سبطِ حسن کے تہذیبی تصورات
Cultural Concepts of Sibte Hassan
محمد عثمان بٹ
پرنسپل، گورنمنٹ ہائی سکول الھڑ، پسرور، سیال کوٹ، پنجاب، پاکستان
usmanyaseen86@gmail.com
+923338620307
Abstract:
Here the word culture has been used as a substitute for both culture and civilization. Syed Sibte Hassan was the literary and journalistic figure of the twentieth century. He is known as a clear Marxist with special context to his writings. In this article, his cultural concepts have been analyzed with special reference to his book Pakistan Mein Tahzeeb Ka Irtiqa. He is of the view that to start the culture of Pakistan from 1947 is a fallacy. He believes that the culture of Pakistan is as old as its boundaries are old. So the beginning of culture in this region begins with the first man who inhabited this land. Further, he emphasizes the material aspects of culture rather than that of its spiritual aspects. He was influenced by the left arm politics. According to his views, culture has four elements which are physical environment, tools and devices, beliefs and thoughts, and social values respectively.
Keywords:
Syed Sibte Hassan, Culture, Civilization, Progressive, Left-arm views, Evolution of culture in Pakistan
تہذیب بنیادی طور پر دو اوصاف کا مجموعہ ہے جن میں سے ایک مادی اور دوسرے غیر مادی ہیں۔ اِن اوصاف کے مظاہر انسان کی زندگی میں مختلف سطح پر وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔انسان نے خارجی طور پر جو اشیا قائم یا پیدا کی ہیں جیسے گھر،سکول، دفاتر، عمارتیں، ٹیکنالوجی، سڑکیں، پارک، اشیائے پیداوار اور دیگر وسائل وغیرہ ، یہ سب تہذیب کے مادی، جسمانی یا ظاہری اوصاف یا مظاہر ہیں۔دوسری طرف عقائد، رسوم و رواج، اقدار، اصول و ضوابط، قوانین، اخلاقیات، زبان، مذہب اور فلسفہ وغیرہ تہذیب کے غیر مادی، ذہنی یا فکری اوصاف یا مظاہر ہیں۔ مادی اور غیر مادی دونوں حوالوں سے تہذیب کا گہرا تعلق انسان اور اُس کے معاشرے سے قائم ہوتا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی تہذیب کے لیے کلچر کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
جالبی صاحب اپنے ایک مضمون کلچر کیا ہے؟ میں اِس ضمن میں رقم طراز ہیں:
کلچر اُس کُل کا نام ہے جس میں مذہب و عقاید، علوم اور اخلاقیات، معاملات اور معاشرت، فنون و ہنر، رسم و رواج، افعال ِارادی اور قانون، صرفِ اوقات اور وہ ساری عادتیں شامل ہیں جن کا انسان ، معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے اکتساب کرتا ہے اور جن کے برتنے سے معاشرے کے متضاد مختلف افراد دو طبقوں میں اشتراک و مماثلت، وحدت اور یک جہتی پیدا ہو جاتی ہے، جن کے ذریعے انسان کو وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز پیدا ہو جاتی ہے۔ کلچر میں زندگی کے مختلف مشاغل، ہنر اور علوم و فنون کو اس اعلیٰ درجے پر پہنچانا، بُری چیزوں کی اصلاح کرنا، تنگ نظری اور تعصب کو دور کرنا، غیرت و خود داری، ایثار و وفاداری پیدا کرنا، معاشرت میں حسن و لطافت، اخلاق میں تہذیب، عادت میں شائستگی، لب و لہجہ میں نرمی، اپنی چیزوں، روایات اور تاریخ کو عزت اور قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھنا اور اُن کی بلندی پر لے جانا بھی شامل ہیں”۔(1)
قیامِ پاکستان کےفوراً بعد پاکستانی ادیبوں کے ہاں پاکستان میں تہذیب و ثقافت کے حوالے سے مباحث کا آغاز ہوگیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے اب تک اِن ادیبوں اور دانشوروں میں محمد حسن عسکری، ڈاکٹر سیدسجاد باقر رضوی،سید سبطِ حسن،ڈاکٹر سید عبداللہ، سید محمد تقی، سراج منیر،ڈاکٹر عبادت بریلوی، فیض احمد فیض، پروفیسر کرار حسین، ڈاکٹر جمیل جالبی،شیخ محمد اکرام،ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم،پروفیسر ممتاز حسین، انتظار حسین،سلیم احمد،نظیر صدیقی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر سلیم اختر،پروفیسر جیلانی کامران،احمد ندیم قاسمی،ڈاکٹر وزیر آغا،ڈاکٹر انیس ناگی،سید محمد تقی،محمد ہادی حسین اور محمد صفدر میر جیسے اہم نام شامل ہیں جنھوں نے تہذیب و ثقافت کے تناظر میں کتابیں تحریر کیں یا مضامین حوالہ قلم کیے۔تہذیب کے بنیادی مباحث کے ضمن میں بات کرتے ہوئے سبطِ حسن نے تہذیب کی تعریف، تہذیب کی خصوصیات اور تہذیب کے عناصرِ ترکیبی کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ تہذیب کی اصطلاح کو اُنھوں نے اُسی معنوں میں استعمال کیا ہے جس میں اُردو کے بعض ادیبوں اور دانشوروں نے کلچر یا ثقافت کو استعمال کیا ہے۔
تہذیب کی تعریف سبطِ حسن کچھ یوں کرتے ہیں:
کسی معاشرے کی بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب معاشرے کی طرزِ زندگی اور طرزِ فکرو احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ چنانچہ زبان، آلات و اوزار، پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے، رہن سہن، فنونِ لطیفہ، علم و ادب، فلسفہ و حکمت، عقائد و افسوں، اخلاق و عادات، رسوم و روایات، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں ۔(2)
مزید تفصیل میں جانے سے پہلے میں ضروری خیال کرتا ہو کہ سید سبطِ حسن کی شخصیت کا سرسری تعارف کروا دیا جائے۔ وہ31 /جولائی 1916ء کو اعظم گڑھ(اتر پردیش) کے علاقہ امبری میں پیدا ہوئے۔الٰہ آباد کالج سے اُنھوں نے انٹر کی تعلیم حاصل کی جہاں وہ امرناتھ جھا اور فراق گورکھ پوری جیسے عظیم اساتذہ کے شاگرد رہے۔اُنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور بعد میں کولمبیا یونیورسٹی،امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے تشریف لے گئے۔ 1942ء میں وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے وابستہ ہوئے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے نہایت اہم رکن تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1948ء میں وہ لاہور منتقل ہوگئے،بعد ازاں کراچی مستقل رہائش پذیر ہوئے۔ وہ نیاادب،لاہور اور لیل و نہار، لاہور جیسے معروف ادبی رسائل کے مدیر رہے۔ اُنھیں پاکستان میں سوشلزم اور مارکسزم کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔وہ تین مرتبہ پابندِ سلاسل رہے۔صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھنے کے باعث وہ پائنیر، لکھنو،نیشنل ہیرالڈ، الٰہ آباد، بمبے کونیکلز،بمبئی، اور پیام،حیدرآباد،دکن جیسے اخبارات سے منسلک رہے۔ اُن کی تخلیقات میں کئی مضامین، اداریے اور کتابیں شامل ہیں۔ سیاسی حوالے سے وہ بائیں بازو کی فکر کے حامی تھے۔ 1986ء میں وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے سلسلہ میں انڈیا گئے جہاں نئی دہلی سے واپسی پر 20/اپریل 1986ء کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے وہیں وفات پا گئے۔ وہ کراچی میں مدفون ہیں۔
پاکستان میں تہذیب کا ارتقا کے عنوان سے سید سبطِ حسن نے اپنی تخلیق 1975ء میں تحریر کی مگر اُن کی یہ کتاب 1977ء میں پہلی بار مکتبہ دانیال، کراچی سے شائع ہوئی۔ تہذیب سے متعلق مختلف مباحث کو سبطِ حسن نے اپنی اِس تخلیق میں کچھ یوں جگہ دی ہے کہ تہذیب کے بنیادی مباحث اور قدیم دور سے لےکر پاکستان میں تہذیب کا ارتقا جیسے موضوعات کو علمی، تاریخی اور ادبی انداز سے پیش کیا ہے۔ اِس کتاب کے اب تک کئی ایڈیشن سامنے آچکے ہیں۔ حالیہ ایڈیشن 2017ء میں تیرھویں اشاعت کے طور پر سامنے آیا۔ پہلے ایڈیشن میں شامل کل صفحات کی تعدادچار سو سینتالیس تھی جس میں پرانی طباعت تھی جو کہ بارہ ایڈیشنز تک چلتی رہی مگر حالیہ ایڈیشن کمپیوٹرائزڈ طباعت پر مبنی ہے جو کہ کل تین سو سینتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ حالیہ جدید ایڈیشن کی پہلی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں پاکستانی تہذیب کی پہچان کے عنوان سے سبطِ حسن کے ایک مضمون پر مشتمل ضمیمہ کو شامل کیا گیا ہے جو نومبر 1974ء میں شائع ہوا تھا مگر اِس سے قبل مذکورہ کتاب کی اشاعتوں میں شامل نہیں تھا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ موجودہ ایڈیشن میں حواشی و حوالہ جات کو یکساں انداز سے پیش کرتے ہوئے ہر باب کے آخر میں اکٹھا کردیا گیا ہے اور نامکمل حوالے مکمل کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی گئی ہے۔کتاب کا انتساب شاکر علی کے نام کیا گیا ہے۔ کتاب کا دیباچہ سعیدہ گزدر اور تمہید کے عنوان سے پیش لفظ سبطِ حسن نے تحریر کیا ہے۔ موجود تحقیقی مضمون کو تحریر کرتے ہوئے اِس کتاب کے مختلف ایڈیشن سامنے رکھے گئے مگر پہلی اور آخری اشاعت کو بالخصوص ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔
سید سبطِ حسن نے اپنی تصنیف پاکستان میں تہذیب کا ارتقا کو کل آٹھ ابواب میں تقسیم کیا ہے جس کے نمایاں مباحث میں تہذیب کی تعریف، وادئ سندھ کی قدیم تہذیب، آریہ تہذیب، یونانی، ساکا اورکشن اثرات، عربی تہذیب کا اثر و نفوذ، ترکی اور ایرانی تہذیب کے اثرات، مغلیہ تہذیب کا عروج و زوال،اور مغلیہ تہذیب ہم عصر مغربی تہذیب کے آئینے میں شامل ہیں۔ اُن کی دیگر نمایاں تصانیف میں ‘ادب اور روشن خیالی ، ادیب اور سماجی عمل ، افکارِ تازہ ، انقلابِ ایران ، بھگت سنگھ اور اُس کے ساتھی ، پاکستان کے تہذیبی و سیاسی مسائل ، سخن در سخن ، شہرِ نگاراں ، مارکس اور مشرق ، ماضی کے مزار ، مغنئ آتشِ نفس:سجاد ظہیر ، موسیٰ سے مارکس تک ، نویدِ فکر اور ‘‘The Battle of Ideas in Pakistan’’شامل ہیں۔
کسی خطے کی تہذیب کو نمایاں کرنے میں وہاں کے طبعی و جغرافیائی حالات، اُس خطے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی،وہاں بسنے والے لوگوں کی فکری اساس، اور اُن کا سماجی ڈھانچہ و اقدار بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔تہذیب کی خصوصیات کے تناظر میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سبطِ حسن اِنسان کے جسمانی و ذہنی امتیازات کو بیان کرتے ہیں جو اُسے جانوروں سے نمایاں کرتے ہیں۔ اِنسان کی مکمل طور پر اپنے دو پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت،ذہن کا استعمال،آنکھوں کا استعمال اور اپنے لیے مختلف آلات و اوزار بنانے کی صلاحیت وغیرہ ایسے امتیازات میں شامل ہے۔ اُن کے نزدیک تہذیب خالص انسانی تخلیق ہے اور اِنسان ہی اِس کا واحد ضامن ہے۔(3)تہذیب کے عناصرِ ترکیبی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سید سبطِ حسن نے تہذیب کو چار عناصر سے متشکل قرار دیا ہے۔ اِن عناصر میں طبعی حالات، آلات و اوزار، نظامِ فکرو احساس، اور سماجی اقدار شامل ہیں۔
پاکستان کی تہذیب کو 1947ء سے شروع کرنا نادانی ہے۔ دراصل کسی بھی خطے کی تہذیب اتنی ہی پرانی ہو گی جتنی کہ وہاں آباد لوگوں کی تاریخ قدیم ہے۔وادئ سندھ کی قدیم تہذیب کے باب میں سبطِ حسن نے زیادہ تر پروفیسر عبدالحمید دانی کی کتاب “تاریخِ پاکستان” سے استفادہ کیا ہے۔ پاکستان کے قدیم ترین باشندوں کی تہذیب کے لیے سُوانی(پوٹھوہاری) تہذیب کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے کیوں کہ سُوان ندی کے کنارے قدیم ترین باشندوں کے آثار یعنی اُن کے زیرِ استعمال اوزار ملے ہیں۔ پتھر کے زمانے کو عموماً دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اِن دونوں ادوار میں حدِ فاصل کھیتی باڑی کا عمل ہے۔ ایک دور کھیتی باڑی کا عمل شروع ہونے سے پہلے کا زمانہ ہے اور دوسرا یہ عمل شروع ہونے کے بعد کا ہے۔
سبطِ حسن کے خیال میں محققین نے سُوانی تہذیب اور ہڑپہ و موئن جہ دڑو کی شہری تہذیب کے مابین اب تک چار دیہی یا زرعی تہذیبوں کو دریافت کیا ہےاور زراعت اِن کی مشترکہ خصوصیت تھی(4):
1۔کوئٹہ تہذیب (وسطیٰ بلوچستان)تقریباً چھ ہزار برس قدیم
2۔امری نل تہذیب (وسطیٰ بلوچستان اور بالائی سندھ)تقریباً پانچ ہزا برس قدیم
3۔کُلی تہذیب (جنوبی بلوچستان)تقریباً چار ہزار آٹھ سوبرس قدیم
4۔ژوب تہذیب (شمالی بلوچستان)تقریباً ساڑھے چار ہزار برس قدیم
جہاں تک سندھ اور بلوچستان کی تہذیب کا معاملہ ہے تو وہاں کے آثارِ قدیمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہڑپہ(دریائے راوی کے کنارے) اور موئن جہ دڑو (دریائے سندھ کا کنارا) یعنی وادئ سندھ کی تہذیب کے عروج سے قبل ہی کافی ترقی یافتہ تھی۔ وادئ سندھ کی تہذیب کو پاکستان میں کانسی کے دور کا نقطہ عروج تصور کیا جاتا ہے اور اِس تہذیب نے 2500 ق م سے لے کر 1500 ق م تک عروج پایا۔ اُن کی نمایاں خصوصیات میں اُموی نظام،سراون (سہاگہ) کی مدد سے کھیتی باڑی، زراعت کا مشترکہ نظام، زمین کی مشترکہ ملکیت، براہوی سے ملتی جلتی کوئی دراوڑی زبان، مٹی کے برتن، سونے، چاندی، تانبے، ٹن اور جست سے بنے زیورات اور اوزار، کانسی سے بنے آلات (کلہاڑیاں، اُسترے، چاقو وغیرہ)، قرینے سے قطاروں میں تعمیر کیے گئے مکانات مع غسل خانے، فنِ تعمیر سے واقفیت (درختوں کے پتوں یا چھال پر لکھنا)، مٹی کی مہروں پر کھدے ہوئے تصویری الفاظ، پیمائش اور اوزان کا باقاعدہ نظام شامل ہیں۔
سید سبطِ حسن نے وادئ سندھ کی تہذیب کا نقشہ اِن الفاظ میں پیش کیا ہے:
آثارِ قدیمہ کی اِن شہادتوں سے وادئ سندھ کی تہذیب کا جو نقشہ اُبھر کر سامنے آتا ہے وہ ایک نہایت امن پسند مگر کاروباری معاشرے کا ہے جو دولت مند نہ تھا کیونکہ آلاتِ پیداوارکی پسماندگی کے سبب فاضل پیداوار کی مقدار زیادہ نہ تھی۔ ملک میں تقسیمِ کار کے اُصولوں پر سختی سے عمل ہوتا تھا۔ سونار، کمھار، کانسئے، بڑھئ، جُلاہے، رنگریز، نگینہ ساز، بنئے، بقال اور تاجر سبھوں کی برادریاں بن گئی تھیں اور پورا معاشرہ طبقوں میں بٹ گیا تھا۔ لکھنے پڑھنے کا ہنر دوسری قدیم تہذیبوں کی مانند یہاں بھی جادو منتر کرنے والے پروہتوں اور اونچے طبقے کے چند افراد تک محدود تھا ۔(5)
وادئ سندھ کی تہذیب کے زوال کے کئی اسباب ہیں مگر سبطِ حسن نے اِس ضمن میں چار اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اِن اسباب میں بارش کی اوسط شرح، دریائے سندھ کے رخ میں تبدیلی اور دریاؤں میں سیلاب، مشرق قریب سے تجارتی رشتوں کا ٹوٹنا، اورآریوں کے حملے شامل ہیں۔ وادئ سندھ کے قدیم باسیوں میں اگر مزاحمت اور زندہ رہنے کی طاقت و صلاحیت ہوتی تو زوال کے اِن اسباب پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ آلاتِ پیداوار میں بہتری اور مادی ترقی کے دیگر ذرائع کی بدولت وہاں کے طبعی حالات پر قابو پایا جاسکتا تھا مگر اُن لوگوں میں یہ گنجائش موجود نہیں تھی۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ آریوں نے اِسی خطے اُن لوگوں کے بعد تہذیب کی تشکیل کی۔
آریہ تہذیب کے تناظر میں اظہارِ خیال کرتے ہوئےسبطِ حسن نے اِس باب میں تاریخی و تہذیبی حوالے سے مباحث اُٹھائے ہیں۔ آریہ جن کا آبائی وطن خوارزام اور بخارا تھا، وہ لگ بھگ 2000ق م وسطی ایشیا کی چراگاہوں سے جنوب مغربی ایشیا کی جانب روانہ ہوئے۔ اُن کی زبان سنسکرت تھی جس کے لغوی معنی اونچی ذات، آزاد اور شریف کے ہیں۔ وہ خود کو دوسروں سے بلند خیال کرتے تھے۔ اِسی سنسکرت سے مختلف پراکرتیں نکلیں اور اُن سے آگے مختلف اپ بھرنشیں نمودار ہوئیں جو بعد میں 1000ء کے قریب جدید ہند آریائی زبانوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ اُن کا انحصار مویشیوں بالخصوص گائے، بیل اوربھیڑ بکریوں پر تھا جبکہ سواری کے لیے گھوڑا استعمال کرتے تھے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے برعکس آریہ تہذیب میں سربراہ مرد تھا اور تین طبقاتی معاشرہ تھا جن میں چھتری (صاحبِ سیف) جو سرداری کرتے تھے، براہمن جومذہبی رسوم کی ادائیگی کے ذمہ دار تھے اور ویش جو مختلف پیشوں سے وابستہ تھے۔ اُن پیشوں میں بڑھئ، مستری، کاسئے، سنار اور کھیتی باڑی شامل تھے۔ لوگ اپنے لیے کسی بھی پیشے کا انتخاب کرنے میں آزاد تھے۔ آریہ کسی مخصوص جگہ پر مستقل رہائش اختیار نہیں کرتے تھے بلکہ ضرورت کے تحت رہائش بدلتے رہتے تھے۔ جہاں تک وادئ سندھ کی بات ہے تو وہاں آریہ کم و بیش 2000ق م کے لگ بھگ پہنچے اور 500 ق م تک رہے۔ وادئ سندھ میں آریہ درہ خیبر یا درہ بولان کے راستے داخل ہوئےاور بعد میں یہیں سے اُنھوں نے وادئ گنگا و جمنا کی طرف رخ کیا اور پھر پورے شمالی ہندوستان میں پھیل گئے۔ شہری فضا چونکہ وہ پسند نہیں کرتے تھے لہٰذا اُنھوں نے شہر بسانے کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ ریاست کے لیے وہ راشٹر اور ریاست کے والی کے لیے راجن کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ آریاؤں کے دور میں ہی رِگ وید لکھی گئی جس کا زمانہ 1500 ق م سے 1200 ق م کے درمیان کا بتایا جاتا ہے اور بعد میں دیگر وید(سام وید، یُجر وید اور اَتھر وید) لکھے گئے۔
وادئ سندھ میں آریائی تہذیب کا موازنہ پیش کرنے کے حوالے سے سید سبطِ حسن کی رائے ملاحظہ ہو:
مہابھارت کے ساتھ وادئ سندھ میں آریائی تہذیب کا وہ دور ختم ہو جاتا ہے جس کا حرفِ آغاز رِگ وید تھا۔ اب اِس وادی میں نئے نئے فاتحوں کے پرچم لہرائیں گے اور نئی نئی تہذیبیں اپنا اثر دکھائیں گی۔ البتہ طرزِ زندگی اور فکر و فن کی جو روایتیں آریوں نے قائم کی تھیں اُن کو کوئی طاقت مٹا نہ سکے گی۔ اُن میں اولیت آریوں کی مذہبی زبان سنسکرت اور پراکرتوں بالخصوص خروشتی اور شورسینی کو حاصل ہے کہ آگے چل کر یہی پراکرتیں ہماری زبانوں کی اساس بنیں۔ آریوں کا دوسرا تاریخی کارنامہ مادری نظام کی جگہ پدری نظام کو رواج دینا ہے۔ یہ تبدیلی معاشرتی ترقی کے لیے ایک لازمی شرط تھی۔ کیونکہ ہل بیل کے ذریعے زراعت اور لوہے کے آلاتِ پیداوار کا استعمال اِس تبدیلی کا تقاضا کررہے تھے۔ اِس انقلابی قدم سے وہ سماجی جمود بھی ٹوٹ گیا جو ہزار برس سے وادئ سندھ کی تقدیر بن گیا تھا ۔(6)
ہندوستان میں آریائی تہذیب پر ایرانی تسلط کا سلسلہ اُن آریاؤں سے شروع ہوا جو ایران میں آباد تھے اور اِس سلسلے کی پہلی کڑی کوریش اعظم(559 ق م تا 530 ق م) ثابت ہو جو فارس سے ہندوستان کی طرف بڑھا۔ یہی وہ دور تھا جب ہندآریائی تہذیب اور ایرانی تہذیب کا ملاپ ہوا اور ایرانی تسلط کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوئے۔ وادئ سندھ کے باشندوں اور ایرانیوں کے درمیان روابط کے واضح آثار ملتے ہیں اور اِس ضمن میں وادئ سندھ اور ایران کی تہذیبوں میں مختلف نقش و نگار کا یکساں پایا جانا اور آلات و اوزار کی ساخت میں مماثلت ہونا ایک نمایاں نشانی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
وادئ سندھ کے باشندوں اور یونایوں کے مابین رابطے کے آثار چھٹی صدی ق م سے ملتے ہیں۔ اِسی تناظر میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سبطِ حسن نے یونانی، ساکا اور کشن اثرات کے عنوان سے اپنی کتاب میں ایک پورا باب باندھا ہے۔ چھٹی صدی سے کانسی کی تہذیب پر لوہے کی تہذیب نے غلبہ پانا شروع کیا اور دنیا نے ایک نئے دور میں قدم رکھا۔ وادئ سندھ پر یونانیوں کا غلبہ پہلی صدی ق م کے آنے تک رہا جو بعد میں رفتہ رفتہ اُترتا چلا گیا۔ یونانی یوں تو ہندوستان سے چلے گئے مگر اُن کے آثار یہاں کی تہذیب میں اب بھی نظر آتے ہیں۔ سید سبطِ حسن کے نزدیک قومیں فنا ہو جاتی ہیں لیکن اُن کی تہذیب کے نقوش آنے والی نسلوں کے چہرے پر دمکتے رہتے ہیں ۔(7) اِس عرصہ میں وادئ سندھ کی تہذیب پر ساکاؤں، پارتھیوں اور کشنوں کے اثرات ملتے ہیں۔ معروف گندھارا آرٹ کی اگر بات کی جائے تو یہ اُنھی آریائی، یونانی، ساکا، پارتھی اور کشن تہذیبوں کے ملاپ کی بدولت سامنے آیا۔ گندھارا آرٹ کا مرکز ٹیکسلا لیکن اِس کی جڑیں وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔
عربوں کا واسطہ ہندوستان سے قبل از اسلام سے ہی رہا ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے ہی سے عرب کی سرزمین سے تجارتی جہاز بحیرہ عرب کے راستے چین تک جاتے تھے اور راستے میں سندھ کی بندرگاہ پر قیام ہوتا تھا جہاں اشیا کی خرید فروخت بھی ہوتی تھی۔ وہاں عربوں کا رابطہ تجارتی غرض سے مقامی لوگوں سے ہوتا تھا بلکہ کچھ عربوں نے وہاں مستقل رہائش بھی اختیار کر لی تھی۔ عرب عہد جو کم و بیش تین سو سال تک محیط تھا، میں ہندوستان میں علم و ادب کے اہم مراکز دیبل، ملتان، منصورہ اور اوچھ خیال کیے جاتے تھے جہاں علمی و ادبی حوالے سے عربی کی فضا ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ سندھ اور عربوں کے درمیان لسانی اور تہذیبی و ثقافتی سطح پر گہرے روابط قائم ہوئے جس کے اثرات آج تک دکھائی دیتے ہیں۔ سندھی پر اِس کے اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور اِسی وجہ سے نہ صرف یہاں کا رسم الخط تبدیل ہوا بلکہ لفظیات کا ذخیرہ بھی وسیع ہوا۔
اہلِ سندھ اور عربوں کے مابین تہذیبی و لسانی تعلقات اور اِس کے اثرات کے حوالے سے سبطِ حسن رقم طراز ہیں:
تین سو سال کی طویل مدت میں اہلِ سندھ نے عربوں سے اور عربوں نے سندھیوں سے بہت کچھ سیکھا۔ البتہ یہاں کے آلاتِ پیداوار بدستور وہی رہے جو سندھ میں عربوں سے پیشتر رائج تھے اور سماجی رشتوں کی نوعیت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اِس اعتبار سے سندھ کی قومی تہذیب کی اساس تو وہی رہی جس کا خمیر وادئ مہران کے آب و گُل سے اٹھا تھا لیکن یہ تہذیب مسلمانوں کے نظامِ فکر و احساس سے پھر کبھی آزاد نہ ہوسکی۔ سماجی اور سیاسی اقتدار بھی ہمیشہ مسلمانوں کے اونچے طبقوں ہی کے ہاتھ میں رہا۔ وہی نظم و نسق کے اُصول نافذ کرتے تھے۔ وہی تہذیبی قدروں کا رخ متعین کرتے تھے اور لوگوں کے مزاج و مذاق پر اِنھی کی جمالیاتی رغبتوں کا سکہ چلتا تھا۔ سندھی زبان بھی اب وہ نہیں رہی جو عربوں کی آمد سے پیشتر تھی۔ سندھی کا رسم الخط ہی نہیں بدلا بلکہ اِس کا لسانی جمود بھی ٹوٹ گیا اور عربی الفاظ کی وجہ سے سندھی لغت کا ذخیرہ بہت وسیع ہو گیا ۔(8)
ہندوستان میں ایک نیا تہذیبی منظر نامہ اُس وقت سامنے آیا جب غزنوی لشکر نے ہندوستان پر بار بار حملے کیے۔ یہ وہ تہذیبی منظر نامہ تھا جس کی بنیاد ترکوں نے رکھی لیکن جس تہذیب کو وہ اپنے ساتھ ہندوستان لائے اس پر ایرانی تہذیب کے اثرات نمایاں تھے۔ اِس کی سب سے بڑی نشانی فارسی زبان ہے۔ انیسویں صدی تک ہندوستان میں نہ صرف ذریعہ تعلیم فارسی تھا بلکہ سرکاری اور دفتری زبان بھی فارسی ہی تھی۔ ترکی اور ایرانی تہذیب کی بدولت جو تبدیلیاں ہندوستان میں رو نما ہوئیں اُن کے اثرات زیادہ تر شہروں کے اونچے اور درمیانے طبقوں کی زندگیوں پر ہوئے جبکہ دیہاتی زندگی پر اس کے اثرات کم دکھا ئی دیے۔
سید سبطِ حسن کی رائے ” ترکی اور ایرانی تہذیب کے اثرات ” کے تناظر میں ملاحظہ ہو:
شمال مغرب کی سمت سے آنے والے ان بزرگوں کی سرگرمیاں لاہور تک محدود نہیں رہیں بلکہ بعضوں نے پشاور، ملتان ، اوچھ اور منصورہ میں ہی سکونت اختیار کر لی۔ اس طرح فارسی زبان و ادب اور ایرانی تہذیب کا غلبہ رفتہ رفتہ وادئ سندھ کے سبھی شہروں پر ہو گیا”۔(9)
صوفیائے کرام نے نہ صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین ملاپ کی شمع جلائی بلکہ ہندوستان کی مقامی زبانوں کی ابتدائی نشوونما میں نہایت اہم تاریخی کردار ادا کیا۔ مغلوں کی آمد (1526ء) سے قبل پانچ مختلف خاندانوں نے دہلی پر حکومت کی جن میں خاندانِ غلاماں، خاندانِ خلجی، خاندانِ تغلق، خاندانِ سادات اور خاندانِ لودھی شامل تھے۔1193ء سے 1526ء تک تین سو تینتیس سال کے عرصے میں پنجاب اور سرحد کے علاقے تو دہلی سلطنت کے ماتحت رہے مگر وادئ سندھ پر دہلی کا کنٹرول خاصہ کمزور رہالیکن اِس کے باوجود فارسی زبان اور تہذیب کوبرابر اہمیت حاصل رہی۔ اِس دور میں پارچہ بافی، مختلف دھاتوں(سونا، چاندی، تانبااور لوہا)، شکر سازی، سنگ سازی، نیل سازی، کاغذ سازی اور چرم سازی کی صنعتوں کا قیام عمل میں آیا لیکن معیشت کا انحصار بنیادی طور پر زراعت سے ہی وابستہ تھا۔
سیدسبطِ حسن نے اپنی اِس کتاب میں نہ صرف مغلیہ تہذیب کے عروج و زوال کا نقشہ کھینچا ہے بلکہ اِس کےساتھ ساتھ اِس کا تقابل ہم عصر مغربی تہذیب کے آئینے میں بھی کیا ہے۔اُن کے خیال میں جب یورپ میں صنعتی انقلاب برپا ہو رہا تھا تب مغل بادشاہ عالی شان عمارتیں بنوانے، رقص و موسیقی کی محفلیں سجانے ،شعر و سخن میں غرق اور اسی طرح کے دیگر کاموں میں مشغول تھے۔ یہاں تک کہ مغلوں نے چھاپہ خانے قائم کرنےکی تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کی اِس سے خوش نویسوں کی روزی ماری جائے گی۔
ہر خطے کی اپنی الگ تہذیب ہوتی ہے جس کی کئی خصوصیات دوسری تہذیبوں سے ملتی ہیں مگر اپنی انفرادی خصوصیات کی بنیاد پر ہر تہذیب قومی تہذیب کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ قومیت کا جدید تصور مخصوص جغرافیائی حدود کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کے تحت اُن حدود میں رہنے والے لوگ کو ایک قوم قرار دیا جاتاہے اور اُن کا مجموعی کلچر قومی کلچر کی تشکیل کرتا ہے۔ سبطِ حسن کلچر کے لیے تہذیب کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور پاکستانی تہذیب کے حوالے سے اِس خیال کے حامی ہیں کہ پاکستانی تہذیب اُتنی ہے پرانی ہے جتنی کی یہاں بسنے والے لوگوں کی تاریخ۔ اِس لیے پاکستانی تہذیب کی ابتدا ہم وہاں سے کریں گے جہاں سے اِس خطے کی تاریخ کی ابتدا ہوتی ہے نہ کہ 1947ء سے۔ چونکہ پاکستانی تہذیب کی تشکیل میں بہت سے ایسے عناصر کار فرما ہیں جس میں وادئ سندھ، آریائی، یونانی، ساکا، کشن، عربی، ترکی، ایرانی اور مغلیہ تہذیب کے اثرات نمایاں ہیں۔ سبطِ حسن کی اِس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں اُنہوں نے رِگ وید سے لے کر مغلیہ سلطنت کے زوال تک کے زمانے کوتاریخی اور تہذیبی تناظر میں غیر جذباتی اور سائنسی انداز میں پیش کیا ہے۔
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(1)جمیل جالبی، ڈاکٹر، پاکستانی کلچر، کراچی: مشتاق بک ڈپو، ۱۹۶۴ء، ص ۴۹
(2) سبطِ حسن، سید،پاکستان میں تہذیب کا ارتقا،کراچی:مکتبہ دانیال،1977ء، ص13
(3) ایضاً،ص24
(4) ایضاً،ص51
(5) ایضاً، ص59
(6) ایضاً، ص82
(7) ایضاً، ص101
(8) ایضاً، ص136
(9) ایضاً، ص140
٭٭٭٭
Leave a Reply
1 Comment on "سبطِ حسن کے تہذیبی تصورات"