گُلبَدَنی از جوش ملیح آبادی اور گُلبَدَنی از سید نصیر الدین نصیر گولڑوی :تجزیاتی وتقابلی جائزہ

آصف علی

لیکچرر اردو، ورچوئل یونیورسٹی،لاہور پاکستان

Email: asifali00733@gmail.com

یہ انسانی فطرت ہے کہ جس شے میں اسے کشش محسوس ہووہ اس سے متاثر بھی ہوتا ہے جس کی بے شمار مثالیں عام زندگی میں دیکھی جا سکتی ہیں۔خاص طور پرفطرت اور مناظر فطرت کے حوالے سے انسان بہت جلد اثرات قبول کرتا ہے ۔چونکہ فطرت کا تعلق رومان سے ہے اور رومانی جذبات کی بہترین عکاسی شاعری سے ہوتی ہے، اس لیے شاعری بھی انسان پر اسی طرح اثر انداز ہوتی ہے جیسے کہ فطرت یا علائقِ فطرت۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے  کہ اگر شاعری میں اثر انداز ہونے کی خاصیت موجود ہے تو کیا شاعری پر بھی کسی شے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں یا شاعری بھی کسی شے سے متاثر ہوتی ہے؟ تو اس کا جواب یقینا ہاں میں ہے کہ شاعری اگرچہ مجسم نہیں بلکہ مجرد ہے لیکن پھر بھی یہ مختلف عوامل سے متاثر ہوتی ہے جن میں سے شاعر کا تخیل اور مشاہدہ اولیت کے حامل ہیں۔مشاہدے میں ارد گردکے حالات، ماحول،موسم اور شاعر کی داخلی کیفیات وغیرہ شامل ہیں۔ مذکورہ عوا مل کو مدِ نظر رکھیں تو بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اردو شاعری بھی ابتداًفارسی شاعری سے بالعموم متاثر تھی اور عہد بہ عہد شعرا فارسی شاعری، ہند ایرانی تہذیب اورایک دوسرے سے بھی متاثر ہوتے رہے جن میں شمال اور جنوب کے مرثیہ گو شعرا کے ہاںیہ اثرات نمایاں تھے، بلکہ شمال میں حاتم، ناجی، آبرو، خانِ آرزو اور مرزا مظہر جانِ جاناں وغیرہ تو شاعری بھی فارسی ہی میں کرتے تھے ۔ ان اثرات کا مشاہدہ کلاسیکی عہد میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں کیا جا سکتا ہے جن میں استاد شعرا اور ان کے تلامذہ کی فوجِ ظفر موج طرحی غزلیں کہ کر لاتی تھی۔ ان مشاعروںمیں فکری اور فنی ہر دو حوالوں سے کلام کو دیکھا جاتا اور اسی بنیاد پر کلام کی تعریف و تنقیص کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ ایک طویل عرصے تک جاری رہا اور مختلف شعرا اور ان کے تلامذہ کے درمیان ادبی معرکے پیش آئے۔ طرحی مشاعروں میں ایک مصرع طرح دیا جاتا تھا جس پرشعرااپنا زور صرف کر کے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے،اس طرح بعض اوقات مضامین میں توارد ہو جاتا تو سرقے اور خوشہ چینی کے الزامات بھی لگا دیے جاتے تھے، لیکن اس سب کے باوجود تھوڑے بہت اثرات ہر شاعر پر مرتب ضرورہوتے تھے۔اس توارد کی مثالیں کلاسیکی شعرامیں داغ،امیر مینائی اور انیس و دبیر کے ہاں خاص طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ بالخصوص داغ اور امیر مینائی کے قیامِ رام پور کا زمانہ دیکھیں تو امیر مینائی کے کلام پر داغ کے نمایاں اثرات دکھائی دیتے ہیں۔

 درجِ بالا نکات کی روشنی میں یہ کہنا بالکل بے جا نہیں ہوگاکہ آج کے دور میں بھی شعرا ایک دوسرے  سے متاثر ہو رہے ہیں۔ کہیں یہ اثرات فکری صورت میں ظاہر ہوتے ہیں تو کہیں اس خاص شاعر کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے کلام کے تتبع میں خامہ فرسائی کی جاتی ہے۔ کلاسیکی عہد میں اس اثر پذیری کو جانچنے کے معیارات شاعر کی برتی گئی زبان، اسلوب، معنی آفرینی، تلازمات اور فنی لوازمات ہوتے تھے جبکہ عہدِ حاضر میں کسی بھی فن پارے کو پرکھنے کے لیے باقاعدہ تنقیدی دبستان موجود ہیں جن میں کسی فن پارے کی فنی، اسلوبیاتی، سیاسی، سماجی، معاشرتی، نفسیاتی، جمالیاتی، ساختیاتی اور دیگر جہات کو پرکھا جا تا ہے۔

 اس تمہیدی گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ آج ہمارا موضوع اردو شاعری کے دورِ جدید کی دو شخصیات کی نظمیات کا تقابلی جائزہ پیش کرنا ہے۔ یہ دونوں شخصیات کسی تعارف کی محتاج نہیں ان میں سے ایک علامہ شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی ہیں جنھیں لوگ شاعرِ شباب اور شاعرِ انقلاب کے نام سے جانتے ہیں اور دوسرے سید غلام نصیر الدین نصیر گیلانی گولڑوی ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ہر دو حضرات عربی فارسی اور اردو زبانوں پر کامل گرفت رکھتے تھے ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ الفاظ ان کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے تھے۔ حضرتِ جوش کی ایک شاہکار نظم بہ عنوان ’’گُلبَدَنی‘‘ احباب کو اچھی طرح یاد ہے جو ان کے مجموعے ’’محراب و مضراب‘‘ میں شامل ہے۔ اسی نظم کے تتبع میں سید نصیر الدین گیلانی نے بھی ایک نظم اسی رنگ اور اسی آہنگ میں کہی ہے۔جوش کے کلام میں لکھنوی لب و لہجہ خاص طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جوش کی نظم ’’گُلبَدَنی‘‘ مسدس کی ہیئت میں ہے جس کے تیرہ(۱۳) بند ہیں، ہر بند کا چھٹا مصرع ٹیپ کا مصرع ہے جو مستزاد ہے۔ پوری نظم محاکات نگاری کا اعلیٰ نمونہ ہے جس میں محبوب کے حسن و جمال کو بیان کیا گیا ہے مثلاً غمزہ، گیسو، قامت، پیشانی، چشم، تیور اور جوبن وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔ نظم کے ہر بند میں محبوب کے بدن کی کسی نہ کسی خوبی یا خاصیت کا ذکر کیا گیا ہے۔

جوش کے تتبع میں سید نصیر الدین نصیر نے بھی اسی عنوان ’’گُلبَدَنی‘‘ کے تحت ایک نظم کہی ہے ، جوش ہی کی طرح نصیر نے بھی اس نظم کو مسدس کی ہیئت دی ہے۔ نصیر کی اس نظم میں اکیس (۲۱)بند ہیں، ہر بند کا چھٹا مصرع ٹیپ کا مصرع ہے، تاہم جوش نے ٹیپ کے مصرع کو مستزاد رکھا ہے جب کہ نصیر کے ہاں ٹیپ کا مصرع مستزاد نہیں ہے۔  نصیر کی یہ نظم ان کے مجموعے ’’عرشِ ناز‘‘ میں صفحہ ۸۱ سے صفحہ ۸۵ تک شامل ہے۔

اس تقابلی جائزے کا مقصددونوں شعرا میں سے کسی ایک کو کم تر یا دوسرے کو برتر ثابت کرنا ہر گزنہیں بلکہ ان کے کلام کا فنی اور فکری حوالے سے موازنہ کرنا ہے۔جوش بلا شبہ قادرالکلام شاعر تھے جس کا ثبوت ان کے مجموعہ ہائے شعری میں خاص طور پر طویل نظموں کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ دوسری طرف نصیر بھی زبان و بیان پر کامل دست گاہ رکھتے تھے ۔ اس تناظر میں دیکھا جاے تو یہ موازنہ ایک طرح سے دلچسپ صورت اختیار کر جاتا ہے کہ ایک موضوع پر دوحضرات نے اپنا زور صرف کیااور بحرِ معانی سے موتی چن کر ایسی خوبصورت لڑی پروئی ہے کہ پڑھنے والا بے اختیار بندشِ الفاظ اور مترنم بحر کے سحر میں کھو جاتا ہے۔

جوش اور نصیر ہر دو کی نظموں کی بحر اور اوزان ’’ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن‘‘ ہیں۔ گلبدنی کے حوالے سے نصیر اس بات کی وضاحت اپنی نظم کے آغاز میں اس طرح کرتے ہیں:

’’قارئین!  آپ میری اس نظم کو بہ اعتبارِ موضوع اور اسلوبِ بیان میرے عام رنگِ سخن سے مختلف پائیں گے۔ اس امر کی وضاحت ضروری ہے۔ ہوا یوں کہ جنابِ جوش ملیح آبادی کی نظم ’’گُلبَدَنی‘‘ کی بڑی دھوم تھی ایک دن دورانِ ملاقات یہ نظم سننے کا اتفاق ہوا۔ دوسرے احباب بھی موجود تھے۔ جنابِ جوش کا اندازِ بیان، لکھنوی زبان کا رکھ رکھاو، پھر ان کے پڑھنے کا انداز، بڑا ہی لطف آیا۔ یہ غالباً ۱۹۷۱ء یا ۷۲ء کی بات ہے۔ احباب نے فرمائش کی کہ میں بھی اسی انداز میں کچھ کہوں۔ ہر چند میرا یہ مذاق نہ تھا مگر:

’’ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا‘‘

چنانچہ اپنی اس نظم کو جوش صاحب کی گلبدنی کا ہم مزاج بنانے کے لیے مجبوراً مجھے خود کو اُسی بے باکانہ اور رندانہ لب و لہجے سے آشنا کرنا پڑاجو جنابِ جوش کی خصوصیت ہے۔ نظم لکھنے کا مقصد احباب کی تکمیلِ فرمائش تھی نہ کہ جنابِ جوش کی قدرتِ کلام اور زبان دانی کا مقابلہ۔ امید ہے کہ پڑھنے والے اس نظم ’’گُلبَدَنی‘‘ کو انھی معروضات کی روشنی میںدیکھیں گے۔‘‘ ۱؎

جہاں تک نصیر کی گلبدنی کا تعلق ہے تو اس میں جوش کا رنگ اور آہنگ نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے ، جس کا اظہار نصیر نے مذکورہ بالا الفاظ میں خود بھی کیا ہے۔یہ نظم جمال اور خاص طور پر محبوب ِ مجازی کے جمال سے متعلق ہے اس لیے اس میں جمالیاتی رنگ غالب ہے۔ رہی بات موضوعات کی تو دونوں شعرا نے زبان و بیان پر مکمل گرفت دکھاتے ہوئے اپنے اپنے طور پر ہر بند میں محبوبِ مجازی کی مختلف خوبیاں سمونے کی کوشش کی ہے جس میں ہر دو شعرا خاصی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔اگر ہم ان موضوعات کو ہر بند کے حوالے سے پیش کرنے کے لیے جدول بنائیں تودونوں شعرا نے ہر بند میں درجِ ذیل خوبیوں کو جگہ دی ہے:

بند نمبرجوش ملیح  آبادی        بند نمبر    سید نصیر الدین نصیر

 ۱            سیم تنی، حسن         ۱             قامت، اسنان

۲             انفاس، مژگاں          ۲             شانے، گیسو، لب پیشانی، ابرو

۳             آنکھیں، سینہ، پَلُّو    ۳             انفاس ، زلف، جوبن، چہرہ

۴             زلف، شوخی، عشوہ، مہندی۴ قامت، زلف، پسینہ

۵             مسام، انداز، آواز، گیسو۵       انداز،ادا، گیسو، لہجہ

۶             گردن، کلائی، جوبن۶             غمزہ، اشارہ، باتیں، تبسم، شوخی، خموشی، چہرہ،سانسیں

۷             پوشاک، ہونٹ، زلف۷             تیور، ادا، نگاہیں، پلکیں، قامت

۸             پیشانی، چہرہ           ۸             ماتھا، ہونٹ، رخسار، لہجہ، گفتار

۹             زلف، انگڑائی، رخسار۹         مانگ، خال، لٹیں، زلف

۱۰           بیندی، توڑا، انگڑائی، مکھڑا، قامت       ۱۰           چال، زلف، جماہی، انگڑائی، ابرو

۱۱           خموشی، تکلم ، دلہن کا حسن۱۱            قمر، ادا، شوخی

۱۲           موباف۱۲ گفتار، جوانی، آنکھیں، خلوات و جلوت کی ادائیں

۱۳           سِن ، بانہیں             ۱۳           اعضا کی خوبصورتی

۱۴           دہان، نُطق

۱۵           گھونگھٹ، ہاتھ، کلائی

۱۶           سِن، رخسار، جلد، پلکیں، آنکھیں،

۱۷           تبسم، پہلو

۱۸           چہرہ، نظر، آنکھوں کے ڈورے، شکل و شباہت

۱۹           آواز، لہجہ، زنخداں، سیم تنی

۲۰           ۔۔۔۔۔

۲۱           جسم، نظر، بانہیں

چونکہ دونوں شعرا کاموضوع ایک ہے اس لیے الفاظ و تراکیب کا استعمال بھی ایک جیسا ہی ملتا ہے۔ نصیر نے بھی وہی تکنیک استعمال کی ہے جو ہمیں جوش کے ہاں نظر آتی ہے۔ صنعتِ سوال کا استعمال خوبصورتی سے کیا گیا ہے، اور استفہامِ اقراری کو خاص طور پر دونوں شعرا نے مدِ نظر رکھا ہے۔قوافی کو دیکھا جائے تو دونوں شعرا نے ایک جیسے قوافی برتے ہیں، جب کہ کئی جگہوں پر ہوبہو وہی قوافی بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ بند دیکھیے جن میں وہی قوافی باندھے گئے ہیں جنھیں دونوں شعرا نے اپنے اپنے ڈھنگ سے باندھا ہے۔

قامت کا خم و چم ہے کہ دجلے کی روانی

نقشِ کفِ پا رو کشِ صد تاج کیانی

زلفوں کے سیہ ابر کی وہ عطر فشانی

گُل رنگ پسینے میں ہے غرقاب جوانی

جو بوند ہے ماتھے پہ وہ ہیرے کی کنی ہے

کیا گلبدنی گلبدنی، گلبدنی ہے

۲؎

دوسری طرف جوش کے ہاںانھی قوافی کا ڈھنگ ملاحظہ کیجیے :

ہونٹوں میں ہے مہکار کہ ہے رات کی رانی

نقشِ قدمِ ناز ہے یا تاجِ کیانی

کشتی کا تلاطم ہے کہ نو کار جوانی

ساحل کا خمستاں ہے کہ پوشاک ہے دھانی

برکھا کی گھنی چھاوں ہے یا زلف گھنی ہے

کیا گلبدنی گلبدنی، گلبدنی ہے کیا گلبدنی ہے

۳؎

دونوں شعرا کے درجِ بالا بند ملاحظہ کیے جائیں تو پتا چلتا ہے کہ قافیے اگرچہ ایک جیسے ہیں لیکن ان کو باندھنے میں دونوں شعرا نے کمال مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔دونوں حضرات نے مختلف صنائع بدائع خاص طور پر صنعتِ تکرار اور رعایتِ لفظی کو بکثرت برتا گیا ہے ، جبکہ ہر دو شعراکے ہاں مرکباتِ اضافی بھی ملتے جلتے ہیں۔ ذیل کا بند نصیر کی نظم کا ہے جس میں ’دلآویزیِ سروِ چمنی،موجۂ شیریں سخنی،دوشیزۂ کہسار و غزالِ خُتَنی اور رو کشِ دُرِ عدنی ‘جیسے مرکباتِ اضافی لائقِ توجہ ہیں :

کیا حسن کا شاہکار وہ اللہ غنی ہے

قامت میں دلآویزیِ سروِ چمنی ہے

سر تا بہ قدم موجۂ شیریں سخنی ہے

دوشیزۂ کہسار و غزالِ خُتَنی ہے

دانتوں کی چمک رو کشِ دُرِ عدنی ہے

کیا گلبدنی گلبدنی، گلبدنی ہے

۴؎

جبکہ دوسری طرف جوش کے ہاں بھی ہمیں اسی قسم کا شکوہِ الفاظ نظر آتا ہے، جس میں’لرزشِ تابندگیِ سیم تنی،رشکِ مہِ کنعاں، آمادگیِ دُر شکنی اور غُلغُلۂ سینہ زنی ‘جیسے مرکباتِ اضافی دیکھے جا سکتے ہیں، ملاحظہ کیجیے:

کیا شعلۂ طرار وہ اللہ غنی ہے

کیا لرزشِ تابندگیِ سیم تنی ہے

رشکِ مہِ کنعاں ہے، غزالِ خُتَنی ہے

افشاں ہے کہ آمادگیِ دُر شکنی ہے

تاروں میں بپا غُلغُلۂ سینہ زنی ہے

کیا گلبدنی گلبدنی، گلبدنی ہے ۔۔۔۔   کیا گلبدنی ہے

۵؎

طوالت کے لحاظ سے دیکھیں تو نصیر کی نظم جوش سے آٹھ بند زیادہ ہے اور ہر بند میں نصیر نے جوش کے مقابلے میں محبوب کی ایک سے زیادہ جمالیاتی خوبیاں بیان کی ہیں۔ تاہم دونوں شعرا میں مشترکہ خوبی یہ ہے کہ ہر دو نے اپنی نظموں میں اطناب کو خوبی سے برتا ہے، یعنی ہر بات کو مفصل انداز میں بیان کیا ہے ۔ قارئین کی آسانی کے لیے عرض ہے کہ اطناب ، ایجاز کا متضاد ہے ۔ یعنی ایجاز میں ہم کلام کو مختصر کرتے ہیں جبکہ اطناب میں کلام کو وضاحت اور کبھی کبھی غیر ضروری تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔اس پر مفصل گفتگو ہو سکتی ہے تاہم سرِ دست یہ ہمارا موضعِ سخن نہیں اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ دونوں شعرا کے ہاں ہر بند کے آخر میں جو ٹیپ کا مصرع ہے اس میں صنعتِ تکرار کا خوبصورت استعمال دیکھا جاسکتا ہے ۔ تشبیہات و استعارات بھی نصیر اور جوش کے ہاں کافی حد تک مشترک ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے نصیر نے محبوب کے قامت کو دجلے کی روانی سے تشبیہ دی ہے:

قامت کا خم و چم ہے کہ دجلے کی روانی (نصیر)

۶؎

جب کہ جوش نے محبوب کے قامت کو سروِ چمنی کہا ہے ، ملاحظہ کیجیے:

قامت کا خم و چم ہے کہ سروِ چمنی ہے (جوش)

۷؎

دونوں مصرعوں میں محبوب کے قامت کو موضوع بنایا گیا ہے، لیکن جوش نے قامت کے لیے فصیح تر تشبیہ کا استعمال کیا ہے جبکہ نصیر کے ہاں اسے دجلے کی روانی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اردو ادب میں محبوب کے قامت کوقیامت، سرو اور نخل وغیرہ سے جبکہ رفتار کو تیر، ہوا،موج یا دریا کی روانی وغیرہ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو نصیر نے قامت کے لیے دجلے کی روانی کی تشبیہ غیر موزوں طور پر برتی ہے۔ دوسری طرف جوش نے محبوب کے موجۂ انفاس یعنی سانسوں کی آمد و رفت کو دجلے کی روانی سے تشبیہ دی ہے، ملاحظہ کیجیے:

ہر موجۂ انفاس میں دجلے کی روانی (جوش)

۸؎

قامت اور روانی(محبوب کا اندازِ خرام) کی ذیل میں جوش نے نصیر الدین نصیر کے مقابلے میں فصاحت کے ساتھ باندھا ہے۔ نصیر الدین نصیر کی نظم میں بھی تشبیہات جوش ہی کی طرح کلاسیکی طرز کی ہیںجن میں مظاہرِ فطرت کو بطور مشبہ بہٖ استعمال کیا ہے ملاحظہ کیجیے:

انفاس کی خوشبو ہے کہ مہکا ہوا گلشن

زلفوں کی گھنی چھاؤں کہ امڈا ہوا ساون

جھکتی سی نگاہیں تو ابھرتا ہوا جوبن

بجتے ہوئے پنڈے کے وہ ہر تار کی جھن جھن

چہرہ جو گلابی تو قبا ناروَنی ہے

کیا گلبدنی گلبدنی، گلبدنی ہے

۹؎

درجِ بالا بند کے تیسرے مصرعے میں نصیر نے جھکنے اور ابھرنے کو بطور تضاد بہت خوبصورتی سے برتا ہے۔اسی طرح ذیل کے بند کو ملاحظہ کیجیے جس میں ایک طرف تو خوبصورت تشبیہات نے کلام کو سنوارا ہے تودوسری طرف مفرس الفاظ نے مصرعوں کی خوبصورتی میں اضافہ کیا ہے۔ رخشندہ، تابندہ ،رقصندہ اور جنبیدہ کا صوتی آہنگ جہاں ایک طرف سننے میں بھلامعلوم ہوتا ہے تو دوسری طرف ان کے استعمال نے بندکے ہر مصرعے کو اٹھا دیا ہے جس پر بے اختیار شاعر کی زبان دانی کی خوبی کے لیے داد و تحسین نکلتی ہے، مذکورہ الفاظ کا آہنگ ملاحظہ ہو :

یہ مانگ میں افشاں ہے کہ رخشندہ ستارے

اٹھتا ہوا جوبن ہے کہ مڑتے ہوئے دھارے

تابندہ خد و خال کہ رقصندہ شرارے

جُنبیدہ لٹیں ہیں کہ چکاروں کے طرارے

ساون کی سیہ رات ہے یا زلف گھنی ہے؟

کیا گلبدنی گلبدنی، گلبدنی ہے

۱۰؎

نصیر الدین نصیر کو جوش پر ایک حوالے سے فوقیت حاصل ہے کہ انھوں نے محبوب کے اندازِ تخاطب اور قہر کی جو تعریف کی ہے وہ ہمیں جوش کے ہاں نظر نہیںآتی،جب کہ نصیر اس انداز کو جس طرح سے لفظوں کا جامہ پہنایا ہے وہ نصیر ہی کا خاصہ ہے۔ ان کا یہ انداز ملاحظہ کیجیے:

وہ قہر سے دیکھے تو سمندر کو سکھا دے

چاہے تو اداوں سے پہاڑوں کو ہلا دے

شوخی پہ جو اترے تو دو عالم کو نچا دے

کیوں خانۂ عشاق کو پل بھر میں نہ ڈھا دے

کعبے میں جسے حوصلۂ نقب زنی ہے

کیا گلبدنی گلبدنی، گلبدنی ہے

۱۱؎

اندازِ قہر کو بیان کرنے کے بعد نصیر نے محبوب کے طرزِ خطابت کو جس خوبصورتی سے بیان کیا ہے اس کی مثال بھی جوش کے ہاںمفقود ہے نیز لاجواب تشبیہات کو مشکل انداز میں پیش کیا ہے، محاکات اور تمثال کاری کا مرقع یہ بند ملاحظہ کیجیے :

غنچے کا دکھاتی ہے سماں تنگ دہانی

نُطق ایسا کہ بپھرے ہوئے دریا کی روانی

اندازِ تخاطب میں غرورِ ہمہ دانی

الفاظ میں ہیں گوہرِ صد رنگ معانی

ان کا جو نہ قائل ہو وہ گردن زدنی ہے

کیا گلبدنی گلبدنی، گلبدنی ہے

۱۲؎

سید نصیر نے اس نظم میں مختلف تلمیحات کو بھی نہایت خوبصورت انداز میں برتا ہے، ان میں سے کچھ تلمیحات کو جوش بھی اپنی نظم میں برت چکے ہیں تاہم نصیر نے انھیں مختلف اندازمیں برتا ہے، لیکن ان سے ہٹ کر بھی نصیر نے کچھ تلمیحات کو شاملِ نظم کیا ہے جو صرف نصیر ہی کی نظم میں ملتی ہیں، درجِ ذیل جدول میں جوش اور نصیر کی برتی گئی تلمیحات کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے :

سید نصیر الدین نصیرجوش ملیح آبادی

                ٭             درِ عدنی ٭              دجلہ

                ٭             عقیقِ یمنی               ٭             عقیقِ یمنی

                ٭             دجلہ،٭    سایۂ ظلمات

                ٭             تاجِ کیانی ٭             چشمۂ حیواں

                ٭             کعبہ٭      قرآں

                ٭             خسرو٭    حرم و دیر

                ٭             اعلانِ خدائی            ٭             غزنی،

                ٭             بت شکنی٭              بت شکنی

                ٭             نعلین

                ٭             داورِ کونین

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نصیر کی یہ نظم جوش کی نظم سے متاثر اور اسی رنگ میں رنگی ہوئی نظر آتی ہے۔ ’’گُلبَدَنی‘‘ میں الفاظ کا چناو عمدگی سے کیا گیا ہے۔فارسی، عربی اور ہندی الفاظ و مرکبات کو چابک دستی سے برتا گیا ہے۔ اگر زبان کی خوبصورتی، رکھ رکھاو اور لفاظی کو دیکھا جاے تو لکھنوی کلاسیکی روایت کا انداز نظر آتا ہے۔ بحر رواں، مصرعے چست اور الفاظ و مرکبات اپنی اپنی جگہ مناسبت سے برتے گئے ہیں۔ مسدس کی ہیئت میں لکھی گئی اس نظم میں کہیں پر بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ کوئی ایک لفظ بھی بھرتی کا موجود ہے جو اس بات پر دالّ ہے کہ زبان و بیان پر شاعر کی گرفت نہایت عمدہ ہے۔ سید نصیر الدین نصیر کی شاعری میں بالعموم اور اس نظم میں بالخصوص خوش ذوقی، حسن پرستی، اور جمالیت پسندی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ وہ محبوب کے سراپے کو بیان کرتے ہیں تو اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مظاہرِ فطرت اور ان میں موجود رومانس کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر اس مشاہدے کو الفاظ کا روپ دے دیتے ہیں۔ ہم نے ابتدا میں عرض کیا کہ جوش عربی و فارسی پر کمال گرفت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی مذکورہ نظم میں ہمیں غرابتِ الفاظ کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔

 نصیر الدین نصیر میں بھی یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی، وہ بھی عربی و فارسی کے متبحر عالم تھے اس لیے وہ ان زبانوں سے بھی خوب کام لیتے ہیں اور موقع بہ موقع اپنے کلام میں اس خوبی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس نظم میں صنائع بدائع کا استعمال بھی بھرپور کیا گیا ہے۔ مراعاۃ النظیر، تکرار، تضاد اور تلمیح وغیرہ کے استعمال سے نظم کی خوبصورتی دوچند ہو گئی ہے، لیکن نصیر کے رنگِ سخن میں جوش کی جھلک غالب اور نمایاں ہے۔چونکہ یہ نظم جوش کی پیروی میں لکھی گئی ہے اس لیے نصیر نے جوش کے جیسا شکوہِ الفاظ اس ڈھنگ سے اپنایا ہے کہ اگر دونوں نظموں کو باہم ملا دیا جائے تو ان میں یہ امتیاز کرنا مشکل ہوگا کہ یہ نظم جوش کی ہے یا نصیر کی۔

 نصیر کے ہاں ذوقِ جمال کا بھر پور اظہار پایا جاتا ہے، انھوں نے زبان کی تہذیب کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ان کا مشاہدہ وسیع ہے جس میں نہ صرف اردو بلکہ عربی اور فارسی روایات کا رچاو بھی موجود ہے۔ ان روایات کا اثر ان کے ڈکشن میں نمایاں نظر آتا ہے، قصائد، مناقب اور سلام میں انھوں نے عام طور پر غزل کی ہیئت کو اپنایا ہے لیکن اس نظم میں انھوں نے شعوری طور پر مسدس کی ہیئت کو اپنایا ہے۔ عمدہ زبان و بیان کی حامل یہ نظم بہ عنوان’’ گلبَدَنی‘‘ بلاشبہ خارجیت کی شاعری کی ایک عمدہ مثال ہے۔

حواشی و حوالہ جات

۱۔            سید نصیر الدین نصیر۔’’بہ سلسلہ ٔ گلبدنی مشمولہ عرشِ ناز‘‘۔ اسلام آباد:مہریہ نصیریہ پبلشرز۲۰۰۰ء، ص۔۸۱

۲۔            سید نصیر الدین نصیر۔’’ عرشِ ناز‘‘۔ اسلام آباد:مہریہ نصیریہ پبلشرز۲۰۰۰ء، ص۔۸۲

۳۔            جوش ملیح آبادی۔’’محراب و مضراب‘‘۔لاہور: جنگ پبلشرز، ۱۹۹۳ء،ص۔ ۴۸۵

۴۔            سید نصیر الدین نصیر۔’’ عرشِ ناز‘‘۔ اسلام آباد:مہریہ نصیریہ پبلشرز۲۰۰۰ء، ص۔۸۲

۵۔            جوش ملیح آبادی۔’’محراب و مضراب‘‘۔لاہور: جنگ پبلشرز، ۱۹۹۳ء،ص۔۴۸۲

۶۔            سید نصیر الدین نصیر۔’’ عرشِ ناز‘‘۔ اسلام آباد:مہریہ نصیریہ پبلشرز۲۰۰۰ء، ص۔۸۲

۷۔            جوش ملیح آبادی۔’’محراب و مضراب‘‘۔لاہور: جنگ پبلشرز، ۱۹۹۳ء،ص۔۴۸۳

۸۔            جوش ملیح آبادی۔’’محراب و مضراب‘‘۔لاہور: جنگ پبلشرز، ۱۹۹۳ء،ص۔۴۸۳

۹۔            سید نصیر الدین نصیر۔’’ عرشِ ناز‘‘۔ اسلام آباد:مہریہ نصیریہ پبلشرز۲۰۰۰ء، ص۔۸۲

۱۰۔          سید نصیر الدین نصیر۔’’ عرشِ ناز‘‘۔ اسلام آباد:مہریہ نصیریہ پبلشرز۲۰۰۰ء، ص۔۸۳

۱۱۔          سید نصیر الدین نصیر۔’’ عرشِ ناز‘‘۔ اسلام آباد:مہریہ نصیریہ پبلشرز۲۰۰۰ء، ص۔۸۴

۱۲۔          سید نصیر الدین نصیر۔’’ عرشِ ناز‘‘۔ اسلام آباد:مہریہ نصیریہ پبلشرز۲۰۰۰ء، ص۔۸۴

****

Leave a Reply

1 Comment on "گُلبَدَنی از جوش ملیح آبادی اور گُلبَدَنی از سید نصیر الدین نصیر گولڑوی :تجزیاتی وتقابلی جائزہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Muhammad Shahid
Guest
بہت خوب۔
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.