حامدی کاشمیری کی افسانہ نگاری
شاہدحسین ڈار
ریسرچ اسکالر،سنڑ ل یونیورسٹی آف کشمیر
darshahid514@gmail.com
91700657106
ریاست جموں و کشمیر میں شاعری کے بعد جس صنف کو فروغ حاصل ہوا وہ افسانہ نگاری ہے۔ افسانہ ہی وہ صنف ہے جس کے لئے یہاں کی سرزمین موزوں ثابت ہوئے۔افسانہ نگاروں کو یہاں موضوع کے اعتبار سے کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم ہوا۔اگرچہ افسانہ نگاری کا آغاز روایتی اندازسے ہوا، لیکن رفتہ رفتہ افسانہ لکھنے والوں کے شعور میں بیداری پیدا ہوئی اور فن افسانہ نگاری پر ان کی گرفت مظبوط ہوتی گئی۔ان کی صلاحیتیں ابھر نے لگیں اور وہ اپنے افسانوں میں حقیقی زندگی کی عکاسی کرنے لگے۔انہوں نے اپنے افسانوں میں سماجی، اقتصادی، سیاسی اور نفسیاتی باریکیوں کی عکاسی کی اور انہیں مقامی رنگ دیا۔
کشمیر میں جب ہم اردو افسانہ نگاری کی بات کرتے ہیں بہت سارے نام سامنے آتے ہیں ۔ جنھوں نے اردو افسانے میں اپنا نمایا ںکردار ادا کیا ہے۔جن کا ذکر کرنا یہاں مناسب نہیں ۔ان ہی ناموں میں ایک نام حامدی کاشمیری کا ہے۔حامدی کاشمیری ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں وہ بیک وقت افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر اور تنقید نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں مشہور ہیں۔ شاعری،تنقید،ناول وغیرہ کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری میں بھی اپنے نام کو زندہ جاوید رکھا۔ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ان کی ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’یہ کشمیر کے جدید اردو ادب کی رنگارنگ شخصیت ہیں۔وہ افسانہ نگار سے بڑھ کر شاعر ہیںاور شاعر سے بڑھ کرافسانہ نگار ۔ان کے افسانے بھی شاعری کی نوک پلک سے آراستہ اور شاعرانہ تیور سے معمور ہیں۔چونکہ وہ پروفیسر بھی ہیں اس لئے ان کے کرداروں اور تکنیک میں فلسفیانہ لب و لہجہ اور عالمانہ انداز نمایاں ہیں۔‘‘(۱)
حامدی کاشمیری نے اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی دور میں افسانہ نگاری کی جانب زیادہ توجہ کی اور بہت جلد وہ کشمیر کے ایک معروف افسانہ نگار کی حیثیت سے اردو کے ادبی حلقوں میں متعارف ہونے لگے۔انکا اولین افسانہــ’’ٹھوکر‘‘ ماہنامہ ’’شعاعین‘‘ دہلی میں ۱۹۵۱ ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ۱۹۶۱ء تک حامدی کاشمیری نے اپنے ادبی سفر کے دور اول میں بر صغیر کے کئی مشہور و معروف رسالوں میں تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ افسانہ نگاری کے سرمائے میں خاصا اضافہ کیا۔۱۹۵۷ء میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ’’وادی کے پھول‘‘ منظر عام پر آیا،جو ۱۹۵۰۔۵۵ء تک کے سولہ منتخب افسانوںپر مشتمل ہے۔’’وادی کے پھول ‘‘میں انہوں نے کشمیر کے اس تاریک دور کی بھر پور نشاندہی کی جب صدیوں کی غلامی کے بعد ملک بھر میں آزادی کی فضا میں سانس لینا لوگوں کو نصیب ہوا تھا مگر کشمیر اس نعمت سے پھر بھی محروم رہا۔کیونکہ شخصی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی لوگوں کی زندگی میں کوئی نمایاں فرق نہ آسکا۔وہ پہلے بھی غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور آج بھی ۔زندگی میں کوئی تبدیلیاں نہیں آئی ان کا ذریعہ معاش دستکاری،تجارت،مزدوری یا معمولی نوکریاں تھیں،جن سے ان کی گزر بسر مشکل سے ہورہی تھی۔محنت کش طبقہ اور اہل ہنر دو وقت کی روٹی سے محروم تھے،کیونکہ سرمایہ دار اور میانہ دار انہیں حقیر رقم دے کر خود ان کے بنائے ہوئے فن پاروں سے لاکھون کما کر اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف تھے۔اس اقتصادی بد حالی کے باعث اس دور میں کشمیری بڑے آلام و مصائب کا سامنا کر رہے تھے۔انسانی قدریں پامال ہو رہی تھیں۔رشتوں کی اہمیت ختم ہو رہی تھی۔بھوک‘تنگدستی‘بیماری‘ بے کاری اور لاچاری نے حسن و عشق کے نازک جذبات کو بھی مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔حسن کا مفہوم اپنی اصلیت کھو کر یا تو بھوک کی شدت کی تاب نہ لاکر جان لیوا بیماری(تپ دِق) کی نذر ہو جاتا تھا یا پھر کسی سرمایہ پرست کی ہوس کا شکار ہو جاتا تھا۔اس سماجی اور سیاسی پس منظر نے حامدی کاشمیری کو ’’وادی کے پھول‘‘ لکھنے پر مائل کیا۔اِس افسانوی مجموعے میں حامدی کاشمیری نے بالعموم مصیبت زدہ کشمیریوں کے جو مرقعے کھنیچے ہیں وہ ان کی انسان دوستی اور دردمندی کو ظاہر کرتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کشمیری زندگی کے نشیب و فراز کا قریبی مطالعہ کیا ہے۔چنانچہ’’بہار اور خون‘‘’’ہچکولے‘‘،’’بہار آنے تک‘‘،’’ٹھوکر‘‘اور ’’زلزلے‘‘ سماج کے پچھڑے ہوئے لوگوں کے دکھ درد کی سچی تصویریں ہیں۔کہیں کہیں ان افسانوں میں ان کی جذباتیت بھی غالب آگئی ہے لیکن مجموعی طور پر انہوں نے معروضی انداز نظر سے کام لیا ہے،جس کی بہترین مثال’’مانسبل کی لہروں میں‘‘ میں ملتی ہے۔جس میں مانسبل جھیل کے پس منظر میں غفار ڈار پنجاب سے آئے ہوئے سیٹھ کو اپنا ننھا بیٹاقادر اسکے حوالے کرنے پر راضی ہوتا ہے تاکہ وہ سیٹھ کے کہنے کے مطابق اچھی تعلیم و تربیت پاسکے کیونکہ گھر میں اسے فاقوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ افسانے اس وقت کی مفلسی سے پیدا شدہ حالات کی بھر پور عکاسی کرتا ہے ۔حامدی کاشمیری نے اس منظر کو اس طرح بیان کیا ہے:
’’اور اگر اس بار میں قادر کو جانے دوں۔۔۔۔۔۔۔وہ تعلیم حاصل کرے گا۔اچھے اچھے کپڑے پہنے گا اور اسے بھوکا نہیں سونا پرے گا۔‘‘اور اس قادر کے نکھر ے ہوئے چہرے پر شفقت سے چھلکتی ہوئی نظر ڈالی اور فوراًاس کی نظر سیٹھ کے چہرے کی طرف اٹھی۔
’’کہو منظورہے۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘سیٹھ نے سگریٹ کا لمباکش لے کر کہا۔
’’آپ کی مرضی سیٹھ صاحب!ہم غریب لوگ ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ ( افسانہ مانسبل کی لہروں)
اس کے بعد افسانہ جب خاتمے کے قریب پہنچتا ہے تو غفارڈار کی شفقت پدری امڈ آتی ہے۔
’’میں قادر کو کیسے جانے دوں۔۔۔۔۔قادر میری روح ہے۔۔۔۔ میری زندگی کاآخری سہارا۔۔۔۔۔ میرا لخت جگر!!۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ( افسانہ مانسبل کی لہروں)
’’وادی کے پھول ‘‘ میں ایسے افسانے مثلاً’’اگلے اتوارکو‘‘اور کشمکش‘‘ بھی شامل ہیں جو کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ظاہر ہے حامدی کاشمیری کی نظر انسان کی نفسیاتی گہرائیوں پر ہے۔’’اگلے اتوار کو‘‘ میں ایک مفلس مگر حد درجہ محبت کرنے والی بیوی ’’زونہ‘‘ کو پیس کیا گیا ہے جو خود داری کا مجسمہ ہے۔ زونہ اپنے شوہر سے جھگڑے کی بنا پر اپنے میکے چلی جاتی ہے اور اس کا شوہر اسے کہتا ہے کہ وہ اگلے اتوار کو اسے لینے آئے گا مگر کسی وجہ سے وہ خود اسے واپس لانے کے لئے نہیں جاتا بلکہ دوسوں کی وساطت سے بلانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔یہ بات اس کے مجروح ایغو کا حصہ بن جاتی ہے اور وہ مرتے دم تک اگلے اتوار کا انتظار کرتی ہے۔اس طرح سے افسانہ نگار نے عورت کی شخصیت کے اثباتی پہلو کو بے نقاب کیا ہے۔افسانوی مجموعہ’’وادی کے پھول‘‘ کے تعارف میں شکیل الرحمان ااپنا ظہار خیال ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’حامدی نے کشمیر کی کہانیاں لکھی ہے۔یہاں کا ماحول ان کے افسانوں میں ہر جگہ موجود ہے، مقامی رنگ (Local Colour) نے ان کے افسانوں میں جان ڈال دی ہے۔جنہوں نے کشمیر دیکھا ہے۔وہ حامدی کے افسانوں کے کرداروں کو یہاں کے ماحول میں ضرور پہچان لیں گے۔ ان کے کردار جیتے جاگتے اور یہاں کی فضا میں سانس لیتے ہوئے کردار ہیں۔حامدی ان کرداروں کی مدد سے کشمیر کی زندگی پیش کر دیتے ہیں۔‘‘ (۲)
’وادی کے پھول‘‘ کے افسانوی مجموعے کا پس منظر وادی کشمیر ہے۔اس لئے ہر افسانے میں قدرتی مناظر اپنی دلکشی‘شادابی اور رعنائی کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔اکثر افسانوں میں فطرت کے مناظر‘کرداروں کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیات کا اظہار مربوط انداز ملتا ہے۔ ان کے یہاں کشمیر کے پس منظر میں عشقیہ کہانیاں ہیں، جو کشمیر کے قدرتی مناظر کے پسِ منظر میں بھلی لگتی ہیں اور وادی کے نچلے طبقے کے لوگوں کی کسمپرسی ہے۔ ان کے افسانہ’’اندھیرے کی روشنی‘‘ میں کشمیر کی روز مرہ زندگی اور جھیلِ ڈل میں رہنے والوں کی عکاسی کی گئی ہے۔’’بہار آنے تک‘‘ افسانہ وادی کی بے روزگاری اور غربت کی ترجمانی کرتا ہے۔مظہر امام حامدی کاشمیری کے افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’حامدی کاشمیری کے افسانے کشمیری زندگی کی عکاس ہیں۔آج کم لوگوں کو احساس ہوگا کہ آج سے کئی سال پہلے کشمیر کے نچلے طبقے کی زندگی بیچارگی اور کسمپرسی کی شکار تھی۔‘‘ (۳)
’’ وادی کے پھول‘‘ کے بعد ان کے افسانوں کے دو اور مجموعے’’سراب‘‘(۱۹۵۹ء) اور’’ برف میں آگ‘‘(۱۹۶۱ء) منظر عام پر آئے۔افسانوی مجموعہ ’’سراب‘‘ دس افسانوں پر مشتمل ہے جس میں کشمیر میں بدلتے دور کے علاوہ ملکی سطح پر سماجی اور تہذیبی تبدیلیوں کے نتیجے میں لوگوں کے عقیدوں، خیالوں اور رویوں میں ہورہی تبدیلیوں کی عکاسی کی گئی ہے۔اس دور کی کہانیوں کا زیادہ زور کشمیر کے کچلے ہوئے طبقوں کے بجائے ان لوگوں کی سماجی اور نفسیاتی زندگی ہے جو اقتصادی طور پر خود کفیل ہونے کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔کئی افسانوں کا موضوع عورت ہے۔ایک ایسی عورت جو صدیوں تک مفلسی اور بیچارگی کی چکی میں پسنے کے بعد تعلیم کی برکت سے آشنا ہو رہی ہے اور گھریلو،سماجی اور اقتصادی زندگی میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی ہے،وہ بدلتے حالات میں اپنی تخلیقی قوتوں کو کام میں لاکر اپنی بقا اور عزت و آبرو کا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن اسے ہر وقت سازگار حالات نہیں ملتے۔مردوں کے سماج میں وہ برابر حقوق کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرتی ہے جو بدلتے حالات میں اس سے چھینے جاتے ہیں۔’’آخری سہارا‘‘میں جب مسز سنہا اپنے باس کے کہنے پر مجبور ہو کر کلب جاتی ہے تو وہاں اس کا شوہر مسٹر سنہا اسے باس کے ساتھ دیکھ کر نوکری چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے۔جب کہ وہ خود دوسری غیر لڑکیوں کے ساتھ دن رات عیاشیاں کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ خود وہ کچھ بھی کرے مگر بیوی کی معمولی سی خطا بھی معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔اس افسانے میں ایک عورت کی نفسیاتی کیفیات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح مسز سنہا اپنے شوہر سے نالاں ہو کر مسٹر شرما کو اپنی دکھ بھری کہانی سناتی ہے اور چند لمحوں کے لئے سب کچھ بھول کر مسٹر شرما سے ہم آغوش ہو کر کچھ راحت محسوس کرتی ہے مگر دوسرے ہی لمحے وہ ایک فرض شناس بیوی کی طرح اس کا انتظار بڑی بے تابی سے کرتی ہے۔
’’نہ جانے کیوں انہیں دیر ہوگئی۔وہ آج تین بجے کی گاڑی سے آرہے تھے اور اب چار بھی بج رہے ہیں۔بھگوان کرے!۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (افسانہ آخری سہارا)
اس افسانوی مجموعے میں ایسے بھی افسانے ہیں جو کرداروں کے نفسیا تی مطالعے ہیں جن میں ’’آگ اوردھواں‘‘ ’’رنگ اور روشنی‘‘،’’بند کھڑی‘‘اور ’’لمحوں کا سفر‘‘ قابل ذکر ہیں۔
’’سراب‘‘ کے بعد حامدی کاشمیری کا تیسرا افسانوی مجموعہ’’برف میں آگ‘‘ہے جو ۱۹۶۱ء میں منظر عام پر آیا۔ اس افسانوی مجموعے میں (۱۵) افسانے ہیں۔جن میں وادی کے لوگوں کے نفسیاتی کوائف کے ساتھ ساتھ وادی سے باہر کی معاشرتی زندگی کے نقوش ابھارے گئے ہیں۔ اس میں شامل افسانوں میں جدید انسان کی لمحاتی زندگی کی بعض جذباتی کش مکشوں اور نفسیاتی الجھنوں کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔زندگی کی مختلف پہلووں کی مصوری کی گی ہے۔ان میں افسانہ نگار کا فنی شعورقدر بالیدہ اور ہمہ گیر نظر آتا ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار افسانہ کے فن کو برتنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔اس افسانوی مجموعے کے بارے میںمہندر راج سکینہ رقمطراز ہیں:
’’افسانہ نگار نے ان افسانوں میں زندگی کے مختلف پہلوون اور سماج کی کمزوریوں کو نمایان کیا ہے اور انسانی جذبات و احساسات کی صحیح ترجمانی کی ہے۔ منظر نگاری،خیالات کی پاکیزگی اور الفاظ کی برجستگی ان افسانوں کی اہم خصوصیات ہیں۔‘‘(۴)
حامدی کاشمیری کی افسانہ نگاری کا محرک ترقی پسند تحریک ہے۔اگرچہ ترقی پسند تحریک کے آخری مراحلہ پر حامدی کاشمیری نے افسانہ نگاری کا آغاز کیا ہے۔ پھر بھی ان کے شروع کے افسانوی مجمو عہ ’’وادی کے پھول‘‘ میں اس کے اثرات خاص طور پر نمایاں ہیں۔حامدی کاشمیری کی افسانہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر برج پریمی لکھتے ہیں:
’’شروع میںان کے یہاںترقی پسند تحریک کا غیر واضح اثر جھلکتا ہے اور وہ سماجی مسائل کی طرف توجہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔بعد میں انہوں نے اپنے شخصی تجربات کو افسانہ کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی اور سماجی اقتدار کی پامالی،رشتوں کی شکست وریخت اوردوسری شخصیت کی نفسیات کے موضوع پر کئی کامیاب افسانے لکھے۔۔۔۔۔۔حامدی جدیدیت کے رجحان سے متاثر ہیں اور ابتدائی دور کی رومانی اور سماجی کہانیوں سے داخلیت کے پیچیدہ رجحان تک ان کے یہاں کئی تجربے ملتے ہیں۔‘‘(۵)
حامدی کاشمیری نے ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۵۱ء کے بعد اس وقت ہوا جب ترقی پسندتحریک اپنے آخری مراحل میں تھی اور اس کا اثر ابھی باقی تھا۔یہ صحیح ہے کہ حامدی کاشمیری اپنی مخصوص افتاد طبع کی بنا پر اس تحریک سے وابستہ نہ ہوئے مگر اس تحریک سے متاثر ضرور ہوٗے کیونکہ ان کی افسانہ نگاری کا مقصد بھی وہی تھا جو اس تحریک کا نصب العین تھا۔ یعنی سماجی مسائل کی مصوری کرنا۔یہی وجہ ہے ان کے ابتدائی افسانوں میں اس کا نمایاں اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔حامدی کاشمیری ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جو ایک کھاتاپیتا گھرانا تھا مگر تنگدستی کا سامنا یہاں بھی تھا۔چونکہ حامدی کاشمیری جن حالات سے گزرے تھے ان کو اس کا ذاتی تجربہ بھی تھا اور یہی ان کی افسانہ نگاری کے لئے اہم محرکات ثابت ہوئے۔لوگوں کے دکھ درد، غریبی،لاچاری،تنگدستی اور بیماری کو انہوں نے بخوبی محسوس کرکے اپنے دردوکرب اور کسک کو الفاظ کا جامہ پہنا کر صفحہ قرطاس پر لایااور افسانہ کی شکل و صورت عطا کی۔ان کے افسانے لوگوں کی مایوسیوں،محرومیوں اور ناکامیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ان کے افسانوں کے بارے میں مظہر امام لکھتے ہیں:
’’حامدی کے افسانوں میں سماجی حقیقت نگاری کا واضح رجحان ملتا ہے۔انہوں نے اس غریبی، بیماری، جہالت اور توہم پرستی کے حقیقی نقوش اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جو اس زمانے میں کشمیر کا مقدر تھے۔یہ افسانے خارجیت،مقصدیت اور افادیت کے حامل ہیں۔لیکن ان میں تخیل آرائی جو فن کا خاصہ ہے، سے بھی خاصا کام لیا گیا ہے۔ان افسانوں کا اسلوب بیان سادہ اور غیر سنجیدہ اور پلاٹ کی تعمیر میں افسانے کے مطالبات کا خیال رکھا گیا ہے۔‘‘ (۶)
حامدی کاشمیری کے افسانے حقیقی افسانے ہیں۔افسانوں میں کشمیر کی معاشرتی حقائق کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ کشمیر کی جیتی جاگتی تصویر عوام کے سامنے لانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔اپنے افسانوں میں سماجی، اقتصادی، سیاسی اور نفسیاتی باریکیوں کی عکاسی کی اور انہیں مقامی رنگ دیا۔فنی نقطئہ نظر سے ان کے افسانے مکمل ہیں۔ان کے افسانوں کے پلاٹ تصنع اور پیچیدگی سے پاک ہیں۔ افسانوں کی زبان رواں،رنگین مگر شاعرانہ ہے۔الفاظ کا انتخاب وہ فنکاری سے کرتے ہیں۔روزمرہ میں استعمال ہونے والے الفاظ اور جملوں کے ذریعے وہ واقعات کو دلچسپی سے پیش کرتے ہیں۔کردار نگاری میں بھی کمال حاصل ہے۔ان کے کردار سماج کے جیتے جاگتے کردار ہیں،وہ سماج کے کرداروں سے بخوبی واقف ہیں،کرداروں کی نفیسات کو افسانوں میں خاصی جگہ دی ہیں۔افسانے کشمیر کی کہانیاں ہیں۔ کشمیر کے ماحول میں کہانیاں تخلیق ہوئیں ،ہر اعتبار سے پلاٹ، کرادر، زبان، موضوع،قدرتی مناظر،معاشرتی زندگی وغیرہ میں کشمیر کا مقامی رنگ خوب جھلکتاہے ۔ اس طرح حامدی کاشمیری نے افسانہ نگاری میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
حوالہ جات
۱۔پروفیسرحامدی کاشمیری،برف میں آگ،ادبیات اردو حیدر آباد،۱۹۶۸ء ص ۵،۶
۲۔پروفیسرحامدی کاشمیری،وادی کے پھول،شاہین بک سٹال،سرینگر ،۱۹۵۷ء،ص ۴
۳۔مظہر امام، بحوالہ: شیرازہ(جموں کشمیر میں اردو افسانہ نمبر) کلچرل اکادمی سرینگر،ص ۳۱
۴۔پروفیسرحامدی کاشمیری،برف میں آگ،ادبیات اردو حیدر آباد،۱۹۶۸ء ص ۶
۵۔ڈاکٹر برج پریمی،جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشوو نما،دیپ پبلی کیشنز،نٹی پور سرینگر،۱۹۹۲ء ،ص ۳۶
۶۔۔مظہر امام، حامدی کاشمیری ایک بازیافت،’’مشمولہ ‘‘ریاست جموں وکشمیر میں اردو ادب،حامدی کاشمیری،گلشن پبلشرز سرینگر،۱۹۹۱ء،ص۱۲ ۔۱۳
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!