اردو غزل میں عشق حقیقی کا تصور ( چند نمائندہ شعرا کے حوالے سے)
ڈاکٹر سعید احمد
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، عالیہ یونی ورسٹی، کولکتا
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن ہے۔ اسے اردو شاعری کی آبرو بھی کہا گیا ہے ، یہ حسن و جمال کی رنگینیوں،دل آویزیوں اور فکری بلندیوںکی وجہ سے اردوشاعری میں بہت بلند مقام رکھتی ہے -یہ اپنے مو ضوعات میں جس طرح کی وسعت اور گہرائی وگیرائی رکھتی ہے اس کی مثال کسی اور صنف میں نہیں ملتی-غزل کی ان ہی گو ناں گوں خصوصیات اور انفرادی خوبیوں کی بنا پر آل احمدسرور نے کہا تھا –
غزل میں ذات بھی ہے کائنات بھی ہے
ہما ری بات بھی ہے اور تمھاری بات بھی ہے
غزل کے مو ضوعات صرف گل وبلبل تک محدود نہیں ہیں اس کا دامن بہت وسیع ہے اس میں طرح طرح کے مو ضوعا ت کو جذب کر لینے کی صلا حیت ہے- اس کے مو ضو عات میں غضب کا تنوع پا یا جا تا ہے -اس کا ایک اہم مو ضوع عشق ہے –
عشق غزل کی گھٹی میں پڑا ہے ،لفظ غزل کے لغوی معنی ہی عورتوں کے حسن و جمال کی تعریف اور عشق و عاشقی کا ذکر کرنا ہے- لہذا غزل گو شعرا نے عشق کو بہت وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے اور نہ صرف عشق مجازی سے عشق حقیقی تک وسعت دی بلکہ اس کی تمام کیفیات کو سمیٹاہے اور ایسا اس لیے بھی ہے کہ عشق انسانی جذبات میں سب سے قوی جذبہ ہے ،اس کو انسانی زندگی کا محور تسلیم کیا جاتا ہے شاید اسی لئے ابتداسے ہی اردو شعرا اس کا اظہار کرتے آئے ہیں
اگر اردو شاعری کی ابتدا امیر خسرو سے مان لی جائے تو ان کے یہاںبھی عشق مجازی اور عشق حقیقی کا تصور پا یا جا تا ہے جو پیر و مرشدسے شروع ہو کر خدا تک پہنچتا ہے -امیر خسرو کے بعد اردو شاعری کی با قاعدہ ابتدا دکن سے ہو تی ہے اور اس ابتدائی عہدکے اکثر شعرا اپنی کلیات ،مثنویات اور دیگر تخلیقا ت کی ابتدا حمد ،نعت ، منقبت و مناجات وغیرہ سے کرتے ہیں اس سے بھی عشق حقیقی کا ایک تصور ابھرتا ہے –
دکنی غزل گو شعرا میں ولی اور سراج کا مر تبہ بہت بلند ہے ولی کے با رے میں کہا گیا ہے کہ ـــ ‘‘ولی ولی ہے سخن میں جہاں کے بیچ‘ ولی نے جس دور میں آنکھیں کھولیں یہ غزل کا دور تھا -گو کہ اس عہد میں دکنی شعرا دو سری اصناف میں طبع آزمائی کر رہے تھے مگر بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیتھے- اور غزل میںان کا خا ص موضوع عشق اور متعلقات عشق ہے عشق ولی کی رگ وپے میں اتر گیا تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عشق کی تمام کیفیات کو اس دل فریبی سے ادا کیا ہے کہ ان میں نئی تابانی آگئی ہے ولی نے عشق مجازی کے تمام پہلوئوں کو برتا ہے مگر ان کے تصور عشق میں پا کیزگی کا احساس ہوتا ہے وہ عشق مجازی کو عشق حقیقی کی پہلی منزل تصور کرتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ّہیں-
در وادی حقیقت جن نے قدم رکھا ہے
اول قدم ہے اس کا عشق مجاز کرنا
وادی عشق میں جب ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو تصوف کے تمام موضوعات اپنی غزلوں میں سمیٹ لیتے ہیں-ولی مجاز کے پر دے میں حقیقت کے راز ہائے سر بستہ کی عقدہ کشائی کرتے ہیں ان کے یہاں حقیقت ومجاز کہیں کہیں الگ الگ ہیں لیکن اکژ ایک دوسرے میں سموئے ہوے ہیں بقول سیدہ جعفر
’’ولی اور سراج کی شاعری میں بھی یہ پہچاننا مشکل ہے کہ محبوب کہاں خدا ہے، کہاں امرد اور کہاں عورت‘‘
ولی نے غزل کو حقیقی جذبات واحساسات، صداقت واصلیت ، سوزوگداز کا ترجمان بنایا اس دور میں اردو غزل میں تصوف کے خیالات عام تھے ولی با قا عدہ صوفی نہیں تھے مگر صوفیا کرام کی صحبت ا ٹھائی تھی لہذا ان کی شاعری میں عشق حقیقی کا در آنا ایک فطری امرہے۔چند اشعار دیکھئے:
موسیٰ جو آکے دیکھے تجھ نور کا تماشا
اس کو پہاڑ ہوئے پھر طور کا تماشا
عشق میں لازم ہے اول ذات کو فانی کرے
ہو فنا فی اللہ دائم ذات یزدانی کرے
خدا بندے میں آکر یوں نہاں ہے
کہ جوں بوگل کے دل کے درمیاں ہے
سراج اورنگ آبادی بھی صوفی شاعر تھے انہوں نے عشق الٰہی کے نظریہ کو اپنی شاعری میں برتا ہے اور خدا کے تئیں بندے کے معصومانہ وعاجزانہ جذبات واحساسات کی ترجمانی بے باکی سے کی ہے ؎
نظر کو دیکھ ہر شئے مظہر نور الٰہی ہے
سراج اب دیدۂ دل میں صمد دیکھا صنم بھولا
شراب معرفت پی کر جو کوئی مجذوب ہوتا ہے
درودیوار اس کوں مظہر محبوب ہوتا ہے
سراج کی پوری شاعری ان کی عملی زندگی سے عبارت ہے، سراج سراپا صوفی تھے اس لیے ان کا رہن سہن ، طرز رہائش ، بودباش، پہننا اوڑھنا سب کچھ صوفیانہ تھا انہوںنے اپنے واردات قلبی کو شاعری کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی غزلوں میں عشق حقیقی کا وہ واضح تصور نہیں ہے جو ان کی مناجاتوں میں ہے۔
اٹھارویں صدی عیسوی کا عہد سیاسی وسماجی اعتبار سے شکست وریخت کا عہد تھا،اس عہد اردو شاعری خصو صا صوفیانا
خیالات کو کافی فروغ حاصل ہوا -سوال یہ ہے کہ اس دور میں اردو غزل میں عشق حقیقی کا رجحان کیوں تیز ہوا۔ اس کے اسباب ومحرکات کیا تھے؟ اس تعلق سے کیا ہمارے شعرا نے بھی فارسی روایت کی پاسداری کی ہے، پروفیسر محمد حسن نے لکھا ہے کہ ؎
’’جب زندگی بے ثبات ہے ، انسان کا علم نہایت ناقص محدود اور غیر معتبر ہے اور انسان حالات کے ہاتھ میں کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ، تو پھر انسان کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا دنیا کی بے ثباتی سے دل برداشتہ ہوکر کنارہ کشی، گوشہ گیری اختیار کرے یا اپی کیورس اور خیام کے ساتھ صرف حسیاتی کیف ونشاط کو حاسل زیست سمجھ کر رندانہ زندگی گزارے۔ اور اس میزان میں نیک وبد کی تمیز بھی فرض اور قیاسی رہ جاتی ہے۔البتہ اعلیٰ ترین نیکی دوسروں کو گزند نہ پہنچے اور ظاہر وباطن یکساں ہوں اس طرح خیام کا فلسفہ جو بظاہر عرفاں عجم سے پیدا ہوتا ہے ، نشاط وکیف تک پہنچتا ہے ، غم ونشاط ، کرب وکیفیت سوز وسرخوشی کا یہ وہ آمیزہ ہے جس سے فارسی اور خصوصاً اردو شاعری کی پوری روایت کا تانا بانا بناگیا ہے ، اس رنگ میں تصوف کے انداز کا اضافہ ہوا۔‘‘
عہد میر میں صوفیانہ خیالات کا اضافہ سب سے زیادہ میر دردؔ کی شاعری میں نظر آیا ہے انہوں نے اپنے دور کی رنگینیوںاور کیف انگیززندگی سے بڑی حد تک اجتناب برتا۔ ان کی غزلون میں اضطراب ، تشنگی ، بے اطمینانی زیادہ پائی جاتی ہے، میر درد نے اپنی شاعری کو معرفت وحقیقت سے روشناس کرایا۔ ان کی غزلوں میں تصوف کے بنیادی تصورات جس طرح پائے جاتے ہیں اس عہد کے دوسرے شعرا کے یہاں نہیں پائے جاتے ہیں عشق حقیقی کے تعلق سے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
ہے جلوہ گاہ تیرا کیا غیب کیا شہادت
یاں بھی شہود تیرا واں بھی شہود تیرا
نہ ہم غافل ہی رہتے ہیں نہ کچھ آگاہ ہوتے ہیں
اپنی طرحوں میں بس ہر دم فنا فی اللہ ہوتے ہیں
خواجہ میر درد کی شاعری عشق حقیقی کی غماز ہے ان کے یہاں عشق مجازی کی چاشنی کم کم نظر آتی ہے اردو غزل مین ان کی معنویت کا راز ہی صوفیانہ خیالات ہیں اگر درد کی غزلوں میں صوفیانہ رنگ نہ پایا جاتا تو عہد میر کے شعرا میں ان کا کوئی خاص مقام نہ ہوتا۔ یہاںجمیل جالبی کے خیالات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے:
’’تصوف کے بنیادی تصورات اور صوفیانہ تجربے اردو شاعری میں اس طور پر ڈھل گئے ہیں کہ اس دور کے کسی شاعر کے یہاں صداقت، اظہار کی اس قوت کے ساتھ نہیں ملتے ۔ اگر درد کی شاعری میں یہ لہر نہ ہوتی تو وہ میر کی شاعری میں قطرہ بن کر غائب ہوجاتے۔‘‘
غزل کی روایت جو عرب سے شروع ہوکر ایران پہنچی میراس کے بہترین نمائندوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنے عہد کے تخلیقی زاویوں اور تخلیقی زبان واظہار کے ذریعہ اردو غزل کو نئے اسالیب سے روشناس کرایا۔اور ’خدائے سخن‘ کہلانے کے مستحق ہوئے میر تقی میر کے دیوان میں سیکڑوں اشعار ہیں جو عشق حقیقی کے ترجمان ہیں۔ میر نے اپنی غزلوں میں عشق کے رموز و نکات کے ذریعہ زندگی ،اوار انسان اور کائنات کے رشتوں کا سراغ لگایا ہے میر کے تصور کے تعلق سے اکثر ناقدین کی رائے یہ ہے کہ ان کے یہاں عشق ہی خالق ہے اور عشق ہی خلق ،عشق خلق کے ایجاد کا باعث ، جمیل جالبی یوں بیان کرتے ہیں:
’’میر کے تصور عشق کے اس بڑے دائرے میں عشق بتاں بھی بتدریج عشق حقیقی کے دائرے میں ملتا ہے اس سے انکشاف ذات کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور انسان میں صفات خداوندی پیدا ہوجاتی ہیں جس سے اعلیٰ اخلاقی اقدار رونماںہوتی ہیں۔‘‘
میر نے اپنی غزلوں میں لفظ ’دل‘ کا استعمال کثرت سے کیوں کیا ہے؟ میر ’’دل‘‘ کے لفظ کو بار بار استعمال کرکے کون سا مدعا پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کیا وہ دل سے عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا سفر کرتے ہیں یا لفظ ’’دل‘‘ سے ایک وجدانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں بقول محمود ہاشمی ’’میر کی شاعری میں لفظ ’’دل‘‘ ایک قوت ہے اور ان کی شاعری کی جمالیات کا محور بھی اور مرکز بھی ،اس تناظر میں چند اشعار دیکھیے:
ہمارا خاص مشرب عشق ا س میں
پیمبر دل ہے، قبلہ دل، خدا دل
آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
اک شعلہ برق خرمن صد کوہ طور تھا
میر کی غزلوں میں عشق حقیقی کے تصور نے ایک آفاقی وکائناتی رنگ پیداکردیا ہے تصوف کی روح عشق حقیقی ہی ہے اس تعلق سے چند اشعار دیکھیں ؎
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
میر اور آتش میں ایک طرح کی مماثلت ہے، میر نے تو مغلیہ سلطنت کے زوال کو دیکھ کر شدید غم کا اظہار کیا ہے اور آتش نے لکھنؤ کی مٹتی تہذیب کو ، اس سے ان کی شاعری پر گہرا اثر پڑا ۔ آتش کے تصور عشق میں حسن عشق کا مرکز ہے۔ اور ان کے یہاں حسن اور عشق ایک ساتھ ہوتے ہیں جیسے روح اور جسم ایک ساتھ ہوتے ہیں انہوں نے اپنی غزلوں میں معرفت ، جلال، وحدانیت، الوہیت کو نہایت ہی چابک دستی سے پیش کیا ہے، جس سے ان کی شاعری کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔وحدۃ الوجود کا ایک شعر ملاحظہ ہو ؎
نظر آتی ہیں ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے خدائی کا
آتش کی کی شاعری پڑھنے کے بعد قاری پر اس کا گہرا تاثر پیدا ہوتا ہے ان کے عشق حقیقی کے اشعار میں سلاست وسادگی کے ساتھ فکر کی بلندی پائی جاتی ہے ۔ آتش اپنی صوفیانہ شاعری میں فنا وبقا، ترک ومعرفت، توکل وغیرہ پر اظہار خیال بہت دھیمے لہجے میں کرتے ہیں۔ شعر دیکھیے ؎
فقیری جس نے کی گویا کہ اس نے بادشاہی کی
جسے ظل ہما کہتے ہیں درویشوں کا کمّل ہے
آتش کی صوفیانہ شاعری کی وسعت وانفرادیت کا اندازہ ان اشعار سے بھی لگایا جاسکتا ہے ؎
اس شش جہت میں خوب تیری جستجو کریں
کعبے میں چل کر سجدہ تجھے چار سو کریں
محشر کو بھی دیدار کا پردہ نہ کرے بار
عاشق کو اندیشہ فردا ہے تو یہ ہے
غالب کی غزلوں کی تفہیم مختلف النوع زاویوں سے کی گئی ہے۔ غالب کی صوفیانہ شاعری عام صوفی شعرا سے قدرے مختلف ہے۔ غالب تو’’ تصوف برائے شعر گفتن خوب است ‘‘کے قائل تھے غالب کے اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ غالب وحدۃ الوجود کے اعتقاد اور صوفی مشرب ہونے کے اعلان کے باوجود وہ تصوف کے تمام اصولوں پر کاربند نہیں تھے پھر بھی انہوں نے اپنی شاعری میں عشق الٰہی کے جذبات کو بحسن وخوبی پیش کیا ہے۔ عشق حقیقی کے تعلق سے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
تصوف میں ظاہر وباطن کے تعلق سے شعر دیکھیے ؎
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے یہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
’’لن ترانی‘‘ کے تعلق سے متعدد شعرا نے مختلف طرح کااظہار خیال کیا ہے یہاں بھی غالب کا اظہار بیان منفرد ہے۔ شعر ملاحظہ کیجیے ؎
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی
علاوہ بریں غالب کے سیکڑوں اشعار ہیں جن میں عشق حقیقی کا تصور واضح ہے عام خیال یہ تھا کہ غالب کے عہد کے بعد غزل اپنے سارے امکانات پوری کرچکی ہے اور اس میں اب مزید اضافے کی گنجائش نہیں ہے، حقیقت میں ایسا نہیں ہے نئی غزل کے پیش روؤں میں فانیؔ ، اصغرؔ ، حسرتؔ اور جگرؔ نے غزل کی روایت کو فروغ دیا اور اس دور کو اقبال کے عروج کا دور کہا جاتا ہے۔ ان شعرا میں عشق حقیقی کا واضح تصور اصغر گونڈوی کی شاعری میں سب سے زیادہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اصغر کا تصوف ان کی شخصیت اور ان کی ذاتی زندگی پر مبنی ہے۔ ان کے کلام پر صوفیانہ رنگ پوری طرح غالب ہے، اصغر کی شاعری قدیم وجدید کا سنگم بھی ہے ا ن کی غزلوں میں حکمت وفلسفہ کے مضامین بھی ہیں عشق حقیقی کے تعلق سے چند اشعار دیکھیے ؎
اٹھا رکھا ہے اس نے اپنے جلوہ کو قیامت پر
قیامت ہے وہ جلوہ اس کو کیا حاجت قیامت کی
یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرہ میں بیاباں ہے
ترک مدعا کردے، عین مدعا ہوجا
شان عہد پیدا کر ، مظہر خدا ہوجا
مختصر طور پریہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو غزل میں عشق حقیقی کا تصور واضح ہے ہمارے اکثر شعرا نے اپنی شاعری میں تصوف کے مضامین کو شامل کرکے کہیںکائنات کے ہر ذرہ کو خدا کا مظہر بناکر پیش کیا ہے اور کہیں عشق مجازی کو عشق حقیقی کا زینہ قرار دیا ہے۔ اردو غزل میں عشق حقیقی کے تصور کو پیش کرکے اردو شعرا نے غزل کو محدود دائرے سے نکال کر اس میں بڑی وسعت پیدا کی اس سے اردو غزل میں نئی فکر ،نئے موضوعات واسالیب کا یقینا اضافہ ہوا۔
حواشی
(۱) کامل قریشی ،اردو غزل،اردو اکادمی دہلی ۲۰۰۶ ، ص:۳۷
(۲) محمد حسن، دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی وفکری پس منظر (عہد میر تک)، اردو اکادمی دہلی ۲۰۰۳
(۳) جمیل جالبی ، تاریخ ادب اردو (جلد سوم) ، ایجوکیشنل بپلیشنگ ہاوس دہلی ۲۰۰۷
(۴) محمود ہاشمی، انبوہ زوالِ پرسنا، سورلائن آفسٹ پرنٹرس وجے نگر کالونی حیدرآباد
Dr sayeed Ahmad
Department of Urdu Aliah University
Park Circus Campus kolkata -14
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!