سفرنامہ ہندیاترا :  ایک تجزیاتی مطالعہ

 بلال احمد تانترے

نوگام ،بانہال ،جموں و کشمیر

Bilalahmed8130@gmail.com

ہند یاترا اردو کے معروف افسانہ نگار ممتاز مفتی کا سفرنامہ ہے ۔ممتاز مفتی تقسیم ہند سے پہلے بٹالہ پنجاب میں رہتے تھے۔تقسیم کے بعد انہوں نے پاکستان ہجرت کی تھی اور لاہور میں سکونت اختیار کی تھی ۔تقسیم کے کم وبیش پینتیس سال بعد انہوں نے ۱۹۸۲ء میں ہندوستان کا واحد سفر اختیار کیا ۔اس سفر پر بھی وہ امیر خسرو کے عرس میں شامل ہونے کے لیے پاکستانی زائرین کے ایک وفد کے ساتھ آئے تھے ۔ان پاکستانی زائرین کو دہلی سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی ۔سفر کامقصد امیر خسرو کے عرس میں شامل ہونا تھا لیکن ممتاز مفتی کو بٹالہ اور اس سے ملحقہ ان تمام علاقوں کو دوبارہ دیکھنے کی خواہش تھی جہاں انہوں نے زندگی کے ابتدائی بیالیس سال گزارے تھے ۔یہ خواہش سفرنامے میں ابتدائی مرحلے پر ہی یادوں کا ایک خوبصورت منظرنامہ تخلیق کرتی ہے:

’’کیا مفتیاں محلے کی وہ عظیم ڈیوڑھی جو محلے کو ،کوچہ بند کرتی تھی اب بھی جوں کی توں قائم ہے ۔کیا اس عظیم ڈیوڑھی کے بڑے بڑے چوبی کواڑ جو کبھی بند نہ ہوئے تھے ،اب بھی ویسے ہی کھلے رہتے ہیں ۔کیا ڈیوڑھی سے ملحقہ مسجد اب بھی اسی طرح سفید چادر میں لپٹی ہوئی گیان دھیان میں مگن بیٹھی ہوئی ہے ۔کیا مسجد کے کنویں کا پانی اب بھی اتنا ہی ٹھنڈا ہے کہ سہارا نہیں جاتا ۔کیا کنویں کے پہلو میں نور شاہ ولی اب بھی اسی اطمینان اور سکون سے اپنے مزار میں لیٹے ہوئے ہیں ۔۔۔ ‘‘۱؎

’’کیا چاروں اطراف محلے کے اونچے اونچے چار منزلہ مکانوں سے گھرے ہوئے چھوٹی اینٹ کے فرش والے وسیع میدان کو اب بھی منڈی کہتے ہیں۔کیا اب بھی وہاں بچے کھیلتے ہیں ،شور مچاتے ہیں اور کھڑکیوں میں بیٹھی ہوئی بوڑھی عورتیں انہیں ڈاٹتی ہیں ،سرزنش کرتی ہیں ۔کیا اب بھی چھتی گلی کو گلیارہ کہتے ہیں ۔کیا اب بھی محلے کے کچے نوجوان وہاں گھنٹوں چھپے رہتے ہیں کہ آتی جاتی لڑکیوں کی خوشبوقریب سے سونگھ سکیں‘‘۲؎

 بٹالہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کو دیکھنا اس سفر میں ممکن نہیں تھا لیکن سفرنامہ نگار نے ان جگہوں سے جس ذہنی وابستگی کا اظہار کیاہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ماضی کو اس نے ہر عہد میں عزیز رکھا تھا ۔پاکستان میں بھی اس نے بٹالہ کے بازاروں ،گلی کوچوں ،میدانوں ،مسجدوں ،دریاوں اور تالابوں سے جڑی ہر ایک یاد کو اپنے ذہن و دل میں آباد رکھا تھا۔بٹالہ سے برسوں پہلے اس کا ظاہری تعلق منقطع ہوگیا تھا لیکن بٹالہ سے برسوں بعد بھی اس کا داخلی رشتہ قائم تھا ۔اس داخلی تعلق کی بنیاد پر ہی ہندیاترا میں قدم قدم پر ماضی کے نقش ابھرتے ہیں۔ لیکن یہ نقش غیر شعوری طور پر روداد کا حصہ بنتے ہیں ۔انہیں ابھارا نہیں جاتا وہ خود ابھرتے ہیں ۔

ممتاز مفتی کے لیے ہندوستان کا سفراختیار کرنا آسان نہیں تھا۔اس سے پہلے بھی انہوں نے کئی بار ہندوستان جانے کے منصوبے بنائے تھے لیکن جب بھی ایسا ارادہ باندھتے تھے تو ان کے سامنے وہ سارے تلخ مناظر ابھرتے جو انہوں نے تقسیم ہند کے وقت بٹالہ سے ہجرت کے دوران دیکھے تھے ۔ لاشوں سے بھری امرتسر کی سڑکیں ،مکانوں سے اٹھتا ہوا دھواں، خون سے نہلائے ہوئے راستے ،فضا میں گونجتی مار دھاڑ کی آوازیں، مردہ عورتوں کے تشدد زدہ برہنہ جسم،درختوں سے لٹکی معصوم بچوںکی لاشیں ۔۔۔سب ان کو یاد آجاتا۔یوں ان کا ہندوستان جانے کا ارادہ ٹوٹ جاتا۔ہندیاترا میں اس نجی احساس کو بھی رقم کیا گیا ہے ۔ لیکن یہ نجی احساس اس انداز میں سچ کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھل گیا ہے کہ اس سے اجتماعی المیے کی تلخ صورتیں بھی مرتب ہوتی ہیں۔یوں آپ بیتی میں جگ بیتی کا منظر بھی تخلیق ہوتا ہے :

’’ہاں کئی بار میرے دل میں خواہش ابھرتی کہ ہندوستان جائوں ۔اپنا گائوں بٹالہ دیکھوں ۔امرتسر۔لیکن دفعتاًمنظر خون آلود ہوجاتا ۔تشدد کی پچکاریاں چلتیں۔نفرت اور حقارت کی آوازیں ابھرتیں۔ہوس تذلیل کی بھڑاس اٹھتی اور پھر بغض وعناد کی خون آلود دیوار کھڑی ہوجاتی۔نہیں میں ہندوستان نہیں جائوں گا ۔میں نے جو ایک بار حقیقت میں بیتا ہے اسے دوبارہ ذہنی طور پر بیتنے کی مجھ میں ہمت نہیں ۔نہیں میں ہند نہیں جائوں گا ۔وہ لاکھوں شہید جن کے خون سے بارڈر کی زمین ابھی تک سرخ ہے ،وہ پوچھیں گے کہاں جارہاہے تو ۔یہ کیا کر رہا ہے تو میں کیا جواب دوں گا ۔نہیں ،میں ہند نہیں جائوں گا ۔‘‘۳؎

ممتاز مفتی نے تقسیم ہند کے حوالے سے اپنی ذات سے جڑے جن نجی سانحات کا ذکر کیا ہے وہ ان کی قومی و ملکی دونوں کی اجتماعی تاریخ کے سانحات بھی ہیں ۔یہی وہ چیز ہے جو اس سفرنامے کی اہمیت کو بڑھاتی ہے اور اسے ایک تاریخی حوالہ عطاکرتی ہے ۔لیکن یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ممتاز مفتی نے تقسیم ہند کے واقعے کے حوالے سے اختصار سے کام لیا ہے ۔انہوں نے صرف انہی دل خراش مناظر کے نقشے کھینچے ہیں جو انہوں نے ہجرت کے دوران اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے ۔ان تلخ باتوں کا تذکرہ بھی انہوں نے ہندوستان سے جڑی یادوں کے سلسلے میں کیا ہے ۔

ممتاز مفتی نے جب تقسیم کے بعد دوبارہ ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو ان کا ذہن ابتدائی مرحلے پر ہی اس کرئہ ارض سے جڑی یادوں کی دنیا میں کھو گیا۔ان کی آنکھیں بظاہر موجودہ ہندوستان کو دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن ان کا ذہن پسِ پشت یادوں کی دنیا میں اس ہندوستان کو ڈھونڈ رہا ہوتا ہے جو انہوں نے چونتیس سال پہلے دیکھا تھا ۔یوں بیک وقت دو سفری سلسلوں کا آغاز ہوتا ہے۔ایک یادوں سے شروع ہوتاہے اور آخر تک انہی پر محیط رہتا ہے اور دوسرا سفر کے خارجی کوائف سے اپناتعلق رکھتا ہے ۔ ممتاز مفتی نے دونوںسلسلوں کواس انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ رکھا ہے اور ارتقاکے مرحلوں سے گزارا ہے کہ کسی بھی مقام پر ان دونوں سلسلوں کے منفرد ہونے کا احساس تک نہیں ابھرتا ہے ۔ بقول رشید امجد:

’’یہ دراصل دوہرے سفر کی کہانی ہے ۔ایک سفر تو خارج میں اسلام آباد سے دہلی تک کا ہے اور دوسرا سفر یادوں کے حوالے سے تقریباًایک ہزار سال کے عرصہ پر پھیلا ہواہے۔ مفتی نے کمال فنی مہارت سے ان دونوں سفروں کو یوں یکجا کیا ہے کہ یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کہاں سے یادوں کا سفر شروع ہوتا ہے اور کہاں سے خارجی سفر ،دونوں ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہوگئے ہیں کہ فنی طور پر ایک ایسی اکائی وجود میں آئی ہے کہ اسے حصوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘ ۴؎

ممتاز مفتی نے ہر قدم پر یاد کا سہارا لیا ہے ۔اس سفر میں مکانی سطح پر ان کے قدم جتنے آگے بڑھتے ہیں اتنا ہی زمانی سطح پر ان کا ذہن ماضی کی طرف مراجعت کرتا ہے ۔جس جگہ کو بھی دیکھتے ہیںاس سے جڑی یادیں ان کو ماضی کی وادیوں میںگہرے طور پر گم کردیتی ہیں ۔اپنا گزرا ہوا کل انہیں بہت عزیز ہے کیوں اس سے ان کی ایک عظیم جذباتی کہانی بھی وابستہ ہے ۔وہ کہانی جس کو علی پور کا ایلی میں افسانوی لباس پہنایا گیا ہے ۔لیکن ماضی میں جانے کی ایک اور وجہ وہ تغیر بھی تھا جوہندوستان میں آزادی کے بعد آیاہو اتھا ۔یہ تغیر صرف سیاسی وسماجی اور تعمیری سطح تک محدود نہیں تھابلکہ لوگوں کے رویوں،ان کے مزاج ، ان کی نفسیات ،نیز ان کے رہن سہن،کھانے پینے ،اٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے اور چہرے بشرے پر بھی اس کے اثرات ثبت ہوچکے تھے ۔ممتاز مفتی نے جب ہندوستان کو ایک لمبے عرصے کے بعد دیکھا تو انہیں یقین نہیں آیا کہ یہ وہی ہندوستان ہے جسے انہوں نے چونتیس سال پہلے دیکھا تھا ۔انہیں ہر ایک چیز میں تبدیلی نظر آئی ۔لوگ بھی بدلے بدلے سے نظر آئے۔یہی وہ خارجی صورت حال ہے جو ان کے ذہن کو پیچھے لے جاتی ہے ۔لیکن اس عمل سے سفرنامے میں غیر شعوری طور پر ماضی کی بازیافت کی تخلیق ہوجاتی ہے جو سفرنامے کو فنی سطح پر کمزور تو کرتی ہے لیکن فکری سطح پر اس کی معنویت کو بڑھاتی ہے ۔

ہندیاترامیں دہلی کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔اس لیے نہیں کہ دہلی ایک تاریخ شہر ہے بلکہ اس لیے کہ پاکستانی زائرین کا وفد جس میں ممتاز مفتی بھی شامل تھے کو پورے سفر کے دوران دہلی میں ہی قیام کرنا تھا۔ دہلی ہی ان کی منزل تھی ۔وہ جس مقصد کے لیے آئے تھے اس مقصد کی تکمیل اسی شہر میں ہونی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ ہند یاترامیں دہلی کے نقش و نگار کے مختلف رنگ اپنی تاریخی عظمت کے سبھی حوالوں کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ممتاز مفتی کو پورے سفر کے دوران دہلی پر مسلمانوں کے گہرے نقوش نظر آئے ۔انہوں نے اس شہر کی ہر شے پر مغلوںکی گہری چھاپ کو محسوس کیا ۔انہیں تعجب ہوا کہ ہندوجو پہلے سے ملک میں رام راج نافذ کرنے کا خواہش مند تھا اور ہے ،نے کیوں  اس شہر کو اپنا دارالحکومت منتخب کیا ہے ؟ دہلی تاریخی اعتبار ہی سے نہیں روحانی اعتبار سے بھی مسلمانوں کی دہلی رہی ہے اور مسلمانوں ہی کی رہے گی ۔یہ کبھی ہندئووں کی نہیں بن سکتی ۔اس پر کبھی ان کی کوئی چھاپ نہیں پڑسکتی ۔وہ شعوری طور پر بھی اس کو اپنے رنگ میں نہیںرنگ سکتے ۔اس فکر کا اظہار خوبصورت اسلوب نگارش میں کیا گیا ہے :

’’مہاراج یہ کیا کیا آپ نے ۔۔۔آپ تواکھنڈ بھارت کے دیوانے ہیں ۔رام راجیہ کے خواہاں ہیں ۔ہند کی پرانی عظمت کو ازسر نو بیتنے کے خواہش مند ہیں۔یہ کیا کیا آپ نے کہ دلی کو ہند کی راج دھانی بنالیا ۔اس دلی پر تو کبھی بھارت کی چھاپ نہیں لگ سکتی ۔یہ دلی تو ہمیشہ مغلوں کی رہے گی ۔مسلمانوں کی دلی ۔۔۔اس عظیم مسجد کے مینار تو ہمیشہ اللہ اکبر الاپتے رہیں گے ۔اس لال قلعے سے تو ہمیشہ باادب باملاحظہ ہوشیار کی آوازیں گونجتی رہیں گی۔

مہاراج آپ کو توچاہیے تھا کہ اس مسجداور قلعے کو کرین سے اٹھوا کر کسی عجائب گھر میں رکھوادیتے تاکہ یہ دلی آپ کی دلی بن سکتی ۔

لیکن نہیں صر ف جامع مسجد اور لال قلعے کی بات نہیں یہاں تو قدم قدم پر مسلمانوں کے نقش کف پا موجود ہیں۔۔۔آپ کیا کیا کچھ کرین سے اٹھوا کرعجائب گھر میں پھنکوائیں گے۔یہ سانپ جو گز رگئے ہیں ،اتنی لکیریں چھوڑگئے ہیں کہ کبھی مٹائے نہ مٹ سکیں گی۔

خالی بادشاہوں کی بات نہیں یہ شہر تو ان ولیوں اور قطبوں کے مزاروں کا شہر ہے۔ ان داتائوں کا شہر ہے جن کی دین محدود نہ تھی ۔جن کے دوار سے ہندو ،سکھ ،بدھ ،مسلمان سبھی جھولیاں بھر بھر کر لے جاتے تھے ۔۔۔

ان کے ہوتے ہوئے دلی کبھی آپ کی دلی نہیں بن سکے گی ۔یہ دلی انہی کی رہے گی جن کی چھاپ یہاں قدم قدم پر لگی ہوئی ہے ۔‘‘۵؎

ہند یاترا میں دہلی کے گلی کوچوں کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ ان بزرگوں کے تذکرے بھی موجود ہیں جو دہلی میں مدفون ہیں ۔ان بزرگوں میں خاص طور پر  حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ،حضرت نظام الدین اولیاؒاور حضرت امیر خسروؒ شامل ہیں۔ممتاز مفتی نے مذکورہ بزرگوںکے مزاروں کے خارجی مناظر اور وہاں خود پر طاری ہونے والی کیفیات ہی کو بیان نہیں کیا ہے بلکہ ان کے پہلو بہ پہلو تصوف کیا ہے؟اہل تصوف کیسے ہوتے ہیں ؟پر بھی اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے لیکن اس انداز میں کہ تصوف سے ان کی اپنی گہری وابستگی کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔

مجموعی طور پر ہند یاتراکا مطالعہ ذہن کو کئی فکری و فنی سطحوں پر متوجہ کرتا ہے ۔یہ بنیادی طور پر سفرنامہ ہے لیکن اس میں تاریخ کے نقوش بھی ابھرتے ہیں ،سفرنامہ نگار کا ماضی اور اس کے معاصر رویوں کا بھی اظہارہوتا ہے اور آنے والے کل سے وابستہ اس کی آرزئوں اور امیدوں کا بھی پتہ چلتا ہے ۔اس میں محض ایک سفر کی رودادکو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس ایک روداد میں بھی کئی دوسری نجی و اجتماعی رودادوں کو بھی صفحہ قرطاس پر اتارا گیا ہے ۔یہ ساری رودادیں سفرنامے میں فکری تنوع پیدا کرتی ہیںاوراختتام پرآکر ایک مجموعی اور مخصوص تاثر قائم کرتی ہیں ۔یہ تاثر سفرنامہ نگار کی پاکستانیت ہے ۔

حوالہ جات  :

 ۱ ۔ہند یاترا ،ممتاز مفتی ،الفیصل ناشران و تاجران کتب،لاہور،پاکستان،۲۰۰۸ ،ص۲۱

۲ ۔ایضاً ،ص۲۲

۳۔ایضاً ،ص۲۴

۴ ۔ایضاً ،ص۱۲

  ۵ ۔ایضاً،ص ۱۲۷

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.