سردار شفیق کی غزلوں کے امتیازات ’’غبار صدا‘‘ کے حوالے سے

ڈاکٹر سید قمر صدیقی

شاہین باغ، نئی دلی

کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہا تھا اور عظمت اللہ خان نے تو اس کی گردن تک مار دینے تک کی بات کہہ دی تھی۔ ان تمام باتون کے باوجود غزل کی دلکشی اور اس کی ہردلعزیزی کم نہیں ہوئی۔ یہ اور بات ہے اور ایک الگ مسئلہ بھی کہ موجودہ دور میں کمزور غزلیں سامنے آرہی ہیں مگر اس کی ذمہ داری غزل پر عائد نہیں ہوتی بلکہ اس کے ذمہ دار غزل گو حضرات ہیں۔ غزل ہمیشہ کی طرح آج بھی ہمارے دلوں کو گرما رہی ہے۔ غزل کی یہی خوبی اس کی زندگی کی ضامن ہے۔ یوں بھی شاعری فکروخیال کی نزاکت کا نام ہے اور اس معاملے میں غزل کو شاعری کی دوسری تمام اصناف پر فوقیت حاصل ہے۔ غزل سے بعض لوگ ہل اور پھاوڑے کا کام لینا چاہتے تھے۔ مگر غزل تو یہ کام کرنے سے رہی۔ غزل تو ہمارے دلوں کو گرماتی ہے، ہمارے جذبہ واحساس اور حس لطیف کو تسکین پہنچاتی ہے۔ میر، غالب، مومن، حسرت اور فراق وغیرہ نے اپنی غزلوں سے یہی کام لیا ہے۔ میروغالب وغیرہ نے اپنی غزلوں سے جو کام لیا تھا سردار شفیق نے بھی وہی کام ’’غبار صدا‘‘ کی غزلوں سے لیا ہے۔ سردار شفیق کی غزلوں میں جذبہ واحساس کی فراوانی ہے وہ اگر حالات حاضرہ یا ہنگامی صورت حال کا ذکر کرتے ہیں تو اس ذکر میں بھی قاری کو اپنی طرف کھینچ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ غزل میں حالات حاضرہ یا ہنگامی صورت حال کا بیان یوں بھی مشکل کام ہے اور یہ دیکھا بھی گیا ہے کہ جن شاعروں نے حالات حاضرہ کو اپنی غزلوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ان کی غزلیں (بہ استثنائے چند) روکھی ثابت ہوئی ہیں۔ سردار شفیق کے یہاں بھی یہ روکھا پن ملتا ہے مگر ایسے اشعار ان کی غزلوں میں کم ملتے ہیں۔ بیان کی نزاکت، تخیل کی اڑان اور فکر واحساس کی فراوانی ’’غبار صدا‘‘ کی غزلوں کے اہم خصوصیات ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا یہ شعر دیکھیں۔

بھری برسات میں بھی دھوپ کا منظر دیکھ لیتا ہے

عجیب انسان ہے ہر خیر میں شر دیکھ لیتا ہے

مذکورہ شعر کی اثر پزیری اپنا جواب نہیں رکھتی فوراً دل ودماغ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اتنے سادہ انداز میں اتنا پر اثر شعر کہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تاثر کی فراوانی کے ساتھ ہی ساتھ اس شعر کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ اس شعر کا اطلاق مختلف موقعوں پر کیا جا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ یہ شعر اتنا توانا ہے کہ ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ بہر حال بات حالات حاضرہ یا ہنگامی موضوعات کی چل نکلی ہے تواس ضمن سردار شفیق کی غزلوں سے چند اشعار نقل کرنا چاہوںگا ملاحظہ فرمائیں

دھرلیے جاتے ہیں ناکردہ گناہی میں بھی لوگ

کوئی دروازے پہ اپنا نام لکھوائے گا کیا

درخت جڑ سے کٹ گئے عمارتیں بدل گئیں

مرے عزیز شہر کی شباہتیںبدل گئیں

نئے معاشرے میں یہ بگاڑ کیسا آگیا

تمام پچھلے دور کی صداقتیں بدل گئیں

یہ اشعار مجھے اس لیے کھینچتے ہیں کہ ان میں اس حقیقت اور خوف کو شعر کا جامہ پہنایا گیا ہے جس سے آج ہم جوجھ رہے ہیں۔ ان تینوں اشعار میں سے پہلا شعر بلخصوص توجہ کے قابل ہے کہ اس میں جس حقیقت یا خوف کا ذکر کیا گیا ہے وہ اتنا شدید ہے کہ بعض دفع ہمیں اپنی شناخت تک چھپانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ سردار شفیق نے اس حقیقت یا خوف کو جس طرح شعری جامہ پہنایا ہے اس میں کوئی فنی کاریگری تو نہیں ہے (بلکہ اس کی زبان نہایت بھونڈی ہے مثلاً ’’دھر لیے جاتے ہیں‘‘ جیسی زبان کے استعمال سے اس شعر میں شعر جیسی کوئی بات رہ نہیں جاتی ) مگر چونکہ ہم اس خوف سے گزر رہے ہیں اس لیے یہ شعر ہمیں متاثر کرتا ہے۔ مذکورہ شعر کو نقل کرنے اور اس پر اس طرح کی گفتگو کرنے کا مقصد محض یہ ہے کہ سردار شفیق عہد حاضر میں ہونے والی مکاری، فرقہ پرستی اور سیاسی کرتب بازی سے نا صرف واقف ہیں بلکہ اس سے ان کا دل دکھتا بھی ہے کیوںکہ وہ بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیںجنہیں اس خوف سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

سردار شفیق کا تعلق جس علاقے سے ہے اور ان کی تربیت جس ماحول میں ہوئی اس کا اثر ان کی شاعری میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور شائد یہی وجہ ہے کہ ’’غبار صدا‘‘ کی غزلوں میں عشقیہ موضوعات کو بہت کم جگہ ملی ہے جو کہ غزلیہ شاعری کا عام رجحان ہے اور جس کے لیے ہمارے بعض بزرگوں نے غزل کو معتوب قرار دیا تھا۔ سردار شفیق کی غزلوں میں لب ورخصار کا ذکر یا پھر لطیف ہوس رانی کا بیان نہیں ملتا۔ ہاں مگر ان کے عشقیہ اشعار میں نازک اور لطیف جذبہ واحساس کا بیان نہایت فنکاری سے ہوا ہے۔ ذیل میں عشقیہ اشعار کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں اور خیال کی نزاکت نیز جذبہ واحساس کی شدت کو محسوس کریں ۔

ذرا کچھ اور بڑھے لذت جگر کاوی

میں چاہتا ہوں وہ مجھ سے ابھی خفا ہی رہے

بدن پہ زخم بھی ہے سوزش نہانی بھی

یہ جانے والے کا تحفہ بھی ہے نشانی بھی

کسی نے توڑ لیا مجھ سے پیار کا رشتہ

یہ حادثہ ہے انوکھا بھی ناگہانی بھی

اس ستم ایجاد کی ہر بات ہے چونکانے والی

بھول جاتا ہے وہ اکثر خواب میں آنے کا رستہ

سردار شفیق کی غزلیں پرانی قدروں کے زوال کا نوحہ سناتی ہیں۔ سردار شفیق جن قدروں کے پروردہ ہیں انہیں وہ بہت عزیز ہیں۔ ان قدروں کی بدلتی اور بگڑتی صورت انہیںپریشان کر دیتی ہے۔ ان کی غزلوں میں ایک دو شعر ایسے ضرور مل جائیںگے جن میں قدروں کے زوال کا نوحہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیں

درخت جڑ سے کٹ گئے عمارتیں بدل گئیں

میرے عزیز شہر کی شباہتیں بدل گئیں

اس شہر میں رہنا ہے تو سر ڈھانپ کے چلئے

ہر سو ہے ہوائوں میں اچھلتا ہوا پتھر

نئے معاشرہ میں یہ بگاڑ کیسا آگیا

تمام پچھلے دور کی صداقتیں بدل گئیں

جگمگاتے چوک پر حیرت زدہ تنہا مسافر

بھول بیٹھا ہے ترے گھر کی طرف جانے کا رستہ

یہ اور اس قسم کے اشعار سردار شفیق کی تہذیبی وابستگی کا پتہ دیتے ہیں۔ سردار شفیق آنگن اور اس میں لگے پیڑ کے زمانے کے آدمی ہیں۔ آج جبکہ زمانہ بدل چکا ہے آنگن کی جگہ چھوٹے چھوٹے فلیٹوں نے لے لی ہے اور آنگن کا پیڑ اب چھوٹے چھوٹے گملوں میں سما چکا ہے اس لیے ان کے شعر کا راوی جگمگاتے چوک پر حیرت زدہ کھڑا نظر آتا ہے اور اسے یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ وہ کدھر جائے ۔ قدروں کے شکست وریخت کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ گھر آنگن بدل چکا ہے بلکہ ہم سے ہمارا بھائی چارہ بھی چھن رہا ہے۔ صدیوں سے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔ اس بدلتی صورت حال نے ہمارے بزرگوں کو خوف ، حیرت ،دکھ اور مایوسی عطا کی ہے۔ یہی حیرت، مایوسی، دکھ اور خوف سردار شفیق کے یہاں شعری پیکر اختیار کرلیتے ہیں ۔

سردار شفیق کی غزلوں کی زبان بہت سادہ اور سامنے کی ہوتی ہے، یعنی وہ زبان جو ہم عام بول چال میں استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کی زبان کو شاعری بلخصوص غزل میں استعمال کرنا مشکل ہوتا ہے مگر شاعر لفظوں کے برتنے پر قادر ہو تو وہ گرے پڑے لفظوں کو بھی محترم کر سکتا ہے۔ مثلاً میر تقی میر کی غزل کا یہ شعر دیکھیں

یوں پکارے ہیں مجھے کوچہ جاناں والے

ادھر آ بے ابے او چاک گریباں والے

مذکورہ شعر کا دوسرا مصرعہ قابل غور ہے اس مصرعے میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ عموماً گنوار لوگ استعمال کرتے ہیںیا پھر غصے میں اس طرح کے الفاظ زبان سے نکل جاتے ہیں۔ ایسے لفظوں کو میر نے جس طرح استعمال کیا ہے اس کے بارے میں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ میر نے گرے پڑے لفظوں کو بھی محترم کر دیا ہے۔ میر تو بہر حال میر تھے ان کی سی بات اوروں میں کہاں مگر دوسرے شاعروں نے بھی اس قسم کے گرے پڑے لفظوں کو محترم کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی اپنے آپ میں کم نہیں ہے۔ سردار شفیق کی غزلوں کی زبان نہایت سیدھی سادی ہوتی ہے کہیں کہیں انہوں نے ٹھیٹھ ہندی اور عوام کی بول چال کی زبان کا بھی استعمال کیا ہے ۔ ٹھیٹھ ہندی اور عام بول چال کی زبان کا انہوں نے جس طرح استعمال کیا ہے اس سے ان کے لفظوں کے برتنے کی سلیقہ مندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی غزل کے یہ دو اشعار بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں

روپ بھگت ہر دئے کے آگے سچائی کا مان

ای سنسار کے جگ مگ منظر مایہ کی تصویر

گھر گھر پریم کی گاگر چھلکے یہ اپنا اپدیش

نفرت سے یاری مت کرنا یہ اپنی تقریر

ٹھیٹھ ہندی کے لفظوں کے استعمال سے مذکورہ شعر میں جو نغمگیت پیدا ہوئی ہے وہ پڑھنے والوں کو فوراً اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ان اشعار کو پڑھتے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم کبیر کا کوئی دوہا پڑھ رہے ہیں۔ان اشعار کی موسیقیت اس کا آہنگ اور اس کی معنوت آپس میں مل کر سردار شفیق کی فنکاری کا ثبوت دیتی ہیں۔ اب سردار شفیق کی غزلوں سے چند اشعار اور پیش کیے جاتے ہیں جن میں انہوں نے پامال لفظوں کو معنویت سے بھر پور بنا دیا ہے

بس میرے تعارف کے لیے اتنا ہے کافی

ٹوٹی ہوئی پلیا پہ ہوں رکھا ہوا پتھر

کوئی نہیں اپنا قابل فخر کارنامہ

ہماری پہچان باپ دادا کے نام بھر ہے

بہت دنوں سے معاملے زیر التوا تھے

میں اس سے پچھلا حساب کرنے چلا گیا تھا

اک مختصر سی جان تھی کمزور جسم میں

دنیا کا سارا بوجھ اٹھانا بھی تھا مجھے

مذکورہ اشعار میں استعمال ہونے والے الفاظ ’’پلیا، باپ دادا، پچھلاحساب اور بوجھ اٹھانا‘‘ وغیرہ نہایت ٹھیٹھ الفاظ ہیں ، غزل کی نازکی ایسے الفاظ کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی مگر سردار شفیق کی سلیقہ مندی اور فنکاری نے ایسے لفظوں کو بھی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کر لیا ہے۔ ایسے لفظوں کا استعمال اور وہ بھی غزل میں استادوں کا ہی کارنامہ ہے اور قادرالکلامی کا ثبوت ہے اس لیے سردار شفیق مبارک باد کے مستحق ہیں۔

’’غبار صدا‘‘ کی غزلوںکے اشعار سردار شفیق کی استادی، ان کی فنکاری اور شاعری سے متعلق ان کے خیالات کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ سردار شفیق محض لفظوں کی صف آرائی کو شاعری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک شاعری حسن آہنگ ومعانی تک رسائی کا نام ہے۔ اسی لیے تو وہ کہتے ہیں کہ

صرف لفظوں کی صف آرائی نہیں فن کی نمود

حسن آہنگ ومعانی تک رسائی بھی تو ہو

اس شعر سے سردار شفیق کا تصور فن بالکل صاف ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ فن (شاعری) محض لفظوں کی صف آرائی نہیں ہے۔ لہٰذا حسن آہنگ ومعانی تک رسائی کے بغیر جو شاعری سامنے آئے گی وہ ذوق کی تسکین کے بجائے طبیعت کو مکدر ہی کرے گی۔ سردار شفیق نے اسی لیے اپنی غزلوں میں آہنگ اور حسن معانی کا خاص خیال رکھا ہے۔ ان کے یہاں معانی آفرینی اور آہنگ کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ ذیل میں ’’غبارصدا‘‘ کی غزلوں سے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں جو میرے دعوے اور سردار شفیق کے تصور فن کی تصدیق کریںگے۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں

کیا کم ہے کہ ہوئے نفع وزیاں سے واقف

اس تجارت میں بہر حال خسارا تو ہوا

تلووں میں چھالے پڑ گئے اس سے غرض نہیں

صحرا کی گرم ریت بھی پامال تو ہوئی

ہر بن مو رنج تنہائی سے ہے شعلہ نفس

رات جب بھیگی تو زخموں کا ذخیرہ جل گیا

تیرے جہاں کی سرائے میں دھول اڑے گی یا رب

یہ رونق صبح وشام میرے قیام بھر ہے

آئو دیکھیں کس سلیقے سے سجی ہے قتل گاہ

شام کے چہرے پہ سورج کا لہو تازہ ہوا

’’غبار صدا‘‘ میں اس قسم کے اشعار کی کمی نہیں ہے اور یہی سردار شفیق کی غزلوں کا اصل رنگ ہے اور ان کی شاعری کی پہچان بھی۔ سردار شفیق کی غزلوں کا امتیاز ہی آہنگ ومعانی کا امتزاج ہے۔ ’’غبار صدا‘‘ میں سردار شفیق نے استعارے اور ترکیبیں بھی وضع کی ہیں۔ ان استعاروں اور ترکیبوں نے ان کے اشعار کو معنوی وسعت سے بخشی ہے اور شعری حسن میں اضافہ بھی کیا ہے۔ سردار شفیق کو اپنی اس خوبی کا احساس بھی ہے اسی لیے تو انہوں نے کہا ہے کہ

جیسی چاہوں نئی ترکیب وعلامت لکھوں

مجھ کو لفظوں کے تصرف پہ اجارہ تو ہوا

علامت و استعارے سے سردار شفیق نے اپنے مجموعہ ’’غبار صدا‘‘ کو اس خوبی سے سجایا ہے کہ اشعار کے معنوی حسن، تاثر اور دلکشی میں مزید ضافہ ہو گیا ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیں

ہوا کے جھونکے تھے برفاب میں نہائے ہوئے

چھپی ہوئی تھی خلائوں میں دھوپ رانی بھی

ٹھر گیا ہے مرے سر پہ ہانپتا سورج

دکھائی دیتے ہیں سائے نہ ڈھل رہی ہے دھوپ

کہیں نہ آبلے پڑ جائیں اس کے تلووں میں

برہنہ پا مرے ہمراہ چل رہی ہے دھوپ

وہ تو موسیٰ سے ہوگیا منصوب

پھر دکھا کوئی برق پارہ نیا

سردار شفیق کی غزلوں میں تخیل کی اڑان کے ساتھ ساتھ فکروفلسفہ کی آمیزش بھی ہے ۔ ان کی زبان سادہ اور سلیس ہے نیز انہیں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے۔ جدید وقدیم اسلوب یعنی کلاسکیت اور جدیدیت کا بہترین امتزاج بھی ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ ان کی غزلوں میں معنوی حسن کے ساتھ ساتھ غنائیت بھی ہے۔ کہیں کہیں ان کی زبان نہایت کھردری بھی ہوگئی ہے مگر یہ کھردرا پن ہنگامی موضوعات کو برتنے کی وجہ سے آیا ہے۔ ہنگامی موضوعات سے قطع نظر ان کی غزلوں کے اشعار فکر وفن کا عمدہ نمونہ ہیں۔ بحیثیت مجموعی ’’غبارصدا‘‘ کی غزلیں معنوی حسن اور آہنگ سے لبریز ہیںاور یہی اس مجموعے کا امتیاز ہے۔

Dr. Syed Qamar Sidiquee

H.No. 155/3, Shaheen Bagh, Jamia Nagar, New Delhi-110025

Mob.No. 8700712701/ 9716935294

Emal Id. qamarjnu81@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.