کا پیڑ‘ کے موضوع کی بات کریں تو ہندو-مسلم تعلقات، زوال پذیر معاشرہ، سماجی و سیاسی مسائل، سرمایہ داروں کا زوال، ذات پات اور بدلتی ہوئی ہندوستانی تہذیب وثقافت کی عکاسی پیش کی گئی ہے۔ جس کی ایک بہترین مثال ناول کا اقتباس ملاحظہ ہو:

ßmls jke cgknqj dh ckr ;kn vk jgh Fkh fd vkt+knh feyrs gh t+ehankjh [kRe gks tk,sxh t+ehu mlh dh gksxh tks gy pyk,xkA blhfy, rks mlus j[kk gS vius csVs dk uke lq[kbZ*- ^lq[khjke*A og mldh rjg csxkjh ugha djsxk—-Ldwy tk,xkAÞ

(’نیم کا پیڑ‘ ۔راہیؔ معصوم رضا،ص۱۲)

 یہ اقتباس بنیادی طور پر ناول کے کردار ’بدھئی‘ کے ذریعہ پیش کیے گیے ہیں۔ اقتباس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ جذباتی وابستگی یا ماضی کی جانب مراجعت یا ماضی کی بازیافت کا رجحان حاوی نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس ٹوٹتی بکھرتی تہذیب اور سماجی تانے بانے کے بطن سے ایک بہتر مستقبل کے امکان کے متمنی ہیں اور ان کی یہ تمنا اور فکری رجائیت دوسرے ناول نگاروں سے منفرد کرتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پریم چند کا اثر واضح طور پر ان کے یہاں موجود ہے۔ ’نیم کا پیڑ‘ میں دیہات کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں اترپردیش کے کسانوں اور پسماندہ طبقات ، ان کے مسائل، ان کی محرومیاں اور ان کے استحصال کی تصویر کشی نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔

ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ ’بدھئی‘ کا خواب بھی پورا ہوجاتا ہے۔ زمینداری ختم ہوجاتی ہے اور اس کا بیٹا ’سکھی رام‘ آزاد ملک کا’ رکن اسمبلی‘ اور پھر’رکن پارلیمنٹ‘ منتخب ہوجاتا ہے۔ آج وہی ’بدھئی‘ جو پہلے مسلم خان کے سامنے بیٹھ نہیں سکتا تھا، اس کا بیٹا چچا کہہ کر بلاتا ہے۔ سفید دھوتی کرتا اور سرپر گاندھی ٹوپی لگانا نہیں بھولتا ہے۔ لیکن یہ آزادی تقسیم کا المیہ بھی ساتھ لے کر آئی۔آزادی کے نتیجے میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں قتل و غارت گری اور خوں ریزی بھی آئی۔ کثیر تعداد میں دونوں ملکوں میں آبادی کا تبادلہ ہوا۔لاکھوں بے قصور انسانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی، بچے یتیم ہوگئے، عورتیں بیوا ہوئیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کے ان واقعات نے دیرپا جسمانی ، ذہنی، سیاسی اور معاشی اثرات قائم کیے۔

تقسیم ہند کے المیے نے صرف عوام کو ہی نہیں ادبا ء کو بھی بے حد متاثر کیا۔آبادی کے تبادلے کے ساتھ ساتھ ادب اور ادبا بھی تقسیم ہوگئے۔ بے شمار قلم کار حضرات پاکستان چھوڑ کر ہندوستان اور ہندوستان میں مقیم ادباء کو پاکستان منتقل ہونا پڑا۔

لیکن عوام اور ادباء میں فرق یہ تھا کہ انھوں نے تقسم کے المیے کو محسوس کیا، جس کے نتیجے میں منٹو، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس اور قدرت اللہ شہاب جیسے قلم کاروں نے افسانے اور ناول لکھے اور تقسیم کے المیے کو ادب میں محفوظ کیا۔ ڈاکٹر شائستہ اختر سہروردی لکھتی ہیں:

’’ان فسادات نے انسان کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ ان فسادات میں مسلمان نہیں مرے ہندو اور سکھ نہیں مرے انسانیت مری۔ انسانیت جلی ، انسانیت ڈوبی ہے۔ انسان انسان نے انسان کہلانے کا حق کھو دیا ہے اور وہ آگ جوکہ 15اگست کو پنجاب میں بھڑکی تھی ان کی آنچ کا اثر نہ صرف اس نسل میں نظر آئے گا بلکہ آئندہ نسل تک اس کے داغ نظر آئیں گے۔‘‘

(نیادور،فسادات نمبر۔ایڈیٹر صمد شاہین، مارچ1949،ص31-32)

اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس عہد کے ادیب کس حد تک متاثر تھے اور انسانوں کے جسموں سے ہی نہیں بلکہ ادباء کے قلم بھی لہولہان تھے۔ تقسیم ہند کے سبب پیش آئے فرقہ وارانہ فسادات نے ادبا کو اس قدر متاثر کیا کہ 1947سے لے کر 1980اور اس کے بعد بھی تقسیم ہند کے پس منظر میں کہانیاںاور ناول لکھے جارہے ہیں۔

راہیؔ معصوم رضا نے بھی تقسیم اور فرقہ وارانہ فسادات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا، جس کے نتیجے میں ان کے ناولوں میں تقسیم اور فسادات کی تپش بہ آسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔ صرف ’نیم کا پیڑ‘ میں ہی نہیں ان کے بیشتر ناولوں میں تقسیم اور گھنونی سیاست کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔

ناول ’نیم کا پیڑ‘ دو نسلوں کی داستان کا دستاویز ہے۔ جس میں سیاست کا گھنونا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ اس ناول میں ’نیم کا پیڑ‘ خود ایک مرکزی کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پیڑ کا جنم ’بدھئی‘ کے ذریعہ ہوتا ہے جو کہ اس ناول کا ایک اہم کردار ہے۔ اس نے اس پیڑ کو اس وقت لگایا تھا جب اس کا خود کا بیٹا ’سکھی رام‘ پیدا ہوتا ہے۔

ß D;k rkjh[k Fkh 8 tqykbZ] 1946 tc cq/kbZ us eq>s ;gk¡ vius gkFkksa ls yxk;k FkkA lq[kbZ dh iSnkb’k dk Hkh rks ogh fnu gSAÞ

(’نیم کا پیڑ‘ ۔راہیؔ معصوم رضا،ص۱۰)

نیم کے اس پیڑ نے جہاں ایک طرف سماجی، جاگیردارانہ نظام دیکھا ہے وہیں سرمایہ داری کی حاوی ہوتی ہوئی ذہنی سطح کو بھی دیکھا ہے۔ جس میں سیاسی سرگرمیاں زیادہ ہیں۔ جہاں لوگ پیسوں کی لالچ میں اپنے ضمیر تک بیچ دیا کرتے تھے۔ اسی نیم کے پیڑ کے سامنے ’رام بہادر یادو‘ کا قتل ہوا۔’سکھی رام‘ کی رکھیل ’کملینی‘ بھی ماری گئی اور ’ثامن میاں‘ کو بھی گولی ماری گئی ۔ یہ پیڑ ان سب باتوں کا گواہ رہا اور اسی نیم کے پیڑ نے دو خالہ زاد بھائیوں، مسلم میاں اور ضامن میاں کی آپسی رنجش میں ایک دوسرے کو عرش سے فرش تک لے جانے کی خواہش کو دیکھا۔ اپنی ہی آنکھوں کے سامنے سکھی رام ولد بدھی رام کو ایم۔پی۔ بنتے ہوئے بھی دیکھا۔ جو اس کا ہی ہم عمر تھا۔ جو سیاسی فائدے کے لیے اسے بھی فروخت کرنا چاہا تھا۔ سردگرم اور بہ قید حیات ہونے کے باوجود بھی یہ پیڑ بے بس تھا۔ تمام سیاسی چالوں کو صرف دیکھتا ہی رہا۔

ß  tks dqN fgUnqLrku ij xqt+jh] mlesa eSa ,d ekewyh uhe dk isM+A eSa rks [kqn viuh dgkuh Hkh Hkwy x;kA dgus dks rks fl;klr us ,d ydhj [khaph] exj og ydhj vkx vkSj [kwu dk ,d nfj;k cu xbZ vkSj gt+kjksa&gt+kj yksx viuh tM+ksa lesar cg x,  ml nfj;k esa——–vkSj eSa vdsyk [kM+k ns[krk jgk vkSj lqurk jgkAÞ

(’نیم کا پیڑ‘ ۔راہیؔ معصوم رضا،ص۱۹)

’بدھئی‘ اس ناول کا ایک اہم کردار ہے۔ جو نچلے طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ’مدرسہ خرد‘ کے زمیندار علی ضامن خان اور ’لکشمن پور کلا‘ کے ’مسلم میاں‘ کے درمیان کی آپسی رنجش کا نشانہ بھی بنتا ہے اور غلامی بھی کرتا ہے۔

گاؤں میں جب علی محسن میموریل نیشنل اسکول کا نام بدل کر شہید رام بہادر یادو میموریل نیشنل اسکول ہوجاتا ہے تب وہ سوچتا ہے کہ کاش یہ کام پہلے ہی ہوگیا ہوتا تو وہ بھی پڑھ لکھ گیا ہوتا۔ اس کی یہ خواہش کہ اس اسکول میں وہ سکھی رام کو پڑھائے گا تاکہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن سکے۔ اسکول کے گیٹ پر پہنچ کر وہ سوچتا کہ:

ß cPpksa dh bl HkhM+ esa ,d fnu lq[khjke Hkh pgdrk ?kqerk fQjsxkÞA

(’نیم کا پیڑ‘ ۔راہیؔ معصوم رضا،ص۲۴)

راہی معصوم رضا نے اس ناول میں بدھئی کے ذریعہ پورے معاشرے پر طنزکیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ہر انسان کو خواب دیکھنے اور اس کو پورا کرنے کا حق ہے، چاہے وہ کسی بھی ذات کا ہو۔ راہیؔ چاہتے تھے کہ سب کو برابر کا حق ملے اور اسی مقصد کے تحت یہ ناول لکھا گیا ۔ چوںکہ آزادی کے بعد جو اونچا طبقہ تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ چھوٹی ذات والے ہماری برابری کریں۔ لیکن راہی معصوم رضا تا عمر یہی کوشش کرتے رہے اور ان کا حوصلہ بھی بڑھاتے رہے۔

آخر کار انتظار ختم ہوا ۔ بدھئی نے جوخواب دیکھا تھا وہ پورا ہوگیا۔ 1965ء کے چناؤ میں بدھئی کا بیٹا سکھی رام اکثریت سے جیت کر ایم۔ایل۔اے بنتا ہے۔ بعد میں 1977کے چناؤ میں مرکزی وزیر داخلہ مسلم خاں کی ضمانت ضبط کروادیتا ہے۔ لیکن بدھئی کا یہ خواب اس وقت چکناچور ہوجاتا ہے جب اسی کا بیٹا سکھی رام غصے میں آکر باپ سے کہتا ہے کہ:

ß vxj vkidks esjh esgur dh dekbZ gjke dh yxrh gS rks vc rd vkius tks [kk;k gS mls myV nhft,AÞ

(’نیم کا پیڑ‘ ۔راہیؔ معصوم رضا،ص۴۴)

فیصلہ کن جواب سن کر بدھئی حیران و پریشان اپنے مستقبل کو دیکھتا ہے کہ دھوتی -کرتا پہن کر وہ اکیلا ہوگیا ہے۔ گاؤں، گھر،بیوی، دکھیا جو دن رات زیورات اور ساڑیوں کے حساب میں لگی رہتی تھی ،وہ خود سے ہی جرح کرنے لگتا ہے کہ کیا اس کی قسمت میں یہی تھا کہ اس نے میاں لوگوں کی گالی سنی اور اب بیٹے کی گالی سن رہا ہے۔ اس طرح پیڑ لگا کر نہ تو بدھئی کو اس کی چھاؤں مل سکی اور نہ ہی سکھی رام سے اسے خوشی اور آرام مل پایا۔

بدھئی کو اس وقت سب سے زیادہ حیرانی ہوئی جب اس نے مسلم میاں، سکھی رام کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ:

ß tk;nkn esjh vkSj dCt+k vkidkÞ

(’نیم کا پیڑ‘ ۔راہیؔ معصوم رضا،ص۹۱)

یہ سن کر بدھئی کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ اسے لگا جیسے اس کے سر پر آسمان پھٹ پڑا ہو۔ اس کو اتنا غصہ آیا کہ کلہاڑی اٹھاکر دونوں کی طرف لپکا ۔ نیم کے پیڑ کے سایے میں کھڑا سکھی رام پر کلہاڑی سے حملہ کرتا ہے ۔ وہ وہیں پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔

راہیؔ اس ناول کے ذریعہ ہندوستانی عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سیاست ایک ایسا نشہ ہے جس نے بھی ثابت قدمی نہیں برتی وہ اس دلدل میں دھنستا ہی چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ کسی کا خون کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا اور یہی سکھی رام کے ساتھ بھی ہوا۔ راہیؔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:

’’ جدید ہندوستان میں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ مذہب بڑا کاروبار ہے یا سیاست۔ لیکن دونوں تجارتوں میں پیسہ، اسمگلنگ سے زیادہ ہے۔ اس لیے جسے دیکھئے وہی سیاست اور مذہب کے دھندے میں جانے کو بے قرار ہے‘‘۔

(راہی معصوم رضا-کنور پال سنگھ، ص28)

بدھئی کی سوچ راہی کی سوچ ہے۔ جس طرح بدھئی نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میں اپنے بچے کو پڑھا لکھا کر ایک بہتر زندگی دوں گا تاکہ وہ میری طرح غلامی کی زندگی نہ گزارے بلکہ لوگ اس کی عزت کریں اور معاشرے میں ان کا مقام ہو۔ لیکن جب وہ اپنے ہی بیٹے کو رشوت لیتے، خون کرتے اور اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ افسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا اسی دن کے لیے میں نے یہ خواب دیکھا تھا۔ اس سے اچھا تو یہی تھا کہ میں غلامی کرتا۔ کم سے کم رشوت خور اور خونی کا باپ تو نہ کہلاتا۔

راہی اس کی وجہ نظام تعلیم کو ٹھہراتے ہیں ، کیونکہ وہ آج کے نظام تعلیم کی بدلتی ہوئیصورتحال کو دیکھ کر بہت فکر مندنظرآتے ہیں۔ آج کالج اور یونیورسٹی جن پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہے،ان کی تعداد میں تو روز بروز اضافہ ہوتاجارہا ہے لیکن معنویت ختم ہوتی جارہی ہے۔ آج کی تعلیم نہ تو منطقی ہے اور نہ بصیرت افروز۔ آج کا تعلیم یافتہ طبقہ ذہنی دیوالیے کا شکار اور بے حس ہوگیا ہے۔ اس کی زندگی اپنی ضروریات کے حصار میں سمٹ گئی ہے۔ یہ طبقہ جو چاہتا ہے وہی سننا اور دیکھنا پسند کرتا ہے اور اسی نظام کے مطابق خود کو ڈھالتا بھی ہے۔ اچھے برے میں تمیز کرنے کی قوت کھو چکا ہے۔ اسے صرف اپنا فائدہ نظر آتا ہے۔ یہی وہ وجوہات تھیں جس کی وجہ سے راہیؔ بہت فکر مند تھے، اور آج وہی ڈر اور خوف ہمارے سامنے حقیقت بن کر کھڑا ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔

*****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.