جموں و کشمیرکا پہلا ترقی پسندافسانہ نگار

ڈاکٹر  ظفر عبداللہ وانی

 اسسٹنٹ پروفیسرشعبئہ اردو،  سنٹرل یونیورسٹی کشمیر

فون نمبر۔۹۰۳۰۸۷۰۳۳۹

zafferabdullah@gmail.com

ترقی پسند تحریک کا آغاز 1935ء میں ہوا۔ اس تحریک کی داغ و بیل لندن میں زیر تعلیم چند ہندوستانی طالب علموں نے ڈالی تھی مگرہندوستان میں اس کا باقاعدہ آغاز 1936ء میں ہوا ہے ۔اور چند برسوں میں ہی اس تحریک نے قریب قریب ہندوستان کی ہر ایک ریاست پر اپنے اثرات مرتب کیے ۔ہندوستان کی ان ریاستوںمیںسے جموں و کشمیر ایک اہم نام ہے جہاں تین الگ الگ خطوں میں تین مختلف زبانیں، کشمیری،ڈوگری اور لداخی بولی جاتی ہیں اور تینوں مادری زبان کی حیثیت رکھتی ہیں۔اردو یہاں کی ثانوی زبان ہے جسے یہاں کے اہل قلم نے گلے لگایا اور اس میں اس طرح کا اعلیٰ پایہ ادب تخلیق کیا کہ بعض اوقات یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ اردو ان کی اپنی زبان نہیں ہے ۔ جب ترقی پسند تحریک نے ملک کے ہر حصے میںبال و پر پھیلانے شروع کیے تو لازمی طور پر اس تحریک نے کشمیر کے ادیبوںپر بھی اپنے اثر ات چھوڑے۔

جس دور میں کشمیر میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا وہ کشمیر میں ڈوگرہ شاہی کے نام سے جانا جاتا ہے اس ڈ وگرہ شاہی نظام کے تحت کشمیر کا معصوم عوام استحصال کا شکار ہو رہا تھا ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم ہو رہے تھے ۔1947ء میںکشمیری عوام نے اپنے اُوپر ہونے والے ان ہی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ۔عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ادیبوں اور دانشوروں نے بھی اپنی آواز بلند کی اور صدائے احتجاج کے نعرے بلند ہونے لگے۔ ڈوگرہ شاہی نظام کا یہ دور کشمیر کی تا ریخ میںسب سے بدتر اور تاریکی دور سمجھا جاتا ہے۔اس سلسلے میں غلام نبی خیال لکھتے ہیں:

’’ 1947 میں بر صغیر کی تقسیم کے ساتھ کشمیر میں بھی ایک زور دار اور تاریخ ساز ادبی تحریک شروع ہوئی جس سے ترقی پسند تحریک کہا جاسکتا ہے۔۱؎

کشمیر میں اس زمانہ میں سیاسی طور پر زبردست تبدیلی رونما ہونے لگی ۔ کشمیر کی مقامی جماعت مسلم کانفرنس نیشنل کانفرنس میںتبدیل ہوئی جس میںہندو مسلم دونوں شامل تھے اور اس طرح پہلی بار ڈوگرہ شاہی کے استحصال اور استبداد کے خلاف آواز بلند ہونے لگی ، غلامی او ناداری کے خلا ف جنگ شروع ہوی جس کی آواز نہ صرف جلسوں اور تقریروں میں سنائی دینے لگی بلکہ اب تخلیقی سطح پر بھی اس کی آبیاری ہونے لگی ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر برج پریمی لکھتے ہیں :

’’ اس کی آواز بازگشت کہیں کہیں شعر و نغمہ میں بھی سنائی دینے لگی تھی، محجور، ؔآزادؔ اور دلسوزؔ کے کشمیری نغموں میں بغاوت کرتی ہوئی ایک دھمی دھمی لے لیے اس زمانے کے آس پاس سنائی دیتی ہے ‘‘۲

مذکورہ بالا اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ریاست میں بھی ترقی پسند ادب کی شروعات شاعری سے ہوی تھی ، گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر میںترقی پسند ادب کے ابتدائی نقوش شاعری میں ملتے ہیں ۔جہاں تک اردو افسانہ کا تعلق ہے اس سلسلے میںجو پہلا ترقی پسند افسانہ نگارسامنے آتاہے وہ ہے پریم ناتھ سادھو رونق جس سے ادبی حلقوں میںپریم ناتھ پردیسی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔پردیسی کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ پہلے کشمیری افسانہ نگارہے جس نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر افسانے تخلیق کیے اسی لیے انہیں کشمیر کا پریم چند بھی کہا گیا ہے ۔یاد رہے اس دور میں پردیسی نے اپنے دوستوں سے مل کر ایک ادبی انجمن بھی تشکیل دی تھی جس کا نام حلقہ ارباب ذوق تھا یہ انجمن اس صدی کے چوتھے دہے کے شروع میں منظم ہوئی۔واضح رہے اس انجمن کا حلقہ ارباب ذوق لاہور سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ڈاکٹر برج پریمی کے مطابق حلقہ ارباب ذوق کشمیر اور حلقہ ارباب ذوق لاہور کے مقاصد میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔یہ مختصر سا حلقہ چند گنے چنے ادیبوں پر مشتمل تھا جہاں کہانیاں پڑھی جاتی تھیں، غزلیں سنائی جاتی تھیں اور تبادلہ خیال ہوتا تھا ۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا اور اس انجمن کا شیرازہ بکھر گیا۔حلقہ ارباب ذوق (کشمیر)کے بند ہونے سے اور بکھر جانے سے یہاں ادب کے سوتے سوکھ نہیں گئے بلکہ اس زمانے میںمشہو رتر قی پسند افسانہ نگارراما نند ساگر جن کا اصل وطن کشمیر ہے یہاں آکے پردیسی سے ملے اور پردیسی کو کشمیر میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ کھولنے پر آمادہ کیا جس کا اعتراف پردیسی خود ان الفاظ میںکرتے ہیں :

’’ دو سال کے بعدرامانند ساگر آگئے ، آتے ہی مجھ سے ملے انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ کھولنے کے لیے کہا ۔ چنانچہ ہم دونوں نے مل کر یہاں کے ترقی پسند ادیبوں کو اکھٹا کیا او ر ایک انجمن قائم کی جو آج تک قائم ہے‘‘۳

اس طرح یہاں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہوئی اوراس انجمن میں شامل ہونے والے ادیب وہی تھے جو حلقہ ارباب ذوق (کشمیر) کے ساتھ وابستہ رہ چکے تھے۔ پھر سے ایک بار نیا ذہن اورنئی سوچ رکھنے والے یہ ادیب ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ۔ابتدا میں اس انجمن کا دفتر بھی پردیسی کا مکان تھا لیکن جب دھیرے دھیرے انجمن کا دائرہ پھیلتا گیا پھر ایس پی کالج اور بسکو اسکول میں اس کے جلسے ہونے لگے ۔اس انجمن میں کشمیرکے ترقی پسند ادیبوں کے علاوہ باہر کے ادیب وشعراء بھی شامل ہونے لگے جس سے اس تحریک کے پنپنے کی فضا تیار ہوئی۔ان جلسوں کی ادارت اس وقت کے اخبار ’’ نویگ‘‘ اور بعد میں’’ ہفت روزہ نظام ‘‘ بمبئی میں شائع ہونے لگیں۔اس وقت کے ترقی پسند ادیبوں کا ذکر ڈاکٹر برج پریمی اس طرح کرتے ہیں :

’’ اس دور میں راجندر سنگھ بیدی،خواجہ احمد عباس، بلراج ساہنی ، دیویندر ستیارتھی اور کئی ترقی پسند ادیب اور شاعر یہاں آئے اور انجمن کے سرگرمیوں میں شریک ہوتے رہے۔مقامی ادیبوں اور شاعروں میںپریم ناتھ پردیسی ،سوم ناتھ ز یتشی ، علی محمد لون،صلاح الدین احمد ، کنول مین پرواز ، پروفیسر محمد ہاشمی ۔ایس ۔این کول فقیر قلندر،حمید فطرت ،ڈاکٹر نذر الاسلام قابل ذکر ہیں جواس انجمن کے ساتھ وابستہ رہے۔۴

اکتوبر 1947 ء میںبگڑے ہوئے حالات پر قابو پانے کے لیے کشمیر میں اندرونی سطح پر ایک چھوٹی سے فوج ’’نیشنل ملیشا ‘‘کے نام سے منظم ہوئی۔جس کی ایک شاخ ریاست کے ادیبوں ، دانشوروں ، شاعروں اور باشعورنو جوانوں پر مشتمل تھی اس شاخ کا نام نیشنل کلچرل فرنٹ رکھاگیا تھا۔ فرنٹ کے تحت عوام کو گرمانے والے نغمے شروع شروع میںتخلیق ہوئے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس فرنٹ کے زیر اثر کا م کرنے والے ادیب ترقی پسندانہ خیالات رکھتے تھے۔اس فرنٹ نے تھوڑ ے ہی عرصے میں کافی مقبولیت بھی حاصل کی تھی ۔جموں کشمیر میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے والوں نے اس وقت کئی کتابچوں کو علاوہ دو رسالے’’کونگ پھوش ‘‘ اور’’ آزاد‘‘ بھی شائع کیے تھے۔ذکر ہو چکا ہے کہ کشمیر میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے والوں میں پہلا نام پریم ناتھ پردیسی کا ہے ۔  1909ء میں سرینگر کے فتح کدل علا قے میںپیدا ہونے والے پریم ناتھ پردیسی کشمیری پنڈتوں کے سادھوخاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ابتدا میں ان کا نام مدھو سودن تھا لیکن بعد میں اسکول کے کا غذات میںان کا نام پریم ناتھ اندراج ہوا۔1925ء میںباغِ دلاور خان اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔پردیسی نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات 1924 ء میںشعر و شاعری سے کی اور’’ رونقؔ‘‘ تخلص رکھا لیکن انہیں یہ میدان راس نہ آیا اور 1932ء میں نثر کی طرف متوجہ ہوئے اور رومانی کہانیاں لکھنی شروع کی۔ان کے ابتدائی افسانوی مجموعوں ’’ شام و سحر ‘‘ اور ’’ دُنیا ہماری‘‘میں اسی نہج کی کہانیاں ملتی ہیں ۔ان افسانوں میںنہ خیال کی پختگی ہے اور نہ فن کی وہ نزاکت جو ان کے تیسرے مجموعے ’’بہتے چراغ ‘‘کے افسانوں میںنظر آتی ہیں۔ ترقی پسند تحریک نے مساوات کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ ادب کو زندگی اور اس کے بنیادی مسائل کا ترجما ن ہونا چاہیے۔پردیسی بھی اس سے متاثرہوئے اور رومان کی دنیا سے نکل کر حقائق کی طرف مائل ہوئے ۔ انہوں نے انگارے کے افسانوں کا مطالعہ کیا ،تحریک کے رموز و اوقات کو سمجھا نیز منشور کو بھی از سر نو سمجھنے کی کوشش کی ۔اس طرح پہلی بار کسی افسانہ نگار نے کشمیرکے خوبصور ت مناظر کو بیان کرنے کے بجائے وہاں کے جہنم کدوں کی تصویر یں پیش کی ،یہاں کے فنکاروں ، کاریگروں ، ہنرمندوں ، کسانوں اور افلاس کے مارے لاکھوں لوگوں کی بدنصیبی کی کہانیاں رقم کی جو سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے استحصال کے شکار ہو رہے تھے ۔یہ کہانیاں انکے آخری افسانوی مجموعہ ’’بہتے چراغ ‘‘(1955ء)میںشامل ہیں جو ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آئے۔

ساہوکاروں ، مہاجنوں اور تاجرین کے لوٹ کھسوٹ پر لکھا گیا افسانہ ’’ اگلے سال‘‘ اُس کسان کی کہانی ہے جو آلو کی بڑے بڑے کھیتوں کا مالک ہونے کے باوجود دووقت کی روٹی کا محتاج ہے کیونکہ آج بھی بیوپاری بدرالدین وہی دو سال پرانے داموں پر آلو خرید نا چاہتا ہے ۔وہ اس کسان کو بہلا پھسلا کر اس کے خون پسینے سے تیار کی گئی فصل کو کھوٹے داموں میں خریدنے پر مجبور بھی کرتا ہے وہ خود اس کے کھیتوں میںسودا کرنے اس لیے جاتا ہے تاکہ اسے شہر کی ہوا نہ لگے اور وہ یہ نہ جان پائے کہ شہر کی منڈیوں میں آلوں کی اصل قیمت کیا ہے۔پردیسی نے یہاں دونوں کے لباس کا بھی فرق بتایا ہے۔تجار زرق برق کپڑے پہنتا ہے اور چاروں طرف قالین اس لیے بچھاتا ہے تاکہ آنے والا کسان اس ٹاٹھ باٹھ کو دیکھ کر اسے نہ صرف ڈرے بلکہ احساس کم تری کا بھی شکار ہو جائے۔پردیسی نے نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ اس افسانے میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جب استحصال کی سرحدیں پار ہوتی ہیں تو انقلاب پیدا ہوتا ہے یہی انقلاب جب ابراہیم  جیسے کسانوں کے اندر جنم لیتا ہے تو وہ اس طرح احتجاج کر نے لگتا ہے:

’’سچ ہے بیوقوف نہ ہوتا تو شہر میں بڑی بڑی توندیں نکالے ، بیوپاری نہ ہوتے ، یہ ہم لوگ بے وقوف ہیں جو اپنی بستی اُ جاڑ کر اوروں کی بستیاں آباد کرتے ہیں ۔سچ ہے بابا کسان دراصل بے وقوف ہوتاہے ہمیں بدرالدین کی طرح آلو بیچنے کا ڈھنگ آ تا تو ہمارے گھر پر بھی ہن برستا، ہم بھی آج حج کرتے، انسا ن کہلاتے ، بھائیں بھائیں کرنے والی یہ ناداری یہاں ڈیرے ڈالے نہ رہتی۔خون پسینہ ہم بہائیں اور ہاتھ رنگے وہ قصائی‘‘۵

بیوپاری کسان کی محنت سے وہ لاکھوں کماتا ہے مگر ابراہیم جیسے ہزاروں کسان آج بھی دو و قت کی روٹی کے محتاج ہے۔ پردیسی نے افسانہ ’’ کاریگر ‘‘میں محنت کش طبقے کا استحصال اس طرح پیش کیا ہے ۔کاریگرامام الدین کے ہاتھوں بنائی ہوئی چیزیں سینکڑوں اور ہزاروں میں بکتی ہیں مگراما م الدین کو صرف پندرہ روپے ماہانہ پگار ملتی ہیں ۔وہ اپنے غصے کا اظہار فن کے ذریعے کرتا ہے ۔ایک سیاح نفسیات کا معلم جب امام الدین سے اپنی بیوی کے لیے سنگار بکس کی فرمائش کرتا ہے تو امام الدین دس دن کے بعد آنے کو کہتا ہے ۔سیاح دس دن کے بعد جب سنگار بکس لینے آتا ہے اس وقت امام دین سنگار بکس پر پالش کر رہا تھا سنگار بکس پر اژدہے کی تصویر بنی تھی سیاح اس سے دیکھ کر جھوم اٹھتا ہے وہ اس کی خوب تعریفیں کرتا ہے ۔ تبھی اسے کچھ محسو س ہوتا ہے اور وہ ایک نظر سے سنگار کو دیکھ رہا اور دوسری نظر سے دماغی حسن کے سراپامجسمے کو ۔اُسے محسو س ہوا جیسے اژدھے کی چوبیس آنکھوں میں نفرت ، کش مکش اور انتقام کی بے پناہ آگ دہک رہی ہے اور جیسے وہ سارے کرہ ارض کو ڈسنے اوراپنے زہر سے تباہ و خاکستر کرنے کے لیے بھاگاآرہا ہے ۔سیاح کو لگا یہ اژدھا نہیں بلکہ یہی کانپتا ہوا امام الدین ہے ، یہی معمر کاریگر ، یہی نیم عریاں انسان جو انگریز اور ہندوستانی ، مغرب اور مشرق،تہذیب اور مذہب سبھوں سے اپنا انتقا م لینے کے لیے بھاگا آرہا ہے ۔نفسیات کا معلم امام الدین سے یوںمخاطب ہوتا ہے :

’’ بہت اچھا ڈیزائن ہے ، بہت اچھا ،لیکن ہمیں معاف کردو۔معاف کردو ۔ہم نے تمہیں پہچانا نہیں ۔مغرب اور مشرق،انگریز اور ہندوستانی سب کومعاف کردوسب کو بخش دو ، اپنافن سمیٹ لو ۔ اپنا زہر نگل دو‘‘۔۶

اس طرح پردیسی نے غریب اور مظلوم کاریگروں کے لاشعور میںپلنے والے انتقام اور بدلے کے جذبہ کی خوبصورت تصویر کشی کی ہے۔افسانہ ’’ ان کوٹ‘‘ میںاگر ایک طرف کشمیر کی بھو ک سے بلکتی اور افلاس سے سسکتی ہوئی زندگی کی تصویر کشی کی گئی تو دوسری طرف اُس معصوم بچے کی نفسیات کو بھی پیش کیا گیا ہے جو یہ سوچتا رہتا ہے کہ آخر کا ر یہ چھوٹے بڑے مائی باپ کتنے ہیں ، ہمارے پاس چاول کیوںنہیں ہے یہ سوچتے سوچتے اُسے نیند آتی ہے۔مہاراجہ نے آج ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میںغریبوں کو چاول بانٹا گیا ۔آج اس تقریب میں پورا کشمیر امڈ کر آیا تھا، روز محشر کی طرح نفسی نفسی کا عالم تھا۔یہ اناج جس کے ایک ایک دانے کے لیے آج یہ سب محتاج تھے ا سے اگانے والا دن رات کھیتوں میں کام کرنے والا یہی غریب عوام تو ہے پھر کیوںآج اسے گالیاں اور لاٹھیاںماری جارہی ہیں ، ایسے کئی سوال پردیسی نے اٹھائے ہیں جو سرمایہ داروں اور سماج کے ان ساہوکاروں سے جواب مانگتے ہیں :پردیسی کا یہ افسانہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ کس طرح بھوک اور افلاس غریبوں کو توہین اور ذلت سہنے پر مجبور کرتی ہے۔

افسانہ حجھنجھنامنٹو کے افسانے ’’ منگو کو چوان ‘‘ کی یاد دلاتا ہے ۔اس افسانے کا مرکزی کردار گنگا دھر ہے جو شہر میں نوکری کرتا ہے ۔ایک دن گنگا دھر کی ملاقات شہر سے گھر لوٹتے وقت تانگہ بان سے ہوتی ہے جس کے تانگے پر سوار ہو کر وہ گھر جاتا ہے ۔منٹو کے منگو کی طرح پر دیسی کا تانگہ بان بھی ان پڑھ ہے ،وہ بھی مقامی اور ملکی سیاست سے دلچسپی رکھتا ہے ۔منگو کو چوان انگریزوں سے نفرت کرتا ہے اور پردیسی کا تانگے بان شخصی راج سے ، دونوں کے دلوںمیںنفرت اور بدلے کی آگ دہکتی ہیں۔پردیسی کا تانگے بان گنگا دھر سے یوں مخاطب ہوتا ہے :

’’ہم مسکین ضرور ہے ۔ مگر دولت کون پیدا کرتا ہے ، اناج کون اُگاتا ہے ، ریشم اور پشمینہ کون بناتا ہے۔اس پر ہم بھو کو مریں ، گالیاں کھائیں۔۔۔پنڈت تم بزدل ہو نوکریوں کے لیے مرتے ہو،مگر ہم ایسا نہیںہونے دیںگے ہمیںپیٹ بھر روٹی ملنی چاہئے ۔۔۔‘‘۷

نفرت کی یہ آگ منٹواور پردیسی دونوں کی یہاں ایک ہی چیز کو لے کے جنم لیتی ہے اور وہ ہے ظلم وجبر،ناانصافی،سماجی استحصال وغیرہ وغیرہ۔ہندوستان میں جس طرح انگریزوں نے جبری حکومت کے تحت عوام کو غلام بنا کے رکھا تھا ان سے ان کے بنیادی حقوق تک چھین لیے تھے ٹھیک اسی طرح کشمیر میں ڈوگرو نے اپنا ظلم اور جبری قبضہ جاری رکھا تھا ۔

 ’’بہتے چراغ‘‘ پردیسی کا وہ شاہکار افسانہ ہے جس کے نام پر ان کا تیسرا اور آخری افسانوی مجموعہ شائع ہوا ہے۔اس افسانے کو ادبی حلقوں میں کافی مقبولیت حاصل ہوی ۔پردیسی نے یوںتوہر ایک موضوع پرقلم اُٹھایا ہے لیکن جب وہ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے لگے تو ان کے سامنے کشمیریوں پر ساہوکاروں اور ٹھیکیداروں کا ظلم و ستم ہی نہیںتھا بلکہ کشمیریوںکے وہ فرسودہ رسوم و روایات بھی تھے جس نے اس قوم کو بری طرح جگھڑکے رکھاتھا ۔ یہ توہم پرستی ایک قوم میںجب جنم لیتی ہے تو وہ چاروںطرف بے بسی اور بیکسی کاشکار ہوتا ہے ۔پردیسی غلامی میں سڑے ہوئے اس کشمیری قوم کو شخصی نظام، مذہبی تعصبات، توہمات اور رجعت پسندی کے خلاف اُکساتا ہے ۔اس افسانے کا بنیادی موضوع توہم پرستی ہے ۔بنگالی جوڑا پرپھول اور نلنی کشمیر سیاح بنکر آئے تھے اور قادر کے ہوس بوٹ میںقیام پذیر تھے ۔ایک دن نلی ملہ قادر سے گفتگو میں اس بات کا انکشاف کرتی ہے کہ ان کے یہاں کوئی اولاد نہیںہیں،بچے کے بغیر عورت کی زندگی بے کیف ہے ۔ملہ قادر نلی کے اس مسئلے کا حل اس طرح نکالتا ہے :

’’ میں سمجھ گیا بی بی جی آپ کل شام کو نہا کر گھی کا ایک چراغ دریا میں بہادیجئے خدا آپ کی مراد پوری کرے گا ۔دس برس پہلے یہی چیز ایک انگریز کی بی بی نے بھی کی تھی اور دوسرے سال اُس کا بچہ ہوگیا ۔۔۔ہم بھی جو کچھ جہلم سے مانگتے ہیںہمیں ملتا ہے‘‘۔۰۸

پریم ناتھ پردیسی نے کشمیریوں کی سماجی زندگی کے کامیاب عکاسی کی ہیں ۔ان کی تہذیب ، انکے عادات و اطوار ، گھریلو ںحالات اور سماجی رسوم پر بڑی کامیابی کے ساتھ قلم اُٹھایا ہے۔واقعی ان کے افسانوں میںاُبھرتے ہوئے کشمیر کی سچی تصویر ملتی ہے ۔پردیسی نے کشمیر کے روح میںاتر کر یہاں کی حقیقتوں کو اپنے افسانے میں ڈھالا ہے ۔کشمیر کو اصل صورت کے ساتھ پیش کرنے میں انہیں اولیت کا شرف حاصل ہے ۔اسی لیے سہیل عظیم آباد لکھتے ہیں ۔

’’پردیسی کی زندگی کشمیر کے لیے تھی،ان کا فن کشمیر کے لیے تھا‘‘۰۹

سید احتشام حسین بھی یوم رقم طراز ہیں :

 ’ پردیسی کے افسانوں میںاس کشمکش کا شعور رہتا ہے جسے فلسفیانہ تو نہیں کہہ سکتے ہیں لیکن اُ ن میںفکر انگیز عناصر ضرور ملتے ہیں ۔پردیسی کو کشمیر کی زندگی ، تہذیب اور روایات سے محبت تھی اور ان ہی کو وہ اپنے افسانے میں پیش کر کے عام انسانوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے یہی ایک افسانے نگار اور انسان کی حیثیت سے ان کی لڑائی ہے۔۱۰

پردیسی نے بچہ مزدوروںکوبھی اپنے افسانوں میںجگہ دی جہاں پر وہ یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح سرمایہ دار طبقہ بچوں سے مزدوری کروا کے ان کے بچپن کو کھلنے سے پہلے ہی موت کے حوالے کرتے ہیں۔ایسے افسانے نہ صرف دل دہلانے والے ہیں بلکہ یہ سماج کے اُس طبقے پر چوٹ ہے جو پیسوں کے بل پر غریبوں کا استحصال کر تے ہیں۔

مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک وہ پہلی باضابطہ تحریک تھی جس کے تحت کشمیر میں افسانے لکھے اور پڑھے گئے اس نے یہاں کے بے بس اور مظلوم عوام کو زبان بخشی اور انہیں صحیح راستہ دکھایا ۔کشمیر میں یہ تحریک سب سے زیادہ کامیاب اور فعال تحریک ثابت ہوئی ۔عصر حاضر میں بھی اس تحریک کے تحت افسانے لکھے جارہے ہیں ۔

حوالہ جات

;1اردو دنیا ۔اکتوبر۔2011ص۔41۔غلام نبی خیال

 ;2جموںو کشمیر میں اردو ادب کی نشوونما ۔ڈاکٹر برج پریمی ۔ص 107

3جموںو کشمیر میں اردو ادب کی نشوونما ۔ڈاکٹر برج پریمی ۔ص109

   4جموںو کشمیر میں اردو ادب کی نشوونما ۔ڈاکٹر برج پریمی ۔ص110

 5افسانہ ۔  اگلے سال ۔ پریم ناتھ پردیسی ۔ ص 144-137

 6افسانہ ۔ کاریگر ۔ پریم ناتھ پردیسی ۔ص43

 7افسانہ ۔ جھنجھنا ۔ پریم ناتھ پردیسی  ۔ ص267

8افسانہ ۔ بہتے چراغ  ۔  پریم ناتھ پردیسی  ۔ ص293

9ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب ۔ پروفیسر حامدی کا شمیر ی ۔ ص 163

10پریم ناتھ پردیسی۔عہدشخص اور فن۔ڈاکٹربرج پریمی۔جلد ورق

*****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.