سیتا ہرن:ایک ما بعد جدید قرأت
طاہر حسین
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
قرۃ العین حیدر کا شمار اردو کے صف اوّل کے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔وہ اپنے اچھوتے موضوعات و مضامین اور منفرد انداز بیان کی وجہ سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہیں۔ان کی تخلیقات اردو فکشن کے خزانے میں ایک بیش قیمت اضافے کے ساتھ ساتھ اس کا سرمایہ افتخار بھی ہیں۔انہوں نے اردو فکشن کی تینوں جدید ترین صورتوںیعنی ناول،ناولٹ اور افسانہ کو برتا ہے اور ایسے لاثانی و لافانی نقوش پیش کیے ہیں جنہیں اردو دنیا کبھی فراموش نہیں کر سکتی ہے۔آپ کی تخلیقات نے اردو فکشن کو وہ وقار اور اعتبار بخشا ہے کی یہ عالمی ادبیات کے فکشن کے بالمقابل کھڑاہے اور ادبی ڈسکورس میں براہ راست اس سے ہم کلام ہے۔
سیتا ہرن قرۃ العین حیدر کا ایک شاہکار ناولٹ ہے جو اپنے موضوع،ہیئت اور پیشکش کے اعتبار سے نہایت اہم اور دلچسپ ہے۔اس ناولٹ کی کہانی کا مختصر خلاصہ یوں ہے کہ سیتا میر چندانی نام کی ایک ہندو لڑکی تقسیم ہند کے وقت پاکستان سے ہجرت کرکے دلی آ جاتی ہے۔کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد وہ اپنے ماموں کے بلانے پر امریکہ چلی جاتی ہے اور وہاں اعلی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر سیتا بن جاتی ہے۔امریکہ میں رہ کر وہ اس قدر آزاد،سیکولر اور روشن خیال بن جاتی ہے کہ وہ اپنے مذہب اوراپنی روایات کو یکسر فراموش کرکے پوری طرح وہیں کے کلچر میں ڈھل جاتی ہے۔امریکہ میں ہی وہ اپنے ماموں اور ماں باپ کو بتائے بغیر ہی جمیل نام کے ایک مسلمان نوجوان سے شادی کر لیتی ہے اور ایک بچے راہل کی ماں بن جاتی ہے۔شادی کے مقدس بندھن میں بندھ جانے اور ایک بچے کی ماں بننے کے بعد بھی وہ اسی طرح آزادرہنا چاہتی ہے جیسے شادی سے پہلے تھی۔سب سے ملنا جلنا ،سب کے ساتھ دوستی اور قابل اعتراض حد تک پہنچے ہوئے تعلقات یہ سب کچھ وہ شادی کے بعد بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔اکثر و بیشتر وہ جمیل کے دفتر کے اوقات اور اس کی عدم موجودگی میں قمر الاسلام نامی ایک بنگالی نوجوان کے ساتھ وقت گزارتی تھی اور اس کی محبت میں اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ ایک دن قمر الاسلام جمیل کے دفتر جا کر اسے بتاتا ہے کہ مجھے تمہاری بیوی سے عشق ہو گیا ہے۔جمیل نے اسے وہیں مارا پیٹا اور گھر پہنچ کر سیتا کو بھی مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا ۔سیتا قمر الاسلام کے پاس جاتی ہے لیکن وہ اسے اپنانے سے انکار کر دیتا ہے۔کچھ دن وہیں اپنے کسی دوست کے گھر رہ کر سیتا واپس ہندوستان آ جاتی ہے اور کچھ ہی دنوں میں وہ یہاں بھی کئی نئے لوگوں کے ساتھ روابط بنا کر اپنی دوستی اور تعلقات کا سلسلہ بڑھا لیتی ہے۔اسی بیچ ایک مرتبہ اسے اپنی دوست بلقیس کے ساتھ ایک شادی کی تقریب کے سلسلے میں پاکستان جانے کا موقع ملا تو وہاں بھی اسے اپنی دوست بلقیس کے منگیتر عرفان سے محبت ہو جاتی ہے۔سری لنکا جا کر وہ ایک انگریز سیاح لزلی مارش کے ساتھ پانچ دن ہوٹل میں مسز مارش کی حیثیت سے رہتی ہے۔پیرس میں چھ مہینے عرفان کے ساتھ اس کے فلیٹ پر اپنے آپ کو عرفان کی بیوی سمجھ کر گزارے اور وہاں سے لوٹنے کے بعد پروجیش کمار کے ساتھ کشمیر کی سیاحت کے لیے جاتی ہے۔اس طرح اس کی زندگی میں جمیل،قمر الاسلام،عرفان،لزلی مارش ،کیلاش ،پروجیش کمار،جے سوریہ اور راما سوامی نہ جانے کتنے ہی مرد آتے اور نکلتے گئے۔وہ بے حد حسین تھی اور جس طرح مرد اس کی طرف لپکتے تھے اس سے زیادہ وہ خود مردوں کی اور کھنچتی جاتی تھی اور سب کی باہوں میں کھل کھلا کر تھوڑی دیر کے لئے خود کو سکون اور لذت فراہم کرتی تھی۔وہ مردانہ حسن کی دیوانی اور پرستار تھی اور مردوں میں اسے ایک عجیب سی کشش کا احسا س ہوتا تھا کہ وہ خود کو روک ہی نہیں پاتی تھی۔جمیل کے بعد عرفان کے ساتھ اسے سچی محبت ہو گئی تھی وہ عرفان سے کہتی تھی ــ’’میں صرف اور صرف تمہیں چاہتی ہوں اور انت سمے تک چاہوں گی ‘‘۔وہ عرفان کے ساتھ شادی کی شدید خواہش رکھتی تھی مگر اس کو بھی وہ اپنی محبت کا مرکز نہیں بنا پائی بلکہ اس کے باوجود وہ ادھر ادھر کے لوگوں سے مسلسل تعلقات بناتی رہی جس کی وجہ سے عرفان بھی اس سے تنگ آ کر بالآخر اسے چھوڑ دیتا ہے ۔جمیل کا طلاق نامہ ملنے کے بعد جب سیتا خوشی خوشی دوبارہ پیرس جاتی ہے کہ اب وہ باقاعدہ طور پر عرفان سے شادی کر کے قانوناًاس کی بیوی بن جائے گی تو وہاں اسے خبر ملتی ہے کہ عرفان نے پچھلے ہی ہفتے کسی اور سے شادی کر لی ہے اور اب وہ ہنی مون پرپاکستان گیا ہوا ہے۔ اس طرح سیتا کی زندگی ایک المناک انجام کو پہنچ جاتی ہے جہاں اب اس کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے بلکہ حالات کے رحم و کرم پر اب وہ بالکل اکیلی ہے۔پیرس میں عرفان کے فلیٹ کا دروازہ بند ہوتے ہی سیتا کی زندگی کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔
ناولٹ سیتا ہرن کی کہانی گرچہ بہت مختصرہے لیکن اختصار کے باوجود اس کہانی کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ اسے گرفت میں لینا کوئی آسان کام نہیں ۔اختصار کے باوجود یہ ناولٹ ایسا پھیلاو رکھتا ہے کہ قرۃ العین حیدر کے تمام پسندیدہ موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔اس ناولٹ میںتقسیم ہند ،فسادات،نقل مکانی،ہجرت ، مشترکہ تہذیب و ثقافت کی عکاسی،گہرا تاریخی شعور،اساطیری اور ہندو دیو مالائی عناصرکی فراوانی سے لے کر انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی،قدروں کی شکست و ریخت اور معاصر ادبی ڈسکورس کے تانیثی اثرات سب کی جھلکیاں نظر آ جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ ناولٹ جہاں ایک طرف حد درجہ اہمیت اور دلچسپی کا حامل ہے تو وہیں دوسری طرف یہ اپنے اندر معنی کی اتنی سمتیں اور تہیں سمیٹے ہوئے ہے جن سب کی گرہ کشائی کے بعد ہی اس فن پارے کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس ناولٹ کی سب سے بنیادی خوبی یہ ہے کہ اس کا متن بندنہیںبلکہ کھلا ہوا ہے جو قاری کو مختلف پہلووں سے اپنی طرف کھینچتا ہے ۔دراصل اس ناولٹ کے متن کی بنت ایسی ہے کہ اس میں جگہ جگہ کچھ روزن وا ہیںجو قاری کوبیک وقت اپنے اندر داخل ہونے کی دعوت دیتے ہیںاور ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتے ہیں جہاں معنی کے طلسمات کا ایک لامتناہی سلسلہ آباد ہے۔ یہ ناولٹ بیک وقت رومانی،حقیقت نگاری،علامتی،اساطیری،تانیثی،تاریخی،نفسیاتی،قاری اساس اور رد تشکیلی حوالوں سے بھرا ہوا ہے اور ان تمام تنقیدی بصیرتوں کی روشنی میں پڑھے جانے کا مدّعی ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ناولٹ ما بعد جدید یت کے تناظر میں پڑھے جانے کا حقدار ہے کیونکہ کسی ایک نقطئہ نظر سے پڑھنا گویا اس کی وسعتوں کو سمیٹنے کے مترادف ہے۔ما بعد جدیدیت کا امتیاز یہ ہے کہ یہ متن کو کسی ایک نظریاتی فریم میں قید نہیں کرتی بلکہ آزادانہ قرات کی وکالت کرتی ہے اور ہر قرات کی صحت و سچائی پر اعتبار کرتی ہے۔متن کو کسی ایک نقطئہ نظر سے پڑھنے سے اس کے اندر کی معنوی جہتیں اور پرتیں پردئہ خفا میں رہ جاتی ہیں جو دراصل اس فن پارے کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے۔معنی کی ہر سطح کو رد تشکیل کے عمل سے گزار کر ایک اور نئے معنی قائم کیے جا سکتے ہیں کیونکہ کوئی بھی معنی حتمی اور قطعی نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر معنی کے برآمد ہو جانے کے بعد ایک اور معنی کی موجودگی کا نہ صرف امکان ہوتا ہے بلکہ اس کا سراغ بھی مل جاتا ہے۔اس طرح فن پارہ اپنے جیسے دوسرے فن پاروں سے رشتہ قائم کر لیتا ہے اور ان سب کے بیچ خود اپنی قدرمتعین کر لیتا ہے۔
سیتا ہرن ناولٹ کو زیادہ تر لوگوں نے صرف اور صرف تانیثی نقطئہ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے اس لیے کہ قرۃالعین حیدراردو میں تانیثیت کے علم بردار کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ذکیہ مشہدی نے اپنے مضمون ’’سیتا ہرن کی سیتا‘‘جو تانیثی نقطئہ نظر سے لکھا ہے اس میں اس بات کی پر زور وکالت کی ہے کہ سیتا نے جو کچھ کیا وہ اس کی مجبوری تھی اسی لیے ہمیں یہ ناولٹ پڑھ کر سیتا سے نفرت نہیں ہوتی بلکہ اس کے تئیں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔سیتا کا دفاع کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ:
’’ اس مرد اساس دنیا کو دیکھئے قمر الاسلام سیتا کو ورغلانے کے بعد بیچ منجدھار میں چھوڑ گیا ،اپنی پسند کی لڑکی سے بیاہ کرنے کے بعدوہ خوش و خرم اور کامیاب زندگی گزارنے لگا۔جمیل بھی سیتا کو طلاق نہ دینے کے باوجودآرام سے کچھ دنوں کے اندر ہی ایک اسپینش لڑکی سے شادی کر لیتا ہے۔سیتا کو اس کے بچے سے ملنے تک نہیں دیتا ،وہ ایک آوارہ اور بد کردار ماں ہے جس سے ملنا بچے کے اخلاق پر خراب ڈالے گا اس مرد کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہتا جو بیوی اور اپنے بچے کی ماں کو بری طرح پیٹنے کے بعد آدھی رات کے وقت موسلا دھار بارش میںگھر سے نکال باہر کرتا ہے۔معافی مانگنے یا صفائی میں کچھ کہنے کا موقع تک نہیں دیتا ‘‘۱؎
اسی طرح اعجاز الرحمن نے اس ناولٹ کی تانیثی قرات کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ:
’’اس کہانی میں یہ بھی سبق چھپا ہے کہ جو جیسا سلوک کرے اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو۔اگر یہ سماج(مردوں کی بالادستی والا سماج)تم سے وفا داری نہیں کرتا تو تم بھی سماج کے تئیں وفاداری نہ کرو۔اگر جنس کو بنیاد بنا کر اپنے تشنہ جذبات کی تکمیل کی جاتی ہے اور مطلب نکال کر رشتے توڑ لیے جاتے ہیںتو تم بھی اپنی جنسی خصوصیات کا استعمال اپنی مطلب پرستی کے لیے کرو۔یہی سبق پورے ناولٹ پر چھایا ہوا ہے اور یہی مصنفہ کا اصل تانیثی نقطئہ نظر ہے‘‘۲؎
اس ناولٹ کے متن کے کچھ حصے ایسے بھی ہیںجن پر از سر نو غور کرنے اور انہیں رد تشکیل کرنے کے بعد نتائج بالکل الٹ جاتے ہیں اور عینی کو نہ صرن تانیثیت مخالف بلکہ زن مخالف ثابت کرتے ہیں۔مثال کے طور پرشادی کے بعدشروع شروع میں سیتا کا مکمل طور پر جمیل کے رنگ ڈھنگ میں ڈھل جانا ،جمیل کے لیے اردو زبان اور شعر ادب سیکھنا ،جمیل کو خوش کرنے کے لیے اپنی مرضی کے خلاف شراب پینے میں اس کا ساتھ دینا وغیرہ یا یہ کہ پورے ناولٹ میں سیتاجس طرح اپنے کو آزاد سمجھتی ہے ،اپنے اوپر کسی بھی طرح کی کوئی مذہبی،سماجی،اخلاقی یا تہذیبی بندش گوارا نہیں کرتی بلکہ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے وہ جو چاہتی ہے ہنسی خوشی بنا کسی روک ٹوک کے کرتی ہے۔یہاں تک سیتا کی آزادی اور عینی کی تانیثیت سمجھ میں آ جاتی ہے لیکن آخر میں سیتا جس المناک انجام کو پہنچتی ہے وہ قرۃ العین حیدر کی تانیثیت پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے کہ کیا عورت کی آزادی اور تانیثیت کا یہی نتیجہ اورانجام ہے ؟اتنا ہی نہیں بلکہ سیتا کی زبان سے ادا ہونے والے یہ الفاظ تو عینی کی نہ صرف تانیثیت بلکہ ان کی نسوانیت پر بھی سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں کہ ایک عورت عورت کی زبان سے عورت کے متعلق اس طرح کی زہر افشانی میں کس حد تک حق بجانب ہے اور وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔
’ہر عورت کا زندگی میں ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی مرد کو پھانس کر اس سے شادی کر لے اور تم احمقوں نے اس کا نام محبت رکھا ہے‘‘
اس ناولٹ کو نفسیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سیتا کی زندگی سے متعلق بہت سی پیچیدہ باتیں سامنے آتی ہیں ۔یہ ناولٹ دراصل ایک کرداری ناولٹ ہے جو سیتا کی زندگی کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔ سیتا جو ناولٹ کی مرکزی کردار اور اس کی ہیروئن ہے زندگی کے مختلف نشیب و فراز گزارکر ایک المناک انجام کو پہنچتی ہے ۔یہ انجام خود اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے جس کا ذمہ دار خود اس کی اپنی ذات کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔سوال یہ قائم ہوتا ہے سیتا جو ایک اعلی تعلیم یافتہ اور ماڈرن لڑکی ہے آخر وہ یہ سب کچھ کیوں کرتی ہے ۔وہ کیا عوامل اور محرکات ہیں جو سیتا سے شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ سب کچھ کرواتے ہیں جن سے اس کی زندگی ایک المناک انجام کے راستے پر چل پڑتی ہے ۔وہ ایک کے بعد ایک غلطی کیے جاتی ہے اور کہیں بھی اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ان سے باز آ جائے ۔بقول انتظار حسین کے:
’’اس سارے قصے میں سیتا کے یہاں کوئی احساس جرم پیدا نہیں ہوتا ‘۔۳؎
ذکیہ مشہدی نے اس ناولٹ کو نفسیات کی روشنی میں سمجھانے اور درجہ بالا سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ:
’’سیتا نے جو کچھ کیا وہ دراصل شدید احساس کمتری،محرومی ذلت اور تنگدستی کی وجہ سے اور عدم تحفظ کے احساس سے جو تقسیم کی وجہ سے اس کی نفسیات پراثر پڑ گیا تھا ۔اس کے بیشتر اعمال اور رد عمل اسی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں ‘‘۴؎۔
ٹھیک اسی طرح کا نتیجہ اسما مسعود نے نکالا ہے ۔وہ کہتی ہیں:
’’اپنی زمینی روایتوں اور جڑوں سے کٹ جانے کے باعث سیتا کی شخصیت،فکراور اس کے احساسات مجروح ہو جاتے ہیں اور وہ ایک ذہنی الجھن کا شکار ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔آسودگی کی تلاش میں بھٹکتی سیتا کا کردار پورے ناولٹ پر چھایا ہوا ہے ۔روحانی آسودگی کی تلاش میں نیپلز سے لے کر کولمبو ،سندھ اور گنگ و جمن کے علاقے دو آبے تک بھٹکتی ہے لیکن اس کی روح کو سکون کہیں نہیں ملتا ‘‘۔۵؎
ذکیہ مشہدی اور اسما مسعود کا زور اس بات پر ہے کہ سیتا تقسیم ہند اور حالات کی ماری ہے جس سے اس کی نفسیات پر یہ اثر پڑا ہے کہ اسے صحیح غلط کی تمیز ہی باقی نہیں رہی ہے ۔ان نتائج کو سامنے رکھیں اور متن پر از سر نو غور کریں کیا متن ان نتائج کی تصدیق کرتا ہے۔نہیں اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو سیتا کا یہ رویہ تو بہت پہلے سامنے آجانا چاہیے تھا ،ہجرت کے فوراً بعد دلی میں ہی یا امریکہ میں ہی شادی سے پہلے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔اس کے بر عکس سیتا ہنسی خوشی با لکل نارمل زندگی گزارتی ہے اس کی زندگی میں کوئی نفسیاتی الجھن نہیں ہے۔ اس کی زندگی میں جو کچھ ہوا وہ سب شادی اور ایک بچے کی پیدائش کے بعد جب اس کی زندگی میں شوہر کے ہوتے ہوئے ایک غیر مرد قمر الاسلام آ جاتا ہے اور سیتا اس کے ساتھ جنسی تعلقات میں ملوث ہو جاتی ہے۔ سیتا کی تباہی و بربادی تودوسرے مردوں کے ساتھ اس کے تعلقات کی وجہ سے ہوتی ہے تو اس کا تعلق تقسیم ہند اور حالات سے کیسے ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس ناولٹ کو نفسیات کی روشنی میں نہیں پڑھا جا سکتا ہے بلکہ نفسیاتی مطالعہ ہی اس نالٹ کا سب سے اہم اور دلچسپ مطالعہ ہو سکتا ہے جواس ناولٹ کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا سکتا ہے اور سیتا کی زندگی کو سمجھنے میں معاون ہو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ متن سے متناقض نہ ہو بلکہ متن پر مبنی ہو اور متن اس کی تائید کرتا ہو ۔
ٓٓانتظار حسین نے اس ناولٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’سیتا میر چندانی بے قرار آریائی روح کی تجسیم ہے ۔سیتا کا جنسی رویہ بھی کسی قدر آریاوں کے قدیم جنسی رویے کی چغلی کھاتا ہے۔اس کے اندر قد یم آریائی عورت سانس لے رہی ہے جو اپنے جنسی جذبے پر باند باندھنا ضروری نہیں سمجھتی ۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک سیدھا سچا جنسی رویہ رکھتی ہیاور اس عہد کی یاد دلاتی ہے جب آریاوں کی وہ جنسی توانائی جو وہ باہر سے لے کر آئے تھے بر قرار تھی اور انہوں نے پاکبازی کا تصور عورت پر مسلط نہیں کیا تھاجو آگے چل کر گھٹتی ہوئی توانائی کے سبب کیا گیا ۔اس کے باوجود اگر سیتا کی جنسی زندگی ایک حسی کیفیت کے ساتھ اس افسانے میں نہیں ابھرتی تو اس میں سیتا کا قصور نہیں قصورقرۃ العین حیدر کی ججھک کا ہے ۔۶؎
انتظار حسین کے اس درجہ بالا اقتباس سے اس ناولٹ کے اساطیری،ہندو دیو مالائی،علامتی،بین المتنی اور تاریخی حوالوں کی طرف واضح اشارے ملتے ہیں۔وادی سندھ اور سری لنکا کے مندروں کی تاریخ،بدھ مت اور ہندو مت کے بارے میں فلسفیانہ باتیں ،سیتا کا قدیم آریائی روح کی تجسیم ہونا اور آریاوں کی شدید اور توانا جنسی خواہشات کے اشارے ،یہ تمام عناصر اس ناولٹ کو بین المتنی اور نئی تاریخیت کے تناظر میں سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں کہ تاریخی اور مذہبی متون سے اس ناولٹ کا متن کس طرح کا رویہ رکھتا ہے۔ علامتی نقطئہ نظر سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیتا موجودہ دور کی ایک پڑھی لکھی عورت ہے جو مختلف لوگوں سے تعلقات بنانے میں ماہر ہے اور یہی اس کا دلچسپ مشغلہ بھی ہے لیکن اس کے باوجود خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے ’’میں صرف اور صرف تمہیں چاہتی ہوں اور انت سمے تک چاہوں گی‘‘یہ سیتا وہ نہیں ہے جسے کسی راون نے ہرن کر لیا ہو بلکہ یہ وہ سیتا ہے جو خود اپنے آپ کو ہرن کروانے کے لیے راونوں کے سامنے پیش کرتی ہے ۔ بقول ڈاکٹر عائشہ سلطانہ : ’’اس کا تعلق ۱۹۴۷ءکی سیتاوں سے بھی نہیںجن کو ہرا گیا یہ سیتا دراصل خود کو خود ہرن کرواتی ہے اور اپنے تقدس کو کچلتی ہے۔ یہ عمل سیتا کے کردار کی خامی بن کر ابھرتا ہے‘‘۷؎
حوالہ :
۱۔ذکیہ مشہدی’’سیتا ہرن کی سیتا‘‘ماہنامہ اردو دنیا، مارچ۲۰۱۹ ص۴۱
۲۔اعجاز الرحمن’’تانیثیت اور قرۃ العین کے نسوانی کردار‘‘ ص۸۱
۳۔انتظار حسین ’’ سیتا ہرن ‘‘ماہنامہ چہار سوراولپنڈی جلد ۱۴ شمارہ جولائی اگست۲۰۰۵ص۲۹
۴۔ذکیہ مشہدی’’سیتا ہرن کی سیتا‘‘ماہنامہ اردو دنیا، مارچ۲۰۱۹ ، ص۴۰
۵۔اسما مسعود’’سیتا ہرن ایک مطالعہ‘‘سہ ماہی فکر و تحقیق،جنوری تا مارچ ۲۰۰۸ ص۴۷
۶۔انتظار حسین ’’ سیتا ہرن ‘‘ماہنامہ چہار سوراولپنڈی جلد ۱۴ شمارہ جولائی اگست۲۰۰۵ ص۲۹۔۳۰
۷۔ڈاکٹرعائشہ سلطانہ’’سیتا ہرن کا تنقیدی جائزہ‘‘ ص۳۳
*****
Leave a Reply
Be the First to Comment!