اردو مونوگراف میں” شین مظفر پوری”ایک اہم اضافہ

ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی

پھلواری شریف، پٹنہ

موبائل:9199726661

    ڈاکٹر ابو بکر رضوی معروف ناقد، محقق اور ادیب ہیں۔ ٹی پی ایس کالج پٹنہ میں صدر شعبہ اردو ہیں۔ ایک اچھے معلم کی حیثیت سے طلباء اور طالبات کے درمیان کافی مقبول ہیں۔تصنیف و تالیف میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ان کی کئی تالیفات و تصنیفات اردو کتب کے ذخیروں میں بیش قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں، جن میں ” امکان”(مختصر تاریخ زبان اردو)، ”قمر اعظم ہاشمی کی تنقید نگاری”، ” اردو افسانے میں مہملیت ” اور ”معاصر اردوشاعری اور فیض احمد” ادبی حلقوں میں مشہور ہیں۔ ان دنوں ادبی دنیا میں ان کی تازہ تصنیف فرد نامہ ”شین مظفر پوری” کا غلغلہ نہایت شد ومد کے ساتھ سنائی دے رہا ہے اور اس کی خوب خوب پذیرائی ہورہی ہے۔مجھے بھی اس کی قرأت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔اسے پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ فاضل قلمکار ڈاکٹر ابوبکر رضوی نے جس خوش سلیقگی سے یہ کتاب قلمبند کی ہے اس سے ان کے ممدوح شین مظفر پوری کی حیات اور خدمات کے کئی اہم گوشے اظہر من الشمس  ہوتے ہی ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان تحریروں میں ان کی اپنی شخصیت کے بھی بعض اہم پہلو اور نقوش طشت ازبام ہوتے ہیں، گویا بزبان شاعر وہ یہ فرمارہے ہیں:

سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور  یہ فرد نامہ اردو  ڈائرکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، حکومت بہار، پٹنہ کے زیراہتمام 2019 میں منظر عام پر آیا تھا۔  اس کتاب میں ڈائرکٹوریٹ کے سابق ڈائریکٹر و اردو کے بے لوث خادم امتیاز احمد کریمی نے پیش لفظ قلمبند کیا ہے جس میں انہوں نے فردنامے کی اشاعت کے اغراض ومقاصد پر مختصر، مگر نہایت جامع گفتگو کی ہے۔ اس میں اردو ڈائرکٹوریٹ کے اردو پروگرام افسر ڈاکٹر اسلم جاوداں کا مضمون بعنوان ”شین مظفر پوری: ایک معروضی تعارف” بھی شامل ہے جو عربی مقولہ” قل و دل ”  کے قالب میں ڈھلاہوا ہے۔ ”ابتدائیہ” فاضل مصنف نے بقلم خویش تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے شین مظفر پوری کا تعارف سنجیدگی، سلیقگی اور متانت کا پیکر بنکر اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ قاری یک نگاہ میں ان کا غلام اور کتاب کی قرأت پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لگے ہاتھوں ابتدائیہ سے مختصر اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

    ”شین مظفر پوری کی شخصیت کثیر الجہات تھی۔ وہ بیک وقت افسانہ نگار، ناول نگار، خاکہ نگار، انشائیہ نگار کے علاوہ ایک معتبر صحافی بھی تھے۔ کہانی لکھنا ان کا Passion اور صحافت نگاری ان کا پیشہ۔ نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط اپنی ادبی زندگی میں انہوں نے تین سو سے زائد کہانیاں، دو ناولٹ، تین ناول، پچاس سے زیادہ انشائیے اور خاکے، درجنوں ریڈیائی ڈرامے، بچوں کے لیے دو کتابیں اور کئی کہانیاں اور ”رقص بسمل” کے نام سے اپنی یادداشت کے ذریعہ اردو ادب کے بیش بہا خزانے میں گراں قدر اضافہ کیا۔ بطور صحافی ہزاروں اداریے، سینکڑوں کالم، لاکھوں اخباری ترجمے ایک فلم کا اسکرپٹ اور ٹی وی سیریل کے لیے مکالمے بھی تحریر کئے۔ ایک غیر مطبوعہ ناول، غیر مطبوعہ کہانیوں کا مسووہ جو دوران سفر گم ہوگیا کے ساتھ ساتھ چند غزلیں، اشعار اور نظمیں ان کے رشحات قلم سے معرضِ وجود میں آئیں۔ اس ضخیم ادبی سرمائے میں گل بھی ہیں خار بھی ہیں، خس و خاشاک بھی ہیں اور گوہرِ آبدار بھی۔ یہ قاری کے ظرف پر ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتا ہے ”۔ (ڈاکٹر ابو بکر رضوی، ابتدائیہ،ص: 8)

     فاضل مصنف نے ابتدائیہ میں شین مظفر پوری کو شش جہات شخصیت قرار دیا ہے، البتہ بنیادی طور پر انہیں افسانہ نگار تسلیم کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ افسانوں نے ان کے ادبی قد کے تعین کی راہوں کو مسدود بھی کیا ہے۔ علاوہ ازیں ان کو اس بات کا شددت سے قلق ہے کہ  اردو ناقدین نے انہیں وہ مقام عطا نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے، بلکہ ان کے ابتدائی چند کمزور افسانوں کو بنیاد بنا کر انہیں نکارنے کی کوشش کی گئی۔

    زیر مطالعہ کتاب میں جو عنوانات قائم کئے گئے ہیں وہ بایں طور ہیں: حالات زندگی، افسانہ نگاری، ناول نگاری، ریڈیائی ڈرامے، غیر افسانوی نثر، (الف) طنز و مزاح نگاری، (ب) خاکہ نگاری، (ج) یادداشت، صحافت نگاری، منتخب تخلیقات، کتابیات۔

    فاضل مصنف نے ”حالات زندگی” کے ضمن میں جو کچھ  لکھا ہے  اس کا لب لباب یہ ہے کہ شین کا اصل نام محمد ولی الرحمن تھا۔ ابتدا میں ولی الرحمن شیدا کے نام سے شاعری کی۔ بعد میں شیدا مظفر پوری کے نام سے تخلیقات شائع ہوتی رہیں۔ 1939 میں شین مظفر پوری ہوگئے اور زندگی کے آخری ایام تک اسی نام سے لکھتے رہے۔ ان کے والد کا نام حافظ محمد عین الحق تھا۔ ان کی ولادت 15/ جولائی 1920 کو موضع باتھ، تھانہ نانپور ضلع مظفر پور (اب ضلع سیتامڑھی) میں ہوئی۔  ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی۔ 1937 میں کلکتہ یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے انہوں نے اسلامیہ کالج کلکتہ میں داخلہ لیا، مگر معاشی تنگی کے باعث تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ انہوں نے مظفر پور، دربھنگہ، پٹنہ، کانپور، دہلی، ممبئی، کلکتہ اور ملک کے دیگر شہروں میں معاش کے لیے خاک چھانی اور کافی تگ ودو کی۔ یہاں تک کہ پاکستان کے لاہور اور کراچی و دیگر شہروں تک کا بھی اذیت ناک وکرب ناک سفر کیا۔ ماہنامہ ”مرقع”مرادآباد، ماہنامہ” ہمالہ”دربھنگہ، ”ظفر ویکلی” ممبئی، ”نقاش ویکلی” کلکتہ، فلمی وادبی رسالہ ”آرٹس” دہلی، رسالہ ”فلم لائٹ” دہلی، رسالہ ”مضراب” کراچی، ” کارواں” کلکتہ، ”عصر جدید ” کلکتہ، ” آزاد ہند”کلکتہ، ”اخوت” کلکتہ، ”ہمارا بہار” پٹنہ، ”صنم” پٹنہ، ”پرچم ہند” دہلی، ”ملک وملت” دہلی، ”پندار” پٹنہ، ”سنگم” پٹنہ، ”قومی دھارا”پٹنہ، اور ” زبان وادب”پٹنہ جیسے  رسائل اور اخبارات میں بطور ایڈیٹر گراں قدر صحافتی خدمات انجام دیں۔  شین کی دو شادیاں ہوئیں۔ پہلی شادی1940 میں آواپور، سیتامڑھی کے باشندہ ماسٹر جمال بخش کی صاحبزادی زیب النساء سے ہوئی، جن سے تین بیٹے ابرار احمد، انصار احمد، اسرار احمد اور تین بیٹیاں نرگس خاتون، ریحانہ خاتون اور مہ جبیں خاتون پیدا ہوئیں۔ دوسری شادی 1953 میں دیورا بندھولی، ضلع دربھنگہ کے رہنے والے شیخ ظہور الدین کی دختر نیک اختر کفیلہ خاتون سے ہوئی جن سے دو بیٹے ارمان احمد، آفتاب احمد اور ایک بیٹی شکیلہ خاتون کا تولد ہوا۔ علم وادب کا یہ روشن ستارہ 14/ اگست 1994 کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا اور آبائی قبرستان میں مدفون ہوئے۔

    ڈاکٹر ابوبکررضوی نے ”افسانہ نگاری” عنوان کے تحت لکھا ہے کہ شین مظفر پوری نے اپنی ادبی سفر کا آغاز 1936 میں کیا۔انہوں نے 300 سو سے زیادہ کہانیاں لکھیں۔ فرضی ناموں اور دوسروں کے (پیسوں کی خاطر) تحریر کردہ افسانوں کو شامل کرلیں تو یہ تعداد 400 سے متجاوز کر جائے گی۔ فاضل مصنف نے اس باب میں شین کے دس افسانوں کا بھی ذکر کیا ہے جن میں ”آوارہ گرد کے خطوط” کو پہلا،” دکھتی رگیں” کو دوسرا، ”کڑوے گھونٹ ” کو تیسرا،” لڑکی جوان ہوگئی” کو چوتھا، ”دوسری بدنامی” کو پانچواں، ”حلالہ” کو چھٹا، ”طلاق طلاق طلاق ” کو ساتواں، ”قانون کی بستی” کو آٹھواں،” نئی الف لیلہ” کو نواں اور ”کسی سے کہنا نہیں ” کو دسواں  افسانوی مجموعہ قرار دیا ہے۔ نیز ان مجموعوں میں شامل کئی افسانوں کا تہذیبی، ثقافتی، سماجی اور فکری جائزہ معروضی مگر نہایت مؤثر و دلکش انداز میں لیا ہے۔ شین کی مخالفت اور موافقت پر مبنی پروفیسر عبد المغنی اور پروفیسر وہاب اشرفی جیسے ناقدین کے اقوال کو پیش کر بڑی ایمانداری سے ان کا جائزہ لیاہے اور اس بات پر مہر ثبت کی ہے کہ شین مظفر پوری کے افسانے سرور وانبساط اور لطف کے وہ خزینے ہیں جن کے ذریعہ قاری مسرت سے بصیرت تک کا فکر انگیز سفر پلک جھپکائے بغیر طے کر لیتا ہے۔

    ڈاکٹر ابو بکر رضوی نے ”ناول نگاری” عنوان کے ضمن میں قلمبند کیا ہے کہ شین مظفر پوری کے ادبی سرمائے میں تین ناول اور دو ناولٹ ہیں۔ ناول ”ہزار راتیں” (1955)، ”چاند کا داغ” (1956) اور ”کھوٹا سکہ” (1961) کے علاوہ فرحت (1949) اور” تین لڑکیاں ایک کہانی ”(1959) ان کے ناولٹ ہیں۔ ان سبھی پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور   اخیر میں شین کو ایک سچے اور عظیم فنکار کی صف میں صف بستہ کیا گیا ہے۔

شین مظفر پوری کے ادبی ذخیرے میں ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ”خون کی مہندی ” ہے جس میں ”سو کا نوٹ”، ”انٹرویو کا چکر”، ”سرکس کا شیر”، ”خون کی مہندی”، ”تیسری آنکھ”، ”انوکھی بات ”اور ”بیچارہ شاعر” شامل ہیں۔ ان سبھی ڈراموں کے حوالے سے بھی فاضل مصنف نے مختصر، مگر نہایت جامع تبصرہ کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی سعی کی ہے کہ یہ تمام ڈرامے ان معنوں میں اہم ہیں کہ ان میں سامعین کے لیے کوئی نہ کوئی پیغام پوشیدہ ہے۔

    ڈاکٹر ابوبکر نے ”غیر افسانوی نثر  ”کے تحت طنز و مزاح اور خاکہ پر مبنی ان کے دو مجموعے ” آدھی مسکراہٹ ”(1980) اور حکایت نامہ(1993) کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شین نے زمانے اور وقت کے ہاتھوں ملے زہر ہلاہل کو شنکر کی طرح پی لیا ہے اور ہونٹوں پر آدھی مسکراہٹ سجائے طنز و مزاح کو ایک اعتدال کی صورت عطا کی۔ درحقیقت یہی شین کے طنز و مزاح کا اصل رنگ و آہنگ ہے جو ”آدھی مسکراہٹ” اور ”حکایت نامہ” میں جابجا موجود ہے۔ انہوں نے طنز و مزاح کے معتدل رویے اور اسلوب کی گل فشانی سے خاکوں کا جو معیار قائم کیا ہے وہ اردو خاکہ نگاری کو ایک نئی سمت و رفتار عطا کرتا ہے۔ مصنف نے اس باب میں یاد داشت” رقص بسمل ” پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس کو معلومات کا انمول خزینہ نیز اس کو شین کی شخصیت، عظمت، عہد اور معاصرین کی ادبی سرگرمیوں سے واقفیت کے لیے اس کو دستاویزی حیثیت کا حامل قراردیاہے۔ فاضل قلمکار نے ”صحافت نگاری” عنوان کے ضمن میں صحافت کو شین مظفر پوری کا پہلا اور آخری Passion بتایا ہے اور قلمبند کیا ہے کہ اس پیشے سے وابستہ ہوکر شین روتے بھی رہے، ہنستے بھی رہے۔ اپنے اس پیشے پر انہیں ناز بھی تھا اور عمر بھر اس کے شاکی بھی رہے۔ دراصل کوئی اور ملازمت ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ مصنف موصوف نے اس باب میں شین مظفر پوری کی صحافتی زندگی، صحافتی خدمات اور اس راہ میں حائل مشکلات کا تذکرہ قدرے تفصیل سے کیا ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ اردو صحافت کو شین نے نیا انداز، نئی زبان اور اونچی اڑان کا جو منتر دیا ہے وہ ان کو بڑے صحافی کی صف میں لاکھڑا کرتاہے۔ منتخب تخلیقات کے ضمن میں شین کے افسانے ”دستک”، ”ودیانگر کی مسجد”، ” چہرے کی تلاش ”، ناول کا ایک باب ” کٹی ہوئی پتنگ”، انشائیہ ”قصہ منشی مرحوم کا”، خاکہ” حضرت مولانا (حصہ اول)، اداریہ ”حرف اول” اور مکتوب” احمد ندیم قاسمی کے نام ”(منٹو اور عسکری بھی پڑھ لیں تو مضائقہ نہیں) شامل ہیں۔ ان سب کی  قرأت سے جہاں ایک طرف قاری کو شین مظفر پوری(محمد ولی الرحمن شیدا) کی عبقری شخصیت، عظمت اور ادبی و صحافتی خدمات سے بخوبی آشنائی ہوتی ہے، وہیں فاضل مصنف ڈاکٹر ابوبکر رضوی کی بے پناہ تخلیقی، علمی، ادبی، تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ مجموعی طور پر کہا جانا چاہیے کہ یہ کتاب اردو کے  مونوگرافوں میں  ایک اہم اضافہ ہے۔

*****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.