محمود الٰہی بحیثیت محقق

ڈاکٹرعارف اشتیاق

دہلی یو نیورسٹی ،دہلی

9891627264

aarifdu@gmail.com

محمود الٰہی ایک محقق، ادیب و شاعر، طنزومزاح نگار، منتظم اورمربی کی حیثیت سے اردو کے ان نابغہ شخصیات میں سے ہیں جنھوں نے اپنے علمی اور انتظامی امور سے ایک پوری نسل کی آبیاری کی ہے۔ 2؍ستمبر1930میں قصبہ ٹانڈہ اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ اپنی تعلیم کا آغاز مدرسہ کنزالاسلام سے کیا اور وہیں سے عالم اور فاضل کی اسناد حاصل کیں۔ جدید تعلیم کے حصول کے لیے 10؍ویں اور بارہویں کے امتحانات پاس کیے اس کے بعد آگرہ یونیورسٹی سے بی اے اورایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تحقیق کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے جہاں پروفیسرمحمد حسن کے شاگرد ہوئے اورانہیں کے زیرنگرانی ’اردو قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ ‘ کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ وہ مختلف کالجوں میں استاد رہے بعدہٗ 1959میں گورکھپور یونیورسٹی میں استاد کی حیثیت سے منسلک ہوئے اور تقریباً 35سال تک اپنی خدمات انجام دیں۔(1)

محمودالٰہی نے یوں تو یوں تو دیگر اصناف ادب میں اپنی نمایاں خدمات پیش کیں مگر ان کا اصل میدان تحقیق وتدوین ہے۔ ان کے اہم تحقیقی کارناموں میں اولین تذکروں کی بازیافت ہے۔ انہوں نے مولوی کریم الدین کے تذکرہ ’طبقات شعراء ہند‘ کو اردو زبان وادب کی الین تاریخی دستاویز کی حیثیت سے روشناس کرایا جب کہ ‘تذکرہ شعراء عرب‘ اردو زبان میں عربی شعراء کے اولین تذکرہ کی حیثیت سے متعارف کرانے کا سہرا پروفیسرموصوف کے سر ہے۔

ان کے اس تحقیقی کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے استاد پروفیسرمحمد حسن لکھتے ہیںکہگورکھپور اور اس نواح کے علمی اور ادبی ذخیروں کی بازیافت میں محمود الٰہی نے پہل کی ہے۔ صحیفۂ محبت، کریم الدین کا خط تقدیر اور میرکے تذکرہ نکات الشعراء اور رجب علی بیگ سرور کے فسانۂ عجائب کے نئے ستون کے سلسلے میں محمود الٰہی کی دریافتیں تحقیق میں نئے باب کا اضافہ ہیں۔ (2)

محمود الٰہی نے ان تذکروں کی چھان پھٹک کی اور مختلف دلائل سے اس کی تاریخی اور ادبی اہمیت واضح کی۔میرکے تذکرہ نکات الشعراء پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تذکروں کی تعداد میں اضافہ کرنا کوئی خاص بات نہیں اور نہ اس کا شمار کریم الدین کی امتیازی خدمات میں ہوگا۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تذکرے کو تاریخ کی ایک شاخ سمجھتے تھے اور اپنے تذکروں کو ادبی تاریخ کا نمونہ بنانا چاہتے تھے جسے اردومیں اپنے طرز کی پہلی شعوری کوشش سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔(3)

محمود الٰہی کی تحقیقی وتدوینی شعور پختہ کرنے میں ان کے استاد محمد حسن کی کاوشوں کا بڑا دخل ہے۔ انھوں نے تحقیق کے اسرارورموز سے محمود الٰہی کو واقف کرایا۔ اگر استاد کی رہنمائی شامل حال نہ ہوتی تو یہ جوہرپارہ کسی گمنامی میں کھوجاتا اور آج ہم ان وقیع تحقیقی نگارشات سے ناواقف رہتے۔ محمدحسن ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہا  ایک موقع پر سخت غصہ آیا کہ کام ڈھیلے بھر نہیں کیا ہے اور پانی کی جھیل پائچے چڑھا کر عبور کرتے چلے آرہے ہیں گویا میں حضور کے رخ پر لوز کی زیارت کے لیے بے اصرار تھا۔ غرض جو منہ میں آیا کہتا چلاگیا بعد کو احساس بھی ہوا کہ بے جابات ہوئی اس موقعے پر غصے کی کیا تک تھی۔ مگر عجیب وغریب معاملہ یہ ہوا کہ اس دن کے بعد سے محمودالٰہی میں زبردست تبدیلی واقع ہوئی۔ اچانک تحقیقی کام کے سلسلے میں نہایت سنجیدہ ہوگئے۔ (4)

ان کے تحقیقی کارناموں نے طبقات شعراء ہند، تاریخ شعراء عرب، میرؔ کے نکات الشعراء، فسانۂ عجائب کے متن کی اشاعت کریم الدین کے ناول خطِ تقدیر کا تعارف اور تذکرۂ شورش اہم ہیں۔ ان نگارشات میں ان کا اسلوب سادہ اور عام فہم، دلائل منطقی، زبان شستہ اورسنجیدہ ہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ جس موضوع پر کام کرتے ہیں اس دور کے پورے علمی وتاریخی منظرنامے پر نظر رکھتے ہوئے رائے قائم کرتے ہیں۔ مسودے میں درج دیگر حوالوں کی تحقیق اورذرائع معلومات کی چھان پھٹک بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو جس میں وہ لکھتے ہیں کہ حسن اتفاق کہ تاریخ شعراء عرب کا بھی سال اشاعت وہی ہے جو ’آثارالصنادید‘ کا ہے۔ کریم الدین اور سرسید دونوں نے معاصر علماء کا تذکرہ لکھا مگر دونوں کی معلومات کے ذرائع مختلف ہیں۔ دونوں کے بیانات کے مطالعے سے علماء کے سوانحی حالات اور ان کے اکتسابات پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ (5)

محمود الٰہی صاحب کا خیا ل ہے کہ تحقیقی روش محنت شاقہ کی طلب گار ہوتی ہے۔ وہ شورش کے تذکرہ رموز الشعراء مرتبہ کلیم الدین احمد کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی تالیف کی بعض کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلاً کلیم الدین احمد نے جس اوکسفرڈ والے نسخے کو بنیاد بناکر شائع کیا محمود الٰہی اس کے بالمقابل اس سے دس سال قدیم نسخے سے موازنہ کرتے ہوئے جدید نسخے میں بعض تحریفات کی طرف دلائل کے ساتھ نشاندہی کرتے ہیں۔ (6)

محمود الٰہی نہ صرف خود تحقیقی کام میں ہمہ تن مصروف رہے بلکہ اپنے شاگردوں کو اس کے لیے خاص تربیت کی۔ اپنے کسی شاگرد کو مسودے کی تلاش وجستجو کے دوران ساتھ رکھتے اور ان کی تربیت کرتے پروفیسرعبدالحق صاحب کی تحقیقی شغف حاتم کے دیوان اوردوسرے قدیم ادب کی تدوین وبازیافت کو پروفیسرمحمودالٰہی کی تربیت کا ثمرہ اور ان کے ذریعہ کیے گئے تحقیقی کاموں کے توسیع کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ محمود الہی کے زیرنگرانی تیار کیے گئے رسرچ اسکالر کے تحقیقی مقالے اپنے معیار اور تازگی کے حامل ہوتے اس کے علاوہ پیشکش اور تجزیے کے انداز میں بھی نیاپن ہوتا یہاں تک کہ گورکھپور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ کا ان کے رسرچ کے معیار کی وجہ سے پورے ہندوستان میں بول بالا ہوا۔ دہلی، علی گڑھ، جے پور، الہ آباد وغیرہ کے علمی مراکز میں اپنی دھاک جمالی اوربقول محمد حسن اردو تحقیق میں ایک نیا دبستان وجود میں آگیا جس کی پہچان تھی واضح ضابطہ بندی، غیر ضروری لفاظی سے پرہیز، دیانت دارانہ تجزیہ کی کوشش اورموضوع سے متعلق جملہ تفصیلات پرذمہ دارانہ عبور۔(7)

وہ نام ونمود کے بالکل متمنی نہ تھے ،ایک گوشہ میں بیٹھ کر خاموشی سے کام کرنے کے عادی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علمی مجلسوں اور مشاعروں میں شریک نہ ہوتے۔ مگر بغیر شور شرابے اور دھوم دھڑکے سے اپنا کام کرتے رہتے آج کے دورمیں جب کہ اہل دانش نام ونمود کے طلب گار ہوں اور اشتہار بازی کے فن سے اپنی علمیت کا اعتراف کراتے ہوں۔ محمود الٰہی کونے میں بیٹھ کر خاموشی سے کام کرتے رہنے کو ہی عبادت جانتے تھے اور محفلوں میں اگر جاتے تو آخری صف میں بیٹھ کر اپنا افتخار جانتے تھے۔ انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس کا پورا حق ادا کیا اور اگر نہیں ہوسکا تو اس کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ علمی دیانتداری ان کا شیوہ تھی اس کی واضح مثال پروفیسرعبدالحق کے مشاہدے میں آئی جس کا بیان وہ بعض علمی مجلسوں میں بھی کرچکے ہیں وہ یہ کہ دنیا کا سب سے قدیم اور بیش قیمتی دیوان حافظ کا نسخہ محمود الٰہی صاحب کی دریافت تھی۔ یہ خواجہ حافظ شیرازی کے حین حیات کا خطی نسخہ تھا اور قزوینی کے مرتب کردہ نسخے سے قدیم۔ بہ گراں بہا علمی سرمایہ لاکھوں نہیں کروڑوں کے زر مبادلہ سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر محمود الٰہی صاحب کی دیانت داری دیکھئے کہ انھوں نے یہ نسخہ ڈاکٹرنذیر احمد (علی گڑھ) کے حوالے کیا۔ اس عذر کے ساتھ کہ فارسی ان کا میدان نہیں اگر چہ وہ فارسی زبان وادب پرگہری نظر رکھتے تھے۔ یہ نسخہ شاہ ایران کی توجہ کامرکز بنا اور شاہی خرچے سے شائع کیا گیا۔ (8)

حالانکہ محمود الٰہی صاحب کا کما حقہ اعتراف واستحسان نہیں کیاگیا جن کی کاوشوں سے فارسی تحقیق فیضیاب ہوئی۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ ان کے شاگرد رشید پروفیسرعبدالحق جو کہ اپنے استاد کے بہت سے تحقیقی کاوشوں میں جزوی طور پر معاون ومددگار ہوئے اس قدیم دیوان حافظ کی دریافت وتلاش (خانقاہ رشید یہ جون پور کے قدیم کتب خانے جہاں اس کی دریافت ہوئی)میں شریک وساجھی تھے۔

محمودالٰہی نے سرسیدکو امام غزالی کے اس قول کے مصداق قراردیا تھا۔ جب کہ وہ خود اس قول کے حامل نظرآتے ہیں۔ امام غزالی نے کہا ہے۔ ’ہر ایک محقق کو تحقیق لازم ہے اور تقلید اس پرحرام ہے پھرکیوں کرتحقیق وتقلید ساتھ ہوسکتی ہے۔ یہ تو ایسی بات ہے کہ جیسے کہ کوئی کہے کہ تجھ کو دیکھنا واجب ہے مگر جوبتایا گیا ہے اس کے سوا مت دیکھو اور اسی کو تحقیقی سمجھ اور جوچیزمشتبہ بتائی گئی ہے اس کو مشتبہ سمجھ۔(9)

پروفیسرمحمودالٰہی تحقیق وتدوین کو نہ صرف ایک علمی کام سمجھتے تھے بلکہ اگر وہ تحقیقی کام محقق کی استطاعت سے باہرہوتو اسے اس فن کے ماہرکے حوالے کرتے۔ اس سلسلے میں دوسرا اہم واقعہ کریم الدین کے تذکرہ ’طبقات شعراء ہند‘ کے اس حصے سے متعلق ہے جو ہندی کے شعراء سے متعلق ہے۔ پہلے تو یہ عرض کرنا از حدضروری ہے کہ محمودالٰہی اردو کے ساتھ ساتھ ہندی ادب کی تاریخ کا آغاز ’طبقات شعراء ہند‘ سے مانتے ہیں ان کے اس ماننے کے کچھ منطقی دلائل بھی ہیں۔ اپنی کتاب بازیافت کے حاشیے میں لکھتے ہیں کہ ہندی کے ناقدین اورمحققین بھی تاسیؔ کی محولہ بالا کتاب کو ہندی ادب کو پہلی تاریخ تسلیم کرتے ہیں… یہ حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ ’طبقات شعراء ہند‘ خود تاسیؔ کو تاریخ کا ایک اہم ماخذ ہے۔ اپنی بہت سی خامیوں کے باوصف یہ جس طرح اردو کی ادبی تاریخ کا پہلا نمونہ ہے اس طرح ہندی کی بھی پہلی ادبی تاریخ ہے۔ (10)

پروفیسرمحمودالٰہی کے مطابق ’طبقات شعراء ہند‘ اردو والوں کے لیے تو ایک جانی پہچانی کتاب ہے ہی ضرورت اس کی تھی کہ ہندی دنیا میں اس کا تعارف کرایا جائے۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہندی زبان وادب کے بارے میں ان کا علم ناقص ہے اس لیے طبقات کے ہندی والے حصے پر رائے دینے کا ان کا حق نہیں۔ اس کام کے لیے انھوں نے گورکھپور یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسرڈاکٹر رام چند تیواری کے سپرد کیاتاکہ وہ اسے مرتب کریں جس کو انھوں نے دیونگری رسم الخط میں ضروری حواشی اور ایک فاضلانہ مقدمے کے ساتھ تیار کیا۔یہ ہے محمود الہی کی دیا نت داری اور علم دوستی کا ثبوت۔

پروفیسرمحمودالٰہی اردو ہندی اور دیگرزبانوں کے تحقیقی اور علمی سرمایہ سے باہم استفادہ اور تعاون کے قائل ہیں وہ چاہتے ہیں کم از کم وہ زبانیں جو ایک تہذیبی اورمعاشرتی سلسلے کی پیداوارہیں ان کو ایک دوسرے کی علمی سرمائے سے فائدہ اٹھانا چاہیے وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں ابھی مل جل کر تحقیقی کام کرنے کا چلن عام نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے برعکس یہاں تو تحقیق کو ایک پر اسرارفن بنادیاگیا ہے۔ (11)انہوں نے باہم اشتراک سے تحقیق کر نے کے رجحان کو فروغ دینے کا کام کیا ۔

ان کی تحقیق اور عالمانہ مقدموں کو اردوتحقیق وتنقید کی اہم کڑی سے تعبیر کرسکتے ہیں وہ کریم الدین کے ’تذکرہ طبقات شعراء ہند‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’کریم الدین نے طبقات کا جو نقشہ تیارکیا تھا اس کے مطابق وہ اسے مرتب نہ کرسکے۔ وہ اس کی پوری طورپر پابندی نہ کرسکے کہ شعراء کی پیدائش اوروفات کی تاریخیں لکھیں یا ان کے حالات بیان کریں۔ شعراء کو ادوار اور طبقات میں تقسیم کرنے کے باوجود ان کے یہاں تاریخی تسلسل کی بڑی کمی ہے… طبقات کے حصہ اول اور حصہ سوم کے پہلے طبقے تک غلطیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہی وہ سرحد ہے جہاں تک تاسی کا عکس انھوں نے پورے طور پر قبول کیا ہے۔ ان کی غلطیوں پر یہ کہہ کر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا کہ وہ تاسی سے متاثرہوگئے۔ ان غلطیوں کا انتساب بہرحال ان کی طرف ہوگا اور یہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں ان کی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت مفلوج اور معطل ہوکر رہ گئی ہے۔(12)

محمود الٰہی نے طبقات کے سلسلے میں اپنی تمام تر اعترافات کے باوجود سخت تنقید کی ہے۔ ان کا تحقیق سے متعلق کلیہ واضح ہے جس کا اندازہ ان کے ایک مضمون بعنوان ’اردو میں عربی شعراء کا پہلا تذکرہ‘ میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ تحقیق اس کا نام نہیں کہ وقت صرف کیا جائے، محنت کی جائے اورزیادہ سے زیادہ ماخذ فراہم کیے جائیں بلکہ اس میں وسعت مطالعہ، ذوق نظر اور کلکتہ استنباط نتائج کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ (13)

محمودالٰہی جس موضوع پرکام کرتے ہیں موضوع کی مناسبت سے اس دورکے تمام علمی، سیاسی وسماجی حالات کو سامنے رکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ انھوں نے جو بھی تحقیقی کام کیے وہ ایک مشن کی طرح ہیں۔ اردو میں جدیدتاریخ نویسی کی تاریخ مرتب کرنے کا سہرا محمود الٰہی کے سرجاتا ہے۔آخرمیں صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک محقق تھے بلکہ ایک محقق ساز بھی تھے۔ ان کے شاگردوں کے وقیع تحقیقی کارناموں اور ان کی فتوحات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یقینا محمود الٰہی ایک نابغہ تھے۔

حواشی

(1)پروفیسرعبدالحق، ذکریارمہرباں، اصیلاپریس، نئی دہلی، 2011،ص:68

(2)محمدحسن، ہے میرے تصرف میں یہی مسند ارشاد، مشمولہ: محمد حسن افکارواسالیب، از پروفیسرعبدالحق، اردو اکادمی دہلی، 2010،ص:265

(3)محمود الٰہی، بازیافت، دانش محل، لکھنؤ،1965،ص:39

(4)محمدحسن، ہے میرے تصرف میں یہی مسند ارشاد، مشمولہ: محمد حسن افکارواسالیب، از پروفیسرعبدالحق، اردو اکادمی دہلی، 2010،ص:264

(5)محمود الٰہی، بازیافت، دانش محل، لکھنؤ،1965،ص:186

(6)ایضاً،ص:194

(7)محمدحسن، ہے میرے تصرف میں یہی مسند ارشاد، مشمولہ: محمد حسن افکارواسالیب، از پروفیسرعبدالحق، اردو اکادمی دہلی، 2010،ص:264-65

(8)پروفیسرعبدالحق، ذکریارمہرباں، اصیلاپریس، نئی دہلی، 2011،ص:71-72

(9)النظر فی رسالۃ الامام حجۃ الاسلام ابوحامد محمدالغزالی المسی بہ المتفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ، مطبع فیض عام، علی گڑھ، بحوالہ بازیافت،ص:15

(10)محمود الٰہی، بازیافت، دانش محل، لکھنؤ،1965،ص:49-50

(11)ایضاً،ص:51

(12)ایضاً،ص:55

(13)ایضاً،ص:168

٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.