اختر الایمان کی نظم ’’مسجد‘‘
محمد جمال احمد
ریسرچ اسکالر،ونوبا بھاوے یونی ورسٹی، ہزاری باغ
7091354636
اختر الایمان کی شاعری کو اردو شاعری کی تیسری آواز کہا جاتا ہے۔ ان کے یہاں باضابطہ مربوط و مستحکم نظام فکر ہے حیات و کائنات کے سلسلے میں بصیرت آمیر نظر ہے۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو شاعری کابڑا حصہ محض رومانی ہے۔ دکنی عہد سے لے کر ترقی پسند جماعت تک اور ترقی پسندی سے لے کر جدیدیت تک ہماری شاعری کا غالب عنصر رومانیت ہے۔ ایک صاحب دل کے لیے رومانیت سے گریز ممکن بھی نہیں ہے۔
اختر الایمان اردو کے واحد شاعر ہیں جن کی شاعری کی ابتدا ہی ایک مخصوص فلسفیانہ آہنگ اور مزاج کے ساتھ ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں ’’وقت‘‘ کے تصور کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور سچ پوچھیے تو موصوف نے وقت کے فلسفہ کو اپنی شاعری میں اس طرح بہ حسن و جمال پیش کیا ہے کہ اس کی مثال دوسری جگہ نہیں ملتی۔ اخترالایمان کی شاعری کا آغاز اس وقت ہوا جب راشد، میراجی اور فیض جیسی معتبر اور توانا آوازیں اردو نظم کی دنیا میں گونج رہی تھیں۔ اختر نے ان تینوں کی پیروی بھی کی اور اپنی انفرادیت کا نقش بھی جمایا۔ ان کی نظرون میں ان کے عہد کے تمام مسائل مثلاً اخلاقی اور مذہبی قدروں کا زوال، معاشرے کا بکھراؤ، بھری انجمن میں انسان کی تنہائی اور بے بسی، غیر یقینی کا خوف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبھی کچھ نظر آتا ہے۔ لیکن ماضی کی یاد ایک کسک بن کر ان کی شاعری کے بڑے حصے پر چھائی ہوئی ہے۔
مگر جب جب کسی کے سامنے دامن پسارا ہے
یہ لڑکا پوچھتا ہے اخترالایمان تم ہی ہو
دراصل اختر الایمان کا طرز اظہار قدیم اور جدید کے سنگم پر واقع ہے۔ ان کے یہاں ایک طرف روایت کی پابندی نظر آتی ہے تو دوسری طرف اس سے انحراف بھی۔ موصوف نے اس ضمن میں متعدد نظمیں لکھی مثلا یادیں، لغزش، ایک لڑکا، ایک احساس، وقت کی کہانی، بنت لمحات، قافلہ، قبر، مشورہ، بے چارگی، معمول، تفاوت، شیشہ کا آدمی، میری آواز، بزدل، مفاہمت، سناٹے کی چادر، زندگی کا وقفہ اور مسجد۔ بہر حال یہاں مجھے اختر الایمان کے مشہور و معروف نظم ’’مسجد‘‘ کے حوالے سے گفت و شنید کرنی ہے۔
مذہبی قدروں جیسا زوال اختر الایمان کے زمانے میں ہوا ایسا شاید تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ شکست و ریخت، اختر الایمان کی نظموں میں جگہ جگہ نظر آتی ہے اور اس کی پیشکش کے لیے وہ مختلف علامتوں کی مدد لیتے ہیں۔ مثلاً ’’مسجد‘‘ کے حوالے سے مذہب کے زوال کی داستان اس طرح بیان ہوتی ہے۔
ایک ویرانی سی مسجد کا شکستہ سا کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کوئی
مرثیہ عظمت رفتہ کا پڑھا کرتا ہے
اس دور کی بیشتر نظموں میں پیکر تراشی کا حسن اپنے شباب پر ہے۔ شاعر نے نہ صرف یہ کہ ایک ویرانی سی مسجد کی شکستہ حال کا ذکر کرتے ہیں بلکہ ان کی نظم ’’مسجد‘‘ سے ’’وقت‘‘ کے چند خوبصورت پیکر نظر نواز ہوں۔
دور برگد کی گھنی چھاؤں میں، خاموش و ملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال، گنہگار نمازی کی طرح
اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں، چپکے چپکے
یہاں ’’ماضی اور حال‘‘ گنہگار نمازی کی صورت میں اپنے اعمال پر چپکے چپکے آنسو بہاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی یہ تصویر نگاہوں کے سامنے آتی ہے۔
گرد آلود چراغوں کو ہوا کے جھونکے
روز مٹی کی نئی تہہ میں دبا جاتے ہیں
اور جاتے ہوئے سورج کے وداعی انفاس
روشنی آ کے دریچوں کو بجھا جاتے ہیں
اس بند میں مٹی کی نئی تہہ ہوا کے جھونکے اور سورج کے وداعی انفاس بھی وقت کی ہی مختلف شبیہ ہیں۔ اختر الایمان کی یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ اپنی علامتی نظموں میں اشاروں اور کنایوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی خصوصیت ایسی ضرور برقرار رکھتے ہیں جو علامتی الفاظ کی تفہیم میں ہمیں مدد دیتی ہیں۔ مذکورہ اشعار میں ان کی بین مثالیں موجود ہیں۔
ایک میلا سا اکیلا سا فردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کر تا ہے
تم جلاتے ہو کبھی آ کے بجھاتے بھی نہیں
شاعر متذکرہ شعر میں انسان کے لرزتے ہاتھوں نے مذہب کا دیا روشن کر تو دیا مگر انسان اس کی نگہداشت سے قاصر رہا اور جب اس کی حیثیت ایک لاشہ بے جان کی سی رہ گئی تو کسی کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ اس کی آخری رسوم ادا کر دے۔ نتیجتاً یہ کہ ایک بے وارث لاش کی طرح پڑا ہوا ہے۔ نظم نگار یہاں اپنی اس نظم سے مسلم قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے اور یاد دہانی کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ جو مسجد ہم نے اپنی خون پسینہ اور محنت و مشقت سے بنایا ہے، بہتر ہوتا کہ اس مسجد کی رکھوالی ہم اپنے سجدوں سے کرتے۔ دراصل یہی وہ دیا ہے جو برابر روشن رہے گا۔ اس نظم کے آخیر میں وقت کا یہ قاتل روپ بھی ملاحظہ ہو جو نظم کے مرکزی تصور سے پوری طرح وابستہ ہے۔
تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی
یہاں ’’ندی‘‘ زندگی کی علامت ہے اور ’’تلاطم بردوش موج‘‘ جو وقت کا بہیمانہ پیکر ہے۔ ہر شئے کو فنا کی طرف بہائے لیے جا رہی ہے۔ منہدم ہوتی ہوئی مسجد کے آخری نشانات بھی ایک دن ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائیں گے۔ یہ پوری نظم سلسلہ روز و شب کے ظلم و ستم کی درد ناک کہانی کو پیش کرتی ہے اور خود مسجد بھی ایک علامت ہے جو مشرقی قدروں کی نمائندگی کر رہی ہے۔
رمزیت، ایمائیت اور علامت سازی اختر الایمان کی نظموں کی خصوصیات میں شامل ہیں۔ اختر الایمان کی نظم ’’مسجد‘‘ میں وہ تمام تر خوبیاں دیکھ سکتے ہیں جس کے لیے وہ مشہور و مقبول ہے۔
نظم مسجد کا موجودہ دور میں کسی بھی مذہب سے اس کے پیروں کی بے نیازی، مذہبی افراد کی بے راہ روی اور عصری قدریں ہیں۔ اس نظم میں تین کردار، تین اشارات ہیں۔ مسجد، مذہب کے لیے اشارہ ہے۔ شاعر نے مسجد کی زبو ںحالی اور شکستگی کا ذکر کرتے ہوئے آج کے دور میں مذہب کی حالت کو منکشف کیا ہے۔ رعشہ زدہ ہاتھ ’’مذہب‘‘ کے اشارے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ جو عصری مسائل کو اپنی گرفت میں لینے اور ان پر قابو پانے کی اہلیت نہیں رکھتا اور ’’ندی‘‘ اشارہ ہے نئی قدروں کے لیے۔ ان تینوں اشارات کی کشمکش نے نظم کے بہاؤ کو تیز تر کر دیا ہے اور نظم معنی طور پر تہہ دار ہو گئی ہے۔
اختر الایمان نے زمانے کے کئی نشیب و فراز دیکھے، بے رخی اور بے بسی کا سامنا کیا، زندگی کو بہت قریب سے پرکھا اور زندگی کے فریب کھائے۔ تعصب پرستی کا سامنا کیا اور زمانے نے بہت ٹھوکریں دیں لیکن ان کے یہاں زندگی اور زمانے کے تعلق سے بیزاری اور برگشتگی نہیں ملتی۔ زندگی اور زمانے کے منفی رویے کے باوجود ان کو زندگی اور زمانے سے پیار تھا۔ اس کے ساتھ فکر کی سنجیدگی اور خاص طور پر ارتقاز فکر نے ان کے کلام میں گہرائی اور گیرائی پیدا کر دی ہے۔ یوں ان کا کلام غور و فکر کی دعوت بھی دیتا ہے۔ اور ان کا زاویہ فکر جداگانہ الفاظ کے انتخاب میں احتیاط اور اچھوتے اسلوب نے ان کی شاعری کو مجموعی طور پر اور ان کی اشاریت کو بالتخصیص اور بانکپن کا حامل بنا دیا۔ جیسا کہ خود اپنی نظم ’’مسجد‘‘ کے تعلق سے چند جملے تصدیق کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں جس سے اس نظم کے مرکزی کردار پر روشنی پڑتی ہے۔
’’مسجد مذہب کا المیہ ہے اور اس کی ویرانی عام آدمی کی مذہب سے دوری کا مظاہرہ ہے۔ درد زدہ ہاتھ مذہب کا آخری نمائندہ ہے اور وہ ندی جو مسجد کے قریب سے گزرتی ہے وقت کا دھارا ہے جو عدم کو وجود، وجود کو عدم میں تبدیل کرتا رہتا ہے۔ اور اپنے ساتھ ہر چیز کو بہا لے جاتے ہیں۔ جس کی زندگی کو ضرورت نہیں رہتی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!