فن صحافت اور پروفیسر ظہور الدین
محمد آصف رضا
ریسرچ اسکالر،برکت اللہ یونی ورسٹی،بھوپال،ایم۔پی
تخلیق،تحقیق،تنقید،ڈراما،صحافت اور ترجمہ نگاری کے موضوع پر اگرجموں و کشمیرکے کسی ادیب کو بیک وقت دسترس حاصل تھی تو وہ پروفیسر ظہورالدین تھے۔انہی اصناف میں انفرادی طور پر ان کے دیگر معاصرین نے بھی کئی کارہائے نمایاں انجام دیے۔تاہم ظہور الدین کی مجموعی صلاحیتیں اور کارکردگی اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ان کی تخلیقی اورادبی صلاحیتیوں کی بین الاقوامی سطح پرپذیرائی ہوئی ہے اور آج بھی جموں و کشمیر کے کسی مصنف کی تصانیف کا چاؤ سے مطالعہ کیا جا تا ہے۔تو بلاشبہ اس فہرست میں پروفیسر ظہورالدین کا نام آتا ہے۔ان کی اردو شاعری، اردو افسانہ،اردو ڈراما، اردو ناول،اردو صحافت وغیرہ پر گہری نظر تھی۔اس کے علاوہ موصوف کوکئی زبانوںپر عبور حاصل تھا ۔ حامدی کاشمیری کے بعدجموں و کشمیر کے معتبر مصنفین ،محققین اور ناقدین میں پروفیسر ظہور الدین کا ہی نام آتا ہے۔کیوں کہ موصوف ایک اعلیٰ پایہ کی تحقیقی و تنقیدی نگاہ رکھتے تھے۔ظہورالدین نے اپنی کتابوں کے پیش لفظ اورمقدموں کے آخرمیں ’’ظہور‘‘ نام لکھا ہے۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نام سے کئی بڑا نہیں ہوتا بلکہ انسان کے اچھے کاموں کو فوقیت دی جانی چاہیے۔جس کا اعتراف ظہورالدین کے حوالے سے ہورہاہے۔پروفیسر ظہور الدین کماحقہ جدید علوم سے بھی شغف رکھتے تھے اور اسی کانتیجہ ہے کہ انھوںنے اپنے دور میں جموں یونی ورسٹی میں ایم۔اے اردو پروفیشنل کے نام سے ایک دو سالہ پوسٹ ایم۔اے کورس جاری کیا جس سے اردو کے طالب علموں کو یہ فائدہ ہوا کہ انھیں بھی اپنے قدموں پر کھڑے ہوکرایک باوقارزندگی گزارنے کا موقع ملا۔
پروفیسر ظہورالدین کی مختلف موضوعات پر دو درجن سے زائد تصنیفات شائع ہیں۔اردو ڈراما، فکشن اور تنقیدکے میدان میں آپ برصغیرکے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔انھوںنے جن اصناف میں بھی لکھا ان میںموصوف کا فنی اور تخلیقی جوہر نمایاں ہوتا نظر آتا ہے۔جدید اردو ڈراماہویاحقیقت نگاری،جدید ادبی و تنقیدی نظریات ہوفن ترجمہ نگاری،کہانی کا ارتقاء ہو یا تعلیمی ناول،سبھی تصانیف ظہور الدین کے علمی وادبی کارناموں کی غمازہے۔ظہور الدین کی ایک شاہکار کتاب ’’فنِ صحافت‘‘کے موضوع پربھی شائع ہوئی ہے جو ۲۰۰۶ء میں منظرِ عام پر آئی تھی۔یہ کتاب ۱۴۶ صفحات پرمشتمل ہے۔ظاہر اعتبار سے یہ کتاب پتلی معلوم ہوتی ہے تاہم اس کا باطنی حصہ مکمل،جامع اور بامعنی ہے۔اس کتاب کاایک ایک صفحہ کسی قیمتی موتی سے کم نہیں ہے۔اس میں موضوعاتی اعتبار سے تنوع،ہم آہنگی اور فکری ربط نظر آتا ہے جو صحافت پر لکھی گئی دیگر کتابوں میں کم ہی نظر آتا ہے۔
پروفیسر ظہور الدین کے ذہن میں ’’فنِ صحافت ‘‘ کے موضوع پرلکھنے کاخیال کیسے آیا۔دراصل ۲۰۰۱ء میں جب جموں یونی ورسٹی نے شعبۂ اردو کے تحت دو سالہ تربیتی کا کورس کا آغاز کیا تب جس چیزکی زیادہ ضرورت محسوس ہوئی وہ اس کورس کی نصابی ضرورتوں کی تکمیل کے تعلق سے سامنے آئی تھی۔ظاہر ہے جب آپ کوئی نیا اورچلینجنگ (Challenging) کام ہاتھ میں لے لیتے ہیں تب اس وقت آپ کو اس کی فعالیت کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے۔اس بات کومدِ نظر رکھ کر پروفیسر ظہورالدین نے ’’فنِ صحافت‘‘کے موضوع پر ایک مدلل اور مستند تصنیف لکھنے کی ٹھان لی جس میںانھیں بڑی کامیابی ہاتھ لگی۔پروفیسر موصوف کتاب لکھتے وقت اندازہ بھی نہیں ہوا ہوگا کہ اس کی شہرت اور مقبولیت میں اس قدر اضافہ ہوگا۔حالانکہ یہ کتاب انھوں نے محض طالب علموں کی نصابی ضرورت کے لیے لکھی تھی تاہم اس کتاب کوادبی حلقوں میں اس قدر عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا کہ مختلف جامعات کے نصاب میں اس کے لیے ایک خاص جگہ رکھی گئی۔اس وقت جہاں بھی اردو صحافت کے تعلق سے کورس کا اہتمام ہورہاہے وہاں پر ظہورالدین کی مذکورہ تصنیف کو حوالہ جاتی کتب کے طور پر خاص اہمیت دی جاتی ہے۔’’فنِ صحافت‘‘ کے پیش لفظ میں ظہورالدین نے کتاب کی ضرورت،اہمیت و افادیت وغیرہ کا بڑی خوبی سے تذکرہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’صحافت پر اگرچہ کچھ اچھی کتابیں سامنے آچکی ہیں پر ان میں سب سے بڑی کمی اُس میں تربیتی مواد کا نہ ہونا ہے جو اس کورس کی سب سے بڑی ضرورت ہے یعنی پریکٹیکلز کے لیے مناسب مواد کی فراہمی۔ مثلاًایڈیٹوریل،خبر،کالم،شہ سرخی،سرخی،لکھنے کے لیے کس طرح کا تربیتی مواد تیار کیا جائے جس کو اسی طرح ورکشاپ میں برتا جا سکے جس طرح سائنس لیبارٹری میں تجربے کیے جاتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ زیر نظر کتاب کی وساطت سے ہمارے ان طالب علموں کوتربیت حاصل کرنے میں خاصی آسانی ہوگی جو صحافت کو پیشے کے طورپراختیار کرنے کے متمنی ہیں۔‘‘
(فنِ صحافت،انٹرنیشنل اردو پبلی کیشنز،۲۰۰۶،ص۷)
پروفیسر ظہور الدین کامذکورہ بیان ’’فن صحافت‘‘پر معیاری موادکی دستیابی کے تعلق سے بہت اہمیت رکھتاہے۔ان کی زیرموضوع کتاب میں ’’چھاپے خانے کی کہانی‘‘،’’خبربندی‘‘،’’سرخیوں کے تقاضے‘‘،’’اداریے کی ترتیب وتشکیل‘‘،’’اداریے کے عناصر ترکیبی‘‘،’’کالم نگاری‘‘،’’اخباری فیچر‘‘،’’اخباری انٹرویو‘‘،’’فیچر اور فیچر مضمون‘‘کے تحت مشمولات ملتی ہے۔ان مشمولات کاتذکرہ اور ان کی توضیح اردو صحافت کے تعلق سے شائع شدہ دوسری کتابوں میں بھی آئی ہوگی۔تاہم پروفیسر ظہورالدین سے جس استدلال ،علمی تجربے اورمشاہدے کو کتاب میں جگہ دی ہے وہ واقعی قابلِ سراہنا ہے کیوں کہ اس نوعیت کا کام ابھی تک ناپید نظر آتا ہے۔پہلے موضوع کی وضاحت،پھر اس کی اہمیت اور بعد میں بنیادی نکات کی توضیح ،آخر پرمثالوں کے ذریعے سمجھانے کا کاموصوف ہی کاخاصا ہے۔
’’چھاپے خانے کی کہانی‘‘ میں ظہورالدین نے چھاپے خانے کی ایجاد، اہمیت اور وقعت اور اس کی عصری معنویت کے حوالے سے بڑی مدلل بحث چھیڑی ہے۔ انھوںنے اس مضمون میں لکھا ہے کہ جب چھاپے خانے کی سہولت موجود نہیں تھی تب علمی و ادبی ذخائر کو کس قدر نقصان پہنچا۔ان کے بقول :
’’جب اسکندریہ کی عظیم لائبریری کو جو لیس سیزر،پیٹرارک یا پھر مسلمانوں نے تباہ و برباد کیا تو شاید اس قدر نقصان نہ ہوا ہوتا جتنا ہر مسودے کی محض ایک ایک کاپی لائبریری میں ہونے کی وجہ سے ہوا۔ایک اندازے کے مطابق ان تین تباہ کاریوں دوران کم و بیش ۶ لاکھ مسودے نذر آتش ہوئے۔ان ۶لاکھ کتابوں کے ساتھ انسانی فکرودانش کی کیسی کیسی موشگافیاں یا عقدہ کشائیاں بھی تلف ہوئیں، اس کا اندازہ آج لگانا شاید ممکن نہ ہو۔‘‘
(فنِ صحافت،ص ۹)
پروفیسر ظہورالدین نے پرانے زمانے اور عصری دور میں تقابل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگرمذکورہ تباہیاں آج کے دور میں بھی ہوتی ہیںتو پھر ان نایاب و نادر کتب کی از سرنواشاعت میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی۔کیوں کہ آج کل جس رفتار سے کتابیں چھپ رہی ہیں اور فی الفور لائبریریوں کو چلی جاتی ہیں اس سے کتب کے نقصان کا ازالہ فوراً ممکن ہے جبکہ اس طرح کی کوئی آسانی ابتدائی زمانے میں میسر نہیں تھی۔آجکل ٹکنالوجی کی رفتار اور ترقی سے کتابوں کی حفاظت کا ساماں بھی میسر ہوچکا ہے۔پروفیسر ظہورالدین نے اس مضمون میںفنِ طباعت کی ایجاد و اختراع کے تعلق سے بڑی مفید باتیں کی ہیں۔انھوں نے لکھا ہے کہ طباعت کی ایجاد کا سہرا چینیوںکوجاتا ہے اسکے بعدجرمنی،جاپان،اسپین وغیرہ ممالک میں بھی اس فن میں مہارت حاصل کی گئی۔طباعت کی روایت کا یہ سلسلہ آج بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
’’خبربندی‘‘کا مضمون بھی اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ کر دیتا ہے۔اس میں موصوف نے اردومیں مستعمل لفظ’’خبر‘‘اور انگریزی میں’’نیوز‘‘کے استعمال کی نشاندہی کی ہے۔انھوںنے انگریزی ماہرین کی خبر سے متعلق تعریفوں کا اردو ترجمہ کرکے طالب علموں کے لیے راہ کو آسان کیا۔ان سبھی ترجمہ شدہ تعریفوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ظہورالدین نے جو لوازم پیش کیے ہیں۔انھیں سیریل وائزترترتیب دیاہے۔ان کے مطابق:
۱) ’’خبر سے مراد وہ اہم اطلاع ہے جو پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران واقع ہوئے ور ان حادثات و واقعات سے تعلق رکھتی ہوجن کا تعلق انسانی کائنات سے ہے۔
۲) اس کا تعلق کسی ملکی یا غیرملکی واقعے سے ہو۔
۳) تازہ ترین یاحالیہ واقعے سے تعلق رکھتی ہو۔عصری انسانی مسائل کا احاطہ کرتی ہو۔اس کا تعلق کسی نئے واقعے سے ہو۔کیوں کہ خبر جوں جوں باسی ہوتی جاتی ہے وہ اپنی طاقت سے محروم ہوتی جاتی ہے۔وقتی اعتبار سے خبر کا تازہ ترین ہونا روزنامے کی ضرروتوں کا تقاضاہے۔‘‘
(فنِ صحافت،ص۱۸)
مذکورہ بالا تعریفوں کے علاوہ بھی کئی تعریفیں دی گئی ہیں جن سے خبر کی اہمیت،معنویت اور تقاضوں کا پتہ چلتا ہے۔خبر کس طرح کی ہوتی ہے۔اس کے تقاضے کیا ہیں۔خبر کس طرح بنائی جائے،قارئین کس طرح کی خبر کو پسند کرتے ہیں،خبر کا دائرہ کار کیاہے۔خبرنویس کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے وغیرہ۔ظہور الدین نے خبر اورکہانی کی وضاحت بھی کی ہے اورخبرنویس کی ہدایت کے لیے تجوز بھی پیش کی ہے جس سے خبر دیرپاثابت ہوسکے۔انھوںنے خبر بنانے کا نمونہ بھی دیا ہے تاکہ کسی بھی نوارد خبرنویس کو کوئی مشکل درپیش نہ ہو۔انھوں نے خبروں کی اقسام بھی بتائی ہے جو مفید اور اہم ہیں۔
’’سرخیوں کے تقاضے اور اخبارکی تزئین‘‘کے موضوع پرلکھے گئے مضمون سے بھی پروفیسر ظہورالدین کے علمی استدلال کی وضاحت ہوتی ہے۔انھوںنے اس مضمون میں لکھا ہے کہ کسی بھی خبری کہانی کو عنوان دینا آسان مسئلہ نہیں ہے۔وہ بھی اس وقت جب وقت کی تنگی کی وجہ سے صحافی کے لیے کسی کمپیوٹر کی طرح کام کرتے ہوئے فی الفور کوئی سرخی فراہم کرنانہایت ضروری ہو۔یہ مشکل اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب اخبار روزنامہ ہو۔اخبار میں کام کررہاہر فرد سرخی نہیں بنا سکتا۔بلکہ یہ کام کسی فردکے ہی سپرد کیاجاتا ہے جو اس میں مہارت رکھتا ہو اور سرخی بنانے کے تقاضے سے واقف ہو۔کوئی خبر دوہری سرخی والی ہوتی ہے جو خبر کی اہمیت کو زائل بھی کر دیتی ہے کیوں کہ قاری مکمل خبر پڑھنے کے بجائے سرخی ہی سے کام چلا لیتا ہے۔سرخی بناتے وقت کن کن باتوں کوملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے ان سب باتوں کو پروفیسر موصوف نے بہت عمدگی سے سمجھایا ہے۔انھوںنے سرخیوں کے مختلف اقسام بھی بتائے ہیں۔’’اداریے کی ترتیب و تشکیل‘‘فنِ صحافت کاایک اہم ہے۔اس مضمون میںکہاگیاہے کہ روزنامے کا اداریہ لکھنے کے لیے کس طرح کی قابلیت درکارہے۔اداریہ نگارکے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ جس موضوع پرلکھ رہاہے ضروری نہیں کہ وہ اخبارکی پالیسی سے تعلق رکھتاہو۔ظہورالدین نے اداریہ نویسی کے عناصر ترکیبی کے تعلق سے بھی مفید باتیں کہی ہیں۔
اخبار میں صرف خبریں شائع نہیں ہوتیں بلکہ اس میں مختلف موضوع پرکالم بھی شائع ہوتے ہیں۔بعض اخباراپنے روزناموں کے لیے کالم نگاروں کا تعین خودکرتے ہیں جو ان کے لیے مسلسل لکھتے رہتے ہیں۔ یہ بھی کالم نگار پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کس موضوع پر عبور رکھتا ہے،اس کی نظر کتنی وسیع ہے اوراسے کسی موضوع یا مسئلے کو کس طرح پیش کرنے کاہنر آتا ہے۔اس اعتبار سے کالم نگاری فنِ صحافت میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ظہورالدین نے اپنی کتاب میں کالم کانمونہ بھی دیا ہے کہ کالم کس طرح لکھا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ اس کتاب میں اخباری فیچر،اخباری انٹرویو،فیچر اور فیچر مضمون بھی بے حد قابل مطالعہ ہیں۔جن سے فنِ صحافت نگاری کے اسرار و رموز جاننے میں مددمل جاتی ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!