بنگلہ تہذیب و تمدن
ڈاکٹر شاہ نواز فیاض
شاہین باغ ، نئی دہلی
بنگال ہمیشہ ہی سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کے بڑے لوگوں نے اس شہر کی سیر کی۔ قدیم روایت کا یہ شہر اپنی تہذیب وتمدن کا بہترین عکاس ہے۔ندی، نالے ، پوکھر،پھل، پھول ، سبزی،کھیتی، فصل، کھان پان، قدرتی مناظر ، آب وہوا،تہوار، عبادت، ناچ رنگ ، میلے اورحسن ِبنگال دنیا بھر میں مشہور ہیں۔بنگالی بہت جذباتی اور محنت کش ہوتے ہیں۔شاید اسی لیے ہر موقع پر لوگ سڑک پر اپنا احتجاج درج کرانے آجاتے ہیں۔ یہ ان کے جذباتی ہونے کی سب سے بڑی مثال ہے۔ رقص وموسیقی، ادب لطیف ، کھان پان کے علاوہ تجارت وملازمت کے لیے بھی یہ شہر ہمیشہ ہی سے لوگوں کی توجہ کا خاص مرکز رہا ہے۔ اپنی عظیم شخصیات کا کس طرح سے اعتراف کیا جائے، یہ اہل بنگال سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ٹیگور کی قدردانی اس کا بین ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ بھی بنگال اور اہل بنگال اپنی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر عالمی منظر نامے پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔
صنعتی علاقے ہوں یا پھر شہری علاقے، یہاں کی تہذیب گاؤں دیہات سے مختلف ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صنعتی علاقے اور شہروں میں مختلف جگہوں کے لوگ بستے ہیں، اس لیے ان میں اصل تہذیب وتمدن کی جھلک ذرا کم ہی نظر آتی ہے۔ اسی طرح سے بنگلہ تہذیب وتمدن سے اسی وقت آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے، جب بنگال کے گاؤں دیہات کا سفر کیا جائے۔ نہ صرف بنگال کا بلکہ پورے ہندوستان میں تہذیب وتمدن کا گہرا تعلق دیہاتوں سے ہے۔ کھان پان ، ناٹک اور اس طرح کی دیگر چیزوں کو اصل روپ میں دیہات میں ہی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ بنگال کے مناظر، ندی نالے، چرند پرند، دھان اور پاٹ کے کھیت، اسٹیمر، لونچ اور ناؤں میں سفر، مانجھی کی زندگی اور اس کے پر سوز بھاٹیالی نغموں کا ذکر اور دیہات کی صبح وشام، شب و روز کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں چند اہم خصوصیات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
ندی، نالے اور پوکھر:بنگال میں ندی، نالے اور پوکھر انسانی زندگیوں کے لیے ناگزیر ہے۔ بنگالیوں کا اصل کھان پان کا تصور پانی کے بغیر ہے ہی نہیں۔ کیوں کہ ان کا اصل کھان پان مچھلی اور بھات ہے۔ مچھلی اور چاول کا پورا دارومدار پانی سے ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے یہاں ندی، نالے اور پوکھر کی بہت اہمیت ہے۔شہر سے دور کے علاقے میں سڑک کے کنارے چھوٹے چھوٹے مکانات کے آگے یا پیچھے ، دائیں یا بائیںجہاں بھی مناسب جگہ ہو، ایک چھوٹا سا پوکھر ضرور ہوتا ہے۔ جس میں مچھلیاں پالی جاتی ہیں۔ بنگالی اس کا بہت اہتمام کرتے ہیں۔ اسی لیے یہ لوگ مہمانوں کے سامنے تازہ مچھلی پیش کر تے ہیں۔جہاں یہ ان کی پسندیدہ غذا ہے، وہیں آسانی سے دستیاب بھی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سے پوکھر کے ارد گرد یا جہاں بھی دوچار درخت لگانے کی جگہ ہو، پورے بنگال میں کیلے، آم ، ناریل اور سپاری کے درخت ہوں گے۔ ان میں سے اگر کچھ نہیں ہوگا تو پانس کے جھنڈ ضرور ہوں گے۔ کیلے اس لیے لگاتے ہیں کہ کچے کیلے سے سبزی بنا لیتے ہیں۔ اسی لیے اسے پانی کا دیش بھی کہا جاتا ہے۔
پھل، پھول اور سبزی:بنگال کے میوے کی کئی بڑے لوگوں نے تعریف کی ہے۔ اس ضمن میںمرزا غالب کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ غالب نے بنگال کے میوہ کا اپنے خطوط میں بھی ذکر کیا ہے۔ڈاب(ناریل کا پانی) اور آم (ہگلی کا آم)کا بہت سے شعرا و ادبا نے اپنی تخلیق میں ذکر کیا ہے۔ یہاں کے باغات اور پھلوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔بنگال کے حسن کو سپاری اور ناریل کے درختوں کے بغیر کیسے مکمل سمجھا جا سکتا ہے۔ سید لطف الرحمن نے بنگال کے پھل، پھول، سبزی کے علاوہ مختلف چیزوں کا بہت خوبی سے اپنی نظم کے ایک حصہ میں بیان ک یا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظم کا وہ حصہ یہاں نقل کردیا جائے:
سیکڑوں اقسام کے پھل اور کیا کیا سبزیاں
نوش وخور کے واسطے سامانِ گونا گوں یہاں
آم، کیلا، ناشپاتی، اور لیچی، ناریل
سیب، نارنگی، پپیتا، اور خربوزہ یہاں
تاربوز، انگور، پیارا اور نارنج و انار
چائے پتی اور قہوہ زعفران خوشگوار
دھان، گیہوں، بونٹ دالیں اور مکّا باجرا
سیم، پلول اور جھینگا، پھول گوبھی، لوبیا
بند گوبھی، مرچ، آلو، پیاز، کدو دہ بڑا
ساگ، مولی، لال بیگن، وہ کریلا خوش مزا
سید لطف الرحمن نے بہت کم پیرائے میں بنگال کی مختلف چیزوں (جس کا تعلق کھانے اور پینے سے ہے)کا بہت خوبی سے بیان کیاہے۔ ظاہر ہے کہ ان سب چیزوں سے بنگال کی اپنی پہچان ہے۔ ان سب کا تہذیب و تمدن سے اس لیے گہرا واسطہ ہے کہ مختلف تہوار یا پوجا پاٹ میں کسی نہ کسی چیز کا ہونا نا گزیر ہے۔ اس لیے ہم جب بھی بنگلہ تہذیب وتمدن کے حوالے سے گفتگو کریں گے، ان سب کا ذکر لازمی طورپر آئے گا۔
کھیتی، فصل اور کھان پان:بنگال کی پیداوار میں دھان خاص ہے، اس کے علاوہ پاٹ بھی ہے۔ پہاڑی علاقے چائے کی باغات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ بنگالیوں کی پسندیدہ غذا بھات (چاول) اورمچھلی ہے، جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں کا ’رس گلا‘ بہت مشہور ہے۔ اس کے علاوہ بنگالی پان بھی خوب کھاتے ہیں۔ یوں تو پان بنارس(بنارسی پان)کا مشہور ہے۔ لیکن ’بنگلہ پان‘ بھی یوپی، بہار اور ملک کے دوسرے حصے میں مشہور ہے۔ ظاہر ہے کہ بنگلہ تہذیب وتمدن کا ذکر ہو اور ان سب چیزوں کا ذکر نہ کیا جائے تو بنگلہ تمدن مکمل نہیں گردانا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے تہواروں، پوجا پاٹ اور رسم و رواج میں ان چیزوں کا خوب استعمال ہوتا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان سب کے بغیر کسی بھی قسم کی تقریب مکمل نہیں سمجھی جا سکتی۔ اس کو اس طرح سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ’پان، سپاری‘کے بغیر لکشمی دیوی کی پوجا نہیں ہوتی، اسی طرح سے دھان کی بالیاں بھی پوجا کا اہم حصہ ہوتی ہیں، مچھلی ہر تہوار کا اہم حصہ ہے، جبکہ شادی بیاہ کا تصور وہاں کے’رس گلے‘ کے بغیرنہیں کیا جاسکتا۔ یہ عام بات ہے کہ کسی بھی دیش، پردیش کی پیداوار کا تعلق وہاں کے تہذیب وتمدن سے بہت گہرا ہوتا ہے۔
تہوار، عبادت، ناچ رنگ اور میلے:گائوں کی’’لیٹو‘‘ٹولیاں بنگلہ تہذیب و تمدن کی جیتی جاگتی مثال ہے۔’’لیٹو‘‘(بنگال کے دیہات میںڈراموں کے معنی میں استعمال ہوتا ہے)میں گاؤں دیہات کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔فنی خوبیوں کی مہارت بعض حالت میں کم سن کو بھی لیٹوکا قاعد بنادیتی ہے۔قاضی نذرالاسلام کم عمر(چودہ برس)میں ہی وہ اپنی ٹولی کے قائد بن گئے تھے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ گیت کار کے ساتھ ساتھ ایک اچھے گیت گائک بھی تھے۔اس ضمن میںانہوں نے کتھا بھی تخلیق کی۔اور انہیں مناسب ’’سر‘‘بھی دیا۔وہ بانسری اور دوسرے آلاتِ موسیقی بڑی آسانی سے بجا لیتے تھے۔جو’ لیٹو ‘ٹولیاں لوگوں کی توجہ کا خاص مرکز تھی، اب اس میں لوگوں کی دلچسپی بہت کم ہوگئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ چیزوں کا آسانی سے میسر ہونا ہے۔ ورنہ ایک زمانے میں یہ لیٹو ٹولیاںلوگوں کی دلچسپی کا نہ صرف سامان ہوتی تھیں، بلکہ بنگلہ کے مختلف حصوں کی بھر پور نمائندگی ہوتی تھی۔ لیکن ترقی نے ان سب کو اس طرح سے نگل لیا کہ اب ان کا ذکر ہی ہوتا ہے یا پھر کبھی کبھی عملی صورت میں کہیں نظر آجاتا ہے۔
بنگلہ شعر وادب کے علاوہ وہاں کی طرز معاشرت کو دوسری زبانوں کے لوگوں نے جس طرح سے اپنی تخلیق کا موضوع بنایا ہے، اس سے وہاں کی بود وباش، کھان پان کے علاوہ ادب لطیف کی بہت سی صورت نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال ٹیگور کی کہانیاں، ڈرامے اور شاعری کا بہت بڑا حصہ ایسا ہے، جسے انھوں نے دیہات کی طرز معاشرت سے اخذ کیا تھا۔ ٹیگور کے والد نے گائوں ’’شلیڈا‘‘کی جاگیر کے انتظام کے لیے بھیجا تھا۔اس سے قطع نظر کہ ٹیگور کو گائوں کی زندگی اور جائیداد کے بندوبست کی مطلق پرواہ نہ تھی اور نہ اس سے کوئی ذہنی مناسبت ہی تھی۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ شاعری میں جذبات، تاثرات اور احساسات گائوں کی اسی زندگی کی رہینِ منت ہیں۔یہیں ان کو کسانوں کی سادہ زندگی اور طرز بود و باش کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔واضح رہے کہ ٹیگور ’’شلیڈا‘‘گائوں میں سترہ سال اقامت پذیر رہے۔ یہی دیہی زندگی ٹیگور کی بہت سی اعلی تخلیقات کا سبب بھی قرار پائیں ۔ٹیگور کی شاعری کا ایک بڑا حصہ موسیقی سے عبارت ہے ،کلام کی یہی موسیقیت پڑھنے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہے۔بنگال کا ادبی پیرایہ اسی میں مضمر ہے۔
بنگال کو ایک طرح سے تہواروں کا مرکزبھی کہا جاتا ہے۔اس تعلق سے شانتی رنجن بھٹیا چاریہ نے لکھا ہے:
’’بنگلہ زبان میں ایک کہاوت ہے-’’بارو ماشے تیرو پربن‘‘-یعنی ۱۲ ماہ میں ۱۳ تہوار-یہ اس لیے کہتے ہیں کہ بنگال میں بہت زیادہ تہوار اور پوجائیں ہیںجس سے پتا چلتا ہے کہ عہد قدیم میں بنگال نہایت ہی خوش حال ملک تھا ورنہ ہر روز عید کیوں کر ہوتی۔؟ اگر بنگال کے مختلف تہواروں کا ایک حساب لگایا جائے تو ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی تہوار کا دن ضرور پڑے گا۔ کئی بڑے پوجاؤںکے موقع پر میلے بھی ہوتے ہیں۔ اب کئی قدیم تہوار برائے نام ہی باقی رہ گئے ہیں لیکن جو ہیں ان کو بنگالی خوب دھوم دھام سے مناتے ہیں اور اپنا آخری پیسہ تک خرچ کر دیتے ہیں۔‘‘
(اردو ادب اور بنگالی کلچر۔شانتی رنجن بھٹیا چاریہ۔ص،۱۰۶)
بنگال میں’ کالی دیوی‘کے کئی مندر ہیں۔ کالی پوجا بنگالیوں (ہندو بنگالیوں)کا بڑا تہوار ہے۔ اس پوجا کو بہت تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بنگال کا سب سے بڑاتہوار(جسے بنگال کا قومی تہوار بھی کہا جا تاہے)’درگا پوجا‘ہے۔ چار دنوں تک خوب دھوم دھام سے اس تہوار (پوجا)کو منانے کے بعد بڑی بڑی مورتیوں کو خوب سجا کر بینڈ باجے کے ساتھ جے جے کے نعرے لگاتے ہوئے دریا یا پھر کسی بڑے پوکھرے میں ڈبو(بسرجن)دیتے ہیں۔ بنگال میں رہ کر ان تمام پوجاؤں کی دھوم دھام سے ہرکوئی متاثر ہو جائے گا۔ یہ بنگالیوں کا جنون ہی کہا جائے گا کہ وہ کسی بھی چیز کو غیر سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کی پوجا بھی سماجی زندگی کا ایسا آئینہ ہے، جہاں بیک وقت بہت کچھ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
بنگالی سماج میں لوک کتھائیں، لوک گیت، لوک ناچ اور چتر کلام وغیرہ کو بنگلہ تہذیب سے ہر گز جدا نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ یہ ساری چیزیں بنگال کی سماجی زندگی کی ایک طرح سے روح اور بنگالی تمدن کی بولتی تصویرہیں۔مانجھی کے بھٹیالی گیتوں کا ٹیگور اور دوسرے شعرا نے خوب ذکر کیا ہے۔ بنگال کی تہذیبی زندگی میں یہاں کے آدی باسیوں کا بہت اہم کردار ہے، ان میں سنتھالی بطور خاص ہیں۔ان کا رقص’سنتھالی ناچ‘نہ صرف مشہور ہے، بلکہ بنگلہ تہذیب کا جزو لا ینفک ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بنگال میں کھان، پان، رقص وموسیقی، تہوار، پوجا پاٹ میں وہاں کی عوامی زندگی کا بہت عمل دخل ہے۔ اس لیے چیزوں کے الگ ہونے کے باوجود یہ سب بنگالی تہذیب و تمدن کا ایسا جزو ہیں، جن کے بغیر بنگال کی تہذیبی زندگی کا مکمل خاکہ نہیں پیش کیا جا سکتا۔
٭٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!