غالبؔ شکن یگانہؔ چنگیزی  اور اہل ِلکھنؤ

ڈاکٹر عرفان اللہ خٹک

ایسوسی ایٹ پروفیسراُردو، (چیئرمین شعبۂ اُردو)گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں خیبر پختونخوا

Cell # 0092-03339740973/ 0092-3459798060

Email Adress –irfanullahibm@gmail.com

ABSTRACT

Mirza Wajid Hussain, known as Yagana Changezi, was born in Azeemabad (Patna).He belonged to the famous dynasty of Changez Khan. Urdu literature remained indebted to him for his manly poetic tone and choice of diverse themes. He tried to curtail the deplorable and lamenting picture of the lover,often painted with, in Urdu literature. This practice badly affected his works and supress the subtleness of poetic expression yet he became a voice of the restless and impatient souls of twentieth entury.

مرزا واجد حسین المعروف یاس یگانہ چنگیزی ، تاریخی نام مرزا افضل علی بیگ ۲۷ذوالحج ۱۳۰۱ھ بمطاق ۱۷اکتوبر ۱۸۸۴ء کو جمعہ کے دن عظیم آباد (پٹنہ)کے تاریخی محلہ مغل پورہ میں پیدا ہوئے۔ عظیم آباد کا یہ محلہ تیموریوں،چغتائیوںاور قزلباشوں کا مسکن تھا۔

یگانہ کے جد امجد مرزا حسن بیگ ،جوکہ چنگیز خان کی نسل سے تھا۔مغلیہ دور حکومت میں ایران سے ہند آیا اور یہاں پیشہ سپاہ گری اختیار کی۔ بہتر خدمات انجام دینے کے صلے میں کئی ایک جاگیریں حاصل کیں اور عظیم آباد میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ان جاگیروں میں سے موضع رسول پور وراثتاً یگاؔنہ کے حصے میں آیا۔یگانہ کے تیرہ بہن بھائی تھے جو سب کم سنی میں فوت ہوگئے سوائے ایک بہن چند ابیگم کے ، خود چند ابیگم نوجوانی ہی میں شادی کے چندماہ بعد ایک وبائی مرض میں مبتلا ہوکر چل بسی۔

یگانہ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ واقع مغل پورہ میں حاصل کی۔ بعد میں وہ محمڈن اینگلو عریبک سکول عظیم آباد میں داخل ہوئے اور قابلیت کی بناء پر وظیفہ بھی پاتے رہے۔ میٹرک انھوں نے ۱۹۰۳ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے پاس کیا ۔ میٹرک کے بعد یگانہ کچھ عرصہ نواب کا ظم علی خان رئیس سنگی دالان عظیم آباد کے پوتے نواب ابوالحسن کو پڑھاتے رہے اور پھر میرزا محمد مقیم بہادر (مٹیا برج)کلکتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی لہٰذا خرابی صحت کی وجہ سے واپس عظیم آباد آگئے۔

عظیم آباد میں بھی جب صحت مسلسل خراب رہنے لگی تو ۱۹۰۵ء تبدیلی آب وہوا کی خاطر لکھنوآگئے۔ یہاں اس کی طبیعت کو سنبھالا ۔لہٰذا لکھنو میں مستقل طور پر رہنے لگے اور پھربعد میں شادی بھی یہاں کی۔ آپ کی بیگم اپنے اصل نام ’’کنیزحسین‘‘کی بجائے’’یگانہ بیگم ‘‘کے نام سے زیادہ مشہور ہوئی۔ میاں بیوی میں تعلقات کافی مثالی رہے۔ یگانہ کے ہاں سات اولا دیں ہوئیں۔

یگانہؔ کا نہ صرف تخلص یگانہ ؔ تھا بلکہ کلام میں بھی یگانہء روزگار تھے۔فارسی اور اردو پر اُنہیںمہارت حاصل تھی ۔بقول شخصے

فارسی شکر است ،عربی معتبر است ،اُردو ہنر است

اور یگانہؔ نے اپنے فارسی کلام سے اسے شکر ثابت کیا حالانکہ فارسی کی روایات اور مٹھاس کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اس زبان کی عظمت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ یہ اُردو کی استاد زبان ہے ۔غالب ؔ اور اقبالؔ جیسی قد آور شعراء اسی زبان میں اپنے کلام پر فخر کرتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے دیس باہر کیا گیا ۔  یاس یگانہ چنگیزی کیؔ کی ایک فارسی رباعی ملاحظہ ہو جس سے محظوظ ہوں اور سر دُھنیں:

یاد  آمدہ  آں  چناں  گنا ہم  کہ   مپرس

دارم  ز  دل  خویش  گوا  ہے  کہ   مپرس

تا   سنگ   بر   آئینہء      امّید      زدم

دز  دیدہ  ام  بہ   سینہ  آہے  کہ   مپرس

   (۱)

ترجمہ:  یہ نہ پوچھو کہ کون سا گناہ حافظے میں تازہ ہوا ہے،میرا دل ایسا گواہ بنا ہے جس کی گواہی بیان کرنے کے قابل نہیں،

جب ہم نے اپنے ہی آئینے پر پتھر کھینچ کے مارا تو مت پوچھوکہ آہ ِ دل کو کس طرح دل میں چھپایا ،یا قابو کیا۔

یاس یگاؔنہ چنگیزی کو اردو ادب میں غالبؔ شکن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ غالبؔ کو اپنی شاعری پر ناز تھا وہ زمانے کی ناقدری  پربھی گرمئی نشاط تصور سے نغمہ سنج ہوتا اوراپنے آپ کو عندلیب گلشن ِنا آفریدہ سمجھتا لیکن  یگاؔنہ کو بھی وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔اُن کے مطابق مستقبل  یگاؔنہ کا ہے اور غالب ؔ صرف افسانہ بن جائیں گے۔ فرماتے ہیں:

کا ر یست  کہ  از  دستِ  یگانہؔ  شدنی ست

ایں  مرد  کہ  یکتائے  زمانہ  شدنی  ست

برباد   دہد     دفترِ      پارینہ  را

غالب  ؔ پسِ   امروز    فسانہ  شدنی  ست

    (۲)

ترجمہ: یہ وہ کام ہے جو یگانہؔ کے ہاتھوں ہی ہونا ممکن ہے،یہ وہ انسان ہے جس نے ایک دن یکتائے زمانہ بننا ہے،میں نے پرانی کتابیں اُڑا دینی ہیں،آج کے بعد غالبؔ صرف فسانوں میں تمہیں ملے گا۔

یگانہ کا اردو غزل پر یہ احسان ہے کہ انھوںنے اس کو نہ صرف طاقت و توانائی سے بھر پور مردانہ اور بلند آہنگ لہجہ عطا کیا بلکہ اس کے موضوعات میں بھی تنوع پیدا کیا۔ نابالغ عشقیہ اور خود ترحمی کے جذبات کو ، کم ہمتی اور رونے دھونے کو اردو غزل سے خارج کرنے کی کو شش کی۔ اگرچہ اسی چیز نے کسی حدتک اس کے کلام سے خوشگواری چھین لی لیکن بیسویں صوی کے بے چین وبے قرار انسان اور اس کے نفسیات کی جس طرح ترجمانی یگانہ نے کی یہ اس وقت کی اردو غزل میں ایک نیا رخ،نئی سمت اور نئے منزل کاپتہ دینے والا عنصر تھا۔ اس لیے کئی ایک اہل نظر یگانہ چنگیزی کو جدید اردو غزل کا نقطہ آغاز سمجھتے ہیں۔

نمونہ کلام:۔

مستانہ رقص کیجیے گرداب حال میں

بیٹرا ہے پار ڈوب کر اپنے خیال میں

مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا

مجھے سر مار کے تیشے سے مر جانا نہیں آتا

زمانے پر نہ سہی دل پر اختیار رہے

دکھا وہ زور جو دنیا میں یاد گار رہے

امید و بیم نے مارا مجھے دو راہے پر

کہاں کے دیر وحرم ، گھر کا راستہ نہ ملا

خواہ پیالہ ہو یا نوالہ ہو

بن پڑے تو جھپٹ لے بھیک نہ مانگ

بس ایک نقطہء فرضی کانام ہے کعبہ

کسی کو مرکز تحقیق کا پتا نہ ملا

خدا میں شک ہے تو ہو موت میں نہیں کوئی شک

مشاہدہ میں کیس احتمال ہوتا ہے

ایسے دو دل بھی کم ملے ہوں گے

نہ کشاکش ہوئی نہ جیت نہ ہار

کس کی آواز کان میں آئی

دور کی بات دھیان میں آئی

علم کیا ہے علم کی حقیقت کیا

جیسے جس کے گمان میں آئی

جیسے دوزخ کی ہوا کھا کے ابھی آیا ہے

کس قدر واعظ مکار ڈراتا ہے مجھے

جب ۱۹۰۵ میں یگانہؔ عظیم آبادسے لکھنؤ آگئے تو یہاں کے بزرگ شعرا جیسے : جاویدؔ، عارفؔ، اوجؔ، فصاحتؔ، انجم ؔاور افضلؔ وغیرہ سے تعلقات پیدا کیے اور ان حضرات کی صحبت میں بیٹھنے لگے ان حضرات نے یہاں کے مشاعروں میں طوفان ِبدتمیزی دیکھ کر علیحدگی اختیار کی تھی ۔ اس سلسلے  میں یگانہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں :

’’میں جب لکھنؤ آیا تو شعرا ء میں سب سے پہلے جناب مولوی بندہ کا ظم صاحب جاوید ؔسے رسم و راہ پیدا ہوئی اور اس کے بعد حضر ت رشیدؔ و عارفؔ و اوج ؔو فصاحتؔ و انجم ؔو افضلؔ وغیرہ سے نیاز حاصل ہوا ، اس دوران یہ سب  بزگوار میدان ِ مشاعرہ میں طوفان ِبد تمیزی دیکھ کر کنا رہ کش ہو چکے تھے۔ اس زمانے میں ایک جماعتِ بے ہودہ موسوم بہ معیار پارٹی ، نے لکھنؤ میں بہت سر اٹھایا تھا اور اس جماعت کے اراکین میاں صفیؔ ، میاں عزیزؔ ، ثاقبؔ ، محشرؔ اور اس طرح کے کچھ اور مجہول الحال لوگ تھے۔‘‘(۳)

 شروع میں معیار پارٹی کے شعرا ء سے بھی یگانہ ؔکے تعلقات اتنے خراب نہیں تھے ، انہیں مشاعروں میں بہ اعزاز بلائے جاتے تھے ، مگر ایک بات تھی کہ لکھنؤ کے شعرا ء کسی غیر لکھنؤ ی شاعر کو کوئی ایسی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یگانہؔ اور لکھنؤ شعرا ء کے درمیان خلیج بڑھتی گئی ۔اس بات کی طرف وسیم فرحت کار نجوی اور ڈاکٹر سلیم اختر دونوں نے اشارہ کیا ہے ۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :

      ’’لکھنؤ کے استاد شعرا غیر لکھنوی شاعر کو مستند ماننے کو تیار نہ تھے‘‘۔(۴)

اس بات کا ثبوت چکبست ؔکے زیر انتظام مشاعرے ، جو ۶مئی ۱۹۱۲کو پنڈت برج نارا ئن کے مکان پر منعقدہوا تھا ،سے بھی ملتا ہے اپنی خود نوشت میں یگانہؔ لکھتا ہے :

’’ پنڈت برج نارائن چکبست نے ایک مشاعرہ خواجہ آتش ؔعلیہ الرحمتہ کی زمین ، ’’گریباں پھاڑ کے چل بیٹھے صحرا کے دامن میں ‘‘ میں کیا ۔ میں بھی اس مشاعرے میں مدعو تھا حضرت عارف ؔمرحوم اور حضرت افضلؔ بھی شریک تھے اور بہت سے وکلا و بیرسٹر بھی تھے اور اس معیار پارٹی کے سب لوگ جمع تھے میری غزل پران حضرات نے اور ان کے ہوا خواہوں نے وہ وہ فرمائشی قہقہے لگائے کہ میں ہمیشہ ممنون و احسان رہوں گا ‘‘۔(۵)

 ان حوالوں سے یہ با ت واضح ہو جاتی ہے کہ یگانہؔ سے چھیڑ چھاڑ اور انہیں خود سے کم تر باور کرانے کا سلسلہ اہل لکھنؤ کی طر ف سے شروع ہوا تھا ۔ دوسری با ت کہ اگر کسی کا کلام معیارکے حوالے سے کچھ کمزور ہی کیوں نہ ہو ، شعرا ء کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اس طرح کسی کا تمسخر اڑائے ، ورنہ ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ یگانہؔ کا کلام اور وہ بھی معیار کے حوالے سے پست ہو ، جس غزل پر ان کا مذاق اڑایا گیا تھا ، وہ یہ غزل تھی

خدا معلوم ، کیسا سحر تھا اس بت کی چتون میں

چلی جاتی ہیں اب تک چشمکیں شیخ و بر ہمن میں

کنار  ِآب جو بیٹھے ہیں مست ِنکہت ِ ساغر

نظر سوئے فلک اور ہاتھ ہے میناکی گردن میں

بتاؤ  سیر  ِصحرا  کی  کوئی  تدبیر  و حشی  کو

گریباں میں تو ہاتھ الجھا ، پھنسا ہے پاؤں دامن میں

تھکے ماندے سفر کے سو رہے ہیں پاؤں پھیلائے

 یہ سب مر ، مر کے پہنچے ہیں بڑی مشکل سے مدفن میں

جو ہر دم جھانکتے تھے روزنِ دیوارِ زندان سے

انہیں پھر چین آیا کس طرح تاریک مدفن میں

کجا موسیٰ ، کجا مقصود  سبحان الذی اسریٰ

رگڑ کر ایڑیاں بس رہ گئے ، وادی ایمن میں

 حجا ب ناز ِبے جا یاسؔ جس دن بیچ میں آیا

اسی دن سے لڑائی ٹھن گئی شیخ و برہمن میں

     (۶)

اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ اتنی گری پڑی غزل ہے کہ اس پر ایک معزز شخصیت کا مذاق اڑایا جائے ، یقیناً جواب نہیں میں ہو گا ْ ۔

 یگانہؔ کا ردعمل :

ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے بعض اوقات اوسط ، بعض اوقات شدید اور بعض اوقات شدید تر، یگانہ ؔکے ساتھ جب بار ہا مشاعروں میں یہی سلوک روا رکھا گیا تو انھوں نے بھی جوابی حملوں کی ٹھانی اور آہستہ آہستہ یاسؔ عظیم آبادی سے یگانہ ؔچنگیزی بنتے گئے ،۔

اس سلسلے میں داکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں :

’’جواباََ یگانہ ؔ نے لکھنؤ کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر اہم شعرا پر سخت ترین الفاظ میں تنقید کا آغاز کر دیا ، یگانہؔ کی نرگسیت کو تسکین کے لیے شایان ِشان ہدف کی تلاش تھی جوغالبؔ کی صورت میں مل گیا یوں وہ غالب شکن بن گیا ، لیکن یگانہؔ نے محض تبرہ بازی نہ کی بلکہ کلام کی پختگی اور الفاظ کے استعمال کے تخلیقی شعور سے خود کو اہم اور صاحب اسلوب شاعر بھی تسلیم کیا‘‘۔(۷)

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کی مخالفت لکھنؤی شعرا ء کے ساتھ تھی تو وہ غاؔلب پر کیوں برسے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہل لکھنؤ غالب ؔکو پر ستش کی حد تک پسند کرتے تھے ۔ اس لیے وہ بھی ان کی زد پر آگئے اور اسی مخالفت میں انھوں نے غالبؔشکن کا نام پایا۔

پھر جب ۱۹۱۴میں یگانہ ؔکا اول شعری مجموعہ ’’ نشتر پاس ‘‘ منظر عام پر آیا ،اور اس میں ’’ماہیت شاعری ‘‘ کے باب میں یگانہ ؔنے لکھنؤی شعرا ء کی بچگانہ اور باو ا آدم کا رنگ رکھنے والی شاعری کی خوب خبر لی اور اسی طرح ’’ نشتر یاس‘  ‘ کے بعد مارچ ۱۹۱۵میں یگانہ کا عروض و قوافی کی مبا دیات پر مبنی رسالہ ’’ چراغ سخن‘‘ شائع ہوا، جس میں ’’ شعرو سخن‘‘ سے معنون دیباچے میں شعرا ء ِلکھنؤ کے متعلق ( ان کے بے جا رویے سے تنگ آکر ) سخت زبان استعمال کی گئی ، بلکہ اس دیباچے کے آخر ی حصہ میں ’ ’ اہل زبان و زبان دان‘‘ کے عنوان سے یگانہ نے بڑے مدلل ڈھنگ سے اہل لکھنؤ کے مقابلے میں اپنے آپ کو نہ صرف اہل زبان بلکہ زبان دان بھی ثابت کیا تو وہ حضرات اس پر کافی چراغ پا ہوئے اور بقول وسیم فرحت کا رنجوی :

 ‘‘ جیسے ہی یہ دو کتابیں منظر عام پر آئیں تو لکھنؤ والے اپنی صدیوں پرانی تہذیب ، رکھ رکھاؤ ، مجلسی اداب اور شائستگی بھول کر غیر مہذب اور رکیک حد تک ذلالت پر اُتر آئے اور انھوں نے ہر ہر زاویے سے یگانہ ؔکو پریشان کرنا شروع کر دیا ‘‘۔ (۸)

ممتاز حسین جو نپوری لکھتے ہیں کہ:

 ’’ ایک شاعر جس کا تخلص آس ؔتھا ،نے فارسی میں آتش ؔاور یگانہ ؔکی ہجو میں ایک نظم لکھی جسے چھوٹے چھوٹے بچے چوک کے بازار میں یہ کہتے ہوئے بیچتے پھرتے تھے کہ ‘‘ یاسؔ اور آس ؔکی جھپٹ ایک پیسے کو ‘‘ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یگانہؔ کی ایک غزل کے بعض اشعار پر غلیظ مصرعے لگائے گئے ، جس میں ان کے والدین کی شان میں کمال درجے کی گستاخیاں کی گئی تھیں‘‘۔ (۹)

اہل لکھنؤ نے اس پر بھی بس نہیں کیا اور اس شاعرانہ چشمک کو یہاں تک لے آئے کہ وہ عملی دشمنی کا روپ دھار گئی ۔اب وہ یگانہؔ کے روز گار کے پیچھے پڑ گئے ، اور اس کی انتہا یگانہؔ کی ’’اودھ اخبار ‘‘سے بر طرفی پر ہوئی ۔ یگانہ ؔپر عرصہء حیات اس قدر تنگ کر دیا گیا کہ ان  کے لیے معاش کی کوئی صورت باقی نہیں رکھی گئی ، ایک خط میں یگانہؔ ، ضیاء احمد بد ایونی ، محررہ ۱۲  دسمبر ۱۹۲۲کو یوں لکھتے ہیں :

’’ لکھنؤ نے تو میری وہ قدر کی کہ سبحان اللہ ، غلیظ گالیاں ، ناپاک ہجو، آبرہ ریزی  کی فکریں ، جھوٹی اور مجرمانہ افتر پر دازیاں میرے لئے جائز ہی نہیں  بلکہ فرض سمجھ لی گئیں ہیں ، یہی نہیں بلکہ میری روز ی پر حملہ کر کے مجھے پریشان روز گار بنا کر کلیجہ ٹھنڈا کیا ، اب تنگدستی کے ہاتھوںمجھے اپنی عمر بھر کا سرمایہ یعنی کتب خانہ تک کوڑیوں کے مول بیچ کر سربہ صحرا ہونا پڑا‘‘۔(۱۰)

یگانہؔ اور لکھنؤ ی شعرا ء کے مابین یہ مخالفتیں اور بھی بڑھتی گئیں لہذا نھوں نے رائے عامہ کو بھی ہموار کر کے یگانہؔ کے خلاف کر دیا یعنی جو کچھ اہل لکھنؤ سے بن پڑتا تھا وہ سب انھوں نے کر دیا ، مگر یہ سب کچھ کرنے کے باوجود  وہ  یگانہؔ کو جھکنے پر مجبور نہ کر سکے اور بقول ڈاکٹر سلیم اختر کے :

 ’’ یگانہؔ کی نہ جھکنے والی نر گسیت نے اس میں وہ ضد پیدا کر دی کہ وہ ٹوٹ تو گیا مگر جھک نہ سکا‘‘ ۔(۱۱)

آخری عمر یعنی ستر سال کی عمر میں عبد الماجد دریا آبادی کے نام ایک خط میں چند رباعیوں کو جواز بنا کر ( جس سے مسلمانوں کی تذلیل ہوتی تھی ) مولانا صاحب نے (جس نے ایک وقت میں خو د بھی کفر و الحاد کی تمام حدوں کو پھلانگ لیا تھا ) اپنے ہفتہ روزہ ’’ صدق جدید ‘‘ ۲۷مارچ ۱۹۵۳کے شمارے میں ان کے خلاف سخت ادرایہ لکھا اور تینتالیس بر س قبل  کے پرانے واقعات دہرالیے، کہ آپ غالب ؔ، اقبال ؔ، عزیزؔ، اصغرؔ او ر جگرؔ تمام کے خلا ف تھے ، اس کے ساتھ آپ پر ایک اور الزام لگایا گیا یعنی سب و شتم رسول اللہ ﷺ ،لہذاساری عوام آپ کے خلاف بھڑک اٹھی اور لکھنؤ کے چند بد دماغ لڑکوں نے ۷۰سالہ بوڑھے یعنی یگانہ ؔکو جوتوں کا ہار پہنایا ، ان کا منہ کالا کر کے ، پیدل جلوس کے ساتھ چلنے پر مجبور کیا گیا ، منصور نگر ، کشمیری محلہ ، چوک اور نخاس کے چوراہوں پر گھمایا گیا ، اس دوران لوگ آپ کے چہرے پر مسلسل تھوکتے رہتے اور آپ یہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتے رہے اسی طرح اہل لکھنؤ اور مولانا ماجد نے اپنی دل کی بھڑاس نکال لی ۔ (۱۲)

آخری عمر میں یگانہ کی خراب ذہنی حالت کی تصدیق مالک رام کے مضمون ’’ یگانہ چنگیزی ‘‘ سے بھی ہو جاتی ہے ،ساتھ وہ یہ بھی فرماتے ہیں

’’ اس ملک میں ایک منظم حکومت ہے اور مسلمہ قانون اور تعزیرات کا ضابطہ ہے ۔یگانہؔ نے جو قصور کیاتھا ، اس کے لیے ان پر باقاعدہ مقدمہ چلنا چاہئے تھا اگر عدالتِ مجاز ان کی دماغی کیفیت دیکھنے کے بعد انھیں مجرم اور سزا کا مستحق ٹھہراتی  تو کسی کو اعتراض کی گنجائش باقی نہ رہتی ، یوں اگر ہرکوئی قانون ہاتھ میں لے کر ، کسی کو پیٹ ڈالے یا قتل کرے کہ اس نے میرے باپ دادا کی توہین کی ہے تو اس ملک کے امن وامان کا کیا ہوگا‘‘۔(۱۳)

وفات:

ابو المعانی یاس یگانہؔ چنگیزی ایک بھرپور ہنگامہ خیز زندگی گزارنے کے بعد ۴ فروری ۱۹۵۶کو خالق حقیقی سے جا ملے ۔انتقال سے کچھ دن پہلے بقول وسیم فرحت کا ر نجوی کے

’’ انھوں نے بعض ذمہ دار حضرات کو گھیر بلایا جن میں پروفیسر احتشام حسین بھی شامل تھے اُن کے سامنے تین بار کلمہ پڑھا اور پوچھا کیا میں مسلمان ہوں جب ان حضرات نے اقرار کر لیا تب انھیں اطمینان ہوا‘‘۔(۱۴)

فرحت کے علاوہ کئی اور حضرات نے بھی یگانہ ؔکے کلمہ پڑھنے کا اقرار کیا ہے ان حضرات میں سب سے اہم بیان ڈاکٹر شیخ انصار حسین کا ہے جو یگانہ کے سسرالی بھانجے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ۔

’’ انتقال سے ایک شب قبل انھوں نے میری والدہ ، میری خالہ اور میری بھاوج مرحومہ کو بلایا اور کہنے لگے زکیہ بیگم (میری والدہ کا نام) اس وقت طبیعت کچھ بہتر ہے مگر پیروں میں ورم آچکا ہے میں اپنے آخری منزل میں ہوں ، پھر کہنے لگے ،دیکھو زکیہ بیگم میں کچھ پڑھ رہا ہوں ، تم لوگ غور سے سنو، یہ کہہ کر وہ کلمے کی تلاوت کرنے لگے ۔کلمے کے بعد خدا کا شکر ادا کیا اور کہا یہ دنیا والے تو مجھے کافر ، ملحد اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں تم لوگ گواہ رہنا ۔ پھر آرام فرمانے لگے اوردوسرے دن انتقال کر گئے ‘‘۔ (۱۵)

وسیم فرحت کا ر نجوی ، ڈاکٹر شیخ انصار حسین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آپ کے جنازے میں فقط چھ ، سات افراد نے شرکت کی ، جبکہ شمس الحق کہتے ہیں۔

’’ان کے جنازے میں بمشکل بارہ آدمی شریک تھے ‘‘۔ (۱۶)

مگر چونکہ انصار حسین ان کے قریبی رشتہ دار ہیں لہذا ان کے بیان کو درست گر داننا چاہئے ۔

یگانہؔ ، اردو ادب کے چند اہم اہل قلم کی نظر میں :

(1سید سلیمان ندوی :

’’میرزا یاس ؔعظیم آبادی اردو کے مشہور شعراء میں سے ہیں ۔ یہ بات بلاخوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ یگانہ اپنے وقت کے ایک کامل شاعر ہیں ، ان کے خیالات بلند ہیں ، زبان صاف ستھری ، ترکیبیں چست اور کلام حشو و زوائد سے پاک ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ لکھنؤ کے طر ز شاعری میں ان کے ہنگاموں کے باعث مفید انقلاب پیدا ہوا ہے ، ان کے رباعیات کے مضامین نہ صرف فلسفہء خودی کی تشریح پر مشتمل ہیں بلکہ انفس کے بعد آفاق کا فلسفہ بھی ان میں جابجابیان کیا گیا ہے ، کہتے ہیں اور کیا خوب کہتے ہیں ‘‘۔(۱۷)

(2آل حمد سرورؔ :

’’ یگانہؔ واقعی بہت اچھے شاعر تھے ان میں ایک انفرادیت تھی ان کا رنگ ہم عصروں سے الگ تھا ۔ اس میں ایک مردانگی ، ایک تیور ، ایک ولولہ ، ایک آن بان نظر آتی ہے ‘‘۔ (۱۸)

(3نیاز فتح پوری :

’’ یگانہؔ پہلا شخص تھا جس نے لکھنؤ کے روتے اور بسورتے رنگ تغزل پر کاری ضرب لگائی اور یہ کہنا غالبا ً غلط نہ ہو گا کہ یگانہ ؔہی نے سب سے پہلے اپنے زمانے کے لکھنوی شاعروں کی اس رنگ تغزل کو بدلہ ، جو اپنا اصلی رنگ چھوڑ کر ، بے تمیزی کے ساتھ غالب کی تقلید پر آمادہ ہو گئے تھے ‘‘۔(۱۹)

(4مجنون گور کھپوری:

’’ یگانہ پہلے شاعر ہیں جو ہم کو زندگی کا جبروتی رخ دکھاتے ہیں اور ہمارے اندر سعی و پیکار کا ولولہ پیدا کرتے ہیں‘‘۔(۲۰)

(5با قر مہدی :

’’اردو غزل میں میرؔاور غالب ؔکے بعد تیسرا نام جو سب سے زیادہ قابل احترام اور اہمیت کا مالک ہے ، وہ یگانہ ؔکا ہے ‘‘۔(۲۱)

(6نریش کمار شادؔ:

’’ یگانہ بلاشبہ اس دور کے نہایت عظیم غزل گو شعرا ء میں سے ہیں اور ان کی عظمت میں شک کرنا ، ادبی خیانت کے مترادف ہے ‘‘۔ (۲۲)

(7ڈاکٹر سلیم اختر:

’’ الفاظ کے بر محل استعمال کے ہنر کے رمز شناس یگانہ ؔسے آج کا ادبی مورخ صرف نظر نہیں کر سکتا ‘‘۔(۲۳)

حرف ِآخر :

 میرزا واجد حسین یگانہؔ چنگیزی واقعتا اپنے وقت کے سر بر آوردہ شعرا ء میں سے تھے ،۔اہل لکھنؤ کو چاہئے تھا کہ ان کی استادی ، قادر الکلامی ، ذہانت اور جدت طراز طبیعت کو بہ نظر استحسان دیکھتے اور انھیں تسلیم کرتے ۔

غالبؔ اور اقبال ؔوغیرہ پر یگانہؔ کی حرف گیری کی بنیاد ، اہل لکھنؤ کو خوب معلوم ہے ، کہ کس نے رکھی؟ لہذا مناسب یہ تھا کہ وہ اپنے گریباں میں جھا نک لیتے۔

آخری عمر میں قریباًسترسالہ بوڑھے کا منہ کالا کر کے ، گلے میں جوتیوں کا ہار ڈال کر اور گدھے پر بٹھا کر گھمانا ، یہ کہاں کی انسانیت تھی؟( جس کے بارے میں یہ خیال بھی ہو کہ ان کی ذہنی کیفیت بھی درست نہیں تھی ) اس بات کی اجازت کونسا اسلام اور کونسا قانون دیتا ہے ؟ یقیناً  یہ سب ساری ایسی چیز یں ہیں کہ اہل نظر و فکر  اور حسا س حضرات انہیںکسی طرح نہیں بھلا سکتے ، شاید اہل لکھنؤ نے اپنی انسانیت اور شرافت کا جنازہ یگانہ ؔکے جنازے سے بھی قریبا تین سال پہلے اس دن نکال لیا تھا ،جس دن انھوں نے حضرت یگانہؔ کا منہ کالا کر کے انھیں گدھے پر بٹھا کر سارے شہر میں پھرایا تھا۔

حوالہ جات

(۱)یگانہؔ چنگیزی،وسیم فرحتؔ کارنجوی(علیگ)  ’’ ِیگاؔنہ چنگیزی(شخصیت و فن مع انتخاب کلام)  ؔ‘‘ بک کارنر پرنٹرز جہلم جون ۲۰۱۵ ص۱۲۶

(۱)یگانہؔ چنگیزی،وسیم فرحتؔ کارنجوی(علیگ)  ’’ ِیگاؔنہ چنگیزی(شخصیت و فن مع انتخاب کلام)  ؔ‘‘ بک کارنر پرنٹرز جہلم جون ۲۰۱۵ ص۱۲۶

(۳)یگانہؔ چنگیزی،میرزا واجد حسین،’’ خود نوشت ِیگانہؔ‘‘ علی گڑھ میگزین،علی گڑھ، ۱۹۶۰،صفحہ نمبر ۱۵۷

(۴)سلیم اختر،ڈاکٹر،’’ اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘سنگ ِمیل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۳،صفحہ نمبر۴۰۹

(۵)یگانہؔ چنگیزی،میرزا واجد حسین،’’ خود نوشت ِیگانہؔ‘‘ علی گڑھ میگزین،علی گڑھ، ۱۹۶۰،صفحہ نمبر ۱۵۹

(۶)مشفق خواجہ (مرتب)،’’کلیاتِ یگانہؔ‘‘،اکادمی بازیافت،کراچی،۲۰۰۳،صفحہ نمبر ۳۵۱

(۷)سلیم اختر،ڈاکٹر،’’ اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘سنگ ِمیل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۳،صفحہ نمبر۴۰۹

(۸)فرحتؔ،وسیم کارنجوی’’ یگانہؔچنگیزی‘‘بک کارنر، جہلم، جون ۲۰۱۵،صفحہ نمبر ۲۶

(۹)ممتاز حسین،جون پوری’’یگانہ اور اُن کی شاعری‘‘مشمولہ ’’شعور‘‘کراچی،۱۹۵۹،صفحہ نمبر۳۱

(۱۰)فرحتؔ،وسیم کارنجوی’’ یگانہؔچنگیزی‘‘بک کارنر، جہلم، جون ۲۰۱۵،صفحہ نمبر ۱۹۳

(۱۱)سلیم اختر،ڈاکٹر،’’ اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘سنگ ِمیل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۳،صفحہ نمبر۴۰۹

(۱۲)فرحتؔ،وسیم کارنجوی’’ یگانہؔچنگیزی‘‘بک کارنر، جہلم، جون ۲۰۱۵،صفحہ نمبر ۱۸۳

(۱۳)مالک رام،’’ یگانہؔچنگیزی‘‘مشمولہ ’’ یہ صورتیںالہی ‘‘مکتبہ جامعہ،دہلی،فروری ۱۹۷۴،صفحہ نمبر۱۸

(۱۴)فرحتؔ،وسیم کارنجوی’’ یگانہؔچنگیزی‘‘بک کارنر، جہلم، جون ۲۰۱۵،صفحہ نمبر۵ ۳،۳۶

(۱۵) انصار حسین،شیخ،ڈاکٹر،’’ میرزا یگانہؔ،یادیں اور ملاقاتیں‘‘ تخلیقی ادب،کراچی،۱۹۸۰ ،صفحہ نمبر ۴۱۷

(۱۶)شمس الحق،محمد’’پیمانہء غزل‘‘جلد اوّل،نیشنل بک فاؤنڈیشن،اسلام آباد،مارچ ۲۰۱۵ ، صفحہ نمبر۲۹۸

(۱۷)سید سلیمان ندوی،تبصرہ بر’’ ترانہ‘‘مشمولہ ’’معارف‘‘شمارہ نمبر ۴،جلد نمبر۳۳،اپریل ۱۹۳۴،صفحہ نمبر ۳۱۴

(۱۸)آل احمد سرورؔ،’’خواب باقی ہیں‘‘ایجوکیشنل بک ہاوس،۱۹۹۰،صفحہ نمبر۴۲

(۱۹)نیازؔ،فتح پوری،’’بزم نگارنمبر‘‘ماہنامہ نگار،لکھنؤ،جنوری،۱۹۴۱،صفحہ نمبر۲۲۲

(۲۰)مجنونؔ،گورکھ پوری،’’ غزل اورعصر جدید‘‘مشمولہ ’’نگار‘‘لکھنؤ،جنوری،۱۹۴۲،صفحہ نمبر۵۰

(۲۱)باقر مہدی،’’یگانہؔآرٹ‘‘ مشمو لہ ’’آج کل‘‘دہلی،مئی ۱۹۵۶،صفحہ نمبر ۱۵

(۲۲)نریش کمار’’ یاس کی خود پرستی‘‘ مشمو لہ، ’’نیادور‘‘ لکھنؤ،جولائی،۱۹۶۱،صفحہ نمبر۳۲

(۲۳)سلیم اختر،ڈاکٹر،’’ اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘سنگ ِمیل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۳،صفحہ نمبر۴۱۰

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.