مولانا آزاد کی تعلیمی خدمات

ڈاکٹر شمیم احمد
سینٹ اسٹیفنز کالج،دہلی، یونیورسٹی ، دہلی

مولانا ابوالکلام آزاد ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ ان کی خدمات کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ جدوجہدِ آزادی سے لے کر قومی و ملی رہنمائی کے ہر شعبے میں انھوں نے اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔ علم و ادب کے آسمان پر وہ ایک روشن ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان کے انداز اور اسلوب نے کتنے ہی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ حالاں کہ انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی تاہم اردو، ہندی، عربی اور فارسی میں انھیں خصوسی مہارت حاصل تھی۔ وہ ریاضی، تاریخِ عالم، فلسفے اور سائنس سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ دین و مذہب کی ایسی تفہیم انھیں حاصل تھی کہ علمائے دین ان سے مذہبی امور میں مشورے لیا کرتے تھے۔
1947 میں آزادیِ وطن کے بعد انھوں نے ایک عشرے تک وزارتِ تعلیم کی سربراہی فرمائی، جس میں سائنس اور ثقافت کی اضافی ذمہ داری شامل تھی۔ تعلیم، سائنس اور ثقافت کے متعلق ان کا ماننا تھا کہ ہمارے خوابوں کے نئے ہندوستان کی تعمیر میں ان کا منفرد کردار ہے۔ ہندوستان اپنی فراواں مشترکہ ثقافت، گراں قدر تنوع کے پہلو میں بیش قیمتی وحدت، اپنی مجموعی قومی سالمیت، حسن و صداقت، انصاف اور رواداری کی اپنی اقدار اور مشرق و مغرب کی ثقافتوں کے امتزاج کی اپنی منفرد صلاحیتوں کو بروئے لاکر اسے ایک نیا اور تخلیقی روپ عطا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ناخواندگی اور جہالت، سُستی اور غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں تاکہ ہمارا ملک دوسرے ملکوں کی ہم سری کر سکے۔
مولانا آزاد کے تئیں ہندوستان کی جدید تعلیمی پالیسی کا بنیادی مقصد انسان کو انسان بنانا، کردار سازی، اخلاقی اور ثقافتی اقدار کی تربیت تھا۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیم و تدریس سے فرد کی ہمہ جہت نشو و نما ہوتی ہے۔ اس لیے گھر اور مذہب، اسکول اور استاد سمیت ہر موقع اور ہر سطح پر تعلیم کا مقصد کردار کی تعمیر اور اخلاقی اقدار کی تربیت ہونا چاہیے۔ اساتذہ اپنے طلبا کی اس طرح رہنمائی فرمائیں کہ گھر اور اسکول کے مابین تعاون کے ذریعے غلط چیزوں سے انحراف کرنے اور صحیح چیزوں کو منتخب کرنے کی تفہیم طلبا میں پیدا ہوتی چلی جائے۔ یکجہتی اور دوستی کے توسط سے طلبا اتحاد اور تعاون کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔
مولانا آزاد نے جمہوریت کے لیے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ بالغ اپنے حقِ رائے دہی کا صحیح استعمال اسی صورت میں کر سکیں گے جب ہمارا تعلیمی نظام شہریوں کو ان کے حقوق اور فرائض سے خوب اچھی طرح واقف کرا دے۔ آزاد ہندوستان کے شہری اور غیر ملکی حکمرانوں کے تحت غلام عوام کے درمیان فرق ہونا ضروری ہے۔ یہ تبدیلی عوامی سطح پر تعلیم کو عام کرنے سے ہی ممکن ہوپائے گی۔ وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولانا آزاد نے معاشرتی تعلیم کے نظام کو رائج کیا۔ ہندوستانیوں کو تعلیم یافتہ بنانے اور ان میں شہریت کا جذبہ بیدار کرنے کی غرض سے پانچ بنیادی اصولوں کی تاکید کی۔
(i) ہر شہری کو شہریت کے معنی کا علم ہو اور یہ پتا ہو کہ جمہوری حکومت میں اس کا کردار کیا ہے۔
(ii) معاشرتی تعلیم لوگوں کو صاف اور صحت مند زندگی گزارنے کی تربیت دے۔
(iii)معاشرتی تعلیم اس نوع کی ہو کہ وہ ایسی معلومات فراہم کرے جس سے افراد اپنے طرزِ زندگی میں بہتری لا سکیں۔
(iv) تعلیم کے ذریعے لوگ اپنے جذبات و احساسات کی صحیح تربیت کر سکیں۔
(v) جمہوری رواداری کی ضرورت پر تاکید کے ساتھ معاشرتی تعلیم میں اخلاقی عناصر شامل ہوں۔
مولانا آزاد نے قومی ترقی میں تعلیم کے کردار کو تقویت عطا کی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے کو فروغ دیا ۔ اگست 1951 میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی IIT کھڑگ پور کے افتتاح کے موقع پر انھوں نے کہا کہ ’’وزیرِ تعلیم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کیے گئے اوّلین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ یہ تھا کہ ہم ملک میں اعلیٰ تکنیکی تعلیم کی سہولیات کو اس طرح فروغ دیں کہ ہم اپنی زیادہ تر ضروریات کو خود ہی پورا کر سکیں۔ ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جو اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے غیر ممالک کا سفر کرتی رہی ہے۔ اسے ملک میں ہی اس طرح کی تربیت ملنی چاہیے۔ بلکہ میں یہ خواہش رکھتا ہوں کہ ایک ایسا وقت آئے کہ جب ہندوستان میں تکنیکی تعلیم کی سہولیات اس معیار کی میسر ہوں کہ غیر ممالک کے افراد اعلیٰ سائنسی اور تکنیکی تعلیم کے لیے ہندوستان آئیں۔
پیش بینی پر مبنی مولانا آزاد کا ذہن و دل جن آرزؤں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا وہ آج نئے ہندوستان کی تصور میں اپنی تکمیل کو پہنچ رہی تھیں۔ انھوں نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے اور ایک سیاسی رہنما کے طور پر بھی ہمیشہ قوی اتحاداور مشترکہ ثقافت پر زور دیا۔ ان کی تاکید تھی کہ نصابی کتب اور دیگر مطالعہ جاتی کتب میں قومی اتحاد و سالمیت اور یکجہتی نیز قومیت کو فروغ حاصل ہو۔
20 فروری 1949 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جلسۂ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے مولانا آزاد نے ملک کی مرکزی حکومت کے قومی تعلیمی نظام کا نقشہ پیش کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایک غیر مذہبی تعلیمی نظام ہونا ضروری ہو جس میں ملک کے تمام باشندوں کے لیے بلا امتیاز تعلیم و ترتیب کی گنجائش موجود ہو۔ انہوں نے اپنے اس خطاب میں زور دیا تھا کہ علی گڑھ خواہ مسلم یونیورسٹی ہی کیوں نہ ہو لیکن سیکولر ہندوستان میں یہ صرف مسلمانوں کی یونیورسٹی بن کر نہ رہ جائے۔ اس کا کردار یاسا ہو جہاں ملک کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کے خاص شعبوں کے مطالعہ کا اہتمام کیا جائے۔ انہیں کے الفاظ میں :
میں آپ کو مختصر طور پر بتلا دینا چاہتا ہوں کہ آپ کی مرکزی حکومت کے سامنے ملک کی قومی تعلیم کے نظام کا جو نقشہ ہے اس کی بنیادی نوعیت کیا ہے؟ اور ایک ایسے تعلیمی ادارے کے لیے جس طرح کا ادارہ آپ کی یہ یونیورسٹی ہے اس میں کس طرح کی جگہ پیدا ہوتی ہے؟ آپ تسلیم کریں گے کہ ایک غیر مذہبی جمہوری حکومت کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک عام غیرمذہبی تعلیمی نظام ہو جو ملک کے تمام باشندوں کے لیے بلا امتیاز ایک ہی نوعیت کا تعلیمی سانچا مہیا کر دے۔ اس نظام تعلیم کا ایک خاص ذہنی مزاج ہونا چاہیے ایک خاص طرح کا قومی رنگ ہونا چاہیے، اور اسے انسانی ترقی و خوش حالی کا ایک خاص رخ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ انڈین یونین ایک ایسا ہی عام تعلیمی نقشہ اپنے سامنے رکھتی ہے اور ا سمیں کسی طرح کے امتیاز اور تفرقہ کی گنجائش تسلیم نہیں کرتی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ تسلیم کرتی ہے کہ اس عام نظام تعلیم کے ساتھ ایسے خاص اداروں کی ضرورت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جو ملک کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کے خاص خاص شعبوں کے مطالعہ کا خاص اہتمام رکھتے ہوں اور ان کے دروازے ان تمام لوگوں پر کھلے ہوں جو ان شعبوں کے مطالعہ وتعلیم سے دلچسپی رکھتے ہوں ملک کے تعلیمی نقشہ کا یہی گوشہ ہے جہاں آپ کا ادارہ اپنی ایک صحیح اور مطابق جگہ نکال لیتا ہیاور وقت کے عام نقشے سے بھی جڑ جاتا ہے۔ آپ اپنی ایک خاص جگہ رکھتے ہوئے بھی تعلیم کے عام نظام سے الگ نہیں ہو جاتے بلکہ اس کی ایک خاص ضرورت کو پورا کر دیتے ہیں ااپ کی یہ خاص جگہ بھی کسی خاص جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان سب کے لیے ہونی چاہیے جو ان خاص شعبوں سے دلچسپی رکھتے ہوں۔
بحوالہ : مولانا آزاد ، سرسید اور علی گڑھ از ضیا الدین انصاری (ص 307-308)
آزاد ہندوستان کے تکثیری تقاضوں کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مولانا آزاد نے سائنس اور صنعتی ترقی کی ضرورت کے لیے دوسرے ملکوں سے آنے والے مالِ تجارت پر انحصار کرتا ہے۔ ہمیں بہت سی چیزیں درآمد کرنی پڑتی ہیں۔ حالانکہ ہمارے ملک میںخام مال کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ ان ذخیروں کو استعمال کرنے کی صلاحیت ہندوستانیوں میں تبھی پیدا ہوگی جب وہ صنعتی اور فنی تعلیم سے آراستہ ہوں گے۔ گویا خود انحصاریت یا آتم نربھر ہونے کا تصور اُس زمانے میں بھی مولانا آزاد کے ذہن میں تھا۔ انہوں نے 1951 میں اپنے ایک خطاب میں اس سلسلے میں یہ کہا:
وزارتِ تعلیمات کا جائزہ حاصل کرتے ہیں پہلا فیصلہ جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ ملک میں اعلیٰ فنی تعلیم کے حصول کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ خود ہم اپنی اکثر ضرورتوں کو پورا کر سکیں۔ ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جو ملک سے باہر جاتی تھی خود ملک میں یہ تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔ میں اس دن کا منتظر تھا اور اب بھی ہوں جب ہندوستان میں فنی تعلیم کی سطح اتنی بلند ہو جائے کہ باہر سے لوگ ہندوستان اس غرض سے آئیں گے کہ یہاں اعلیٰ سائنسی اور فنی تعلیم و تربیت حاصل کریں۔
(کتاب التذکرہ- ہمایوں کبیر، ص 131 )
عالم گیریت یعنی گلوبلائزیشن کا تصور بیسویں صدی کے آخری عشرے کی دین ہے لیکن اس سے بہت پہلے 1950 کے عشرے میں ہی مولانا آزاد نے بین الاقوامیت کے تصور کو اپنانے کی بات کی تھی جس کی مدد سے ایک نیا عالمی نظام قائم ہو سکے جو آفاقیت کو فروغ دیتا ہو۔ انہوں نے 1951 میں یونیسکو کے ساتھ تعاون کے ہندوستانی قومی کمیشن میں اپنے ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا : ’’تعلیم ایک ایسا ماحول پیدا کرنے میں بنیادی رول ادا کرتی ہے جس میں انسان ایک دوسرے سے دوستی اور مساوات کی بنیاد پر ملاقات کر سکیں۔ موجودہ نسل کے مرد اور خواتین کی قومی اختصاص کے ایسے ماحول میں نشو و نما ہو رہی ہے جہاں ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ عالمی اتحاد اور عالمی شہریت کے تصور کی حصولیابی کر سکیں۔ انہیں ایسے خطوط پر سوچنے کی تربیت دی گئی ہے جن کے سبب ان کے لیے نسل، طبقے یا قومیت کی حدوں کو پار کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ اسی لیے اگر ہمیں عالمی اتحاد کے تصور کو کامیاب بنانا ہے اور اگر ہم سب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بغیر اتحاد کے انسان کا مستقبل تاریک ہے تو پھر ہماری تمام کوششیں آنے والی نسلوں کو عالمی شہریت کی تعلیم و تربیت عطا کرنے پر مرکوز ہونی چاہئیں۔‘‘
مولانا آزاد نے خواتین کی تعلیم پر بہت زور دیا ۔ 1949 میں مرکزی اسمبلی میں انہوں نے جدید علوم کی حصولیابی پر زور دیا اور یہ بھی کہا کہ قومی تعلیم کا کوئی پروگرام اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ آبادی کے آدھے حصے کی تعلیم پر پوری توجہ مرکوز نہ کرے اور وہ آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔
ان کا خیال تھا کہ خواتین کی تعلیم دو اعتبار سے بہت اہم ہے۔ پہلی بات تویہ کہ آزاد ہندوستان کے شہری کی حیثیت سے انہیں تعلیم کی ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کی تعلیم سے نو جوان نسلوں کی تعلیم کا ہدف آسان ہو جائے گا۔ انھوں نے 1949 کی آئین ساز اسمبلی میں یہ بھی کہا کہ دنیا کے آدھے مسائل حل ہو سکتے ہیں اگر خواتین کو تعلیم مہیا کر ادی جائے کیونکہ تعلیم یافتہ خواتین کا مطلب ہے خواندہ بچے۔ یہ مولانا آزاد ہی تھے جنھوں نے تسلیم کیا کہ مردوں کی تعلیم سے زیادہ خواتین کی تعلیم اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ اس سے ایک نئی بیداری پیدا ہو سکتی ہے اور یہ پورے ملک میں ایک نئی جان ڈال سکتی ہے۔
ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولانا آزاد نے ایسے پروگرام اور پالیسیاں بنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا جن کی مدد سے ملک میں تیز رفتار، ہمہ جہت اور سب کی شمولیت والے تعلیمی نظام کو اختیار کیا جا سکے۔ جنوری 1949 میں تعلیم کے مرکزی مشاورتی بورڈ کی میٹنگ میں انھوں نے کہا کہ ’’قومی حکومت کا اولین اور سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ سب کے لیے مفت اور لازمی بنیادی تعلیم کی گنجائش ہو۔‘‘
مولانا آزاد نے دو اہداف کو زیادہ اہمیت دی ۔ ایک اسکول جانے والے بچوں کی عمر کے سبھی بچوں کو بنیادی تعلیم مہیا کرانے کے لیے ایک ملک گیر نظام قائم کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ تکنیکی شعبے میں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات مہیا کرانے کی پوری پوری گنجائش ہو۔ 15 مارچ 1952 کو مرکزی مشاورتی بورڈ کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ملک میں تعلیم کی توسیع کا پانچ نکاتی پروگرام شروع کرنے کی بات کہی۔ یہ پانچ نکات اس طرح تھے۔
۱۔اسکول والی عمر کے سبھی بچوں کے لیے یکساں لازمی بنیادی تعلیم
۲۔ناخواندہ بالغوں کے لیے معاشرتی تعلیم
۳۔ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کی سہولیات کے معیار میں بہتری اور توسیع
۴۔ملک کی ضروریات کے اعتبار سے تکنیکی اور سائنسی تعلیم کا فروغ
۵۔معاشرے کی ثقافتی زندگی کو مزید تقویت عطا کرنے کی غرض سے اقدامات اور فنونِ لطیفہ کی حوصلہ افزائی نیز تفریحات کے لیے سہولیات مہیا کرانا۔
جنوری 1947 میں عبوری حکومت میں شامل ہونے کے بعد انھوں نے مختلف ادارے اور تنظیمیں قائم کیں۔ انھوں نے 1948 میں یونیورسٹی تعلیمی کمیشن اور 1952 میں ثانوی تعلیمی کمیشن مقرر کیے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قائم کیا گیا جس کا مقصد ملک میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ تھا۔ میڈیسن کے شعبے میں تحقیق و ترقی کے فروغ کے لیے انڈین کونسل فار ریسرچ قائم کیا۔
علم و سائنس کے مختلف شعبوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ہندوستانی فنونِ لطیفہ کی ترویج اور اشاعت کا کام بھی کیا۔ ان کے نزدیک تعلیم محض ذہنی قویٰ کی بیداری کا نام نہیں بلکہ جذباتی آسودگی اور تہذیب و شائستگی کی تربیت بھی ضروری ہے۔ مولانا آزاد نے مصوری، موسیقی، رقص، فنِ سنگ تراشی اور ڈراما جیسے تمام فنون کو فروغ دینے کی غرض سے مختلف اکاڈیمیز قائم کیں۔ سنگیت ناٹک اکاڈیمی ، للت کلا اکادیمی اور ساتیہ اکادیمی سب مولانا آزاد کی پیش بندی اور دور اندیشی کا نتیجہ ہیں۔ مختلف ممالک سے تہذیبی و ثقافتی رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز ICCR کی تشکیل کی۔ 11 برس کی اپنی وزارتِ تعلیم کے عہدے کی مدت کے دوران مولانا آزاد نے بیش قیمت خدمات انجام دیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک معلم تھے۔ ایک معلم اپنے طلبا کی ہمہ جہت نشو و نما پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ مولانا آزاد کو وزیرتعلیم کی حیثیت سے جس ملک کے پورے تعلیمی نظام کی شکل و صورت وضع کرنے کا موقع میسر آیا تو انھوں نے بطور معلم پورے ہندوستان کی ہمہ جہت نشو و نما کو اہمیت دی اور ہندوستانیوں میں قومی اور بین الاقوامی شعور کو فروغ دیا۔×
*****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.