انسانی اقدارکا مبلغ:کبیر
ڈاکٹر اعظم انصاری
اسسٹنٹ پروفیسر،خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی،لکھنؤ
ہندوستان زمانہ قدیم سے مشترکہ تہذیبی روایت کا امین رہا ہے۔مختلف مذاہب ،تہذیبوںکے ماننے والے،الگ الگ نسل و رنگ کے ساتھ ہی ساتھ الگ الگ زبانوں کے بولنے والے لوگ وقتاً فوقتاًہندوستان میں آتے گئے اور یہاںکی مشترکہ تہذیبی روایت میں گھل مل کر قومی یکجہتی کا اٹوٹ حصہ بن کر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز ہمیشہ سے سنتوں ، صوفیوں اور راہبوں کا مسکن بنا رہا ہے۔ صوفیائے کرام ہوں یا سنت مہاتما،سبھی کا مسلک انسا نیت تھااور انہوں نے درس بھی انسانیت کا دیاہے۔انہوں نے مذہب وملت،طبقہ اور پیشہ سے اوپر اٹھ کر انسان اور انسانیت کے متعلق گفتگو کی ۔ غیر مساوات،رنگ و نسل کی تفریق اور اعلیٰ و ادنیٰ کے مابین امتیازات سے انحراف کیا۔مذہبی رواداری،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سماجی برابری کو بڑھاوا دیا تو صبر و رضا،عشق الٰہی اور تطہیر نفس پر زور دیا ۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی مشترکہ تہذیبی روایت اور انسانی اقدارکی پاسداری میں صرف کی۔انہیں سنتوں،صوفیوں اور راہبوں میں سے ایک مشہور و معروف نام کبیر کا ہے۔
جدید ریسرچ کے مطابق کبیر 1398 ء کے آس پاس شیو پوری،کاشی کے لہر تارا میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے ورود کے متعلق کبیر پنتھی گرنتھوں میںکئی کہانیاں ملتی ہیں۔لیکن اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ کبیر کی پرورش نورالدین عرف نیرواور اس کی بیوی نعیمہ عرف نیمانے کی جو پارچہ بافی(کپڑا بننے کا کام)کرتے تھے۔کبیر اس کام میں اپنے والدین کی مدد کرتے تھے۔نیما اور نیرو نے کبیر کی پرورش آزادانہ نظریہ پر کی۔انہوں نے کبیر کو انسان کے پیدائشی حقوق،مساواتی نظام اورعشق الٰہی کی غیر رسمی تعلیم دی۔محنت کش اور پسماندہ طبقے کے گھریلو ماحول میںپلنے والا یہ بے باک اور انقلابی نوجوان ہندوستانی معاشرے میں سماجی مساوات اور مشترکہ تہذیبی روایت کا علم لے کر مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے، جس کا مذہب عشق ہے اور وہ انسانیت کا درس دیتا ہے۔انہوں نے اپنے عہد کی اندھی تقلید،عقیدت مندی،توہم پرستی، رسم و رواج،ذات پات،چھواچھوت،مندر مسجد وغیرہ پر سخت تنقید کی ہے، وہیں اپنے اکھڑ مزاج اور اظہار کی سادگی سے انسانی بھائی چارہ کی مثال بھی پیش کی ہے۔انہوں نے بظاہر ایک شاعر ،سنت یا فقیر کی شکل میں اپنے عہد کے پر آشوب ماحول کے سامنے مضبوطی سے کھڑے ہوکرمذہب ،معاشرہ اور ادب کے میدان میںانسانی اقدار کا پھریرا بلند کیا ہے۔کبیر کے متعلق پنڈت منوہر لال زتشی لکھتے ہیں:
’’لڑکپن سے ہی کبیر صاحب دنیا کی طرف کم اور خدا کی طرف زیادہ مائل تھے۔ان کے عقائد ویدانتیوں اور صوفیوں کے سے معلوم ہوتے ہیں۔ دنیا دھوکہ ہے،اس سے منھ موڑ کر معبود حقیقی کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔جس کو خدا مل گیا،بھگتی،پریم یا عشق خدا کے ملنے کا سب سے عمدہ ذریعہ ہے۔ اور یہ بلا تفریق ذات و ملت،ہر شخص کے امکان میں ہے۔خدا ایک ہے اور ہندو ،مسلمان سب اس کے بندے ہیں۔مذہب کا فرق بے معنی ہے۔ صفائے باطن اورطلب صادق حصول نجات کے لئے کافی ہیں۔جوں جوں کبیر صاحب بڑے ہوئے توعقائد کا یہ رنگ چوکھا ہوتا گیا اور وہ بھجن گا گا کر لوگوں کو اپدیش دینے لگے۔ حوالہ ۱
زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک عہد تک کبیر کو شاعر تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ان کا ذکر اس وقت کی تاریخ یا ہندوستانی ادب کی کتابوں میں نہیں ملتا ہے جو بہت ہی مستند اور معتبر سمجھی جاتی ہیں ۔جس طرح سے اردو ادب میں نظیر اکبر آبادی کو بازاری شاعر کہہ کر اسے شاعروں کی فہرست سے نکال باہر کر دیا گیا تھاوہی سلوک کبیر کے ساتھ ہندوستانی ادب میںروا رکھا کیا گیا ۔ایک زمانے تک کبیر کے اشعار کو بازاری کہہ کر اس کا مذاق اڑایا جاتا تھاکیونکہ کبیر نے عام بول چال کی زبان(پوربی بولیوں) میںاپنا کلام پیش کیا ہے۔کبیر کے معاصرین شعرانے بھی انہیں اہمیت نہیں دی۔آچاریہ رام چندر شکل انہیں شاعر تک نہیں مانتے ہیں۔پروفیسر مجیب رضوی اپنے مضمون ’’اردو ہندی کے فروغ میںخسرو اور کبیر کا حصہ ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
’’خسرو کے بعد بھاشا کے ادبی آسمان پرجو شاعر چمکتا ہے اس کا نام کبیر ہے۔کاشی کے اس جولاہے،جات کمینی والے اس کبیر کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ وہ کسی بڑے شاعر کو نوبل پرائز دلوادے۔کبیر کی گنتی نہ شاعروں میں ہوتی تھی اور نہ شرفامیںلیکن جب ٹیگور نے کبیر کی سو نظموں کے نام سے کبیر کے کلام کو شائع کرایا اور گیتانجلی کے دیباچے میں کھلے دل سے اعتراف کیا کہ وہ اپنے اس شاہکار کے لئے کبیر داس کا ممنون ہیں۔تو فوراً انہیں ہندی کا شاعر ہونے کی سند مل گئی۔اردو والوں نے تو ٹیگور کو گرو مان لیا لیکن کبیر داس کو اپنی توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔‘‘حوالہ ۲
رابندر ناتھ ٹیگور نے جب کبیر کو ڈھونڈ نکالا اور ان کے ذریعہ بنگال میں یہ مانا گیا کہ کبیر نئے خیالات و تصورات کے شاعر ہیںتو ان کی شاعرانہ عظمت میںبے پناہ اضافہ ہو گیا۔اب ان کی آواز جھونپڑوںسے نکل کر ادب کے ایوانوں میںگونجنے لگی۔کبیر کی آواز کو جبر کے خلاف مزاحمت کی داستان کہا جانے لگا۔انہیں پسماندہ سماج اور کمزور طبقے کے رہنما اور مسیحا کے طور پر یاد کیا جانے لگا۔جگہ جگہ ان کے مجسمے نصب کئے جانے لگے اور کبیر لوگوں کے ذہنوں میں بسنے لگے اوردلوں پر راج کرنے لگے۔کبیر کو پس کردہ سماج کا رہنما اور کبیر کی شاعری کو جبر کے خلاف مزاحمت کی آواز اور حقوق انسانی کے علم بردارکے طور پر متعارف کرانے کا کام مہاراشٹر کے جیوتی با پھولے نے کیا ہے۔انہوں نے اپنی مشہور زمانیہ تصنیف ’غلام گیری‘‘ کے مقدمہ میں کبیر کی عظمت کا بیان کیا ہے۔جیوتی با پھولے کے کلام میں کبیر کے کلام عکس صاف صاف دکھائی دیتا ہے ۔جس طرح کبیر اپنے کلام میںکہے کبیر کا استعمال کرتے ہیں اسی طرح جیوتی با پھولے بھی اپنے کلام میںجیوتی کہے کا استعمال کرتے ہیں۔بطور مثال مہاتما جیوتی با پھولے کا یہ بند ۔
lHkh dk fuekZrk ,d gS tkuA ikyu&iks”k.kA ogh djrk AA
uj&ukjh&gd lcdks crkvksA lR; dks le>koksA ekuoksa dks AA
ns’k&/keZ&Hksn u gks eu esa A Hkkb;ksa ds lekuA tkfu, lcdks AA
,sls v/;kid gj txg uketn djksA vfn lR; dks ueu djksAA
tksrh dgsAAحوالہ ۳
کبیر انسان کے پیدائشی حقوق اور مساوات کی بات کرتے ہیں۔ان کی نظر میں سبھی انسان برابر ہیں۔وہ ذات پات،چھوا چھوت، رنگ نسل اوراعلیٰ و ادنیٰ کی تفریق سے نالاںہیں۔وہ ہر کس وناکس کو انسانیت کا درس دیتے ہیں۔کبیر کے کلام میں توحید،بھگتی،پریم،ہندو مسلم آپسی بھائی چارہ،مذہبی رواداری اور مشترکہ تہذیبی روایت وغیرہ کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے۔وہ ایک خدا کی وحدانیت پر زور دیتے ہیںجو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور ہر جگہ موجود رہتاہے۔وہ ظاہری رسم و رواج اور نمائش سے بیزار نظر آتے ہیں۔وہ ہندو مسلم ایکتا پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔کبیر کے نظریات کے مطابق ساری کائنات کا مالک ایک ہے،جس کی عبادت ہندو اور مسلم اپنے اپنے عقیدے اور اپنے اپنے طریقے سے کرتے ہیں۔وہ رام اور رحیم،کیشو اور حضرت کو ایک سمجھتے ہیں۔لوگ ظاہری رسم و رواج کے سبب یہ سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں کہ رام اور رحیم دونوں ایک ہیں۔ان تک پہنچنے کے لئے سچی محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔جو کوئی سچی عقیدت اور محبت سے ایک خدا تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔کبیر کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
پوٹھی پڑھ پڑھ جگ موا،پنڈت بھیا نہ کوئے
ڈھائی اکشر پریم کا جو پڑھے سو پنڈت ہوئے
حوالہ ۴
کبیر مذہبی رواداری اور احترام آدمیت کا درس جگہ جگہ دیتے ہیں اور سبھی انسانوں کو ایک خدا کا بندہ سمجھتے ہیں۔ان کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا نے سارے انسانوں کو خلق کیا ہے ۔کیا ہندو کیا مسلمان کیا پارسی سارے انسان برابر اور بھائی بھائی ہیں ۔جس کا دل صاف ہووہ ظاہری رسم و رواج کی پرواہ سے بے نیاز ہو کر ایک خدا کی عبادت کرتا ہے۔صدق دل سے عبادت کی جائے تو وہ نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔اس سلسلے میں کبیر فرماتے ہیں۔
دوئی جگدیش کہاں تے آئے ،کہو کون بھرمایا
اللہ رام کریم کیشو،ہری حضرت نام دھرایا
گہنا ایک کنک تے گہنا،تا میں بھاو نہ دوجا
کہن سنن کو دوئی کرتھا تے،ایک نواج ایک پوجا
وہی مہا دیو وہی محمد برہما آدم کہئے
کوئی ہندو کوئی ترک کہا وے ایک جمی پر رہئے
وید کتاب پڑھے وے کتباوے مولانا وے پانڈے
بگت بگت کے نام دھرایو ایک ماٹی کے بھانڈے
کہہ کبیر تے دونوں بھو لیں،رام ہی کنہوں نہ پایا
وے کھسیاوے گائے کٹاویں،وا دے جنم گنوایا
nqbZ txnh’k dgk rs vk;s] dgks dkSu Hkjek;k
vYyk jke djhe ds’ko ] gfj gtjr uke /kjk;k
xguk ,d dud rs xgu rk esa Hkko uk nwtk
dgu lquu dks nqbZ dj Fkkrs] ,d uokt ,d iwtk
ogh egknso] ogh eksgEen] czg~ek vkne dfg;s
dksbZ fgUnq dksbZ rqjd dgkos] ,d t+eh ij jfg,
osn fdrkc i<+s] os dqrck ] os ekSykuk ] os ikaMs
cxr cxr ds uke /kjk;ks] ,d ekVh ds HkkaMs
dg dchj rs nksuksa Hkwys jkefg fdugq u ik;k
os [kfl;k os xk; dVkos] okns tue xaok;k
حوالہ ۵
مطلب۔دنیا کے دو مالک کہاں سے آئے۔کہو کس نے دھوکہ دیا؟اللہ ،رام،کریم،کیشو،ہری،حضرت مختلف نام رکھے۔گہنا ایک ہی سونے سے بنتا ہے اس میں شبہہ نہیں۔کہنے سننے کے لئے دو باتیں قائم کیںایک نماز ایک پوجا۔وہی مہا دیو ہے وہی محمد،اسی کو برہما اسی کو آدم کہتے ہیں۔ایک زمین پر رہتے ہیں۔کوئی مسلمان کوئی ہندو کہلاتا ہے۔کوئی وید پڑھتا ہے کوئی کتاب(قرآن)اور خطبہ ۔کوئی مولانا ہے ،کوئی پانڈے۔طرح طرح کے نام رکھوائے ہیں۔مگر ہیں ایک ہی مٹی کے برتن۔کبیر کہتاہے کہ دونوں بھولے ہیں۔رام کو کسی نے نہی پایا، ایک بکرا کٹاتا ہے ایک گائے۔اور جنم بے فائدہ گنواتے ہیں۔
کبیر ہندو مسلم کے بیچ حائل دیوار کو گرانا چاہتے ہیں۔مذہب کے نام پر پھیلائی جا رہی نفرت کے سخت خلاف ہیں۔وہ مذہبی ظاہر داری کواپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیںاور کہتے ہیں کہ کاکر پاٹھر جوڑ کر مسجد دیو بنائے اور دوسری طرفٖ کہتے ہیں کہ پاتھر پوجے ہری ملے تو میں پوجوں پہاڑ۔ وہ تو بندوں سے کہتے ہیں،خدا تو آپ کے اندر بسا ہوا ہے اسے پہچاننے کی ضرورت ہے۔وہ خدا کی تلاش میںجنگل جنگل ،صحرا صحراپھرتا رہتا ہے اورکعبہ ،کاشی اور کیلاش کے چکر لگاتا رہتا ہے۔سچی اور حقیقی عبادت تو وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ کر کی جائے۔ شعر ملاحظہ ہو۔
موکو کاہاں ڈھونڈا رے بندے،میں تو تیرے پاس میں
نا میں دیول نا میں مسجد نا کعبے کیلاش میں
eksdks dkgka <aw<k js cans eS rks rsjs ikl esa
uk eSa nsoy] uk eSa elftn uk dkcs dSykl esa
حوالہ ۶
کبیر کے انہیں پیغامات نے عوام کو ان کا گرویدہ بنا دیاتھا۔ کیا ہندو کیا مسلمان سب ان کے شیدائی تھے ان کے ماننے اور چاہنے والوں نے کبیر کے نظریات اور عقائد کو دور دراز کے علاقوں تک پھیلانا شروع کر دیا۔بعد کے عرصے میں یہی نظریہ ایک مسلک یا مذہب کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور کبیر پنتھ کے نام سے مشہور و مقبول ہوجاتا ہے۔کبیر پنتھی اتر پردیش،اتراکھنڈ،بہار،جھارکھنڈ،مدھیہ پردیش بنگال،کرناٹک وغیرہ میںکبیر مٹھ قائم کر کے ان کے عقائد کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔کبیر کے نظریات سکھوں کے مذہبی گرنتھ’’ گرو گرنتھ صاحب‘‘ میںاشعار کی شکل میں موجود ہیں۔انہوں نے جس سماجی ہم آہنگی،مذہبی رواداری اور مسلک انسانیت کا درس دیا تھا وہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی روایت کو تازگی اور توانائی عطا کر رہا ہے۔ایودھیا سنگھ اپادھیائے ہری اودھ اپنی تصنیف’’ کبیر رچناولی‘‘کبیر اینڈ کبیر پنتھ کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔
’’کبیر نے شیخ سے پرارتھنا کی تھی کہ وہ ان کے اندر وہ ور (طاقت)دیں کہ وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے بیچ ان دھارمک ورودھوںکو دور کر سکیں،جو ان کو پرسپر(ایک دوسرے سے) الگ کرتے ہوں۔‘‘ حوالہ ۷
کبیر کے نظریات کو عام ہندوستانیوں تک پہنچانے کے لئے اردو کے مشہور شاعر اور ادیب علی سردار جعفری نے کبیر کے کلام کو ’’کبیر بانی‘‘ کے نام سے ترتیب دیاہے تا کہ عام قاری ان کے عقائد اور نظریات سے بخوبی واقف ہوسکے اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی روایت اور مسلک انسانیت کے درس کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا ایک پیج اردو میںہے تو دوسرا پیج ہندی میں یعنی اردو اور ہندی دونوں زبان میں ہے۔علی سردار جعفری نے کبیربانی پر ایک مبسوط مقدمہ لکھا ہے اور کبیر کے نظریات اور مسلک انسانیت پر زور قلم صرف کیا ہے جس کا اطلاق یہاں پر صحیح صادق آتا ہے ۔
’’ ہمیں آج بھی کبیر کی رہنمائی کی ضرورت ہے،اس روشنی کی ضرورت ہے جو اس سنت صوفی کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔آج دنیا آزاد ہو رہی ہے، سائنس کے بے پناہ ترقی نے انسان کا اقتدار بڑھادیا ہے۔صنعتوں نے اس کے دست و بازو کی طاقت میں اضافہ کر دیا ہے۔انسان ستاروں پر کمندیں پھینک رہا ہے،پھر بھی حقیر ہے۔مصیبت زدہ ہے۔درد مند ہے۔وہ رنگوں میں بنٹا ہوا ہے۔قوموں میں تقسیم ہے۔اس کے درمیان مذہب کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں۔فرقہ وارانہ نفرتیں ہیں۔اس لئے اس کو ایک نئے یقین،نئے ایمان اور نئی محنت کی ضرورت ہے جو اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ کبیر کی آواز اور اس کی صدائے باز گشت اس عہد کی آواز بن کر سنائی دیتی ہے۔‘‘ حوالہ ۸
کتابیات
۱۔کبیر صاحب۔موہن لال زتشی(پنڈت)ہندوستانی اکادمی الہ آباد۔یو پی ۱۹۳۰ء ص۔۵۷
۲۔مشمولہ ۔ اردو ہندی کے فروغ میں خسرو اور کبیر کا حصہ۔محمد مجیب رضوی ص ۔۹،نیا دور ،لکھنؤ ۔ ۲۰۱۱ ء
۳۔مہاتما جیوتی با پھولے رچناولی۔ایل جی مشرام ومل کرتی،جلد دوم۔رادھا کرشن پرکاشن،دریا گنج،نئی دہلی۲۰۰۹ ء ص۔۲۳۰
۴۔کبیر صاحب۔موہن لال زتشی(پنڈت) ہندوستانی اکادمی،الہ آباد۔یو پی ۔۱۹۳۰ ء
۵۔کبیر صاحب۔موہن لال زتشی(پنڈت) ہندوستانی اکادمی،الہ آباد۔یو پی ۔ ۱۹۳۰ ء ص۔۱۷
۶۔کبیر صاحب۔موہن لال زتشی(پنڈت) ہندوستانی اکادمی،الہ آباد۔یو پی ۔ ۱۹۳۰ ء ص۔۸۳
۷۔کبیر وچناولی۔ایودھیا سنگھ اپادھیائے ہری اودھ۔وانی پرکاشن،دریا کنج۔دہلی۔۲۰۱۱ ء ص۔۴۴
۸۔کبیر بانی۔علی سردار جعفری۔ہندوستانی بک ٹرسٹ،بمبئی۔۱۹۶۵ ء
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!