گوپی چندنارنگ کی فکشن تنقید

ڈاکٹرسلمان بلرامپوری

لکچرار،ڈائٹ کالج، سراوستی، یوپی

اردوفکشن تنقیدمیںگوپی چندنارنگ کی اہمیت ایک نظریہ ساز کی ہے۔ انھوںنے نہ صرف نظری بلکہ اردو فکشن کی عملی تنقید کے بھی نہایت عمدہ نمونے پیش کیے ہیں۔ اپنے بیش ترتنقیدی سرمایوںسے اردو کی ادبی تنقیدمیں اضافہ کیا ۔نارنگ نے ابتدامیں نئی کہانی میں نئے اسلوب اورعلامت نگاری کی حمایت کی تھی لیکن بہت جلدہی ان کو علامت ،ابہام اور لایعنیت کااحساس ہوگیا اورانہوںنے پریم چند، بیدی، منٹواورعصمت چغتائی کی روایت سے ۱۹۷۰ء کے بعدکے افسانے کوقریب لانے کی کوشش کی، جسے روایت کی بازیافت بھی کہہ سکتے ہیں۔ فکشن تنقیدمیں ۸۰۔۱۹۷۰ء کے بعداردوافسانے کی تشکیل نو میں گوپی چندنارگ جہاںایک طرف بطور نقادتنقیدی مضامین لکھ رہے ہیں تودوسری طرف عملی طورپرسرگرم بھی دکھائی دیتے ہیں۔ گوپی چندنارنگ نے بڑے اہم سمینار قومی سطح پر منعقد کیے۔جن میں اردوافسانے اورناول کی روایت، اس روایت کی توسیع اورناول اور افسانے کے فن پرگفتگو ہوئی۔ ان سمیناروںمیں بطورخاص نئے لکھنے والوں کو افسانہ ،افسانے کی روایت، فن کے مسائل اورفن کاری پر کھل کربات چیت کرنے اوراپنے شبہات دورکرنے کاموقع ملا۔ فکشن پر منعقد یہ سمینار اردوفکشن کی تاریخ میں یادگار شمارکیے جاتے ہیں۔ گوپی چندنارنگ کے مضامین میں ’افسانہ نگار پریم چند(تکنیک میں Ironyکا استعمال)،منٹوکی نئی پڑھت:متن ممتااور خالی سنسان جڑیں، بیدی کے فن کی استعاراتی اوراساطیری جڑیں ، انتظارحسین کافن:متحرک ذہن کاسیال سفر اورنیاافسانہ ـعلامت ،تمثیل اور کہانی کاجوہر،خاصے اہم مضامین ہیں جوادب کے طالب علموں کے لیے مباحث کے دروازے کھولتے ہیں۔

پروفیسر گوپی چندنارنگ کااختصاص تھیوری ہے تاہم وہ نظریہ سازی کے عمل کومتن کے حساس اورخیال انگیز تجزیاتی مطالعے سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ تھیوری کے تعارف اورپھراس کی اطلاقی جہت کی نشان دہی میں پروفیسر نارنگ بھی یک رخے یا ٹکنیکل نہیں ہوتے اورادق ونامانوس اصطلاحات کے بے محابا استعمال سے قارئین کو بدحظ نہیں کرتے۔ نظری مباحث خواہ کتنے ٹکنیکل کیوںنہ ہونارنگ صاحب کی تحریر اردو کے مخصوص تنقیدی محاورہ سے بہرصورت منسلک رہتی ہے۔ افسانہ کارد تشکیلی مطالعہ کس طرح کیاجائے ،تانیثی افسانہ کے امتیازات کیاہیں، تخلیقی تحریرکی صنفی درجہ بندی پراصرارکیوں غیر تنقیدی سرگرمی ہے اورافسانہ کے ثقافتی خلقیہ (Pefit)سے کیامرادہے، افسانہ میں مصنف کی آواز کے علاوہ دیگرآوازوں کاتفاعل کیا ہے۔

گوپی چندنارنگ کامضمون منٹوکی نئی پڑھت ۔فن ،ممتااورخالی سنسان جڑیں، اصلابیانیات کے نئے تناظرمیں منٹوکے فنی امتیازات کو واضح کرتاہے۔ منٹوکے موضوع سے متعلق رقم طرازہیں:

’’منٹوکاموضوع پیشہ ورطوائف یاآرائشی گڑیاہرگزنہیں بلکہ منٹوکاموضوع پیشہ کرنے والی عورت کے وجودکی کریہ یااس کی روح کاالم یاس کے باطن کاسوناپن ہے جس کوکوئی بانٹ نہیں سکتاہے۔‘‘۱؎

گوپی چندنارنگ کے مطابق کیاسوگندھی کاکردار’کرونا‘کے وشال روپ کا،یاممتایعنی عورت کے ترفع یافتہ تخلیقی وجودکاچہرہ نہیںجوکائنات کے بعد بھرے سنگیت کاحصہ ہے۔ جوکانوں میں اسی وقت آتا ہے جب ہم ظاہری یامعمولی حقائق کی آلائشوں میں گھری آنکھوں کوبندکرلیتے ہیں اور اندرکی آنکھوں سے متن کی روح میں سفرکرتے ہیں۔’کرونا‘کہ یہ تہہ تشین لہرپورے بیانیہ کی Ironyمیں جاری رہتی ہے جوسوگندھی اورمادھوکے رشتے کو قول محال کی صورت میں تشکیل کرتی ہے۔

نارنگ نے منٹو کے افسانوں کے مطالعہ میں ان امورکو موضوع بحث بنایاہے جویقینا منٹوکی نئی پڑھت ہے۔ جس میں سوچ کی کئی تہیں یاکئی آوازیں ایک ساتھ ابھرتی ہیں اور مصنف کرداروں کے مختلف نقطہ ہائے نظرکو آزادانہ ابھرنے دیتاہے ۔یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ منٹو مختلف آوازوں کوکسی ایک مرکزی آوازکے تابع نہیں رہنے دیتا۔ اس کے تمام کرداراپنے نقطہ نظرسے داخلی ارتکاز کی کسی نئی اورغیر متوقع جہت کوپیش کرتے ہیں۔ نارنگ کے مطابق بابوگوپی ناتھ میں واقعتاکرداروں کانگارخانہ رقصاںہے ۔عبدالرحیم سینڈو،غفارسائیں، غلام علی، کشمیری کبوتری زینت ،بیگم ،ٹین پیٹوٹی،فل فل فوٹی، مسزعبدالرحیم عرف سرداربیگم، محمدشفیق طوسی، محمدیٰسین ،غلام حسین وغیرہ چھوٹے بڑے سب کرداراپنااپنا رویہ ،اپناانداز، اپنے اطواراوراپنی نفسیات رکھتے ہیں اور اپنے نقطہ نظر ،اپنی زبان اور اپنے محاورے میں بات کرتے ہیں ۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس سے بہترین کثیرالاصوات Poly Phonyاردوافسانہ شایدہی ملے۔

پریم چند کے مشہورافسانہ ’کفن‘ کی موضوعاتی تفہیم کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں۔ ترقی پسند اورجدید نقادوں کے افسانہ کے عنوان کوبھی موضوع بحث بنایاہے اورعام طوپر اسے بدھیا کا کفن ٹھہرایاگیا ہے۔ ترقی پسند ناقدوں نے کفن کی تمثیلی قرأت پراصرا رکیاہے اورلکھاہے کہ ولادت سے مرادنئی نسل دردزہ میں کراہتی عورت ۔نارنگ صاحب کے مطابق اس نوع کی تنقید ایک غیرعلمی معصومانہ کوشش سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔

 گوپی چندنارنگ کے مطابق کفن کابنیادی اسٹرکچر آئرنی پراستوارہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’کفن کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس میں حقیقت کی ترجمانی نہایت بے رحمی اورسفاکی سے کی گئی ہے ،لیکن جوحضرات اس کہانی کوتمثیلی سطح پر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ، یعنی ولادت سے مرادآنے والی نسلیں یازمانہ ہے ،دردِ زہ کراہتی ہوئی عورت افریقی ایشیائی سماج ہے یاتاڑی کانشہ انقلاب جنوں ہے، توایسی تنقید سے زیادہ سے زیادہ ہمدردی یہ کی جاسکتی ہے کہ اسے غیرعلمی معصومانہ کوشش سمجھ کر نظرانداز کردیاجائے۔ دراصل کہانی کی جان حالات کی وہ Irony (ستم ظریفی) ہے جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا۔‘‘۲؎

گوپی چندنارنگ کے مطابق کہانی کامرکزی نقطہ بدھیاکی موت ہے ۔اس بے بس ونادار عورت کی موت کاالمیہ ایک تاریک سایہ بن کرپوری کہانی پرچھایارہتاہے،لیکن سوائے کراہنے کی آوازکے جورہ رہ کر درد کی ٹیس بن کرابھرتی ہے، بدھیاکے کسی عمل کی کوئی تفصیل پیش نہیں کی۔ کہانی کے بیچ میں موت کاالمیہ اوربیانیہ کی Ironyپوری طرح گرفت میں لے لیتے ہیں۔بعدکاحصہ اسی تاثرکی شدت اورکیفیت کومزید گہرا کرتاہے۔ کرداروں کی بے حیائی اوربے حسی اورکھل کر سامنے آتی ہے۔ نارنگ لکھتے ہیں:

’’پوری کہانی کی فضاطنزیہ ہے ۔پریم چند ایک سنگین سچائی سے پردہ اٹھاتے ہیں،اورآخری وارایسا بھر پورکرتے ہیں کہ پوری کہانی نام نہاد انسانیت اورشرافت کے منہ پر زبردست طمانچہ بن جاتی ہے۔ کفن میں دراصل دوکفن ہیں ایک وہ جس کے پیسوں سے یہ تاڑی پیتے ہیں، دوسرا کفن وہ ہے جسے مرنے والی نے اپنی لاش سے اس بچے کوپہنایا ہے جواس کے پیٹ کے اندرمرگیا ہے۔‘‘۳؎

گوپی چندنارنگ نے اپنے اس مضمون’’افسانہ نگار پریم چند(تکنیک میں Irony کااستعمال) ،میں پریم چندکے متعددافسانوں میں آئرنی کے خلاقانہ استعمال کی مختلف صورتوں کی نشان دہی کی ہے۔ ان کے مطابق معروضیت اورحقیقت کی بے لاگ ترجمانی اورآئرنی کافنکارانہ استعمال پریم چند کی بظاہر حقیقت پسندانہ کہانیوں مثلادوبیلوں کی کہانی ،عیدگاہ، مس پدما، شطرنج کے کھلاڑی، دودھ کی قیمت ،سواسیر گیہوں ،نئی بیوی، پوس کی رات اور جرمانہ وغیرہ کی تشکیل سازی دیکھی جاسکتی ہے۔

نارنگ کی تنقیدی تحریروں کاخاص وصف معروضیت ہے اوراگرکسی بڑے سے بڑے فن کارمیں بھی انہیں کوئی فنی عیب نظرآتاہے تووہ اس کی برملا نشان دہی کرنے میں کوئی تکلف نہیں کرتے ۔عیدگاہ کی عام طورپر پذیرائی کی جاتی ہے ۔مگرنارنگ کے نزدیک یہ کہانی Over Writtenہونے کی بھی مثال ہے کہ اصل کہانی انسان کے خلقی Doxaکوخاطرنشان کرتی ہے۔ عیدگاہ میں (یعنی عقیدہ کی سطح پر) تومساوات کاسماں نظرآتاہے مگربازارمیں آتے ہی عدم مساوات یاامیری غریبی کافرق پوری طرح واضح ہوجاتاہے ۔ کھلونوں کی خریداری سے یہ عمل ظاہرہوتاہے ۔نارنگ کے مطابق جب تک سارے لوگ عیدگاہ میں تھے ،سب ایک تھے لیکن جیسے ہی میلے کے بازارمیں آئے، بڑے توبڑے، چھوٹے چھوٹے بچوں تک میں اونچ نیچ کافرق پیداہوگیا۔ کہانی تودراصل کھلونوں کی خریداری کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے، پریم چند اپنی اچھی سی اچھی کہانی میں بھی کچھ نہ کچھ زیادتی توکرتے ہیں۔ چنانچہ اسے خواہ مخواہ دادی امینہ تک پہنچادیا ہے اورچھوٹے حامد کے فطری انسانی عمل کوبڑھاپے میں اوربوڑھی امینہ کے عمل کوبچپن مین تبدیل کرنے کی غیرضروری کوشش کی ہے ۔

پروفیسر نارنگ نے بلونت سنگھ اورانتظارحسین ان دونوں فن کاروں پرتفصیلی مضمون لکھے ہیں۔ انتظار حسین کے موضوعاتی شعور اورفنی ارتکاز کے مراحل کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہوئے مصنف نے چار ادوار کی صراحت کی ہے ۔بقول نارنگ پہلادور گلی کوچے اورکنکری، کے افسانوں کاہے جوماضی کی یادوں اورتہذیبی معاشرتی رشتوںکے احساس پرمبنی ہیں۔دوسرادورآخری آدمی،کے افسانوں کاہے جس میں ان کا بنیادی سابقہ انسانی وجودی نوعیت کاہے۔ تیسرادورشہر افسوس کے افسانوں کاہے جوزیادہ ترسماجی ،سیاسی نوعیت کے ہیں۔ جن میں گہراسماجی طنزہے۔ چوتھے دورکے افسانوں کے موضوعات یاتونفسیاتی ہیں یابودھ روایت ،دیومالا اورمختلف النوع اساطیری روایتوں کوباہم آمیز کرکے آج کے انسانی یاتہذیبی تناظر میں کوئی نیا سوال اٹھانے یانئی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نارنگ نے انتظار حسین کے افسانوں کی عصری صورت حال سے تطبیق اور ان کے فنی طریقہ اور ان کے امتیازات کو نشان زد کرنے کے لیے ان کے بعض مشہور افسانوں ’’ آخری آدمی‘‘ ، سیڑھیاں، وہ جو کھوئے گئے‘‘، کایا کلپ، ’’ کٹا ہوا ڈبہ‘‘ ، ’’ شہر افسوس‘‘، دوسرا گناہ، ’’ وہ جو دیوار کو نہ چاٹ سکے‘‘، پرچھائیں‘‘ ٹانگیں‘‘ سوئیاں وغیرہ  کے فن سے نہ صرف براہ راست استنباط کیابلکہ بعض ناقدوں کے اعتراضات کا بھی معروضی انداز میں محاسبہ کیا ہے۔ پروفیسر نارنگ سیاسی المیوں اور سماجی زوال کی مختلف شکلوں پر انتظار حسین کے تاسف انگیز ردعمل کوتخلیقی رد عمل کو تخلیقی شخصیت کی فوت کے مترادف ٹھہرانے والوں کے بجانب شکوہ سنج ہیں اور سوال اٹھاتے ہیںکیا سماجی صورت حال پر تنقید یا طنز احتجاج کی شکل نہیں ؟ شاید یہ لوگ فنکار سے کسی حل کی توقع رکھتے ہیں یا راہ نجات جاننے کے خواہش مند ہیں۔ یہ رویہ بہت کچھ اس تنقید سے ملتا ہے جو ادب سے صرف سچائی یا پیغمبری کی توقع رکھتی ہے یا پھر اس سے فارمولہ زدہ سماجی خدمت کا کام لینا چاہتی ہے۔ نیک خواہشات کا احترام ضروری ہے لیکن کیا کیا جائے کہ صدیوں سے منطقی علوم ، سماجی علوم اور سائنس و تکنا لوجی انسان کی فلاح و بہبود کے نیک کام میں لگے ہوتے ہیں، لے دے کے ایک اہم بحث ہے جو انسانی فطرت کی سر نگیوں اور بوالعجبیوں ، ذہنی الجہنوں اور کشمکش اور خانہ روح کی پرچھیائیوں کی آماجگاہ ہے۔ یہی اس کی سماجی خدمت ہے۔

نارنگ کی فکشن تنقید کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ انہوں نے ان افسانہ نگاروں کے فن پر تفصیلی اظہار کیا ہے جو ہمارے ادب کاکسی نہ کسی وجہ سے حصہ نہیں بن سکے ہیں۔ ہر چند کہ ان کی تخلیقات فن کی نئی منزلوں کا پتہ دیتی ہیں۔ اس نوع کے افسانہ نگاروں میں بلونت سنگھ کا ’’ گلزار، جابر حسین اور ساجد رشید شامل ہیں۔ بلونت سنگھ پر اپنے جامع تجزیاتی مضمون ’’ بلونت سنگھ کا فن‘‘ سائستگی اور ثقافت اور شکست رومان، میں نارنگ نے لکھا ہے کہ دیہاتی جڑوں کو اجتماعی شائستگی سے مردانگی اور بہادری کی جو خوفناک لیکن نیک خوب شکلیں بلونت سنگھ نے تراشی ہیں، وہ ان کے معاشرے کا وہ نقش ہے جو خود ان کی سائستگی میں آباد تھا۔

نظریہ یا آئیڈیالوجی کس طرح تخلیقی اظہار میں راہ پاتی ہے اس سلسلے میں نارنگ صاحب نے بلونت کے ایک مشہور افسانے دیش بھکت‘‘ کے تجزیاتی مطالعہ میں لکھا ہے دیش بھکت ایک حد تک سیاسی کہانی ہے۔ آئیڈیا لوجی فکشن میں بیانات یا تقریر کی راہ سے نہیں آتی بلکہ کرداروں اور سچویشن اور کرداروں کے برتاؤ میں در آئی ہے۔ ایسا ہی دیش بھکت میں ہوا ہے۔ بلونت سنگھ نے براہ راست کچھ نہیں کیا۔ بھر پور بیانیہ جو گندی بستیوںرہنے والوں کی سماجی نفسیات پر بھی ہے۔ اور تحریک آزادی پر بھی یعنی ایک طرف گرے پڑے لوگ یا حاشیاتی کردار ہیں تو دوسری طرف کھدر پوش اور ٹوپی برادر نام نہاد سیاست داں جن کا شیوہ ہی استحصال ہے۔ نارنگ کا بلونت سنگھ پر یہ مضمون بلونت سنگھ کو اردو کے ایک انتہائی اہم فکشن رائٹر کے طور پر Establish کرتا ہے۔

غرض یہ کہ گوپی چند نارنگ کے مذکورہ مضامین نہ صرف یہ کہ فکشن کی شعریات مرتب کرتے ہیںبلکہ اردو میں مروجہ فکشن تنقید کی نارسائیوں اور حدود کو بھی واضح کرتے ہیں۔

حواشی

۱۔فکشن شعریات ، تشکیل و تنقید ،گوپی چند نارنگ ، ص ۱۵

۲۔ص۴۹ تا ۵۰،ایضاً

۳۔ص۵۴،ایضاً

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.