مثنوی گلشنِ عشق اور مثنوی سحرالبیان کاتقابلی جائزہ (موضوعی ، کرداری اوراُسلوبیاتی)

محمد علی ساگرؔ

لیکچرار اُردو کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی، پاکستان

Prior the introduction of Diwan-e- Wali Dakkani in 1721 AD, the genre of epic was popular in Urdu Literature. Although epics such as Sehar-ul Bayan, Gulzar-e-Naseem, Shula-e-Ishq, and Zahr-e- Ishq were written after 1721; however, the fame of epic was declining in that era as well in the contemporary age.  In the eras of Behmani , Adil Shahi,  and Qutub Shahi, many famous epics  were written, but  epics written after these eras are the replicas of the former epics. The research focuses on the epic of Mir Hassan, Sehr-ul- Bayan, imitating an ancient Dakkani (Adil Shah Period) epic, Gulsha-e-Ishq of Mulla Nusrati. In the current research, these two epics will be compared and contrasted in terms of stories, plots, characters, settings, diction, and dialogues.

دیوانِ ولی دکنی کی دلّی آمد۱۱۳۳ھ/۱۷۲۱ء سے قبل کی اُردو شاعری میں صنفِ مثنوی کو ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔اگر چہ بعد میں بھی مثنوی سحرالبیان ،گلزارِنسیم ،شعلۂ عشق اور زہرِ عشق جیسی شاہکار مثنویات ضرورلکھی گئی لیکن مثنوی رُوبہ زوال تھیں اور اب تقریباً تقریباً نہ مثنوی لکھی جاتی ہے اور نہ ہی پڑھی جاتی ہے۔ بہمنی، عادل شاہی اور قطب شاہی ادوار میں بہت سی مثنویاں منظرِ عام پر آئیں ہیں۔ اُس کے بعد کی بہت سی مثنویات ایسی ہیں جو پہلے سے موجود مثنویوں کا یا تو چربہ ہے یا معمولی ردّوبدل کے ایک ہی موضوع کی غمازی کرتی ہے۔ بالکل اِسی طرح کی ایک مثنوی سحرالبیان از مولوی میر حسن دہلوی بھی ہے۔ لیکن ملانصرتی کے برعکس مولوی صاحب یہاں اِس کہانی کو خالص اپنی طبع زاد قرار دیتاہوا یہ دعویٰ کررہا ہے :

زبس عمر کی اس کہانی میں صرف     تب ایسے یہ نکلے ہیں موتی و حرف

جوانی میں جب ہو گیا ہوں میں پیر    تب ایسے ہوئے ہیں سخن بے نظیر

نہیں مثنوی ہے یہ اک پھلجڑی     مسلسل ہے موتی کی گویا لڑی

نئی طرز ہے اور نئی ہے زبان   نہیں مثنوی ہے یہ سحرالبیان    ۱؎

اِس حوالے سے وہ بڑے خوش قسمت ہے۔کیونکہ اُن کا یہ دعویٰ ثابت ہوا اور بعد کے ہر ایک ادیب و شاعر خصوصاً نقاد نے اِس مثنوی کی خوب کُھل کر تعریف کی اوراِس کاوش کو اُردو کی تمام مثنویات پر فوقیت دی۔ اُردو کے سخت گیر نقاد کلیم الدین احمد اپنی کتاب”اُردو شاعری پر ایک نظر” میں اِس حوالے سے لکھتے ہیں:

میر حسن مثنوی کے مردِ میدان ہیں۔مثنوی سحرالبیان بہترین اُردو مثنوی سمجھی جاتی ہے۔۲؎

ڈاکٹر فرمان فتح پوری بھی کچھ اِس طرح کی رائے دیتے ہیں:اردو کے طویل منظوم قصوں میں جو شہرت وقبولِ عامــ سحرالبیان یعنی شہزادہ بے نظیر وبدرمنیر کی داستان کو حاصل ہے وہ کسی دوسری منظوم داستان کو نصیب نہ ہوا۔”  ۳؎

بلکہ بعض کی نظر میں تو یہ بلند مینارۂ نور ہے جس کی جگمگاہٹ اور ضیاء کے سامنے دوسری مثنویاں مانند پڑگئیں ہیں۔غرض ہر نقّاد نے کسی نہ کسی زاوئے سے اِس مثنوی کو تمام مثنویات کا سرتاج قرار دیا ہے۔

لیکن یہ اُردو ادب کی بڑی بدنصیبی رہی ہے کہ اِس میں تحقیق کا مادہ تقریباً مفقود اور تنقید صرف برائے تنقید ہوکر رہ گیا ہے۔تقاضا تو یہ تھا کہ تحقیق پر ہی تنقید کا اطلاق کیا جاتا اور نئی تخلیقات کے ساتھ ساتھ قدیم اور نادر وکم یاب تخلیقات کو بھی برابر سامنے لایا جاتا اور اس کی جانچ پرکھ اور ٹٹول کی جاتی، لیکن چڑھتے سورج کے بچاریوں کی طرح تصویر کا صرف ایک ہی رخ دیکھنا ہی پسند کیا گیا اور دوسری رُخ کو دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہ کی گئی ۔ اِسی لیے تو آج ہمارا بہت سا را ادب گمنامی کے د بیزتہوں تلے دب کر معدوم و نایاب بلکہ فنا ہوتا جا رہا ہے۔

بالکل یہی حالت آج سلطنتِ بیجاپور کے عادل شاہیہ دربار کے ملک الشعرا ملانصرتی اور اُن کی لازوال کاوشوں کی ہے۔ ملانصرتی عادل شاہی عہد کے ملک الشعرا رہے ہیں۔ اُن کی اولین کاوش جس کے بدولت ملانصرتی کو شاہی دربار میں ایک معزز مقام عطا ہوا۔ آج گمنامی کا شکار ہے۔ ولی دکنی کی اُردو فارسی کیمیاگری سے ہر چھوٹا بڑا ادیب باخبر ہے لیکن اِس فن کے موجد بلکہ باوا آدم سے قصداً آنکھ چُرا کر لکھتا ہے۔ مثنوی سحرالبیان کی تازہ کاری کا ہر نقاد معترف ہے، لیکن گلشنِ عشق کی بکھیرتی خوشبوؤں کو بالکل بھی محسوس نہیں کر رہا ۔

یہ وجہ شاید شمالی، جنوبی ہند کی وہ روایتی دشمنی تو نہیں، جس کی وجہ سے صدیوں تک اُردو ادب دوحصوں میں بٹ کر لنگڑاتا ڈگمگاتا رہا۔خیر بات جو بھی ہو لیکن یہ بات تحقیق طلب ضرور ہے کہ اگر مولوی عبدالحق کے بقول ملانصرتی ولی دکنی سے کئی گنا بڑا شاعر ہے، تو پھر مثنوی گلشنِ عشق بھی مثنوی سحر البیان سے مرتبہ میں بہت بلند اور ارفع و اعلیٰ ہے۔

مثنوی سحرالبیان کے مذکور دعویٰ سے کئی برس بیشتر ملانصرتی اِس کی بند باندھ چکے تھے۔

کہیا قصہ ایسا دونو فن ملا

دیویں داد سُن فارسی شعرداں     جو ہندی سنے تو کہے دل سوں ہاں

ادیکھیا ادک ہو حسد سوں کباب   رکھے بول اتنا کہ دکھنی کتاب   ۴؎

اور اتنی بڑی کاوش کو صفحۂ قرطاس کی زینت بنانے پر اُس کی قدر و اہمیت اور بلند مرتبہ کی توصیف کرتے ہوئے خود لکھتے ہیں:

دیکھو مول اس لعل کا کیا چڑیا اُچھالیا سو طاق فلک میں پڑیا

اتا شاہ بِن مول کن لے سکے   جوہر لعل کا یوں بہادے سکیّ

سراؤں کیتا آج مجھ بخت کوں       مرا یو ہنر ہور خریدار توں    ۵؎

اب مفصل و تنقید ی نقطۂ نظر سے دونوں مثنویات کا ہر پہلو اور زاویہ سے جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

مثنوی گلشنِ عشق جیسا کہ پچھلی فصلوں میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ اِس کا سالِ تصنیف۱۰۶۸ھ؍۱۶۵۷ءہے اور یہ مثنوی قطب شاہی شاعر ملاغواصی کی سیف الملوک و بدیع الجمال کے جوڑ کی مثنوی کا عادل شاہیہ میں نہ ہونے کی کمی کو پورا کرنے کی غرض سے لکھی گئی تھی ۔ جبکہ مثنوی سحرالبیان کی تصنیف کا سال۱۱۹۹ھ/۱۷۸۴ء ہے۔ دونوں مثنویوں کے مابین۱۲۷ سال سنہ عیسوی کاتفاوت ہے۔ تنقیدی بحث کرتے وقت اُردو زبان کی ترویج و ترقی اور شستگی کے سفر کو مدِنظر رکھ کر اِن سالوں کے تفاوت کے تناظرمیں پرکھنا اور نتیجہ کی صورت میں کوئی فیصلہ صادر کرنا ہی اِنتقادی تقاضوں کی عین پاسداری کاصحیح کام ہے۔

مثنوی گلشنِ عشق جیسا کہ پہلے عرض ہوچکا ہے کل۴۵۵۰ ابیات پر مشتمل ہیں۔ جبکہ مثنوی سحر البیان کے کل ابیات  ۲۱۸۶ ہیں۔ مثنوی گلشنِ عشق۷۴جبکہ سحرالبیان ۴۲ ذیلی موضوات میں منقسم ہیں۔گلشنِ عشق کا آغاز روایتاًحمد سے ہوا ہے لیکن اُس سے پہلے دو عنوانی اشعار دیئے گئے ہیں جس میں اِس مثنوی کا نام گلشنِ عشق بتایا گیا:۔

ثنا صانع کی ہے جن ہو کتاب عشق کا بانی  دیا ہے حسن کوں خلعت کہ ہر ایک جز پہ عنوانی

رکھیا ہوں گلشنِ عشق اسم اس رنگین قصے کا میں کرے جس چھب کے پھولاں کی فلک شوتوں سوں گلدانی   ۶؎

اِس کے بعد حمدِ باری تعالیٰ کا آغاز ہوتا ہے۔ حمدیہ موضوع پرمشتمل اِن اشعار کی طوالت ۹۰ ہیں۔ حمد باری تعالیٰ سے چند اشعار بطور نمونہ:

صفت اُس کی قدرت کی اول سراؤں   دھریا جس تے یو گلشنِ عشق ناؤں

کیا کر کرم عشق کا تس ابھال      یو باغ آفرینش کا پکڑیا جمال   ۷؎

جبکہ سحرالبیان کا آغاز براہِ راست حمد باری تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ حمدیہ موضوع پر مشتمل اشعار کی تعداد ۳۷ ہیں۔چند اشعار نمونۂ کلام کے طور پر:

کروں پہلے توحیدِ یزداں رقم  چھکا جس کے سجدے کو اول قلم

نہیں تیرا کوئی نہ ہوگا شریک   تری ذات ہے وحدہ لاشریک  ۸؎

اگر سحرالبیان کی شستگی کے مقابلے میں گلشنِ عشق کی زبانی کر ختگی کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو مولوی میر حسن کے برعکس ملاّ نصرتی کے ہاں یہاں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ ملانصرتی کے حمدیہ اشعار میں علمِ بیان و بدیع کا بے دریغ استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثنوی چونکہ عشقیہ ہے اِس لیے ہر موضوع میں عشق کا رنگ بہت نمایاں نظر آتا ہے:

کدیں نور یوسف کو دے شب چراغ      دیا عشق کا تس زلیخا پہ داغ

   دیکھا کر تو نقش بدیع الجمال       دیا مصر کے شاہ زادے کو جال     ۹؎

 خداوند کی تخلیق کو سائنسی انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

؎      مرکب ہر یک جسم یو نامدار  مرتب کیا توں عناصر سوں چار  ۱۰؎

شاعرِ مشرق علامہ اقبال اپنی ایک غزل میں فرماتے ہیں:

؎  جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں

وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں ۱۱؎

لیکن ملانصرتی اُن سے بہت عرصہ پیشتر اِس تلاش اور ڈھونڈ پر تھک ہار کر اِسے بوالہوسی کہنے اور بے کار میں عمر ضائع کرنے کا اعتراف کر کے واضح طور پر کہہ چکے ہیں:

دریغا توں اے نصرتی بوالہوس       گنواؤ نکو ڈھونڈتے عمر اَبس

کہ یو جگ بھلایا سو تیرا حبیب      کہ شہ رگ تی تیری ہے تجھ سوں قریب ۱۳؎

مثنوی گلشنِ عشق میں حمدِ باری تعالیٰ کے بعدعنوانی شعر سے حسبِ روایتِ مثنوی مناجات کا آغاز ہوتا ہے۔ جو کل ۹۱ اشعار پر محیط ہے۔ برعکس اس کے سحر البیان میں مناجات یہاں سے دو چار حصے چھوڑ کر آگے ہے۔

ملا نصرتی کے ہاں مناجات میں وہ اپنے حق میں دعا جن ادبی الفاظ میں مانگ رہے بحیثیت شاعر ان کے دُعائیہ اشعار ادبی مناجات کی سرتاج نہیں تو بہترین ضرور ہوں گے۔ چند اشعار بطور نمونہ:

معانی کے کھن کی مجھے دے دوات    جو ہر بات میں کئی رتن آئے ہات

دے ایسا سخن کے جہاں میں قلم   جو الہام کی فوج کا ہوئے علم

یو دھر تی علم سرفرازی میں اوج   ملیں صف بصف داٹ حکمت کی فوج

دیکھاؤں سو تجھ فیض تی جے خیال      کر اس شعر کوں عین سحر حلال

ہر یک حرف تیں کر دیکھا جام جم   معانی میں تِس بھر مسیحا کا دم

جو ہوئیں تازہ دم سر تی مُردہ  دلاں     امر ہوئیں ادک حظ سوں سب عاقلاں ۱۴؎

نعتِ رسولِ مقبول ﷺ دونوں مثنویوں میںموجود ہے۔گلشنِ عشق میں آغاز سے قبل عنوانی شعر ہے جبکہ سحرالبیان میں براہِ راست ہے۔ گلشنِ عشق کے نعتیہ اشعار کی تعداد (۵۷) ہیں، جبکہ سحرالبیان میں یہ( ۲۸ )اشعار پر محیط ہے۔

نمونۂ کلام گلشن عشق:

ترا خاتم ائے خاتم الانبیا  رسالت کے فرماں پہ سکہ کیا

ہوا جلوہ گر تب نبوت کا تخت  چڑیا تس پہ جب توں شہ نیک بخت

دیکھا یک توں فرمان راسخ خطاب     کیا رد صحائف و بعضے کتاب

جتے عالماں کے چراغاں تے نور       ہوا محو نکلے پہ تجھ ذات سور

ترے داب کے دبدبے تل انگات      دبے دھاک دھر لات عزا منات

تیرا معجزا معجزیاں کے اوپر     کہ کیتا گگن پر توں شق القمر ۱۵؎

نمونۂ کلام سحرالبیان:

کیا حق نے نبیوں کا سردار اُسے    بنایا نبّوت کا حق دار اُسے

نبوّت جو کی حق نے اُس پر تمام        لِکھا اشرف الناس خیرالانام

بنایا سمجھ بوجھ کر خوب اُسے      خدا نے کیا اپنا محبوب اُسے

کروں اُس کے رُتبہ کا کیا میں بیاں     کھڑے ہوں جہاں باندھ صف مرسلاں ۱۶؎

نعتِ رسولِ مقبولﷺ کے بعد گلشنِ عشق میں روایتِ مثنوی کے تحت معراج نامہ کا بیان ہے، جبکہ سحرالبیان میں معراج نامہ موجود نہیں۔

گلشنِ عشق میں سفرِ معراج کا بیان بہت مفصل اور خوب صورت انداز میں بیان ہوا ہے۔ آغازِ حسبِ روایت عنوانی شعر سے ہے جبکہ موضوعی اشعار کی تعداد۷۸ ہیں۔ اِس حصہ کے آخر میں چار یارانِ رسول ﷺ کا بھی ذکر ہے۔

اگلا موضوع دونوں مثنویوں میں منقبتِ علی ؓ ہے۔ گلشنِ عشق کا آغاز روایتاً عنوانی شعر سے ہوا ہے اور موضوعی اشعار کی تعداد ۴۶ ہیں،جبکہ سحرالبیان میں یہ موضوع ۱۹ اشعار کے بیان مشتمل ہے۔

نمونۂ کلام گلشن عشق:

علی او کہ شاہِ ولایت اہے      جہاں بخش صاحب کرامت اہے

علی دُلدُل تیز کا شہسوار    علی سور نر صاحبِ ذوالفقار

وصی محمد علی ولی       ولی عہد کا یعنی احمد علی

علی تھا برادر محمد کوں یوں    سو موسیٰ پیمبر کوں ہارون جوں     ۱۷؎

نمونۂ کلام سحرالبیان:

نہیں ہمسر اُس کا کوئی جز علی     کہ بھائی کا بھائی وصی کا وصی

ہوئی جو نبوّت نبی پر تمام  ہوئی نعمت اُس کے وحی پر تمام

جہاں فیض سے اُن کے ہے کامیاب     نبی آفتاب و علی ماہتاب

 علی دین و دنیا کا سردارہے  کہ مختار کے گھر کا مختار ہے ۱۸؎

اگلا موضوع سحرالبیان میں تعریف اصحابِ پاکؓ ہے، جو چار اشعار پر محیط ہے ،جبکہ گلشنِ عشق میں یہ معراج نامہ کی ذیل میں چار اشعار میں بیان ہے۔ سحرالبیان میں مناجات کا بیان یہاں ہے۔ اشعار کی تعداد چودہ ہیں:

الٰہی میں بندہ گنہگار ہوں  گناہوں سے اپنے گر انبار ہوں

مجھے بخشیو میرے پروردگار  کہ تو ہے کریم اور آمر زگار

مری عرض یہ ہے کہ جب تک جیوں      شرابِ محنت کو تیری پیوں ۱۹؎

اگلا موضوع گلشنِ عشق میں ’’مدح حضرت مخدوم سید محمد حسینی ؒ بندہ نواز گیسو د راز‘‘ ہے جو حسبِ روایت عنوانی شعر سے شروع ہوتا ہے۔ موضوعی اشعار کی تعداد ۴۱ ہیں، جبکہ سحر البیان میں ’’تعریفِ سخن‘‘کے عنوان سے دس اشعار کا بیان ہے۔ اگلا موضوع گلشنِ عشق میں ’’مدح خسرو عالم علی عادل شہ غازی ‘‘ہے۔ آغاز عنوانی شعر سے ہے اور موضوعی اشعار کی تعداد۹۴ ہیں۔ اس کے بعد ’’درتعریف بڑی صاحبہ‘‘کے عنوان خدیجہ سلطان شہربانو کا بیان ہے جو ۵۹ اشعار پر محیط ہے۔ جبکہ سحرالبیان میں عصری تقاضے کے تحت مغل بادشاہ شاہ عالم کا بیان چار اشعار اور نواب آصف الدولہ کی مدح( ۱۷)اشعار پر محیط ہے۔

اگلا موضوع گلشنِ عشق میں شاعر کے حسبِ حال کا بیان ہے۔ جو عنوانی شعر کے علاوہ(۵۰) موضوعی اشعار پر محیط ہے۔ جبکہ سحرالبیان میں نواب آصف الدولہ کی سخاوت کا بیان ہے جو (۱۸ )اشعار پر محیط ہے۔ ’’بیانِ شجاعت‘‘ کے عنوان سے ان کی بہادری کو اگلا موضوع دیا گیاہے جو (۴۰ )اشعار پر محیط ہے۔

گلشنِ عشق میں عقل کی توصیف کا بیان ہے جو عنوانی شعر کے علاوہ (۳۵) موضوعی اشعارپر محیط ہے اِسی طرح عشق کی تعریف بھی مثنوی کا اگلا حصہ ہے ،جو عنوانی شعر کے علاوۂ( ۹۱ )موضوعی اشعار پر محیط ہے۔

سحرالبیان میں ’’عجز وانکسار‘‘ کے عنوان سے حسبِ حال کا بیان ہے، جو(۹) اشعار پر محیط ہے، جبکہ گلشنِ عشق میں اِس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔

یہاں تک کل( ۲۰۰) متفرق موضوعات پر مشتمل اشعار کے بعد سحرالبیان میں اصل کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔جو کل (۱۹۶۱) اشعار پر مبنی ہے۔ جبکہ گلشنِ عشق میں ’’قصہ لکھنے کا سبب‘‘ اور قصہ بیان کرنے کی ہمت پر اﷲ تعالیٰ کے شکرانے کا بیان ہے۔ دونو ں موضوعات عنوانی اشعار کے علاوہ ٔبالترتیب (۱۰۱ )اور( ۳۰) اشعار کے بیان پر محیط ہے۔

یوں گلشنِ عشق میں (۸۷۶)متفرق موضوعات پر مشتمل اشعار کے بعد اصل کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ جو کل (۳۵۵۲) اشعار پر محیط ہے۔

کہانی کا آغاز دونوں شعرا کے ہاں کچھ یوں بیان ہے کہ گلشنِ عشق میں ایک راجا ہو تا ہے جس کا نام بکرم ہے اور ریاست کنک گیر کا حکمران ہے ۔ بہت ہی نیک ، رحم دل اور صاحبِ ثروت ہے۔ ریاست اُن کی نہایت آسودہ حال ہے اور عسکری لحاظ سے بھی بہت مضبوط ہے۔ جبکہ سحرالبیان کا بادشاہ گمنام اور گمنام ریاست کا بادشاہ ہے ۔ بکرم کی طرح یہ بھی نیک ، رحم دل اور صاحبِ ثروت ہے۔ ریاست اُن کی بھی آسودہ حال اور عسکری لحاظ سے خاصی مضبوط ہے۔

نمونۂ کلام گلشن عشق:

اول دور میں یک بلند بخت تھا     جسے ملک شاہی کرا تخت تھا

سہے ناؤں بکرم جگ ادھار تِس      کنک گیر سو تحت کا ٹھار تِس

نہ بکرم کہ تھا او سحابِ کرم    ڈوبیا تھا کنک میں کنک گِیر جم  ۲۰؎

نمونۂ کلام سحرالبیان :

کسی شہر میں تھا کوئی بادشاہ    کہ تھا وہ شہنشاہ گیتی پناہ

بہت حشمت و جاہ و مال و منال    بہت فوج سے اپنی فرخندہ حال

کئی بادشہ اُس کو دیتے تھے باج  خطا و ختن سے وہ لیتا خراج ۲۱؎

یہاں خطا وختن کے ذکر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ریاست ترکی اور چین کے مابین واقع تھی، کیونکہ خطا چین کا ایک شہر ہے، جبکہ ختن ترکستان کا۔ یہ دونوں شہر مشک کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔

دونوں شاہان کو اتنی شان و شوکت اورجاہ و جلال کے باوجود بے اولادی کا غم ہے۔

نمونۂ کلام گلشن عشق:

دیا تھا خدا اُس کوں سب کچھ مگر      ولے سخت محتاج تھا بِن پسر

دل اُس کا اچھے گر چہ سب سکھ سوں باغ      دھرے ین نت اس غم تی جوں لالہ داغ

گگن بادشاہی کیرا خوار ہوئے  یو تارباں سے عالم میں اندکار ہوئے ۲۲؎

نمونۂ کلام سحرالبیان:

کسی طرح کا وہ نہ رکھتا تھا غم      مگر ایک اولاد کا تھا الم

اسی بات کا دل پہ اُس کا تھا داغ      نہ رکھتا تھا وہ اپنے گھر کا چراغ

دنوں کا عجب اُس کے یہ پھیر تھا       کہ اُس روشنی پر یہ اندھیر تھا ۲۳؎

لیکن اس غم پر گلشنِ عشق کا راجا بکرم غمزدہ گھر لوٹتا ہے اور رانی ان کو دکھی دیکھ کر حوصلہ دیتی ہے کہ خداوند کے ہاں دیر ہے پر اندھیر نہیں۔

عجب ہے ہمارا چہ دل ناصبور   جو پڑتا ہے امید سوں حق کی دور

جو حاجت جو موقوف اچھے وقت پر     او بر آئے جب اُس کی ہوئے یک نظر  ۲۴؎

جبکہ سحرالبیان کا بادشاہ اُس دکھ کو وزیروں کے سامنے بیان کرتا ہے اور وزراء اُنھیں دلاسا دیتے ہیں :

مگر ہاں جو اولاد کا ہے یہ غم    سو اس کا تردّد بھی کرتے ہیں ہم

نہ لاؤ کبھی یاس کی گفتگو   کہ قرآں میں آیا ہے لا تقنطُوا ۲۵؎

گلشنِ عشق کا راجا بکرم اسی طرح ایک دن گھر میں موجود ہوتا ہے کہ ایک فقیر کی صدا سنتا ہے۔ آواز کچھ عجیب لگتی ہے اِس لیے خود صدقہ خیرات دینے آنکلتاہے۔ فقیر اُن کو دیکھ کر خیرات لینے سے انکا ر کرتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔بادشاہ اُسے روک کر نہ لینے کا سبب پوچھتا ہے، تو فقیر کہتا ہے کہ ہمیں بانچھ کے گھر سے کچھ لینا روا نہیں۔فقیر کے جانے کے بعد بادشاہ کے دکھ کی شدت دیکھ رانی اُنھیں فقیر کو ڈھونڈنے اور اُن سے دعا لینے کا مشورہ دے کر ریاست خود سنبھالتی ہے۔ جبکہ بادشاہ اُسے ڈھونڈنے نکل جاتا ہے۔

اِس کے برعکس سحرالبیان کے وزراء حکمِ خداوندی کا مشورہ دے کر بھی نجومیوں کو طلب کرتا ہے اور نصیبوں کا حال معلوم کرتا ہے ۔

گلشنِ عشق کا راجا بکرم کئی مہینوں پر محیط ایک کھٹن سفر کے بعد جنگل میں کسی ندی کے کنارے سات پریوں کو نہاتا ہوا دیکھتا ہے اور پھر اُن ہی کے ذریعے اُس فقیر تک پہنچتا ہے۔ ایک عرصہ تک اُن کی خدمت کرنے پر بادشاہ کو صِلہ ایک پھل کی صورت ملتا ہے،یوں بادشاہ وطن کو لوٹ آتا ہے ۔اُس پھل کے کھانے سے ٹھیک نو مہینے بعد اُن کے ہاں خوشی کی نوید بازگشت کرنے لگتی ہے۔

جبکہ سحر البیان میں نجومی بادشاہ کا زائچہ پڑ کر کہتے ہیں کہ اولاد تو لڑکے صورت میں موجود ہے، لیکن ایک مصیبت آڑے یہ ہے کہ اُس پر بارہ سال کی عمر تک کسی آفت کے آنے کا خطرہ ہے۔

یہی بات گلشنِ عشق میں یوں ہے کہ جب بکرم کے ہاں ایک خوبصورت لڑکے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ نجومیوں کو طلب کرکے اُن سے شہزادے کا زائچہ بنانے اور نام رکھنے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ نجومی شہزادے کا نام کنور منوہر تجویز کرتے ہیں لیکن زائچہ بنانے پر یہ مصیبت کی خبر بھی سنا دیتے ہیں کہ شہزادہ پر چودہ سال ایک مہینہ تک کسی مصیبت کے آنے کا خطرہ درپیش ہے۔

نمونۂ کلام گلشن عشق:

اتھا گر چہ بے مثل یوں بخت ور   ین اُس سردس آیا اٹل ایک خطر

کہ چودہ برس تس پہ یک ماس ہوئے   خطر ہونہارا تب اُس یاس ہوئے ۲۶؎

نمونۂ کلام سحر البیان:

ولیکن مقدر ہے کچھ اور بھی     کہ ہیں اس بھلے میں بُرے طور بھی

یہ لڑکا تو ہوگا ولے کیا کہیں       خطر ہے اسے بارہویں سال میں ۲۷؎

بادشاہ جب نجومیوں سے اُس خطرے کی نوعیت دریافت کرتا ہے، تو گلشنِ عشق کے نجومی خاموش رہتے ہیںجبکہ حکماء جواب دیتے ہیں:

؎ کہے تب حکیماں کہ کئی دھات ہیں       نپاتے سو او عشق کی بات ہیں ۲۸؎

جبکہ سحر البیان کے نجومی کہتے ہیں:

؎ کوئی اُس پہ عاشق ہو جن و پری   کوئی اُس کی معشوق ہو اِستری ۲۹؎

جب بادشاہ اُس کے علاج کا پوچھتا ہے توگلشنِ عشق کے حکیم کہتے ہیں:

؎ کہیا یوں رکھوں کرکے جگ تھے نہاں    نہ دیکھے کبھی خواب میں آسماں ۳۰؎

جبکہ سحر البیان کے نجومی یہ جواب دیتے ہیں:

؎ نہ آوے یہ خورشید بالائے بام     بلندی سے خطرہ ہے اِس کو تمام ۳۱؎

یوں نو مہینے پورے ہونے پر سحرالبیان کے بادشاہ کے ہاں ایک خوب صورت لڑکا جنم لیتا ہے، اور اُس کا نام بے نظیر رکھا جاتا ہے جبکہ گلشنِ عشق میں یہ ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ یہاں مثال دینی مقصود ہے۔

نمونۂ کلام گلشن عشق:

جو خوبی سوں پورے بھرے ماس نو  بدھیا او گہر بحر میں چھب کے تو

سو ویسے سعادت بھرے وقت پر     تولد ہوا شاہ کے گھر کنور

ادک تِس پہ عرفان کی دھر نظر      رکیا ناؤں اس کا منہر کنور ۳۲؎

نمونۂ کلام سحر البیان:

گئے نو مہینے اُس پر گزر ہوا گھر میں شہ کے تولد پسر

ہوا وہ جو اُس شکل سے دلپذیر      رکھا نام اُس کا شہ بے نظیر ۳۳؎

سحر البیان کے اِسی نام کی طرح کا ایک شعر ملانصرتی گلشنِ عشق کی توصیف میں لکھتا ہے:

؎ جو میں یو ملا قصۂ دلپذیر       کیا نظم خوش طرح سوں بے نظیر ۳۴؎

یہاں شہزادے کے جنم کی خوشخبری بادشاہ کو دینے میں گلشنِ عشق کا بیان عام قاعدہ کے مطابق ہے کیونکہ شہزادے کی پیدائش کی خبر بادشاہ کو دی جاتی ہے اور یوں خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں اور پھر بادشاہ نجومیوں اور رمّالوں کو طلب کرکے جنم پتر اور نام رکھنے کا اہم کام ان کے سپرد کرتے ہیں، جبکہ سحر البیان میں شہزادے کی پیدائش پر نام پہلے رکھا جاتا ہے اور بادشاہ کو خوشخبری بعد میں دی جاتی ہے:

ہوا وہ جو اُس شکل سے دلپذیر      رکھا نام اُس کا شہ بے نظیر

خواصوں نے خواجہ سراؤں نے جا     کئی نذریں گزرانیاں اور کہا

مبارک تجھے اے شہ نیک بخت   کہ پیدا ہوا وارثِ تاج و تخت ۳۵؎

شہزادے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے گلشِ عشق میں ہے:

برس چار پر چار دن چار ماس    سو ہونے میں لیائے معلم کے پاس

کیا علم تحصیل ہر دھات کا   ہوا خط بی مشہور تِس ہات کا ۳۶؎

جبکہ سحرالبیان میں یہ بیان کچھ اِس طرح ہے:

ہوئی اُس کے مکتب کی شادی عیاں      ہوا پھر اُنہیں شادیوں کا سماں

معلم، اتالیق، منشی، ادیب     ہر اک فن کے استاد بیٹھے قریب

ہوا جبکہ نو خط وہ شیریں رقم       بڑھا کر لکھے سات سے نو قلم ۳۷؎

سحرالبیان میں یہ بیان گلشنِ عشق کے برعکس مفصل اور جامع ہے۔ چودہ سال کی عمر تک پہنچنے پر گلشنِ عشق کا شہزادہ سوتے ہیں نو اُڑتی ہوئی پریوںکو اپنے حُسن سے متاثر کرتا ہوا اُنھیں اپنا جوڑ تلاش کرنے کے لیے نو کھنڈوں میں جانے پر مجبور کرتا ہے اور جوڑ ملنے پر اُن کا پلنگ لے کر وہاں لے جانے کا قصہ ہے ۔ جبکہ سحرالبیان کا شہزادہ بارہ سال کی عمر تک پہنچنے پر شہر کی سیر کا قصد کرتا ہے اور رات کو محل کی چھت پر سونے کی خواہش کرتا ہے۔ لیکن دونوں پر مصیبت کی وہ گھڑی پریوں کی صورت میں آتی ہے ۔

نمونۂ کلام گلشن عشق:

اوتر سقف پر تی انگن میں پریاں     کھڑیاں آیکس یک تی یک چھند بھریاں

دیکھن شاہزادے کون لئی دھر ہوس    یکس یک تی انگے چلی جلد دھس

جو کوئی پہلے گئی سو طنبی منجہار  پری دیکھ بے سُدھ ہو بے اختیار ۳۸؎

نمونۂ کلام سحرالبیان:

قضا را ہوا اک پری کا گزر       پڑی شاہزادے پہ اُس کی نظر

بھبوکا سا دیکھا جو اُس کا بدن  جلا آتشِ عشق سے اُس کا تن

ہوئی لاکھ جی سے وہ اُس پر نثار    وہ تخت اپنا لائی ہوا سے اُتار ۳۹؎

مصیبت کی اُس رات کے حوالے سے دو مثنویوں میں کچھ یوں لکھا ہے:

گلشنِ عشق کی پریاں رحم دل ہیں وہ شہزادے کا پلنگ اُڑا کر سات سمندر پارلے تو جاتی ہیں لیکن ایک معین وقت کے بعد اِس غرض سے واپس بھی لاتی ہیں کہ کہیں جدائی کے غم سے شہزادے کے والدین ہمیں بددعا نہ دے۔ لیکن برعکس اِس کے سحرالبیان کی ’’پری ماہ رخ‘‘ عاشق ضرور ہے لیکن لالچی اور خود غرض۔ اُسے اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ شہزادے کی غیر موجودگی سے اِس کے والدین کو کتنا دُکھ ہوگا۔

نمونۂ کلام گلشن عشق:

رکھیں یاں تو اس پوت کے والدین مریں گے ہیا پھوٹ ہور پھوڑ نین

منگیاں تب پریاں یوں رعایت پسار      سبب ساز اے پاک پروردگار

ہمیں جوں یو لایاں امانت کا مال      لجانا پھرا واں چہ اس کوں سنبھال ۴۲؎

نمونۂ کلام سحرالبیان:

کروں حال ہجراں زدوں کا رقم   کہ گزرا جدائی سے کیا ان پہ غم

سنی شہ نے القصہ جب یہ خبر      گِرا خاک پر کہہ کے ہائے پسر

عجب بحرِ گم میں ڈبویا مجھے      غرض جان سے تو نے کھویا مجھے ۴۳؎

گلشنِ عشق کے شہزادے کے عشق کی نوعیت چونکہ سحرالبیان کے شہزادے سے مختلف ہے۔ یہ آدم زاد پر عاشق ہوتا ہے جبکہ بے نظیر پہلے خود معشوق بنتا ہے اور پھر ایک دن کسی باغ کی سیر کے دوران ایک آدم زاد کو دیکھتا ہے اور عاشق ہوجاتا ہے۔ دونوں کی عشقیہ کیفیت سے یہ آشکارا ہوتا ہے کہ گلشنِ عشق کا کنور منوہر ایک نڈر، جری اور عالی ہمت عاشق ہے کیونکہ عشق کے حصول کے لیے وہ بہت ہی کٹھن مرحلوں سے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ نبردآزما ہوتا دکھائی دیتا ہے، جبکہ سحرالبیان کا بے نظیر حسن میں بے نظیر تو بے شک ہے ہی لیکن اپنے نسوانی نام کی طرح عورتوں جیسی صفات کا حامل دکھائی دیتا ہے اور عشق کے حصول کے لیے نسوانی ہتھکنڈوں کا استعمال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

گلشنِ عشق کا کنور منوہر اپنے محبوب کو یاد کرکے دیوانہ وار، زارو قطار روتا، چیختا چلاتا تو ہے لیکن اُس کی تلاش میں ایک خطرناک بحری سفر اور کجلی بن نامی خوفناک تنگ و تاریک جنگل میں پورے ایک سال سفر کا تہیہ بھی کرتا ہے ۔اِس سفر میں اگر وہ اوڈیسی از ہومر کے اودیسوس کی طرح سمندری بلا (اژدہا) کا سامنا کرتا دکھائی دیتا ہے تو ساتھ ہی اسی طرح فناکی سردی اور گرمی کا مقابلہ بھی کرتا ہے۔ رامائن کے کئی سر اور ہاتھ رکھنے والے دیوزاد کی طرح کے ایک مہیب دیو کا دلیرانہ وار مقابلہ بھی کرتا ہے بلکہ صرف مقابلہ ہی نہیں اس کا قلع قمع بھی کرتا ہے۔

سمندری سفر میں اژدہا مسلط ہونے کا بیان:

قضا ﷲ یک ناگ واں کیں سوں آ     جہازاں کوں سب مار پیچی بلا

یو کیسی بلا تس نہ سر پاؤں ہے       خلاصی کا اُس تی نہ کیں ٹھاؤں ہے

معلم کہے سب کہ یو سانپ ہے       کونڈل میں جہازاں لیا ڈھانپ ہے ۴۴؎

جس دیو کا مقابلہ کرتا ہے، شاعر کے بقول وہ:

کبھی روپ بدلا کے دجّال ہوئے ک  بھی دابتہ الارض فی الحال ہوئے

ولے اصل اُس کا جو یک قد ہے بس     اُسے پانچ سر اور اہیں ہات دس

اوتر آئے عیسٰی گر از آسماں      عصا لاکے مارے تو مرسی نجاں    ۴۵؎

اِس طرح کے مہیب دیو کا سامنا ہونے پر بھی وہ بالکل بھی خوف نہیں کھاتا اور ڈٹ کر للکارتا ہے:

کیا سن کے منہر نے رج سوں کھنکار  کہ میں مرد صیاد ہوں دیومار

اتا پل میں تجھ دیو کوں مار کر   لجانے کوں منگتا ہوں اس دھن کوں گھر  ۴۶؎

لیکن یہاں ایک اور کردار جو ملانصرتی سے قبل کی گلشنِ عشق کی کہانیوں میں موجود نہیں سامنے آتا ہے جو چنپاوتی کے روپ میں تراشیدہ ہے۔ چنپاوتی شہزادہ کے محبوب کی بہ مثل بہن سہیلی ہوتی ہے۔

بالکل اِسی طرح سحرالبیان میں بھی شہزادے کے عشقیہ سفر میں ایک موڑ پر اِسی طرح کا ایک کردار نجم النساء کے نام کا منظرِ عام پر آتا ہے۔ یہ بھی شہزادہ کے محبوب کی بہ مثل بہن سہیلی ہوتی ہے۔

دونوں مثنویوں کے شہزادوں کی اپنے محبوب سے ملاقات اِنھی سہیلیوں کے ذریعہ ممکن ہوتی ہے۔

اِسی طرح گلشنِ عشق کے ایک اور بشری کردار چندرسین کی طرح سحرالبیان کا دیومالائی کردار فیروز شاہ بھی ضمنی کردار معلوم ہوتا ہے لیکن دونوں شعرانے خاصی چابکدستی سے اِسے کہانی میں ضم کرکے اصل بنائے ہیں۔

دونوں مثنویوں میں اپنے اپنے عہد کی تہذیبی و معاشرتی عکاسی اور اساطیری فضا کے ساتھ ساتھ اخلاقی پستی بھی موجود ہے، لیکن سحرالبیان کے برعکس گلشنِ عشق میں یہ عنصر بہت کم پایا جاتاہے۔

گلشنِ عشق میں محبوب کی تلاش میں جب شہزادہ سرگرداں ڈھونڈتا پھرتا دیوزاد کے باغ میں چنپاوتی کو پاتا ہے تو بے سُدھ ہوتا ہے ۔ چنپاوتی اپنی جنسی تشنگی دور کرنے اُسے پلنگ پر لاتی ہے:

جو دیکھا کنور سخت بے تاب ہوئی      ادک خوے سوں چشمۂ آب ہوئی

او بے سُدھ کوں ہت سوں اوچایا وہیں    لے جا پھر پلنگ پر سو لایا وہیں

پھر اُس کیچ آنچل کا کر بادزن   لگیا مکھ اوپر اس کے یارا کرن

تھنڈا جوں ہوا ٹک مدن مد کا تاؤ   کہ جوں دور اُبلتے پہ کرنے تھے باؤ ۴۷؎

لیکن برعکس اِس کے سحرالبیان میں شراب و شباب کا بیان بارہا جگہوں پر مذکور ہے۔ شہزادہ بے نظیر اور شہزادی ماہِ منیر کے باہم صحبت کا بیان بھی اِس مثنوی کے کرداروں کی اخلاقی پستی کی غمازی کرتاہے:

لگے پینے باہم شرابِ وصال   ہوئے نخلِ امید سے دو نہال

لبوں سے ملے لب دہین سے دہن      دلوں سے ملے دل بدن سے بدن

لگی جا کے چھاتی جو چھاتی کے ساتھ  چلے ناز و غمز لے کے آپس میں ہاتھ

کسی کی گئی چولی آگے سے چل    کسی کی گئی چین ساری نکل ۴۸؎

گلشنِ عشق کا چندرسین ایک اتفاقیہ واقعہ سے کہانی میں داخل ہوتا ہے اور حصہ بن کر کہانی کو آگے بڑھاتا ہوا چنپاوتی کا عاشق ہوجاتا ہے اور اُن سے شادی کرکے اپنے ملک کو لوٹ جاتا ہے۔

اِسی طرح سحرالبیان کا فیروز شاہ بھی اُسی انداز سے کہانی کا حصہ بن کر نجم النساء کا عاشق ہوجاتاہے اور اُن سے شادی کرکے پرستان کو لوٹتا ہے۔

گلشنِ عشق کا مرکزی کردار کنورمنوہر جس طرح کی بہادری دکھاتا ہے وہ سحرالبیان کے مرکزی کردار بے نظیر کے ہاں بالکل بھی دیکھنے کو نہیں ملتی البتہ اُس بہادری کی ایک صورت نجم النساء کے کردار میں ضرور دکھائی دیتی ہے ، لیکن مردانہ شجاعت کے برعکس اُس کے ہاں نسوانی چا لبازیاں ہیں۔

کہانی کے آخر میں دونوں مثنویوں میں چندرسین اور فیروز شاہ کی شادیاں شان وشوکت کے ساتھ ہوتی ہیں اور دونوں اپنی اپنی دولہنوں کے لے کر اپنے ملک روانہ ہوتے ہیں۔

نمونۂ کلام گلشن عشق:

دعا کر دونوں دل و جان سوں   بڈھا مان تشریف ہور پان سوں

نظر سامنے کرکے کشتی سوار      پھرے واں تی سب مل کے آپ اپنی ٹھار

چندرسین نے لے کے اپنی بنی     بہوت بھانت دھن مال کا ہو دھنی

رضا لی گھر اپنے کوں جانے بدل       چلیا او بی خوش دم دماتا نکل ۴۹؎

نمونۂ کلام سحرالبیان:

خوشی سے لئے حرمت و جان و مال     چلے شہر کو اپنے وہ حال حال

وہ نجم النسا اور فیروزشاہ     فلک پر سے ہو مثل خورشید و ماہ

رضا اُن سے لے کر اُسی آن میں       گئے شاد و خرم پرستان میں ۵۰؎

اِختتام پر دو مثنویوں کے مرکزی کرداروں کا اپنے ملک کو پہنچنا اور ماں باپ سے ملنے کا بیان بھی مماثلت کا حامل ہے۔ لیکن گلشنِ عشق میں اس میں تھوڑی طوالت ہے کیونکہ پہلے بادشاہ کو اطلاع ملتی ہے کہ کسی دشمن ریاست کا راجا لاؤ لشکر لے کر حملہ آور ہوا ہے ،لیکن تصدیق پر خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ آخر میں بادشاہ اپنی سلطنت بیٹے کے حوالے کردیتا ہے۔ برعکس اِس کے سحرالبیان میں صرف واپس آنے اور خوشی کا بیان ہے۔

نمونۂ کلام گلشن عشق:

خبر جا کے انپڑی کنک گیر کوں    ہور اُس شاہ بکرم جہاں گیر کوں

کہ پردیس کا کوئی تو آتا ہے راج     بڑا کوئی ہے آیا سو چل یاں لگ آج

کنور پاس قاصد او آنی چہ میں  سلامت خبر شہ کی پانی چہ میں

محبت سوں چھاتی لگا تیں چکل     بچھڑ پن کی گئی جھال دل سوں نکل

ادک سکھ کی مد سوں ہو پاتے پھرے     نول شادیانے بجاتے پھرے ۵۱؎

نمونۂ کلام سحرالبیان:

پڑا شہر میں یک بہ یک پھر بہ غُل   کہ غائب ہوا تھا سو آیا وہ گل

خبر یہ ہوئی جبکہ ماں باپ کو    کیا گُم انھوں نے وہیں آپ کو

ملے پھر تو آپس میں وہ خوب سے  کہ یوسف ملے جیسے یعقوب سے

ہوئے شاد و خرم صغیر و کبیر  چلے لے کے نذریں امیر و وزیر

بڑی دھوم سے اور بڑی آن سے  بجاتے ہوئے نوبتیں شان سے ۵۲؎

گلشنِ عشق کا شہزادہ جب بادشاہ بنتا ہے تو اُس کی صفت شاعر نے اِس طرح بیان کی ہے:

؎ پرت خُلق سب خلق سوں بے شمار    ہوا صورت و معنوی شہریار ۵۳؎

جبکہ سحرالبیان کا شاعر اپنے شہزادے کو یوں سراہتا ہے:

؎ ہوا شہر پر فضلِ پروردگار     وہی شاہزادہ وہی شہریار ۵۴؎

کہانی کے اختتام پر گلشنِ عشق میں سلطان علی عادل شاہ ثانی کی پھر سے مدح بیان کی گئی ہے۔ خصوصاً اُن کی ادب شناسی اور ادب پروری کے حوالے سے ۔یہ بیان (۲۴) اشعار محیط ہے، جبکہ سحرالبیان میں نواب آصف الدولہ کی بھی توصیف کی گئی ہے جو دواشعار پر محیط ہے جبکہ ایک شعر میں حضرت حسنین ؓ کی تعریف بیان ہوئی ہے۔

گلشنِ عشق میں کتاب کی تعریف اور تاریخ پر مشتمل موضوع (۹۷)اشعار پر محیط ہے، جبکہ سحرالبیان کا یہی بیان(۲۱) اشعار پر محیط ہے ۔

تاریخِ تصنیف گلشنِ عشق:

دھریا اس کی تاریخ کا جب خیال     وہیں ہاتف غیب معجز مقال

کیا اس کی تاریخ یوں ہجرتی    مبارک یو ہے ہدیۂ نصرتی”  ۵۵؎

۱۰۶۸ھ؍۱۶۵۷ء

تاریخِ تصنیف سحرالبیان:

مرے ایک مشفق ہیں مرزا قتیل  کہ ہیں شاہراہ سخن کے دلیل

سنی مثنوی جب یہ مجھ سے تمام    دیا اس کی تاریخ کو انتظام

انھوں نے شتابی اٹھا کر قلم       یہ تاریخ کی فارسی میں رقم

بگوشم ز ہاتف رسید ایں ندا     بریں مثنوی باد ہر دل فدا”

۱۱۹۹ھ/۱۷۸۴ء

میاں مصحفی کو جو بھایا یہ طور       انھوں نے بھی کی تکرار راہِ غور

کہی اِس کی تاریخ یوں برمحل      یہ بتخانہ چین ہے بے بدل”

۱۱۹۹ھ/۱۷۸۴ء

سنی جبکہ ماہر نے یہ مثنوی     تو محظوظ ہو فکر تاریخ کی

یہ مصرع پڑھاؤ وہیں پاکر فرح    ہے اِس مثنوی کی یہ نادر طرح”

۵۶؎۱۱۹۹ھ/۱۷۸۴ء

مثنوی گلشنِ عشق کہانی سے ہٹ کر کل ۹۹۸ ہزار اشعار کا بیان کرتی ہے اور اصل کہانی۳۵۵۲ اشعار پر محیط ہے، جبکہ سحرالبیان کا یہ بیان ۲۲۵ اشعار پر مشتمل ہیں اور اصل کہانی۱۹۶۱ اشعار پر مبنی ہے۔

حوالہ جات

۱)اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول، دسمبر۱۹۸۴ء؁، ص ۱۸۳

۲)کلیم الدین ، احمد  اُردو شاعری پر ایک نظر (جلد اول) بُک اِمپوریم سبزی باغ پٹنہ۔ ۶، انڈیا  اشاعت ۱۹۸۵؁ء ، ص ۳۳۵

۳)            فرمان فتح پوری،ڈاکٹر    اُردو کی منظوم داستانیں   انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی   اشاعت دوم  ۲۰۰۲؁ء،ص۴۸۸

۴)            عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع        اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۲۲۱

۵)            عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع        اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۲۰۔۲۱۹

۶)            ایضاً ،ص۱

۷)            ایضاً۔

۸)            اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول ،دسمبر ۱۹۸۴ء؁، ص ۴۷

۹)            عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع        اول،مئی۱۹۵۲؁ء،ص ۲۔۱

۱۰)         ایضاً،ص ۳

۱۱)         ایضاً۔

۱۲)         محمداقبال، ڈاکٹر          بانگِ درا     خزنیہ علم و ادب ،لاہور   تاریخِ اشاعت  ۲۰۰۰؁ء ، ص ۱۲۹

۱۳)         عبدالحق، ڈاکٹر (مرتبہ)  مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی  طبع اول، مئی ۱۹۵۲ء؁                ،ص ۵

۱۴)         ایضاً،ص۱۰

۱۵)         ایضاً، ص۱۴

۱۶)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول دسمبر ۱۹۸۴ء؁، ص ۵۰

۱۷)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع        اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۱۷

۱۸)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول، دسمبر ۱۹۸۴ء؁ ،ص ۵۱

۱۹)         ایضاً،ص۵۳

۲۰)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع       اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۴۵

۲۱)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول ،دسمبر ۱۹۸۴ء؁ ،ص ۶۱

۲۲)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع        اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۴۶

۲۳)         اشرف حسین، سید(مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول ،دسمبر ۱۹۸۴ء؁ ،ص ۶۲

۲۴)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع       اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۴۸

۲۵)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول، دسمبر ۱۹۸۴ء؁، ص ۶۳

۲۶)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع        اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۶۳

۲۷)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول ،دسمبر ۱۹۸۴ء؁ ،ص ۶۵

۲۸)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع       اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۶۴

۲۹)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول ،دسمبر ۱۹۸۴ء؁، ص ۶۵

۳۰)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع        اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۶۴

۳۱)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول، دسمبر ۱۹۸۴ء؁ ،ص ۶۵

۳۲)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع       اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۶۲

۳۳)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول ،دسمبر ۱۹۸۴ء؁، ص ۶۷۔۶۶

۳۴)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع اول،مئی۱۹۵۲ء؁،     ص ۴۳

۳۵)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول ،دسمبر ۱۹۸۴ء؁ ،ص ۶۷

۳۶)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع        اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۶۶

۳۷)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول ،دسمبر ۱۹۸۴ء؁، ص ۷۵

۳۸)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع        اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۶۹

۳۹)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول، دسمبر ۱۹۸۴ء؁، ص ۸۵

۴۰)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی ،طبع اول ،مئی۱۹۵۲ء؁     ،ص ۸۳

۴۱)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول، دسمبر۱۹۸۴ء؁، ص ۸۳

۴۲)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی،طبع اول،مئی۱۹۵۲ء؁      ،ص ۷۹۔۷۸

۴۳)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول، دسمبر ۱۹۸۴ء؁، ص ۸۷۔۸۶

۴۴)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع اول، مئی۱۹۵۲ء؁    ،ص ۹۷

۴۵)         ایضاً ، ص۱۲۱

۴۶)         ایضاً ، ص ۱۲۵

۴۷)         ایضاً ، ص ۱۱۵

۴۸)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول، دسمبر ۱۹۸۴ء؁ ،ص ۱۱۸

۴۹)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع اول ،مئی۱۹۵۲ء؁    ،ص ۲۱۴

۵۰)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول، دسمبر ۱۹۸۴ء؁، ص ۱۷۹

۵۱)         عبدالحق،ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع اول ،مئی۱۹۵۲ء؁    ،ص ۲۱۵

۵۲)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول ،دسمبر ۱۹۸۴ء؁، ص ۸۱۔۱۸۰

۵۳)         عبدالحق، ڈاکٹر (مرتبہ) مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی ،طبع     اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص ۲۱۸

۵۴)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول ،دسمبر ۱۹۸۴ء؁ ،ص ۱۸۲

۵۵)         عبدالحق،ڈاکٹر(مرتبہ)مثنوی گلشنِ عشق ازملانصرتی  انجمن ترقی اُردوپاکستان،کراچی،طبع اول،مئی۱۹۵۲ء؁،ص     ۲۲۳

۵۶)         اشرف حسین، سید (مرتبہ)  مثنوی سحرالبیان    ناشر شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، لاہور  بار اول، دسمبر ۱۹۸۴ء؁ ،ص ۸۴۔۱۸۳

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.