انشائیہ شناسی: چند معروضات

شمع پروین

ریسرچ اسکالر

شعبۂ اردو، ونوبا بھاوے یونی ورسٹی، ہزاری باغ

  alam.praween@gmail.com

ادب میں کسی بھی صنف کی ابتداء کا باضابطہ نمونہ تلاش کرنا جس قدر آسان معلوم ہوتا ہے بعض دفعہ یہ کام اسی قدر ذرا مشکل بھی ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر اس کے ابتدائی نقوش کی تلاش کی جائے تو مباحث کے مختلف در بھی وا ہوتے ہیں۔ جس میں اختلاف کی گنجائش بہر حال ہوتی ہے۔ اردو ادب میں صنف انشائیہ کا معاملہ بالکل ایسی ہی صورت اختیار کیے ہے۔ طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ ابتدائی نقوش کی تلاش میں ہمارے بعض محققین داستانوں کی سیر کر جاتے ہیں تو بعض خالص طنزیہ اور مزاحیہ قسم کی تحریروں کے گرد طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ خیال کیے بغیر کہ کسی صنف میں کسی اور صنف کی جھلک ملنا دیگر بات ہے جبکہ باضابطہ نمونہ دستیاب ہونا اور۔ یہی وجہ ہے کہ صنف انشائیہ کے سلسلے میں ہمارے اکثر محققین اور ناقدین نے مختلف نظریات قائم کیا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی عبث بھی نہیں کہ نظریاتی اختلافات ہی سے ادب کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا ہے۔ لیکن یہ نظریاتی اختلافات صرف اس حد تک ہوتے کہ اس صنف کی ابتدا فلاح تحریر یا فلاح سنہ سے ہوتی ہے اور اس کے موجد فلاح شخص یا فلاح تحریک ہے۔ یا یہ کہ اس صنف کی ابتدا جس تحریر سے تسلیم کی جاتی ہے دراصل اس میں وہ خصوصیات ہی نہیں جو اس صنف کا اختصاص ہے یا یہ کہ اس تحریر سے قبل اس صنف کے نقوش فلاح ادیب کی ان تحریروں میں نظر آتے ہیں، تو بھی غنیمت جانتے۔ لیکن حیرت کی انتہا تب ہوتی ہے جب کسی صنف کی مبادیات یا اس کے اصول و ضوابط طے پائے جا چکے ہیں، اسے دیگر اصناف (جن سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں) سے علیحدہ کرتے ہوئے اس کی بنیادی خصوصیات واضح کیے جا چکے ہیں، ایک حد فاصل قائم کی جا چکی ہیں، اس کے باوجود انہیں تسلیم کرنے کی بجائے وہ ایک ایسے حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی بنیادوں میں کسی اور صنف کا خمیر، اس کا اختصاص پیوست ہے۔

حالانکہ اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ انشائیہ کا ماخذ لفظ انشا سے ہے اور یہ لفظ ایک طویل مدت سے اردو ادب میں مستعمل رہا ہے۔ یہ بات بھی حقیقت بر مبنی ہے کہ ہمارے بعض قلم کاروں نے لفظ انشائیہ کو بطور صنف رائج ہونے سے قبل بھی استعمال کیا ہے۔ لیکن غور طلب ہے کہ ابتدائی دنوں میں لفظ انشائیہ جن معنوں میں استعمال کیا گیا وہ موجودہ اصطلاحی معنی سے بالکل مختلف تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انشائیہ کو اصطلاحی معنی میں استعمال کرنے کے بجائے انشا پردازی کے لیے استعمال کیا گیا۔ جس کا سروکار لسانی رویے سے ہے نہ کہ موضوعاتی سطح پر ندرتِ خیال کے اظہار سے۔ گویا ’’انشائیہ‘‘ کی روایت یا اس کے ابتدائی نقوش اصطلاحی معنی میں ملنے سے قبل جو دستیاب ہیں اس کا تعلق اردو کے انشائی ادب سے ہے نہ کہ بطور صنف انشائیہ نگاری سے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنی کتاب ’’اردو کا بہترین انشائی ادب‘‘ میں بڑی مدلل بحث کی ہے۔ اس تعلق سے سید محمد حسنین اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ :

’’ہاں، اردو کے ’’انشائی ادب‘‘ کی تاریخ قدیم اور خاصی قدیم ہے۔ لسانی سطح پر یہ اردو زبان کے اس ارتقائی دور سے شروع ہو جاتی ہے جب اردو نثر کو تحریری توانائی حاصل ہو چکی تھی۔‘‘ (انشائیہ اور انشائیے۔ سید محمد حسنین۔ ص۔۴۸)

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ انشائی ادب میں ندرت خیال یا موضوعات سے مناسبت رکھتے ہوئے جہانی معنی کی تلاش سے زیادہ زبان دانی کا مظاہرہ اہمیت رکھتا تھا۔ لسانی شعبدہ بازی کے تحت موضوع کو طول دینا اور بات سے بات پیدا کرتے ہوئے پند و نصائح پر مبنی قصے بیان کرنا، انشائی ادب کا خاصہ تھا۔ فکری اڑان پر زبان کی لطافت اور کثافت کو ترجیح دی جاتی تھی۔ جیسا کہ سر سید سے قل کے زمانے میں لکھی گئی تحریروں میں ملتی ہیں۔ سرسید کے عہد سے حالانکہ مضمون نگاری کی ابتدا ہوئی اور اس زمانے یا اس کے بعد کے زمانے میں ترقی پانے والی مضمون نگاری میں لسانی رویے سے زیادہ موضوع کو اہمیت دی گئی تاہم اسے انشائیہ نگاری کی شروعات نہیں کہی جا سکتی۔ کیونکہ یہاں موضوع کا مقصد اصلاحی نقطۂ نظر کا حامل تھا۔ اس کے باوجود اس دور کی تحریروں اور خاص طور پر سر سید کی تحریروں میں انشائیہ نگاری کے نقوش دریافت کیے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے بیشتر محققین اور ناقدین کی تحریروں میں اس تعلق سے بات بھی کی گئی ہے اور باضابطہ طور پر تحریرین نمونے بھی پیش کیے گئے۔ لیکن بعض محققین یا ناقدین ملا وجہی کی تحریروں یا نیرنگ خیال اور شرر جیسے انشأ پردازوں کی تحریروں میں انشائیہ کے نقوش تلاش کرنے کی حماقت کر بیٹھتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ان قدیم نثر نگاروں نے انشا پردازی میں اپنا مقام پیدا کیا ہے اور اسی انشأ پردازی کے وسیلے سے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ملا وجہی کی تحریریں یا نیرنگ خیال کے مضامین اور ’’مضامین شرر‘‘ کی تحریریں انشأ پردازی کی عمدہ مثالیں ہیں۔ ان تحریروں کو صنف انشائیہ نگاری کا نمونہ تو نہیں کہا جا سکتا البتہ انشاء پردازی کے یہ بہترین نمونے ضرور کہلانے کے مستحق ہیں۔ یہ تحریریں اپنی بے جا طوالت کے سبب بھی انشائیہ نگاری سے کوئی علاقہ نہیں رکھتیں۔ کیونکہ بے جا طوالت کے سبب ان میں اصلاحی قسم کے قصے بیان کیے گئے ہیں جو بعض دفعہ غیر دلچسپ اور اکتا دینے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں لفظ انشاء کا استعمال کئی جگہ آیا ہے لیکن یہ اصطلاحی معنی میں بطور انشائیہ کہیں بھی استعمال میں نہیں آیا۔ بلکہ ان تحریروں کو ادب لطیف کے زمرے میں بھی شمار نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ’’ادب لطیف یا لطیف پارے‘‘ ہی کی دوسری شکل ’’انشائیہ نگاری‘‘ ہے۔

غور طلب ہے کہ لفظ انشائیہ کا استعمال، بعض محققین کے مطابق، پہلے پہل محمد حسین آزاد کے مکاتیب کے مجموعے میں کیا گیا تھا۔ جبکہ سید محمد حسنین نے اپنی کتاب ’’صنف انشائیہ اور چند انشائیے‘‘ میں سید شاہ علی اکبر قاصد کی کتاب ’’ترنگ‘‘ کو اردو کا پہلا انشائیے کا مجموعہ قرار دیا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردو میں اس قسم کی تحریروں کے لیے (جس کے لیے عموماً مضمون لکھا گیا یا تو بعد میں ادب لطیف سے بھی موسوم کیا گیا) پہلی بار لفظ ’’انشائیہ‘‘ کو صنفی اعتبار سے اختر اورینوی نے ’’ترنگ‘‘ کے مقدمے میں استعمال کیا۔ گویا ’’ترنگ‘‘ کی تحریروں کے لیے لفظ انشائیہ کا استعمال اصطلاحی معنوں میں کسی خاص صنف کے لیے اردو میں پہلی بار اختراورینوی نے استعمال کیا۔ غور طلب ہے کہ علی اکبر قاصد کی ’’ترنگ‘‘ پہلی بار 1944 میں شائع ہوئی (حالانکہ یہ وثوق سے کہا نہیں جا سکتا کیوں کہ ترنگ کا نسخہ دستیاب نہیں دوسری بات یہ کہ حسنین صاحب علی اکبر سے متعلق جس واقعے کا ذکر کیا ہے وہ 1942 سے تعلق رکھتا ہے) اور مکاتیب آزاد 1907   میں۔ جہاں تک ’’مکاتیب آزاد‘‘ کی بات ہے تو یہاں عرض کرتی چلوں کہ میرے پیش نظر 1966 کا شائع شدہ ’’مکاتیب آزاد‘‘ کا جو نسخہ ہے، اس کے تمام خطوط کے مطالعے کے بعد بھی لفظ انشائیہ کی شناخت سے میں قاصر ہوں۔ حالانکہ اس نسخے کے مرتب سید مرتضیٰ حسین نے بعض ان خطوط اور دیگر تحریروں کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے، جو پہلے ایڈیشن میں شائع ہونے سے رہ گئی تھیں۔ ان تمام تحریروں کی چھان پھٹک کے باوجود، لفظ انشائیہ کو تلاشنے سے میں قاصر رہی۔ علاوہ ازیں اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ کسی مکتوب میں محمد حسین آزاد نے لفظ انشائیہ کا استعمال کیا ہو تو بھی یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آزاد نے لفظ انشائیہ کا استعمال جن معنوں میں کیا ہوگا، وہ آج کی انشائیہ نگاری سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان تحریروں کی نوعیت ہے۔ جن کے مطالعے سے بعض تاریخی معاملات اور ذاتی احوال و کوائف تو دریافت کیے جا سکتے ہیں لیکن ذات کے اندرون خانے میں جھانکنے اور ایک نئی دنیا کو دریافت کرنے کا طریقۂ کار یا عام سی شئے کو مختلف نوعیت سے پیش کرنے کا ہنر نظر نہیں آتا۔ اس لیے ان تحریروں کی انشا پردازی سے لطف اندوز تو ہوا جا سکتا ہے لیکن اسے کسی طور انشائیہ کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد حسین آزاد کو زبان پر حددرجہ ملکہ حاصل تھا۔ اس کی جھلک ان کی بیشتر تحریروں میں نظر آتی ہیں۔ ’’نیرنگ خیال‘‘ کے مضامین بھی اسی قبیل کا حصہ ہیں۔ کسی بھی عام سے موضوع کو وہ اس قدر دلچسپ انداز میں بیان کرتے کہ قاری بے تکان پڑھتا چلا جائے لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تحریریں انشائیہ نگاری کے مبادی پہلوؤں سے قطعی طور پر تشنہ ہیں۔ ان میں نہ تو ندرت خیال ہے اور نہ ہی کسی اشیا یا موضوع کے ان پہلوؤں کو چھیڑا گیا ہے جس سے عام قاری نابلد ہوتا ہے۔ دوسری بنیادی بات یہ کہ ان میں ایک قسم کے واقعات کی روداد ملتی ہے۔ ظاہر ہے مکتوب میں انسان احوال و کوائف ہی قلم بند کرتا ہے مزید اس توسل سے دیگر اہم باتوں کا ذکر کر جاتا ہے۔ الغرض محمد حسین آزاد کے مکاتیب کو انشائیہ نگاری کے زمرے میں شمار کرنا نہ صرف انشائیہ کے ساتھ زیادتی ہوگی بلکہ لسانی اعتبار سے انشا پردازی اور مکتوب نگاری کے ساتھ بھی ناانصافی ہوگی کہ مکتوب نگاری خود باضابطہ ایک فن ہے اور انشا پردازی اردو زبان کے فروغ کا ایک اہم پڑاؤ۔

جہاں تک علی اکبر قاصد کی ’’ترنگ‘‘ کا معاملہ ہے، خود مصنف نے ترنگ کی تحریروں کو نہ تو ادب لطیف کہا اور نہ ہی انشائیہ کے لفظ سے موسوم کیا۔ البتہ اختر اورینوی صاحب جب ترنگ کا مقدمہ لکھتے ہیں تو مجموعے میں شامل مختلف عناوین کے تحت لکھی گئی تحریروں کے لیے انشائیہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ گویا یہ اردو میں پہلی بار ہے کہ جب ایک خاص قسم کی تحریروں کے لیے ’’انشائیہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ چونکہ ’’ترنگ‘‘ کا کوئی نسخہ دستیاب نہ ہو سکا اس لیے ’’ترنگ‘‘ اور اختر اورینوی کے سلسلے میں سید محمد حسنین کے ان خیالات کو نقل کرتی ہوں جن سے کافی کچھ واضح ہوتا ہے۔ ’’صنف انشائیہ اور چند انشائیے‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:

’’ترنگ میں اختر صاحب کا مقدمہ بھی تھا۔ یہ مقدمہ صنف انشائیہ پر اردو کا پہلا مقالہ تھا۔ لفظ انشائیہ فاضل مقدمہ نگار کی طباعی کا نتیجہ تھا۔ اردو دنیا اس نوع کی تحریروں سے ناواقف نہ تھی۔ مگر یہ لفظ بالکل نامانوس تھا اور اسے قبول عام کی سند حاصل نہ تھی۔ ان دنوں بلکہ کئی سال تک صنفی لحاظ سے بھی انشائیہ محتاج تعارف تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس نوع کی ہلکی پھلکی غیر سنجیدہ تحریروں کی نامزدگی اور حدبندی میں پہلا نام ڈاکٹر اختر اورینوی کا سامنے آتا ہے۔‘‘ (صنف انشائیہ اور چند انشائیے۔ سید محمد حسنین، ناشر۔ ایوان اردو، پٹنہ، بہار۔ ۱۹۶۳، ص۔۳۶)

گویا اس طرح دیکھا جائے تو کسی خاص قسم کی تحریروں کے لیے ’’انشائیہ‘‘ کو صنفی اعتبار سے اصطلاحی معنی میں استعمال کرنے کا سہرا اختر اورینوی کے سر جاتا ہے۔ لیکن اس معاملے کو اس حد سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو سوال قائم ہوتا ہے کہ کیا واقعی علی اکبر قاصد کی تحریریں انشائیہ کے تقاضے کو پورا کرتی ہیں؟  ترنگ کی تحریروں کو انشائیہ کے اصول و قیود کے مطابق تسلیم کیا جا سکتا ہے؟  بنیادی طور پر ان سوالات کا ابھرنا انشائیہ کے ضمن میں پیش کی جانے والی تھیوری یا تھیسس سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے انشائیہ کی جو تعریف و توضیحات پیش کی ہے، اسے ذہن میں رکھتے ہوئے علی اکبر قاصد کی تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو اسے انشائیہ تسلیم کرنے میں تھوری مشکل پیش آئی گی۔ کیونکہ قاصد صاحب کی تحریریں انشائیہ کے تقاضے کو پورا نہیں کرتی ہیں۔ ان تحریروں میں موضوع کو لطیف پیرائے میں بیان ضرور کیا گیا ہے لیکن واقعے یا اشیا کے بیان میں وہ باطنیت نہیں ہے جس سے ان دیکھی کائنات کا علم قاری کو ہو۔ قاصد صاحب موضوع کی ابتدا بھی جہاں سے کرتے ہیں اس کا رخ ذہنی عروج کے بجائے سطحی قسم کا معلوم ہوتا ہے اور اختتام کوئی ایسا اثر نہیں چھوڑتا جس کی گرفت میں قاری تادیر رہے۔ قاری کو اس کے مطالعے سے ان دیکھی کائنات کو دیکھنے کا احساس ہو۔ مثال کے طور پر ’’ترنگ‘‘ میں ’’چھینک‘‘ کے عنوان سے شامل اس تحریر کی ابتدا اور اختتام کو ملاحظہ کیجئے:۔

’’دنیا میں سات عجائبات تو مشہور ہیں مگر آٹھویں عجیب چیز کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی اور اس عدم توجہی کی وجہ وہی چراغ تلے اندھیر ہے۔ یہ آٹھویں چیز اتنی عام ہے کہ اس کی طرف خیال کا جانا ذرا مشکل ہی کام ہے۔ انتظار کی تکلیف دیئے بغیر میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ دنیا کی یہ آٹھویں عجیب چیز ’’چھینک‘‘ ہے۔‘‘

اور یہ اختتام کا انداز دیکھئے:

’’دیکھا آپ نے ؟ اس مختصر سی چھینک کے سامنے ساری اشرف المخلوقیت دھری رہ جاتی ہے۔ تو بیچارہ سیٹھ جی کا بس نہ چلا تو کون سی بری بات تھی۔ لیکن لوگ ہیں کہ خواہ مخواہ ہنس دیتے ہیں۔‘‘

’’چھینک‘‘  کے عنوان سے لکھی گئی اس تحریر میں چھینک کے حوالے سے دیگر کئی دلچسپ باتیں کی گئی لیکن چھینک کو ایسی مرکزیت حاصل رہی گویا یہ تحریر بہ ارادا مضمون نویسی کے لیے لکھی گئی ہو۔ کہیں بھی ایسا احساس نہیں ہوتا کہ چھینک اپنے مرکز سے علیحدہ ہو کر اب انسان کی جسمانی ساخت کے اندیکھے راز وا کیے جا رہے ہوں اور چھینک تو کہیں پیچھے، پستی میں چھوٹ گئی ہو جس کا اب اس ذہنی ترنگ تک پہنچتا محال ہے۔ حالانکہ علی اکبر قاصد کی یہ تحریریں انگریزی Essays سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں حسنین صاحب مزید فرماتے ہیں کہ :

’’قاصد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈی ایچ لارنس کی تحریروں پر جان دیتے تھے۔ ادب انگریزی کے لائق پروفیسر محمد فضل الرحمن مرحوم اور ڈاکٹر اختر اوریوی کے لیکچرس کی روشنی میں انہیں اس خطۂ ادب کی گلکستی میں بڑا لطف ملا۔ ان کی دیگر دلچسپیاں اس عروس نو کے عشق پر قربان ہو گئیں۔انہوں نے کئی چھوٹے چھوٹے ہلکے پھلکے نہایت ہی دلکش مضامین لکھے۔‘‘

گویا قاصد صاحب کے پیش نظر ڈی ایچ لارنس کے Essays تھے جنہیں وہ والہانہ پسند کرتے تھے اور انہیں کی روشنی میں انہوں نے بھی متعدد تحریریں قلم بند کیں، جو مجموعے کی شکل میں ’’ترنگ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس پر اختر اورینوی کے مقدمے نے ان تحریروں کی نوعیت واضح کرنے کی کوشش کی اور باضابطہ طور پر ان تحریروں کے لیے لفظ ’’انشائیہ‘‘ کو اصطلاحی معنی میں متعارف کرایا۔ گویا اردو میں یہ پہلا واقعہ تھا جب کسی تحریر کے لیے انشائیہ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ متعارف کی یہ پہلی صورت اس نکتے کی طرف بھی توجہ چاہتی ہے کہ چونکہ یہ دور انشائیہ کا ابتدائی زمانہ تھا اور انگریزی ایسّیز کی طرز پر اردو میں انشائیہ لکھنے کی پہلی کوشش، تو اس زاویے سے علی اکبر قاصد کی تحریروں میں پائی جانے والی خامیاں، نظر انداز کیے جانے کی مستحق تو بہرحال ہے۔ قاصد صاحب کی ان تحریروں کو اردو کے ابتدائی انشائیے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے انشائیہ کی اصل شکل تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اردو میں انشائیہ کا المیہ یہ ہے کہ اس نے ابتدائی دور میں جس قدر متانت اور اصولی نہج پر اپنے بال و پر کھولے، بعد کے زمانے میں اور خصوصاً حال کے دو تین عشروں میں، اسی قدر یہ صنف تزلیل کا شکار ہوئی۔ تزلیل اس طور کہ اس کے اصول سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس صنف کے تقاضے کو ہی مسمار کر دیا گیا۔

الغرض اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ انشائیہ کا لفظ ایک خاص قسم کی تحریروں کے لیے اصطلاحی معنی میں پہلی بار اختر اورینوی نے ’’ترنگ‘‘ کے مقدمے میں استعمال کیا لیکن جس طرح سے حسنین صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ترنگ‘‘ کی تحریروں کو انشائیہ کی نامزدگی سے مقبول عام بنایا گیا، شبہ میں ڈالتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وزیر آغا اور مرزا ادیب کو انگریزی ’’ایسّے‘‘ کی طرز پر لکھی گئی تحریروں کے لیے معقول لفظ کے انتخاب کے لیے تگ و دو نہ کرنا پڑتی۔ لفظ ’’انشائیہ‘‘ کی شناخت یا انتخاب سے پہلے انہیں دو ناموں سے گزرنا پڑا۔ کیونکہ کچھ عرصے تک دونوں صاحبان نے ’’ایسّے‘‘ کے لیے کبھی ’’انشائے لطیف‘‘ تو کبھی ’’لطیف پارہ‘‘ کے ناموں کا سہارا لیا۔ خود ایک جگہ وزیر آغا لکھتے ہیں:

’’اردو میں انشائیہ کی کوئی خاص روایت موجود نہیں تھی اور قارئین نے ایسّے کو طنزیہ مزاحیہ مضامین سے الگ اور جدا کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی اس لیے جب ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ میں لائٹ ایسے کو پیش کرنے کی تحریک کا آغاز ہوا تو میرے اور میرزا ادیب کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ لائٹ ایسے کو کیا نام دیا جائے تاکہ یہ دوسری اصناف سے الگ نظر آ سکے۔ کچھ عرصہ کے لیے ہم نے ’’لطیف پارہ‘‘ کی ترکیب استعمال کی لیکن یہ مقبول نہ ہو سکی۔ پھر ہم نے ’’انشائے لطیف‘‘ کی ترغیب کا احیا کیا۔۔۔ اسے بھی ترک کرنا پڑا۔ اسی دوران میں نے کسی ادبی رسالے میں انشائیہ کا لفظ پڑھا۔ میرزا ادیب صاحب سے میں نے اس کا ذکر کیا تو وہ خوشی سے اچھل پڑے۔ اس کے بعد ادب لطیف میں لائٹ ایسے کے لیے انشائیہ کا لفظ ہی استعمال ہوتا رہا اور خوش قسمتی سے یہ مقبول بھی ہو گیا۔‘‘ (بحوالہ ناصر عباس نیر کے انشائیوں کا موضوعاتی اور اسلوبیاتی مطالعہ، صدرا طاہر، ص۔۲۱)

گویا یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اردو میں انگریزی طرز تحریر ’’ایسّے‘‘ کے لیے انشائیہ کا لفظ اصطلاحی معنی میں صنفی اعتبار سے پہلے پہل اختر اوریونی نے علی اکبر قاصد کی ’’ترنگ‘‘ کے مقدمے میں استعمال کرتے ہیں۔ گویا یہ پہلا موقع تھا جب ایک خاص قسم کی تحریروں کی شناخت کا معاملہ عمل میں آیا۔ اس لیے اختر اورینوی کو انشائیہ کی شناخت کے سلسلے میں اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ تاہم انگریزی طرز کے ایسّے کے لیے اردو میں انشائیہ کی اصطلاح کو وزیر آغا اور مرزا ادیب کی کوششوں نے مقبول عام بنایا۔ لیکن ایک اہم سوال تاحال قائم ہے کہ اردو کا باضابطہ انشائیہ نگار کون ہے؟ کون سی تحریر یا مجموعہ تحریر، انشائیہ کے تقاضے کو پورا کرتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.