تصوف،اردوشاعری اور اُس کاپیش و پس
ڈاکٹر عطیہ رئیس
کلاں محل ، دریاگنج، نئی دلی
اردو شاعری اور تصوف کے باہمی رشتے پر گفتگو کرنے سے قبل اُس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔تاریخی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۶۳۷ء میں امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المقدس فتح کیا تھااور اسی سال ہندوستان کے ساحلی علاقہ سندھ پر پہلے پہل مسلمانوں (عرب )نے حملہ کیا لیکن وہ سندھ کو فتح کرنے میں ناکام ر ہے۔اِس کے بعد متواتر دوحملے مزید ہوئے اور وہ بھی ناکام رہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تینوں بّرِاعظم میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ خلافت ِ بنی اُمیہ(۶۶۱ء۔۷۵۰ء) کے آغازمیںیعنی ۶۶۴ ء میں کابل کی طرف سے عرب کے ایک سردار نے ہندوستان پر حملہ کیا اور کابل سے ملتان تک کے حصے کو فتح کر لیا۔ اِس کے بعد باضابطہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور سواحل سے سرحد تک کا بڑا حصہ مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا ۔خلیفہ ولید بن عبد الملک کے زمانے میں سندھ کو پہلی بار محمدبن قاسمؒ نے۷۱۲ء میں فتح کیا ۔اِس کے بعد ۷۱۴ء تک فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور ملتان تک کا حصہ مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا ۔سبکتگین،جو غزنی کا بادشاہ تھا، اُس نے پنجاب کے راجا جئے پال پر فوج کشی کر کے پنجاب سے پشاور تک کے علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔اُس کے بعد اُس کا جانشین سلطان محمود غزنوی نے ۲۷ برسوں میں ۱۷ حملے کر کے پشاور ،ملتان ، کالنجار،قنوج، متھرا اور گجرات کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ یہی وہ زمانہ تھاجب مختلف ممالک و اقوام کے مسلمان (عرب ،ترک ،مغل ،ایرانی ،افغانی)فوجی دارلخلافہ لاہور سے لے کر پنجاب تک مقیم رہے اور مقامی باشندوں کے ساتھ باہمی تعلقات قائم کیے۔یہ سلسلہ یہیں نہیں تھما بلکہ محمود غزنوی کے بعد معز الدین غوری، اُس کے بعد قطب ا لدین ایبک ،شمس الدین التمش ،بلبن ،خلجی ،تغلق ،سید ، لودھی اور مغلوں نے ہندوستان میں برس ہا برس تک اپنی حکومت قائم رکھی۔تاریخی کتابوں کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اِس طویل حکومتی ادوار میں مختلف ممالک سے علماء اور صوفیاء ہندوستان آئے اور یہاں کے مختلف علاقوں میں متمکن ہوئے ۔جب علمائے دین اور صوفیا ئے اکرا م سے ہندوستان کی سر زمین آباد ہو گئی تویہاں کے چپے چپے میں دین اسلام پھیل گیا ۔ حضرت بابا فرید گنج شکر ،جو چشتیہ سلسلے کے بزرگ تھے، انہوں نے رُشد و ہدایت کا مرکز پاک پٹن پنجاب کو بنایا، اُن کے بعد شیخ شرف الدین بو علی قلندر نے پانی پت کو مرکز رُشدو ہدایت بنایا۔اُن کے بعد حضرت امیر خسرو ، خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ،شاہ میران جی شمس العشاق ،شیخ بہائو الدین باجن ،شیخ عبد القدوس گنگوہی ،شیخ بر ہا ن الدین جانم ، شیخ خوب محمد چشتی ،عبد الرحیم جان ِ جاناں،سید اشرف سمنانی وغیرہ صوفیائے اکرام کی رُشد و ہدایت اور تبلیغ ِ دین سے ہندوستان کی فضا میں تصوف کی خوشبو رچ بس گئی اور معرفتِ علمی سے دل منور ہو گئے ۔
٭٭
ایران میں صوفیانہ شاعری کے عروج کا زمانہ حکیم سنائی(پانچویں صدی ہجری) سے لے کر عبد الرحمٰن جامی( نویں صدی ہجری) تک تھا۔اِن کے تصرفات سے فارسی شاعری میں تصوف کے موضوعات کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ۔ہندوستان کے فارسی شعراء نے بھی تصوف کے موضوع کو اپنی شاعری کاحصہ بنایا ۔فارسی اگر چہ ایران(فارس) کی زبان تھی تاہم فتحِ دلّی کے بعد سے ہی بادشاہوں ،علماء، صوفیاء اور شعراء نے اِس زبان کو اپنالیا اور اسے خوب فروغ دیا ۔غیر ملکی زبان فارسی کو ہندوستانی نسل کے فارسی شعراء نے جس قدر عزت بخشی تھی تو انہیں بھی اِس با ت کا حق حاصل تھا کہ ایرانی النسل فارسی علماء و شعراء اُن کی اِس علمی اور شعری رواداری کا خیر مقدم کریں لیکن ایرانی النسل علماء و شعراء تو ابتداء ہی سے یعنی عہدِ سلاطین ہی سے ہندوستانی النسل فارسی علماء و شعراء کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے چلے آ رہے تھے اور جن کے وار سے امیر خسرو بھی بچ نہیں سکے تھے۔تاریخ میںاس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں مثلاً عبید زاکانی کاامیر خسرو پر پھبتی کسنا،عراقی کا فیضی کے متعلق اہانت آمیز بات کہنا، شیخ علی حزیں کی دریدہ دہنی وغیرہ۔یہاں یہ بھی عرض کر دینا چاہتی ہوں کہ بعض معروف ایرانی النسل شعراء مثلاً عبد الرحمن جامی، حافظ شیرازی اور جمال الدین عرفی نے امیر خسروکی زبان دانی کی تعریف کی ہے اور حافظ شیرازی نے تو انہیں ’’طوطئی ہند‘‘کے لقب سے بھی یاد کیا ہے، تاہم ہندوستانی النسل فارسی علماء و شعراء کے تعلق سے ایرانی النسل علماء و شعراء کا عام رویّہ وہی تھا جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ اس سے یہی اندازہ ہوتاہے کہ ایرانی شعراء کے نزدیک ہندوستانی نژاد فارسی شعراء ثقہ کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔میرے خیال میں اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ اوّل یہ کہ ایرانیوں کا ملکی و قومی عصبیت رکھنا ،جس کی واضح صورت پورے اسلامی تاریخ میں نمایا ں ہے ۔دوم وہ حریفانہ چشمک جو عام طور پر علماء و شعراء میں پایا جاتا ہے۔ اس حریفانہ چشمک کے طویل سلسلے کی روک تھام اور نفسیاتی گرہ کشائی کے لیے دلبرداشتہ ہو کر سب سے پہلے دہلی کے بزرگ سعد اللہ گلشن نے پہل کی تھی اور انہوں نے ولی دکنی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ فارسی کو ترک کر کے ریختہ( اردو) میں اشعار کہیں ۔اُس کے بعد سرا ج الدین علی خانِ آرزو نے اِس پر بھر پور عمل کیا اور ریختہ میں شاعری کرنے کو تحریک کی صورت عطا کی ۔جب شیخ علی حزیں ۳۵۔۱۷۳۴ء میں ایران سے ہندوستان آئے تو آنے کے بعد انہوں نے اپنی ایک خود نوشت ’’تذکرۃ الا حوال ‘‘لکھی جس میں اپنی عصبیت اور نفرت کا بر ملا اظہار کیا۔اِس میں ہندوستانی فارسی شعراء کے خلاف نہ صرف سخت نکتہ چینی کی بلکہ اہانت آمیز ہجویںبھی لکھیں ۔’’محاکمات الشعراء‘‘ میں محسن نے لکھا ہے کہ
’’کسی ہندوستانی کی طرف سے حزیں کا دل نہ دکھائے جانے کے باوجود انہوں نے ’تذکرۃ الاحوال‘ میں بادشاہ سے لیکر گدائے بے نوا تک کے خلاف زہر اُگلا اور اِس خیال کی اشاعت کی کہ ہندوستان فضل و کمال کے لیے زمینِ شور کا حکم رکھتا ہے۔انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ انہیں تمام دارالخلافت میں ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جو رتبۂ فضیلت رکھتا ہو۔‘‘(بحوالہ اردو ادب کی تاریخ از تبسم کاشمیری۔ص۲۹۶-۹۷)
سراج الدین علی خانِ آ رز وجو اپنے وقت کے بڑے عالم ،استاداور بڑے شاعر تھے، انہوں نے’’ تذکرۃ الاحوال ‘‘کا حر فاً حرفاً عالمانہ جواب ’’تنبیہ الغافلین ‘‘(۱۷۴۱-۴۳) لکھ کر دیا اور حزیں کی خود سری اور غرور کو توڑنے کے لیے اُس میں پوشیدہ خامیوں اور غلطیوں کی طرف واضح اشارے کیے۔آرزو کی اِس کوشش نے انہیں ہندوستانی شعراء کے درمیان ہیرو بنا دیا ۔اِس تاریخی معرکہ آرائی کے بعد ہندوستانی شعراء کو یہ احسا س ہو گیا کہ فارسی میں خواہ وہ کتنی بھی دست گاہی حاصل کرلیں، ایرانی النسل فارسی شعراء انہیں زبان داں تسلیم نہیں کریں گے۔ لہٰذا آرزو نے جو انہیں فارسی کی جگہ ریختہ (اردو) میں شاعری کرنے کی رغبت دلائی تھی، اُس نے اُس دور کے نو جوان شعراء کو اِس طرف مائل کر لیا اور یہی دلّی دبستانِ شاعری کا نقطہ آغاز تھا ۔اُس دور کے نو جوا ن شعرا ء جن میں بیش تر آرزو کے شاگرد تھے، انہوں نے ریختہ میں شاعری کرنا شروع کر دی ۔اُن کی اتباع میں دیگراستاد شاعروں کے شاگردان نے بھی ریختہ کو اپنا لیا۔ اِس طرح ریختہ کی تحریک وجود میں آئی ۔یہاں یہ عرض کرد ینا بھی مناسب سمجھتی ہوں کہ شاعری کی زبان تو بدل گئی مگر روح باقی رہی اور یہاں روح سے میری مراد وہ شعری مضامین و موضوعا ت ہیں جو روایتی طورپر فارسی شاعری سے چلے آتے ہیں ۔ہندوستانی شعراء نے اپنی شاعری میں اُن ہی مضامین و موضوعات کو باندھا ،جو ما قبل فارسی شاعری میں باندھتے چلے آئے تھے۔ اُن میں با لخصوص عشق،تصوف ،اخلاقی اقدار ،تہذیبی زوال وغیرہ اہم تھے۔ اِ س لیے غزلیہ جذبے کے تہذیبی عمل میں مذکورہ انہیں مضامین و موضوعات کو اردو شاعری میں بھی اہمیت حاصل رہی ۔
تصوف ایک دلچسپ اور وسیع موضوع ہے جو ابتداء سے اردو غزل کا حصہ ہے ۔یہ روحانی اور قلبی واردات ،صفات و کیفیا ت کا درس دیتا ہے ۔تزکیہ نفس و اخلاق کے پیشِ نظر یہ ایک علم بھی ہے اور فلسفہ بھی ۔خدا یعنی کُل، جس کی بنیادی صفت یکتائی ہے اور بندہ یعنی جُز جس کی بنیادی صفت جزویت ہے ۔ تصوف اِن دونو ںکے درمیانی رشتوں کی وضاحت کرنے والا علم ہے اور اِس علم کے کائناتی اصول کی وضاحت کرنے والا فلسفہ ہے ۔تصوف پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں اِس کی اصل غرض و غایت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔دنیا کے مختلف ادیان میں تصوف کی مختلف صورتیںدیکھنے کو ملتی ہیں تاہم اسلامی اور غیر اسلامی تصوف میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلامی تصوف، ترک ِ دنیا کی تر غیب نہیں دیتا بلکہ خدا سے رجوع ہو کر بھی مخلوقِ خدا سے رشتہ قائم رکھنے کی تلقین کرتا ہے ۔تصوف کی سب سے بڑی عطا یہ ہے کہ اِس نے عشق ِ الٰہی کے جذبے کو عا م کیا اور قربِ الٰہی کے طور طریقے سکھائے ۔تصوف کے مباحث کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے ۔یہ تصوف ہی ہے جس کے سبب ایران ،عراق،وسط ایشیا اور ہندوستان میں درویشانہ ماحو ل قائم ہوا اور عوام سے لے کر خواص تک سب اِس کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔ تصوف کے موضوعات و محرکا ت نے پہلے فارسی شعراء کو متاثر کیا جس سے فارسی زبان میں بڑے بڑے صوفی شعراء پیدا ہوئے پھر فارسی کے توسط سے اردو شاعری میں بھی متصوفانہ فکر کو جلا ملی ۔ولی دکنی،سراج اورنگ آبادی ،محمود بحری،مر زا مظہر جانِ جانا ں، خواجہ میر درد ، خواجہ میر اثر ،آتش،غالب،ناصر نذیر فراق دہلوی،اقبال ، آسی ،اصغر وغیرہ شعراء نے صوفیانہ خیالا ت کوخصوصی طور پر اپنی شاعری میں پیش کیا۔اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل میں تصوف کے گہرے رنگ کے جو بنیادی اسباب ہیں اور جس نے تصوف کے موضوعات کو اردو شاعری کا جزوِ عظیم بنا یا ہے، انہیں ہم کچھ اِس طرح بیان کر سکتے ہیں:۔
۱۔صوفیائے کرام کے ساتھ عوام کی گہری عقیدت مندی ۲۔ خود اُس وقت کے شعراء کا صوفی مشرب ہونا
۳۔پیری اور مریدی کی روایت کا عا م ہونا ۴۔ فارسی شاعری کاتصوف میں ڈوبا ہونا
۵۔ناسازگار حالات میں زندگی سے بے زاری ۶۔ دنیا کی نا پائیداری کا شدید احساس
۷۔تقدیر پرستی کے خیالا ت
ساتویں صدی نصف آخر اورآٹھویںصدی کے اوائل میںعربوںکے سندھ اورملتان پرقبضہ کرنے کے بعدفکرِاسلامی کوبرصغیرمیںداخلے کی راہ ملی تاہم عربوںکی آمدسے قبل برصغیر میں ویدک فکر و فلسفہ نہ صرف اپنی جڑیں جما چکا تھا بلکہ اپنی متعددمنزلیں بھی طے کرچکاتھا۔ اِس دورانیے میںویدانت کے فکری دھارے پربدھ مت کے گہرے اثرات بھی مرتب ہوئے تھے۔شنکرآچاریہ نے ویدانتی فلسفے کوفروغ دیاتواُس میںبدھ مت کے بعض اہم بنیادی خیالات کوبھی سمونے کی کوشش کی،جس کے نتیجے میںبھکتی تحریک کی ابتداہوئی۔اِس لیے جب ہم ہندوستان میں صوفیاء کی تحریک پر نظر ڈالتے ہیں تو کئی اعتبار سے بھکتی تحریک کے بنیادی مقاصد اُس سے ہم آہنگ نظرآتے ہیں۔لیکن مختلف خطّوںسے برصغیر میں آنے والے صوفیائے کرام کے پیشِ نظرایک بڑا اور بنیادی مقصد اسلام کی تبلیغ تھا۔یہی وجہ تھی کہ صوفیائے کرام نے بلاتفریق ملت ومذہب ایک عظیم ترروحانی زندگی کے پیغام کو اپنی رُشد و ہدایت میں جگہ دی۔اِس کی ثبوت ہمیں بعض صوفیائے کرام کے اُن خیالات میںملتے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کسی ہندوکے قبولِ اسلام سے ہمیں اتنی خوشی نہیںملتی، جتنی کسی مومن کے ترک گناہ سے ملتی ہے۔یہ سچ ہے کہ صوفیائے کرام کوتبلیغی مقاصد کی تکمیل کے لیے مجادلے اورمحاربے سے بھی دوچارہوناپڑالیکن انہوںنے اسلام کے عملی پیغام کوہرکس وناکس تک پہنچانے میںکوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا۔اسلام کے یہ مبلّغین ،عوام کے درمیان رہ کر، اُن کی زبان میںباتیںکیںاوراُن کے قلوب میںتبدیلی لانے کی کوشش کی۔اُنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے محبت اورخلوص کے پیغام دیے اور اُن کے دل کومسخرکیا۔یہ بات درست ہے کہ صوفیاء کامقصدادب تخلیق کرنا نہیںتھالیکن یہ ضرورہے کہ انہوںنے بلاواسطہ طورپراردوزبان و ادب کی خدمات انجام دیں اور اُس کے ابتدائی نقوش ابھارے اوراسے عوام تک پہنچایا ۔ بابا فرید گنج شکر کے اشعار اور شیخ شرف الدین بو علی شاہ قلندر سے منسوب دوہے اسی مقصد کو پیش کرتے ہیں:
تن دھونے سے من جو ہوتا پوک
پیش رَو اصفیاء کے ہوتے غوک
وقتِ سحر وقتِ مناجات ہے
خیز در آں وقت کہ برکات ہے
٭
سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے
بدھنا ایسی رین کو، بھور کدھی نہ ہوئے
امیر خسرواورخواجہ بندہ نوازگیسودراز سے منسوب یہ اشعاربھی ملاحظہ کریں:
زحالِ مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف وروزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
٭
یوں کھوئے خودی اپنی خدا ساتھ محمدؐ
جب گھل گئی خودی توخدا بن نہ کوئی ہے
اوراسی سلسلہ میں شیخ برہان الدین جانم کا یہ حمدبھی دیکھیں:
اللہ پاک منزّہ ـــــــذات
اس سوں صفتاں قائم سات
علمِ ارادت قدرت بار
سنتا دیکھتا بولن ہار
حیّ صفات یہ جانِ حیات
اس کوں نا ہیں کدِّ ممات
یہ تھی صوفیائے کرام کی وہ ابتدائی کوشش جن سے ہندوستانی شعور کو اپنی قلبی ماہیئت بدلنے میں بڑی مدد ملی۔
دکنی اردوادب میںتصوف کی وہ روایتیں جن کوجڑپکڑنے کا موقع ملاوہ عوامی ہونے کی وجہ سے بہت گہری تھیں۔اِس لیے شاہی سرپرستوںکے دورمیںبھی اسی طرح یہ روایتیں پھلتی پھولتی رہیں۔یہ بات واضح ہے کہ مسلمان سلاطین نے اپنی دفتری زبان فارسی رکھی تھی اورچونکہ بیشتر مسلمان امراءاورمسلمان بادشاہ فارس سے ہندوستان آئے تھے، اِس لیے اُن کے پاس فارسی اصنافِ سخن کے نمونے تھے۔نتیجہ یہ ہواکہ اردوشاعری کے ابتدائی دور کی سرپرستی کا سہرادکنی سلاطین ہی کے سربندھا۔دکن اورگجرات میںصوفیائے کرام اوربادشاہوںنےحضرت علیؓ کے مناقب اور حضرت امام حسینؓ کے مرثیے لکھنے شروع کیے۔بادشاہوںکی اِس توجہ نے عوام کے ذوق کومزیدسنگین بنادیا۔اردو کی ادبی تاریخ ہمارے سامنے دکنی شعراء کی ایک لمبی فہرست پیش کرتی ہے لیکن اُن میںملاوجہی،ولی دکنی،شاہ سراج اورنگ آبادی اور محمودبحری کو ہی زیادہ اہمیت اورمقبولیت حاصل رہی۔یہ شعراء محض صوفیانہ خیالات ہی کی اشاعت نہیںکرتے تھے بلکہ تقریباً صوفیانہ زندگی بھی گزارتے تھے۔ولی تواُن میںاوربھی ممتازہوئے کیوںکہ انہوںنے بالکل ایرانی شعراء کے طرز پرردیف واردیوان مرتب کیا۔اُن کے کلام میںامیرخسروکے کلام جیسی صفائی اور شستگی ملتی ہے۔غرض اردوشاعری بہت جلدفارسی شاعری کے نقشِ قدم پرچلنے لگی اورایرانیوںکے بیشترخیالات وجذبات اردومیںمنتقل ہونے لگے۔
چنگیز اورہلاکوکی سفاکیوںنے عالمِ اسلام میں جیسا انتشار برپا کیا تھا اور جس کی مثال تاریخ کے کسی باب میں نہیں ملتی اور اِس انتشار کے بطن سے جس طرح فارسی شاعری میںتصوف کے خیالات نے جنم لیا تھا،اردوکی صوفیانہ شاعری میںبھی تقریباً یہی صورت دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس طرح بغدادکی تباہی چنگیزاورہلاکوکےہاتھوںہوئی تھی اسی طرح دلّی کی تباہی تیمور،نادر،ابدالی،جاٹوں،مرہٹوں،روہیلوںاورانگریزوںکے ہاتھوںہوئی۔جس طرح تاتاریوں کے حملوںنے فارسی شعراء کوصوفی بنایا تھااسی طرح اندرونی اوربیرونی فتنوںنے اردوشعراء کوتصوف کی چھائوںمیںپناہ لینے پرمجبورکیا۔دلّی کی اِن تباہ کاریوںنے شعراء کی طبیعت میں ایساسوزوگداز پیداکیاکہ اُس عہدکےشعراءکے یہاںتصوف کا رنگ گہراہو گیا۔بغور دیکھا جائے تو اردو شاعری میں تصوف،اٹھارویں صدی کی ہولناکی اورسیاسی اجبارکے خلاف ایک قسم کے تحفظی عمل کے طورپرابھراتھا۔سیاسی شورش،معاشرتی انحطاط اوراقتصادی زبوں حالی کی وجہ سے وہ دلّی جو اب تک صوفیائے کرام کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی، ایسی ویران ہوئی کہ خود دلّی کا رہنے والا اسے مایوس نظروںسے دیکھتاتھا۔تاہم اُس دورنے چندایسے بڑے صوفی شاعردیے جن کے متصوفانہ طرزِ عمل اور عارفانہ فکر سے دلّی کی شاعری معتبر ہوگئی۔اُن میں بالخصوص مرزامظہرجان جاناںاورخواجہ میردرد کو بڑی اہمیت حاصل رہی۔ اُس زمانے میں مرزا مظہر جانِ جاناں اور خواجہ میر درد، دونوں کی خانقاہیںرشد و ہدایت کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ گدا سے لیکر بادشاہ تک اُن کی چوکھٹ پر حاضری دیا کرتے تھے۔ایک طرف روحانی محفلیں ہوتیں تو دوسری طرف شعر و شاعری پروان چڑھتی۔
مرزامظہرکابیش ترکلام فارسی میںہے لیکن جوکچھ بھی اردومیںہے وہ فکری معیارکی بلندی کا شاہداورعارفانہ جذبات کا آئینہ دارہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام میںمحرومی اورمایوسی نہیںبلکہ وصل کی تمنااورہجرکی بے قراری دیکھنے کو ملتی ہے ۔صدائے ماتم کے بجائے تڑپ اور فریاد کی بڑی دلپذیر صورت اُن کی شاعری میں موجود ہے ۔ وارداتِ قلبیہ کا صحیح اورمن وعن اظہارہی اُ ن کے کلام کی وہ خوبی ہے جوانہیںاُس دورکابڑا صوفی شاعربناتی ہے۔اشعار دیکھیں:
یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا، باغباں اپنا
مرا جی جلتا ہے اُس بلبلِ بے کس کی غربت پر
کہ گل کے آسرے پر جس نے چھوڑا آشیاں اپنا
خواجہ میردرد کا تعلق بھی اسی عہد سے ہے۔اُن کی شاعری بھی متصوفانہ خیالات اور قلبی واردات کا خوب صورت نمونہ پیش کرتی ہے۔اُن کی شاعری میں بے ثباتیِ عالم،صبر و توکل،خودی، استغناء اوراخلاق کا تذکرہ ملتا ہے جوجزوکل کے ساتھ ساتھ درویشانہ بے نیازی اور شاعرانہ خودداری کےتصور کو پیش کرتا ہے۔درد کی شاعری دراصل کائنات میں انسانی وجود اور اُس کے حقیقی رابطوں کو تلاش کرنے والی شاعری ہے۔
وحدت میں تیری حرفِ دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے
کیا فرق داغ و گل میں اگر گل میں بو نہ ہو
کس کام کا وہ دل ہے کہ جس دل میں تو نہ ہو
اے درد مثالِ آئینہ ڈھونڈ اس کو آپ میں
بیرونِ در تو اپنی قدم گاہ ہی نہیں
دونوں جگہ میں معنیِ مولیٰ ہے جلوہ گر
غافل! ایاز کون ہے، محمود کون ہے؟
انیسویںصدی میں بھی چند ایسے شعراءملتے ہیں جن کی شاعری کا مزاج قلندرانہ اورصوفیانہ تھا۔خواجہ حیدر علی آتش کے افکار ہی صوفیانہ نہیں تھے بلکہ وہ اپنی ذات سے بھی صوفی تھے۔اِس لیے اُن کی شاعری میں ایک قسم کا والہانہ پن اور سرمستی دیکھنے کو ملتی ہے۔اُن کی صوفیانہ شاعری کی سب سے پرکشش بات’’ باطنی سحر انگیزی‘‘ ہے جو اُن کی شاعری کو ایک نئی معنویت عطا کرتی ہے۔انہوں نے اپنی شاعری میںروحانیت کی چنگاری پیدا کی کوشش اور حقائق و معارف کے بلند خیالات پیش کیے۔اُن کی شاعری میںعارفانہ خیالات بھی روزمرہ کی زبان میں پیش کیے گئے ہیں،اِس لیے اُن کے بہت سے اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں:۔
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
نہایت غم ہے اِس قطرے کو دریاکی جدائی کا
پار اُترا وہ جو غرق ہوا بحرِ عشق میں
وہ داغ ہے جو دامنِ ساحل میں رہ گیا
احتشام حسین نےلکھا ہے کہ
’’آتش کے صوفیانہ تصورات کی نمود سب سے زیادہ تو اُن کی آزادگی پسندی،تصفیۂ قلب اور روحانی سرمستی میں ہوتی ہےجس سے اُن کی شاعری بھری پڑی ہے لیکن تصوف کے وہ مقامات بھی اُن کے یہاں آتے ہیں جن کا تعلق معرفتِ نفس،فنائے خودی،ترکِ دنیا،وحدتِ وجود، مجاز و حقیقت،جبر و اختیار،انسانی ہستی کی بے ثباتی اور عظمت،ترکِ رسوم اور خدا کے متعلق شوخیِ تخیّل سے ہے۔‘‘(عکس اور آئینہ۔ص ۱۳۶)
مرزا غالب جو اُنیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر ہیں، اُن کو تصوف کے مسائل اور اُس کے بیان پر بہت ناز تھا۔اُن کی شاعری وجود و ہستی،فنا و بقا،جبر و قدر جیسے موضوعات سے بھری پڑی ہے۔غالب کی شخصیت اور شاعری کا خمیر مابعد الطبیعاتی عناصر سے اٹھا تھا، اِس لیے فلسفیانہ خیالات سے گہری دلچسپی پیدا ہوجانا عین فطری تھا۔عرفان و آگہی کی حقیقتوں تک پہنچنے کی جو کوشش اُن کے یہاں نظر آتی ہے وہ بھی اسی دلچسپی کا نتیجہ ہے۔ ایک شعر میں تو انہوں نے بیک وقت اپنے آپ کو شاعر، صوفی،نجومی اور حکیم بھی کہا ہے۔غالب نے تصوف کے موضوعات کو اپنی شاعری میں بھرپور طریقے سے پیش کیا تاہم وہ باطنی طورپر صوفی نہیں تھے بلکہ “Meaning and Value of Mysticism” کے مصنف ای ۔ہرمن(E.Harman) کے مطابق وہ’’ فلسفیانہ تشریحات کے حامل صوفی‘‘ قرار پائیں گے۔
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ناصر نذیر فراق دہلوی،خواجہ میردرد کےنواسے تھے، اِس لئے متصوفانہ فکر براہِ راست اُن تک پہنچی تھی ۔اُن کی شاعری میںتصوف کے تیور ایک علاحدہ رنگ اختیار کرتے ہیں جس پر جمالیات کا گہرااثر ہے لیکن’’ فنا‘‘ اور’’ دنیا کی بے ثباتی‘‘ کا ذکر بار بار کرتے ہیں۔ناصر نذیرفراق کے یہاں درد کی طرح ہی وحدت الوجود کا گہرااثر دیکھنے کو ملتا ہے: ۔
جلد کر لے جو تجھ کو کرنا ہے
زندگانی کا اعتبار نہیں
شجر حجر ہیں جہاں کے فانی، یہاں کی ہرشئے ہے آنی جانی
چمن میں دو دن کی زندگی پر، کہو یہ گل سے ،نہال کیاہے
تیری نمود و بود ہے، تیرا شہود ہے
لالہ میں کیا، گلاب میں کیا، یاسمن میں کیا
اُنیسویں صدی آخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی چار دہوں میں اقبال کو جو شعری معراج حاصل ہوا وہ کسی دوسرے کو نہیں ہوا۔ اِن کی شاعری بھی متصوفانہ فکر سےمعمور ہے ۔انہیں بھی تصوف کے فلسفیانہ موضوعات سے بڑی دلچسپی تھی ۔ابنِ عربی کی معروف کتب ’’فصوص الحکم ‘‘اور’’ فتوحاتِ مکیہ‘‘ کی تعلیم انہوں نے اپنے والد سے پائی تھی اور بعد میں اسلامی تصوف کے بالاستیاب مطالعے نے انہیں گہرے طور پر تصوف سے وابستہ کر دیا تھا ۔اِس لیے اُن کی شاعری میں صو فیانہ خیالات کا ایک باضابطہ سلسلہ ملتا ہے، جس میں تصوف کے مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال ہے ۔اقبال نے اپنی شاعری ہی میں نہیں بلکہ اپنی نثری تخلیقات میں بھی تصوف پر بھر پور روشنی ڈالی ہے اور حقیقی اسلامی تصوف کی تائیدکی ہے۔اقبال کے نزدیک تصوف ’’اخلاص فی ا لعمل ‘‘ تھا۔ وہ تصوف کی ایک ایسی عملی صورت کے متمنی تھے جو مطالعۂ فطرت پر آ مادہ کرتا ہو۔اِس لیے اُن کے یہاں اخلاص ِ حسنہ اور تزکیۂ نفس کے ساتھ ساتھ زندگی کی متحرک صورتوں کو بھی آزمانے پر زور دیا گیا ہے :۔
احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُنّاری
نہ ہے زماں نہ مکان، لا الٰہ الا اللہ
میں بندۂ ناداں ہوں، مگر شکر ہے تیرا
رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہوت سے پیوند
یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
اصغرگونڈوی کی شاعری بھی متصوفانہ فکر و فلسفہ سے آباد ہے ۔ اِن کی پوری شاعری پاکیزہ خیالات کا نمونہ ہے ۔انہوں نےمجاز اور حقیقت کے باہمی رشتے کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا اور حسن اور حسنِ فطرت کو تصوف کے آئینے میںدیکھنے کی کوشش کی۔اصغر کی اِس پیش رفت سے اردو کی غزلیہ شاعری میںپاکیزگی کا تصور ابھرااور وہ مجاز کی آ لودگی سے پاک ہوئی ۔چند اشعار ملاحظہ کریں:
مجاز کا بھی حقیقت سے ساز رہنے دے
یہ راز ہے تو ذرا حسنِ راز رہنے دے
جو نقش ہے ہستی کا دھوکہ نظر آتا ہے
پردے میں مصور ہی تنہا نظر آتا ہے
ترا جمال ہے ترا خیال ہے تو ہے
مجھے یہ فرصتِ کاوش کہاں کہ کیا ہوں میں
محمدحسن نے اصغر کےعارفانہ خیالات پر اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’تصوف اصغر کا عقیدہ نہیں بلکہ فکری نظام ہے ۔اس فکری نظام سے انہوں نے اپنے طور پر نتیجے نکالےاور تصورات ڈھالے ہیں ۔‘‘(اردو اکیڈمی، لکھنؤ۔اصغر نمبر۔ص ۱۶)
بیسویں صدی نصف میں جب ترقی پسند تحریک چل رہی تھی اور اُس کے ساتھ مادّیت پسندی اور اشتراکیت کا نظریہ ہم رشتہ ہو چکا تھا، تو تصوف کی روحانی بصیرت بہت متاثر ہوئی۔تصوف کی وہ روایت جو برسوں سے ہندوستانی شعور کی قلبی ماہیئت کو بدلتی چلی آ رہی تھی، اِس نظریے کے اثر سے آہستہ آہستہ رو بہ زوال ہونے لگی۔جدید علوم اور مغربی نظریات کے زیرِ اثر مشاہدۂ حق کی ریاضت اور فیضیابی کے بجائے منطق اور استدلال سے عارفانہ مسائل کو سمجھنے کی کوشش نے اِس کو بہت نقصان پہنچایا۔اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ساری روحانی لطافتیں گم ہو گئیں، جو کبھی مجاہدوں اور مکاشفوں سے حاصل ہوا کرتی تھیں۔اِس لیے اردو شاعری میں پیش کیے جانے والے متصوفانہ تجربے بھی کم سے کم پیش کیے جانے لگے۔اب تو شاذ و نادر ہی کسی کے کلام میں ایسے روحانی تجربے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ صوفی شعراء جو کبھی وسیع المشربی کے تحت مسائلِ تصوف کی اشاعت کیا کرتے تھےاور روحِ تصوف کودلکش اشعارمیں پیش کرتے تھے، اردو شاعری سے مفقود ہوتے چلے گئے۔تصوف تو ذوقِ روحانی کا نام ہے جو اردو شاعری میںعشق مجازی کے ساتھ ساتھ عشقِ حقیقی یعنی حسنِ مطلق کی لطافت اور اُس کی پاکیزگی کو پیش کرتا ہے ۔اگر غور کریں تو اردو شاعری کو پہلے پہل فلسفیانہ اساس فراہم کرنے میں تصوف ہی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
٭٭٭٭٭
Dr.Atia Rais
atiaraisdu@gmail.com, Mobile: 9968119705
3871, 4th Floor, Kalan Mahal, Daryaganj, New Delhi-110002
Leave a Reply
Be the First to Comment!