فکرِ فیضؔ کے درخشاں گوشے: تحقیقی مطالعہ

ڈاکٹر محمد عامر اقبال
صدر فیض چیئر،اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو،یونیورسٹی آف سیال کوٹ،سیال کوٹ،پاکستان

ABSTRACT:
In this article the personality and the thoughts of Faiz are reflected. Faiz was a vibrant organ of a progressive movement. He raised the slogan of suppressed class. The beautiful amalgamation of romance and truth is exposed in his poetry. His blue eyed (beloved) is his motherland that he is seemed to feel pain for. All these issues shed light on these grand issues . A few lines poured about the mentality of Faiz and Iqbal’s poetic similarity. The article is adorned with the citation of books and references.

KEYWORD:
Research Study of the brilliant thoughts of Faiz.

تلخیص:
اس مضمون میں فیضؔ کی شخصیت اور نظریات کی جھلک نمائیاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔آپ ترقی پسند تحریک کے سر گرم کارکن تھےاور انتہائی نرم لب و لہجہ کے مالک تھے۔آپ کی شاعری میں مستقبل کےامید افزا اشارے نظر آتے ہیں۔آپ کے یہاں شاعری میں محبت اور حقیقت کا حسین امتزاج پایا جاتاہے۔اس انفرادیت نے آپ کو رجحان ساز ،انقلابی اور متحرک شاعر بنا دیا۔آپ کی شاعری آپ کے ذاتی تجربے کا نچوڑ ہے۔فیضؔ نے جو طرزِ فغاں ایجاد کی تھی،معاشرے میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری۔آپ نے استحصال زدہ طبقے کی آواز بلند کی اور اس کے ذہن میں یہ احساس پیدا کیا کہ ترے لب آزاد ہیں،تجھے ظلم کے خلاف بولنا ہو گا۔فیضؔ نے سچ بولنے اور حق و صداقت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہونے کا سبق دیا۔اقبال اور فیضؔ کے ذہنی روابط اس بات کی دلیل ہیں کہ فیضؔ نے اقبال کی پیروی کرتے ہوئے اپنے شعر و سخن کو معتبر اور مستندبنایا۔سچ بولنے کی پاداش میں آپ کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑامگر کسی بھی موڑ پر آپ کے قدموں میں لغزش نظر نہ آئی۔یہ تحقیقی مضمون پاک و ہند کے ماہرین کی آراء اور کتب کے حوالہ جات سے مصدقہ حیثیت رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نارووال کے ایک گاؤں کالا قادر میں ” 13 فروری 1911ء“ میں فیض نے آنکھ کھولی۔(1) سیالکوٹ، گورنمنٹ کالج لاہوراورپھر اورینٹل کالج لاہور سے مختلف تعلیمی اسناد حاصل کیں۔ایم۔اے۔او کالج امرتسر میں انگریزی کے لیکچرار تعینات ہوئے۔ترقی پسند تحریک کے حامی رہے۔ماہرین کی رائے ہے :
” اقبال کے بعد ترقی پسند فکر فیضؔ کی شاعری میں پوری قوت سے ظہور پذیر ہوئی “ (2)
دوسری جنگِ عظیم کے دوران آپ فوج میں شامل ہوئے ۔فوج میں تعلقاتِ عامہ کے شعبے سے وابسطہ ہو کر کرنل کے عہدے تک پہنچے۔جو آنکھ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتی وہ دیدہ بینا نہیں بلکہ بازیچۂ اطفال ہے۔فیضؔ کا خیال تھا کہ یہ تو فلسفی اور حکیم کا کام ہے۔ادیب اور شاعر تو قطرے میں حسن دیکھتا ہے۔وہ قطرہ کسی دریا کا ہو یا کسی گلی کی بد رو کا۔ شاعر کی سخت کوشی کے حوالے سے فیضؔ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ :
” شاعر مشاہدہ نہیں بلکہ مجاہدہ کرتا ہے “ (3)
ان صفات کی بنا پر فیضؔ کو علامتی صوفی بھی کہا جاتا ہے۔آپ میں شاعری کا مادہ فطری تھا ۔آپ ٹھنڈے مزاج کے انتہائی صلح جو انسان تھے۔اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ :
” اگر فیضؔ صاحب حضور سرورِ کائنات ﷺ کے زمانے میں ہوتے تو ان کے چہیتے غلاموں میں سے ہوتے۔جب بھی کسی بد زبان ،تند خو اور بد اندیش یہودی دکاندار کی درازدستی کی خبر پہنچتی تو حضور ؐ ضرور فرماتے،آج فیض کو بھیجو،یہ بھی دھیما ہے۔صابر ہے،بردبار ہے،احتجاج نہیں کرتا،پتھر بھی کھا لیتا ہے،ہمارے مسلک پر عمل کرتا ہے “ (4)
حضور رسالت مآب ؐ کا تو مسلک ہی صبر اور برداشت ہے۔فیضؔ نے اپنی شاعری میں معاشرتی بے راہ روی اور سماجی عدم مساوات کے خلاف آواز اُٹھائی ،آپ دیکھتے تھے کہ ہر طرف تاریکی اور مایوسی کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔آپ کو کہیں سے امید اور روشنی کی کرن نظر نہ آتی تھی کہ جس سے ہمت ہی بندھ سکے۔وہ ان اندھیروں میں بھی سرگرمِ عمل رہے ۔آپ ظلمتِ شب کو نورِ سحر کرنے کے درپے رہے۔
انہیں امید تھی کہ ایک دن انسانیت کی سر بلندی اور عظمت کا سورج ضرور طلوع ہو گا۔آپ کی شاعری میں مستقبل کے امید افزا اشارے نظر آتے ہیں جس کے مطالعہ کے بعد زندگی سے محبت کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے اور اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ زندگی جد و جہد اور جبرِ مسلسل ہی کا نام ہے۔ جدید قومی اور ملی اردو شاعری کا آغازباقاعدہ طور پر مولانا الطاف حسین حالیؔ نے کیاپھر اقبال نے شاعری کے اس قصرِ زریں کو تابناک کیا اور بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ اقبال کے بعد ہر طرف سے قومی اور ملی شاعری کو پروان چڑھانے کی کوششیں جاری و ساری رہیں اور فیضؔ نے بھی اپنے حصے کی شمع جلانے کا فریضہ بہ خوبی انجام دیا۔اور اردو شاعری کو نئی ہئیت اور نئے موضوعات سے روشناس کروایا۔فیضؔ کی خواہش تھی کہ اردو شاعری کو زندگی کے موجودہ اور روز افزوں حقائق کے قریب لایا جائے۔دراصل یہ حالی ؔ اور اقبال جیسے عظیم پیشرؤں کا پرتو تھے۔ن۔م۔راشد کے بقول :
”فیضؔ حقیقت اور رومان کے سنگم پر کھڑا تھا “ (5)
فیض ؔ کے یہاں روایات،علامات،تشبیہات اور استعاروں کا استعمال روائتی نہیں ہے اور نہ ہی ان کا استعمال محض تسکینِ اظہار کے لیے کیا ہے بلکہ ان کا طریقہ یہ رہا ہے کہ پہلے وہ اپنا ذاتی تجربہ بروئے کار لاتے تھے اور پھر پڑھنے والے کے دل میں ایک خاص قسم کا درد پیدا کرتے تھے۔اس طرح ذاتی تجربے اور مجموعی تجربے میں ہم آہنگی پیدا ہو جاتی تھی۔اور پھرعاشق کی تنہا مصیبت پوری انسانیت کی مصیبت بن کر اجاگر ہو جاتی۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ :
” فیضؔ کی شاعری ایک طرح سے مقصدی شاعری کے موضوعات لیے ہوئے ہے۔لیکن وہ اپنی شاعری کو محض کارآمد بننے نہیں دیتا۔وہ انسانی جذبات اور احساسات کی سچی تصویر ہے۔احساسِ حسن،انسانیت کا درد اور اپنے عصر کا شعور ان کی نظموں میں کائناتی حسن بن کر اجاگر ہوتا ہے “ (6)
شاعر کا تعلق خواہ کسی بھی عہد سے ہو اور کسی بھی زمانے سے ہو وہ رنگ،نسل اور جغرافیائی حد بندیوں سے بالا تر ہوتا ہے۔اس میں تعصب کی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔فیضؔ ان تمام صفات سے متصف تھے۔آپ نے ہر دور میں ظالموں اور جابروں کا راستہ روکنے کے لیے لوگوں کو بیدار کیا ۔پھر ایک ایسا زمانہ بھی نظر سے گزرتا ہے کہ زبان تو لوگوں کی ہوتی تھی مگر الفاظ فیضؔ صاحب کے ہوتے تھے۔یہ شاعر کی پُر خلوص کاوشوں کا ثمر ہوتا ہے۔متاعِ لوح و قلم چھن جانے کا غم فیضؔ صاحب کو کبھی نہ ہوابلکہ وہ تو خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر بھی اصل اور سچ بات لکھنے کا ہنر جانتے تھے۔ہاتھ قلم بھی ہوئے مگر پھر بھی جنوں کی حکایتِ خوں چکاں شد و مد سے لکھتے رہے۔نفس کبھی خارِ گلو بنا تو کبھی اُٹھے ہوئے ہاتھ لہو ہوئے،نشاطِ آہِ سحر کا جاتے رہنا اور دستِ دعا کا وقار گنوا دینا،یہ سب ظلم اور بربریت کے حکمرانی تحائف ہیں۔
فیضؔ نے محبت اور حقیقت میں حسین امتزاج پیدا کیا اور عوام کو ہم نوا بنا لیا۔پھر اس خوبصورت انداز سے نصیحت بھی کی کہ ابھی بادبان کو تہہ ہی رہنے دو کیونکہ ابھی ہوا مضطرب ہے۔سکون کی وہ دولت جو ہم سے چھن چکی ہے وہ ضرور دوبارہ ملے گی۔فیضؔ نے ہمیشہ لوح و قلم کی پرورش کی،دل پر گزرنے والی ہر بات کو رقم کیا۔کبھی طرزِ تغافل نہ برتا بلکہ عرضِ تمنا سے اپنی سوچ،نظریات،خیالات،احساسات اور جذبات کا اظہار جاری رکھا۔کسی جگہ تھک کر کھڑے ہونا یا کسی مقام پر رکنا،فیضؔ کو اچھا نہ لگتا تھا۔محبوب کی گلی سے نکل کر سوئے دار جانا،فیضؔ صاحب کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
فیضؔ عوام سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ سچ کہنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔بات بھی یہی ہے جب تک سچ کہنے کا حوصلہ نہ ہو،انسان اپنی زبان پر اپنا مدعا تو کیا لائے،کسی پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کر سکتا۔فیضؔ کی خواہش یہی تھی کہ لوگ اپنا مقصد اپنی زبان پر ضرور لائیں۔ظالم اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کی جو مثال حضرت امام حسین ؓ نے قائم کی تھی،ہمیں اگر اس نواسۂ رسول ؓسے محبت ہوتی تو ہم بھی اس کی تقلید کرتے۔آج مصلحت کے نام پر حضرت امام حسین ؓ کی قربانی کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔لوگ زبان سے سچی اور کھری بات کہنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں گدیوں سے زبانیں نہ کھینچ لی جائیں۔ایسا ہرگز نہیں ہے۔عوام نے اپنے خود ساختہ مقاصد کے پیشِ نظر ،قومی اور ملی مقاصد کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔بس اپنا پیٹ بھرنے،اپنا تن ڈھانپنے اور اپنا سر چھپانے کے لیے لوگ ہر قسم کے ظلم و ستم پر صبر کا گھونٹ پی جاتے ہیں۔مگر آواز نہیں اُٹھاتے۔ہر شخص کو خدا نے زبان کی نعمت سے نوازا ہے۔اُسے قوتِ گویائی عطا کی ہے۔اس زبان سے خدا کا شکر ادا کرنے کا فریضہ انجام دیا جائے۔ظلم اور جبر کی آندھیوں کا راستہ روکا جائے۔تاکہ لوگ سکون کا سانس لے سکیں۔
یہ جان خدا کا عطا کردہ تحفہ بھی ہے مگر ہم نے اس کا حق ادا نہ کیا۔فیضؔ صاحب نے کہا کہ تجھے اپنی جان پر پورا اختیار حاصل ہے۔ہر شخص کو آزادی حاصل ہے۔وہ پابند نہیں ہے کہ کسی حکمران کے ظالمانہ احکامات کا تابع ہو کر اپنے نظریات اور خیالات تبدیل کر لے۔خیال رہے کہ کلمہ،نماز،روزہ،حج اور زکوٰۃ جیسے معاملات میں تو کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی۔کوئی بھی شخص نہ تو انہیں بدلنے کا مجاز ہے اور نہ ہی کوئی اپنی مرضی سے ڈنڈے کے زور پر انہیں لاگو کر سکتا ہے۔یہاں فیضؔ نے کچھ سیاسی اور معاشرتی معاملات کے حوالے سے بات کی ہے۔کسی بھی شخص کو پابند اور مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی دوسرے کے نظریات میں دخل اندازی کرے۔فیضؔ محبوب کے نرم و نازک جسم کی تعریف بھی کر دیتے اور واضح بھی کر دیتے کہ ہر شخص خود اپنے نظریات اور خیاالات کا ذمہ دار ہے۔اور وہ جیسی زندگی چاہے بسر کرے ،اسے پابندِ سلاسل نہیں کیا جا سکتا۔وہ جس بھی نظریے کا حامی،مددگار اور معاون ہو،کوئی اس کاراستہ نہیں روک سکتا۔بس اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اسلامی معاشرے کے ارکان ہیں۔ہمیں بہر حال اسلامی،اخلاقی اور معاشرتی پابندیوں کا خیال ضرور رکھنا ہو گا۔ان معاشرتی پابندیوں سے ہمسایہ بھی محفوظ رہے گا اور پوری گلی،محلہ،شہر اور ملک امن کا گہوارہ ثابت ہو گا۔
فیضؔ کہتے ہیں کہ لوہار کی دکان میں دیکھو،شعلے تیزی سے بھڑکتے نظر آتےہیں اور لوہا بھی شعلوں کی آگ سے سرخ ہو جاتا ہے۔فیضؔ کے یہاں آہن گر،شعلے اور آہن انتہائی خوبصورت استعارے ہیں۔فیضؔ نے کبھی بادباں کو تہ کیے رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے تندئی حالات سے دامن بچانے کی نصیحت پزیری کا کام لیا ہے۔لوہار پہلے لوہے کو اچھی طرح آگ سے گرم کرتا ہے اور پھر اپنی مرضی سے جس طرف چاہتا ہے لوہے کو اسی طرف موڑ لیتا ہے۔فیضؔ نے بھی یہ پیغام دیا تھا کہ اب حالات انتہائی مناسب ہو چکے ہیں ۔
لوگ اب بات سننے اور آواز بلند کرنے کے لیے تیار ہیں۔اب لوگوں کا رخ جس طرف چاہیں موڑ سکتے ہیں۔ اس وقت عوام کو اپنا حامی بھی کیا جا سکتا ہے۔فیضؔ کی شاعری میں آہن گر دراصل ظالم و جابر حکمران کا استعارہ ہے۔شعلے دراصل عوامی جذبات کا استعارہ ہیں اور آہن دراصل جیل کی سلاخوں کا استعارہ ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے۔ظلم کی رات کو مہلت نہیں دینی چاہیے۔ظالموں کا راستہ روکنے کے لیے قلم اور زبان کو مسلسل متحرک رہنا چاہیے۔آخر وہ وقت ضرور آتا ہے کہ جب ظالموں کے لگائے ہوئے تالے کھل جاتے ہیں۔ہر زنجیر کا دامن وسیع ہو جاتا ہے۔اور اس کی قید سے مظلوم چھٹکارہ حاصل کرتا ہے۔دراصل فیضؔ کا دعویٰ تھا کہ اس نے جو طرزِ فغاں قفس میں ایجاد کی تھی لوگوں کی نا اہلی سے وہی گلشن میں طرزِ بیاں ٹھہری ہے۔اس لیے لوگوں کو بیدار کرنا اور آواز بلند کرنا ضروری تھا ورنہ فیضؔ کے خیال میں ظلم و ستم کی جو داستانیں رقم ہوتیں،شاید ان سے چنگیز خان کی روح بھی تڑپ اُٹھتی۔فیضؔ نے کہا کہ اس کی مسلسل کاوشوں سے ظلم و بربریت کا راستہ روک لیا گیا ہے۔اب عوام پر سختی سے کوئی بھی فیصلہ مسلط نہیں کیا جا سکتا۔
فیضؔ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تجھے پابندِ سلاسل کر دیا جائے،تری زبان پر تالے ڈال دیے جائیں،بادِ صبا کا مزاج اصل نہ رہے،ابرِ بہار کی روش ہی بدل جائے،تو بہتر یہ ہے کہ اظہارِ خیال میں غفلت سے کام نہ لو۔جو بات تمہارے دل میں ہے اسے اپنی زبان پر ضرور لے آؤ۔دل کی خواہشیں اگر دل میں ہی دم توڑ جائیں تو انسان نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے۔جس کا کوئی سراپا نہیں ہوتا۔اس لیے فیضؔ مظلوم لوگوں کی حمایت کرتے ہیں۔اور ان میں اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ سچ بولنے پر تمہاری آنکھ کے بینا ہونے اور روح کے جاگنے کی صلاحیت چھین لی جائے،تمہیں مقتل کو اپنے لہو سے سرخ کرنا ہو گا،سچ کی گواہی دو،سچ کا ساتھ دو۔
فیضؔ کا دعویٰ تھا کہ قتل گاہوں سے جتنے بھی علَم چن لیے جائیں،عشاق کے قافلے نکلتے ہی رہتے ہیں۔
سچ بولنے پر جتنے بھی پہرے بٹھا دیے جائیں مگر پر نہ ہونے کے باوجود سچ میں طاقتِ پرواز ہوتی ہے۔سچ بولنے والے ،سچائی کی آواز اُٹھانے والے اور سچ بولنے والوں کا ساتھ دینے والے لوگ ابھی دنیا میں موجود ہیں۔
اس لیے تمہیں بھی سچ بولنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔آج وقت تمہارے ساتھ نہیں ہے تو کل وقت کا پہیہ گھوم بھی سکتا ہے۔ممکن ہے کہ پھر حالات قابو میں بھی آ جائیں یا پھر حالات اس سے بھی بد تر ہو جائیں۔
فیضؔ نے اپنی شاعری میں اپنا مقصد بیان کرنے کی تلقین کی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اپنی خواہشات اور اپنے مقاصد اپنے ذہن اور اپنے دل ہی میں رکھے اور اظہار کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے گھٹ گھٹ کر مر ہی جائے۔فیضؔ نے کہا کہ تم نے اپنی زبان ہی سے بولنا ہے تو پھر بولو۔ہونٹ تمہارے اپنے،زبان تمہاری اپنی۔پھر تم سچ بولنے اور سیدھی بات کہنے سے کیوں ڈرتے ہو۔
فیضؔ نے یہ موقف اختیار کیا کہ حالات موافق ہیں۔اس لیے ان مناسب حالات سے فائدہ حاصل کرنا عقل مندی ہے۔قید خانوں کے تالے کھلنے لگے ہیں۔زنجیریں نرم ہو رہی ہیں۔خود کو زنجیر سے آزاد کرو۔ اور قید خانوں سے باہر نکل آؤ۔مراد یہ ہے کہ پہلے سچ کہنے پر پابندی تھی۔کوئی اپنی مرضی کے مطابق نہ کچھ لکھ سکتا تھا اور نہ ہی کچھ کہہ سکتا تھا۔اب حالات بدل چکے ہیں۔اب تیار ہو جاؤ اور ظالم و جابر حکمرانوںکی سیاہ کاریوں پر سے پردہ اٹھا دو۔یہ رعایت بہت کم وقت کے لیے ملی ہے۔حالات کے بدلتے دیر نہیں لگتی۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تحریر پر بھی پابندی عاید کر دی جائے۔اپنی بات جلد از جلد لوگوں تک پہنچا دو۔
فیضؔ کا پیغام واضح ہے کہ حق اور سچ کی ہی جیت ہوا کرتی ہے مگر اس کے لیے وقت پر اقدامات کرنا ضروری ہیں۔سچ کسی بھی ماحول میں اور کسی بھی دور میں دب کر یا چھپ کر نہیں رہتا۔سچ اپنا راستہ خود ہی بنا لیتا ہے،
سچ کہنے والے ہمیشہ دلیر ہوتے ہیں۔جو بہادر شیر بن کو ہمیشہ معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کر نے کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں۔
اقبال کوفیض ؔ کا پیش رو بھی کہا جاسکتا ہے۔مگر فیض نے اقبال کی تقلید صرف برائے شعر گفتن نہ کی بلکہ کئی اشعار ایسے بھی سامنے آتے ہیں جن کی توسیع اپنے عہد کے تناظر میں کر کے اقبال کے ساتھ اپنے تعلق کا عملی اظہار بھی کیا ہے۔اقبال کی نظم ” تصویرِدرد “کا ایک شعر دیکھیے :
؂ یہ خاموشی کہاں تک ؟ لذّت ِ فریاد پیدا کر
زمیں پر تو ہو اور تری صدا ہو آسمانوں میں (7)
اب فیض ؔ کا ایک شعر دیکھیے:
ہاں کج کرو کلاہ کہ سب کچھ لُٹا کے ہم
اب بے نیازِ گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں (8)

ان اشعار میں طرزِ فکر اور اظہاری صورت یکساں دکھائی دیتی ہے۔گو زمانے کا فرق ہے مگر حالات کی ہلکی سی جھلک نگاہوں کے سامنے ضرور آ جاتی ہے۔اقبال کا شعر نظم ”تصویرِ درد “ سے ہے جو آزادی سے پہلے کی نظم ہے اور فیضؔ کا شعر نظم ” اگست 1952ء“ سے ہے جو آزادی کے بعد کی نظم ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ :
” فیضؔ نے اقبال سے بہت کچھ اکتساب کیا “ (9)
اقبال اور فیضؔ کے مابین جو ذہنی مطابقت دکھائی دیتی ہے وہ ایک بڑے فکری دائرے کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے ہے۔فیضؔ کی ابتدائی شاعری میں پیار اور محبت کا روایتی رنگ نظر سے گزرتا ہے۔مگر برِ صغیر کی تقسیم کے بعد کی شاعری میں بہت کچھ تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔یہاں پیار اور محبت کا رنگ مختلف ہے۔اقبال کا عشق ملتِ اسلامیہ کا درد لیے ہوئے تھا۔فیضؔ نے اپنے درد کو ملتِ اسلامیہ کی حدود سے بھی آگے کر دیا۔فیضؔ کا عشق اور اس کے عشق کا درد عالمِ انسانیت کی حدود کو چھو گیا۔عصری سیاسی شعور نے
فیضؔ کی شاعری کا رنگ بھی بدل دیامگر اقبال اور فیضؔ کی شاعری میں محبت کرنے والا دل ہے جو ابنائے وطن کی تمناؤں پر ملول دکھائی دیتا ہے۔دونوں کا دکھ غمِ جاناں سے نکل کر غمِ دوراں میں بدل جاتا ہے۔اس طرح اقبال اور فیضؔ دو ایسے شاعر کہلاتے ہیں جن کی آواز برِصغیر کی جغرافیائی حدود کو پار کر ئی تھی۔اس طرح انسانیت پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی پکار پوری دنیا میں سنائی دی جانے لگی۔
فیضؔ نے کسی ایک ملک،خطہ یا قوم کا دکھ اجاگر نہیں کیا بلکہ سب کے مسائل ،درد،دکھ،خوشی،غم اور فکر کو اجاگر کیاہے۔دونوں کی فکر تو مختلف تھی مگر اقبال اور فیضؔ کی شاعری میں پوری دنیا کے انسانوں کےدھڑ کتے ہوئے دل کی پکار،تڑپ اور دھڑکن سنی جا سکتی ہے۔روایات میں آتا ہے کہ :
”اقبال نے اسلامی فکر کو اپنا نقطۂ نظر قرار دیا اور فیضؔ نے اپنے افکار کی بنیاد مارکسزم پر رکھی “ (10)
اقبال اور فیضؔ کا پیغام تو پوری انسانیت کے لیے تھا۔بہت سے مفکرین نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے اسلام اور مارکسزم میں یکسانیت کا پرچار کیا ہے مگر یہ بات عیاں ہے کہ کسی بھی قسم کا تعصب دونوں میں نہیں ہے۔ اقبال اور فیضؔ دونوں کی عظمت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ ان کے ہاں کسی بھی قسم کا تعصب اور تنگ نظری کسی بھی حیثیت میں اور کسی بھی رنگ میں راہ نہ پا سکی۔اس لیے دونوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ :
” دونوں میں اعتدال اور توازن ملتا ہے “ (11)
ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر فیضؔ نے مارکسزم کو پسند ضرور کیا مگر انتہا پسند اور جارحانہ سیاسی رجحانات کی ہمیشہ نفی کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ فیضؔ کی شاعری میں دھیما پن ہے اور یہ انداز زندگی کو تپش بھی عطا کرتا ہے۔یہی انداز انسان کو عملِ پیہم کی راہوں پر گامزن بھی کرتا ہے۔الیگزنڈرسرکوف نے فیضؔ کی سیرت کے اس پہلو سے بہت متاثر ہو کر لکھا تھا کہ:
” فیضؔ ضبط و تحمل اور اعتماد،اذیت کوشی اور موت سے نبرد آزمائی کی بدولت پیدا ہوا ہے۔ایک ایسی موت جو جد و جہد کے لیے خود کو وقف کر دینے والوں کے لیے ناگزیر ہوتی ہے “ (12)
فیضؔ کے لیے اس کا محبوب اس کا وطن تھا۔نظم ” آخری خط “ میں اپنے محبوب ،اپنے وطن کے لیے کہتے ہیں :
وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے
جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن جائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں
چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی(13)
اپنی نظم ” میرے ہم دم میرے دوست “ میں اپنے محبوب ،اپنے وطن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
گر مرا حرفِ تسلّی وہ دوا ہو جس سے
جی اُٹھے پھر ترا اُجڑا ہُوا بے نُور دماغ
تیری پیشانی سے دُھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شِفا ہو جائے
گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہم دم،مرے دوست
روز و شب، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں
میں تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے، شیریں (14)
اپنی نظم ” ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے “ میں اپنے محبوب ، اپنے وطن کو یاد کرتے ہوئے فیضؔ نے کہا:
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی

قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عُشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے(15)
یہ سب وطن کے ترانے ہی تو ہیں جو حب الوطنی کے جذبے سے سر شار ہو کر پڑھے جاتے ہیں۔فیضؔ کو وطن سے محبت ایسے ہی بے چین رکھتی تھی جیسے محبوب کی الفت بے قرار رکھتی ہو۔وہ وطن سے جدائی کا کرب سہتے ہیں اور اپنے اشعار میں اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔وطن کی سر بلندی کی فکر انہیں بے تاب کیے رکھتی ہے۔کہتے ہیں:
اس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید
اس کنج سے پھوٹے گی کرن رنگِ حنا کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں(16)
فیضؔ نے وطن کے ترانے پڑھے،وطن کو یاد کیا اور آنے والی نسلوں کے لیے وطن سے محبت کا نیا اور اچھوتا انداز چھوڑ گئے۔آپ نے وطن سے محبت کا یہ انداز لازوال کر دیا اور ثابت کر دیا کہ وطن سے محبت یوں بھی کی جا تی ہے بلکہ یوں ہی کی جاتی ہے۔
ہر صبح گلستاں ہے ترا روئے بہاراں
ہر پھول تری یاد کا نقشِ کفِ پا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
ہر حرفِ تمنا ترے قدموں کی صدا ہے (17)
سامراجی تسلط سے نجات ملی ،ملک آزاد ہوا مگر تقسیم کا دکھ عمربھر ہمراہ تھا۔سیاسی بساط نے پلٹا کھایا ۔حکام کے تیور بدلے،حکومتیں بدلیں اور اربابِ حل و عقد بھی بدل گئے۔معاشرہ اور سماج ہر آنے والے دور میں نئی الجھنوں کا شکار ہوتا گیا۔آزادی کے ساتھ وابستہ امیدوں کا شیرازہ بکھر گیا۔خواب چکنا چور ہو گئے۔
یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں ، جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل (18)
فیضؔ کے افکار پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں ان کی شاعری سے کئی ایسے اشارے ملیں گے جو ہماری تو جہ اپنی طرف کھینچ کر یہ سوچنے پر مجبور کر دیں گے کہ جس سماج اور معاشرے کی تشکیل کے لیے طویل جد و جہد کا آغاز کیا تھا اس کی منزلِ مقصود نہ مل سکی۔سیاسی اقتدار میں تو تبدیلی آ گئی مگر ذہنی و فکر ی انقلاب برپا نہ ہو سکا۔آزادی کا سورج طلوع ہوا مگر اذہان پر مایوسی کے سائے اور بھی زیادہ گہرے ہو گئے۔تہذیبی اور معاشرتی استحصال جاری رہا چاہے اس کی شکل بدل گئی۔اگست 1953ء میں فیضؔ نے کہا :
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں (19)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فیضؔ کا لہجہ اور بھی گرج دار ہوتا گیا۔انداز چاہے دعایا ہو پھر بھی شدت اور دعا نے مل کر ایک کسک سی پیدا کر دی،کہتے ہیں:
آئیے ہاتھ اٹھا ئیں ، ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی بت،کوئی خدا یاد نہیں

آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِ امروز میں شیرینئی فردا بھر دے
وہ جنہیں تابِ گراں باریِ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر ددے (20)
فیضؔ کی شاعری اور لہجے میں جو اعتدال تھا وہ ہر دور میں قائم رہا۔فیضؔ نے میرؔ،غالبؔ اور نظیر اکبر آبادی کے نظریات،خیالات،افکار،فلسفہ،تشبیہات اور استعارات کو یک جا کر دیا۔ اس طرح غمِ جاناں ہی غمِ دوراں بن کر اجاگر ہو گیا۔فیضؔ کی شاعری کے اجزائے ترکیبی ” کوئے یار “ اور ” سوئے دار “ نے معاشرے کو للکارا۔
فیضؔ کے اشعار نے زندگی کو بہادری اور دل کو خوئے دل نوازی سے روشناس کرایا۔یہ جاہ و جلال،رتبہ،شہرت اور دل پزیری جیتے جی زندگی میں ہی فیضؔ کے سوا کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ہر نسل ،ہر معاشرہ اور ہر زمانہ اپنے اپنے دانشوروں کا احتساب کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تم نے اگلی نسل کو،معاشرے کو اور زمانے کو کیا تحفہ دیا؟ نظامِ فکر کی ترویج اور تبلیغ کے لیے کیا ورثہ چھوڑا ہے؟ اس کا جواب
احمد ندیم قاسمی نے کچھ اس طرح دیا ہے:
” فیضؔ جتنا بھی سرمایہ نئی نسلوں کے سپرد کر گیا ہے وہ اتنا گراں بہا ہے کہ آئندہ صدیوں تک فیضؔ کے فن کی نوع بہ نوع توجیہات ہوتی رہیں گی اور پڑھنے والے اس کے کلام کے مطالعہ سے کچھ زیادہ منصف مزاج اور باطن کے لحاظ سے کچھ زیادہ خوبصورت ہوں گے “ (21)
فیضؔ معاشرے کے استحصال زدہ طبقے سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ تمہارے ہونٹ اور تمہاری زبان اپنی ہے۔اس لیے تم بول سکتے ہو۔تمہیں بولنا چاہیے۔ جو کہنا چاہتے ہو ، کہو۔آج حالات موافق ہیں۔آسانی سے ظالموں کا قافیہ تنگ کیا جا سکتا ہے۔اگر نہ بولے تو پھر تمہارا قافیہ تنگ کر دیا جائے گا اور حاشیہ بند کر دیا جائے گا۔ابھی سچ کی افادیت قائم و دائم ہے۔کہیں یہ وقت بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔اس لیے اپنے حقوق کی خاطر اپنی آواز بلند کرو تاکہ تمہیں دیکھ کر دوسرے بھی اپنی آواز بلند کریں اور یہ بہت سی آوازیں مل کر باقاعدہ ایک انقلاب کا باعث بن جائیں۔فیضؔ کے اشعار پڑھتے جائیں تو ماحول پر ایک رجز کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔اور ظالم و جابر طبقہ خود ہی تھر تھر کانپنا شروع کر دیتا ہے۔
فیضؔ اردو اور انگریزی اخبارات کے ایڈیٹر بھی رہے۔کئی ہفت روزہ مجلہ جات سے بھی وابستہ رہے۔اور اپنی حق گوئی و بے باکی سے ظالم و جابر ،بر سرِ اقتدار و اختیار لوگوں کی نیندیں حرام بھی کرتے رہے۔
1951ء میں ” راولپنڈی سازش کیس “ میں حکومتِ وقت کا تختہ اُلٹنے کے الزام میں گرفتار بھی ہوئے اور چار سال تک پابندِ سلاسل رہ کر بھی آپ کے عزم و استقلال میں کمی نہ آئی۔
نقشِ فریادی،دستِ صبا،انداں نامہ،دستِ تہِ سنگ،سرِ وادی سینا،شامِ شہرِیاراں اور میرے دل میرے مسافر ان کی شاعرانہ تصانیف ہیں ۔ان تصانیف کی بے ساختگی،ترنم،نمنائیت،شستگی اور سچائی کو ” نسخہ ہائے وفا “ کا نام دے کر یک جا کر دیا گیا ہے۔فیضؔ کے تنقیدی مضامین ” میزان “ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔روس والوں نے ” لینن ایوارڈ “ دے کر فیضؔ کا اقبال بلند کیا ہے۔
20 نومبر 1984ء بروز منگل دن کے ایک بج کر پندرہ منٹ پر میو ہسپتال لاہور کے ایسٹ میڈیکل وارڈمیں فیضؔ اس جہاں سے رخصت ہو گئے۔
حوالہ جات
تقی عابدی،سید،ڈاکٹڑ،فیض فہمی،مضمون،فیضؔ کا زندگی نامہ (لاہور۔ملٹی میڈیا افئیرز) اشاعت اول، صفحہ 15 (1)
(2)شفیق اشرفی،مضمون،اقبال اور فیض،مشمولہ،مجلسِ اقبال حصہ نہم (انڈیا۔مدھیہ پردیش،بھوپال،کل ہند علامہ اقبال ادبی مرکز) مارچ 2002ء،صفحہ 90
(3)فیض احمد فیضؔ،نسخہ ہائے وفا،دستِ صبا،ابتدائیہ (لاہور۔مکتبہ کارواں)س ن صفحہ 103
(4)اشفاق احمد،علامتی صوفی،مشمولہ،نسخہ ہائے وفا،فیض احمد فیضؔ،شامِ شہرِ یاراں ،صفحہ 495
(5)ناصر کاظمی،خشک چشمے کے کنارے(لاہور۔مکتبۂ خیال)دوسری بار اپریل 1986ء صفحہ 153
(6)ایضاً
(7)اقبال،کلیاتِ اقبال اردو،بانگِ درا (لاہور۔اقبال اکادمی پاکستان) اشاعت ششم 2004ء صفحہ 100
(8)فیض احمد فیضؔ،نسخہ ہائے وفا،دستِ صبا،صفحہ 160
2004ء صفحہ150 محمد علی صدیقی،ڈاکٹر،تلاشِ اقبال،اقبال اور فیض،حسن و بصیرت کے داعی(دہلی۔کتابی دنیا) (9)
(10)خاور ہاشمی،مضمون،شیشوں کا مسیحا،مشمولہ،لوح و قلم(دہلی۔وقار اسلامک پبلیکیشنز اردو بازار)1990ء صفحہ 66
(11)ایضاً
(12)ایضاً صفحہ 70
(13)فیض احمد فیضؔ،نسخہ ہائے وفا،نقشِ فریادی،صفحہ 26
(14) فیض احمد فیضؔ،نسخہ ہائے وفا،دستِ صبا،صفحہ 113
(15) فیض احمد فیضؔ،نسخہ ہائے وفا،زنداں نامہ،صفحہ 262
(16) فیض احمد فیضؔ،نسخہ ہائے وفا،دستِ صبا،دو عشق،صفحہ 144
(17) فیض احمد فیضؔ،نسخہ ہائے وفا،دستِ تہِ سنگ،دستِ تہِ سنگ آمدہ،صفحہ 312
(18) فیض احمد فیضؔ،نسخہ ہائے وفا،دستِ صبا،صبحِ آزادی47ء،صفحہ 116
(19) فیض احمد فیضؔ،نسخہ ہائے وفا،دستِ صبا،اگست 1952ء،صفحہ 159
(20) فیض احمد فیضؔ،نسخہ ہائے وفا،سرِ وادئ ِسینا،صفحہ423
(21)خاور ہاشمی،مضمون،شیشوں کا مسیحا،مشمولہ،لوح و قلم،صفحہ 78
Dr. Muhammad Amir Iqbal
Assistant Professor
Department Of Urdu,University Of Sialkot,Sialkot, Punjab, Pakistan
00923366584487
****

Leave a Reply

1 Comment on "فکرِ فیضؔ کے درخشاں گوشے: تحقیقی مطالعہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Muhammad Shahid
Guest
لاجواب۔ بہت عمدہ۔
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.