ترقی پسند تحریک اور معین احسن جذبیؔ

ڈاکٹر محمد حسین
صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج پلوامہ
معین احسن جذبی ؔ کا شمارممتاز ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے۔ان کی ولادت اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ(مبارک پور) میں 21 اگست1912 میں ہوئی۔مالی خستہ حالی اور سوتیلی ماں کے ناروا سلوک نے اُسے بچپن سے ہی رنجیدہ بنادیا تھا۔اپنی ذاتی زندگی کی الجھنوں میں نہ پڑتے ہوئے انہوں اردو شاعری کو اپنی توجہ کامرکز بنادیا اور یوں اردوزبان وادب کی مایہ ناز شخصیتوں کے کلام کا مطالعہ کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ 17 سال کی عمر میں انہوں نے ایک خوبصورت اور دل کو موہ لینے والی نظم ت بہ عنوان”فطرت ایک مفلس کی نظر میں” تخلیق کی۔
شاعر موصوف نے ابتدائی تعلیم جھانسی میں حاصل کی۔اینگلو عربک کالج نئی دہلی سے بی۔اے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔”حالیؔ کی سیاسی شاعری” پر پی۔ایچ ۔ڈی کی سند موصول کی۔ابتدا میں رسالہ”آج کل” کے ادارتی فرائض انجام دئیے ۔بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچرر کے عہدے پر فائز رہے اور یہاں سے ہی بطورپروفیسر اور شعبے کے سربراہ سبکدوش ہوئے۔علی گڑھ سے انھیں خاصا انس تھا۔
معین احسن جذبیؔ نے شاعری کا باقاعدہ آغاز1929 میں کیا۔شروع میں حامد شاہ جہاں پوری اور صادق دہلوی سے اپنے کلام پر اصلاح لی۔موصوف نے بہت خوبصورت نظمیں کہی ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہی ہیں۔آفتاب عالم صدیقی اس ضمن میں لکھتے ہیں:
” معین احسن جذبیؔ نظم وغزل دونوں کے شاعر ہیں مگر جذبیؔ کی شناخت غزل ہے لیکن ان کی نظمیں
اتنی گئی گزری نہیں کہ انھیں یکسر نظر انداز کردیا جائے” 1؎
ان کے ابتدائی کلام پر اصغرؔ،فانی ؔ اور جگر مراد آبادی کے اثرات نمایاں ہیں۔ جذبیؔ نے جس ماحول میں شاعری کا آغاز کیا وہ نئی شاعری کادور تھا ۔اس زمانے میں اصغرؔ،یگانہؔ،حسرتؔ،جگرؔ اور فانیؔ کا چرچا عام تھا۔نظم نگاری میں اقبالؔ، جوشؔ، اور اختر شیرانی کا دبدبہ تھا۔ اختر شیرانی ؔ اپنی رومانی شاعری کی وجہ سے نوجوان دلوں کے مالک بیٹھے تھے دوسری اور اصلاحی ،قومی وملی بیداری اور حب الوطنی کے نغمے اقبال ؔ،چکبست ؔ اور ظفر علی خان گارہے تھے۔اقبال کی شاعری نے اپنا حلقہ اثر بڑھایا تھا تو فراق گورکھپوریؔ نے اپنے منفرد لب ولہجے سے نئے اسلوب کی غزل کی داغ بیل رکھنی شروع کی تھی ۔اس تناظر میں اپنی پہچان بنانا آسان نہ تھا لیکن اپنی بیش قیمت صلاحیتوں کے پیش نظر دھیرے دھیرے جذبیؔ کی اپنی شخصیت کے واضح نقوش اُبھرتے گئے اور ایک منفرد آواز کے بہ طور دور سے پہچانے گئے ۔اس بات کی تائید میں خلیل الرحمان اعظمٰی لکھتے ہیں:
“۲ جذبی ؔ کی شاعری کا آغاز غزل سے ہوتا ہے ۔ان کے ابتدائی کلام پر اصغرؔ،فانی ؔ،اور جگر ؔ، کے اثرات ہیں ۔
آہستہ آہستہ انہوں نے غزل میں اپنی شخصیت کے عناصر کو آمیز کرکے خود اپنی آواز پیدا کرلی”2؎
خلیل الرحمان اعظمٰی جذبی ؔ کی غز ل کے فن پر عبور کے حوالے سے مذیدرقم طراز ہیں:
ترقی ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور کے نوجوان شعراء میں جذبیؔ ہی ایک ایسے شاعر تھے جن کو غزل کے فن پر قابو تھا ساس کی وجہ ان کی شخصیت کا گداز اور آہستہ آہستہ آنچ دینے والا انداز ہے” 3؎
معین احسن جذبیؔ کا شمار ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے لیکن تحریک اور اور اس کے ادبی وسماجی نظریات سے ان کی وابستگی باقی ترقی پسند شاعروں سے مختلف رہی ہے۔وہ اُن ترقی پسند شاعروں میں نہیں تھے جن کا فن پروپگنڈا کی نظر ہوگیا تھا۔چناچہ جذبیؔ کی تربیت کلاسیکی شعری روایات کے زیرِ سائی ہوئی تھی اس لیے ادب میں راست اظہار کے بجائے وہ بالواسطہ اور رمزو کنایہ پر زور دیتے تھے۔ان کے تخلیقی اظہار کی بنیاد صنف غزل ہی رہی۔ان کی غزلیں نئے سماجی اور انقلابی شعور کے ساتھ کلاسیکی رکھ رکھاو کی حامل ہیں۔
جذبیؔ کی شاعری کا ایک حصہ ایسا ہے جس پر غم کے سائے گہرے ہیں۔بعض اسے فانیؔ کی اثر پذیری سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ فی الحقیقت ایسا نہیں ۔فانیؔ اور جذبیؔ کا غم جدا جدا ہے فانی ؔ کا غم ،غم ِ اندروں ہے اور جذبی کا غم غمِ بیروں سے عبارت ہے۔یہاں ابو لیث صدیقی کے یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں:
جذبی کا یہ احساس تنہا ایک فرد یا ایک شاعر کا احساس نہیں ۔مایوسی اور ناکامی کا یہ احساس 1947 کے انقلاب کے بعد اردو شاعری میں جگہ جگہ اور بار بار ملتا ہے۔۔۔۔اس انقلاب نے خاندانوں کا شیرازہ بکھیر دیا ۔دلوں پر ایسے زخم لگائے جس کا اندمال زمانہ کے ہاتھوں بھی مشکل ہے” 4؎
ساقیا شیشوں میں تیرے ہے نہ پیمانوں میں ہے
وہ خمار تشنگی جو دل کے ارمانوں میں ہے
کیا کیا تم نے کہ درد دل کا درماں کردیا
میری خود داری کا شیرازہ پریشاں کردیا
ظاہر ہے یہاں شاعر خود ترحمی کے بجائے ایک قدر کی صورت اختیار کرنے پر مائل نظر آتا ہے۔جس سے شاعر کا رشتہ استوار ہے۔ بقول آفاق عالم صدیقی:
یہ ایک کیفیت ہے جو شاعر کو اپنی ہستی کی محرومیوں کے دائرے سے نکال کر ” ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ” کا حوصلہ عطا کرتا ہے”
جذبیؔ ایک ایسے ترقی پسند شاعر ہیں جنہیں ہر مکتبہ فکر سے وابستہ افراد قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کی تخلیقی فکر سطحی یا سپاٹ نہیں ہے۔شاید یہی وہ چیز ہے جو اسے ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد بھی زندہ رکھتی ہے۔ان کے اس فنی روئیے سے اکثر انھیں غیر ترقی پسنی کا طعنہ سہنا پڑتا۔اس پر دوسرا اعتراض یہ تھا کہ کہ وہ انسانی دکھوں اور اس کے کرب کو تو موضوع سخن بناتے ہیں لیکن رجائی نقطہ نظر نہیں اپناتے ہیں۔”فروزاں ” کے دیباچے میں جذبیؔ اس حوالے سے یوں لکھتے ہیں:
ہمارے لیے مارکسی نقطہ نظر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اگر ہم واقعی اپنے آپ کو ترقی پسندی کا علمبردار کہتے ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہین کہ مارکس کے نظریات کو رنگین یا پُر شوکت الفاظ میں نظم کردیا جائے ۔ایک شاعر کی حیثیت سے ہمارے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ زندگی یا زندگی کے تجربات ہیںلیکن کوئی تجربہ اس وقت تک موضوع سُخن نہیں بن سکتا جب تک اس میں شاعر کو جذبے کی شدت اور احساس کی تازگی کا یقین نہ ہوجائے”
ـہر ملک کے مسائل الگ ہیں اور اسی اعتبار سے ہر ملک میں حقیقت کی نوعیت بھی مختلف ہے۔جو ممالک جمہوری انقلاب سے نہیں گذرے ہیں وہاں حل حقیقت نہیں یو ٹوپیا ہےاور جب اس خیالی فردوس کو زمین پر لانے کی ترغیب دی جاتی ہے تو پھر ادب وعظہ وپند بن جاتا ہےیا خطابت ،ادب بہر صورت نہیں رہتا” 4؎
مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ جذبی ؔکا اختصاص باقی ترقی پسند شاعروں کے مقابلے میں کیا ہے۔جذبیؔ مارکسی فکر سے متاثر تھے اس میں کوئی شک نہیں وہ مارکسی فکر کا پرچار یا پھیلاو چاہتے تھے لیکن شعرو ادب کے بلیدان پر نہیں۔ شعرو ادب کے امتیازات، اس کے انسلاکات اور سب سے بڑھ کر اس کا فنی رتبہ جذبیؔ کے لیے نہایت محترم ہے ۔یہی وہ چیز ہے جو اسے فیض احمد فیض ؔ کے قریب کردیتی ہے۔خلیل الرحمان اعظمٰی لکھتے ہیں:
جذبیؔ جذبی ؔکے اس فنی روئیےنے ان کی شاعری میں بالعموم بے راہ روی یا انتشار پیدا ہونے نہیں دیا ۔ان کا کلام شروع سے آخر تک ایک ہموار شخصیت کے ذہنی ارتقا کا ترجمان ہے ” 5؎
جذبی ؔ سے متعلق دوچار حقائق بہ طور تمہید پیش کیے جاسکتے ہیں جن کا جاننا ہر سنجیدہ قاری کے لیے نہایت اہم ہے۔
1۔جذبی ؔکا زمانہ جنگ آزادی کے شباب کا زمانہ تھا۔
2۔ ان کا حلقہ وہی تھا جن سے فیضؔ،مخدومؔ،سردار جعفریؔ،جاں نثار اخترؔ، اور مجاز وغیرہ وابستہ تھے۔
3۔ جذبی نے بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ترقی پسند تحریک کے زیر اثر سیاسی اشعار لکھے ہیں۔
4۔ ان کے یہاں بھی دارورسن اور اُجڑے چمن کا برملا اظہار ہے۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ انہوں نے عملی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا۔جس طرح وہ ادبی ہنگاموں اور سمعرکہ آرائیوں سے دور رہے اسی طرح پروپگنڈا سے باز رہے۔
جذبی ؔ علی گڑھ سے برسوں وابستہ رہے۔علی گڑھ سے انھیں خاصا لگاو تھا لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنے ارد گرد ان مداحوں کا گروہ جمع نہیں ہونے دیا جو ان کی شاعرانہ عظمت کا ڈھول پیٹتا۔ وہ شروع سے ہی کم گو اور خلوت پسند انسان رہے ہیں۔ بقول آفاق عالم صدیقی:
دراصل وہ شروع سے ہی کم گو ،حلیم الطبع ، منکسرالمزاج ،اور گوشہ گیر قسم کے آدمی رہے ہیں ۔ان خصوصیات کی پرچھائیاں ان کی شاعری میں جابجا بکھری ہوئی ہیں
نمونہ کلام:
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں ،جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا ،اب دنیا دنیا کون کرے 6؎
جب کشتی صحیح وسالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی7؎
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دوچار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفان کا نظارہ کرتے ہیں
ابھی سموم نے مانی کہاں نسیم سے ہار
ابھی تو معرکہ ہائے چمن کچھ اور بھی ہیں
میری ہی نظر کی مستی سے سب شیشہ و ساغر رقصاں تھے
میری ہی نظر کی گرمی سے سب شیشہ و ساغر ٹوٹ گئے
جذبی ؔ کادور نظریاتی وابستگی کا دور تھا۔عموماً ترقی پسندشاعر اظہار مقصد کے لیے سب سے زیادہ توجہ نظم پر دے رہے تھے انہوں نے غزل کو توجہ کا مرکز بنایا جو کہ اس وقت ایک جدت سے کم نہ تھا۔ غزل کہنا اس زمانے میں غزل کہنے کی عیاشی کرنا سمجھا جاتا تھا۔ فیض ؔ،مجروح ؔ اورجذبی ؔ کے علاوہ بہت کم ایسے شاعر ہیں جنہوں نے مارکسی افکارو خیالات اور تحریکی مدعا کو اپنی غزل میں اس خوبی سے سمویا کہ غزل کا چہرہ بھی ہشاش بشاش رہا اور تنظیمی وتحریکی مقاصد سے کنارہ کشی کا الزام بھی نہ لگا ہو۔بہت کم ایسے شاعر تھے جو تحریکی مقاصد کے پیش نظر غزل غزل کے مقابلے میں نظم میں مقصدیت کے اظہار کی گنجائش زیادہ ہے لیکن جذبیؔ نے یہ ثابت کردیا کہ غزل کے ذریعے بھی مقصدی اظہار کے امکانات موجود ہیں حالانکہ ان کی نظم بھی کم پایہ کی نہیں ہے فطرت ایک مفلس کی نظر میں “کہ یہ شعر ضرب المثل کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
جب جیب میں پیسے بجتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے اس وقت یہ شبنم موتی ہے
یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہےکہ جذبی ؔ جتنے مخلص مارکسیت کے کارکن تھے اتنے ہی سچے شاعر بھی تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ دونوں کے بیچ اعتدال قائم کرنے میں کامیاب رہے۔وہ آگرہ کے ادبی ماحول میں پلے ۔میکش ؔوفانیؔ کے تلمیذمیں رہے ۔یہ اسی ماحول کی دین ہے کہ وہ شروع سے ہی کامیاب غزل کہنے پر قادر رہے۔یہاں پر بغیر ڈر اور باک کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترقی پسند شاعروں میں جذبی ؔ ایک ایسے شاعر کے بہ طور اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے کسی مخصوص نظریہ کے پرچار کے لیے شاعری کو بھینٹ نہیں چڑھایا۔وہ درد مند دل رکھتے تھے۔غریبوں کے کے لیے اس کا دل کلبلاتا تھا۔وہ کسی مظلوم کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ جابرانہ اور مظلومانہ حکومتوں کے خلاف ان کا احتجاج جاری رہا ۔تاہم یہ کام انہوں نے اس انداز سے کیا کہ مقصد بھی پورا ہوا اور کسی کو کان کان خبر بھی نہ ہوئی۔
ان بجلیوں کی چشمک باہم تو دیکھ لیں
جن بجلیوں سے اپنا نشیمن قریب ہے
وہ حرف جس سے منصور ودارکو نسبت
لب جنوں پہ مکرر نہیں تو کچھ بھی نہیں
کوئی تو قاتل نادید کا پتہ دے گا
ہم اپنا زخم زمانے کو لاو دکھلائیں
جذبیؔ کی اتھاہ فنکارانہ صلاحیتوں کے پیش نظر انھیں حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کی جانب سے مختلف اعزازات ملے جن میں قابل ذکر غالب ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ،ہریانہ اردو اکادمی ایوارڈ،اقبال سمان،کل ہند بہادرشاہ ظفر ایوارڈ اور سب سے بڑے ادبی ایوارڈپدم بھوشن سے بھی نوازاگیا۔
ماخذات:
۱۔ مقالہ حصہ اول ۔از آفاق عالم صدیقی ۔۔گوگل پلیٹ فارم
۲۔اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک۔۔۔ص: ۱۳
۳۔ اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک۔۔۔ص: ۱۳۱
۴۔ بہ حوالہ اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک ۔۔۔از خلیل الرحمان اعظمی
۵۔ آج کا اردو ادب ۔۔۔ص: ۱۳۷۔۳۸
٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.